Tag: immune system

  • کرونا وائرس سے صحت یاب افراد کے لیے ایک اور بری خبر

    کرونا وائرس سے صحت یاب افراد کے لیے ایک اور بری خبر

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ کرونا وائرس کا شکار ہونے والے افراد کے مدافعتی نظام پر طویل المعیاد منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق میں پتہ چلا کہ کووڈ 19 کا سامنا کرنے والے افراد کے مدافعتی نظام پر طویل المعیاد منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

    ایڈیلیڈ یونیورسٹی، فلینڈرز یونیورسٹی، ویمنز اینڈ چلڈرنز ہاسپٹل اور رائل ایڈیلیڈ ہاسپٹل کی اس مشترکہ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے کے 6 ماہ بعد بھی کچھ مریضوں کے مدافعتی نظام کے افعال میں نمایاں تبدیلیاں آسکتی ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ مدافعتی خلیات اور جینز پر بیماری کے بعد مرتب اثرات سے عندیہ ملتا ہے کہ کچھ مریضوں کو لانگ کووڈ علامات کا سامنا کیوں ہوتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ان مریضوں کے مدافعتی خلیات کا گہرائی میں جا کر جائزہ لینے پر ہم نے بیماری سے منسلک چند نئے کرداروں کو دریافت کیا اور اس سے یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ آخر کچھ افراد کو کووڈ کی سنگین شدت یا لانگ کووڈ کا سامنا کیوں ہوتا ہے۔

    تحقیق کے لیے 20 سے 80 سال کی عمر کے 69 کووڈ مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو بیماری کو شکست دیے 6 ماہ سے زیادہ عرصہ ہوچکا تھا اور ان افراد کے مدافعتی افعال کا تجزیہ کیا گیا تھا۔

    ان مریضوں میں سے 47 میں کووڈ کی شدت معمولی تھی، 6 میں معتدل اور 13 کو سنگین شدت کا سامنا ہوا تھا۔

    ماہرین نے ان افراد کے اینٹی باڈیز ردعمل، خون میں موجود ہزاروں جینز کے اثرات اور 130 مختلف اقسام کے مدافعتی خلیات کی جانچ پڑتال خون کے نمونوں کے ذریعے کی، جو بیماری کے 12، 16 اور 18 ہفتے بعد اکٹھے کیے گئے تھے۔

    ان کے مدافعتی افعال کے ردعمل کا موازنہ صحت مند افراد کے ساتھ کیا گیا۔ نتائج سے ثابت ہوا کہ کووڈ کا سامنا کرنے والے افراد میں بیماری کے 6 ماہ بعد مدافعتی نظام میں نمایاں تبدیلیاں آچکی تھیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ مدافعتی خلیات کے افعال میں کمزوری بیماری کے 12 ہفتے بعد سب سے زیادہ ہوتی ہے مگر بیشتر کیسز میں یہ کمزوری 6 ماہ بعد بھی برقرار رہتی ہے اور ممکنہ طور یہ دورانیہ زیادہ طویل ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق میں لانگ کووڈ کی علامات جیسے تھکاوٹ، سانس لینے میں دشواری، سینے میں تکلیف اور دماغی دھند کا تجزیہ نہیں کیا گیا تھا تاہم ماہرین کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر یہ علامات مدافعتی نظام اور جینز پر مرتب منفی اثرات کا نتیجہ ہوسکتی ہیں۔

  • خبردار: قوت مدافعت بچائیں ، یہ اشیا نہ کھائیں

    خبردار: قوت مدافعت بچائیں ، یہ اشیا نہ کھائیں

    وبا کے ہاتھوں درپیش مسائل کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے ایسی خوراک اپنائی ہے کہ جو قوتِ مدافعت کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہے۔ لیکن پوری کوشش کے باوجود کہ کوئی خطرناک وائرس یا جراثیم ہمیں متاثر نہ کرے۔

    ہم مسلسل ایسی خوراک کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں جو ہماری قوتِ مدافعت کو کمزور کرتی ہے، ایسی کون سی چیزیں ہیں، جن سے آپ کو وبا کے دوران ممکنہ حد تک دُور رہنا چاہیے۔

    چینی کا زائد استعمال

    چینی کو عام طور پر "سفید زہر” کہا جاتا ہے اگر آپ میٹھے کے شوقین ہیں اور قوتِ مدافعت کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو بڑی مشکل پیش آئے گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ روزمرہ خوراک سے چینی کی مقدار کو کم کرنے سے آپ کی مجموعی صحت پر بہترین اثرات مرتب ہوتے ہیں، کیونکہ میٹھی چیزیں کھانے سے خون میں شکر کی سطح میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ایسے پروٹین یعنی لحمیات کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو آپ کی صحت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

    کھانے پینے کی میٹھی چیزوں میں کیلوریز یعنی حرارے بھی زیادہ ہوتے ہیں ، جو آپ کے مدافعت کے نظام کو متاثر کرتے ہیں۔

    نمک کی زیادتی

    نمک کا زیادہ استعمال آپ کے جسم میں مدافعت کے نظام میں زبردست تباہی مچاتا ہے، خاص طور پر چپس، بیکری آئٹمز اور فروزن فوڈ میں بہت زیادہ نمک استعمال کیا جاتا ہے، جو آپ کی مدافعت کو کمزور کرتی ہیں اور یوں آپ کے جسم کے لیے بیماریوں کے خلاف لڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) تجویز کرتا ہے کہ ایک عام آدمی کو دن میں پانچ گرام سے زیادہ نمک استعمال نہیں کرنا چاہیے، یہ بمشکل ایک چائے کا چمچہ بنتا ہے۔

    تلی ہوئی اشیا

    تلی ہوئی چیزیں کھانے میں بڑے مزیدار لگتی ہیں، لیکن جسم میں مدافعت کے نظام کو متاثر کر کے یہ آپ کی مجموعی صحت کو خطرے میں ڈال دیتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق تلی ہوئی اشیا کا استعمال دل کے امراض اور فالج کے خطرے کو بڑھا دیتا ہے۔تلی خوراک میں ایسے اجزا شامل ہو جاتے ہیں جو جسمانی سوزش اور خلیات کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ڈیپ فرائیڈ چیزیں مثلاً فرنچ فرائز، سموسے، پیک شدہ چپس اور ایسی ہی دوسری چیزوں سے ممکنہ حد تک اجتناب کریں۔

    کیفین
    کافی اور چائے میں پائے جانے والا کیفین آپ کے سونے کے معمولات کو متاثر کر سکتا ہے، جس کا نتیجہ جسمانی سوزش کی صورت میں نکلتا ہے اور یوں آپ کا مدافعت کا نظام متاثر ہوتا ہے۔اگر آپ روزانہ چائے، کافی یا زیادہ کیفین رکھنے والے مشروبات پیتے ہیں تو غروبِ آفتاب کے بعد ان کا استعمال لازماً ترک کریں، خود کو روزانہ دو کپ تک محدود رکھے۔

    شراب کی بہتات

    شراب کو ‘ام الخبائث’ اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں کچھ بھی ایسا نہیں جو فائدہ مند ہو، خاص طور پر مدافعت کے نظام کے تو یہ تباہ کر کے رکھ دیتی ہے۔

    امریکی ماہرین کے مطابق شراب کا استعمال قوتِ مدافعت کو کمزور کر کے انسان کو کئی امراض کے دہانے پر لا کھڑا کر دیتا ہے، اس کے جسم کے دیگر حصوں پر بھی بہت مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں مثلاً جگر اور گردوں پر، اس لیے وبا کے دوران تو شراب کی تباہ کاریاں کہیں بڑھ گئی ہیں۔

  • میٹھی غذاؤں کا استعمال کتنا نقصان دہ یا فائدہ مند ہے؟

    میٹھی غذاؤں کا استعمال کتنا نقصان دہ یا فائدہ مند ہے؟

    وہ میٹھی غذا جسے ہم اضافی مٹھاس کے طور پر کھاتے ہیں اس میں چینی، سویٹنرز، شہد اور پھلوں کے جوس شامل ہیں اسے کشید کرنے کے بعد صاف کرکے خوراک اور مشروبات میں ذائقہ بڑھانے کے لیے شامل کیا جاتا ہے۔

    پرانے دور کی نسبت میٹھے کا استعمال کم صحت مند ہے اور آج یہی میٹھا لوگوں کی صحت کا اولین دشمن بنا ہوا ہے۔ پھلوں اور گنے سے حاصل ہونے والی مٹھاس فرکٹوز کی 150 گرام یومیہ مقدار پر مشتمل خوراک انسولین کی حساسیت کو کم کر دیتی ہے۔

    دوسری جانب نئی تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ غذا میں شوگر یا قدرتی مٹھاس کا بھی زیادہ استعمال قوت مدافعت کمزور بنا کر متعدد بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔

    طبی و غذائی ماہرین کے مطابق قدرتی مٹھاس، شوگر یعنی کہ "فرکٹوز” زیادہ تر میٹھے مشروبات، میٹھے کھانوں، پروسیسڈ غذاؤں میں پایا جاتا ہے، ان غذاؤں کے زیادہ استعمال سے انسانی جسم میں موجود بیماریوں کے خلاف اور بیماریوں سے بچانے والا نظام قوت مدافعت کمزور پڑ جاتا ہے اور انسان متعدد بیماریوں میں گِھر جاتا ہے۔

    لندن کے صحت عامہ سے متعلق جریدے "جرنل آف نیچر کمیونیکیشن” میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پروسیسڈ سمیت قدرتی میٹھی غذاؤں میں بھی پائے جانے والا جُز فرَکٹوز انسانی صحت کے لیے نہایت مضر ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس کے زیادہ استعمال کے نتیجے میں موٹاپے، ذیابطیس ٹائپ ٹو، جگر کے متاثر اور بڑھ جانے کے خدشات میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق فرَکٹوز سے بھرپوز غذاؤں کے استعمال کے نتیجے میں جسم میں سوجن کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں، جسم کے اعضا میں سوجن یا سوزش کا ہو جانا صحت سے متعلق خطرناک علامات میں سے ایک ہے۔

    محققین کے مطابق سوجن کے سبب انسانی خلیے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں انسان متعدد بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔

    تحقیق کے نتیجے میں مٹھاس سے متعلق سامنے آنے والے نئے انکشاف پر طبی و غذائی ماہرین کی جانب سے انسانی صحت کے لیے میٹھے مشروبات اور پروسیسڈ غذاؤں کو سب سے زیادہ خطرناک اور مضر صحت قرار دیا گیا ہے۔

  • انسان کی قوت مدافعت کورونا وائرس کیلئے کب تک مؤثر ہے؟ جانیے

    انسان کی قوت مدافعت کورونا وائرس کیلئے کب تک مؤثر ہے؟ جانیے

    نیو یارک : امریکی اور سوئٹزر لینڈ کے سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد اس بات کا پتہ لگایا ہے کہ کوویڈ19وائرس انسان کے مدافعتی نظام کو کب تک یاد رہتا ہے یعنی اس کی طاقت وائرس سے مقابلے کیلئے کتنی مدت تک کارآمد ہے۔

    ماہرین کی مشترکہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ 19 کو شکست دینے والے بیشتر افراد میں اس کے دوبارہ شکار ہونے کا خطرہ کم از کم 6 ماہ تک نہیں ہوتا۔

    تحقیق میں ایسے متعدد افراد کو شامل کیا گیا تھا جو کوویڈ 19 میں مبتلاہونے کے بعد صحتیاب ہوگئے تھے، تحقیق نے دریافت کیا کہ وقت کے ساتھ وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح گھٹ جاتی ہے مگر بیماری کو پہچاننے والے مخصوص میموری بی سیلز کی سطح مستحکم رہتی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماہرین کے مطابق یہ خلیات جراثیم کو یاد رکھتے ہیں اور اس کا دوبارہ سامنا ہونے پر مدافعتی نظام کو وائرس سے لڑنے والی اینٹی باڈیز بننے کو متحرک کرتے ہیں۔

    اس کے علاوہ میموری بی سیلز کے افعال میں 6 ماہ میں کمی نہیں آتی بلکہ اس کے ارتقا کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جس سے ٹھوس عندیہ ملتا ہے کہ کوویڈ19 کے شکار ہونے والے افراد میں اس وائرس کا دوبارہ سامنا کرنے پر برق رفتار اور مؤثر ردعمل پیدا ہوتا ہے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل سابقہ تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ کورونا وائرس کے مریضوں میں صحت یابی کے بعد اسے ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح بہت تیزی سے کم ہوتی ہے۔

    مگر حالیہ تحقیقی رپورٹس میں وائرس کے خلاف طویل المعیاد مدافعت کے حوالے سے مدافعتی نظام کے دیگر حصوں کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

  • کورونا وائرس انسان کو دوبارہ بیمار کرسکتا ہے یا نہیں؟ سائنسدانوں نے بتا دیا

    کورونا وائرس انسان کو دوبارہ بیمار کرسکتا ہے یا نہیں؟ سائنسدانوں نے بتا دیا

    واشنگٹن : مدافعتی نظام تمام جراثیموں کو یکساں طور پر یاد نہیں رکھتا مگر ہمارے جسمانی خلیات بظاہر کورونا وائرس کا بہت سنجیدگی سے تجزیہ کرتے ہیں۔

    کورونا وائرس کے حوالے سے مدافعتی ردعمل کی مانیٹرنگ کرنے والے سائنسدانوں نے اب مضبوط اور دیرپا مدافعت یا امیونٹی کے حوصلہ بخش آثار کو دیکھنا شروع کیا ہے، چاہے لوگوں کو کووڈ 19 کی معتدل شدت کا سامنا ہی کیوں نہ ہو۔

    متعدد نئی تحقیقی رپورٹس میں یہ عندیہ سامنے آیا ہے کہ بیماری کے خلاف لڑنے والی اینٹی باڈیز بشمول مدافعتی خلیات بی سیلز اور ٹی سیلز اس وائرس کو شناخت کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں اور ایسا نظر آتا ہے کہ بیماری سے صحت یابی کے کئی ماہ بعد بھی یہ تسلسل برقرار رہتا ہے۔

    ایریزونا یونیورسٹی کی اس حوالے سے حالیہ تحقیق میں ماہرین کا کہنا ہے کہ جسمانی نظام اسی طرح کام کرتا ہے جیسا تصور کیا جاتا ہے۔

    ایک اور تحقیق میں شامل واشنگٹن یونیورسٹی کی ماہر ماریون پیپر کا کہنا تھا کہ یہ بالکل ویسا ہی ہے جس کی آپ توقع کرتے ہیں، ایسے تمام اشارے موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ ہمیں مکمل حفاظتی ردعمل حاصل ہوتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے دوبارہ شکار ہونے سے تحفظ کی اب تک مکمل تصدیق تو نہیں ہوسکی مگر ایسے شواہد سامنے آئے ہیں کہ بیشتر افراد جن کا وائرس سے دوسری بار سامنا ہوتا ہے، وہ اسے خود سے دور رکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ نتائج سے ان خدشات کو دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ وائرس مدافعتی نظام کو کمزور کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اور لوگوں کو بار بار بیمار کرسکتا ہے۔

    متعدد طبی تحقیقی رپورٹس میں اب دریافت کیا گیا ہے کہ کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کے خون میں کئی ماہ بعد بھی وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کچھ مقدار میں موجود رہتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ اینٹی باڈیز گھٹ جاتی ہیں مگر مستحکم شکل اختیار کرلیتی ہیں جو علامات کے آغاز کے 3 ماہ بعد بھی دیکھی جاسکتی ہیں، یہ ردعمل بظاہر دیرپا نظر آتا ہے۔

  • انسانی جسم کے دفاعی نظام میں موجود آٹھ ہتھیار

    انسانی جسم کے دفاعی نظام میں موجود آٹھ ہتھیار

    کیا آپ جانتے ہیں کہ انگڑائی لینا یا آنکھوں سے آنسوؤں کا جاری ہونا بے مقصد نہیں ہے بلکہ ان جیسے کئی افعال انسانی جسم کو نقصان سے بچانے کے لیے ازخود رونما ہوتے ہیں۔

    انسانی جسم کو قدرت نے اس قدر پرپیچ انداز میں ڈیزائن کیا ہے کہ سائنسداں آج بھی اس کے بہت سے افعال سمجھنے سے قاصر ہیں، جیسے جیسے ریسرچ آگے بڑھ رہی ہے ، جسم  کے ہر فعل  کا ایک نیا مقصد سامنے آرہا ہے۔

    میڈیکل سائنس جیسے جیسے ترقی کررہی ہے ، انسانی جسم کی ایک ایک حرکت کی وضاحت کرتی جارہی ہے اور ذیل میں ہم انسانی جسم کے آٹھ ایسے افعال  اور ان کے پیچھے پوشیدہ مقاصد آپ کے سامنے بیان کررہے ہیں ، جنہیں جان کر بے اختیار آپ سبحان اللہ کہہ اٹھیں گے۔

    مندرجہ ذیل آٹھ افعال انسانی جسم کے دفاعی نظام کا حصہ ہیں جن کا مقصد جسم کو پہنچنے والے انتہائی بڑے نقصان کے خلاف مدافعت کرنا ہے۔

    چھینک

    ناک سانس کی آمد و رفت کا بنیادی ذریعہ ہے اور آپ کو چھینک اس وقت آتی ہے جب ناک  میں ہوا کی گزرگاہ کسی چیز سے الرجی کا شکار ہو یا اس میں  کچرا بھر گیا ہو، درحقیقت یہ اس کچرے کو باہر نکالنے  اور ہوا کی گزر گاہ کو صاف رکھنے کے لیے انسانی جسم کا خود کار ذریعہ ہے۔

    انگڑائی لینا

    عموماً انگڑائی لینے کے عمل کو برا سمجھا جاتا ہے لیکن صبح اٹھتے ہی اکثرافراد انگڑائی لیتے ہیں، ایسا کرنے سے طویل وقت تک لیٹنے رہنے کے سبب سست پڑجانے والے نظامِ خون  کو  اٹھنے  کے بعد  بحال کرنا ہوتا ہے اوراس سے  جسم کےمسلز کام کے لیے تیارہوجاتے ہیں۔

    جمائی لینا

    جمائی کو عام طور پر سستی کی نشانی تصور کیا جات  ہے اوراس کے بارے میں متعدد خیالات موجود ہیں، لیکن طبی طورپراس کا بنیادی مقصد دماغ کو بہت زیادہ گرم ہونے سے بچانا ہے۔

    رونگٹے کھڑے ہونا

    ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے جسم کے رونگٹے خوف کی حالت میں کھڑےہوتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ جب موسم ٹھنڈا ہوتا ہے تو جسم رونگٹے کھڑے کرکے جسم سے حرارت کے اخراج کی شرح کو کم کرتا ہے، اس طرح سرد موسم میں گرم رہنا آسان ہوجاتا ہے۔

    یاداشت کھونا

    کئی باراس وقت لوگ یاداشت سے عارضی طور پر محروم ہوجاتے ہیں جب وہ کسی ناخوشگوار واقعے سے گزرتے ہیں، یہ دماغ کی جانب سے آپ کو ٹراما سے بچانے کے لیے ضروری ہے۔

    آنسو

    آنسوؤں کے 2 مقاصد ہوتے ہیں، یہ آنکھوں کو بیرونی اشیاءسے تحفظ فراہم کرتے ہیں جبکہ یہ جذباتی دفاعی ڈھال بھی ثابت ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ انسان اس وقت روتے ہیں جب وہ اپ سیٹ ہوتے ہیں تاکہ خود کو جذباتی تکلیف سے بچاسکیں۔

    ہاتھوں میں جھریاں

    جب ہم کسی نم ماحول ہوتے ہیں تو  ایسے وقت  میں انسانی ہاتھوں پر جھریاں نمودار ہوجاتی ہیں، جس کی وجہ یہ  ہے کہ جسم پھسلنے والے ماحول سے مطابقت پیدا کرسکے، یہ جھریاں ہاتھوں کی گرفت بہتر کرتی ہے اور گرنے یا چوٹ لگنے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    ہچکیاں

    اگر آپ کو ہچکیاں آرہی ہیں تو ضروری نہیں کہ کوئی آپ کو یاد کررہا ہے ۔ہچکیاں اس وقت آتی ہیں جب لوگ بہت تیزی سے کچھ کھالیں، اس عمل سے جسم آپ کو تیزی سے کھانے سے روکتا ہے تاکہ غذا ہضم کرنا آسان ہوجائے۔

  • مٹی میں کھیلنا آپ کے بچے کے لیے نقصان دہ؟

    مٹی میں کھیلنا آپ کے بچے کے لیے نقصان دہ؟

    کیا آپ صفائی ستھرائی کو اہمیت دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آپ کے بچوں کو بھی دھول مٹی سے دور رہنا چاہیے‘ اگر ہاں تو آپ اپنے بچوں کے ساتھ دشمنی کررہے ہیں۔

    جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ آج کا انسان ‘ عہد قدیم میں اور قرونِ وسطیٰ کے انسانوں سے نسبتاً کمزور اس لیے ہے کہ آج کے انسان نے مٹی سے اپنا رشتہ ختم کردیا ہے۔

    ہمارے معاشرے کے بزرگ عموماً ایک بات کہا کرتے تھے کہ بچوں کو مٹی میں کھیلنے دیا جائے اس سے صحت اچھی ہوتی ہے ‘ لیکن بہت لوگ اس روش سے کتراتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں یہ کوئی اچھا کام نہیں اور اس سے بچوں کو بیماریاں لگنے کے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے۔

    تاہم جدید تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ بڑے بوڑھوں کے ذریعے ہم تک پہنچی باتیں درحقیقت صدیوں کے تجربات کا نچوڑ ہیں ‘ چاہے وہ ان باتوں کی سائنسی توجیہا ت سے ناواقف ہوں لیکن انسانی زندگی کے نظام کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔

    مٹی میں کھیلنے کے فائدے


    تحقیق کے مطابق مٹی میں کھیلنے اور وقت گزارنے سے انسانی جسم کا نظامِ مدافعت بے پناہ مضبوط ہوجاتا ہے اور جسم کو جراثیم کے خلاف لڑنے کی انوکھی طاقت ملتی ہے۔

    مٹی میں وقت گزارنے سے انسانی جسم کو دائم اور موروثی امراض کے خلاف لڑنے کے لیے طاقت ملتی ہے اور انسان بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔

    ایک اور حیرت انگیز فائدہ جو سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ مٹی میں وقت گزارنا دماغ میں سیروٹونن نامی قلمی مادے کی مقدار بڑھاتا ہے جو کہ اعصابی نظام کو مضبوط بنانے میں مدد دیتا ہے‘ جس بدنی افعال بہتر ہوتے ہیں اور فیصلہ سازی کی قوت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

    انسانی جسم اکثر اوقات مختلف اقسام کی الرجیز کا شکار ہوجاتا ہے ‘ مٹی میں کھیلنے سے ان الرجیز کے خاتمے مدد ملتی ہے اور انسان بہت سی الرجیز سے قبل ازوقت لڑنے کی صلاحیت پیدا کرلیتا ہے۔

    دیگر عوامل کی طرح ’انسان کا مزاج ‘ اسے دوسرے جانداروں سے ممتاز بناتا ہے‘ مٹی میں کھیلنے سے مزاج بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے جس کی وجہ تناؤ پیدا کرنے والے خلیات کا پرسکون ہونا ہے۔

     

    زیادہ صاف ماحول کے نقصانات


    سائنسی تحقیق کے مطابق بہت زیادہ صاف ماحول انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور بناتا ہے‘ الرجی کا سبب بنتا ہے اور موٹاپے کا سبب بھی بنتا ہے۔

    عموماً دیکھا گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر افرادجراثیم کو لے کر پریشان رہتے ہیں اور جراثیم کش ادویات اور صابن وغیرہ پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں لیکن قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جراثیم کش صابن انسانی جلد پر موجود ان جرثوموں کو بھی قتل کردیتے ہیں جو کہ بیماریوں سے لڑنے کے لیے کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔

    تو پھر گبھرائیے مت‘ اپنے بچوں کو گھر سے باہر لے کرنکلیں تاکہ وہ تازہ ہوا میں سانس لے سکیں اور مٹی میں کھیل کر خود کو تندرست رکھ سکیں۔ ان کے ساتھ کچھ دیر کھیل کر یقیناً آپ بھی بہت پرسکون محسوس کریں گے اور کچھ ہی دن میں دیکھیں گے کہ آپ کی صحت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔


    اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں