Tag: Indian Space Mission

  • بھارتی خلائی مشن فعال ہونے کا امکان تیزی سے کم ہورہا ہے

    بھارتی خلائی مشن فعال ہونے کا امکان تیزی سے کم ہورہا ہے

    نئی دہلی : بھارت کا چاند پر بھیجا گیا خلائی مشن ’چندریان 3‘جس نے گزشتہ ماہ 23 اگست کو چاند پر کامیاب لینڈنگ کی تھی اب لاپتہ ہوچکا ہے۔ تاہم مشن سے رابطہ بحال کرنے کیلئے کوششیں تاحال جاری ہیں۔

    بھارتی خلائی ایجنسی کے مطابق ’چندریان 3‘ سے سگنل تاحال موصول نہیں ہورہے ہیں، چاند کے جنوبی قطب پر شدید ٹھنڈ کے باعث بیٹریوں کو نقصان پہنچا ہے اور اسی سبب چندریان 3 سے رابطے نہیں ہو پارہا ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی خلائی مشن چندریان 3کے دوبارہ فعال ہونے کا امکان ختم ہونے کے قریب ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ

    اس حوالے سے بھارتی خلائی ایجنسی کے سابق سربراہ کرن کمار کا کہنا ہے کہ چاند پر بھیجے گئے مشن کے دوبارہ فعال ہونے کے امکانات ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ کم ہو رہے ہیں۔

    برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چاند پر منجمد کرنے والے انتہائی کم درجہ حرارت کی وجہ سے مشن شاید دوبارہ فعال نہ ہوسکے۔ چاند کے قطب جنوبی پر رات میں درجہ حرارت منفی 200 سے 250 ڈگری تک گر جاتا ہے۔

    چندریان

    اسرو چیف ایس سومناتھ نے کہا ہے کہ یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ چندریان تھری کے ساتھ رابطہ کب قائم ہوگا، تاہم خلائی ایجنسی رابطہ قائم کرنے کی کوششیں جاری رکھے گی۔

    کرن کمار نے کہا کہ قمری دن کے اختتام تک مشن فعال کرنے کی کوشش جاری رہے گی۔ برطانوی میڈیا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ چاند پر ایک دن اور رات کا دورانیہ زمین کے 14 دنوں سے زائد کا ہوتا ہے۔

     

  • بھارت کی چاند کو چھونے کی کوشش ایک بار پھر ناکام

    بھارت کی چاند کو چھونے کی کوشش ایک بار پھر ناکام

    بھارت کا چاند پر اترنے کا خلائی مشن چندریان 2 بھی ناکام ہوگیا، خلائی جہاز کا رابطہ اس وقت منقطع ہوگیا جب وہ چند ہی لمحے بعد چاند کی سطح پر لینڈ کرنے والا تھا۔

    بھارتی خلائی ادارے انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) کا کہنا ہے کہ چندریان 2 چاند کے جنوبی قطب پر لینڈنگ کرنے جاہا تھا تاہم لینڈنگ سے چند ہی لمحے قبل زمینی مرکز سے اس کا رابطہ منقطع ہوگیا۔

    لینڈنگ سے قبل اسرو کے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ چاند پر لینڈنگ سے 15 منٹ قبل زمین پر موجود سائنسدانوں کا اس خلائی مشن میں کردار ختم ہوجائے گا۔ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو جہاز خود کار طریقے سے چاند پر لینڈ کر جائے گا، وگرنہ وہ چاند کی سطح سے ٹکرا کر تباہ ہوجائے گا۔

    تاحال اس خلائی جہاز کے بارے میں کوئی اطلاعات موصول نہیں ہوسکیں چنانچہ توقع کی جارہی ہے کہ خلائی جہاز تباہ ہوچکا ہے۔

    مشن کی ناکامی کے بعد بھارتی صدر نریندر مودی اسرو پہنچے جہاں انہوں نے قوم کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ایسے مواقع مزید آئیں گے۔

    چندریان 2 کو 22 جولائی کو زمین سے لانچ کیا گیا تھا اور ایک ماہ بعد 20 اگست کو یہ چاند کے مدار میں داخل ہوگیا تھا۔

    بھارت نے اس مشن کے لیے اپنا سب سے مضبوط راکٹ جیو سنکرونس سیٹلائٹ لانچ وہیکل (جی ایس ایل وی) مارک تھری استعمال کیا تھا۔ اس کا وزن 640 ٹن ہے (جو کہ کسی بھرے ہوئے جمبو جیٹ 747 کا ڈیڑھ گنا ہے) اور اس کی لمبائی 44 میٹر ہے جو کسی 14 منزلہ عمارت کے برابر ہے۔

    اس سیٹلائٹ سے منسلک خلائی گاڑی کا وزن 2.379 کلو ہے اور اس کے تین واضح مختلف حصے ہیں جن میں مدار پر گھومنے والا حصہ آربیٹر، چاند کی سطح پر اترنے والا حصہ لینڈر، اور سطح پر گھومنے والا حصہ روور شامل تھا۔

    اگر بھارت کا یہ مشن کامیاب ہوجاتا تو وہ سابق سوویت یونین، امریکہ اور چین کے بعد چاند کی سطح پر لینڈنگ کرنے والا چوتھا ملک بن جاتا۔ مشن کی کامیابی کی صورت میں ایک اور تاریخ بھارت کی منتظر تھی، بھارتی خلائی جہاز چاند کے اس حصے پر لینڈ کرنے جارہا تھا جہاں آج تک کوئی نہیں گیا۔

    بھارت کا اس مشن کو بھیجنے کا مقصد ایک طرف تو خلائی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنا تھا، تو دوسری طرف چاند کی سطح پر تحقیقات کرنا بھی تھا۔ خلائی مشن پانی اور معدنیات کی تلاش کا کام کرنے والا تھا جبکہ چاند پر آنے والے زلزلے کے بارے میں بھی تحقیق کی جانی تھی۔

    چاند کے مدار میں گردش کرنے والے حصے کی زندگی ایک سال کی تھی جو چاند کی سطح کی تصاویر لینے والا تھا، اس کے ساتھ وہ وہاں کی مہین ماحول کو سونگھنے کی کوشش بھی کرنے والا تھا۔

    چاند کی سطح پر اترنے والے حصے کا نام اسرو کے بانی کے نام پر ’وکرم‘ رکھا گیا تھا۔ اس کا وزن نصف تھا اور اس کے بطن میں 27 کلو کی چاند پر چلنے والی گاڑی تھی جس پر ایسے آلات نصب کیے گئے تھے جو چاند کی سرزمین کی جانچ کر سکتے۔

    اس حصے کی زندگی صرف 14 دن تھی اور اس کا نام ’پراگیان‘ رکھا گیا تھا جس کا مطلب دانشمندی ہے۔

    بھارت اس سے پہلے سنہ 2008 میں ایک اور خلائی مشن چندریان 1 چاند کی طرف روانہ کرچکا ہے۔ وہ خلائی جہاز بھی چاند کی سطح پر اترنے میں ناکام رہا لیکن اس نے ریڈار کی مدد سے چاند پر پانی کی موجودگی کی پہلی اور سب سے تفصیلی دریافت کی تھی۔