Tag: immunity

  • قوت مدافعت کا تعلق کس وٹامن سے ہے؟

    قوت مدافعت کا تعلق کس وٹامن سے ہے؟

    وٹامن سی کے بہت سارے فوائد ہیں یہ نہ صرف قوت مدافعت بڑھاتا ہے بلکہ مجموعی صحت کو بھی برقرار رکھتا ہے۔ موجودہ صورت حال میں بھی طبی ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قوت مدافعت کو مضبوط رکھا جائے اور وٹامن سی قوت مدافعت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    وٹامن سی کا چونکہ قوت مدافعت سے براہ راست تعلق ہے، اس لیے اس کی کمی کی وجہ سے کئی امراض لاحق ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، جدید سائنسی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ اس بات کے کئی ثبوت ہیں کہ وٹامن سی کئی امراض سے نجات دلانے میں معاون ہوتا ہے، جیسے نمونیہ اور مثانے کے امراض وغیرہ، وٹامن سی دل کی بیماریوں اور کینسر کے حملے سے بھی محفوظ رکھنے میں معاون ہوتا ہے۔

    نیوٹریشن جرنل میں شائع ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ وٹامن سی متاثرہ افراد کے علاج میں مدد کر سکتا ہے۔ سانس سے متعلق تکلیف کو کم روکنے کے علاوہ وٹامن سی پھیپھڑوں کی صحت کو بھی بہتر کرتا ہے۔

    جسم میں وٹامن سی کی کمی کی چند علامات ہیں جن میں موٹاپا، جلد کا خشک ہونا یا مسوڑھوں سے خون بہنا شامل ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ متوازن غذا کھانے سے کوئی بھی شخص وٹامن سی کی کمی کو باآسانی پوری کر سکتا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ وٹامن سی کا حصول روزانہ کی بنیاد پر اس لیے بھی ضروری سمجھا جاتا ہے کیونکہ انسانی جسم نہ تو وٹامن سی خود پیدا کرتا ہے اور نہ ہی اسے ذخیرہ کرتا ہے۔

    وٹامن سی کی کمی کی وجوہات

    ایسے افراد جو متوازن غذا کا استعمال نہیں کرتے ان کے جسم میں عموماً وٹامن سی کی کمی ہوتی ہے، اس کے علاوہ گردوں کے امراض میں مبتلا افراد جن کا ڈائیلاسز چل رہا ہو یا تمباکو نوشی کے عادی افراد کو روزانہ 35 ملی گرام وٹامن سی کی اضافی مقدار لینے کی تجویز دی جاتی ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق ایسے افراد کے جسم میں ایسے فری ریڈیکل پیدا ہو جاتے ہیں جن کے لیے وٹامن سی کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، وٹامن سی کی کمی کی علامات تین ماہ کے اندر ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

  • قوت مدافعت اچھی صحت کی ضامن : مضبوط کن غذاؤں سے بنائیں؟

    قوت مدافعت اچھی صحت کی ضامن : مضبوط کن غذاؤں سے بنائیں؟

    موجودہ موسم میں نمی کی وجہ سے بیکٹیریا اور دیگر وائرس کی بڑھتی نشونما کی وجہ سے قوت مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے جس سے لوگوں کے بیمار ہونے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔

    انسان کی قوت مدافعت اس کی صحت کی ضامن ہے اسی لیے مدافعتی نظام کو ہر وقت اس کی بہترین حالت میں رکھنا بھی ضروری ہے۔

    درجہ حرارت کی بدلتی صورتحال اور نمی انسان کی قوت مدافعت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، یہ عموماً نزلہ، زکام اور معدے کے مسائل کا سبب بنتی ہے۔

    قوت مدافعت کو مضبوط اور توانا بنانے کے لیے ماہرین صحت کی جانب سے بے شمار غذائیں تجویز کی گئیں ہیں جس میں ادرک، ہلدی، لہسن، اسٹرابیری، دہی اور لیموں اور دیگر بھی شامل ہیں۔

    ادرک

    ادرک میں قدرتی طور پر طاقتور سوزش اور آکسیڈینٹ کی مخالف خصوصیات والے مادے ہوتے ہیں، اس کے علاوہ ادرک میں جنجرول جیسے مرکبات بھی پائے جاتے ہیں جو سوزش اور آکسیڈیٹیو تناؤ کو کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

    ہلدی

    ہلدی میں کرکومین ہوتا ہے جو ایک ایسا مرکب ہے جس کے استعمال سے سوزش اور آکسیڈینٹ سٹریس کو کم کیا جاسکتا ہے۔ کرکومین انفیکشن سے لڑنے اور سوزش کو کم کرنے کے لیے مدافعتی نظام کی صلاحیت کو بڑھاتا ہے۔

    لہسن

    قوت مدافعت کی مضبوطی کیلیے لہسن کا استعمال بھی بڑا کارآمد ہوتا ہے۔ لہسن میں ایلیسن پایا جاتا ہے جس میں اینٹی مائکروبیل اور اینٹی وائرل خصوصیات ہوتی ہیں۔ اس کا استعمال سفید خون کے خلیات کی پیداوار کو بڑھاتا ہے اور جسم کے مدافعاتی نظام کو مظبوط کرتا ہے۔

    کھٹے پھل

    سنگترے، لیموں اور چکوترے جیسے کھٹے پھل وٹامن سی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ان کے استعمال سے خون کے سفید خلیوں کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ خلیے انفیکشن سے لڑنے میں کلیدی کرادر ادا کرتے ہیں جبکہ وٹامن سی ٹشوز کی مرمت اور نشوونما میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔

    دہی

    دہی میں پروبائیوٹکس ہوتے ہیں جنہیں مفید بیکٹیریا مانا جاتا ہے۔ اس کا استعمال آنتوں کی صحت کو بہتر بناتا ہے۔

    ایک صحت مند آنت مضبوط مدافعتی نظام کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ یہ اینٹی باڈیز کی پیداوار میں اہم کرادر ادا کرتی ہے۔

    بادام

    بادام وٹامن ای سے بھرپور ہوتے ہیں، وٹامن ای ایک اینٹی آکسیڈنٹ ہے جو صحت مند مدافعتی نظام کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا کرتا ہے۔ مٹھی بھر بادام بطور ناشتہ دلیے میں ملانا یا سنیک میں شامل کرکے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

  • ان 10 پھلوں کو چھلکوں سمیت لازمی کھائیں

    ان 10 پھلوں کو چھلکوں سمیت لازمی کھائیں

    پھلوں کے چھلکے غذائی اعتبار سے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، ان کی افادیت سے انکار کسی صورت ممکن نہیں، زیادہ تر چھلکے نظام ہاضمہ اور قوت مدافعت کی مضبوطی کا بہترین ذریعہ ہے۔

    پھلوں کے چھلکوں کی اگر بات کی جائے تو اِن چھلکوں میں فائبر، وٹامنز اور منرلز جیسے مفید غذائی اجزا ہوتے ہیں، پھلوں کے چھلکے سورج سے توانائی حاصل کرتے ہیں اور اندر موجود پھل کو سخت موسمی حالات سے محفوظ رکھتے ہیں۔

    ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق پھلوں کو ان کے چھلکے کے ساتھ کھانے سے اضافی غذائی اجزاء جیسے فائبر، وٹامنز اور اینٹی آکسیڈنٹس ملتے ہیں۔

    یہ فوائد ہاضمہ، مدافعتی صحت اور عام صحت کو بہتر بناتے ہیں، ان کے چھلکے کے ساتھ درج ذیل پھل کھانے کو ایک اچھا انتخاب سمجھاجاتا ہے۔

    امرود
    امرود ایک ورسٹائل اور غذائیت سے بھرپور پھل ہے جسے اس کے چھلکے کے ساتھ کھایا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ صحت مند اور تازگی بخش کھانے کے لیے فائبر، وٹامن سی اور اینٹی آکسیڈنٹس فراہم کرتا ہے۔

    انجیر
    آپ انجیر کھانے سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں جو اپنے میٹھے ذائقے اور بہت سے غذائی فوائد کے لیے مشہور ہیں۔ اس میں فائبر، وٹامنز اور اینٹی آکسیڈنٹس کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے۔

    خوبانی
    اپنی قدرتی مٹھاس اور صحت سے متعلق فوائد کے علاوہ خوبانی ایک رس دار اور غذائیت سے بھرپور پھل ہے جسے اس کے چھلکے کے ساتھ کھایا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ فائبر اور وٹامن اے اور سی فراہم کرتے ہیں۔

    آم
    آم کے چھلکے کا وزن تقریباً 1.7 گرام ہوتا ہے اور اس میں فائبر اور 36 فیصد وٹامن سی ہوتا ہے، جو ہاضمہ، قوت مدافعت اور جلد کو بہتر بناتا ہے۔

    چیری
    چیری اور ان کے چھلکے کو کھانا عام ہے جس کے مشہور صحت کے فوائد ہیں اور یہ صحت مند اور آسان ناشتے میں جسم کو فائبر، اینٹی آکسیڈنٹس اور وٹامن فراہم کرتے ہیں۔

    آڑو
    آڑو کے چھلکے کھانے سے فائبر، وٹامن اے اور سی اور اینٹی آکسیڈنٹس ملتے ہیں۔ ہر 100 گرام میں چھلکے میں 2-3 گرام فائبر اور تجویز کردہ روزانہ وٹامن سی کی مقدار کا تقریباً 10-15 فیصد ہوتا ہے۔

    آلوبخارہ
    آلو بخارے کا چھلکا اینٹی آکسیڈینٹس سے بھرا ہوتا ہے، خاص طور پر اینتھوسیاننزمرکب جسم کی مجموعی صحت کو برقرار رکھنے اور خلیوں کو نقصان سے بچانے کے لیے آکسیڈیٹیو تناؤ اور سوزش سے لڑتے ہیں۔

    انگور
    انگور کے دانوں کےچھلکے میں 1.4 گرام فائبر ہوتا ہے۔ یہ ریسویراٹرول کے علاوہ وٹامن سی کی روزانہ کی ضرورت کا تقریباً 20 فیصد بھی فراہم کرتا ہے، جو دل کے لیے اہم صحت کے فوائد فراہم کرتا ہے اور سوزش کو کم کرتا ہے۔

    ناشپاتی
    ناشپاتی کا چھلکا فائبر اور وٹامن سی کا بھرپور ذریعہ ہے۔ اس میں 3.1 گرام فائبر اور روزانہ وٹامن سی کا تقریباً 5-6 فیصد ہوتا ہے جو بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتا ہے اور قدرتی قوت مدافعت کو بڑھانے میں مدد کرتا ہے۔

    سیب
    سیب کا چھلکا فائبر، اینٹی آکسیڈنٹس اور وٹامنز سے بھرپور ہوتا ہے، جو روزانہ 2.4 گرام فائبر اور 5-7 فی صد وٹامن سی فراہم کرتا ہے، جو ہاضمے، دل کی صحت اور مجموعی صحت کو سہارا دیتا ہے۔

  • برص کا علاج اب ناممکن نہیں رہا، جانیے کیسے؟

    برص کا علاج اب ناممکن نہیں رہا، جانیے کیسے؟

    برص یا پھلبہری کی بیماری کو انگریزی زبان میں ویٹیلیگو کہا جاتا ہے، پھلبہری قوت مدافعت کی بیماری ہے جس میں جسم کا مدافعتی نظام جلد میں روغن کے خلیوں پر حملہ کرتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں معروف ڈرماٹولوجسٹ ڈاکٹر کاشف نے برص کی وجوہات اور اس کے علاج کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔

    انہوں نے بتایا کہ برص ایک جِلد کی بیماری ہے یہ بیماری لاحق ہونے کی صورت میں جِلد کی میلانن کم یا ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ میلانن ان پگمنٹس کو کہا جاتا ہے جن کی وجہ سے جلد میں رنگت پائی جاتی ہے۔

    ایک عام غلط فہمی :

    انہوں نے بتایا کہ یہ غلط فہمی بہت زیادہ عام ہے کہ یہ بیماری مچھلی کھانے کے بعد دودھ پینے سے ہوتی ہے، جو سراسر بے بنیاد اور من گھڑت ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

    ڈاکٹر کاشف نے بتایا کہ اس مرض کی وجہ سے پگمنٹس کی پیدائش اور افزائش رک جاتی ہے جس کی وجہ سے برص یا پھلبہری شدت اختیار کرنا شروع ہو جاتی ہے۔

    عمومی طور پر اس مرض کی ابتداء ایک چھوٹے سے سفید دھبے سے ہوتی ہے لیکن بعد میں یہ دھبے آہستہ آہستہ جسم کے کسی خاص حصے یا سارے جسم پر پھیلنا شروع ہو جاتے ہیں۔

    یہ کیوں لاحق ہوتی ہے؟

    اس بیماری کی وجوہات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ کیوں لاحق ہوتی ہے۔

    یہ موروثی بیماریوں کی فہرست میں اس لیے شامل نہیں ہے کیوں کہ اس بیماری میں مبتلا ہونے والے مریضوں کی فیملی میں پہلے کسی کو اور خاص طور پر والدین کو یہ بیماری لاحق نہیں ہوتی۔

    برص یا پھلہری کا علاج :

    انہوں نے بتایا کہ اس مرض کے علاج کیلئے وٹامن ڈی سے بھرپور غذاؤں کو خوراک میں لازمی شامل کرنا بہت ضروری ہے اور سپلیمنٹیشن ضروری ہے، بہترین ذرائع میں کوڈ لیور آئل شامل ہیں۔ مچھلی بشمول سالمن، ٹونا کچا دودھ اور انڈوں کا استعمال کریں۔

    اس کے علاوہ جلد کی مجموعی صحت کے لیے کیروٹینائڈز ضروری ہیں، بیٹا کیروٹین، لیوٹین اور لیکوپین میٹھے آلو، گاجر اور ٹماٹر جیسے ذائقے دار کھانوں میں پائے جاتے ہیں۔

    بیٹا کیروٹین کینسر مخالف خصوصیات، آنکھوں کی صحت کے ساتھ لیوٹین کینسر کے کم خطرے کے ساتھ لائکوپین سے وابستہ اور جلد کو میلانوما سمیت نقصان سے بچانے میں مدد کر سکتے ہیں۔

  • ’’وٹامن ای‘‘ کے کیپسول کب اور کیسے کھانے چاہیئں؟

    ’’وٹامن ای‘‘ کے کیپسول کب اور کیسے کھانے چاہیئں؟

    قوت مدافعت کو مستحکم اور مضبوط رکھنے کے لیے وٹامنز اور منرلز کو بنیادی اجزا کی حیثیت حاصل ہے، تاہم اس بات کا خصوصی خیال رکھا جائے کہ کون سا وٹامن کب اور کیسے استعمال کیا جائے۔

    آج کل خواتین جلد اور بالوں سمیت بہت سے مسائل کے حل کیلیے وٹامن ای کے کیپسول کا استعمال کررہی ہیں جو بعض اوقات نہایت مضر اور خرابی صحت کا باعث بن رہا ہے۔

    سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی قسم کے وٹامنز اور ادویات اپنے معالج کے مشورے کے بغیر ہرگز استعمال نہ کریں۔

    وٹامن

    اس قسم کے کیپسول آپ کے لئے ہے یا نہیں ؟ یا آپ کے جسمانی یا جلدی امراض کیلئے کہاں تک مفید ہے یہ بات معالج سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔

    اگر یہ کیپسولز غیرضروری طور پر آپ نے اپنی خوراک میں شامل کیا تو یہ آپ کی جان کے لئے خطرہ بھی بن سکتا ہے لہٰذا اس کے استعمال میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔

    مذکورہ کیپسول کن حالات میں لیا جائے اور اس کے کیا فوائد ہیں اور اس کو کتنہ مقدار میں کھانا چاہیے؟ ماہر صحت کے مشوروں کی روشنی میں آج کے مضمون میں ہم اس کا احاطہ کریں گے۔

    غذائیں

    ویسے تو وٹامن ای بہت شاندار وٹامن ہے لیکن اس کے استعمال میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے، یہ وٹامن دل، گردوں، جگر، دماغ اعصاب اور مردوں اور عورتوں کی جنسی صحت کے لئے بہت ضروری ہے تاہم اس کی زیادتی بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

    یہ وٹامن ویجیٹیبل آئل، سبز پتوں والی سبزیوں، انڈے، مچھلی، نٹس اور بینز وغیرہ میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ جس طرح کسی بھی وٹامن کی کمی جسم کے لئے اچھی نہیں ہوتی اسی طرح اس کی زیادتی بھی آپ کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق ایک بالغ مرد و عورت کیلئے اس کی یومیہ خوراک 15 ملی گرام ہے، اس کے کیپسول عام طور پر 200 یا 400 ملی گرام میں دستیاب ہیں جبکہ ہماری جسمانی ضرورت روزانہ 14 سال یا اس سے زیادہ کی عمر میں 15 ملی گرام ہے۔

    جب ہم یہ کیپسول کھاتے ہیں تو یہ چھوٹی آنت میں پہنچ کر بہت کم مقدار اپنے اندر جذب کرتا ہے۔ تقریباً 15 سے 20 ملی گرام ہی اپنے اندر جذب کرتا ہے لیکن پھر بھی اگر آپ 200 ملی گرام والا کیپسول کھا رہے ہیں تو ایک دن چھوڑ کر کھائیں تاکہ اوور ڈوز نہ ہو جائے۔

    وٹامن ای کے فوائد

    ویسے تو یہ وٹامن دل اور شوگر کے مریضوں کے لئے فائدہ مند ہے لیکن اگر دل کے مریض اس کا باقاعدہ اور مسلسل استعمال کریںگے تو اس سے ان کے ہارٹ فیل ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

    یاد رکھیں کہ کسی بھی وٹامن کو ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر نہیں لینا چاہیے کیونکہ آپ کو نہیں پتہ ہوتا کہ کون سا وٹامن آپ کو آپ کی جسمانی ضروریات کے حساب سے ضروری ہے اور کون سا آپ کے لئے خطرناک ہے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • کیا محمد بن سلمان کو وزیر اعظم بننے کے بعد خاشقجی مقدمے میں استثنیٰ حاصل ہو گیا؟

    کیا محمد بن سلمان کو وزیر اعظم بننے کے بعد خاشقجی مقدمے میں استثنیٰ حاصل ہو گیا؟

    ریاض: صحافی جمال خاشقجی قتل کیس میں شہزادہ محمد بن سلمان کو استثنیٰ ملنے کا دعویٰ سامنے آ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی ولئ عہد کے وکلا نے 3 اکتوبر پیر کے روز ایک امریکی عدالت کو بتایا کہ چوں کہ ولی عہد کو اب سلطنت کا وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا ہے، اس لیے انھیں یقینی طور پر کسی بھی عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔

    خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق محمد بن سلمان کے وکلا نے اپنی دلیل میں کہا ہے کہ حال ہی میں سعودی عرب نے جو شاہی حکم نامہ جاری کیا ہے اس کی بنیاد پر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عہدے اور حیثیت کی بنیاد پر ولی عہد شہزادہ استثنیٰ کے حق دار ہیں۔

    محمد بن سلمان کے وکلا نے عدالت سے مقدمے کو خارج کرنے کی درخواست کرنے والی اپنی عرضی میں ایسے دوسرے کیسز کا حوالہ بھی دیا ہے جہاں امریکا نے غیر ملکی سربراہ مملکت کے لیے استثنیٰ کو تسلیم کیا ہے۔

    عدالت نے سماعت کے بعد امریکی محکمہ انصاف سے کہا کہ اس بارے میں وہ اپنی رائے کا اظہار کرے کہ آیا شہزادہ محمد بن سلمان کو استثنیٰ حاصل ہے یا نہیں۔

    امریکی محکمہ انصاف نے کہا کہ چوں کہ محمد بن سلمان کو گزشتہ ہفتے ہی وزارت عظمی کے عہدے پر فائز کیا گیا ہے اس لیے، بدلے ہوئے حالات کی روشنی میں اسے جواب دینے کے لیے کم سے کم 45 دن کی مہلت دی جائے۔

    یاد رہے کہ 2018 میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا اور اس سلسلے میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے خلاف امریکا کی ایک عدالت میں قتل کا مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔

    امریکی انٹیلیجنس کا خیال ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے ہی ان کے قتل کا حکم دیا تھا، جو گزشتہ کئی برس سے مملکت کے عملی حکمران بھی ہیں۔ یہ مقدمہ خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیزی اور خاشقجی کے قائم کردہ انسانی حقوق کے گروپ نے مشترکہ طور پر دائر کیا تھا۔

    مقدمے میں محمد بن سلمان کے ساتھ ہی ان 20 سے زائد دیگر سعودی شہریوں پر بھی مقدمہ دائر کیا گیا ہے، جن پر قتل کا آپریشن انجام دینے کا الزام ہے۔

  • یہ علامات دیکھ لیں تو سمجھ جائیں کہ قوت مدافعت کمزور ہو رہی ہے

    یہ علامات دیکھ لیں تو سمجھ جائیں کہ قوت مدافعت کمزور ہو رہی ہے

    امیونٹی سسٹم یعنی انسانی قوت مدافعت ہمارے جسم کو نہ صرف مختلف بیماریوں بلکہ ماحولیاتی قوتوں کے حملوں سے بھی محفوظ رکھتی ہے، اس لیے اسے سمجھنے کی بہت اہمیت ہے۔

    اگر آپ یہ علامات دیکھ لیں تو سمجھ جائیں کہ قوت مدافعت کمزور ہو رہی ہے، اور آپ کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیئں، کیوں کہ جب مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے تو یہ جسم کو خطرناک بیماریوں سے بچانے کے لیے مؤثر انداز میں کام نہیں کر پاتا۔

    1. بار بار نزلہ

    اگر آپ کو بار بار نزلہ ہو رہا ہے یا نزلے کی علامات دوبارہ آ رہی ہیں، تو سمجھ لیں کہ آپ کا مدافعتی نظام کمزور ہے، لیکن یہ یاد رکھیں کہ سردی اور اس سے پیدا ہونے والا انفیکشن اکثر سات سے 10 دن میں ٹھیک ہو جاتا ہے۔

    2. مستقل تھکاوٹ

    سخت محنت کے بعد تھکاوٹ محسوس ہونا فطری ہے، لیکن اگر کافی آرام ملنے کے بعد بھی تھکاوٹ برقرار رہتی ہے تو یہ مدافعتی نظام کی کمزوری کی علامت ہو سکتی ہے، وجہ یہ ہے کہ جب جسم کا دفاعی نظام مؤثر انداز میں کام نہیں کر رہا ہوتا تو یہ تیزی سے تھکاوٹ محسوس کرتا ہے۔

    3. جِلدی بیماریاں اور زخموں کا نہ بھرنا

    اگر آپ نے محسوس کیا کہ جلد پر آپ کے زخم ٹھیک ہونے میں معمول سے زیادہ وقت لے رہے ہیں تو آپ کا مدافعتی نظام کمزور ہے، مدافعتی نظام جلد کو شفا بخش اور مؤثر بیکٹیریا یا جراثیم سے لڑنے میں مدد کرتا ہے، اور انفیکشن کا خطرہ کم کرتا ہے۔

    مدافعتی نظام کے کمزور ہونے سے جلد کے معمول کے کام میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، جس کی وجہ سے جلد کے انفیکشن سے لڑنے کی قوت کمزور ہو جاتی ہے۔

    آپ کی جلد جراثیم سے لڑنے میں سب سے پہلی رکاوٹ ہے، جِلد پر بار بار خارش ہونا یا خشک جلد سوزش کی علامت ہے اور ہو سکتا ہے کہ آپ کا مدافعتی نظام بھی کمزور ہو۔

    4. خون کی خرابی

    خون کی کچھ بیماریاں کمزور مدافعتی نظام کی نشان دہی کرتی ہیں جن میں ہیموفیلیا، انیمیا، خون کا جمنا اور خون کا کینسر (جیسا کہ لیمفوما، لیوکیمیا، اور مائیلوما) شامل ہیں۔

    5. اعضا کی سوزش

    اعضا کی سوزش جسم کی قوت مدافعت کو بھی سُست کر سکتی ہے، جس کی وجہ خلیوں کا انفیکشن، بیکٹیریا، ٹروما یا گرمی ہو سکتی ہے، جسم میں کسی قسم کی چوٹ سوزش کا باعث بن سکتی ہے اور یہ کمزور مدافعتی نظام کی علامت ہے۔

    6. اس کے علاوہ آٹو امیون امراض ہیں، مدافعتی نظام کی یہ بیماریاں مدافعتی نظام کی سرگرمی کو متاثر کرنے کا سبب بن سکتی ہیں، اگر یہ نظام ضرورت سے زیادہ متحرک ہو تو جسم اپنے ٹشوز کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتا ہے، جس سے آٹو امیون بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

    اسی طرح کمزور مدافعتی نظام بچوں کی کمزور نشوونما کا باعث بنتا ہے، لہٰذا اگر آپ نے محسوس کیا کہ آپ کا بچے کا جسم معمول کے مطابق نہیں بڑھ رہا ہے تو آپ کو ڈاکٹر سے بچے کا معائنہ کروانے کی ضرورت ہے، یاد رہے کہ بعض اوقات نشوونما میں تاخیر ناقص خوراک کی وجہ سے بھی ہوتی ہے۔

  • اومیکرون : سعودی حکومت نے نئے مرحلے پر کام شروع کردیا

    اومیکرون : سعودی حکومت نے نئے مرحلے پر کام شروع کردیا

    ریاض : سعودی عرب کے وزارت صحت کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہم اس وقت کورونا سے نمٹنے کے ایک اہم مرحلے میں ہیں اور کیسز میں اضافے کے باوجود ان میں سنگینی ماضی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

    سعودی ذرائع کے مطابق وزارت صحت کے ترجمان ڈاکٹر محمد العبد العالی نے کہا کہ ہم اب ایک اہم مرحلے میں ہیں جس کا عنوان "ہماری قوت مدافعت زندگی” ہے۔

    محمد العبد العالی نے اتوار کو پریس کانفرنس میں کہا کہ کیسز میں اضافے کے باوجود یہ مرض اب اتنا سنگین نہیں رہا۔

    العبد العالی نے کہا کہ موجودہ مرحلہ جس میں ہم آج زندگی گزار رہے ہیں اس میں ویکسی نیشن کے ذریعے اچھے ہونے کی امید ہے، معاشرے کے بیشتر افراد نے دو خوراکیں اور بوسٹرڈوز بھی حاصل کرلیے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہمیں افواہوں، غلط فہمیوں اور جھوٹ کا مقابلہ کرنا چاہئے۔

    انہوں نے کہا کہ ’ہم دنیا بھر میں اور خاص کر مملکت میں کورونا کیسز کے کیسز کو مانیٹر کررہے ہیں اور نازک کیسز میں اس وقت کمی ہے اور ان کی شدت وہ نہیں جو ماضی میں تھی۔

    العبد العالی نے مزید کہا کہ اب ہم ویکسینیشن حاصل کیے ہوئے ہیں اور احتیاطی تدابیر پر عمل کررہے ہیں۔ مملکت میں گزشتہ کئی دنوں سے کورونا کے کیسز بڑھ رہے تھے مگر اب اس میں کمی ہونا شروع ہورہی ہے۔

    العبد العالی نے زور دے کر کہا کہ بوسٹر ڈوز اب 16 سال اور اس سے زیادہ عمر کے افراد کے لیے دستیاب ہے، اس لیے مرض سے بچاؤ کی خاطر اسے حاصل کرنے کی جلد از جلد کوشش کی جائے۔

  • اومیکرون ویرینٹ زیادہ تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے؟

    اومیکرون ویرینٹ زیادہ تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے؟

    حال ہی میں ایک تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ متعدی کیوں ہے؟

    ڈنمارک میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی قسم اومیکرون ویکسی نیشن کروانے والے افراد میں پیدا ہونے والی مدافعت پر حملہ آور ہونے کے لیے ڈیلٹا سے زیادہ بہتر ہے۔

    کوپن ہیگن یونیورسٹی، اسٹیٹکس ڈنمارک اور اسٹیٹنز سیرم انسٹیٹوٹ کی مشترکہ تحقیق سے یہ وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ اومیکرون قسم اتنی زیادہ تیزی سے کیوں پھیل رہی ہے۔

    نومبر 2021 میں بہت زیادہ میوٹیشن والی قسم اومیکرون کی دریافت کے بعد سے دنیا بھر میں سائنسدانوں کی جانب سے اس کے بارے میں جاننے کے لیے کام کیا جارہا ہے تاکہ دریافت کیا جاسکے کہ کیا واقعی اس سے متاثر افراد میں بیماری کی شدت کم ہوتی ہے۔

    اسی طرح وہ یہ بھی جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ آخر یہ نئی قسم ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ متعدی کیوں نظر آتی ہے۔

    اس تحقیق میں دسمبر 2021 کے وسط میں ڈنمارک کے لگ بھگ 12 ہزار گھرانوں کی جانچ پڑتال میں دریافت کیا گیا کہ اومیکرون ویکسنیشن کرانے والے افراد میں ڈیلٹا کے مقابلے میں 2.7 سے 3.7 گنا زیادہ متعدی ہے۔

    تحقیق کے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ وائرس کی نئی قسم اس لیے برق رفتاری سے پھیل رہی ہے کیونکہ یہ ویکسینز سے پیدا ہونے والی مدافعتی نظام پر حملہ آور ہونے میں زیادہ بہتر ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہمارے نتائج سے تصدیق ہوتی ہے کہ اومیکرون کے تیزی سے پھیلنے کی بنیادی وجہ مدافعتی نظام پر حملہ آور ہونا ہے۔ ڈنمارک کی 78 فیصد آبادی کی ویکسی نیشن مکمل ہوچکی ہے جبکہ لگ بھگ 48 فیصد کو تیسری خوراک بھی استعمال کروائی جا چکی ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ بوسٹر ڈوز استعمال کرنے والے افراد میں وائرس کے پہنچنے کا امکان ویکسی نیشن نہ کروانے والے لوگوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے، چاہے قسم جو بھی ہو۔

    ماہرین کے مطابق اگرچہ اومیکرون زیادہ متعدی ہے مگر اس قسم سے بظاہر بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ نہیں ہوتا۔

    انہوں نے کہا کہ اگرچہ اومیکرون نظام صحت پر دباؤ ڈالنے کے قابل قسم ہے، مگر ہر چیز سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ ڈیلٹا کے مقابلے میں معتدل بیماری کا باعث بنتی ہے۔ ڈیلٹا کے مقابلے میں اومیکرون سے بیمار ہونے پر اسپتال میں داخلے کا خطرہ بھی 50 فیصد کم ہوتا ہے۔

  • کورونا وائرس : بوسٹر ڈوز کیلئے کون سی ویکسین مؤثر قرار

    کورونا وائرس : بوسٹر ڈوز کیلئے کون سی ویکسین مؤثر قرار

    یہ ابھی ثابت نہیں ہوا کہ کورونا ویکسین کی تیسری خوراک وائرس کی نئی قسم سے بچاؤ میں کتنی مؤثر ثابت ہو گی تاہم طبی ماہرین اومیکرون کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ویکسین کی تیسری خوراک کو ضروری قرار دے رہے ہیں۔

    ماہرین نے تیسری خوراک کے لیے "مکس اور میچ” کو بے ضرر قرار دیا ہے۔ امریکی ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کے مطابق بوسٹر شاٹ کے لیے کوئی بھی ویکسین استعمال کی جا سکتی ہے، یعنی یہ ضروری نہیں کہ جس ویکسین کی پہلی دو یا ایک خوراک لی گئی، بوسٹر شاٹ بھی اسی کا ہو۔

    برطانیہ میں سرکاری سطح پر کی گئی تحقیق کے مطابق طبّی ماہرین سمجھتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ تر ویکسینوں کا مدافعتی اثر زائل یا کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ کوویڈ19 ویکسین کی تیسری خوراک سے جسم میں مدافعت بڑھے گی اور وائرس کے خلاف لڑنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوویڈ ویکسین کی اضافی خوراک جسم کے مدافعتی دفاع کو ڈرامائی حد تک مضبوط کردیتی ہے۔

    کوو بوسٹ ٹرائل نامی اس تحقیق میں 3 ہزار کے قریب ایسے افراد شامل کیے گئے تھے جن کو7 میں سے ایک کووڈ بوسٹر ڈوز استعمال کرایا گیا تھا یا ایسٹرا زینیکا یا فائزر ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے2 سے3 ماہ بعد ایک کنٹرول ویکسین دی گئی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جن افراد کو ایسٹرا زینیکا ویکسین کی دو خوراکوں کے بعد بوسٹر ڈوز کے طور پر فائزر ویکسین استعمال کرائی گئی ان میں وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں کنٹرول گروپ کے مقابلے میں ایک ماہ بعد لگ بھگ 25 گنا اضافہ ہوگیا۔

    اسی طرح فائزر کی دو خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کو تیسرا ڈوز بھی اسی ویکسین کا دیا گیا تو اینٹی باڈیز کی سطح میں 8 گنا سے زیادہ اضافہ ہوگیا۔

    مگر تحقیق میں بہترین خوراک موڈرنا ویکسین کو قرار دیا گیا جس کے استعمال سے ایسٹرا زینیکا گروپ کے افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح میں 32 گنا جبکہ فائزر گروپ میں 11 گنا اضافہ ہوا۔

    اگرچہ تحقیق کے نتائج سے ثابت ہوا کہ فائزر اور موڈرنا ایم آر این اے ویکسینز بوسٹر کے طور پر بہت زیادہ مؤثر ہیں مگر ماہرین نے انتباہ کیا کہ دونوں کا موازنہ کرنا درست نہیں۔

    مثال کے طور پر فائزر ویکسینز استعمال کرنے والے افراد میں چند ماہ بعد بھی اینٹی باڈیز کی سطح کافی حد تک زیادہ تھی تو بوسٹر سے بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوسکا۔

    محققین نے بتایا کہ یہ حیران کن حد تک بوسٹر ویکسینز ہیں، جن کی ہسپتال میں داخلے اور موت کی روک تھام کے لیے ضرورت ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ تیسری خوراک کے استعمال کے بعد مضر اثرات مختلف تھے مگر بیشتر افراد نے تھکاوٹ، سردرد یا انجیکشن کے مقام پر تکلیف کو رپورٹ کیا جبکہ کسی قسم کے سنگین اثرات مرتب نہیں ہوئے۔

    اینٹی باڈیز سے ہٹ کر محققین نے بوسٹر ڈوز کے ٹی سیلز پر اثرات کی بھی جانچ پڑتال کی۔ ٹی سیلز مدافعتی نظام کا ایک اور اہم پہلو ہے جسے امراض کی سنگین شدت کی روک تھام سے منسلک کیا جاتا ہے۔

    بیشتر بوسٹرز بشمول فائزر، موڈرنا اور ایسٹرا زینیکا سے ٹی سیلز کی سطح میں اضافہ ہوا چاہے رضاکاروں نے ابتدائی 2 خوراکیں کسی بھی ویکسین کی استعمال کی ہوں۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ ٹی سیلز کا ردعمل بیٹا اور ڈٰلٹا اقسام کے خلاف بھی اوریجنل وائرس جتنا ہی ٹھوس تھا۔

    محققین نے کہا کہ ہماری توقع ہے کہ بوسٹر ڈوز سے کورونا کی نئی قسم اومیکرون سے متاثر ہونے پر ہسپتال میں داخلے اور موت سے ٹھوس تحفظ ملے گا۔

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ لوگوں کو بوسٹر ڈوز کے لیے ابتدائی ویکسینیشن کے بعد 3 سے 6 ماہ تک انتظار کرنا چاہیے۔

    تحقیق میں ایسٹرا زینیکا کو بھی مؤثر بوسٹر قرار دیا گیا جس سے اینٹی باڈیز کی سطح میں 3 سے 5 گنا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے لانسیٹ میں شائع ہوئے۔