Tag: indian company

  • بھارتی کمپنی نے 10 لاکھ روپے میں معیاری گاڑی لانچ کر دی

    بھارتی کمپنی نے 10 لاکھ روپے میں معیاری گاڑی لانچ کر دی

    بھارت کی ایک معروف کار ساز کمپنی نے بین الاقوامی برانڈ سے ملتی جلتی کار متعارف کرائی ہے جس کی بھارت میں قمیت 10 لاکھ جبکہ پاکستانی قیمت 33 لاکھ  34 ہزار روپے ہے۔

    رپورٹ کے مطابق یہ کار ایم جی ایسٹر 2024 جدید ترین ماڈل ہے جو ہونڈا کریٹا، کیا سیلٹوز، ماروتی سوزوکی گرینڈ وٹارا، ٹویوٹا ابان کروزر ہائیڈر، ہونڈا ایلیویٹ، اسکوڈا کشاک اور ووکس ویگن ٹائیگن جیسے برانڈز کا مقابلہ کر سکتا ہے۔

    ایم جی موٹر انڈیا نے ایم جی ایسٹر کو 9.98 لاکھ روپے میں لانچ کیا ہے، ایم جی ایسٹر 2024 پانچ رنگوں میں پیش کیا جا رہا ہے۔

    ایم جی موٹر انڈیا کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر کا اس سے متعلق کہنا ہے کہ یہ صرف پیٹرول سے چلنے والی اسپورٹس یوٹیلیٹی گاڑی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس گاڑی میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ سہولت کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے، مجموعی طور پر اس گاڑی میں 80 سے زیادہ خصوصیات ہیں۔

    انفارمیشن ٹیکنالوجی سے آراستہ اس گاڑی کے مسافر موسم سے لے کر کھیلوں تک ہر چیز سے اپ ڈیٹ رہیں گے

  • سعودی عرب کا بھارتی کمپنی سے 1 ارب ڈالر کا معاہدہ

    ریاض: سعودی عرب نے خصوصی زرعی کیمیکل تیار کرنے کے لیے بھارتی کمپنی سے 1 بلین ڈالر کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

    اردو نیوز کے مطابق سعودی وزارت سرمایہ کاری نے معاہدے پر ڈیووس، سوئٹزرلینڈ میں ختم ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر دستخط کیے۔

    سعودی وزارت نے یو پی ایل لمیٹڈ نامی انڈین کمپنی کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے جو زرعی کیمیکلز کی مارکیٹنگ اور فصلوں کے تحفظ کے سلوشنز پیش کرتی ہے۔

    نیا معاہدہ سعودی وژن 2030 کے بیان کردہ اہداف کے مطابق ہے جس کا مقصد مملکت کے اقتصادی سلسلے کو متنوع بنانا ہے۔

    ممبئی میں مقیم یو پی ایل لمیٹڈ نے 2019 میں آراستہ لائف سائنس کو خریدا تھا جو دنیا کی پانچویں سب سے بڑی جنرک ایگرو کیمیکل کمپنی ہے۔

    یو پی ایل لمیٹیڈ کے گلوبل سی ای او جے شروف کا کہنا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ یو پی ایل کے پاس دنیا بھر میں تبدیلی کی حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے، کسانوں اور خوراک کے نظام کو یکساں طور پر سپورٹ کرنے کے اپنے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے سب سے زیادہ چست اور کارکردگی پر مبنی ثقافت ہے۔

    سعودی عرب کے وزیر ماحولیات، پانی اور زراعت عبدالرحمٰن بن عبدالمحسن الفضلی نے دسمبر 2022 میں 4 بلین ریال کی لاگت سے 2025 تک پلانٹ ریسورس سیکٹر اور گرین ہاؤسز میں توسیعی منصوبے کی منظوری دی تھی۔

    عبد الرحمن بن عبدالمحسن الفضلی کے مطابق اس سرمایہ کاری سے سعودی عرب کو نئی ٹیکنالوجیز اپنا کر زرعی شعبے میں اپنی پیداواری صلاحیت بڑھانے میں مدد ملے گی۔

  • 2 سال ورک فرام ہوم کے بعد دفتر بلانے پر 800 ملازمین مستعفی

    2 سال ورک فرام ہوم کے بعد دفتر بلانے پر 800 ملازمین مستعفی

    نئی دہلی: بھارت میں گزشتہ 2 سال سے گھر سے کام کروانے والی ایک کمپنی نے ملازمین کو واپس دفتر بلایا تو 800 ملازمین نے استعفیٰ دے دیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق ایک ٹیک کمپنی کے تقریباً 8 سو سے زائد ملازمین گزشتہ 2 ماہ کے اندر ورک فرام ہوم ختم ہونے پر دوبارہ دفتر بلائے جانے پر نوکری سے مستعفی ہوچکے ہیں۔

    ان ملازمین نے رضا کارانہ طور پر استعفیٰ دیا کیونکہ وہ کرونا وائرس کے بعد سے پچھلے دو سال سے گھر سے کام کرنے کے بعد دفتر واپس نہیں جانا چاہتے تھے۔

    وائٹ ہیٹ جونیئر نامی کمپنی (جو کوڈنگ سیکھنے کا ایک پلیٹ فارم ہے) کی جانب سے گھر سے کام ختم کرنے کی پالیسی کا اعلان 18 مارچ کو ایک ای میل میں کیا گیا تھا جس میں دور دراز کے ملازمین کو ایک ماہ کے اندر دفتر واپس آنے کو کہا گیا تھا۔

    تاہم کمپنی کو معلوم ہوا ہے کہ تقریباً 800 ملازمین نے دفتر واپس آنے کے بجائے استعفیٰ دے دیا جبکہ توقع کی جارہی ہے کہ آنے والے مہینوں میں مزید ملازمین مستعفی ہوجائیں گے۔

    استعفیٰ دینے والے ملازمین میں سے ایک کا کہنا ہے کہ ایک ماہ کا وقت کافی نہیں تھا، کچھ ساتھیوں کے بچے ہیں جبکہ کچھ کے بوڑھے اور بیمار والدین ہیں، ہمیں دوسرے کام بھی ہیں، اتنے کم وقت میں ملازمین کو واپس بلانا درست نہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ملازمین کو دفتر میں واپس بلانے کی پالیسی اس لیے جاری کی گئی تاکہ کام کرنے والے خود ہی استعفیٰ دے دیں کیوں کہ کمپنی واضح طور پر خسارے میں چل رہی تھی، مارکیٹ میں اپنا نام خراب کیے بغیر اپنے اخراجات کو کم کرنے کے لیے یہ کیا گیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ بھرتی کے وقت، ملازمین کو ان کی ملازمت کے مقام کے بارے میں بتایا گیا تھا، وائٹ ہیٹ جونیئر کے ممبئی اور بنگلور میں دفاتر ہیں، تاہم دو سال تک گھر سے کام کرنے کے بعد ملازمین کا خیال تھا کہ مہنگے شہر میں رہنے کے اخراجات کو برداشت کرنے کے لیے ان کی تنخواہوں کو بڑھانے پر نظر ثانی کی جانی چاہیئے تھی۔

  • ماحول دوست پلاسٹک بیگ تیار‘ آپ کھا بھی سکتے ہیں

    ماحول دوست پلاسٹک بیگ تیار‘ آپ کھا بھی سکتے ہیں

    دنیا بھر میں پلاسٹک ایک ایسے عفریت کی صورت میں سامنے آیا ہے جو زمین‘ ہوا اور سمندروں کو یکساں طور پر متاثر کررہا ہے لیکن اب ایک نئی بھارتی کمپنی نے ایسا پلاسٹک بنایا ہے جسے جانور اور خود انسان بھی کھاسکتے ہیں۔

    اینوائے گرین نامی کمپنی نے قدرتی نشاستے اور سبزیوں کے تیل سے پلاسٹک نما ایک مٹیریل بنایا ہے جو 100 فیصد نامیاتی ( آرگینک)‘ ماحول دوست اور ازخود گھل کر ختم ہونے والا ہے۔ اس کے علاوہ پلاسٹک کو کھایا بھی جاسکتا ہے۔

    فرانس کا پلاسٹک سے بنے برتنوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ

    پاکستان میں شاپر کہلانے والے پلاسٹک بیگز کے بارے میں بہت سے لوگ فکر مند رہتے ہیں جو ہوا میں اڑتے رہتے ہیں اور نالیوں میں پھنس کر سیوریج کے پورے نظام کو ناکارہ بنادیتے ہیں۔ اسی طرح سمندری جاندار نرم پلاسٹک کو چارہ سمجھ کر کھارہے ہیں اور ہلاک ہورہے ہیں۔

    fdff

    اس پلاسٹک کے مؤجد نے چار سال تک نئے پلاسٹک پر تجربات کیے اوربالاخرسورج مکھی کے تیل‘ آلو‘ مکئی‘ قدرتی نشاستے‘ سبزیوں کے تیل اور کیلے کے مرکبات سے ایک پلاسٹک نما مٹیریل تیار کرلیا ہے فی الحال اس کی تیاری کے طریقے کو خفیہ رکھا گیاہے۔

    اتنا معلوم ہوسکا ہے کہ پہلے اس کا خام مال مائع صورت میں ڈھالا جاتا ہے اور اس کے بعد 6 مختلف مراحل سے گزار کر پلاسٹک بیگز تیار کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس کی قیمت روایتی پلاسٹک بیگ کے مقابلے میں 35 فیصد زائد ہے اور اس کے فوائد اس اضافی رقم سے کہیں زیادہ ہیں۔

    ایسی پیکنگ جسے کھایا جا سکتا ہے

     کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اگر بیگ کو پھینک دیا جائے تو 180 دن کے اندر یہ ازخود گھل کر ختم ہوجاتے ہیں اگر انہیں پانی میں ڈالا جائے تو ایک دن اور ابلتے پانی میں 15 سیکنڈ میں حل ہوجاتے ہیں۔

    واضح رہے کہ شاپنگ بیگز کرہ ارض کے ماحول کو لاحق شدید ترین خطرات میں سے ایک ہیں ‘ ان کے سبب سے زیادہ خطرہ سمندری حیات کو درپیش ہےاور یہ پاکستان جیسے ممالک میں ڈرینیج سسٹم کو بھی متاثر کرتے ہیں۔

    برطانیہ میں پلاسٹک بیگ کا استعمال ختم کرنے کے لیے انوکھا قانون

     ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ ایک کھرب پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ تھیلیاں استعمال کے بعد پھینک دی جاتی ہیں جو کروڑوں ٹن کچرے کی شکل میں ہماری زمین کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔

    پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔