Tag: include

  • امریکی امن پلان میں جزیرہ سیناء فلسطینیوں کو دینے کی تجویز شامل نہیں، گرین بیلٹ

    امریکی امن پلان میں جزیرہ سیناء فلسطینیوں کو دینے کی تجویز شامل نہیں، گرین بیلٹ

    بیت المقدس : مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے خصوصی ایلچی جیسن گرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کے مشرق وسطیٰ کے لیے مجوزہ امن منصوبے میں جزیرہ نما سیناء کا علاقہ فلسطینیوں کو دینے کوئی تجویز شامل نہیں۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق گرین بیلٹ نے سوشل میڈیا اور بعض ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان خبروں کی تردید کی جن میں کہا گیا کہ امریکی امن منصوبے میں غزہ کے علاقے کو مصر کے جزیرہ نما سیناء تک وسعت دینے کی تجویز شامل کی گئی ہے۔

    امریکا کی جانب سے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان جاری کشیدگی ختم کرنے کے لیے ’ڈیل آف دی سینچری‘ کے عنوان سے ایک امن پلان تیار کیا گیا ہے تاہم اس منصوبے کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔

    گرین بیلٹ نے ٹویٹر پر ایک ٹویٹ میں کہا کہ میں نے وہ رپورٹس سنی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ہمارے امن منصوبے میں جزیرہ سیناءمیں فلسطینیوں کو بسانے کی بات کی گئی ہے مگر اس پلان میں ایسی کوئی تجویز شامل نہیں ہے۔

    امریکا اور اسرائیل کے ذرائع ابلاغ کے مطابق توقع ہے کہ جون میں امریکی صدر کا اعلان کردہ امن منصوبہ جاری کردیا جائے گا۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ فی الحال یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا اس منصوبے میں فلسطینیوں کا حق خود ارادیت اور ان کی آزاد ریاست کا مطالبہ تسلیم کیا گیا ہے یا نہیں۔

    فلسطینی غزہ، غرب اردن اور مشرقی بیت المقدس کو ریاست کے دارالحکومت کے طور پر آزاد کرانے کی جدو جہد کر رہے ہیں۔امریکا کی نگرانی میں 2014ءکو آخری بار اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات ہوئے جو ناکام ہوگئے تھے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل  وائٹ ہاﺅس کے مشیر جیرڈ کوشنر نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان مجوزہ امن منصوبے کا اعلان رمضان المبارک کے آخر میں یا اس کے بعد کیا جائے گا۔

    جیرڈ کوشنر نے 100 ممالک کے سفیروں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ نئی اسرائیلی حکومت کی تشکیل کے بعد اور مسلمانوں کے ماہ مبارک رمضان گزر جانے کے بعد امن معاہدے کے منصوبے پر کام کیا جائے گا۔

  • امریکا کی ڈیل آف دی سنچری میں خودمختار فلسطینی ریاست شامل نہ ہونے کا انکشاف

    امریکا کی ڈیل آف دی سنچری میں خودمختار فلسطینی ریاست شامل نہ ہونے کا انکشاف

    واشنگٹن : امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کے لیے ’صدی کا معاہدہ ‘سے تعبیر کیے گئے امریکی معاہدے میں ایک خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام شامل نہیں ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق فلسطین کے امن سے متعلق معاہدے کے مرکزی عناصر سے واقف ذرائع نے بتایا کہ معاہدے میں فلسطینیوں کی زندگی میں عملی بہتری لانے کی تجاویز شامل ہیں لیکن اس میں محفوظ فلسطینی ریاست کا قیام شامل نہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ رواں برس کے آخر میں وائٹ ہاوس کی جانب سے طویل انتطار کے بعد یہ امن معاہدے جاری کیے جانے کا امکان ہے جس کی صدارت امریکی صدر کے داماد جیرڈ کشنر کر رہے ہیں ۔

    رپورٹ کے مطابق حکام اس منصوبے کو خفیہ رکھ رہے ہیں، جیرڈ کشنر اور دیگر حکام کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امن کی ابتدائی کوششوں کے آغاز کے تحت اس میں ریاست کے قیام کا عنصر شامل نہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبے میں اسرائیل کے سیکیورٹی خدشات پر زیادہ توجہ مرکوز کی گئی ہے، یہ امن معاہدہ خصوصا غزہ کی پٹی پر بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر اور صنعتی تعمیرات کی تجاویز پر مبنی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کو کامیاب کرنے یا اس کے آغاز کے اسرائیل اور فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ خلیجی ممالک کا تعاون بھی ضروری ہوگا۔

    جیرڈ کشنر کے معاہدے سے واقف عرب حکام کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی خاص پیش کش نہیں کی گئی بلکہ اس منصوبے میں فلسطینی شہریوں کے لیے معاشی مواقع پیدا کیے جائیں گے اور متنازع علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کیا جائے گا۔

    جیرڈ کشنر اور دیگر امریکی حکام نے امن اور اقتصادی ترقی کو عرب میں اسرائیل کو تسلیم کرنے اور حاکمیت کے بجائے فلسطین کی خودمختاری سے متعلق ورڑن کی قبولیت سے جوڑا ہے۔

    اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے گزشتہ ہفتے انتخابات سے قبل کہا تھا کہ وہ مغربی کنارے میں قائم یہودی آبادکاروں کو اسرائیل میں ضم کردیں گے۔

    نیتن یاہو کے اس بیان نے سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں کے اس خیال کو تقویت پہنچائی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ فلسطین کی مقبوضہ زمین پر اسرائیل کے تسلط کو وسیع کرے گی۔

  • یورپی یونین کا بدعنوان ممالک کی فہرست میں سعودیہ کا نام شامل کرنے سے انکار

    یورپی یونین کا بدعنوان ممالک کی فہرست میں سعودیہ کا نام شامل کرنے سے انکار

    برسلز : یورپی یونین نے بدعنوان ممالک کی فہرست میں سعودی عرب کا نام شامل کرنے کی یورپین کمیشن کی تجویز مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں جمعے کے روز منعقدہ ایک اجلاس کے دوران یورپی یونین کے رکن ممالک نے یورپین کمیشن کی جانب سے سعودی عرب بد عنوان ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی تجویز منسوخ کردی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک نے کہا کہ سعودی عرب یورپی اسلحے اور دیگر سازو سامان کا ایک بڑا خریدار ہے اسے ہائی کرپٹ ممالک کی فہرست میں نہیں ہونا چاہیے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ برس یورپین کمیشن نے یورپی یونین سعودی عرب سمیت سات ممالک کو دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت روکنے میں ناکامی پر بد عنوان ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی تجویز دی تھی۔

    فرانسیسی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ یورپین کمیشن کی بد عنوان ممالک کی فہرست میں شامل ہونے والے ممالک پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی جاتی، لیکن ان ممالک کے اداروں سے تجارت احتیاط سے کرنی ہوتی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ یورپی کمیشن کی جانب سے نشانہ بنائے جانے والے نئے ممالک میں پانامہ, سعودی عرب, نائجیریا سمیت سات ممالک شامل ہیں جبکہ پاکستان، ایران، عراق، شمالی کوریا اور ایتھوپیا سمیت 16 ممالک پہلے اس فہرست میں شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں : بدعنوان ممالک کی فہرست میں سات ممالک کا اضافہ

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور دیگر سات ممالک کے مذکورہ فہرست میں شامل ہونے کے بعد بدعنوان ممالک کی تعداد 23 ہوگئی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ مذکورہ اقدام ترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں جمال خاشقجی کے دردناک قتل کے بعد سعودی حکومت اور یورپی یونین کے مابین کشیدگی کے بعد سامنے آیا تھا۔