Tag: IHC

  • ایس ای سی پی ڈیٹا لیک کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گیا

    ایس ای سی پی ڈیٹا لیک کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گیا

    اسلام آباد : ایس ای سی پی ڈیٹا لیک کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گیا، ایڈیشنل ڈائریکٹر ایس ای سی پی محمد ارسلان ظفر نے ڈیٹا لیک کی تحقیقات کیلئے قائم تحقیقاتی کمیٹی کو کالعدم قرار دینےکی استدعا کردی۔

    تفصیلات کے مطابق ایس ای سی پی ڈیٹا لیک کی تحقیقات کیلئے قائم تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا،
    ایڈیشنل ڈائریکٹر ایس ای سی پی محمد ارسلان ظفر نے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔

    درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ 9 ستمبر کو جبری رخصت پر بھیجا گیا اور لیپ ٹاپ قبضے میں لے لیا گیا، 14 ستمبر کو ڈیٹا لیک پر تحقیقات کے حوالے سے تفصیلی جواب تحقیقاتی کمیٹی کو جمع کرایا۔

    درخواست میں کہا گیا کہ ایڈیشنل جوائنٹ ڈائریکٹر آئی ٹی ہارون الرشید کی تحقیقاتی کمیٹی میں شمولیت قوانین کے خلاف ہے ، تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ حقائق کے خلاف اور امکانات پر مبنی ہے۔

    درخواست گزار نے استدعا کی تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں بھیجا گیا شوکاز نوٹ اور ایس ای سی پی ڈیٹا لیک کی تحقیقات کیلئے قائم تحقیقاتی کمیٹی کو کالعدم قرار دیا جائے۔

  • نواز شریف کو ریلیف ملےگا یا نہیں؟ فیصلہ 15 ستمبر کو ہوگا

    نواز شریف کو ریلیف ملےگا یا نہیں؟ فیصلہ 15 ستمبر کو ہوگا

    اسلام آباد : العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سرنڈر کئےبغیر نواز شریف کی درخواست پر سماعت سے متعلق دلائل طلب کرلئے اور کہا نواز شریف کوریلیف ملےگایانہیں 15 ستمبر کو فیصلہ ہوگا۔ ۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں نواز شریف کی سزا کیخلاف اپیل پر سماعت کررہے ہیں۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے ، سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس عامر فاروق نے کہا گزشتہ سماعت سے آج تک ڈیولپمنٹ ہوئی ہے، کیا نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا گیا، جس پر جہانزیب بھروانہ نے بتایا جی بالکل نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا گیا۔

    جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کیا متفرق درخواست کو ہم انٹرٹین کرسکتے ہیں، اپیل کی بات نہیں کر رہا، رٹ پٹیشن پر دلائل دیں، ایک عدالت نے نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا ہے۔

    جسٹس عامر فاروق نے ریمار کس میں کہا کہ نواز شریف کوکسی اور عدالت نے اشتہاری قرار دیاہے، کیا اشتہاری قرار دینےکے بعد ہم کسی اور درخواست پر فیصلہ کرسکتےہیں۔

    وکیل خواجہ حارث نے استدعا کی نواز شریف کو اپنا جواب فائل کرنے کا موقع دیا جائے، نواز شریف بیرون ملک علاج کیلئےگئے ہیں ، قانونی نمائندہ کے ذریعے جواب کا موقع دے، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا نواز شریف پہلے گرفتاری پیش کریں۔

    نوازشریف کیس میں دوراں سماعت پرویز مشرف کیس کا بھی تذکرہ کیا گیا ، جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ کیس سننے سے پہلے اپنے آپ کو سرنڈر کرنالازمی ہے، لگ رہا ہے جہانزیب بھروانہ آج تیاری کرکے آئےہیں، ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ کسی کو نہیں  سن رہے ، ہم اپیل کو میرٹ پر ہی دیکھیں گے۔

    جہانزیب بھروانہ نے کہا توشہ خانہ ریفرنس میں اشتہاری ہونے کے بعد نواز شریف کو ریلیف نہیں مل سکتا، جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس میں کہا کہ نواز شریف کی اپیل خارج نہیں کررہےمگر سننے کا یہ وقت نہیں ، اپیل کو میرٹ پر سننے کے بعد فیصلہ کریں گے۔

    جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ کیا اشتہاری ہونے کے بعد درخواست گزار کو سن سکتے ہیں؟ وکیل خواجہ حارث نے جواب  دیا کہ دونوں درخواستیں سنی جاسکتی ہیں۔

    جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا نواز شریف اسپتال میں زیر علاج ہیں، 8 ماہ سےنواز شریف لندن میں ہے مگر اسپتال میں داخل نہیں ، کیا نواز شریف اس وقت اسپتال میں داخل ہے؟ جس ڈاکٹر کی آپ نےرپورٹ جمع کرائی وہ خود امریکامیں ہے، اگر کوئی اسپتال میں داخل ہو تو اوربات ہے۔

    وکیل خواجہ حارث نے کہا نواز شریف اس وقت اسپتال میں داخل نہیں ہیں، عدالت میری اپیل کوسنے، اشتہاری کی بھی سنی جاتی  ہے، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ ہمیں پہلے نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے دیں۔

    جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس میں کہا کہ ماضی میں ایسےفیصلے دیئےجاچکےہیں،ہم نے بھی دیئےہیں، بات یہ ہےکہ آپ کی مزید 2درخواستوں پرکارروائی ہوسکتی ہےیانہیں، جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ یہ درخواست ہی یہی ہے کہ آپ نواز شریف کی غیر موجودگی میں اپیل کو سنیں۔

    خواجہ حارث نے استدعا کی کہ نواز شریف کواسوقت اشتہاری قرار نہ دیا جائے، پیر تک وقت دیا جائے،عدالت کومطمئن کریں گے، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا پچھلے سماعت پر وفاق سے رپورٹ طلب کرلی تھی۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ہمیں جو رپورٹس میٹریل دیاگیااس سے مطمئن نہیں، نواز  شریف اس وقت اسپتال میں نہیں ہیں، وہ فٹ ہیں اور سفر کے قابل بھی ہیں۔

    جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا درخواست گزار نے کب نام ای سی ایل سے نکالنےکی درخواست دی، وکیل نے بتایا کہ
    نواز  شریف نے ضمانت کے بعد نومبرمیں درخواست دی تھی۔

    دوران سماعت جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے 4 ہفتےگزشتہ سال دسمبرمیں ختم ہوئےتھے، کیا وفاق نےفالو اپ کیا ہے کہ نہیں۔

    جسٹس عامر فاروق نے خواجہ حارث سے استفسار کیا آپ نے ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست کس کو دی تھی ؟ تو
    خواجہ  حارث نے بتایا ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست وفاقی حکومت کو دی تھی۔

    جسٹس عامر فاروق نے مزید استفسار کیا نواز شریف بیرون ملک کب گئے تھے؟ وکیل نے بتایا نواز شریف بیرون ملک علاج کیلئےاکتوبر میں گئے تھے، بیرون ملک جانے کیلئےلاہور ہائیکورٹ میں انڈر ٹیکنگ جمع کرائی تھی۔

    جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ وفاق نے درخواست گزار کےعلاج سےمتعلق ویری فکیشن نہیں کی؟ 27 فروری کو وفاقی حکومت نے ضمانت میں توسیع نہ کرنےکاکہا، وفاق نے صحت مند ہونے کا سرٹیفکیٹ دیامگرانویسٹی گیشن نہیں کی، غلط یا صحیح مگر وفاقی حکومت کے پاس کلین چٹ تھی۔

    وفاقی حکومت نے مؤقف میں کہا کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس نامکمل ہیں، پنجاب حکومت نواز شریف کی ضمانت مسترد کرچکی ہے۔

    جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا عدالت کو قانون سے بتائیں کیس سن سکتے ہیں یا نہیں ؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس میں کہا استفسارنواز شریف اس وقت ضمانت پر نہیں ہیں، ضمانت کا وقت ختم ہوچکا،سرنڈر کا موقع دیا مگر نہیں آئے، ایک عدالت نے اشتہاری قرار دیا ہے۔

    جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ عدالت کو مطمئن کرنے کا موقع دے دیتے ہیں، اپیل میرٹ پر ہے یا نہیں اس پر فیصلہ کریں گے، ابھی صرف اتنابتانا ہے عدالتی اشتہاری کےوکیل کوسناجاتاہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا نوازشریف نے سرنڈر نہیں کیا، کھیل ختم ہوچکا۔

    ہائیکورٹ میں ججز اور وکلاکے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا ، جسٹس عامر فاروق نے جہانزیب بھروانہ سے کہا آپ خواجہ حارث کو کافی، چائے اور کھانا آفر کریں، جس پر جہانزیب بھروانہ کا کہنا تھا کہ میں نے خواجہ حارث کو کافی آفرکی مگر انہوں نے انکار کیا۔

    عدالت نے سرنڈر کئےبغیر نواز شریف کی درخواست پر سماعت ہوسکتی ہے یا نہیں سے متعلق دلائل طلب کرلئے اور کہا نواز شریف کوریلیف ملےگایانہیں 15 ستمبر کو فیصلہ ہوگا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹرسے دلائل طلب کرلئے جسٹس محسن کیانی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی ضمانت مسترد ہوچکی، توشہ خانہ میں اشتہاری بھی ہوچکے، نواز شریف مفرور اور اشتہاری ہونے کے بعد ریلیف کے مستحق ہیں یا نہیں؟

    بعد ازاں نوازشریف اور نیب کی اپیلوں پرسماعت 15ستمبرتک ملتوی کردی گئی۔

    سماعت سے قبل ہائیکورٹ میں سیکورٹی ہائی الرٹ کی گئی تھی، اور ہائی کورٹ کے اطراف کے راستے بند کر دیئے گئے تھے اور ہائی کورٹ میں عام پبلک کی داخلہ پر مکمل پابندی تھی۔

    مزید پڑھیں : ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس، نواز شریف کی حاضری سے استثنی کیلیے درخواستیں دائر

    عدالت نے نوازشریف کو آج 10 ستمبر تک سرنڈر کرنے کاحکم دے رکھا ہے تاہم نوازشریف نے پیشی سےایک روزقبل واپسی سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ بیمار ہوں، پاکستان آکر سرینڈر نہیں کرسکتا۔

    درخواست میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف ہائیپر ٹینشن، امراض قلب سمیت دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں، میڈیکل رپورٹ نواز شریف کے معالج ڈاکٹر ڈیوڈ آر لارنس نے جاری کی، میڈیکل سرٹیفکیٹ میں نواز شریف کو دی جانے والی ادویات کا بھی ذکر ہے۔

    واضح رہے احتساب عدالت نے ایون فیلڈریفرنس 6جولائی 2018 کوقید وجرمانہ کی سزا سنائی تھی، نوازشریف کو 10،مریم صفدر کو7 اور کیپٹن صفدر کو1سال قید کی سزاسنائی گئی تھی جبکہ العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید کی سزا ہوئی تھی۔

    ریفرنس میں سزا معطلی کے بعد نوازشریف، مریم نواز،کیپٹن صفدر ضمانت پرہیں۔

  • بھارت کو کلبھوشن یادیو کے لیے وکیل مقرر کرنے کی دوبارہ پیشکش کی جائے، عدالت کا حکم

    بھارت کو کلبھوشن یادیو کے لیے وکیل مقرر کرنے کی دوبارہ پیشکش کی جائے، عدالت کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کوحکم دیا ہے کہ بھارت کو کلبھوشن یادیو کے لیے وکیل مقرر کرنے کی دوبارہ پیشکش کی جائے ، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم تیار ہیں دفتر خارجہ کے ذریعے دوبارہ بھارت سے رابطہ کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل اورنگزیب نے بھارتی دہشت گرد کلبھوشن یادوکیلئے سرکاری وکیل مقرر کرنے کی درخواست پرسماعت کی۔

    سماعت سے قبل ہائی کورٹ کے اطراف اضافی سیکیورٹی تعینات کی گئی جبکہ بم ڈسپوزل اسکواڈ نے عدالت کو کلیئر قرار دیا تھا اورچیف جسٹس کےکورٹ روم میں داخلے کے لئے 2 وال تھرو گیٹ نصب کئے گئے تھے۔

    وفاق کی جانب سےاٹارنی جنرل خالد جاوید خان عدالت میں پیش ہوئے، اٹارنی جنرل نے بتایا 2016کوکلبھوشن یادیوپاکستان سےگرفتارہوا، مجسٹریٹ کےسامنے کلبھوشن نےجرم قبول کیا۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ بھارت نےویاناکنونشن رول 36کےتحت عالمی عدالت سےرجوع کیا اور عالمی عدالت انصاف نے قونصلر رسائی کا حکم دیا تھا، 7جون 2020 کو کلبھوشن نےنظرثانی کیلئے معذرت کی، قونصلر رسائی کے معاملے پر بھارت کو بھی خط لکھا گیا، بیرسٹرشاہنواز سے رابطہ کیا گیا مگر دستاویز فراہم نہیں کی گئیں۔

    ٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بھارت کلبھوشن کیس میں نقائص تلاش کرکے ریلیف لینا چاہتا ہے، بھارت نے یہ تاثر دیا کہ کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی نہیں دی گئی، عالمی عدالت انصاف نے سزائے موت پر حکم امتناع جاری کیا جو آج بھی موجود ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے آرڈیننس جاری کر کے سزا کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کرنے کا موقع دیا گیا۔

    خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا پاکستان عالمی قوانین کی پاسداری کرتا ہے، کلبھوشن سے رحم کی درخواست کا کہا گیا مگر کلبھوشن نےمعذرت کی، کلبھوشن یادیو کومجرم پایا گیا، بھارت کی استدعاعالمی عدالت نےمستردکی اور عالمی عدالت کے احکامات پرسزائے موت روک دی گئی، کلبھوشن یادیو صحت مند ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کیایہ بہتر نہیں ہو گاکہ بھارتی سفارت خانےکوبلایاجائے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت خوش ہو گی اگر بھارتی حکومت اپنامؤقف دے۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ بھارت اور کلبھوشن یادیو کو ایک بار پھر قانونی نمائندہ مقرر کرنے کی پیشکش کریں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم تیار ہیں بھارت اور کلبھوشن کو وکیل کی پیشکش کریں گے، ہم دفتر خارجہ کے ذریعے دوبارہ بھارت سے رابطہ کریں گے۔

    چیف جسٹس اطہرمن نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا آپ کو کتنا وقت چائیے، اےجی نے بتایا 2سے3 ہفتےچاہییں، وفاقی حکومت کو ہائی کمیشن سے رابطے کے لیے، جس پر چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہرمن اللہ نے کہا شفاف ٹرائل سب کا حق ہے۔

    بعد ازاں اسلام آبادہائی کورٹ نے بھارتی دہشت گرد کلبھوشن یادوکیلئے سرکاری وکیل مقرر کرنے کی درخواست پرسماعت 3ستمبرتک ملتوی کر دی۔

    یاد رہے وزارت قانون نےا سلام آبادہائی کورٹ میں کلبھوشن کا قانونی نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست دائر کر رکھی ہے، درخواست میں وفاق کو بذریعہ سیکریٹری دفاع اور جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ جی ایچ کیو کو فریق بنایا گیا ہے۔

    حکومت کی عدالت میں دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ بھارتی جاسوس نے سزا کے خلاف درخواست دائر کرنے سے انکار کیا، وہ بھارت کی معاونت کے بغیر پاکستان میں وکیل مقرر نہیں کرسکتا، بھارت بھی آرڈینینس کے تحت سہولت حاصل کرنے سے گریزاں ہے

    درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت اس حوالے سے حکم صادر کرے تاکہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق پاکستان کی ذمہ داری پوری ہو سکے۔

    خیال رہے فوجی عدالت نے کلبھوشن کوجاسوسی کے الزام میں سزائےموت سنارکھی ہے ، 17جولائی2019کوعالمی عدالت انصاف نے پاکستان کو فیصلے پر نظرثانی اور کلبھوشن یادیوکوقونصلررسائی کا حکم دیا تھا۔

    فیصلے میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کلبھوشن یادیو کو فیصلہ اور سزا کے خلاف موئثر جائزہ اور دوبارہ غور کا حق دینے کا پابند ہے جو کہ ویانا کنونشن کی شق 36میں حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے اس کے حق کو یقینی بناتاہے جبکہ فیصلہ کا پیرانمبر 139، 145اور146 اسی تناظر میں ہے۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے چینی انکوائری کمیشن کو کارروائی سے روک دیا

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے چینی انکوائری کمیشن کو کارروائی سے روک دیا

    اسلام آباد : اسلام آبادہائی کورٹ نے چینی انکوائری کمیشن کو دس دن کےلیے کارروائی سےروک دیا اور آئندہ سماعت تک ملک میں چینی70 روپے کلو بیچنے کا حکم بھی دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آبادہائی کورٹ میں شوگرانکوائری کمیشن کے خلاف شوگرملزایسوسی ایشن کی درخواست پرسماعت ہوئی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔

    ایگزیکٹو کے اختیارات سے متعلق شوگر ملز کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا آئین میں وفاق اور صوبوں کے اختیارات کا الگ الگ ذکر موجود ہے، انکوائری کمیشن نےفرانزک آڈٹ کے لیے وفاقی حکومت کولکھا، جیسی کمیٹی نےتجویز دی تھی ویسے ہی وہ کمیشن بن گیا۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کمیشن نےپھر کیاکہا ؟چینی کی قیمت کیوں بڑھی، جس پر مخدوم علی خان نے کہا کمیشن نے 324 صفحات میں بہت زیادہ وجوہات بیان کیں۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے پھر استفسار کیا کمیشن نےکیابتایاصارف کے لیے چینی کی قیمت کیوں بڑھی؟ جتنی پروڈکشن ہوتی ہے اس میں عوام کے لیے کتنا ہوتا ہے، چینی عوام کی ضرورت ہے حکومت کو اس حوالے اقدامات کرنےچاہییں، عام آدمی کابنیادی حق ہے30 فیصدچینی عام آدمی کےلیے ہوتی ہے۔

    سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ عوام اورکمرشل استعمال کی چینی کی قیمت کمیشن نےالگ نہیں کی، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کمیشن نے عوام کو چینی کی دستیابی پرکچھ نہیں کیاتوپھر کیا کیا؟ حکومت کا کنسرن کمرشل ایریا نہیں عوام ہونےچاہییں۔

    مخدوم علی خان نے بتایا کمیشن نے عام عوام تک چینی کی دستیابی کے حوالے سے کچھ نہیں کہا، جس پر چیف جسٹس نے مخدوم علی خان سے استفسار  کیا دو سال پہلے چینی کی قیمت کیا تھی تو وکیل نے بتایا نومبر 2018 میں چینی کی قیمت 53 روہے تھی۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا دو سال میں 85 روپے ہو گئی، چینی غریب کی ضرورت ہے وہ فیصلوں سےکیوں متاثرہورہاہے،؟ جس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ کمیشن نے اپنے ٹی او آر سے باہر جاکر کاروائی کی تو چیف جسٹس نے مزید کہا کمیشن نےعام آدمی کی سہولت کےلیے کوئی فائنڈنگ نہیں دی۔

    مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ معاون خصوصی اوردیگر وزرا سےہمارا میڈیاٹرائل کیاجارہاہے، گزشتہ رات معاون خصوصی نےپٹیشن کے باوجود پریس کانفرنس کی۔

    چیف جسٹس نے کہا نوٹس کرکےپوچھ لیتے ہیں لیکن اس وقت تک 70 روپےفی کلوبیچیں، شرط منظور ہےتو آئندہ سماعت تک حکومت کوکاروائی سے روک دیتے ہیں، عدالت عمومی طورپر ایگزیکٹو کےمعاملات میں مداخلت نہیں کرتی، چینی مزدورکی ضرورت ہےاوروہ کولڈڈرنک پرسبسڈی دےرہےہیں، عام آدمی کو بنیادی حقوق کیوں نہیں دے رہے۔

    اسلام آبادہائی کورٹ نےمشروط حکم امتناع جاری کردیا اور چینی انکوائری کمیشن کو10دن کےلیےکارروائی سےروک دیا جبکہ آئندہ سماعت تک ملک میں چینی 70 روپے فی کلوبیچنے کا حکم بھی دیا۔

    اسلام آبادہائی کورٹ نے وفاق سے10دن میں جواب طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ وفاق آئندہ سماعت سے پہلے جواب جمع کرائے جبکہ واجد ضیا اور شہزاد اکبر سمیت سیکرٹری داخلہ اور انکوائری کمیشن کے ارکان کو بھی نوٹس جاری کردیئے۔

  • جسمانی تشدد سےاگر بچے کو نقصان ہوتا ہے تو وہ جرم ہے ، چیف جسٹس اطہر من اللہ  کے ریمارکس

    جسمانی تشدد سےاگر بچے کو نقصان ہوتا ہے تو وہ جرم ہے ، چیف جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس

    اسلام آباد : چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کیس میں سیکرٹری وزارت قانون کو طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے جسمانی تشدد سےاگر بچے کو نقصان ہوتا ہے تو وہ جرم ہے، سرپرست بھی بچوں پرتشددکی اجازت نہیں دے سکتا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کے لیے زندگی ٹرسٹ کے صدر معروف گلوکار شہزاد رائے کی درخواست پر سماعت ہوئی ، سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی، وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری عدالت میں پیش ہوئیں۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا عدالت نےوفاقی وزیرانسانی حقوق شیریں مزاری کوطلب نہیں کیا ، ڈاکٹر شیریں مزاری کا طلب  کیے بغیر عدالت آنا خوش آئند ہے ، پارلیمنٹ کی جانب سے قانون سازی کا کیا بنا، وفاقی وزیر کا کیس میں دلچسپی لینا اچھی بات ہے، قرآن پاک میں بچوں کےحقوق کے بارے میں احکامات موجودہیں۔

    شیریں مزاری نے بتایا پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی برائےایجوکیشن نے بل پاس کیاہوا ہے، جس پر عدالت نے کہا بچے کو کلاس میں ایموشنلی تنگ کیا جائے تو بچے کی شخصیت پربھی اثر پڑتا ہے۔

    وکیل شہزاد رائے کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کوٹریٹیز اورکنونشن پر عمل کرنے کے احکامات صادرفرمائیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کچھ صوبوں میں قوانین پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے، وکیل کا مزید کہنا تھا کہ سندھ اور کےپی میں اسکولوں میں بچوں کیخلاف تشددکا قانون نافذ العمل ہے تو جسٹس اطہر من اللہ نے کہا وفاقی حکومت میں پھر کیا مسئلہ ہے۔

    ڈاکٹر شیریں مزاری نے بتایا کابینہ نے بل کو منظور کر لیا، وزرات قانون نےکہابل انسانی حقوق نہیں بلکہ وزارت داخلہ کااختیار ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کیا کابینہ نے بل کی مشروط منظوری دی تھی، قرآن میں ہے انسان اللہ کی سب سے بہتر مخلوق ہے، آرٹیکل 14 کےمطابق بچوں پرتشدد اور جذبات سے نہیں کھیلا جا سکتا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بچوں کو تو زیادہ عزت دینی چاہئے، کلاس میں بچوں کے جذبات سے کھیلا جائے تو شخصیت متاثر ہوتی ہے، جسمانی تشدد سےاگر بچے کو نقصان ہوتا ہے تو وہ جرم ہے، سرپرست بھی بچوں پرتشددکی اجازت نہیں دے سکتا، جس پر گلوکار شہزاد رائےنے کہا سیکشن 89 میں لکھا ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے کہا سیکشن 89 کی غلط تشریح کی جاتی ہے، اگر کوئی قانون بھی نہیں تو بھی بچوں کو ہاتھ نہیں لگایا جا سکتا، بچوں کے جذبات کیساتھ نہیں کھیلا جا سکتا۔

    وزارت تعلیم کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا وزارت تعلیم نےبچوں کو جسمانی سزا پرسرکلر جاری کر دیا ہے، چیف جسٹس نے وفاقی وزیر شیریں مزاری سے استفسار کیاعدالت کو کیا کرنا چاہئے، جن بچوں کی تشدد سےاموات ہوئی ہیں ان کا ازالہ کون کرے گا؟۔

    شیریں مزاری نے بتایا عدالت اس حوالے سے فیصلہ دے تومستقبل میں تحفظ کیا جا سکتا ہے، ہمارے پاس شکایات اوربچوں کے تشدد کےکیس آ رہےہیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ بچوں پرتشدد کےجو کیس ہوئے، آئندہ سماعت بتائیں، سیکشن 89 میں اصلاح کےلیےتشدد کی تشریح پر معاونت کریں، بچوں کےساتھ جنسی اور جسمانی تشدد کیا جاتا ہے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ سیکرٹری وزارت قانون افسرعدالتی معاونت کے لئے مقرر کر دے، آئندہ سماعت میں کیس کا فیصلہ کر دوں گا، پاکستان میں بچوں کی حالت زار قابل رحم ہے، وفاقی کابینہ نے بل کی منظوری دی، اس کو پارلیمنٹ میں بھیجا جا سکتا ہے۔

    شیری مزاری کا کہنا تھا کہ وزارت قانون کوبل پارلیمنٹ میں بھیجنے کی ہدایت دی جائے، تو چیف جسٹس نے کہا ہم وزارت قانون سے کسی کو بلا لیتے ہیں، آپ پر کوئی بار نہیں، جو بل منظور ہوا اسے پارلیمنٹ بھیجا جا سکتا ہے۔

    گلوکار شہزاد رائے نے کہا فیصلے میں ہدایت کر دیں تو بل منظورہو جائے گا ورنہ رکا رہے گا، شیری مزاری نے بتایا 19 مارچ 2019 کو کابینہ نے بل منظور کیا تھا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیکرٹری قانون بتائیں بل کوپالیمنٹ میں کیوں پیش نہیں کیا جاسکتا، سول سوسائٹی میں کسی کی ہمت نہیں بچے کو غلط نگاہ سے دیکھے، آرٹیکل 14 کواہمیت دیں تو بنیادی حقوق اس میں آتے ہیں، وزارت قانون سے پوچھ لیں گےبل کیوں پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔

    شیریں مزاری نے بتایا پارلیمنٹ کا سیشن اگلے ہفتے ہونا ہے اور استدعا کی سیکرٹری کوتھوڑا جلدی بلا لیں توبل آئندہ سیشن میں پیش ہوجائے گا، جس کے بعد عدالت نے سیکرٹری وزارت قانون کو 12 مارچ کو طلب کرلیا اور سماعت 30 مارچ تک ملتوی کر دی۔

  • تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد پر پابندی یقینی بنائی جائے، ڈائریکٹرجنرل ایجوکیشن کوحکم

    تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد پر پابندی یقینی بنائی جائے، ڈائریکٹرجنرل ایجوکیشن کوحکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈائریکٹرجنرل ایجوکیشن کو حکم دیا ہے کہ اسلام آبادکے تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد  پر پابندی یقینی بنائی جائے ، آرٹیکل14 کےتحت بچوں کوحاصل حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے بچوں پرتشدد اور سزاکےخلاف درخواست پرسماعت کا تحریری حکم جاری کردیا، چارصفحات پر مشتمل حکم نامہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نےتحریرکیا ہے، درخواست گلوکارشہزادرائےکی جانب سےدائر کی گئی ہے۔

    تحریری حکم میں کہا گیا اٹارنی جنرل آئندہ سماعت پرعدالتی معاونت کریں، آرٹیکل14 کےتحت بچوں کوحاصل حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے اور ڈائریکٹرجنرل ایجوکیشن وفاقی تعلیمی اداروں میں تشددپرپابندی یقینی بنائیں۔

    حکم نامے میں کہا گیا ڈائریکٹرجنرل ایجوکیشن شکایات وصول کرنےکےحوالےسےمیکنزم بنائیں اور وفاقی تعلیمی اداروں میں جسمانی سزاؤں سے متعلق شکایات کاازالہ کریں جبکہ نجی اسکولزکےلیےریگولیٹری باڈی عدالتی ہدایت پرنوٹیفکیشن جاری کرے۔

    تحریری حکم کے مطابق سیکریٹری انسانی حقوق یو این کنونشن کے تحت بچوں کو حاصل حقوق کے قانون پر عمل درآمد کی رپورٹ اور داخلہ، قانون وانصاف اور تعلیم کے سیکرٹریز بھی جواب جمع کرائیں، جبکہ اٹارنی جنرل آئندہ سماعت پرعدالت کی معاونت کریں۔

    مزید پڑھیں : تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد ، حکومت سے 2 ہفتے میں جواب طلب

    حکم نامے میں کہا گیا انسپکٹرجنرل پولیس اسلام آبادبھی درخواست میں جواب جمع کرائیں اور رجسٹرارآفس کیس 5مارچ کو سماعت کے لیے مقرر کرے۔

    گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کی درخواست پر سیکرٹریز داخلہ، قانون، تعلیم، انسانی حقوق اورآئی جی پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا تھا۔

    وکیل نے کہا تھا تعلیمی اداروں میں بچوں کو سزا دینا معمول بن چکا ہے، پڑھائی میں بہتری کے لئے بچوں کو سزا کو ضروری تصور کیا جاتا ہے، بچوں پر تشدد اور سزا کی خبریں آئے روز میڈیا میں آرہی ہیں۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے پاکستان 182 ممالک میں سے 154 پوزیشن پر ہے، عدالت یو این کنونشن کے تحت بچوں کے تحفظ کے قوانین پر عمل درآمد کا حکم دے۔

  • فیصل واوڈا کی مشکلات میں اضافہ

    فیصل واوڈا کی مشکلات میں اضافہ

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے دوہری شہریت چھپانے پر وفاقی وزیر فیصل واوڈا کو 24 فروری سے پہلے جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کابینہ،قانون وانصاف،الیکشن کمیشن ، قومی اسمبلی کے سیکریٹریز کو نوٹس جاری کردیئے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے دوہری شہریت چھپانے پر وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا کی نااہلی کے لئے درخواست پر سماعت کی ، درخواست گزار میاں محمد فیصل ایڈووکیٹ اپنے وکیل جہانگیر خان جدون کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔

    وکیل نے بتایا فیصل واوڈا نے عام انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن میں دوہری شہریت سے متعلق جھوٹا حلف نامہ جمع کروایا، اُس وقت فیصل واڈا امریکی شہریت کے حامل تھے، عدالت فیصل واڈا کی رکنیت بطور رکن قومی اسمبلی نااہل قرار دے۔

    وکیل کا مزید کہنا تھا کہ 2018 کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لئے فیصل واوڈا نے 11 جون 2018 کو الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی داخل کرائے، کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت فیصل واوڈا امریکی شہریت رکھتے تھے، الیکشن کمیشن میں دوہری شہریت نہ رکھنے کا جھوٹا حلف نامہ جمع کرایا۔

    جہانگیر خان جدون نے مزید کہا کاغذات کی سکروٹنی کے وقت بھی فیصل واوڈا امریکی شہری تھے، ریٹرننگ افسر نے 18 جون 2018 کو فیصل واوڈا کے کاغذات نامزدگی منظور کئے، جس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا فیصل واڈا نے امریکی شہریت کب ترک کی۔

    وکیل نے جواب میں بتایا 22 جون 2018 کو امریکی شہریت ترک کرنے کے لئے کراچی میں امریکی قونصلیٹ میں درخواست دی، 25 جون 2018 کو منظور کی گئی اور فیصل واوڈا کو امریکی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ جاری ہوا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصل واوڈا کو 24 فروری سے پہلے جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کابینہ،قانون وانصاف،الیکشن کمیشن ، قومی اسمبلی کے سیکریٹریز کو نوٹس جاری کردیئے۔

    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصل واوڈا کیخلاف دہری شہریت سےمتعلق درخواست پر سماعت 24 فروری تک ملتوی کر دی۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ کا بچوں سے زیادتی کے بڑھتے واقعات پر  بڑا فیصلہ

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا بچوں سے زیادتی کے بڑھتے واقعات پر بڑا فیصلہ

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے بچوں سے زیادتی کےبڑھتےواقعات پر بڑا فیصلہ دیتے ہوئے کہا زیادتی کیس کی تفتیش اےایس پی سےکم رینک کا افسر نہیں کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے بچوں سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر بڑا فیصلہ سناتے ہوئے کہا زیادتی کیس کی تفتیش اےایس پی سےکم رینک کاافسرنہیں کرے گا۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے بہارہ کہو زیادتی کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا، تحریری حکم نامے میں عدالت نے زیادتی کے واقعات کے سدباب کے لئے خصوصی ہدایات بھی جاری کردیں ہیں، جس میں آئی جی اورچیف کمشنر اسلام آباد کو خصوصی لائحہ عمل تیار کرنے کی بھی ہدایت کی گئی۔

    فیصلے میں کہا گیا بچوں سےزیادتی کےملزمان کامیڈیکل بورڈسےمعائنہ کرایاجائے، درخواست ضمانت آنےپرملزم کےکرمنل ریکارڈکوبھی حصہ بنایاجائے اور ریکارڈ سے تعین کیا جائے کہ ضمانت کی صورت میں دوبارہ جرم کا امکان تو نہیں۔

    مزید پڑھیں : جس معاشرے میں بچوں کی حفاظت نہ ہوسکے وہ معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے، چیف جسٹس اطہرمن اللہ

    گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھارہ کہو کے مدرسے میں بچے سے زیادتی کے کیس کی سماعت ہوئی تھی ، عدالت میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد کی جگہ ایڈیشنل آئی جی (اے آئی جی) عدالت میں پیش ہوئے تھے ، عدالت نے کیس کی درست تفتیش نہ کرنے پر تفتیشی افسر پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ قرآن کی تعلیم دینے کی جگہ پر بچے کے ساتھ بدفعلی کی گئی، پولیس کیا کر رہی ہے ، جس معاشرے میں بچوں کی حفاظت نہ ہوسکے وہ معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے، بچوں کا تحفظ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

    خیال رہے کہ بھارہ کہو کے مدرسے میں زیادتی کا واقعہ رواں برس 28 اگست کو پیش آیا۔ ابتدائی معلوماتی رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق واقعہ مدرسہ تحفیظ القرآن میں ہوا۔

    ایف آئی آر کے مطابق بچے کے والدین نے فوری طور پر مدرسے کے قاری ارشد کو بتایا لیکن اس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ ملزم ذیشان خود بھی مدرسے میں زیر تعلیم ہے اور اس کی عمر 17 سال ہے، ملزم نے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔

  • مدرسے میں بچے سے زیادتی: عدالت کا پولیس پر اظہار برہمی

    مدرسے میں بچے سے زیادتی: عدالت کا پولیس پر اظہار برہمی

    اسلام آباد: ہائیکورٹ نے بھارہ کہو کے مدرسے میں بچے سے زیادتی کے کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ قرآن کی تعلیم دینے کی جگہ پر بچے کے ساتھ بدفعلی کی گئی، پولیس کیا کر رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھارہ کہو کے مدرسے میں بچے سے زیادتی کے کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے گزشتہ روز انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد کو مذکورہ کیس میں طلب کیا تھا جن کی جگہ ایڈیشنل آئی جی (اے آئی جی) عدالت میں پیش ہوئے۔

    عدالت نے کیس کی درست تفتیش نہ کرنے پر تفتیشی افسر پر سخت برہمی کا اظہار کیا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت نے کل سوال کیا تو تفتیشی افسر نے کہا مدعی سے پوچھ لیں، مدعی نے ہی بتانا ہے تو پولیس کیا کر رہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ تفتیشی افسر کو بچے سے جنسی زیادتی کیس کی دفعات کا علم نہیں۔ عدالت کو بتائیں آپ نے کیا تفتیش کی؟ بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے کی جگہ پر ایک بچے کے ساتھ بدفعلی کی گئی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ جس معاشرے میں بچوں کی حفاظت نہ ہوسکے وہ معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے، بچوں کا تحفظ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

    اے آئی جی اسلام آباد نے عدالت میں کہا کہ سب انسپکٹر تفتیش کر رہا ہے، ایس ایس پی اس کیس کی نگرانی کریں گے جس پر چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ پولیس اس حساس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھے۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔

    خیال رہے کہ بھارہ کہو کے مدرسے میں زیادتی کا واقعہ رواں برس 28 اگست کو پیش آیا۔ ابتدائی معلوماتی رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق واقعہ مدرسہ تحفیظ القرآن میں ہوا۔

    ایف آئی آر کے مطابق بچے کے والدین نے فوری طور پر مدرسے کے قاری ارشد کو بتایا لیکن اس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ ملزم ذیشان خود بھی مدرسے میں زیر تعلیم ہے اور اس کی عمر 17 سال ہے، ملزم نے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔

  • مدرسے میں بچے سے زیادتی: عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو طلب کرلیا

    مدرسے میں بچے سے زیادتی: عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو طلب کرلیا

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ہائیکورٹ نے بھارہ کہو کے مدرسے میں بچے سے زیادتی کے کیس میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد کو طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھارہ کہو کے مدرسے میں بچے سے زیادتی کے کیس کی سماعت ہوئی۔ کیس کی درست تفتیش نہ کرنے پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بچے کے حوالے سے مدعی نے بتانا ہے تو پولیس کیا کر رہی ہے؟ عدالت کو بتائیں آپ نے کیا تفتیش کی۔

    تفتیشی افسر نے کہا کہ بچے کے ساتھ زیادتی کی کوشش میڈیکل کروانے پر ثابت ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ آپ کے خلاف تادیبی کارروائی کی ہدایت کی جائے۔

    ہائیکورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو کل ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔

    اس سے قبل سپریم کورٹ بھی کمسن بچی سے زیادتی کے ایک ملزم کی درخواست ضمانت مسترد کرچکی ہے۔

    4 سالہ بچی سے زیادتی کے کیس میں ملزم کی وکیل تہمینہ محب اللہ نے کہا تھا کہ یہ مزید انکوائری کا کیس ہے، کیس میں مزید ڈی این ایز کی تفصیلات نہیں دی گئیں، 4 سالہ بچی کے بیان پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ بہتر ہوگا درخواست واپس لی جائے ورنہ ٹرائل پر اثر ہوگا۔ بعد ازاں عدالت نے درخواست ضمانت واپس لینے کی بنیاد پر مسترد کردی۔