Tag: immunity

  • دو اقسام کی کورونا ویکسین کو ملا کر لگوانا کیسا ہے ؟

    دو اقسام کی کورونا ویکسین کو ملا کر لگوانا کیسا ہے ؟

    گزشتہ سال کے آغاز سے ہی دنیا بھر کے لوگ ایک ایسی کورونا وائرس ویکسین آنے کی امید کررہے ہیں جس کے لگانے کے بعد وہ اپنی سابقہ معمول کی زندگی دوبارہ شروع کرسکیں۔

    اس مقصد کیلئے دنیا بھر میں جتنی بھی کرونا وائرس ویکسین استعمال کی جارہی ہیں وہ چند ہفتوں کے فاصلے کے ساتھ دو دفعہ لگائی جارہی ہیں لیکن جو حفاظت آپ کو ویکسین مہیا کرے گی وہ فوری نہیں۔

    کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ دو اقسام کی ویکسین لگوانا کارآمد ہوگی لیکن دنیا میں کوئی تحقیق کا کوئی ایسا ثبوت نہیں ہے کہ جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ دو کورونا ویکسین کا امتزاج قابل علاج ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام با خبر سویرا میں وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز ڈاکٹر جاوید اکرم نے کورونا ویکسین کے امتزاج یا اس کے اثرات پر گفتگو کی۔

    انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے پاکستان مینن دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں پہلے وہ جو ویکسین لگوانا ہی نہیں چاہتے اور دوسرے ایسے بھی ہی جو کورونا ویکسین کی تیسری خوراک لینے کے خواہشمند ہیں۔

    ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ ابھی ہم نے پاکستان کے 18 کروڑ افراد کو ویکسین لگانی ہے، لیکن یہ بڑ اظلم ہوگا کہ ہم کسی کو تین خوراکیں لگادیں تو کوئی ایک خوراک  بھی نہ لگوا سکے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ویکسین سو فیصد تک مؤثر نہیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ ویکسین لگوانے سے کوئی بڑی تکلیف یا بیماری نہیں آئے گی کہ جس سے انسانی جان کوخطرہ ہو۔

  • قوت مدافعت بڑھانے کیلئے کون سی غذائیں مفید ہیں ؟ جانیے!!

    قوت مدافعت بڑھانے کیلئے کون سی غذائیں مفید ہیں ؟ جانیے!!

    دنیا بھر میں پھیلنے والی وبا کورونا وائرس کے بعد سے قوت مدافعت بڑھانے والی غذاؤں سے متعلق موضوعات لوگوں میں زیر بحث رہے ہیں، وائرس سے مقابلہ کرنے کی طاقت پیدا کرنے کیلئے لوگ اپنی قوت مدافعت میں اضافے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔

    دنیا بھر میں لوگوں نے ایسی غذا پر خصوصی توجہ دینا شروع کر دی ہے جو ان کی قوت مدافعت بڑھا سکتی ہے تاکہ وائرس سے مقابلہ کرنے کی طاقت پیدا ہو سکے۔

    ویب سائٹ نیوز 18 کے مطابق معدنیات اور وٹامن سے بھرپور کھانے خوراک کا حصہ ہونی چاہیے۔ کورونا کی وبا سے مقابلے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی صحت کا خیال رکھا جائے، تاہم ایسے میں ویکسین لگوانے کو اولین ترجیح دی جائے۔ قوت مدافعت بڑھانے کے لیے خوراک میں آئرن سے بھرپور غذا کا روزانہ استعمال یقینی بنانا چاہیے۔

    پالک ایک ایسی سبزی ہے جسے آئرن کے حصول کا بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے جو قوت مدافعت بھی بڑھانے میں انتہائی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ آئرن کے علاوہ پالک میں کیلشیم، سوڈیئم اور فاسفورس کی بھی وافر مقدار پائی جاتی ہے۔ خون میں ہیمو گلوبن بڑھانے کے لیے بھی پالک کو مفید سمجھا جاتا ہے۔

    خشک میوہ جات جیسے کشمش اور انجیر بھی آئرن سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ان کے استعمال سے جسم میں آئرن کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ خشک میوہ جات کھانے سے خون کے خلیات کی تعداد میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔

    دالیں کھانے سے بھی جسم میں آئرن کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ ایک کپ پکی ہوئی دال میں چھ ملی گرام تک آئرن موجود ہوتی ہے جو انسانی جسم کے لیے روزانہ کی بنیاد پر لازمی قرار دی گئی مقدار کا 37 فیصد ہے۔

    آئرن کی وافر مقدار میں حصول کے لیے سویا بین کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ ایک سو گرام کچی سویا بین میں 15.7 ملی گرام آئرن موجود ہوتی ہے۔ سویا بین سے بنے ہوئے کھانوں کا روزانہ استعمال آئرن کی کمی کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

    سبزیوں میں پالک کے علاوہ آلو میں آئرن کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے۔ ایک کچے آلو میں 3.2 ملی گرام آئرن موجود ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ آلو فائبر، وٹامن سی، بی چھ اور پوٹاشیم حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

  • دوقسم کی ویکسین کی خوراکیں جسم پر کیسے اثرات مرتب کرتی ہیں؟

    دوقسم کی ویکسین کی خوراکیں جسم پر کیسے اثرات مرتب کرتی ہیں؟

    سیئول : ایک ہی شخص کو دو قسم کی کورونا ویکسینز لگوانے کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اس حوالے سے کی جانے والی تحقیق نے ماہرین کی بڑی مشکل آسان کردی۔

    جنوبی کوریا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایسٹرازینیکا اور فائزر ویکسینز کا امتزاج کورونا وائرسز کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں کئی گنا اضافہ کردیتا ہے۔

    اس تحقیق میں لوگوں کو دوویکسینز کی ایک، ایک خوراک کا استعمال کرواکے اثرات کا جائزہ لیا گیا جس کے بعد تمام افراد میں وائرس ناکارہ بننے والی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا۔

    India offers Covid vaccines to diplomats, including Pak, China | India News,The Indian Express

    تحقیق کے مطابق ایسٹرازینیکا کو بطور پہلی جبکہ فائزر ویکسین کو دوسری خوراک کے طور پر استعمال کرانے سے وائرس ناکارہ بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح ایسٹرازینیکا ویکسین کی 2 خوراکوں کے مقابلے میں 6 گنا زیادہ ہوتی ہیں۔

    تحقیق میں 499 طبی ورکرز کو شامل کیا گیا تھا، جن میں سے 100 کو 2 ویکسینز کی خوراکیں دی گئیں، 200 کو فائزر جبکہ باقی لوگوں کو ایسٹرازینیکا ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرائی گئیں۔

    تحقیق کے مطابق 2 ویکسینز استعمال کرنے والے افراد میں ان اینٹی باڈیز کی سطح فائزر ویکسین استعمال کرنے والے گروپ جتنی ہی تھی۔

    اس سے قبل جون میں ایک برطانوی تحقیق میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے جس میں پہلے ایسٹرازینیکا اور پھر فائزر ویکسین رضاکاروں کو استعمال کرائی گئی، جس سے ان میں بننے والے مدافعتی ردعمل ایسٹرازینیکا ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرنے والوں سے زیادہ طاقتور تھا۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ایک ہی ویکسین کی 2 خوراکوں کے بجائے دونوں ڈوز 2 مختلف ویکسینز کے استعمال کرنے سے کووڈ سے لڑنے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔

    FACT CHECK: Can you get infected with COVID-19 after vaccination? This is what government says

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ لوگوں کو پہلے ایسٹرازینیکا اور پھر فائزر ویکسین کی خوراک دینا زیادہ بہتر ردعمل کے لیے تیار کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ جنوبی کورین تحقیق میں کورونا وائرس کی نئی اقسام کے خلاف بھی ویکسینز کی افادیت کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    محققین نے دریافت کیا کہ ویکسینز کے امتزاج سے وائرس کی اوریجنل قسم کی روک تھام کرنے والی اینٹی باڈیز کی سطح ایلفا قسم کے خلاف یکساں سطح پر رہی، یہ وہ قسم ہے جو سب سے پہلے برطانیہ میں سامنے آئی تھی۔

    تاہم بیٹا (جنوبی افریقی قسم)، گیما (برازیلین قسم) اور ڈیلٹا (بھارتی قسم) کے خلاف ویکسینز کی وائرس ناکارہ بنانے والی صلاحیت میں ڈھائی سے 6گنا کمی دریافت کی گئی۔

  • کورونا سے صحتیاب افراد وائرس سے کس حد تک محفوظ رہتے ہیں؟؟

    کورونا سے صحتیاب افراد وائرس سے کس حد تک محفوظ رہتے ہیں؟؟

    ڈیڑھ سال قبل دنیا میں تباہی مچانے والا کورونا وائرس آج بھی اپنی بھرپور طاقت کے ساتھ انسانوں پر حملہ آور ہے، لیکن وقت کے ساتھ سائنسدان بھی اس سے بچاؤ کیلئے اپنی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔

    نئے کورونا وائرس کی وبا کو اب تک ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے مگر اب تک اس کے متعدد پہلو ماہرین کے لیے معمہ بنے ہوئے ہیں۔

    ان میں سے ایک یہ ہے کہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے شکار ہونے والے افراد میں دوبارہ اس کا امکان ہوتا ہے یا نہیں، اگر ان کو تحفظ ملتا ہے تو اس کا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے؟ اب ایک نئی تحقیق میں اس حوالے سے کسی حد تک ٹھوس جواب سامنے آیا ہے۔

    امریکا کی ایموری یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے مریضوں کو بیماری کے خلاف طویل المعیاد مؤثر تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ یہ اب تک کی سب سے جامع تحقیق قرار دی جارہی ہے جس میں 254 کووڈ مریضوں کو شامل کیا گیا تھا۔

    ان مریضوں میں بیماری کی شدت معمولی سے معتدل تھی اور بیماری کے 250 دن یا 8 مہینے بعد بھی ان میں وائرس کو ناکارہ بنانے والے مدافعتی ردعمل کو دیرپا اور ٹھوس دریافت کیا گیا۔

    محققین نے کہا کہ نتائج سے کووڈ کو شکست دینے کے بعد طویل المعیاد تحفظ کا عندیہ ملتا ہے اور ہم نے ایسے مدافعتی ردعمل کے مرحلے کو دریافت کیا جس کا تسلسل 8 ماہ بعد بھی برقرار تھا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ نہ صرف مدافعتی ردعمل کی شدت بیماری کی شدت کے ساتھ بڑھتی ہے بلکہ ہر عمر کے افراد میں یہ مختلف ہوسکتی ہے، یعنی ایسے نامعلوم عناصر موجود ہیں جو مختلف عمر کے گروپس میں کووڈ کے حوالے سے ردعمل پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔

    مہینے گزرنے کے ساتھ محققین نے جائزہ لیا کہ ان کا مدافعتی نظام کووڈ 19 کے خلاف کس قسم کے ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ جسمانی دفاعی ڈھال نہ صرف متعدد اقسام کے وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز بناتی ہے بلکہ مخصوص ٹی اور بی سیلز کو بھی متحرک کرکے یاد رہنے والی یادداشت کو تشکیل دیتی ہے جس سے ری انفیکشن کے خلاف زیادہ مستحکم تحفظ ملتا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کووڈ کے مریضوں کو دیگر عام انسانی کورونا وائرسز سے بھی تحفظ حاصل ہوگیا ہے اور اس سے عندیہ ملتا ہے کہ اس بیماری کو شکست دینے والے افراد کو کورونا کی نئی اقسام سے بھی تحفظ مل سکتا ہے۔

    اس سے قبل مئی 2021 میں جاپان کی یوکوہاما سٹی یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ کوویڈ سے بیمار ہونے والے97 فیصد افراد میں ایک سال بعد بھی وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اوسطاً ان افراد میں 6 ماہ بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح 98 فیصد اور ایک سال بعد 97 فیصد تھی۔

    تحقیق کے مطابق جن افراد میں کووڈ کی شدت معمولی تھی یا علامات ظاہر نہیں ہوئیں ان میں 6 ماہ بعد اینٹی باڈیز کی سطح 97 فیصد جبکہ ایک سال بعد 96 فیصد تھی اور سنگین شدت کا سامنا کرنے والوں میں یہ شرح سو فیصد تھی۔

    قبل ازیں اٹلی کے سان ریفلی ہاسپٹل کی تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں اس بیماری کے خلاف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز کم از کم 8 ماہ تک موجود رہ سکتی ہیں۔

    اس تحقیق میں بتایا گیا کہ مریض میں کووڈ 19 کی شدت جتنی بھی ہو اور ان کی عمر جو بھی ہو، یہ اینٹی باڈیز خون میں کم از کم 8 ماہ تک موجود رہتی ہیں۔

    اس تحقیق کے دوران 162 کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو اٹلی میں وبا کی پہلی لہر کے دوران ایمرجنسی روم میں داخل کرنا پڑا تھا۔

    ان میں سے 29 مریض ہلاک ہوگئے تھے جبکہ باقی افراد کے خون کے نمونے مارچ اور اپریل 2020 میں اکٹھے کیے گئے اور ایک بار پھر نومبر 2020 کے آخر میں ایسا کیا گیا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ان مریضوں کے خون میں وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود تھیں، اگرچہ ان کی شرح میں وقت کے ساتھ کمی آئی، مگر بیماری کی تشخیص کے 8 ماہ بعد بھی وہ موجود تھیں۔

    جنوری 2021 میں امریکا کے لا جولا انسٹیٹوٹ آف امیونولوجی کی تحقیق میں بھی دریافت کیا گیا تھا کہ اس مرض کو شکست دینے والے افراد میں کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین کے خلاف اینٹی باڈیز 6 ماہ بعد بھی مستحکم ہوتی ہیں۔

    اس کے علاوہ اس پروٹین کے لیے مخصوص میموری بی سیلز کی سطح بھی بیماری 6 ماہ بعد زیادہ ہوتی ہے، تاہم میموری ٹی سیلز کی تعداد میں 4 سے 6 ماہ کے دوران کمی آنے لگتی ہے، مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ مقدار باقی بچ جاتی ہے۔

    طبی جریدے سائنس میں شائع اس تحقیق میں شامل محقق شین کروٹی نے بتایا کہ کووڈ کے خلاف مدافعتی نظام کی مدافعت اس سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں ممکنہ طور پر کئی برس تک برقرار رہ کر انہیں کووڈ سے تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے سیل رپورٹس میڈیسین میں شائع ہوئے۔

  • کویت: گھریلو ملازمین کے اہم سہولت کا اعلان

    کویت: گھریلو ملازمین کے اہم سہولت کا اعلان

    کویت سٹی: کویت کے شہریوں اور رہائشیوں کی سہولت کے لیے امیونٹی ایپلی کیشن میں نئی اپڈیٹ کا اضافہ کردیا گیا جس سے گھریلو ملازمین کو سہولت ہوگی۔

    کویتی میڈیا کے مطابق وزارت صحت میں انفارمیشن سسٹمز ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر انجینئر احمد الغریب نے امیونٹی ایپلی کیشن کے بارے میں ایک اہم اپڈیٹ کا اعلان کیا ہے جس میں کوئی بھی فرد اپنے علاوہ اپنے 6 ساتھیوں کے بھی ویکسی نیشن ڈیٹا اور کووڈ 19 ٹیسٹ کے نتائج کو محفوظ کرسکتا ہے۔

    انجینیئر الغریب کا کہنا ہے کہ یہ اپڈیٹ شہریوں اور رہائشیوں کی سہولت کے لیے عمل میں آئی ہے جس سے کنبے کا سربراہ اپنے ساتھ 6 خاندان کے افراد کا ویکسی نیشن ریکارڈ ایک ہی ایپلی کیشن میں شامل کرسکتا ہے۔

    حکام کے مطابق چونکہ اب 12 سال سے بڑی عمر کے بچوں کی ویکسی نیشن کا آغاز بھی ہوچکا ہے، اس کے علاوہ گھریلو ملازمین کی ویکسی نیشن بھی مکمل ہوچکی ہے اور اکثریت کے پاس اسمارٹ فون نہیں ہیں لہٰذا کنبے کے سربراہ کو ان کا اضافی ڈیٹا محفوظ کرنے کا اختیار فراہم کرنے سے یہ سہولت ہوگی کہ سفر سے قبل یہ ڈیٹا دکھایا جاسکے۔

    انجینئر نے وضاحت کی کہ اضافی اقدامات کے لیے پہلے امیونٹی کی ایپلی کیشن میں لاگ ان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جہاں فرد کو ویکسی نیشن کی حیثیت والے صفحے کے آخر میں ویکسی نیشن پیج باکس نظر آئیں گے جس میں ویکسی نیشن کی حیثیت، کووڈ 19 ٹیسٹ رپورٹ، ہدایات اور ترتیبات شامل ہوتے ہیں۔

  • ذاتی صفائی کا خیال رکھنا کتنا ضروری؟

    ذاتی صفائی کا خیال رکھنا کتنا ضروری؟

    کرونا وائرس کی وبا نے ہمیں ذاتی صفائی کی طرف دھیان دلایا ہے لیکن اب بھی کئی لوگ اس چیز کو ضروری نہیں سمجھتے اور دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں ناہید انصاری نے شرکت کی اور ذاتی صفائی کے موضوع پر گفتگو کی۔

    انہوں نے بتایا کہ اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھنے سے قوت مدافعت میں بھی اضافہ ہوتا ہے جو کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے بھی ضروری ہے۔

    ناہید انصاری کا کہنا تھا کہ ماؤں کو بچپن سے ہی ان بنیادی باتوں کا شعور دینا چاہیئے کہ صبح اٹھ کر نہایا جائے، دانت صاف کیے جائیں، بال بنائے جائیں اور کپڑے بدلے جائیں اس کے بعد گھر سے باہر نکلا جائے۔

    انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس بھی ایک یاد دہانی تھی جس نے ہمیں ذاتی صفائی کی اہمیت کا احساس دلایا، ہم بار بار ہاتھ دھونے، اور ماسک پہننے پر مجبور ہوئے۔

    ناہید انصاری کا کہنا تھا کہ اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھنے سے ڈپریشن میں بھی کمی آتی ہے جبکہ شخصیت میں اعتماد آتا ہے۔

  • فائزر اور موڈرنا ویکسینز قوت مدافعت کو کتنا مضبوط بناتی ہیں؟ نئی تحقیق

    فائزر اور موڈرنا ویکسینز قوت مدافعت کو کتنا مضبوط بناتی ہیں؟ نئی تحقیق

    واشنگٹن : امریکہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فائزر اور موڈرنا کی ویکسینیں آنے والے کئی سالوں تک دنیا بھر کے انسانوں کو تحفظ مہیا کرسکتی ہیں۔

    مذکورہ تحقیق واشنگٹن یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیسن کے سائنس دانوں نے کی جس کے نتائج سے معلوم ہوا کہ موڈرنا اور فائزر کی ویکسینیں لگوانے والے افراد کے جسم میں وائرس کے مقابلے میں قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے اور اس سے کووڈ-19 کے مقابلے میں تا دیر تحفظ مہیا ہوتا ہے۔

    آن لائن میڈیکل نیوز ایجنسی ہیلتھ کی رپورٹ کے مطابق تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کرونا وائرس کی موجودہ نئی شکلوں سے محفوظ رہنے کے لیے ویکسین کی تیسری تقویتی خوراک لگوانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگروائرس کی کوئی ایسی نئی شکل ظہور پذیر ہوتی ہے جو آر این اے پر مبنی ان دونوں ویکسینوں کے مقابلے میں طاقتور ثابت ہوتی ہے تو پھراس کا کوئی نیا تدارک کرنا پڑے گا۔

    اس ضمن میں کی جانے والی تحقیق کے لیے ایسے افراد کو شامل کیا گیا جو ویکسین لگوا چکے تھے تاکہ ان کے خلیوں کا مطالعہ کیا جا سکے۔

    تحقیق کے مطابق خلیوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے جائزے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ویکسین کی پہلی خوراک لگوانے کے بعد خلیے مستقل طور پر اس اندازمیں عمل کررہے تھے کہ جسم کا وائرس کے مقابلے میں کیسے دفاع کیا جاسکتا ہے؟

    ماہرین کے مطابق اس طرح ان میں مسلسل قوت مدافعت پیدا ہورہی تھی اور اس کی بدولت وہ وائرس کی ظہور پذیر ہونے والی ایسی نئی شکلوں کے مقابلے میں بھی تحفظ مہیا کرسکتے ہیں۔

    سینٹ لوئی میں واقع واشنگٹن یونیورسٹی کے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹرعلی العبیدی کے زیر نگرانی ٹیم نے امریکہ کی دواساز فرموں کی تیارکردہ دونوں ویکسینوں کے دیرپا اثرات کا یہ مطالعہ کیا ہے۔

    اس میں شامل 14 شرکاء کو پہلے ویکسین کی ایک خوراک لگائی گئی اور پھر 15 ہفتے تک ان کے خلیاتی نظام میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

    تحقیقاتی ٹیم کا کہنا ہے کہ وائرس کی شناخت کرنے والے میموری (حافظے) کے خلیوں کی تعداد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔

    ڈاکٹر علی العبیدی نے امریکہ کے مؤقر اخبار نیو یارک ٹائمز سے اس ضمن میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اچھی علامت ہے اور اس سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ اس ویکسین سے ہمارا مدافعتی نظام کتنا پائیداراور مضبوط ہوتا ہے؟

    انہوں ںے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ویکسین لگوانے کے تقریباً 4 ماہ بعد تک ردعمل جاری رہا جو بہت ہی اچھی علامت ہے۔

    محققین کے مطابق کوویڈ-19 کے شکار ہونے والے افراد کے ہڈیوں کے گودے (بون میرو) میں وائرس کم سے کم 8 ماہ تک رہ سکتا ہے لیکن بعد میں اگر وائرس سے متاثرہ ایسے افراد کو ویکسین لگا دی جائے تو پھر ان میں قوت مدافعت کئی سال تک برقرار رہ سکتی ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ فائزر اور موڈرنا کی ویکسینیں لگوانے والے افراد کی کثیرتعداد کورونا وائرس اور اس کی اب تک سامنے آنے والی شکلوں سے کئی سال تک محفوظ رہ سکتی ہے۔

    لیکن ضعیف العمرافراد یا کم زور قوت مدافعت کے حامل افراد کو ویکسین کے اضافی تقویتی انجکشن لگانے کی ضرورت ہوگی مگر وائرس کے مقابلے میں ایم آراین اے ویکسینیں کتنے عرصے تک تحفظ مہیا کرسکتی ہیں؟ اس کا ابھی تعین نہیں کیا گیا ہے۔

  • کرونا ویکسی نیشن کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    کرونا ویکسی نیشن کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کرونا ویکسین نہ صرف کرونا وائرس سے محفوظ رکھتی ہے بلکہ وائرس سے متاثرہ لوگوں میں قوت مدافعت بھی بڑھا دیتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے کی جانے والی ویکسی نیشن وائرس سے متاثرہ لوگوں میں قدرتی مدافعت بڑھا دیتی ہے، یہاں تک کہ وہ تبدیل شدہ شکل کی حامل کرونا وائرس سے بھی انہیں ممکنہ طور پر محفوظ رکھتی ہے۔

    امریکا کی راک فیلیئر یونیورسٹی کے محققین نے کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے خون کا تجزیہ کیا تو انھیں ان مالیکیولز کے ارتقا کا اندازہ ہوا جو کہ مریضوں میں ویکسی نیشن کے بعد ڈیولپ ہوئے تھے۔

    یہ مالیکیولز مریضوں میں بہتر اور طویل المدتی دفاعی صلاحیت بڑھا دیتی ہے، اس تحقیق میں ایسے 63 افراد شامل تھے جو گزشتہ سال موسم بہار میں کرونا وائرس میں مبتلا ہوئے تھے، تاہم اس تحقیق کا ابھی دیگر ماہرین نے جائزہ نہیں لیا۔

    ان افراد کے فالو اپ ڈیٹا سے وقت گزرنے کے ساتھ ظاہر ہوا کہ ان کے امیون سسٹم کے میموری بی سیل نے جو اینٹی باڈیز پیدا کیے وہ سارس کووڈ 2 (جو کہ کرونا وائرس کا سبب بنتا ہے) کو نیوٹرلائز کرنے میں زیادہ بہتر ہوگئے تھے۔

    ماہرین نے اس گروپ میں شامل 26 افراد جنہیں موڈرنا یا فائزر ویکسین کی کم از کم ایک ڈوز لگ چکی تھی، ان میں اینٹی باڈیز مزید بڑھ چکے تھے۔ اور ان میں موجود مدافعتی نظام وائرس کے تبدیل شدہ شکل کے خلاف بھی غیر معمولی طور پر مزاحمت کا حامل ہوچکا تھا۔

  • کورونا وائرس : سائنسدانوں نے دنیا کو امید کی نئی کرن دکھا دی

    کورونا وائرس : سائنسدانوں نے دنیا کو امید کی نئی کرن دکھا دی

    کیلیفورنیا : امریکی محققین نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ انسداد کوویڈ 19ویکیسن لگوانے کے بعد انسان کی قوت مدافعت کافی عرصے تک وائرس کا مقابلہ کرسکتی ہے۔

    کورونا ویکسین کے حوالے سے کی گئی ایک تحقیق کے بعد امریکی محققین نے بتایا ہے کہ انسداد کورونا ویکسین کی خوراک لینے والے یا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کی قوت مدافعت میں وائرس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت طویل عرصے تک موجود رہتی ہے۔

    تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے بعد انسانی جسم میں کم از کم 8ماہ تک اس کے خلاف بہتر مدافعت قائم رہتی ہے جس کے باعث وائرس کے دوبارہ حملہ آور ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔

    محققین کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی جسم میں کرونا وائرس کے خلاف مدافعت مکمل طور پر ختم ہونے میں کئی سال لگیں گے۔ ان کا خیال ہے کہ اس سے کرونا وائرس کی ویکسین بار بار لگوانے کی مزيد ضرورت نہیں رہے گی اور وبا پر جلد قابو پانا بھی ممکن ہوگا۔

    اس تحقیق کے شریک مصنف، کیلیفورنیا میں واقع لاجولا انسٹی ٹیوٹ فار امیونولوجی کے ریسرچر شین کروٹی کہتے ہيں کہ شروع میں ہمیں ڈر تھا کہ اس مرض کے خلاف مدافعت زيادہ عرصے تک قائم نہيں رہے گی تاہم اس تحقیق کے نتائج سے ہمارا خوف کچھ حد تک کم ہوگیا ہے۔

    اس سے قبل ماضی میں کی گئی ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ کوویڈ19 کے خلاف مدافعت زيادہ عرصے تک قائم نہيں رہتی، جس کے نتیجے میں اس مرض کے شکار لاکھوں افراد کا دوبارہ انفیکشن کا شکار ہونے کا امکان بہت زيادہ تھا۔

    اس کے علاوہ دوسرے کرونا وائرسز کے خلاف مدافعت بھی زيادہ عرصے تک قائم نہيں رہتی، اسی لیے سائنسدانوں کو زيادہ حیرت نہيں ہوئی۔ تاہم جریدہ سائنس میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے نتائج کے مطابق جن افراد میں انفیکشن یا ویکسی نیشن کے بعد مدافعت پیدا ہوئی ہو، ان میں کوویڈ19 کا دوبارہ شکار ہونے کا امکان بہت کم ہے۔

    یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ امکان بہت کم ہے لیکن صفر نہیں ہے تاہم ویکسینیشن کے ذریعے اجتماعی مدافعت پیدا کرکے اس مرض کا مکمل طور پر خاتمہ ممکن ہے۔

    اس نئی تحقیق میں کوویڈ19 کا کامیابی سے مقابلہ کرنے والے 185 افراد (جن میں مرد حضرات اور خواتین دونوں شامل تھے) سے حاصل کردہ خون کے نمونوں کا معائنہ کیا گیا تھا۔

    ان میں سے زیادہ تر افراد کو معمولی انفیکیشن ہوا تھا، لیکن سات فیصد افراد کو کچھ روز کے لیے ہسپتال میں رہنے کی ضرورت پیش آئی تھی۔

    ان میں سے ہر ایک شخص نے ابتدائی علامات سامنے آنے کے بعد ریسرچ ٹیم کو چھ روز اور آٹھ مہینے کے عرصے کے دوران کم از کم ایک خون کا نمونہ فراہم کیا۔ ان میں سے 43 نمونے چھ مہینوں کے بعد حاصل کیے گئے۔

    ریسرچ ٹیم نے ان نمونوں میں قوت مدافعت کے ان عناصر کی پیمائش کی جن کی بدولت دوبارہ انفیکشن کا شکار ہونے کے امکانات میں کمی ممکن ہے یعنی اینٹی باڈیز (جو کسی بیماری کی وجہ بننے والے پیتھوجن کی نشاندہی

    کرتے ہيں تاکہ نظام مدافعت اس پر حملہ آور ہوسکے)، بی سیلز (جو اینٹی باڈیز بناتے ہيں) اور ٹی سیلز (جو انفیکشن کا شکار ہونے والے سیلز کا خاتمہ کرتے ہیں)۔

    ریسرچرز کو یہ بات معلوم ہوئی کہ آٹھ مہینوں کے بعد ہمارے جسم میں کرونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز میں کچھ حد تک کمی ہوتی ہے لیکن ہر ایک شخص میں اس کمی کی شرح مختلف ہوتی ہے۔

    ٹی سیلز کی تعداد میں بھی صرف کچھ حد تک کمی ہوتی ہے تاہم بی سیلز کی تعداد بعض دفعہ برقرار رہتی ہے اور بعض دفعہ اس میں اضافہ ہوتا ہے۔

    اس کا مطلب ہے کہ اینٹی باڈیز کی تعداد میں کمی کے باوجود ہمارے جسم میں کرونا وائرس کے خلاف دوبارہ اینٹی باڈیز بنانے کی صلاحیت برقرار رہتی ہے جس کے باعث دوبارہ انفیکشن کے شکار ہونے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہيں۔

    شین کروٹی کے مطابق ان نتائج کی بنیاد پر توقع رکھی جاسکتی ہے کہ ویکسینیشن کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس تحقیق سے یہ امید ضرور پیدا ہوتی ہے کہ اگر ویکسینیشن کی مہم کامیاب ہوجائے تو اس وبا کا جلد خاتمہ ممکن ہوگا۔

  • کووڈ 19 کی معمولی علامات والے مریضوں کے حوالے سے حوصلہ افزا تحقیق

    کووڈ 19 کی معمولی علامات والے مریضوں کے حوالے سے حوصلہ افزا تحقیق

    لندن: برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد میں صحت یاب ہوجانے کے بعد اس کے خلاف مزاحمت کئی ماہ تک برقرار رہتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانوی ماہرین نے ایسے شواہد دریافت کیے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 سے معمولی حد تک بیمار ہونے والے یا بغیر علامات والے مریضوں میں اس بیماری کے خلاف مدافعت کئی ماہ تک برقرار رہتی ہے۔

    امپرئیل کالج لندن، لندن کالج یونیورسٹی اور کوئین میری یونیورسٹی کی اس تحقیق میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 136 ہیلتھ ورکرز کا جائزہ لیا گیا جن مین کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی اور بیماری کی شدت معمولی تھی یا علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

    طبی جریدے جرنل سائنس امیونولوجی میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 89 فیصد افراد میں بیماری کے 16 سے 18 ہفتوں بعد بھی کرونا وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود تھیں۔

    اس تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ بیشتر مریضوں میں ایسے ٹی سیلز بھی موجود تھے جو وائرس کے متعدد مختلف حصوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ کچھ افراد میں ٹی سیلز امیونٹی تو تھی مگر اینٹی باڈیز موجود نہیں تھیں، جبکہ کچھ میں اس کا الٹ دیکھنے میں آیا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ طبی ورکرز میں کووڈ 19 کے حوالے سے تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ بیماری کے 4 ماہ بعد بھی 90 فیصد افراد میں وائرس کو بلاک کرنے والی اینٹی باڈیز ہوتی ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ حوصلہ افزا پہلو یہ تھا کہ 66 فیصد افراد میں تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز کی شرح کافی زیادہ تھی اور اس کے ساتھ ٹی سیلز بھی تھے جو وائرس کے مختلف حصوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔

    محققین نے اسے امید افزا پہلو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی کرونا وائرس سے متاثر ہوتا ہے، تو قوی امکان ہے کہ اس کے اندر اینٹی باڈیز اور ٹی سیلز جیسے تحفظ فراہم کرنے والے عناصر بھی بن جائیں گے، جو ممکنہ طور پر اگلی بار وائرس کا سامنا ہونے پر تحفظ فراہم کریں گے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگرچہ تحفظ فراہم کرنے والا اینٹی باڈی ردعمل عموماً ٹی سیلز کے ردعمل پر حرکت میں آتا ہے، مگر 50 فیصد سے زائد مریضوں میں مختلف اینٹی باڈی اور ٹی سیل ردعمل دیکھنے میں آیا۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کہ ٹی سیلز کا ردعمل ان افراد میں زیادہ بہتر تھا جن میں کووڈ 19 کی علامات سامنے آئی ہوں، جبکہ بغیر علامات والے مریضوں میں کمزور ٹی سیل مدافعت دیکھنے میں آئی، مگر ان میں وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈی کی سطح علامات والے مریضوں جیسی ہی تھی۔