Tag: Imran Khan

عمران خان نیازی پاکستانی سیاست دان, سابق کرکٹ کھلاڑی اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم ہیں اور پی ٹی آئی کے بانی بھی ہیں۔ اس سے پہلے وہ 2002ء تا 2007ء اور 2013ء تا 2018ء تک پاکستان قومی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ سیاست میں قدم رکھنے سے قبل عمران خان ایک کرکٹر اور مخیر تھے۔ انھوں نے دو دہائیوں تک بین الاقوامی کرکٹ کھیلی اور بعد میں خدمت خلق کے منصوبے بنائے جیسے کہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سینٹر اور نمل کالج وغیرہ۔[10][11] عمران خان کی پیدائش لاہور میں اونچے درمیانے طبقے کے نیازی پشتون خاندان میں ہوئی، ان کے والد انجینئر اکرام اللہ خان نیازی تھے، عمران خان نے ابتدائی تعلیم ایچیسن کالج لاہور پھر رائل گرائمر اسکول ویلسٹڑ انگلینڈ اور بعد میں کیبل کالج آکسفورڈ سے حاصل کی۔ انھوں نے 13 سال کی عمر میں کرکٹ کھیلنا شروع کر دی تھی

اسلام آباد کی ضلعی اور سیشن عدالت کی جانب سے جاری کیے گئے وارنٹ گرفتاری کے نتیجے میں، اسلام آباد پولیس اور لاہور پولیس نے 14 مارچ 2023ء کو خان کی گرفتاری کے لیے آپریشن شروع کیا۔ [69] [70] 9 مئی کو، عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے نیم فوجی دستوں نے گرفتار کیا تھا۔ [71] [72] یہ القادر ٹرسٹ کیس میں ان کے مبینہ کردار پر تھا، [73] [73] [74] جس کے بعد پی ٹی آئی پارٹی کے اراکین نے ملک گیر احتجاج کی کال دی تھی۔ [75] [76] ان کی گرفتاری سے مظاہرے ہوئے اور 9 مئی کے فسادات ہوئ

  • لاہور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کو دھرنا دینے سے روک دیا

    لاہور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کو دھرنا دینے سے روک دیا

    لاہور: لاہور ہائیکورٹ نےتحریک انصاف کولانگ مارچ کی اجازت دیدی تاہم کہا ہے کہ غیر آئینی طریقے سے دھرنانہیں دے سکتے عدالت نے پنجاب بھر سے کینٹینرزہٹانے کا حکم برقرار رکھا ہے۔

    لاہور ہائیکورٹ میں آج دن بھر کنٹینر کیس کی سماعت جاری رہی اور اسے کچھ دیر کیلئے ملتوی بھی کیا گیا ،عدالت نے اپنے فیصلے میں 14اگست کو تحریک انصاف کو غیر آئینی طریقے سے لانگ مارچ کرنے سےروک دیا ہے، سماعت کے دوران عدالت نے کنٹینر ہٹانے کے معاملے پر حکم امتناعی جاری کرنے کی حکومت کی فوری استدعا مسترد کردی، عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ ہم بھی چاہتےہیں کہ عوام کے جان و مال کی حفاظت ہو مگر اس کے لیے پورا شہر بند کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، جبکہ دوسرے فریق کو سنے بغیر کنٹینر ہٹانے پر کس طرح حکم امتناعی دیا جاسکتا ہے ۔

    جس پر تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف آئین کے اندر رہ کر ہر کام کرتی ہے ، آئین کے اندر رہ کر احتجاج ہر سیاسی پارٹی کا حق ہے، آزادی مارچ اپنے شیڈول کے مطابق ہوگا۔

  • پارٹی میں کسی سے کو ئی اختلافا ت نہیں،جاوید ہاشمی

    پارٹی میں کسی سے کو ئی اختلافا ت نہیں،جاوید ہاشمی

    ملتان:تحریک انصاف کے صدرمخدوم جاوید ہاشمی نےکہا ہےکہ جمہوریت ان کا ایمان ہے، کسی غی جمہوری عمل کاحصہ نہیں بن سکتے، آزادی مارچ میں شرکت کرنےیا نہ کرنے کےبارےمیں شام کوبات کریں گے۔

    تحریک انصاف کے رہنما جاوید ہا شمی ملتان میں اپنی رہائشگاہ پہنچ گئے،میڈیا سےبات کرتےہوئےجاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ آزادی مارچ میں شرکت کرنےیا نہ کرنےکے بارے میں شام کو بتائیں گے،مستقبل کےلائحہ عمل کے بارےمیں آج شام کوبتاؤں گا،ان کا کہنا تھا کہ وہ تحریک انصاف میں ہی ہیں،ان کے پارٹی میں کسی سے کو ئی اختلافا ت نہیں،جمہوریت ایمان کا حصہ ہے،ساتھ سال جمہوریت کیلئے قید کا ٹی۔

    ان کا کہنا تھا کہ وہ سیاست میں مشکل محسوس کرنے پراپنے حلقے میں آجاتے ہیں اور کسی نتیجےپرپہنچنےکیلئےاپنےحلقےکےلوگوں سےمشاورت کر تے ہیں،جاوید ہاشمی نے کہاکہ ان کا ابھی تک پارٹی رہنماوں سےکو ئی رابطہ نہیں ہوا،کسی غیرجمہوری عمل کا حصہ نہیں بن سکتے،ساتھیوں سےمشاورت کےبعدآئندہ کے لائحہ عمل کااعلان کریں گے۔

  • جاوید ہاشمی مارچ سےعلیحدہ نہیں ہوئے،شیریں مزاری

    جاوید ہاشمی مارچ سےعلیحدہ نہیں ہوئے،شیریں مزاری

    لاہور:تحریک انصاف کےصدرمخدوم جاوید ہاشمی آزادی مارچ سےالگ ہوکرملتان چلے گئے ہیں،شیریں مزاری کہتی ہیں جاوید ہاشمی مارچ سےعلیحدہ نہیں ہوئے اعجازچودھری کہتے ہیں جاویدہاشمی خودافواہوں کی تردیدکرینگے

    تحریک انصاف کےصدرجاوید ہاشمی لانگ مارچ کے حوالے سےتحفظات پر پارٹی   چئیرمین عمران خان اورشاہ محمود قریشی سے اختلافات کے بعد قیادت سے ناراض ہوکر ملتان واپس چلے گئے ہیں۔

    تحریک انصاف کےصدر جاوید ہاشمی کی آزادی مارچ سےعلیحدگی کی اطلاعات کے بعد ترجمان تحریک انصاف شیریں مزاری نےجاویدہاشمی کےآزادی مارچ سےمتعلق اطلاعات کو بےبنیاد قرار دیا ہے۔

    آزادی مارچ پر پوری قیادت متفق ہے اور کوئی اختلاف موجود نہیں ہے، جبکہ تحریک انصاف پنجاب کےصدراعجازچودھری کا میڈیا سےگفتگومیں کہنا تھا کہ جاوید ہاشمی طبیعت ناسازہونےکی بنا پرآرام کررہے ہیں ،طبیعت ٹھیک ہونے پر خود میڈیا سے گفتگو کریں گےاورآزادی مارچ کی قیادت کریں گے۔

  • الطاف حسین کی کنٹینرز،ٹرالرز اوردیگررکاوٹیں ہٹانے کی اپیل

    الطاف حسین کی کنٹینرز،ٹرالرز اوردیگررکاوٹیں ہٹانے کی اپیل

    کراچی:متحدہ قومی موومنٹ کےقائد الطاف حسین نےوزیراعظم میاں نوازشریف اوروزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے پرزورمطالبہ کیاہےکہ وہ لاہور کے مختلف علاقوں میں کھڑےکئےگئےکنٹینرز،ٹرالرزاوردیگررکاوٹوں کوہٹانےکےفوری احکامات جاری کریں۔

    اپنے بیان میں الطاف حسین نے کہاکہ گزشتہ کئی روزسےلاہورشہرمیں پولیس وانتظامیہ نے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں جس سےروزگار،کاروباراورملازمت پرجانے والے افرادکو شدید مشکلات کاسامناہے۔

    ان رکاوٹوں سے سب سے زیادہ متاثر یومیہ اجرت پر کام کرنے والے وہ غریب مزدور اورمحنت کش ہیں جو ہرروزمحنت کرکے اپنے اہل خانہ کاپیٹ پالتے ہیں،اس کے ساتھ ساتھ شاہراہیں دن بندہونےسےمریضوں کواسپتال لانے لیجانےمیں بھی شدید دشواریوںکاسامناہے۔

    جناب الطاف حسین نے حقوق انسانی کی تمام تنظیموں،سول سوسائٹی کی تمام انجمنوں، وکلاء برادری اورمختلف شعبہ ہائے زندگی سےتعلق رکھنےوالےافرادسے بھی اپیل کی کہ و ہ حکومت کی جانب سےاٹھائے گئے ان ظالمانہ اورآمرانہ اقدامات کےخلاف اپنے ظرف و ضمیرکے مطابق آواز احتجاج بلندکریں۔

  • انقلاب اور آزای مارچ , پی ٹی آئی اور عوامی تحریک میں چار نکات پراتفاق

    انقلاب اور آزای مارچ , پی ٹی آئی اور عوامی تحریک میں چار نکات پراتفاق

    لاہور: پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک مین انقلاب اور آزای مارچ پر چار نکات پر اتفاق ہوگیا، پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ سیاسی جدوجہد پرامن اور آئین کے دائرے میں ہوگی، مارشل لا کے نفاذ کو برداشت نہیں کیاجائے گا۔

    شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف کے وفد کی طاہرالقادری سےملاقات میں انقلاب اورآزادی مارچ کیلئے چار نکات پراتفاق ہوگیا، شاہ محمود قریشی کا کہنا ہےدونوں جماعتوں کی جدوجہد جمہوری ہوگی،جس کا مقصدحقیقی جمہوریت رائج کرنا ہے،شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حالات بگڑے تو ذمہ دار وفاقی اور پنجاب حکومت ہوگی، شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ اس جدوجہد میں کوئی غیر آئینی اقدام کیا گیا تومزاحمت اور مذمت کی جائے گی، پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا ان کامقصد ملک میں جمہوریت کو ڈی ریل کرنا نہیں، نہ ہی جمہوریت کیخلاف کوئی سازش کی جارہی ہے۔

  • وزیرِاعظم کا خطاب: دھاندلی کے خلاف اعلیٰ عدالتی کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ

    وزیرِاعظم کا خطاب: دھاندلی کے خلاف اعلیٰ عدالتی کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ

     اسلام آباد: اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نےقوم سے خطاب کیا اورانہوں نے2013 کے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگنے پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس سے تحقیقات کے لئے تین رکنی کمیشن قائم کرنے کی درخواست کردی۔

    ان کا کہنا تھا کہ ملک کی معاشی ترقی کے لئے سیاسی استحکام بے حد ضروری ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں ایسے ادوار آتے رہتے ہیں کہ جب جمہوریت پامال ہوتی رہی۔

    انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ایک بھر پور مینڈیٹ کے ساتھ عوام نے ہمیں منتخب کیا اور آج عدلیہ اور تمام آئینی ادارے جمہوریت کی پشت پر ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک جمہوری حکومت نے دوسری حکومت کو اقتدار منتقل کیا اور ایک جمہوری صدر جمہوری طریقے سے رخصت ہوا اور دوسرا صدربھی جمہوری طریقہ سے آیا۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ جون 2013 میں جب ہم نے حکومت سنبھالی تھی اس وقت ملک بے پناہ مصائب کا شکار تھا، معیشت کی حالت دگردگوں تھی۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ مسائل حل ہوگئے لیکن گزشتہ چودہ ماہ میں ملک کی معاشی حالت میں استحکام آیا ہے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب ملک معاشی استحکام کی راہ پر گامزن ہوا تھا ملک میں سیاسی انتشار پیدا کیا جانے لگا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ آخر اس احتجاج کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ احتجاج اس لئے ہورہا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار شرح نمو چار فیصد تک پہنچ گئی ، نوجوانوں کو آسان اقساط پر قرضے فراہم کئے جانے لگے عوامی فلاح کے منصوبے عملی طور پر ہوتے ہوئے نظر آنے لگے، کراچی سے لاہور موٹر وے کے لئے 55 ارب رپے ریلیز کردئے گئے۔ 10 ہزار میگا واٹ بجلی کے معاہدے کئے گئے۔ تربیلا اور ،منگلا ڈیم کی توسیع کی جارہی ہے، آخر ایسا کیا ہواہےجو احتجاج کیا جارہا ہے۔

    کیوں ملک کو دوبارہ غربت اور اندھیروں میں واپس دھکیلنے کی سازش کی جارہی ہے؟

    میاں نواز شریف نے 2002 اور 2008 کے الیکشن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ وہ الیکشن کتنے شفاف تھے ہماری پارٹی کو ڈیڑھ درجن نشستوں تک محدود کیا گیا، 2008 میں ان کے اور میاں شہباز شریف کے کاغذات مسترد کئے گئے اور وہ الیکشن میں حصہ نہ لے سکے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ 2013 کا الیکشن پہلا الیکشن تھا کہ جس میں پہلی بار وسیع پیمانے پر ووٹوں کی تصدیق ہوئی ، مبصرین تعینات ہوئے، ملکی اور غیر ملکی میڈیا نے الیکشن پر نظر رکھی اور دو سو سے زائد مبصرین نے الیکشن کا جائزہ لے کر فیصلہ دیا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین الیکشن تھے۔

    میاں نواز شریف نے کہا کہ آج ایک مظبوط پارلیمنٹ موجود ہے جو کہ آئین سازی کے لئے ہے اور نظام میں موجود خرابیوں کو دور کرنے پر تیار بھی ہے اوراس کے لئے ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں کے منتخب ارکان پرمشتمل ایک کمیٹی بنائی جاچکی ہے اور اسکی موجودگی میں سڑکوں پر کسی بھی قسم کی اصلاحات کی گنجائش نہیں ہے۔ نہ ہی کسی کو یہ اجازت دی جائے گی کہ ایک ترقی کا عمل جو شروع ہوچکا ہے اس کو برباد کردیا جائے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بادشاہت نہیں ہے اورنہ ہی آمریت ہے، بادشاہت سے ہم سرسٹھ سال پہلے نجات حاصل کرچکے اوراب کسی کو اجازت نہیں کہ وہ جتھہ بندی کرکے مذہب کے نام پرلوگوں کی گردنیں کاٹے۔

    انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کر کے کہا کہ اس ملک کے صحافیوں نے جمہوریت کے لئے بے پناہ قربانیاں دیں ہیں اور جمہوریت کی بحالی میں ان کا لازوال کردار ہے لیکن موجودہ صورتحال میں میڈیا کو چاہئے کہ وہ ایک بار پھر اپنی پالیسیوں کا جائزہ لے تاکہ وہ حقیقی معنوں میں ملک کاچوتھا ستون بن سکے۔

    انہوں نے انتہائی تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک مخصوص جماعت کی جانب سے مسلسل ان پر دھاندلی کا الزامات لگائے جاتے رہے اور اس سلسلے میں ان پر اور ان کی جماعت پر مسلسل الزامات کی بوچھارکی گئی۔ انہوں نے ملک میں جاری سیاسی انتشار کے خاتمے اور دھاندلی کے الزامات کے جواب میں سپریم کورٹ سے تحقیقات کی درخواست کرتے ہوئے تین رکنی کمیشن قائم کرنے کی استدعا کی ہے۔

    وزیر اعظم نے خطاب کےآخر میں قوم کو ایک بارپھر جشن آزادی کی مبارک باد دیتے ہوئے وطن ِعزیز کے لئے اپنی نیک تمناوؐں کا اظہار کیا۔

  • سراج الحق کی وزیر اعلی پنجاب میاں شہبازشریف سے ملاقات

    سراج الحق کی وزیر اعلی پنجاب میاں شہبازشریف سے ملاقات

    لاہور: جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی وزیر اعلی پنجاب میاں شہبازشریف سے اہم ملاقات کہتے ہیں حالات کی بہتری میں پر امید ہوں اگر بات نہ سنی گئی تو پھر کسی نہ کسی کا چالان لازمی ہوگا۔

    وزیراعلی پنجاب شہبازشریف سے ماڈل ٹاؤن میں ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ بہت سی ایسی قوتیں سرگرم ہیں جو نہیں چاہتیں کہ حالات بہتر ہوں لیکن ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے حالات کو معمول پر لانے کے لیے اپنے طور پر کوششیں کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ عمران خان سے بھی ملاقات کی ہے اور شہبازشریف کے سامنے بھی ایجنڈا رکھا ہے میں ابھی تک مایوس نہیں امید ہے کوئی صورتحال نکل آئے گی۔

    انہوں نے کہا کہ اگر روڈ پر ٹریفک حادثہ ہواتو پھر چالان بھی ہوتا ہے ، سراج الحق نے کہا کہ طاہر القادری صاحب سے بھی درخواست کریں گے کہ وہ اپنے مطالبات مذاکرت کے ذریعے منوائیں اگر حالات خراب ہوئے تو پھر کسی کے کنٹرول میں نہیں آئیں گے اور ذمہ داروہی قوتیں ہوں گی جو کسی سمجھوتے پرتیار ہونے کو راضی نہیں۔

  • طاہرالقادری کومارچ کی اجازت نہیں ملے گی، سعدرفیق

    طاہرالقادری کومارچ کی اجازت نہیں ملے گی، سعدرفیق

    لاہور : وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو انقلاب مارچ کی اجازت ہرگرنہیں ملے گی کیونکہ ان کے خلاف مقدمات ہیں اور وہ سیاسی ورکر بھی نہیں ہیں وہ انقلاب مارچ سے باز آجائیں ،البتہ عمران خان امن کی تحریری ضمانت دیں تو پھر لانگ مارچ کا کوئی راستہ بن سکتا ہے۔

    ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان بھی استعفی دیں، میں بھی استعفی دیتا ہوں پھرآمنے سامنے الیکشن میں دیکھتے ہیں کون جیتتا ہے، انہوں نے کہا کہ عمران خان خود کو ڈاکٹر طاہر القادری سے علیحدہ کریں کیونکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کےساتھ دس ہزار مسلح پیروکار ہیں اور ان کی تقریریں بھی خطرناک ہیں ۔

    انہوں نے کہا کہ انقلاب مارچ اور لانگ مارچ کی کیاضرورت تھی جس سے پاکستان کی سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی ہے اورسرمایہ کاروں کا اربوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے، انہوں نے کہا کہ ان لانگ مارچوں سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں۔

  • انتخابی اصلاحات کے بعد الیکشن ہوسکتے ہیں،خورشیدشاہ

    انتخابی اصلاحات کے بعد الیکشن ہوسکتے ہیں،خورشیدشاہ

    اسلام آباد: قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ اگر نئےالیکشن ہوں تو وہ کون کرائے کیونکہ موجودہ الیکشن کمیشن پر عمران خان کو اعتراض ہے، انتخابی اصلاحات کےبعد ہی الیکشن ہوسکتے ہیں ۔

    اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ سیاستدان میں برداشت ہونی چاہیے، جمہوریت پھولوں کی سیج پربیٹھ کرنہیں کانٹوں پرچل کرحاصل کی، ملک میں جاری سیاسی گرما گرمی پر خورشید شاہ نے کہا کہ موجودہ صورتحال پر وزیرداخلہ کی خاموشی بڑا سوال ہے۔

    واضح رہے کہ خورشید شاہ پہلے ہی طاہر القادری اور عمران خان کو وارننگ دے چکے ہیں کہ اگر ملک کو کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری ان پر عائد ہوگی۔

  • عمران خان، طاہرالقادری اور موجودہ نظام

    عمران خان، طاہرالقادری اور موجودہ نظام

    گو کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کا انقلابی ایجنڈا کافی وضاحت طلب ہے مگروہ عمران خان کے ایک یا دو نکاتی ایجنڈا سے زیادہ بہتر محسوس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر عمران خان کا سارا فوکس دھاندلی، صاف شفاف انتخابات اور الیکشن کمیشن کی تبدیلی پر مرکوز ہے ایسے میں ان کے پاس اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ افتخار چوہدری کے جانے کے بعد عدلیہ مکمل طور پر غیر جانبدار یا پاک ہو کرایک مثالی عدلیہ بن چکی ہے؟موجودہ نظام عدل اور دستور پاکستان کے حوالے سے سپریم کورٹ تو ہمیشہ سپریم ہی رہے گی توپھر اس بات کی بھی کیاگارنٹی ہے کہ آئندہ کبھی کوئی چیف جسٹس الیکشن کمیشن کے معاملات میں مداخلت نہیں کریگا؟افتخار چوہدری بحیثیت چیف جسٹس سپریم کورٹ جو راستہ دکھاگئے ہیں اس کے اندھیرے میں آج نہیں تو کل پھر کوئی ایسا چیف جسٹس آ سکتا ہے جو اس بد مست ہاتھی کی بے انتہا طاقت کا ناجائز استعمال پھر سے شروع کر دے۔اس طاقت کے ناجائز استعمال کو کون کیسے روکے گا؟۔

    ہمارے دستور میں کسی بھی چیف جسٹس کو ہٹانے کی کوئی دستوری نظیر موجود نہیں ما سوائے اس کے کہ جب بڑا ہاتھی چھوٹے ہاتھیوں کو دستور سمیت گھر بھیج دیتا ہے۔ان حالات میں آپ محض الیکشن کمیشن سے تمام توقعات کیسے وابستہ کر سکتے ہیں؟ تھوڑے دن پہلے تحریک انصاف کے ہی ایک ایم این اے علی خان صاحب یہ فرما رہے تھے کہ ان کی جماعت کے ایک ایم این اے کو ساٹھ ہزار ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے ستر لاکھ روپے درکار تھے جو انھوں نے چندہ جمع کر کے پورے کئےتو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مہنگے نظام عدل سے آپ کیا توقعات وابستہ کر سکتے ہو؟ جو بندہ ستر لاکھ دے کر دوبارہ گنتی کی درخواست دے رہا ہے اگر اسے انصاف مل بھی جائے تو وہ اس انصاف کے ملنے کے بعد کیا ایمانداری دکھائے گا؟جہاں محض ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے ستر لاکھ روپے درکار ہوں وہاں عوام کی حکمرانی کیسے ممکن ہے؟جمہور کا لیڈر ستر لاکھ سے کم حیثیت کا مالک نہ ہو اس سے زیادہ جمہوریت کی اور کیا توہین ہوگی؟اس سے زیادہ عدل کی کیا توہین ہوگی؟میرے خیال میں تو ایسا عدل اور دستورخود ایک توہین سمجھا جائے گا جو اس طرح کی شرط رکھے گا۔

    میڈیا سے لے کرہر سطحی سوچ کا مالک پاکستانی ہر وقت کرپشن کا راگ الاپتا رہتا ہے مگر یہ کوئی نہیں سوچتا کہ اس کی جڑیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں۔نظام عدل کی کمزوری نظام کی بنیادی ترین خرابیوں میں سے ایک ہے جو پاکستان میں کرپشن کے سورج کو کبھی غروب نہیں ہونے دیتی۔اراکین الیکشن کمیشن کتنے ہی غیر جانبدار کیوں نہ ہوں لیکن وہ کوئی ولی پیغمبر تو نہ ہونگے۔یہاں دلوں کے حال کون جانتا ہے؟کیا بھٹو صاحب نے ضیاءکو آرمی چیف بناتے ہوئے سوچا تھا کہ وہ انھیں تختہ دار تک لے جائے گا؟ کیا میاں صاحب نے مشرف کے بارے میں سوچا تھا کہ وہ انھیں ملک سے ہی نکال دے گا؟کیا خود جنرل مشرف نے یہ سوچا تھا کہ محترمہ اور شریف برادران کو واپسی کی اجازت دینے اوردرجنوں نیوز چینلز کولائسنس اور ڈھیر ساری آزادی دینے کے بعد اس کے ساتھ یہ سب کچھ ہوگا؟بہترنظام کی جڑیں کسی فرد کے ساتھ نہیں بلکہ طاقت ورترین اداروں میں پنہاں ہوتی ہیں لہٰذا اداروں میں اصلاح کے بغیر بہتری کی کوئی گنجائش اورکوئی اُمید نہیں نکلتی۔اسی وجہ سے خان صاحب کے موجودہ مطالبات سے کسی تبدیلی یا نئے پاکستان کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

    طاہرالقادری کا ایجنڈا نظام عدل اور سستے انصاف کے حوالے سے نسبتا زیادہ واضع محسوس ہوتا ہے۔تاہم وہ بھی یہ واضع نہیں کرپاتے کہ موجودہ اعلی عدلیہ اور اس کے ججوں کے ساتھ یہ خواب کیسے ممکن ہے؟جبکہ افتخار چوہدری صاحب اپنی رخصتی سے پہلے بہت سے پسندیدہ افراد کو اعلی عدلیہ کا حصہ بنا گئے ہیں۔

    علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری پر معروف الزامات کچھ اس طرح کے ہیں۔”طاہرالقادری جھوٹ بہت بولتے ہیں“تو کیا میاں برادران اور دیگر سیاسی و مذہبی قیادت جھوٹ نہیں بولتی؟”طاہرالقادری لالچی ہیں “ کیا دیگر سیاسی و مذہبی قیادت لالچی نہیں ہے؟رہی بات قادری صاحب سے کوئی بڑی اُمید رکھنے کی تو وہ یقینا درست نہ ہوگی۔ وہ ایک مخصوس مذہبی فکر کے ترجمان ہیں اور مولوی کے لیبل کے نیچے پاکستان میں کبھی بھی مقبول سیاسی قیادت کے طور پر سامنے نہیں آسکتے۔تاہم اتنا ضرور ہے کہ وہ ریاست کے بعض بڑے معروف اور مقتول طبقات کی آواز بن کر ابھرے ہیں۔میرے نزدیک یہ ان کی بڑی کاوش ہے جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی کیونکہ ریاست یا ریاستی ادارے ان مظلوم طبقات کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہے بلکہ وہ اُلٹا ایسے گروہوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ملوث ہیں کہ جو ان مظلوم طبقات کے قتل میں شامل ہیں۔

    اگر کسی میں تھوڑی سی بھی معاملہ فہمی ہو تووہ بآسانی یہ حقیقت جان سکتا ہے کہ حکیم اللہ محسود کو شہید ماننے والی جماعت اسلامی اب دستور کی باتیں کیوں کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی حکومت اور تحریک انصاف میں مفاہمتی کردار ادا کرنے کے لیے کیوں تیار ہو گئی ہے؟ کارکن عوامی تحریک کے مارے جا رہے ہیں مگر جماعت کی مفاہمتی کوششیں صرف تحریک انصاف اور حکومت تک محدود ہیں۔اس متعصب معاشرے کی ہر بدبودار گہرائی میں کہیں نہ کہیں فرقہ واریت کا سامنا ضرور ہوتا ہے۔ ہمارا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہم دوسرے کو جانے بغیریا آدھی بات سن کر حمایت یا مخالفت شروع کر دیتے ہیں ۔تحقیق کے بغیر لوگوں کو مکمل ہیرو یا ولن مان لیتے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ پاکستان کی اکثریت کو افتخار چوہدری کی حمایت پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور اسی طرح سے آصف زرداری کی حد سے زیادہ غیر معقول مخالفت بھی بہت سے لوگوں کے لیے شرمندگی کا باعث بنی۔دوسری طرف ہمارے روشن خیال طبقات کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک طرف تو ہر طرح کے مولوی کو نفرت و معاشرتی برائی کا استعارہ تعبیر کرتے ہیں۔ مگر دوسری طرف اسے مذہب کا ٹھیکیدار سمجھتے ہوئے اس سے پیغمبرانہ صفات کے متقاضی نظر آتے ہیں۔قادری صاحب نے آج تک مولویوں والی بات نہیں کی۔وہ اسی بے دست و پا دستور کے حوالے دیتے ہیں۔انھوں نے کبھی اپنی پسند کی شریعت کے نفاذ کا بھی نہیں کہا۔ان کے مذہبی چہرے سے ہٹ کر وہ تمام پاکستانی مولویوں یا ان سیاستدونوں سے بہتر ہی محسوس ہوتے ہیں کہ جو آج تک یو ٹیوب پر پابندی بھی ختم نہیں کرسکے۔ پاکستان کا دستور اور ریاست ہمیشہ ہی ایک دوسرے کو دھوکہ دینے میں مصروف رہتے ہیں۔ہاں ان کا باسٹھ تریسٹھ جیسی غیر حقیقی شق پر عملدرآمد کا مطالبہ زمینی حقائق کے منافی تھااوراس پر وہ خودبھی شاید پورے نہیں اتر سکتے۔لیکن کیا کسی نے باسٹھ تریسٹھ جیسی غیر حقیقی شق پر عمل کیا یا کروایا؟ کیا اٹھارہویں ترمیم پاس کروانے والوں نے جنرل ضیا کی ڈلوائی ہوئی اس شق کوختم کرنے کی کوشش کی؟اگر باسٹھ ،تریسٹھ درست ہے تو اس پر عمل کرو نہیں تو اس کو باہر کرو یہ منافقت اور جھوٹ کا رویہ اور پھر آئین کی پاسداری کے دعوے۔ یہ سب کیا ہے؟

    دوسری طرف بعض لبرل اور جمہوریت پسندلوگ طاہرالقادری کے تازہ بیانات کے بعد ان کے لیے طرح طرح کی سزائیں تجویز کر رہے ہیں۔میرا ان سب سے سوال ہے کہ آج تک آپ نے مولانا صوفی محمد اور مولانا عبدالعزیز جیسے لوگوں کا کیا بگاڑ لیا ہے جو آپ طاہرالقادری کو مجرم گردان کر سزا کی سفارشات مرتب کر رہے ہیں؟آپ کون سے آئین اور کیسی جمہوریت کی بات کر رہے ہیں؟ایک فکر کے لوگ گزشتہ تین دھائیوں سے ریاست کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں ،ان کے مدرسوں میں ہر طرح کے جہادی تیار ہوتے ہیں۔ ایکسپورٹ بھی ہوتے ہیں اور ملک میں بھی کام آتے ہیں۔اس بیمار ریاست اور اس کے اپاہج دستور نے کیا بگاڑ لیا؟ کیا ریاست نے حکیم اللہ محسودکو شہید کہنے والے منور حسن پر غداری کا مقدمہ دائر کر دیا؟ہم اتنے اندھے کانے اور متعصب کیوں ہیں کہ ہم انصاف کو برابری اور غیر جانبداری کی آنکھوں سے دیکھ ہی نہیں پاتے؟ہمیں عمران خان یا طاہرالقادری کے طرز سیاست یا دیگر نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں۔