Tag: Impacts

  • ہیڈ فونز استعمال کرنے والے ہوشیار ہوجائیں

    ہیڈ فونز استعمال کرنے والے ہوشیار ہوجائیں

    ہیڈ فونز کا استعمال اب بے حد عام ہوگیا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ ہمارے خیالات اور فیصلوں کو بھی بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں؟

    امریکا کی کیلی فورنیا یونیورسٹی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہیڈ فونز کا استعمال، سننے والے کی حس سماعت کے علاوہ ذہن پر بھی عام اسپیکرز کے مقابلے میں زیادہ اثرات مرتب کرتا ہے کیونکہ یہ آوازوں کو سر یا دماغ کے اندر بھیج دیتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہیڈ فونز کے اسپیکر آواز کو دماغ تک اس طرح پہنچاتے ہیں جیسے وہ آپ کے سر کے اندر ہوں۔، یہی وجہ ہے کہ اس کے نتیجے میں سننے والے کمیونیکٹر ( ہیڈفون پر گانے والے یا بولنے والے فرد) کو جسمانی اور سماجی طور پر زیادہ قریب محسوس کرتے ہیں اور اس گانے کے بول اور شاعری سے ان کے احساسات متاثر ہوتے ہیں۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ہیڈ فونز استعمال کرنے والے شخص کے ذہنی تصورات اور اس کے فیصلے بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں، یہ بھی یاد رہے کہ اگر کوئی اشتعال انگیز تقاریر یا کوئی تلخ الفاظ والی ویڈیو دیکھے تو یہ بھی سننے والے کے خیالات اور فیصلوں پر اثرات مرتب کریں گے۔

    اس تحقیق میں 4 ہزار سے زیادہ افراد کو شامل کرکے تجربات اور سروے کیے گئے جس میں یہ دریافت ہوا کہ عام اسپیکرز کے مقابلے میں ہیڈ فونز کا اثر سننے والوں کے تصورات، فیصلوں اور رویوں پر بہت زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق ٹریننگ پروگرامز کرنے والے اداروں کے لیے بےحد کام آسکتی ہے کیونکہ ادارے اس تحقیق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ٹریننگ پروگرام کو ڈیزائن کرسکتے ہیں۔

    مثال کے طور پر ادارے ملازمین کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں کہ وہ تحفظ کی تربیت کو ہیڈ فونز پر سنیں، جس سے ان کے رویوں میں ممکنہ طور پر بہتر تبدیلی آسکتی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہیڈ فونز سننے والوں کو انگیج رکھنے میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں اور وہ مخصوص کریٹیئرز یا بلاگرز کے ساتھ جڑ سکتے ہیں۔

  • کووڈ 19 حاملہ خواتین کو سنگین نقصانات پہنچانے کا سبب

    کووڈ 19 حاملہ خواتین کو سنگین نقصانات پہنچانے کا سبب

    گزشتہ 2 برسوں میں مختلف تحقیقات سے علم ہوا ہے کہ کووڈ 19 ہر عمر کے افراد کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے، اب حال ہی میں حاملہ خواتین پر کی جانے والی تحقیق میں اس کے تشویش ناک نتائج سامنے آئے ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق پیدائش کے نتائج پر کرونا کے اثرات کے بارے میں پہلی بڑی تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ کووڈ 19 سے متاثرہ حاملہ خواتین کو زچگی اور نوزائیدہ بچوں میں سنگین پیچیدگیوں کے زیادہ خطرے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی سربراہی میں ہونے والی اس تحقیق میں کرونا وائرس سے لاحق خطرات کا تعین کرنے کے لیے دنیا بھر کے 18 کم، متوسط اور زیادہ آمدنی والے ممالک کے 43 میٹرنٹی اسپتالوں سے 21 سو حاملہ خواتین کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔

    وائرس سے متاثرہ ہر خاتون کا موازنہ ایک ہی ہسپتال میں ایک ہی وقت میں جنم دینے والی 2 غیر متاثرہ حاملہ خواتین سے کیا گیا۔

    یو سی برکلے کے اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ایک معاون محقق، رابرٹ گنیئر اور برکلے پبلک ہیلتھ کے ڈیٹا تجزیہ کار اسٹیفن راؤچ نے اس منصوبے کے شماریاتی تجزیے کی قیادت کی۔

    گونیئر نے کہا کہ حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں پر کرونا وائرس کے اثرات کو سمجھنا ضروری ہے، تاکہ طبی ماہرین کو خطرات سے آگاہ کیا جا سکے اور حاملہ خواتین میں ویکسین سے متعلق ہچکچاہٹ کو کم کیا جا سکے۔

    تحقیق سے علم ہوا کہ علامتی کرونا انفیکشن زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی پیچیدگیوں اور بیماری میں خاطر خواہ اضافے کے ساتھ منسلک تھا، یہ تجویز کرتا ہے کہ معالجین کو حاملہ خواتین کے ساتھ کرونا وائرس سے بچاؤ کے اقدامات پر عمل درآمد کرنا چاہیئے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ حمل کے دوران کرونا سے متاثر ہونے والی خواتین میں قبل از وقت پیدائش، پری ایکلیمپسیا، انفیکشن، انتہائی نگہداشت میں داخل ہونے اور یہاں تک کہ موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    جبکہ زچگی کے دوران اموات کی تعداد مجموعی طور پر کم رہی، حمل کے دوران اور بعد از پیدائش مرنے کا خطرہ غیر متاثرہ حاملہ لوگوں کے مقابلے کرونا سے متاثرہ خواتین میں 22 گنا زیادہ تھا۔

    متاثرہ خواتین کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں میں پیچیدگیاں پیدا ہونے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے، جیسے کہ ایسے حالات جن میں نوزائیدہ کو انتہائی نگہداشت کے یونٹس میں داخلے کی ضرورت ہوتی ہے۔

    تاہم، کرونا سے متاثرہ خواتین کے ہاں پیدا ہونے والے صرف 12.9 فیصد شیر خوار بچے پیدائش کے بعد کرونا پازیٹیو پائے گئے، تاہم دودھ پلانے سے نوزائیدہ میں وائرس کی منتقلی کا خطرہ بڑھتا دکھائی نہیں دیا۔

    گونیئر کا کہنا ہے کہ خوش قسمتی سے، ہم نے دیکھا کہ کرونا پازیٹو خواتین جن میں وائرس کی علامات واضح نہیں تھیں، ان کے نتائج زیادہ تر ایسے لوگوں سے ملتے ہیں جو کرونا نیگیٹو تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نتائج میں صحت عامہ کے اقدامات کی تیاری کے دوران حاملہ خواتین کی صحت کو ترجیح دینے کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی میں تولیدی ادویات کے پروفیسر اسٹیفن کینیڈی کا کہنا تھا کہ اب ہم جان چکے ہیں کہ ماؤں اور بچوں کے لیے خطرات اس سے کہیں زیادہ ہیں جو ہم نے وبائی امراض کے آغاز میں سوچے تھے۔

    انہوں نے کہا کہ انفیکشن سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت اب واضح ہے، اس سے حاملہ خواتین کو ویکسی نیشن کی پیشکش کے معاملے کو بھی تقویت ملتی ہے۔

  • بچوں میں کووڈ 19 کے اثرات کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    بچوں میں کووڈ 19 کے اثرات کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ بچوں میں کووڈ 19 کا خطرہ بالغ افراد جتنا ہی ہوتا ہے تاہم ان میں علامات کم ظاہر ہوتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق بچوں میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ لگ بھگ بالغ افراد جتنا ہی ہوتا ہے مگر علامات ظاہر ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ امریکی ریاست یوٹاہ اور نیویارک شہر میں بالغ افراد اور بچوں میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ ملتا جلتا ہوتا ہے مگر بچوں میں اکثر بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

    تحقیق کے مطابق ہر عمر کے بچوں میں کرونا وائرس سے بیمار ہونے کا خطرہ لگ بھگ بالغ افراد جتنا ہی ہوتا ہے۔

    یہ تحقیق ستمبر 2020 سے اپریل 2021 کے دوران ہوئی جس میں ایک یا اس سے زائد تعداد والے بچوں پر مشتمل 310 مختلف گھرانوں کے 12 سو 36 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

    تحقیق میں ان گھرانوں میں کووڈ 19 کے کیسز کا جائزہ لیا گیا اور نتائج سے معلوم ہوا کہ ایک گھر کے اندر کسی فرد کے کووڈ سے متاثر ہونے پر دیگر میں بیماری کا خطرہ 52 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    جب انہوں نے کووڈ کے مریضوں کی عمر کے گروپ کا تجزیہ کیا تو دریافت ہوا کہ ہر عمر کے ایک ہزار افراد میں بیماری کا خطرہ لگ بھگ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔

    یعنی 4 سال کے ایک ہزار بچوں میں 6.3، 5 سے 11 سال کی عمر کے 4.4، 12 سے 17 سال کی عمر کے بچوں میں 6 اور بالغ افراد میں 5.1 میں اس بیماری کا خطرہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ بچوں اور بالغ افراد میں کرونا وائرس کی شرح لگ بھگ ایک جیسی ہوتی ہے اور اس سے بچوں میں ویکسی نیشن کی افادیت اور محفوظ ہونے کی برق رفتاری سے جانچ پڑتال کی ضرورت ظاہر ہوتی ہے۔

    تحقیق میں جب یہ جائزہ لیا گیا کہ مختلف عمر کے افراد میں علامات ظاہر ہونے کی شرح کیا ہے تو انہوں نے دریافت کیا کہ 4 سال سے کم عمر 52 فیصد بچوں میں کووڈ سے متاثر کے بعد علامات ظاہر نہیں ہوتیں، 5 سے 11 سال کے گروپ میں یہ شرح 50 فیصد، 12 سے 17 سال کے گروپ میں 45 فیصد جبکہ بالغ افراد میں محض 12 فیصد تھی۔

  • کرونا وائرس کن طبی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتا ہے؟

    کرونا وائرس کن طبی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتا ہے؟

    گزشتہ ایک برس میں کی جانے والی بے شمار تحقیقات میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ کرونا وائرس انسانی جسم پر دیرپا نقصانات مرتب کرتا ہے جو طبی پیچیدگیوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک جامع تحقیق میں امریکا کے 70 ہزار سے زائد کووڈ 19 کیسز کے ذریعے ان پیچیدگیوں کی تصدیق کی گئی، جن کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

    طبی جریدے کینیڈین میڈیکل ایسوسی ایشن جرنل میں شائع تحقیق میں کووڈ 19 کی تمام ممکنہ پیچیدگیوں کا تعین کیا گیا۔ محققین کا مقصد وبا کے دوران رپورٹ کی جانے والی پیچیدگیوں کی تصدیق کرنا تھا، یعنی طبی مسائل کا خطرہ کووڈ کے مریضوں کو سب سے زیادہ ہوسکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس تحقیق میں کووڈ 19 سے جڑے تمام تر خطرات کا تخمینہ فراہم کیا گیا ہے، جس سے ہم طبی ماہرین، مریضوں اور پالیسی سازوں کو تمام تر پیچیدگیوں کو سمجھنے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔

    اس تحقیق میں بفالو یونیورسٹی کے جیکبس اسکول آف میڈیسین اینڈ بائیولوجیکل سائنسز، ٹورنٹو یونیورسٹی اور ہیلتھ وریٹی انکارپورشن کے محققین نے مل کر کام کیا۔ تحقیق کے لیے یکم مارچ سے 30 اپریل 2020 تک کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے 70 ہزار 288 مریضوں کے ڈیٹا کو استعمال کیا گیا۔

    محققین نے ان افراد کے ڈیٹا کو 3 حصوں میں تقسیم کیا، ایک گروپ ایسے مریضوں کا تھا جن کا علاج تو ہوا مگر اسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑی۔ دوسرا گروپ اسپتال میں زیر علاج رہنے والے افراد کا تھا جبکہ تیسرا ایسے مریضوں کا تھا جن کو آئی سی یو میں داخل کیا گیا۔

    70 ہزار 288 میں سے 53.4 فیصد وہ لوگ تھے جو اسپتال میں زیرعلاج رہے، جن میں آئی سی یو میں داخل ہونے والوں کی تعداد 4.7 تھی، باقی 46.6 فیصد پہلے گروپ میں شامل افراد تھے، مجموعی طور پر 55.8 فیصد خواتین تھیں اور اوسط عمر 65 سال تھی۔

    محققین نے بیس لائن پیریڈ (کووڈ کی تشخیص سے 30 سے 120 دن قبل) اور ہزارڈ پیرڈ (تشخیص سے 7 دن قبل سے 30 دن بعد تک) کو تشکیل دیا۔ بیس لائن پیریڈ کو یہ شناخت کرنے کے لیے استعمال کیا گیا کہ مریض کووڈ 19 سے پہلے کسی دائمی بیماری کا شکار تو نہیں تھے۔

    ان دونوں پیریڈز کا موازنہ کرنے سے دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے بعد مریض کو کن پیچیدگیوں کے خطرے کا سامنا ہوسکتا ہے۔ محققین نے تمام تر پہلوؤں کا تجزیہ کرنے کے بعد کووڈ 19 یا اس کے علاج سے لاحق ہونے والی پیچیدگیوں کے امکانات اور مجموعی خطرات کا تعین کیا۔

    تجزیے میں ماضی کی طبی تحقیقی رپورٹس میں بتائی جانے والی متعدد پیچیدگیوں کی تصدیق کی گئی، جن کو سب سے عام قرار دیا گیا۔

    تحقیق کے مطابق درج ذیل پیچیدگیاں کووڈ 19 سے ٹھوس انداز سے منسلک ہوسکتی ہیں۔

    نظام تنفس کے مسائل، جیسے نمونیا، اکیوٹ ریسیپریٹری ڈس ٹریس سینڈروم (اے آر ڈی ایس)، اکیوٹ لوئر ریسیپریٹری انفیکشن، ریسیپریٹری فیلیئر، پھیپھڑوں کے پردے میں ہوا کا بھرجانا۔

    گردشی نظام کے مسائل، کارڈیک اریسٹ، اکیوٹ مائیو کار ڈائی ٹس (دل کے پٹھوں کا ورم)

    ہیماٹولوجک ڈس آرڈرز

    گردوں کے مسائل، اکیوٹ کڈنی فیلیئر

    سونگھنے اور چکھنے کی حسوں کے مسائل

    جو مسائل کووڈ 19 کے مریضوں میں سب سے عام ہوتی ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

    نمونیا، یہ مجموعی طور پر 27.6 فیصد مریضوں میں دیکھا گیا اور آئی سی یو میں داخل افراد میں اس کی شرح 81 فیصد تھی۔

    ریسیپریٹری فیلیئر، یہ مجموعی طور پر 22.6 فیصد مریضوں میں دیکھنے میں آیا اور آئی سی یو میں داخل 50.7 فیصد افراد کو اس کا سامنا ہوا۔

    اکیوٹ کڈنی فیلیئر، یہ مجموعی طور پر 11.8 فیصد کیسز جبکہ آئی سی یو میں داخل 50.7 فیصد افراد میں نظر آنے والی پیچیدگی ہے۔

    سب سے زیادہ عام پیچیدگیوں میں وائرل نمونیا، ریسیپریٹری فیلیئر، عفونت، گردوں کے مسائل اور اے آر ڈی ایس شامل ہیں۔

    حیران کن طور پر اس تحقیق میں یہ دریافت نہیں ہوا کہ کووڈ 19 سے فالج کا خطرہ نمایاں حد تک بڑھ جاتا ہے، جس کا عندیہ ماضی کی تحقیقی رپورٹ میں دیا گیا تھا۔