Tag: Indian Farmers

  • مودی سرکار سے مذاکرات ناکام، کسانوں کا پنجاب بند کرنے کا اعلان

    مودی سرکار سے مذاکرات ناکام، کسانوں کا پنجاب بند کرنے کا اعلان

    نئی دہلی: مودی سرکار سے مذاکرات ناکام ہونے پر کسانوں نے پنجاب بند کرنے کا اعلان کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق پڑوسی ملک بھارت میں کسانوں نے مودی سرکار سے مذاکرات ناکام ہونے کے بعد نئی تحریک کا اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ’’پنجاب کو بند کر دو۔‘‘

    میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ہریانہ اور پنجاب کی یونینوں نے ریاست کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے، مودی سرکار کی کسان دشمن پالیسیوں کے خلاف بھارت بھر میں احتجاج جاری ہے۔

    بھارتی پنجاب کی تمام سڑکیں بند کر دی گئی ہیں، بازار اور کاروباری مراکز بھی بند ہیں، سڑکوں سے ٹریفک غائب ہے، پنجاب یونیورسٹی اور گرونانک یونیورسٹی نے امتحانات ملتوی کر دیے، منڈیوں میں پھل اور سبزیوں کی فراہمی بھی بند کر دی گئی ہے، دودھ فروش بھی سڑکوں پر نہیں آئے۔

    نریندر مودی بھی محمد رفیع کی آواز کے گُن گانے لگے

    احتجاج کے دوران 200 مقامات پر پہیہ جام اور 50 مقامات پر ریلوے ٹریک کو بند کر دیا گیا ہے، کسانوں نے پہلے ’دہلی چلو‘ تحریک پھر ’ریل روکو‘ تحریک چلائی، اور آج ’پنجاب بند‘ تحریک کا اعلان کیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ پنجاب کے کسانوں نے مودی حکومت کے سامنے 14 مطالبات رکھے ہیں، جن میں مرکزی مطالبات یہ ہیں کہ ایسا قانون لایا جائے جو فصل کی قیمتوں کے ساتھ ملک بھر کے کسانوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت پر تمام فصلوں کی خریداری کی ضمانت دے، کسانوں اور مزدوروں کے لیے مکمل قرض معافی دی جائے، ملک بھر میں حصول اراضی ایکٹ 2013 بحال کیا جائے جس میں کسانوں کی تحریری رضامندی یقینی ہو، اکتوبر 2021 لکھیم پور کھیری تشدد کے متاثرین کے لیے انصاف اور مجرموں کو سزا دی جائے، ہندوستان کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) سے دست بردار ہونا چاہیے، اور تمام آزاد تجارتی معاہدوں کو معطل کرنا چاہیے۔

    کسانوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ زراعت کی مارکیٹنگ سے متعلق قومی پالیسی کے فریم ورک کو لاگو نہیں کیا جانا چاہیے، کسانوں اور زرعی مزدوروں کو پنشن دی جائے، دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کے دوران مرنے والے کسانوں کے لیے معاوضہ، ہر متاثرہ کے خاندان کے ایک فرد کو سرکاری ملازمت دی جائے، اور بجلی ترمیمی بل 2020 کو منسوخ کیا جائے۔

  • ویڈیو رپورٹ: بھارتی کسانوں‌ کا دہلی چلو مارچ 18 ویں روز بھی جاری

    ویڈیو رپورٹ: بھارتی کسانوں‌ کا دہلی چلو مارچ 18 ویں روز بھی جاری

    بھارتی کسانوں‌ کا دہلی چلو مارچ 18 ویں روز بھی جاری ہے جب کہ ہریانہ پولیس کی جانب سے بھی کسان مظاہرین پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں کسان رہنماؤں نے نئے نظام پر حکومت کی پیشکش کو ٹھکرانے کے بعد احتجاج دوبارہ سے شروع کر دیا ہے، ہریانہ پولیس نے دہلی چلو مارچ میں ملوث مظاہرین کے خلاف کارروائی کی دھمکی دے دی ہے، جب کہ ہیومن رائٹس واچ نے کسانوں کے احتجاج پر ایک چشم کشا رپورٹ شائع کر دی ہے۔

    ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسانوں کا حق ہے کہ وہ پر امن احتجاج کریں، دہلی چلو مارچ کو روکنے کے لیے حکام کی جانب سے دھمکیاں دی گئی ہیں، اور کسانوں پر ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا گیا، بی جے پی کی زیر قیادت حکومت نے پر امن مظاہروں کا بار بار کریک ڈاؤن کیا۔

    دوسری طرف بھارتی سکھ شبھ کرن سنگھ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تہلکہ خیز انکشافات سامنے آئے ہیں، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق شبھ کرن کے سر سے میٹل پیلیٹس برآمد ہوئی ہیں، جو ڈاکٹرز نے پولیس کے حوالے کر دیے، احتجاج کرنے والے کسانوں کے ویزے بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔

    اندرانی مکھرجی سیریز : شینا بورا قتل کیس کی کیا کہانی ہے؟

    کسانوں کے احتجاج کے باعث پنجاب ڈیزل اور سلنڈر گیس کے سنگین بحران کا شکار ہو چکا ہے، کسانوں کے بھارتی دارالحکومت کی جانب ٹریکٹر مارچ سے دہلی-نوئیڈا سرحد پر شدید ٹریفک متاثر ہے، ہزاروں کسان کا دہلی سے 200 کلومیٹر دور پنجاب-ہریانہ سرحد پر احتجاج جاری ہے۔

    مارچ کے باعث ہریانہ- امبالہ کے علاقوں میں موبائل انٹرنیٹ سروس دوبارہ معطل کر دی گئی ہے، پنجاب سے باہر بھی کسان یونینز نے احتجاج کو وسیع کرنے کی کال دے دی ہے۔

  • بھارتی کسانوں نے حکومت کا امدادی قیمت کا معاہدہ مسترد کر دیا

    بھارتی کسانوں نے حکومت کا امدادی قیمت کا معاہدہ مسترد کر دیا

    نئی دہلی: بھارتی کسانوں نے حکومت کا امدادی قیمت کا معاہدہ مسترد کر دیا ہے۔

    روئٹرز کے مطابق بھارتی کسانوں کی یونینوں نے مودی حکومت کی طرف سے تجویز کردہ کم از کم امدادی قیمتوں (MSPs) کے پانچ سالہ معاہدے کو مسترد کر دیا ہے۔

    سیکیورٹی فورسز اور کسان مظاہرین کے درمیان ہفتہ بھر کے تصادم کے بعد اتوار کو وزیر تجارت پیوش گوئل نے کہا تھا کہ بھارتی حکومت نے احتجاج ختم کرانے کے لیے دالوں، مکئی اور کپاس کی ضمانت شدہ امدادی قیمتوں کی پیشکش کی ہے۔

    کسانوں کی یونینز کی جانب سے تقریباً 2 درجن فصلوں کے لیے قانون کے مطابق زیادہ قیمتوں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، یونینوں کے رہنما جگجیت سنگھ دلیوال نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر کہا کہ حکومتی تجویز کو انھوں نے مسترد کر دیا ہے۔

    وزیر تجارت نے کہا تھا کہ حکومت نے کسانوں کے لیے کم از کم امدادی قیمتوں کے لیے پانچ سالہ معاہدے کے تحت کپاس، مٹر، کالی دال، سرخ دال اور مکئی وغیرہ کی فصلیں کوآپریٹو گروپس خریدیں گے اور مقدار کی کوئی حد نہیں ہوگی۔ تاہم زرعی تجزیہ کاروں کہا کہنا ہے کہ حکومت نے کسانوں کے مطالبات کو پوری طرح نظر انداز کر دیا ہے۔

  • بھارتی کسانوں کا دہلی چلو مارچ، پولیس کا مظاہرین پر بدترین تشدد

    بھارتی کسانوں کا دہلی چلو مارچ، پولیس کا مظاہرین پر بدترین تشدد

    بھارت میں کسانوں کی جانب سے اپنے مطالبات کے حصول کے لئے دہلی چلو مارچ چوتھے روز بھی جاری ہے، اس دوران پولیس سے تصادم کے باعث 100 سے زائد مظاہرین شدید زخمی ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق مودی سرکار اور ہریانہ پولیس کی جانب سے سکھ کسانوں پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے، دہلی چلو مارچ کے شرکاء پرہریانہ پولیس کی جانب سے شیلنگ، پیلٹ گن سے وار کئے گئے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ مظاہرین کیخلاف تصادم میں 3 کسان بینائی سے محروم ہوگئے، 100 سے زائد مظاہرین شدید زخمی ہو کر اسپتال منتقل ہوگئے۔

    بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ ہریانہ پولیس نے کسانوں کو روکنے کیلئے آنسو گیس کے گولے، ربڑکی گولیاں چلائیں۔

    وزیر صحت پنجاب کے مطابق ہم نے 3 کسان مظاہرین کی آنکھوں کا معائنہ کیا مگر ہم ان کی بینائی نہیں بچاسکے۔ کسانوں کی بینائی پیلٹ گنز کے استعمال سے گئی ہے۔

    بھارتی کسانوں کا آج سے پنجاب بھر میں ریلوے سروس معطل کرنے کا اعلان

    بھارتی کسانوں کی جانب سے واضح اعلان کیا گیا ہے کہ مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رہے گا اور مودی کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کے باوجود اپنے حق کیلئے ڈٹے رہیں گے۔

  • ویڈیو رپورٹ: کسانوں کو روکنے کے لیے دہلی کی سرحدوں پر بیریئر لگ گئے، کرفیو نافذ

    ویڈیو رپورٹ: کسانوں کو روکنے کے لیے دہلی کی سرحدوں پر بیریئر لگ گئے، کرفیو نافذ

    نئی دہلی: کسانوں کو روکنے کے لیے دہلی کی سرحدوں پر بیریئر لگ گئے، کرفیو نافذ کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی کسانوں کا 13 فروری کو شروع ہونے والا ’دہلی چلو‘ مارچ جاری ہے، دہلی اور اطراف میں شدید ٹریفک جام سے شہری سخت اذیت سے دوچار ہو گئے ہیں، جب کہ کسانوں کی جانب سے مطالبات کی منظوری تک مارچ جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

    دو سال قبل بھی نئی دہلی کی سرحدوں پر کسان اپنے مطالبات کے لیے کئی مہینوں تک سراپا احتجاج رہے، کسانوں کو نئی دہلی پہنچنے سے روکنے کے لیے بھارتی پولیس نے دہلی کی سرحدوں پر بیریئر لگاتے ہوئے ایک ماہ کے لیے کرفیو نافذ کر دیا ہے۔

    ہندوستان ٹائمز کے مطابق مارچ میں شریک کسان مظاہرین کی طرف سے مودی سرکار سے قانونی ایم ایس پی کی ضمانت، کسانوں اور مزدوروں کے لیے پینشن، کسانوں کے قرضوں کی معافی اور لکھیم پور کھیری تشدد کے متاثرین کے لیے انصاف کے مطالبات کیے گئے ہیں۔

    بھارتی کسان کہتے ہیں کہ مودی سرکار کسانوں کو رعایت دینے کے وعدے سے مکر گئی ہے، مارچ کو روکنے کے لیے سرکار ہم پر دباوٴ ڈال رہی ہے، مگر ہم دہلی جانے کے لیے پرعزم ہیں، بھارتی عوام کہتی ہے کہ حکومتی پالیسیوں سے معیشت کو بے تحاشہ نقصان ہو رہا ہے مگر حکومت سنوائی نہیں کرتی۔

  • ’آلو کی قیمت بدلیں، ورنہ آپ کو بدل دیں گے‘ بھارتی کسانوں کی حکومت کو دھمکی

    ’آلو کی قیمت بدلیں، ورنہ آپ کو بدل دیں گے‘ بھارتی کسانوں کی حکومت کو دھمکی

    علی گڑھ: بھارتی کسانوں نے حکومت کو دھمکی دی ہے کہ آلو کی قیمت بدلیں، ورنہ آپ کو بدل دیں گے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی ریاست اتر پردیش کی یوگی حکومت نے آلو کی قیمت کسانوں کی توقع سے بہت کم طے کر دی ہے، جس کے باعث علی گڑھ کے کسان ناراض ہو گئے ہیں۔

    بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ علی گڑھ میں اس مرتبہ آلو کی اچھی فصل ہوئی ہے، تاہم کسان مایوس دکھائی دے رہے ہیں، کیوں کہ ریاستی حکومت نے آلو کی قیمت 650 روپے فی کوئنٹل کے حساب سے طے کر دی ہے جو کسانوں کی توقع سے بہت کم ہے۔

    کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومتی قیمت پر آلو فروخت کرنا ان کے لیے خسارے کا سودا ہے، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ اس قیمت کو بدلے، کسانوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ آلو کی قیمت نہیں بدلی گئی تو اگلی بار حکومت بدلی جائے گی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق اگر حکومت نے کسانوں کو آلو کی فصل کا مناسب ریٹ نہیں دیا تو سماجوادی پارٹی کے رہنما اکھلیش یادو کی وہ بات سچ نکلے گی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ آلو کی قیمت ہی حکومت کو گرائے گی۔

    کسانوں کا کہنا ہے کہ منڈیوں میں آلو کی قیمت مٹی جیسی ہو گئی ہے، مناسب قیمت نہ ملنے سے کسانوں کے لیے پریشانی پیدا ہو رہی ہے۔

    کسانوں نے اپنی مایوسی کا اظہار میڈیا کے سامنے کرتے ہوئے کہا ہے کہ 650 روپے فی کوئنٹل قیمت ہونے سے کسانوں کو کم از کم 500 سے 600 روپے تک کا خسارہ ہوگا۔

  • بھارت: تحریک نے نئی انگڑائی لے لی، کسانوں کا سمندر دہلی میں داخل

    بھارت: تحریک نے نئی انگڑائی لے لی، کسانوں کا سمندر دہلی میں داخل

    دہلی: بھارت میں کسان تحریک نے نئی انگڑائی لے لی، کسانوں کا سمندر دہلی میں داخل ہو گیا۔

    تفصیلات کے مطابق مودی حکومت نے کسانوں کے ساتھ کیے وعدے پورے نہیں کیے، جس پر انھوں نے اپنی تحریک پھر سے زندہ کر دی اور ہزاروں کی تعداد میں کسان رکاوٹیں توڑتے ہوئے دہلی میں داخل ہو گئے۔

    برطانوی خبررساں ادارے روئٹرز نے رپورٹ کیا ہے کہ بھارت میں کسانوں نے ایک بار پھر احتجاج شروع کر دیا ہے اور رکاوٹیں توڑتے ہوئے دارالحکومت دہلی میں داخل ہو گئے ہیں۔

    کسانوں نے حکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے جا رہے۔

    رپورٹ کے مطابق پیر کو ہزاروں کی تعداد میں ملک کے مختلف حصوں سے کسان دارالحکومت کے قریب جمع ہوئے اور پھر مل کر شہر میں داخل ہوئے، حکومت نے کسانوں کی ممکنہ آمد کے پیش نظر حفاظتی انتظامات کر رکھے تھے تاہم وہ کسانوں کو داخل ہونے سے نہ روک سکے۔

    کسانوں نے جھنڈے اور بینرز اٹھا رکھے تھے اور وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف نعرے لگا رہے تھے اور پنڈال کی طرف بڑھتے ہوئے راستے میں آنے والی رکاوٹیں توڑ دیں۔

    خیال رہے کہ ایک سال تک جاری رہنے والے کسانوں کے پچھلے احتجاج کے بعد حکومت نے ان سے مذاکرات کیے تھے اور ان کے بیش تر مطالبات مان لیے تھے، جس کے بعد کسانوں نے احتجاج ختم کر دیا تھا تاہم 8 ماہ بعد کسانوں نے وعدے نہ پورے کرنے کا الزام لگاتے ہوئے احتجاج پھر شروع کر دیا ہے۔

    احتجاج کا اہتمام کرنے والی تنظیم سمیوک کسان مورچہ کی جانب سے حکومت سے جو مطالبات کیے جا رہے ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ حکومت تمام پیداواروں کے لیے کم سے کم امدادی قیمت کی ضمانت دے، اور کسانوں کے قرضے معاف کیے جائیں۔

  • بھارتی کسانوں نے پارلیمنٹ کی جانب احتجاجی مارچ کا اعلان کردیا

    بھارتی کسانوں نے پارلیمنٹ کی جانب احتجاجی مارچ کا اعلان کردیا

    نئی دہلی : بھارت میں اپنے حقوق کے حصول کیلئے سراپا احتجاج کسانوں نے مودی سرکار کو مزید ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کرلیا۔

    متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف دھرنے پر بیٹھے کسانوں نے اعلان کیا ہے کہ 29 نومبر کو پارلیمنٹ کی جانب احتجاجی مارچ کیا جائے گا۔

    اس حوالے سے کسان رہنماؤں نے گزشتہ روز ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ 29 نومبر سے دہلی میں پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہوگا۔

    پارلیمنٹ کے اس اجلاس کے موقع پر 500 کسان دارالحکومت دہلی میں احتجاجی مظاہرہ کرنے کے اپنے حقوق استعمال کریں گے اور ٹریکٹر ٹرالیوں میں سوار ہو کر پرامن پارلیمنٹ مارچ کریں گے۔

    کسان رہنماؤں نے گزشتہ روز ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ 29 نومبر سے دہلی میں پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہوگا۔

    پارلیمنٹ کے اس اجلاس کے موقع پر 500 کسان دارالحکومت دہلی میں احتجاجی مظاہرہ کرنے کے اپنے حقوق استعمال کریں گے اور ٹریکٹر ٹرالیوں میں سوار ہو کر پرامن پارلیمنٹ مارچ کریں گے۔

    کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جہاں بھارتی حکومت نے ہمیں روکا ہم وہیں دھرنا دے کر بیٹھ جائیں گے، رواں سال جنوری میں حکومت کو 26 نومبر تک مطالبات ماننے کی مہلت دی تھی۔مودی سرکار کے پاس کسان مخالف قوانین کو کالعدم قرار دینے کے لئے اب بھی چند روز کی مہلت باقی ہے۔

    واضح رہے کہ مودی حکومت نے بھارتی پارلیمان سے گذشتہ برس زراعت کے متعلق تین بل پاس کروائے تھے،جس پر پورے بھارت کے کسان سراپا احتجاج ہیں۔

    بھارتی کسان ان قوانین کو کسانوں کا استحصال قرار دیتے ہیں۔ بھارتی کسانوں کا اب تک کا احتجاج پر امن ہے جبکہ مودی حکومت تمام تر ریاستی ہتھکنڈے اپناتے ہوئے طاقت کا ناجائز استعمال کر رہی ہے۔

     

  • "مودی سرکار کرونا کے بہانے کسان تحریک ختم کرنا چاہتی ہے”

    "مودی سرکار کرونا کے بہانے کسان تحریک ختم کرنا چاہتی ہے”

    نئی دہلی: زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں نے بھارتی حکومت پر بڑا الزام عائد کردیا ہے۔

    دہلی کے غازی پور بارڈر پر زرعی قوانین کے خاتمے کا مطالبے لئے بھارتی کسانوں کو دھرنا دئیے ایک سو تیس روز گزرچکے، کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت تینوں زرعی قوانین کو واپس لےاور ساتھ ہی ایم ایس پی پر قانونی ضمانت دے لیکن حکومت کسانوں کے مطالبات ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔

    بھارتی حکومت اپنی روایتی ہٹ دھرمی برقرار رکھے ہوئے ہے ، مودی سرکار کا کہنا ہے کہ وہ کسی صورت زرعی قوانین کو واپس نہیں لے گی۔دوسری جانب کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ جب تک تینوں زرعی قوانین واپس نہیں ہو جاتے تب تک وہ اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے۔

    بھارت کے مرکزی وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ملک میں کرونا وائرس عروج پر ہے، کیونکہ کرونا وائرس نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔

    کرونا کے بڑھتے کیسز پر زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کرنے والے کسانوں کا موقف ہے کہ کرونا کے بڑھتے ہوئے معاملات کے پیچھے ایک سازش ہے، کرونا کے بہانے حکومت ان کا احتجاج ختم کرنا چاہتی ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بھارت میں کرونا وائرس کے 115736 نئے کیسز سامنے آئے، جس کے بعد مثبت کیسز کی مجموعی تعداد 12801785 تک جاپہنچی ہے، گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں کرونا کے باعث بھارت میں 630 افراد کی اموات ہوئیں، جس کے بعد کرونا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 166177 ہوگئی ہے۔

  • بھارتی کسانوں نے اپنی فصلیں تباہ کرنا شروع کردیں

    بھارتی کسانوں نے اپنی فصلیں تباہ کرنا شروع کردیں

    نئی دہلی: متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف احتجاجی کسانوں نے اپنی فصلیں بھی تباہ کرنا شروع کردیں، بھارتیہ کسان یونین (بی کے یو) نے کسانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس طرح کے اقدام نہ اٹھائیں۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق زرعی قوانین کے خلاف کئی ماہ سے احتجاج کرنے والے کسانوں نے اب اپنی فصلوں کو بھی تباہ کرنا شروع کردیا، اب تک 4 کسان اپنے کھیتوں پر کھڑی فصل تباہ کرچکے ہیں۔

    بھارتیہ کسان یونین (بی کے یو) ان واقعات پر دلگرفتہ ہے اور اس نے کسانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس طرح کے اقدام نہ اٹھائیں۔

    اس سے قبل بھارتیہ کسان یونین کے ہی ترجمان راکیش ٹکیت نے اتر پردیش کے کسانوں سے گزارش کی تھی کہ وہ تحریک میں پہنچنے کے لیے چاہے اپنی کھڑی فصل کو تباہ کر دیں، لیکن مظاہرے میں ضرور شامل ہوں۔

    اس اپیل کے بعد کسانوں نے اپنی فصلیں تباہ کرنی شروع کردی ہیں تاہم اب یونین تشویش کا شکار ہے۔

    ایک موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کسان یونین کے میڈیا انچارج دھرمیندر ملک نے کہا کہ اب تک 4 مقامات سے فصل تباہ کرنے کی خبر آئی ہے، ہم نے ان سے ذاتی طور پر بات بھی کی ہے۔ ساتھ ہی ایک بیان بھی جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی کسان کو فصل برباد کرنے کے لیے نہیں کہا گیا، بلکہ یہ کہا گیا کہ اگر ایسی بھی نوبت آئی تو کسانوں کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔

    انہوں نے کہا کہ ابھی ایسے حالات نہیں آئے کہ فصلوں کو تباہ کیا جائے۔ ہم نے اپریل تک کے لیے کہا تھا کہ اگر حکومت ہم پر دباؤ ڈالے گی تو ہم ایسا اقدام کرنے کا سوچیں گے، کسانوں سے گزارش ہے کہ اس طرح کا قدم نہ اٹھائیں۔

    اس حوالے سے جب ترجمان راکیش ٹکیت سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ کسانوں نے خود کہا تھا کہ تحریک میں اگر ضرورت پڑی تو ہم اپنی فصل کی قربانی بھی دیں گے لیکن فی الحال اس کی ضرورت نہیں پڑی۔

    انہوں نے عندیہ دیا کہ اس طرح کا وقت اپریل میں آئے گا جب فصلوں کی کٹائی ہوگی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ فصلوں کے حوالے سے جو بھی فیصلہ ہوگا وہ متفقہ طور پر 20 اپریل کے آس پاس کیا جائے گا۔