Tag: indian occupied kashmir

  • مقبوضہ کشمیر: قابض بھارتی فورسز کے ہاتھوں 4 کشمیری شہید

    مقبوضہ کشمیر: قابض بھارتی فورسز کے ہاتھوں 4 کشمیری شہید

    سرینگر: مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فورسز نے نام نہاد سرچ آپریشن میں 4 کشمیری شہید کر دیے، کشمیری حریت رہنما عبد الحمید لون کے مطابق 1989 سے اب تک بھارتی قابض افواج 95 ہزار سے زائد کشمیریوں کو شہید کرچکی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت جاری ہے، قابض فورسز نے ایک دن میں 4 کشمیری شہید کر دیے۔

    کشمیری میڈیا رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی فورسز نے نام نہاد سرچ آپریشن میں کشمیریوں کو نشانہ بنایا۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل کشمیری حریت رہنما عبد الحمید لون کا کہنا تھا کہ 1989 سے اب تک بھارتی قابض افواج نے 95 ہزار 776 لوگوں کو شہید کیا اور اب تک دوران حراست 8 ہزار سے زائد شہریوں کو لاپتہ کردیا ہے۔

    حریت رہنما نے بتایا تھا کہ وادی میں 7 ہزار گمنام قبروں کا انکشاف ہوا ہے اور 12 سو 40 خواتین کی بےحرمتی کی گئی۔

  • مقبوضہ کشمیر: تقسیمِ ہند سے آج تک

    مقبوضہ کشمیر: تقسیمِ ہند سے آج تک

    آج تقریباً پچاس سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پاکستان اور بھارت کے درمیان ازل سے موجود مسئلہ کشمیر پر خصوصی اجلاس منعقد کرنے جارہی ہے، ساری دنیا اس وقت نیویار ک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز پر نظریں جمائیں بیٹھی ہے کہ وہاں آج کیا طے پاتا ہے۔

    پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود مسئلہ کشمیر اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ یہ دونوں ممالک خود، تقسیم کے فوراً بعد ہی یہ مسئلہ شروع ہوگیا تھا۔

    اس مسئلے پر پاکستان اور بھارت اب تک چار بڑی جنگیں لڑچکے ہیں ، جن میں سے پہلی جنگ کے نتیجے میں پاکستان نے وہ علاقہ حاصل کیا تھا جو کہ اب آزاد کشمیر یا پاکستانی کشمیر کہلاتا ہے جبکہ بٹوارے سے آج تک بھارت وادی ٔ جموں اور کشمیر اور لداخ کے علاقے پر قابض ہے جبکہ اسکائی چن اور شکسگام کا غیر آباد علاقہ چین کے زیرِ انتظام ہے۔

    پہلی جنگ 1947ء، دوسری 1965ء اور تیسری 1971ء اورچوتھی 1999ء میں کارگل کے محاذ پر لڑی گئی جسے دنیا کا سب سے بلند ، دشوار گزار اور مہنگا ترین میدانِ جنگ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آئے دن مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان عارضی سرحدی اہتمام جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے، پر بھی گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ جس میں بھارت کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ میں اکثر پاکستان کی شہری آبادی نشانہ بنتی رہی ہے، پاکستان کی جانب سے بھی بھارتی توپوں کو فی الفور جواب دیا جاتا رہا ہے۔

    رواں سال 27 فروری کو بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پار کرکے پاکستان کے زیر اہتمام علاقوں میں فضائی کارروائی کرنے کی کوشش کی گئی جس کا بروقت جواب دیتے ہوئے پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے دو طیارے مار گرائے تھے اور پاکستانی حدود میں گرنے والے طیارے کے پائلٹ ابھیندن کو گرفتار بھی کرلیا تھا۔ بعد ازاں بھارتی پائلٹ کو امن کے پیغام کے طور پر واپس بھیج دیا گیا۔

    اب ذرا چلتے ہیں ماضی میں اور جائزہ لیتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر در حقیقت ہے کیا اور آج تک کیوں یہ دنیا کی دو بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان وجہ نزاع بنا ہوا ہے؟؟۔

    برصغیر کی تقسیم کے وقت ایک برطانوی وکیل ریڈ کلف کو ہندوستان کے بٹوارے کا ٹاسک سونپا گیا، ریڈکلف نے ہندوستان کے دوصوبوں پنجاب اور بنگال کو آبادی کی بنیاد پر پاکستان اورہندوستان میں تقسیم کیا جبکہ ریاستوں کو اختیاردیا گیا کہ آیا وہ ہندوستان میں شمولیت اختیار کریں یا پھر پاکستان کا حصہ بن جائیں، ریاستوں کے اختیار میں بھی ریاست کی آبادی کے مذہب کو ملحوظ ِخاطررکھا گیا۔ اس کلیے کے تحت کشمیر جو کہ ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی لیکن یہاں ہری سنگھ نامی سکھ راجہ کی حکومت تھی اور اس نے پہلے ریاست کی آزاد حیثیت برقرار رکھنے کی کوشش کی تاہم بعد میں بھارت کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کرلیا۔

    اس موقع پر 22 اکتوبر 1947 کو پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کے مجاہدین نے کشمیر پر بھارتی تسلط سے بچانے کے لیے جدوجہد شروع کی جس کے جواب میں بھارت نے اپنی مسلح افواج میدان میں اتار دیں، قبائلی مجاہدین بھارت سے گلگت بلتستان اور موجودہ آزاد کشمیر کو چھین کر پاکستان کے ساتھ انضمام کرنے میں کامیاب رہے جبکہ بھارت اپنی بھاری بھرکم فوج کے ساتھ
    مقبوضہ کشمیر پر قابض ہوگیا۔

    دسمبر 1947 میں بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ایک ملاقات میں انہیں بتایا کہ وہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔جب بھارت نے اس مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کیا تو یکم جنوری، 1948 کو یونائیٹڈ نیشنز کمیشن آن انڈیا اینڈ پاکستان ( یو این سی آئی پی ) کی تشکیل کی
    گئی۔

    21اپریل، 1948 کوسلامتی کونسل نے اپنی قرارداد نمبر 47 منظورکی جس میں کہا گیا کہ کشمیر میں دونوں ملکوں کی طرف سے فوری فائر بندی عمل میں لائی جائے اور دونوں ممالک کی فوجیں علاقے سے نکل جائیں، تاکہ وہاں اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کا اہتمام کیا جائے ’اور کشمیری لوگوں سے پوچھا جائے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر پاکستان کے ساتھ‘۔.

    تاہم، مکمل فائر بندی کا نفاذ یکم جنوری 1949 کو عمل میں آیا جب پاکستان کی طرف سے کمانڈر ان چیف جنرل گریسی اور بھارت کی طرف سے ان کے ہم منصب جنرل رائے بوچر نے دستخط کیے۔ تاہم اس موقع پر بھی دونوں ملک سلامتی کونسل کی قرادداد کے مطابق فوجی انخلا پر متفق نہ ہو سکے۔ اتفاق نہ ہونے کا سبب بھارت کا اصرار تھا کہ پاکستان کو جارح ملک قرار دیا جائے، جبکہ پاکستان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ برابری کی بنیاد پر حل ہونا چاہیے۔

    اقوام متحدہ کے مذاکرات کار بھی برابری کی بنیاد پر اس مسئلے کو حل کرنے پر زور دے رہے تھے۔ تاہم، بھارت کے انکار کے بعد فوجی انخلا پر کوئی سمجھوتا نہ ہو سکا ۔ اقوام متحدہ کی طرف سے اس مسئلے کے حل میں ناکامی کی کلیدی وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ اقوام متحدہ نے قانونی پہلو کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف سیاسی پہلو کو ملحوظ خاطر رکھا۔

    دسمبر 1949ء میں سلامتی کونسل نے کینیڈا سے تعلق رکھنے والے سلامتی کونسل کے صدر، جنرل مکنوٹن سے درخواست کی کہ تنازعے کے حل کے لیے دونوں ملکوں سے رجوع کریں۔

    مکنوٹن نے 22 دسمبر کو اپنی تجاویز پیش کیں۔ اور جب 29 دسمبر کو سلامتی کونسل کے صدر کے طور پر ان کی میعاد مکمل ہو رہی تھی، انھوں نے کونسل کو اپنی سفارشات پیش کیں۔ اس پرسلامتی کونسل نے انھیں ثالثی جاری رکھنے کے لیے کہا۔ انھوں نے تین فروری 1950ء کو اپنی حتمی رپورٹ پیش کی۔

    انھوں نے تجویز دی کہ پاکستان اور بھارت ایک ساتھ اپنی فوجیں واپس بلائیں۔ دونوں ملکوں کو تنازعے میں ’مساوی پارٹنر‘ قرار دیا گیا، جب کہ یہ تجویز بھارت کو قابل قبول نہیں تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ صرف اسےکشمیر میں موجود رہنا چاہیے۔ اس پر امریکہ نے بھارت کو تنبیہ کی کہ اسے یہ فیصلہ ماننا ہوگا۔

    سرد جنگ کے تاریخ نویس، رابرٹ مک ہان نے لکھا ہے کہ ’’امریکی اہل کاروں نے محسوس کیا کہ قانونی و تیکنیکی بہانوں سے بھارت ہمیشہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مصالحت کی کوششوں کی مخالفت کرتا رہا ہے، جس کا مقصد یہ تھا کہ استصواب رائے سے بچا جا سکے‘‘۔

    اس کے بعد سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں علاقے سے پانچ ماہ کے اندر اندر فوج کو ہٹائے جانے کے لیے کہا گیا۔

    بعدازاں، 14 مارچ 1950 میں بھارت نے اس قرارداد کو تسلیم کیا۔ جس پر اقوام متحدہ نے دونوں ملکوں کے لیے نمائندہ خصوصی کے طور پر سر اوون ڈکسن کو تعینات کیا، جس کے ذمے یہ کام تھا کہ جموں و کشمیر سے دونوں ملکوں کی فوجوں کو واپس بلایا جائے۔

    اقوام متحدہ نے اپنے اہلکار تعینات کیے۔ اگلے مرحلے میں ڈکسن نے دونوں ملکوں میں شیخ عبداللہ اور غلام عباس کی اتحادی حکومت تشکیل دینے یا پھر قلم دان مختلف سیاسی جماعتوں میں باٹنے کی سفارش کی۔

    پھر ڈکسن نے پاکستانی وزیر اعظم کے سامنے بھارتی ہم منصب، نہرو سے پوچھا کہ علاقے میں استصواب رائے کے بارے میں کیا خیال ہے۔ بھارت نے اس تجویز کے حق کی حامی بھری۔

    دراصل نہرو نے ہی ’بٹوارہ اور استصواب رائے‘ کے پلان کی تجویز دی تھی، یعنی جموں اور لداخ بھارت کا ہوگا اور آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات پاکستان کے ساتھ ہوں گے۔ ڈکسن نے اس منصوبے کی حمایت کی۔

    ڈکسن کے جانشین، ڈاکٹر فرینک گراہم 30 اپریل، 1951 میں علاقے میں پہنچے۔ 16 جولائی، 1952ء کو گراہم نے تجویز دی کہ علاقے میں پاکستان اپنی فوجیں 3000 سے 6000 تک کر دے، جب کہ بھارت یہ تعداد 12000 سے 16000 کے درمیان کر دے۔ پاکستان نے سلامتی کونسل کی قراردداد پر عمل درآمد کیا جب کہ بھارت نے کسی جواز کے بغیر اسے مسترد کردیا تھا۔

    گراہم نے تنازع میں مصالحت کی بھی کوشش کی۔ فوجیں کم کرنے کے معاملے پر گراہم کو کسی قدر کامیابی ہوئی۔ لیکن، اس سلسلے میں خاطر خواہ پیش رفت رک گئی۔

    اس کے بعد، گراہم نے حتمی رپورٹ پیش کی اور ثالثی کی کوششیں رک گئیں۔ فوجوں کی تعداد کم کرنے اور استصواب رائے کے منتظم کی تعیناتی کے معاملے پر دونوں ملک رضامند نہیں ہوئے۔

    اس سے قبل، 1948 میں سلامتی کونسل نے قرارداد 47 منظور کی تھی جس کے بعد 1951ء میں بھارت اور پاکستان نے ’کراچی معاہدے‘ پر دستخط کیے تھے، جس میں جنگ بندی اور مبصرین کی تعیناتی کے لیے کہا گیا تھا۔

    سال 1951 میں قرارداد 91 منظور ہوئی جس کے تحت بھارت اور پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کا فوجی مبصر گروپ قائم کیا گیا، تاکہ جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر کنٹرول کیا جا سکے۔

    سال 1971 کی بھارت پاکستان لڑائی کے بعد دونوں ملکوں نے 1972ء میں شملہ سمجھوتے پر دستخط کیے، ساتھ ہی، کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر اقوام متحدہ کا مبصر گروپ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔

    سنہ 1999 میں پاکستان اور بھارت کی افواج ایک بار پھر کارگل کے محاذ پر آمنے سامنے آئیں ، اس جنگ کے بارے میں آج تک حقائق ابہام کے پردے میں ہیں۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے کو بھاری نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے ، تاہم جنگ کے اختتام پر دونوں ممالک سنہ 1972 کی طے شدہ کنٹرول لائن پر واپس چلے گئے اور کوئی بھی خطے کی ڈیموگرافی تبدیل نہیں کرپایا تھا۔

    مسئلہ کشمیر جنرل مشرف کے دور میں

    پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے برسراقتدار آنے کے بعد ابتدا میں دونوں ملکوں کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے ۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اپنی دوسری مدت کے دوران صدر مشرف کو آگرہ آنے کی دعوت دی جہاں سنہ 2001 میں دونوں رہنماؤں میں کشمیر کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں جامع مذاکرات ہوئے۔

    اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب ‘Neither a hawk nor a dove’ میں لکھا ہے کہ آگرہ سمجھوتے میں دونوں ملک مسئلہ کشمیر کے حل کے جس قدر قریب پہنچ گئے تھے، اس سے قبل کبھی نہیں پہنچے تھے۔

    امریکہ کے سابق نائب وزیر خارجہ رچرڈ باؤچر نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ واجپائی اور مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کے خد و خال طے کر لیے تھے اور دونوں ملکوں کے درمیان یہ دیرینہ مسئلہ حتمی حل کے انتہائی قریب پہنچ گیا تھا۔ تاہم پاکستان میں حکومت پر مشرف کی گرفت کمزور پڑنے اور بھارت میں واجپائی کی اپنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی میں انتہا پسند مؤقف رکھنے والوں کی مزاہمت کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔

    جولائی 2015 میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق چیف اے ایس دولت نے انکشاف کیا تھا کہ آگرہ سمٹ کا ناکام بنانے میں اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی نے ان مذاکرات کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

    اس کے بعد سے آج تک ایل او سی پردونوں ممالک کی جھڑپیں جاری ہیں اور سنہ 2016 میں مقبوخہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کرنے والے نوجوان برہان وانی کی بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں ایک بار پھر تحریک آزادی میں نئی جان پڑ گئی اور بھارت کے خلاف احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے ۔

    آرٹیکل 370 کی منسوخی

    حال ہی میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نافذآرٹیکل 370 اے جو کہ کشمیر کو ایک جداگانہ حیثیت دیتا تھا، اسے ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کو اپنی یونین ٹیریٹری قرار دے دیا۔

    آرٹیکل 370 ختم ہونے سے کشمیر کی بھارتی آئین میں جو ایک خصوصی حیثیت تھی ، وہ ختم ہوگئی ہے اور اب غیر کشمیری افراد علاقے میں جائیدادیں خرید سکیں گے اور سرکاری نوکریاں بھی حاصل کرسکیں گے۔

    بھارتی آئین کی دفعہ 370 ایک خصوصی دفعہ ہے جو ریاست جموں و کشمیر کو جداگانہ حیثیت دیتی ہے۔ یہ دفعہ ریاست جموں و کشمیر کو اپنا آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتی ہے جبکہ زیادہ تر امور میں وفاقی آئین کے نفاذ کو جموں کشمیر میں ممنوع کرتی ہے۔

    اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی امور، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں متحدہ مرکزی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔ دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے۔

    اس دفعہ کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے بہت سے بنیادی امور جن میں شہریوں کے لیے جائداد، شہریت اور بنیادی انسانی حقوق شامل ہیں ان کے قوانین عام بھارتی قوانین سے مختلف ہیں۔

    مقبوضہ کشمیر میں کرفیو

    اس بل کو لانے سے قبل ہی بھارت نے بھاری تعداد میں اپنی تازہ دم فوجیں مقبوضہ کشمیرمیں اتاردی تھیں جس کے سبب وہاں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے ، لوگ گھروں میں محصورہوکررہ گئے، کشمیری رہنما محبوبہ مفتی،عمرعبداللہ اورسجاد لون سمیت دیگر رہنماؤں کوبھی نظربند کردیاگیا ہے۔

    مقبوضہ وادی میں 4 اگست کو دفعہ ایک چوالیس کے تحت کرفیو نافدکر کےوادی میں تمام تعلیمی اداروں کو تاحکم ثانی بنداور لوگو ں کی نقل وحرکت پربھی پابندی عائد کردی گئی ہے، سری نگر سمیت پوری وادی کشمیرمیں موبائل فون،انٹرنیٹ،ریڈیو، ٹی وی سمیت مواصلاتی نظام معطل کردیاگیا ہے جبکہ بھارتی فورسز کےاہلکاروں نےپولیس تھانوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

    پاکستان نے اس معاملے پر فوری ردعمل دیتے ہوئے تیز ترین سفارت کاری شروع کی۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے اس حوالے سے چین کا ہنگامہ دورہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ دنیا میں موثر آواز رکھنے والے ممالک سے بھی رابطے تیز کردیے، پاکستان کی اعلیٰ قیادت نے 14 اگست کوآزاد کشمیر کا دورہ کیااور وزیر اعظم پاکستان نے کشمیری عوام کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ساری دنیا میں کشمیر کےسفیر بن کرجائیں گے۔

    اقوام متحدہ میں تعینات پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے لیے درخواست دی جسے قبول کرلیا گیا، اقوام متحدہ ، امریکا ، برطانیہ اور چین سمیت کئی اہم ممالک مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پہلے ہی تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔ آج اس اجلاس میں پچاس سال بعد سلامتی کونسل کے مستقل ممبران
    مسئلہ کشمیر پر گفتگو کریں گے۔

    سلامتی کونسل کا طریقہ کار

    سلامتی کونسل کے پانچ رکن ممالک خود ایجنڈا تشکیل دیتے ہیں جسے کونسل کا صدر یو این کے تمام اراکین میں تقسیم کردیتا ہے۔ رکن ممالک اپنی تجاویز دیتے ہیں لیکن ہوتا پھر وہی ہے جو کونسل چاہتی ہے۔

    قرارداد پاس کرنے کا طریقۂ کار بہت ہی پیچیدہ ہے۔ پہلے ڈرافٹ کی تیاری کچھ اس طریقے سے عمل میں لائی جاتی ہے کہ وہ سب کو قابل قبول بھی ہو۔

    کونسل میں قرارداد پیش ہونے کے بعد ووٹنگ کا مرحلہ آتا ہے جس میں پانچ مستقل رکن ممالک کے علاوہ دس غیر مستقل رکن ممالک بھی حصہ لیتے ہیں۔

    غیر مستقل رکن ممالک بھی قرارداد پر اپنی تجاویز دیتے ہیں لیکن اس کے بعد بھی ہوتا وہی ہے جو کونسل کے مستقل ارکان کی مرضی ہوتی ہے۔

    جب یہ ممالک ایک حل پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر ہی کوئی نتیجہ نکلتا ہے لیکن اگر ایک رکن بھی متفق نہ ہو تو قرارداد ویٹو ہوجاتی ہے۔


    پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ سلامتی کونسل میں کوئی بھی ہمارے لیے پھولوں کے ہار لے کر نہیں کھڑا ہوگا، لیکن پچاس سال بعد اس مسئلے کا ایک بار پھر سلامتی کونسل میں آجانا، یقیناً پاکستان کی جانب سے کامیاب سفارت کاری کی نوید ہے کیونکہ بھارت شروع سے کشمیر کو اپنا داخلی معاملہ قرار دیتا آیا ہے جبکہ پاکستان نے ہمیشہ اسے ایک بین الاقوامی تنازعہ قراردیا ہے اور اقوام متحدہ کی اس پر پہلے سے موجود قراردادوں کی تائید کی ہے۔

    اب دیکھنا یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی طاقتیں کشمیر کے عوام کو بھارت کے ریاستی ظلم و جبر سے بچانے اور کشمیریوں کو آزادی ٔ استصوابِ رائے کا حق دلانے میں کیا کردار ادا کرتی ہیں۔

  • مسئلہ کشمیر پر سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس آج ہوگا

    مسئلہ کشمیر پر سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس آج ہوگا

    نیویارک: مسئلہ کشمیر پر سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس آج طلب کرلیا گیا، سلامتی کونسل کا اہم اجلاس پاکستان کی درخواست پر بلایا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مسئلہ کشمیر پر 50 سال بعد سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس آج بلایا گیا ہے، اجلاس میں سلامتی قونصل اپنی ہی پانچ دہائیوں قبل کی قرارداد پر غور کرے گی ، سلامتی کونسل کے سامنے کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کی حالیہ صورتحال بھی ہوگی کہ کس طرح بھارت بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کررہا ہے۔

    یہ بند کمرہ اجلاس امریکہ کے شہر نیویارک میں واقع اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں پاکستان کے مقامی وقت کے مطابق شام 7 بجے ہوگا۔ ہوگا۔

    دفترخارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی صدر کو خط لکھا تھا جس میں ان سے کونسل کے ہنگامی اجلاس منعقد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

    دفترخارجہ کے مطابق سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنت کے غیرقانونی اقدام پر بات کی جائے گی جو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

    اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا خط سلامتی کونسل کی صدرکو پیش کیا تھا۔

    پاکستان کا سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ

    مودی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی دنیا کو پاکستان کے بیانیے سے آگاہ کرنے میں متحرک نظر آرہے ہیں۔

    یاد رہے کہ دو روز قبل وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں امبیسیڈر بن کر کشمیر کی آواز دنیا میں اٹھاؤں گا۔

    قرارداد پیش کرنے کا طریقہ

    سلامتی کونسل کے پانچ رکن ممالک خود ایجنڈا تشکیل دیتے ہیں جسے کونسل کا صدر یو این کے تمام اراکین میں تقسیم کردیتا ہے۔ رکن ممالک اپنی تجاویز دیتے ہیں لیکن ہوتا پھر وہی ہے جو کونسل چاہتی ہے۔

    قرارداد پاس کرنے کا طریقۂ کار بہت ہی پیچیدہ ہے۔ پہلے ڈرافٹ کی تیاری کچھ اس طریقے سے عمل میں لائی جاتی ہے کہ وہ سب کو قابل قبول بھی ہو۔

    کونسل میں قرارداد پیش ہونے کے بعد ووٹنگ کا مرحلہ آتا ہے جس میں پانچ مستقل رکن ممالک کے علاوہ دس غیر مستقل رکن ممالک بھی حصہ لیتے ہیں۔

    غیر مستقل رکن ممالک بھی قرارداد پر اپنی تجاویز دیتے ہیں لیکن اس کے بعد بھی ہوتا وہی ہے جو کونسل کے مستقل ارکان کی مرضی ہوتی ہے۔

    جب یہ ممالک ایک حل پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر ہی کوئی نتیجہ نکلتا ہے لیکن اگر ایک رکن بھی متفق نہ ہو تو قرارداد ویٹو ہوجاتی ہے۔

     

  • وزیر اعظم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچ گئے

    وزیر اعظم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچ گئے

    اسلام آباد: مقبوضہ کشمیر کی بھارتی آئین میں حیثیت تبدیل کرنے ، اور وادی کی مخدوش صورتحال پرپاکستان کی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس شروع ہوگیا ، اجلاس اپوزیشن اور حکومت کے ڈیڈ لاک کے سبب ملتوی کیا گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کے زیر صدارت ہورہا ہے ، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو موجود ہیں، ساتھ ہی اس اجلاس میں وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ حید ر بھی اپنی کابینہ کے ساتھ شریک ہیں جبکہ  وزیر اعظم عمران خان بھی اجلاس میں شرکت کے لیے پارلیمنٹ پہنچ چکے ہیں۔

    اجلاس کے آغاز پر اپوزیشن کی جانب سے سابق صدر آصف زرداری سمیت دیگر اسیر ممبران پارلیمنٹ کے پراڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کی جانب سے شور شرابہ کیا گیا۔

    تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم سواتی نے مقبوضہ کشمیر کے معاملے تحریک پیش کی جس میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا ذکر نہ ہونے پر پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے احتجاج کیا اور اس میں ترمیم کرنے کا کہا، شیخ رشید نے بھی ربانی کے موقف کی تائید کی۔

    آرٹیکل 370 کیا تھا؟ مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو کیا نقصان ہوگا؟

    اپوزیشن کی جانب سے نکتہ اعتراض کے بعد حکومت کی جانب سے تحریک میں ترمیم کردی گئی تاہم اپوزیشن کی جانب سے احتجاج جاری رہا جس کے بعد اسپیکر اسد قیصر نے 20 منٹ کے لیے اجلاس ملتوی کردیا۔

    اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو وزیراعظم عمران خان کی شرکت سے مشروط کردیا ہے جس کے سبب اجلاس تاحال تعطل کا شکار ہے، وزیر اعظم اپنے چیمبر میں کشمیر پر حکمت عملی تیار کرنے کے لیے اہم ملاقاتیں کررہے ہیں۔

    دوسری جانب حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کے لیے سابق صدر آصف زرداری کے پراڈکشن آرڈر جاری کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد سابق صدر کو پارلیمنٹ ہاؤس پہنچایا گیا۔

    خیال رہے بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگرقومی رہنماؤں نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔

    گزشتہ روز بھارتی پارلیمنٹ کے اجلاس میں بھارتی وزیرداخلہ نے آرٹیکل 370 ختم کرنے کا بل پیش کیا گیا تھا، تجویز کے تحت کشمیریوں کو حاصل خصوصی حقوق ختم کردیے گئے ہیں اور غیر مقامی افراد مقبوضہ کشمیر میں سرکاری نوکریاں اور جائیدادحاصل کرسکیں گے۔

    بعد ازاں بھارتی صدر نے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بل پر دستخط کر دیے اور گورنر کا عہدہ ختم کرکے اختیارات کونسل آف منسٹرز کو دے دیئے، جس کے بعد مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوگئی تھی۔

  • آج دنیا کے سامنے بھارتی عزائم بے نقاب ہوگئے ہیں، شاہ محمود قریشی

    آج دنیا کے سامنے بھارتی عزائم بے نقاب ہوگئے ہیں، شاہ محمود قریشی

    اسلام آباد: پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ بھارت اگر سمجھتا ہے کہ آئینی ترامیم سے مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔

    تفصیلات کےمطابق بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 ختم کرنے پر اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ بھارت نےاقوام متحدہ میں جووعدہ کیاتھااس کی خلاف ورزی کی،بھارت نےجوآئینی ترامیم کی ان کاکوئی قانونی اوراخلاقی جوازنہیں ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیرکےعوام نےآرٹیکل ختم کرنےکی کھل کرمخالفت کی ہے ، آئینی ترامیم سےبھارت عوامی رائےعامہ کوتبدیل نہیں کرسکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان مسئلےکوپرامن طورپرحل کرنےکاخواہشمندہے۔

    بھارت نےمقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کردی

    آرٹیکل 370 کیا تھا؟ مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو کیا نقصان ہوگا؟

    وزیر خارجہ شاہ محمو د قریشی کے مطابق پاکستان کی خواہش تھی معاملے کومل بیٹھ کر حل کریں، تاہم بھارت نے کشمیر کے معاملے کو آج مزید الجھا دیا ہے۔بھارت سمجھتاہےترامیم سےمسئلہ حل ہوجائےگاتویہ خام خیالی ہے کیونکہ کشمیریوں کے حق خود ارادایت کوکوئی ترمیم بدل نہیں سکتی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ کشمیریوں کےجذبہ حریت کوکوئی آئینی ترمیم کچل نہیں سکتی،آج بھارت نےمسئلہ کشمیرکوعالمی حیثیت دلادی ہے ۔

    شاہ محمود قریشی نے کشمیری قیادت کو نظر بند کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ میرواعظ عمرفاروق پہلےہی کہہ چکےکہ ترمیم کے بھارتی اقدام کاردعمل آئےگا۔ یہ ردعمل نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ آزاد کشمیر میں بھی آئے گا۔

    ان کا کہنا تھا کہ بھارت کےاقدامات نےمعاملےکواورالجھادیاہے، تاہم دنیاکےسامنےبھارت کےمقاصدبےنقاب ہوگئےہیں۔مسلم امہ کوبھارت کےاقدامات کانوٹس لیناچاہیے۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معاملے پر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کوسامنےرکھتےہوئےبات کریں گے،یہ مسئلہ کئی دیائیوں سےچلاآرہاتھاجس کوسلجھانےکے لیے پیشکش کی تھی۔ اب دنیادیکھ رہی ہےکہ بھارت کےمقاصدکیاتھے۔

    وزیر خارجہ نے بتایا کہ انہوں نے اقوام متحدہ میں تعینات پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کوہدایت کردی ہےکہ نیویارک پہنچ کررابطےشروع کردیں، ملیحہ لودھی نیویارک پہنچ کرعالمی برادری کومقبوضہ کشمیرکی صورتحال سےآگاہ کریں گی۔

     خیال رہے کہ بھارتی وزیرداخلہ نے آرٹیکل370 ختم کرنے کا بل پیش کیا تھا، تجویز کے تحت غیرمقامی افراد مقبوضہ کشمیر میں سرکاری نوکریاں حاصل کرسکیں گے اور 370 ختم ہونے سے مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم ہوجائےگی۔

    بعد ازاں بھارتی صدر نے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بل پر دستخط کردیے اور گورنر کاعہدہ ختم کرکے اختیارات کونسل آف منسٹرزکو دے دیئے، جس کے بعد مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم ہوگئی۔

    خیال رہے آرٹیکل تین سو ستر مقبوضہ کشمیرکوخصوصی درجہ دیتے ہوئے کشمیر کو بھارتی آئین کا پابند نہیں کرتا، مقبوضہ کشمیر جداگانہ علاقہ ہے، جسے اپنا آئین اختیارکرنے کا حق حاصل ہے۔

  • بھارتی مقبوضہ کشمیر میں گرنیڈ دھماکا، 18 زخمی

    بھارتی مقبوضہ کشمیر میں گرنیڈ دھماکا، 18 زخمی

    سری نگر: بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ایک بس اسٹینڈ پردھماکا ہوا ہے، دھماکے میں 18 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری جانب آج صبح سےجاری سرچ آپریشن میں بھارتی افواج نے ایک جوان شہید کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مقامی میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ایک بس اسٹینڈ پر گرنیڈ بم دھماکا ہوا ہے جس میں موقع پرموجود 18 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ زخمیوں کو گورنمنٹ میڈیکل کالج منتقل کیا گیا ہے جہاں انہیں  طبی امداد دی جارہی ہے۔

    بتایا جارہا ہے کہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفر ی نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے اور شواہد اکھٹے کیے جارہے ہیں۔

    گرنیڈ حملوں کا تسلسل

    ابتدائی اطلاعات کے مطابق دھماکہ بس کے اندراس وقت ہوا جب وہ اسٹینڈ پر آکر رکی، گزشتہ دس ماہ میں یہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والا تیسرا گرنیڈ حملہ ہے۔

    گزشتہ برس دسمبر کی 28 تاریخ کو جموں کے ایک بس اسٹینڈ پر گرنیڈ حملہ ہوا تھا، حملہ اسٹاپ کے ساتھ ہی پولیس اسٹیشن کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا تھا، تاہم اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

    گزشتہ سال مئی کی 24 تاریخ کو ایک بس اسٹینڈ کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں تین افراد زخمی ہوئے تھے، زخمی ہونے والوں میں دو پولیس اہلکار شامل تھے۔

    سرچ آپریشن

     آج صبح سے بھارتی افواج کا کپواڑہ ڈسٹرکٹ میں سرچ آپریشن جاری ہے ، اس دوران بھارت نے بدترین ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نوجوان کو شہید کردیا ہے۔ نوجوان کی شہادت کا واقعہ ہندوارہ کے علاقے کرال گند میں پیش آیا ہے۔

    پلوامہ حملہ

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ  کی 14تاریخ کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے سری نگرسے 20 کلومیٹر دور پلوامہ کے نیشنل ہائی وے پر  فوجی دستے پر خودکش حملہ ہوا تھا جس میں 44 بھارتی فوجی مارے گئے تھے، بھارت نے حملے کے فوری بعد پاکستان کے خلاف محاذ کھولتے ہوئے ہرزہ سرائی کی اور بے بنیاد الزامات عائد کیے تھے۔

    پاکستان پر الزام تراشی پر بھارت کو شدید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا، بھارتی الزام تراشی کو چین اور سعودی عرب سمیت کئی اہم ممالک نے یکسر مسترد کردیا تھا۔ گزشتہ روز امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں پلوامہ حملہ کرنے والے نوجوان پر ایک تحقیقاتی اسٹوری میں انکشاف کیا گیا تھا کہ حملہ آور عادل ڈار کئی بار بھارتی افواج کے ظلم وستم کا نشانہ بن چکا تھا۔


    یہ خبر ابھی اپ ڈیٹ کی جارہی ہے

  • بھارتی مظالم کے خلاف کشمیر میں مکمل ہڑتال

    بھارتی مظالم کے خلاف کشمیر میں مکمل ہڑتال

    سری نگر: مقبوضہ کشمیر میں حریت قیادت کی گرفتاریاں اور آرٹیکل 35 اے کی منسوخی کے خلاف وادی میں مکمل ہڑتا ل ہے ، مختلف علاقوں میں کشیدگی کی صورتحال ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آج بھارتی مظالم کے خلاف ہڑتال کی جارہی ہے، حریت رہنماوں کی اپیل پرگرفتاریوں کے خلاف احتجاج کیا جائے گا۔کٹھ پتلی انتظامیہ نےاحتجاج روکنےکیلئے اضافی نفری طلب کر لی ۔مزیددس ہزار فوجی تعینات کردئیے گئے ہیں۔

    بھارت ی افواج کے ہاتھوں حریت رہنما یاسین ملک اورامیرجماعت اسلامی عبدالحمید فیاض سمیت دوسوسےزائدکشمیریوں رہنماؤں کی گرفتاری اور انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیوں پر حریت رہنماؤں نے شدید مذمت کرتے ہوئے احتجاج کا سلسلہ وسیع کیا ہے ۔

    وادی میں حریت رہنماؤں اور آزادی کے متوالوں کے خلاف بھارتی فورسز کے کریک ڈاؤن آپریشن کے سبب صورتحال کشیدہ ہے، جس کے سبب مختلف علاقوں میں اشیائے خوردو نوش کی فراہمی بھی معطل ہو کررہ گئی ہے ۔ عوام کھانے پینےکی اشیا سے بھی محروم ہورہے ہیں۔

    یاد رہے کہ بھارتی افواج پر پلوامہ حملے کے بعد سے وادی میں کشیدگی اپنےعروج پر ہے ، بھارتی افواج نے کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں۔

    میر واعظ عمر فاروق نے حریت رہنماؤں کی گرفتاریوں پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیری عوام بھارت کی ریاستی دہشت گردی، غیر آئینی اور پُرتشدد اقدامات سے حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی، بھارتی فورسز جتنا طاقت کا استعمال کریں گے صورتحال اتنی بگڑتی جائے گی۔

    میر واعظ عمر فاروق کا کہنا تھا کہ مقبوضہ وادی کے مظلوم شہری آرٹیکل 35 اے میں کسی قسم کی تبدیلی کو قبول نہیں کریں گے۔

    آرٹیکل 35 اے کے تحت جموں و کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کے نوکری حاصل کرنے، ووٹ دینے اور غیر منقولہ جائیداد خریدنے پر پابندی عائد ہے اور اس دفعہ کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں درخواست زیر سماعت ہے۔

  • بھارت میں کشمیری طالب علم شیو سینا کے تشدد کا نشانہ بن گیا 

    بھارت میں کشمیری طالب علم شیو سینا کے تشدد کا نشانہ بن گیا 

    ممبئی: بھارتی ریاست مہاراشتر میں ایک اور کشمیری طالب علم پر بہیمانہ تشدد  کا واقعہ سامنے آیا ہے، شیو سینا کے چارغنڈوں نے کشمیری نوجوان کو ’جے ہند‘ کے نعرے لگانے پرمجبور کیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق یہ واقع دو روز قبل یعنی بدھ کے روز رات دس بجے کے قریب واگھا پور روڈ پر پیش آیا، جہاں کشمیری طالب علم کی رہائش گاہ کے قریب ہی شیو سینا کی نوجوان تنظیم یووا سینا کے چار غنڈوں نے کشمیری طالب علم کو گھیر کر اس پر تشدد کیا ۔

    بدمعاشوں نے اپنی غنڈہ گردی کی انتہا کرتے ہوئے ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جس کے بعد وہ لمحوں میں وائرل ہوگئی۔ واقعے کا مقدیواتمال پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا ہے۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بھارتی غنڈے نے کشمیری طالب علم سے پہلے نام پوچھا ، پھر کشمیر کا سن کر اسے تھپڑ رسید کردیا۔ اس کے بعد مسلسل سوال کرکے طالب علم کو تشدد کا نشانہ بناتا رہا۔ بھارتی غنڈہ بضد تھا کہ کشمیری نوجوان کا کوئی نہ کوئی رشتے دار پلوامہ حملے میں ضرور شریک ہوگا۔

     کشمیر ی نوجوان پر تشدد کرتے ہوئے بھارتی غنڈے کے منہ سے وہ بات بھی نکل گئی جسے تسلیم کرنے سے  پورا بھارت انکاری ہے،  غنڈے نے تشدد کرتےہوئے کہا کہ ’’تم اسی فیصد کشمیری پاکستان سے پیارکرتے ہو‘‘۔

    حملہ آوروں نے نوجوان کو مجبور کیا کہ وہ ’جے ہند‘ ، ’بھارت ماتا کی جے‘ اور ’وندے ماترم‘ جیسے ریاستی نعرے لگا کر دکھائے۔ ویڈیو میں تشدد کا شکار ہونے والا طالب علم یواتمال کے پٹیل کالج آف فزیکل ایجوکیشن کا طالب علم ہے ، پولیس کا کہنا ہے کہ متاثرہ کشمیری طالب علم کی حفاظت کی جائے گی۔

    یواتمال  پولیس کے ایس پی ایم راج کمار نے انتہائی بھولے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ  مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور ویڈیو کی مدد سے مجرم کی شناخت کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ بھارتی میڈیا نے مجرم کا چہرہ واضح کرکے ساری دنیا کو دکھایا ہے لیکن خود کو ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایکسپرٹ سمجھنے والا بھارت واقعے کے مرکزی مجرم کو گرفتار کرنے میں ناکام ہے۔

  • سال 2018: مقبوضہ کشمیر میں حاملہ خواتین، بچوں اور اسکالر سمیت 355 شہری شہید

    سال 2018: مقبوضہ کشمیر میں حاملہ خواتین، بچوں اور اسکالر سمیت 355 شہری شہید

    سرینگر: مقبوضہ کشمیر کے اسیر شہریوں کے لیے سال 2018 بھی نامہرباں رہا، ایک سال میں قابض بھارتی فوج نے حاملہ خواتین، بچوں اور اسکالرز سمیت 355 شہری شہید کردیے۔

    تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی تنظیم برائے انصاف اور انسانی حقوق نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کی دل دہلا دینے والی رپورٹ جاری کردی۔ رپورٹ کے مطابق سال 2018 میں بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی درندگی عروج پر رہی۔

    سال 2018 میں مقبوضہ کشمیر میں 355 شہریوں کو شہید کیا گیا۔ شہدا میں 10 سالہ بچہ، حاملہ خواتین اور 3 پی ایچ ڈی اسکالرز بھی شامل ہیں جو بھارتی فوج کی درندگی کی بھینٹ چڑھ گئے۔

    مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی فائرنگ، 4 کشمیری شہید

    رپورٹ کے مطابق شہید کیے جانے والوں میں ایک صحافی اور 2 دماغی مریض بھی شامل ہیں جبکہ ایک 14 سالہ بھارتی لڑکا بھی اپنی ہی فوج کی سفاکی کا نشانہ بن گیا۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج نے نہتے کشمیریوں کو فائرنگ اور پیلیٹ گنز کا نشانہ بنایا۔

    سال بھر میں بھارتی فورسز نے 95 نام نہاد سرچ آپریشنز بھی کیے جس میں 120 مکانات مسمار کیے گئے۔

    رپورٹ میں نومبر کے سال کو کشمیریوں کے لیے خونی مہینہ قرار دیا گیا، صرف نومبر میں قابض فوج نے 49 کشمیریوں کو شہید کردیا۔

  • بھارتی فوج خواتین سےزیادتی کوبطورہتھیاراستعمال کررہی ہے،شیریں مزاری

    بھارتی فوج خواتین سےزیادتی کوبطورہتھیاراستعمال کررہی ہے،شیریں مزاری

    اسلام آباد : وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم نے ریکارڈ توڑ دیے، بھارتی فوج خواتین سے زیادتی کو بطور ہتھیار استعمال کررہی ہے، میری تجویزہےکشمیری عوام کوحق خودارادیت دیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم نے ریکارڈ توڑ دیے،  پیلیٹ گن سے بچے، بوڑھوں اور خواتین کو نشانہ بنایا گیا، اقوام متحدہ انسانی حقوق کی کمیٹی کو کشمیر آنے کی دعوت دیتے ہیں۔

    [bs-quote quote=”میری تجویزہےکشمیری عوام کوحق خودارادیت دیا جائے” style=”style-6″ align=”left”][/bs-quote]

    شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت میں کمیٹی کےکشمیر آنے کےبہتر انتظامات نہیں کیےگئے، بھارت نے کشمیر میں ہمیشہ انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی ہیں، مقبوضہ کشمیرمیں خواتین اور بچے بڑے پیمانے پر متاثر ہورہے ہیں۔

    وزیر انسانی حقوق نے کہا بھارتی فوج خواتین سے زیادتی کو بطور ہتھیاراستعمال کررہی ہے، خواتین سے زیادتی کے متعدد کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ میری تجویز ہے کشمیری عوام کوحق خودارادیت دیا جائے، حق خود ارادیت کے معاہدے پر 7یا 10سال بعد ریفرنڈم کیا جا سکتا ہے، ریفرنڈم کی بنیاد پرکشمیری عوام جوطےکریں اس کےمطابق فیصلہ ہو۔

    شیریں مزاری نے کہا بھارت کشمیر میں آبادی کاتناسب تبدیل کرنے پرتیزی سے کام کررہاہے۔

    خیال رہے پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد سارے انسانوں میں اپنے حقوق کی آگاہی کو بیدار کرنا اور بتانا ہے کے تمام انسان مذہبی ،سیاسی ،سماجی ،اور اخلاقی حساب سے آزاد اور خود مختیار ہیں اور ان کو آزادی فکر، آزادی ضمیر، اور آزادی مذہب،اور اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق عبادات ،اوررسمیں پوری کرنے کا حق حاصل ہے۔