Tag: India

  • پرانی گاڑی دے کر نئی گاڑی حاصل کرنے کی اسکیم نے لوگوں کو حیران کر دیا

    پرانی گاڑی دے کر نئی گاڑی حاصل کرنے کی اسکیم نے لوگوں کو حیران کر دیا

    21 بھارتی ریاستوں میں پرانی گاڑی دے کر نئی گاڑی حاصل کرنے کی اسکیم نے لوگوں کو حیران کر دیا۔

    بھارت کی اکیس ریاستوں نے اعلان کیا ہے کہ اگر کوئی اپنی پرانی گاڑی کباڑ میں دیتا ہے تو اسے ریاست کی طرف سے نئی گاڑی لینے پر بڑی چھوٹ دی جائے گی۔ یہ اعلان مرکزی حکومت کی جانب سے ریاستی حکومتوں کو پرانی اور غیر معیاری گاڑیوں کی اسکریپنگ لازمی بنانے کی ہدایت کے بعد سامنے آیا ہے۔

    بہار، مدھیہ پردیش، اتر پردیش، ہریانہ، کرناٹک، مہاراشٹر، گجرات، پنجاب اور کیرالہ سمیت اکیس ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں نے موٹر وہیکل یا روڈ ٹیکس میں چھوٹ کا اعلان کر دیا ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق پرانی گاڑیوں کو اسکریپ کرنے کے بدلے نئی کار خریدنے پر 25 فی صد تک اور کمرشل وہیکل پر 15 فی صد تک کی چھوٹ دینے کی بھی پیش کش کی گئی ہے۔

    اب تک تقریباً 70 ہزار پرانی گاڑیوں کو خود سے ہی تباہ کر دیا گیا ہے، دہلی واحد ریاست/مرکز کے زیر انتظام خطہ ہے جہاں 10 اور 15 سال سے زیادہ پرانی ڈیزل و پٹرول گاڑیاں خود بخود اَن رجسٹرڈ ہو جاتی ہیں اور انھیں اسکریپ کرنا پڑتا ہے۔

    نجی گاڑی کے معاملے میں 12 ریاستیں روڈ ٹیکس پر 25 فی صد کی چھوٹ دے رہی ہیں، ہریانہ 10 فی صد رعایت یا اسکریپ ویلیو کے 50 فی صد سے کم کا آفر کر رہا ہے، اتراکھنڈ 25 فی صد یا 50 ہزار روپے کی چھوٹ دے رہا ہے۔ کرناٹک روڈ ٹیکس چھوٹ کے تحت 20 لاکھ روپے سے زیادہ قیمت والی کار کے لیے 50 ہزار روپے کی چھوٹ ملے گی۔

  • ویڈیو رپورٹ: مودی سرکار اور واٹس ایپ کا جھگڑا کیا ہے؟

    ویڈیو رپورٹ: مودی سرکار اور واٹس ایپ کا جھگڑا کیا ہے؟

    واٹس ایپ نے بھارت میں اپنے آپریشن بند کرنے کے دھمکی دے دی ہے، جس سے مودی سرکار کے دور اقتدار میں بھارت میں نام نہاد جمہوریت کی حقیقت آشکار ہو گئی ہے۔

    انتخابی مہم کے دوران مودی بھارت کو جمہوریت کی ماں کا لقب دینے میں مصروف نظر آئے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے، بھارت میں مودی سرکار مخالف سیاست دانوں اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف تو تھی مگر اب اس نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے خلاف بھی محاذ کھول لیا ہے۔

    یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں مودی سرکار اپنے مخالف صحافیوں اور سیاست دانوں کے فون ٹیپ کرنے کے لیے مختلف جاسوسی سافٹ ویئرز کا استعمال کرتی رہی ہے، تاہم اب مودی سرکار نے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے مخالفین کے واٹس ایپ ڈیٹا تک رسائی کے لیے دباوٴ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔

    واٹس ایپ چیٹ اینڈ ٹو اینڈ انکرپٹڈ ہوتی ہے، جو صارفین کو تحفظ فراہم کرتی ہے، صارفین کے واٹس ایپ استعمال کو محفوظ رکھنے کے لیے میٹا کے پلیٹ فارم واٹس ایپ نے مودی سرکار کو خبردار کیا ہے کہ چیٹ انکرپشن کو توڑنے پر مجبور کیا گیا تو وہ بھارت میں اپنے آپریشن بند کر دیں گے۔

    مودی سرکار اور واٹس ایپ کے درمیان یہ تنازع اب دہلی ہائی کورٹس میں زیر سماعت ہے، جہاں عدالت کے روبرو بھی واٹس ایپ کے وکیل نے واضح کیا ہے کہ اگر دباوٴ ڈالا گیا تو کمپنی بھارت میں مزید آپریشن بند کر دے گی۔

    واٹس ایپ کا دعویٰ ہے کہ واٹس ایپ کے ذریعے بھیجے گئے پیغامات تک رسائی حاصل نہیں کی جا سکتی مگر مودی سرکار نے حال ہی میں اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے ایسے کڑے قوانین تیار کیے ہیں جو سوشل میڈیا ایپس کو محفوظ بنانے والے فیچرز پر حملے کے مترادف ہیں۔

    مودی سرکار اسی طرح کے منفی حربوں کا استعمال کرتے ہوئے ”ایکس“ کو کسی حد تک دباوٴ میں لے آئی ہے، مگر میٹا کمپنی ڈٹی ہوئی ہے، کیا مودی سرکار اپنے مخالفین اور بھارت کی عوام پر مکمل کنٹرول کے خواب کو پورا کر پائے گی؟

  • بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ جاری

    بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ جاری

    ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 2023 میں مودی حکومت نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور ذرائع ابلاغ پر بے دریغ پابندیاں لگائیں۔

    رپورٹ کے مطابق فروری 2023 میں مودی مخالف ڈاکیومنٹری پر بی بی سی دفاتر کو چھاپا مار کر بند کیا گیا، اور ڈیجیٹل میڈیا ایتھکس کوڈ بل کے تحت مودی مخالف مواد ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔

    2023 میں وال اسٹریٹ جرنل کی صحافی کو بھارتی انتہا پسندوں نے توہین آمیز رویے کا نشانہ بنایا، نیوز کلک ادارے کے 46 صحافیوں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزامات کا نشانہ بنایا گیا۔

    رپورٹ کے مطابق 2023 میں بھارتی مسلمانوں کے خلاف تشدد کے 255 واقعات رپورٹ ہوئے، آسام، بہار، دہلی، ہریانہ اور دیگر علاقوں میں 32 سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا گیا، شہری ترمیمی ایکٹ کی ترمیم کے بعد بھارتی مسلمانوں سے ان کی شہریت کا حق چھینا گیا، منی پور قبائل کے 200 سے زائد افراد کو قتل اور 5 ہزار کو بے گھر کر دیا گیا۔

    ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 2023 میں کشمیری صحافی فہد شاہ کی ویب سائٹ ’’دی کشمیر والا‘‘ کو بلاک کیا گیا، کشمیری صحافی فہد شاہ کا فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی بند کیا گیا، سرینگر، بڈگام، اننت ناگ اور بارمولہ میں متعدد گھروں کو مسمار کیا گیا، دسمبر 2023 کو بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کی منسوخی پر بھی مہر لگائی۔

  • علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بی جے پی کی شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ گئی

    علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بی جے پی کی شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ گئی

    علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بی جے پی کی شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ گئی ہے، صدیوں پرانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی گزشتہ 5 سالوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی فرقہ وارانہ سیاست کا شکار چلی آ رہی ہے، کئی مسلم اکثریتی جامعات مودی کے دور حکومت میں تشدد اور حملوں کی زد میں آئی ہیں، بھارت میں مسلمانوں کی جامعات بھی مودی کے زہریلے پروپیگنڈے کے زیر اثر ہیں۔

    مودی کا گزشتہ 10 سالہ اقتدار فرقہ وارایت اور نفرت کی سیاست پر مشتمل ہے، جس نے جامعات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، گزشتہ ہفتے مودی کی مسلم مخالف فرقہ وارانہ تقریر پر تنقید کے باوجود، مودی نے پیر کو علی گڑھ کے ایم پی ستیش گوتم کے لیے مہم چلاتے ہوئے اپنے مسلم مخالف بیانیے کو دہرایا۔

    پی ایچ ڈی اسکالر کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں علی گڑھ یونیورسٹی میں تنازعات کو سیاسی رنگ دیا گیا ہے جب کہ بی جے پی کا سیاسی بیانیہ روزگار کی بجائے انتہا پسندی پر مرکوز ہے، تعلیم کا جتنا استحصال بی جے پی نے کیا ہے، کسی اور پارٹی نے نہیں کیا۔

    طلبہ کے مطابق محدود آسامیوں کے لیے درخواستیں بڑھ رہی ہیں لیکن نوکریاں نہیں ہیں، پرائمری ٹیچر کی آسامیاں گزشتہ پانچ سالوں میں نہیں آئیں، پڑھے لگے نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا جب کہ جو آسامیاں آتی بھی ہیں ان پر بی جے پی اپنے بندوں کو لگا دیتی، ایک جانب نوجوانوں کو روزگار نہیں دیا جاتا، دوسری جانب بی جے پی کی جانب سے فرقہ وارانہ سوچ کو پذیرائی دی جاتی ہے۔

    اتر پردیش میں سرکاری آسامیوں کے لیے پیپر لیک ہونے کے واقعات کے بعد سیٹیں اپنے من پسند لوگوں کو دے دی جاتی ہیں لیکن حکومت اس کا نوٹس نہیں لے رہی، 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل بی جے پی کی جانب سے طلبہ یونین کے دفتر کی دیواروں پر قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر لٹکانے پر شدید اعتراض کیا گیا، نومبر 2018 میں بی جے پی کے کارندوں نے الزام عائد کیا کہ علی گڑھ یونیورسٹی طالبان نظریہ پر چلائی جاتی ہے۔

    مسلم طالب علم کی نماز جنازہ ادا کرنے پربھی بی جے پی کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا، بی جے پی کے دیگر رہنماوٴں نے بھی طلبہ کی جانب سے فلسطین کی حمایت میں مارچ کے اہتمام پر یونیورسٹی کو دہشت گردوں کا مرکز قرار دیا، 2019 میں شہریت بل کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ پر پولیس کے کریک ڈاوٴن کے بعد لاٹھی چارج اور تشدد کا نشانہ بنایا، شہریت بل کے احتجاج پر طلبہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا اور یونیورسٹی میں تقریر کرنے پر جیل بھیج دیا گیا۔

    بی جے پی کے کارندوں کی جانب سے مودی حکومت کی دوسری میعاد کے لیے حلف اٹھانے پر یونیورسٹی طلبہ کی جانب سے محض احتجاج پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ کی طرف سے کوئی بھی احتجاج ہو تو اسے سیاسی بنا دیا جاتا ہے اور پھر طلبہ کو دہشت گرد کہا جاتا ہے جب کہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے طلبہ احتجاج کرتے ہیں تو ایسی تنقید نہیں ہوتی۔

    طلبہ نے مزید بتایا کہ یہ ہمارے اقلیتی ہونے کا سوال ہے اور پورے ملک میں ایک بیانیہ بنایا جا رہا ہے، آر ایس ایس اور بی جے پی کے کارندوں کے دباوٴ کی وجہ سے 2018 کے بعد سے طلبہ تنظیم کے انتخابات روک دیے گئے ہیں، مودی کے کارندوں کی جانب سے تعلیمی اداروں پر حملوں کے علاوہ مرکزی یونیورسٹیوں کے فنڈز میں کٹوتی میں بھی تیزی آئی ہے جو طلبہ کو کم قیمتوں پر اعلیٰ تعلیم فراہم کرتی ہیں۔

    مودی حکومت کی جانب سے 2014 کے بعد سے ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامی یونیورسٹی کا بجٹ 15 فی صد بھی کم کر دیا گیا جب کہ بنارس ہندو یونیورسٹی کا بجٹ 669.51 کروڑ روپے سے بڑھ کر 1,303.01 کروڑ روپے کر دیا گیا، مودی کے دور میں تعلیمی اداروں پر حملہ اٹل بہاری واجپائی اور آر ایس ایس کی سوچ کا تسلسل ہے۔

    بی جے پی کی جانب سے درسی کتابوں کے ذریعے اسکول میں منفی ذہنوں سازی کی گئی، اگر جامعہ یا اے ایم یو کا کوئی طالب علم یونین پبلک سروس کمیشن کے لیے کوالیفائی کرتا ہے تو وہ اسے جہادی کہتے ہیں، حالیہ انتخابی مہم میں مودی سرکار مسلمانوں پر نئے سرے سے حملہ آور ہو کر مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی ہے، بھارت میں مودی سرکار کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کو ہدف بنا نا ہندوتوا سوچ کی عکاسی ہے۔

  • بھارت میں انسانی حقوق کی پامالیاں، امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ جاری

    بھارت میں انسانی حقوق کی پامالیاں، امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ جاری

    بھارت میں انسانی حقوق کی پامالیاں شرمناک حد تک بڑھ چکی ہیں، مودی کے بھارت میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے رپورٹ جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ 3 مئی سے 15 نومبر کے درمیان کم از کم 175 افراد ہلاک اور 60 ہزار سے زیادہ بے گھر ہوئے، یاد رہے کہ بھارت نے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی انسانی حقوق اور مذہبی آزادی پر سابقہ رپورٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

    22 اپریل 2024 کو بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تفصیلی رپورٹ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سیکریٹری انٹونی بلنکن کی جانب سے پیش کی گئی، رپورٹ میں منی پور، بی بی سی دفتر پر غیر قانونی چھاپے اور راہول گاندھی کی دو سالہ قید کی سزا کا ذکر کیا گیا۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2023 میں ہندوستان کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں کوکی اور میتی قبیلوں کے درمیان نسلی تنازعہ کا آغاز ہوا جس کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں۔ رپورٹ کے مطابق 3 مئی سے 15 نومبر کے درمیان کم از کم 175 افراد ہلاک اور 60,000 سے زیادہ بے گھر ہوئے، منی پور میں بڑے پیمانے پر مسلح تصادم، عصمت دری، گھروں، کاروبار اور عبادت گاہوں کی تباہی ہوئی۔

    امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق منی پور فساد کے متاثرہ افراد، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے مودی سرکار کی انتشار اور تشدد روکنے میں ناکامی پر کڑی تنقید کی، مودی سرکار کی جانب سے سول سوسائٹی کی تنظیموں، مذہبی اقلیتوں، جیسے سکھوں و مسلمانوں، اور سیاسی اپوزیشن کے خلاف غلط معلومات پھیلانے کے بھی بے شمار واقعات رونما ہوئے۔

    جموں و کشمیر میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں سے پرتشدد تفتیش کی بھی متعدد رپورٹس موصول ہوئی ہیں، 2019 سے اب تک 35 سے زائد صحافیوں پر بھارتی فوج کے حملوں، تفتیش، چھاپوں، من گھڑت مقدمات، اور نقل و حرکت پر پابندیوں کی رپورٹ موصول ہوئی۔

    بی بی سی کے دفتر پر بھی بھارتی ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے غیر قانونی طور پر چھاپا مارا اور ان لوگوں کو بھی نقصان پہنچایا جن کا فنانس ڈیپارٹمنٹ سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا، بی بی سی کی مودی پر تنقیدی ڈاکیومنٹری ریلیز ہونے کے بعد ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے مودی کے حکم پر دفتر پر چھاپا مارا۔ روئٹرز کے مطابق رپورٹرز ودآوٴٹ بارڈرز نے 2023 میں آزادی صحافت کے انڈیکس میں ہندوستان کو 180 ممالک میں سے 161 نمبر پر رکھا۔

    انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ مودی کے دور میں ماحول انتہائی خراب ہوا ہے، رپورٹ میں مودی کے زیر اقتدار نفرت انگیز تقاریر میں اضافے، کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی، شہریت کا قانون جسے اقوام متحدہ ’’بنیادی طور پر امتیازی‘‘ قرار دیتا ہے اور غیر قانونی تعمیرات کو ہٹانے کے نام پر مسلمانوں کی املاک کی مسماری کا بھی ذکر کیا گیا۔

  • مسلمانوں کو ’درانداز اور بہت سے بچوں والے لوگ‘ کہنے پر کانگریس کا مودی کے خلاف ٹھوس قدم

    مسلمانوں کو ’درانداز اور بہت سے بچوں والے لوگ‘ کہنے پر کانگریس کا مودی کے خلاف ٹھوس قدم

    نئی دہلی: مسلمانوں کو ’درانداز اور بہت سے بچوں والے لوگ‘ کہنے پر کانگریس نے مودی کے خلاف الیکشن کمیشن کو شکایت درج کرا دی۔

    تفصیلات کے مطابق انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی مسلمانوں کو نشانہ بنانے سے باز نہیں آئے، راجستھان میں انتخابی تقریر کے دوران مسلمانوں کو نشانہ بنانے پر کانگریس نے الیکشن کمیشن کو شکایت درج کرا دی ہے۔

    کانگریس نے کہا کہ تفرقہ انگیز، قابل اعتراض اور بدنیتی پر مبنی تبصرے مخصوص مذہبی برادری کو نشانہ بنا کر کیے گئے اور یہ انتخابی قوانین کی کھلی اور براہ راست خلاف ورزی ہے، یہ الفاظ ہندوستان کی تاریخ میں کسی بھی وزیر اعظم کے بیان سے کہیں بدتر ہیں، کانگریس کے ترجمان ابھیشیک نے کہا مجھے امید ہے کہ شکایت پر ٹھوس کارروائی کی جائے گی۔

    راجستھان میں ہفتہ وار انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا تھا کہ کانگریس کی سابق حکومت نے کہا تھا کہ ملک کی دولت پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے، اگر کانگریس جیت گئی تو دولت ان لوگوں میں تقسیم کی جائے گی جن کے زیادہ بچے ہیں، یہ دراندازوں میں تقسیم کی جائے گی، کیا آپ اسے قبول کریں گے؟

    جب کرونا وبا بھارتیوں کو نگل رہی تھی، مودی کیا کر رہا تھا؟ نیویارک ٹائمز کی سنسنی خیز رپورٹ

    کانگریس رہنما ششی تھرور نے کہا کہ مودی کی تقریر انتہائی شرمناک تھی، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسدالدین اویسی نے کہا مودی نے آج مسلمانوں کو درانداز اور بہت سے بچوں والے لوگ کہا ہے، مودی کا مقصد صرف مسلمانوں کو گالی دینا اور ووٹ حاصل کرنا ہے۔

  • جب کرونا وبا بھارتیوں کو نگل رہی تھی، مودی کیا کر رہا تھا؟ نیویارک ٹائمز کی سنسنی خیز رپورٹ

    جب کرونا وبا بھارتیوں کو نگل رہی تھی، مودی کیا کر رہا تھا؟ نیویارک ٹائمز کی سنسنی خیز رپورٹ

    مودی کے جھوٹ کا مندر نیویارک ٹائمز نے بے نقاب کر دیا، 18 اپریل 2024 کو شائع ہونے والے نیو یارک ٹائمز کے آرٹیکل میں مودی کے جھوٹوں کا پلندہ کھول کر رکھ دیا گیا ہے۔

    نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق تاریخی بابری مسجد کے لیے پہچانے جانے والے شہر ایودھیا کو مودی کے شاؤنسٹ ہندو شہر میں تبدیل کر دیا گیا ہے، 2020 میں کرونا وائرس سے جب ہر روز ہزاروں کی تعداد میں بھارتی شہری ہلاک ہو رہے تھے تب مودی ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کی شروعات کر رہا تھا۔

    نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی کے ہندوتوا نظریے نے بھارتی شہریوں کے دل میں ہر غیر ملکی چیز اور انسان کے لیے نفرت اور بے اعتباری کے بیچ بو دیے ہیں، ایودھیا کے ہوٹلوں میں صرف ویجیٹیرین کھانا دستیاب تھا اور سڑکوں پر گائے کھلی گھوم رہی تھیں، یہ دونوں باتیں مسلمانوں کے خلاف تعصب اور ہندو انتہا پسندی کی واضح مثالیں ہیں۔

    رام مندر کے باہر دکانوں پر نفرت انگیز ہندو مردانگی کو ظاہر کرتی رام اور ہنومان کی مورتیاں بیچی جا رہی تھیں جس میں رام کو 6 پیک اور مسلز کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، اپنی دس سالہ حکومت کے دوران مودی نے جمہوریت کا دعویٰ کیا ہے لیکن ایودھیا میں جمہوریت کے برعکس ہر شہری چاہے ہندو ہو یا مسلم کو ہندوتوا پالیسی پر چلنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔

    مودی کا ہندوستان شدید عدم مساوات، بیروزگاری، صحت عامہ کی ابتر صورت حال اور موسمیاتی تبدیلی کی بڑھتی ہوئی تباہ کاریوں سے دوچار ہے، مودی دنیا کے متنوع ترین ملک انڈیا کو کلسٹروفوبک اور انتہا پسند ہندوستان میں تبدیل کر کے ان بحرانوں کو حل نہیں کر سکتا، بھارت کو درپیش مسائل اور اپنی ناقص کارکردگی سے مودی سرکار خود بھی واقف ہے اور اسی لیے انتخابات کے پیش نظر خوف زدہ نظر آتی ہے، اپوزیشن جماعتوں کے خلاف کریک ڈاوٴن، الیکٹورل رولز اور ووٹنگ مشینوں میں چھیڑ چھاڑ اور اپوزیشن کے مالی وسائل منجمد کرنا کسی خود اعتماد گروپ کی نشانی نہیں ہے۔

    جنوری 2024 میں ہندوستان میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے افتتاح کا جشن منایا گیا جب کہ اس تاریخی مقام پر رام مندر یا خود رام کے وجود کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے، پورے ملک میں تمام دفاتر اور تعلیمی اداروں کی چھٹی، میڈیا چینلز پر لائیو کوریج اور آتش بازی، ان سب کے بیچ رام مندر سے زیادہ مودی کو سپاٹ لائٹ دی گئی، افتتاحی تقریب کی تاریخ بھی نہایت احتیاط سے رکھی گئی تاکہ 26 جنوری رپبلک ڈے کی اہمیت کو کم کیا جا سکے، 14 اگست کو انتہاپسند ہندووٴں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

    بھارتی پارلیمنٹ کی پرانی عمارت کے ڈیزائن کو بھی گزشتہ برس تبدیل کر دیا گیا جس میں ہندو، بدھ، مسلم اور عیسائی کے مابین ہم آہنگی کا حوالہ دیا جاتا تھا، نئی عمارت میں کنول کے پھول کا ڈیزائن تشکیل دیا گیا ہے جو ہندوتوا بھارت اور بی جے پی کی نمائندگی کرتا ہے، ہندوستان میں مسلمانوں کے نام والی تمام شاہراہوں کے نام تبدیل کر کے ہندو نام رکھ دیے گئے ہیں، بالی ووڈ، ٹیلی ویژن اور پرنٹ میڈیا بھی ہندوتوا پالیسی پر چلتے ہوئے محض ہندو مذہب پر مبنی مواد بنا رہا ہے، جو صحافی اور ادارے ہندوتوا پالیسی پر کام کرنے کو تیار نہیں انھیں قانونی اداروں کی جانب سے دھمکیوں اور پولیس کے چھاپوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    شعبہ تعلیم میں، سرکاری اداروں کو مودی سرکار کے جاہل کارکنان چلاتے ہیں، اور اسکول کی نصابی کتابوں سے لے کر سائنسی تحقیقی مقالوں تک، ہندوستان کے ہندو قوم پرست ورژن کو آگے بڑھایا جاتا ہے، 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی، نئے قوانین برائے بھارتی شہریت، مسلمانوں کی حق رائے دہی سے محرومی اور رام مندر کی تعمیر سے مودی نے مکمل طور پر انڈیا کو محض ایک ہندو ریاست میں تبدیل کر دیا ہے، مودی کے چمک دار رام مندر کے پیچھے انتہا پسند اور پر تشدد ہندوؤں کی کاروائیاں اور غریب اقلیتوں پر ظلم و جبر کی داستان لاکھ کوششوں کے باوجود بھی چھپائی نہیں جا سکتی۔

  • بھارت میں 100 سال بعد مسلمان خاتون کیلیے بڑا اعزاز

    بھارت میں 100 سال بعد مسلمان خاتون کیلیے بڑا اعزاز

    علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی 100 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک مسلمان خاتون کی بحیثیت سربراہ کی تقرری کی گئی ہے، پروفیسر نعیمہ خاتون کو یونیورسٹی کی وائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ 100 سال میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی مسلم خاتون کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کا وائس چانسلر بنایا گیا ہے۔ اس سے قبل 1920 میں بیگم سلطان جہاں کو اے ایم یو کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا تھا۔

    قابل ذکر بات یہ ہے کہ پروفیسر نعیمہ خاتون اے ایم یو میں ویمنز کالج کی موجودہ پرنسپل ہیں انہیں صدر جمہوریہ دروپدی مرمو سے منظوری ملنے کے بعد اے ایم یو کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق بھارت میں انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہے، اس لیے پروفیسر نعیمہ خاتون کی تقرری سے قبل الیکشن کمیشن سے منظوری بھی طلب کی گئی تھی جس کے بعد سرکاری نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔

    نوٹیفکیشن کے متن میں لکھا گیا ہے کہ ویمنز کالج کی پرنسپل نعیمہ خاتون کو پانچ سال کی مدت کے لیے اے ایم یو کی وائس چانسلر مقرر کیا جاتا ہے۔

    الیکشن کمیشن آف انڈیا نے کہا ہے کہ اسے اے ایم یو وائس چانسلر کی تقرری سے متعلق تجویز پر انتخابی ضابطہ اخلاق کے نظریہ سے کوئی اعتراض نہیں ہے بشرطیکہ اس سے کوئی سیاسی فائدہ نہ لیا جائے۔

    واضح رہے کہ سال1875 میں قائم محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کو 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا نام دیا گیا تھا۔ 1920 میں ہی بیگم سلطان جہاں کو اے ایم یو کی وائس چانسلر مقرر کیا گیا تھا۔

    بیگم سلطان جہاں کا تعلق بھوپال کے شاہی گھرانہ سے تھا، اس کے بعد 100 سال کی مدت میں اے ایم یو کی وائس چانسلر مقرر کی گئیں پروفیسر نعیمہ یہ عہدہ حاصل کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔

  • ویڈیو رپورٹ: بھارت میں فیک نیوز کے پھیلاؤ سے متعلق نئے حقائق سامنے آ گئے

    ویڈیو رپورٹ: بھارت میں فیک نیوز کے پھیلاؤ سے متعلق نئے حقائق سامنے آ گئے

    بھارت میں فیک نیوز اور پروپیگنڈا عروج پر ہے، سی این اے انسائیڈر کی خصوصی ڈاکومنٹری میں بھارت میں جھوٹی خبروں کے پھیلاؤ سے متعلق نئے حقائق سامنے آ گئے۔

    سی این اے انسائیڈر کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں جھوٹ کے پھیلاؤ میں بھارت نمبر ون پر ہے، نومبر 2023 میں راجھستان کے انتخابات کے دوران کانگریس لیڈر اشوک گیلوٹ کے جلسے کی ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں اشوک گیلوٹ کی تقریر کے دوران مودی کے نعرے بلند ہوتے دکھائے گئے اور اس ویڈیو کو ویریفائیڈ اکاؤنٹ رشی بگری پر شیئر کیا گیا، جسے 488 ہزار سے زائد لوگوں نے دیکھا۔

    سی این اے انسائیڈر کے مطابق متعدد نیوز چیکرز نے ویڈیو کو جھوٹا قرار دیا اور تقریر کی لائیو اسٹریم سے ثابت کیا کہ جلسے میں کہیں بھی مودی کے نعرے نہیں لگائے گئے، اس سے پہلے کہ کوئی بھی ویڈیو سچ یا جھوٹ ثابت ہو اسے لاکھوں ووٹرز میں پھیلا کر متاثر کر دیا جاتا ہے۔

    سی این اے انسائیڈر کے مطابق 2023 کے سٹیٹسٹا سروے میں بھارت میں سب سے بڑا خطرہ غلط اور فیک نیوز اور معلومات کے پھیلاؤ کو قرار دیا گیا، بھارت میں انتخابات کے دوران فری لانسرز سب سے زیادہ ڈیمانڈ میں ہوتے ہیں، جن کا کام سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کی کیمپین چلانا ہوتا ہے، سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کی کیمپینز زیادہ تر جھوٹ اور من گھڑت پروپیگنڈے پر مبنی ہوتی ہیں۔

    ویڈیو رپورٹ: بھارتی انتخابات سے متعلق دی گارڈین نے اپنی رپورٹ میں کیا لکھا؟

    سی این اے انسائیڈر نے مزید لکھا کہ ہزاروں آئی ٹی سیل ورکرز کو سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہائر کیا جاتا تاکہ وہ سوشل میڈیا پر اپوزیشن جماعتوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا پھیلا سکیں، انیل کمار جو کہ بی جے پی کے آئی ٹی سیل میں کام کرتا ہے، مختلف آرٹسٹس کو ہائر کر کے مودی کی تعریف اور اپوزیشن کے خلاف ویڈیوز بنا کر وٹس ایپ پر وائرل کرتا ہے، انیل کمار کو بی جے پی کے حق میں کوئی بھی جھوٹی اور من گھڑت معلومات پھیلانے کی اجازت ہے۔

    2019 میں بی جے پی نے محض اتر پردیش میں انتخابی مہم کے لیے انیل کمار جیسے 2 لاکھ سائبر ورکرز کو ہائر کیا تھا، انیل کمار نے بتایا ’’ہماری ایک مخصوص ٹیم ہے جس کا کام اپوزیشن جماعتوں کے کمنٹ سیکشن میں ہتک آمیز باتیں پوسٹ کرنا ہوتا ہے۔‘‘

    سی این اے انسائیڈر کے مطابق اپریل 2019 میں فیس بک نے 700 سے زائد اکائونٹس کو بی جے پی کے متعلق فیک نیوز پھیلانے پر بند کیا تھا، فیک نیوز بھارت میں ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکی ہے، ڈس انفو لیب نے 15 سالہ تحقیق کے بعد بھارت سے آپریٹ ہونے والے 750 جعلی میڈیا ہینڈلز کی کھوج لگائی جو کہ 119 ممالک میں جھوٹی خبر پھیلانے کا کام کرتے تھے، سوادی چترویدی کی کتاب ’’آئی ایم ٹرول‘‘ میں دو سال کی ریسرچ کے ذریعے ثابت کیا گیا کہ ایک منظم سسٹم کے تحت سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد پھیلایا جاتا ہے۔

    سوادی چترویدی نے لکھا کہ مودی سرکار جانتی ہے کہ انفارمیشن کتنا بڑا ہتھیار ہے اور اسے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے اس لیے وہ بھارت میں انفارمیشن کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہے۔‘‘ مودی سرکار کی جانب سے پھیلایا جانے والا نفرت انگیز مواد اب مذہبی پولرائزیشن اور انتہا پسندی کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کا نتیجہ اموات ہیں، 3 اگست 2023 کو ہریانہ میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین ہونے والے فساد میں 200 سے زائد افراد زخمی اور 7 افراد ہلاک ہوئے تھے، اس فساد کی وجہ محض سوشل میڈیا پر ہندو لیڈر کی جانب سے شیئر کی گئی ایک نفرت انگیز ویڈیو تھی۔

    سی این اے انسائیڈر نے لکھا ہندوتوا واچ کے بانی اور کشمیری صحافی رقیب نائیک کو جھوٹے پروپیگنڈوں کی حقیقت آشکار کرنے پر بھارت سے ملک بدر کر دیا گیا تھا، رقیب نائیک کا کہنا تھا ’’مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے مودی سرکار مسلمانوں کو ہندوؤں کا دشمن بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘‘ سی این اے انسائیڈر کے مطابق رقیب نائیک کو مذہب کی بنیاد پر نفرت انگیز مواد پر تنقید کرنے کے باعث پاکستانی ہونے کا الزام لگا کر ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔

    جنوری 2024 میں مودی سرکار نے ٹوئٹر پر دباؤ ڈال کر ہندوتوا واچ کو بند کروا دیا،3 جولائی 2018 کو ممبئی میں ہندو انتہا پسندوں نے 5 بے گناہ افراد کو تشدد کا نشانہ بنا کر سر عام قتل کر دیا تھا، اس ہول ناک واقعے کی وجہ سوشل میڈیا پر بچے کی اغوا کی ایک جھوٹی ویڈیو تھی جسے دیکھ کر مشتعل ہجوم نے معصوم افراد کا قتل کر دیا، وٹس ایپ پر پھیلنے والی جھوٹی افواہوں کے باعث 2017 سے اب تک 23 سر عام قتل کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔

    سی این اے انسائیڈر کے مطابق بھارت میں 418 ملین سے زائد انٹرنیٹ صارفین موجود ہیں جن میں سے محض 38 فی صد ڈیجیٹل میڈیا کے متعلق آگاہی رکھتے ہیں، 2017 سے اب تک فیس بک 27 ملین جعلی اکاؤنٹس کو منجمد کر چکا ہے، کرونا وبا کے دوران وٹس ایپ پر ملنے والی جھوٹی خبروں کے باعث بھارت میں عوام سنگین مشکلات کا شکار رہی، وٹس ایپ اور فیس بک پر بھارتی عوام کو گاؤ موتر اور دیگر نازیبا اشیا کے استعمال سے کرونا کا علاج کرنے کا کہا جاتا رہا جس پر عوام عمل بھی کرتی رہی، ڈاکٹر ادتیا سیٹھی کے مطابق ’’کووِڈ کے دوران ہمارے پاس بے شمار مریض ایسے بھی آئے جنھوں نے وٹس ایپ میسج پر یقین کر کے کووڈ کو ختم کرنے کے لہے برتن دھونے والا صابن کھایا یا پیا تھا۔

    بھارت میں سوشل میڈیا کے ذریعے صحت کے متعلق غلط معلومات کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ صحت کا ناقص سسٹم ہے، سی این اے انسائیڈر کے مطابق مودی سرکار بھارتی جی ڈی پی کا محض 1.5 فی صد صحت پر خرچ کرتی ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے جعلی اور جھوٹی خبروں اور نفرت انگیز مواد کے پھیلاؤ کے باعث لاکھوں بھارتی بھاری نقصان اٹھاتے ہیں لیکن مودی سرکار ڈھٹائی سے اس عمل کو نہ روکتی ہے اور نہ ہی دوسروں کو اس کی ترغیب دیتی ہے۔

  • ایکس انتظامیہ کو مودی سرکار سے کن پوسٹوں کو ڈیلیٹ کرنے کے احکامات ملے؟

    ایکس انتظامیہ کو مودی سرکار سے کن پوسٹوں کو ڈیلیٹ کرنے کے احکامات ملے؟

    نئی دہلی: بھارت کی اپوزیشن پارٹی کانگریس مودی سرکار کے الیکٹورل بانڈ اسکینڈل پر شدید تنقید کر رہی ہے، راہول گاندھی نے اسے دنیا کا سب سے بڑا اسکینڈل قرار دے دیا ہے، انھوں نے کہا جب مودی الیکٹورل بانڈز کا جواز پیش کر رہے تھے تو ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔

    کانگریس نے ’الیکٹورل بانڈز‘ اسکینڈل سے متعلق سوشل میڈیا پوسٹس ڈیلیٹ کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن کی ہدایت پر سخت تنقید کی ہے، کانگریس نے کہا ہے کہ مودی حکومت آزاد ہندوستان کے سب سے بڑے اسکینڈل کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے، اور مودی سرکار نے ’الیکٹورل بانڈز‘ اسکینڈل چھپانے کے لیے ایکس پر پوسٹس ڈیلیٹ کروائیں۔

    سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ نے ایک خبر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ اسے الیکشن کمیشن کی جانب سے 4 ہینڈلز کی پوسٹس ڈلیٹ کرنے کی ہدایت ملی ہے، ایکس نے مذکورہ خبر شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم اظہار رائے کی آزادی میں رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہتے لیکن چوں کہ ہمارے پاس یہ ہدایت آئی ہے اس لیے ایسا کرنا پڑا۔

    نئی دہلی میں کانگریس کی ترجمان سپریا شرینیت نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ نفرت انگیز تقاریر اور مذہب کا استعمال انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے، لیکن الیکشن کمیشن نے ایسی پوسٹس ڈیلیٹ کروائیں جن میں الیکٹورل بانڈز اسکینڈل کا ذکر کیا گیا تھا۔ بی جے پی الیکٹورل بانڈ اسکینڈل کے ذریعے وصولی کا ریکٹ چلا رہی تھی، سوال یہ ہے کہ آخر الیکشن کمیشن کو الیکٹورل بانڈز پر بات کرنا کیوں قابل اعتراض لگا؟

    واضح رہے کہ وزیر اعظم مودی سرکار نے 2017 میں الیکٹورل بانڈز متعارف کرائے تھے جس کے ذریعے کوئی کاروباری شخص یا تنظیم سیاسی پارٹی کو فنڈز دیتی ہے، سپریم کورٹ نے اسے گزشتہ ماہ ’غیر آئینی‘ قرار دے دیا ہے۔

    الجزیرہ کے مطابق 10 نومبر 2022 کو ہندوستان کے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے حیدرآباد میں ایک کاروباری شخصیت پی سرتھ چندر ریڈی کو نئی دہلی میں شراب کے اسکینڈل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا تھا، لیکن پانچ دن بعد آروبندو فارما نامی ایک کمپنی (جس میں سرتھ چندر ریڈی ڈائریکٹر ہیں) نے 50 ملین روپے کے انتخابی بانڈز خرید لیے، یہ تمام بانڈز مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس گئے، جس نے انھیں 21 نومبر کو کیش کر دیا، اور پھر صرف 7 ماہ بعد جون 2023 میں چندر ریڈی ایک ریاستی گواہ بن گئے۔

    اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے اس سلسلے میں چشم کشا اعداد و شمار شائع کروائے ہیں، دی نیوز منٹ کی ایڈیٹوریل ہیڈ پوجا پراسانا کے مطابق اس اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح کاروباری شخصیات اور اداروں سے انتخابی مہم چلانے کے لیے دھونس دھمکی اور لالچ کے ذریعے بڑی بڑی رقمیں لی گئیں، الیکٹورل بانڈز کی بنیاد یہی تھی کہ عطیہ دہندگان گمنام رہیں گے لیکن اسٹیٹ بینک نے سب کے نام ظاہر کر دیے ہیں، فہرست دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ بہت سی شخصیات اور کمپنیوں نے یا تو سرکاری عہدوں کے حصول یا ریاستی اداروں کی پکڑ سے بچنے کے لیے انتخابی بانڈز خریدے۔

    الجزیرہ کے مطابق جو فہرست جاری ہوئی ہے، اس میں سر فہرست 10 کارپوریٹ عطیہ دہندگان (جن کا تعلق فارما سے لے کر تعمیراتی کمپنیوں تک ہے) کے خلاف بھی گزشتہ پانچ سال سے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی طرف سے تحقیقات جاری تھیں، ان عطیہ دہندگان نے بی جے پی کو مجموعی طور پر 13 ارب روپے دیے۔

    الیکٹورل بانڈز اسکیم سے اگرچہ دیگر پارٹیوں نے بھی فائدہ اٹھایا، تاہم مودی کی پارٹی نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا، اور گزشتہ 7 برسوں میں 60 ارب روپے حاصل کیے، جب کہ عطیہ دینے والے بہت سے افراد اور کمپنیوں نے اس کے بدلے منافع بخش سرکاری سودے حاصل کیے، کئی کمپنیوں نے بڑے سرکاری ٹھیکے حاصل کیے۔

    واضح رہے کہ ہندوستان میں عام انتخابات کل 19 اپریل 2024 سے 1 جون 2024 تک سات مرحلوں میں 18 ویں لوک سبھا کے 543 اراکین کے انتخاب کے لیے منعقد ہونے ہو رہے ہیں، جس کے لیے مودی سرکار نے الیکٹورل بانڈز اسکیم سے کھل کر فائدہ اٹھایا، اور اب یہ اسکیندل ان کے گلے میں آیا ہوا ہے۔