Tag: Indian Supreme Court

  • بھارتی سپریم کورٹ نے کولکتہ میں خاتون ڈاکٹر سے زیادتی اور قتل کو خوفناک جرم قرار دے دیا

    بھارتی سپریم کورٹ نے کولکتہ میں خاتون ڈاکٹر سے زیادتی اور قتل کو خوفناک جرم قرار دے دیا

    نئی دہلی: بھارتی سپریم کورٹ نے کولکتہ میں خاتون ڈاکٹر سے زیادتی اور قتل کو خوفناک جرم قرار دے دیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ نے کولکتہ ڈاکٹر ریپ کیس کا نوٹس لیتے ہوئے اسے خوفناک جرم قرار دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک کیس نہیں بلکہ بھارت میں ڈاکٹرز کی حفاظت کا مسئلہ ہے۔

    کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، بھارتی سپریم کورٹ نے ڈاکٹرز کی حفاظت کے لیے قومی ٹاسک فورس بنانے کی ہدایت کی جو تین ہفتے میں واقعے پر اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔

    عدالت نے ریمارکس دیے کہ سی بی آئی کے مطابق ڈاکٹروں کے پاس آرام کرنے کی جگہ نہیں ہے، ان کے لیے حفظان صحت کے اصول بھی برقرار نہیں ہیں، ڈاکٹروں کو بے قابو مریضوں کو سنبھالنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، اسپتال میں میڈیکل اسٹاف کے لیے صرف ایک باتھ روم ہوتا ہے، جس کے لیے طویل فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔

    سپریم کورٹ نے اسپتالوں میں ڈاکٹروں کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے سی بی آئی کو واقعے اور اس کے بعد ہنگامہ آرائی کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔

    کلکتہ میں زیادتی کے بعد قتل: ٹرینی ڈاکٹر نے مرنے سے کچھ گھنٹے قبل ڈائری میں کیا لکھا تھا؟

    چیف جسٹس نے کہا اس معاملے پر حکومت بنگال کی خاموشی تشویش ناک ہے، بنگال حکومت نے واقعے کی ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر کی اور جائے وقوعہ کو بھی نقصان پہنچایا، مغربی بنگال حکومت سے بھی توقع ہے کہ وہ حالات کی وضاحت کرتے ہوئے رپورٹ پیش کرے گی۔

    بھارتی چیف جسٹس نے ڈاکٹرز سے ہڑتال ختم کرنے کی اپیل بھی کی، سپریم کورٹ نے میڈیا میں متاثرہ لڑکی کے نام شائع کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔ سپریم کورٹ نے سماعت 22 اگست تک ملتوی کر دی ہے۔

    ادھر وکلا تنظیم بھی ڈاکٹرز کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئی ہے، ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ جب تک تحفظ فرام نہیں کیا جاتا اور مطالبات پورے نہیں کیے جاتے احتجاج جاری رہے گا، کولکتہ اسپتال میں ڈاکٹر کے ساتھ زیادتی اور قتل کے بعد دس روز سے بھارت میں ڈاکٹرز کا احتجاج جاری ہے، جس کے باعث مریضوں کا علاج مشکل ہو گیا ہے، مودی سرکار نے ڈاکٹرز سے احتجاج ختم کرنے کی اپیل کی ہے، کولکتہ اسپتال کے سابق سربراہ کے خلاف کرپشن کا مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔

  • ویڈیو رپورٹ: بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ کشمیر کی داخلی خودمختاری اور سالمیت پر حملہ قرار

    ویڈیو رپورٹ: بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ کشمیر کی داخلی خودمختاری اور سالمیت پر حملہ قرار

    جموں و کشمیر کی داخلی خود مختاری کے حوالے سے بھارتی سپریم کورٹ کا جو متعصبانہ فیصلہ سامنے آیا ہے، کشمیری رہنماؤں کی نظر میں وہ وادی کی سالمیت پر ایک حملے کی مانند ہے، جس نے کشمیر کے مسئلے کو قانونی طور سے حل کرنے کا خیال بھی باطل کر دیا ہے۔

    کشمیری رہنماؤں نے کہا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بین الا اقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، کشمیری قوم خواہ وہ کسی بھی پارٹی یا مکتبہ فکر سے ہوں، یک جا اور یک زبان ہو کر اس گھناؤنی سازش کو ناکام بنانے کے لیے کمر بستہ ہے۔

    مودی سرکار جموں و کشمیر پر ناجائز قابض بھارتی فوج اور کشمیریوں کے تشخص کو ہر حال میں ختم کرنا چاہتی ہے، اگر کسی کو یہ خام خیالی تھی کہ کشمیر کا مسئلہ قانونی طور پر حل ہو سکتا ہے تو بھارتی سپریم کورٹ کے 11 دسمبر کے متعصبانہ فیصلے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کشمیریوں کو ہندوستان کی حکومت اور سپریم کورٹ پر اعتبار کرنے کی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔

    اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے مطابق جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے جمہوری طریقہ سے کیا جائے گا، ویسے تو اندرونی طور پر مودی سرکار کے جبر یا ظلم و ستم سے بھارت کی کوئی بھی اقلیت محفوظ نہیں، مگر کشمیریوں سے ان کی شناخت چھیننے کی گھناوٴنی سازش مودی کی آلہ کار سپریم کورٹ اور کٹھ پتلی ججوں کا متعصبانہ رویہ، سوچ اور متنازعہ فیصلہ اس بات کی دلیل ہے کہ کشمیری بہت جلد بھارت سے آزادی لے کر رہیں گے۔

    کشمیر کی جداگانہ حیثیت اور تشخیص کو نہ تو ختم کیا جا سکا ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ کے 370 آرٹیکل پر بوگس فیصلوں سے ختم کیا جا سکے گا، یہ بھارتی سپریم کورٹ کی تنگ نظری اور غاصبانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہے، بھارت جموں وکشمیر کو ہڑپ کرنے کی مذموم منصوبہ بندی میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔

    آج کشمیری قوم خواہ وہ کسی بھی پارٹی یا مکتبہ فکر سے ہوں یک جا اور یک زبان ہو کر اس گھناؤنی سازش کو ناکام بنانے کے لیے کمر بستہ ہیں، بھارت میں موجود کشمیری اور کئی سیاست دانوں نے اس تعصب پسندانہ فیصلے کے خلاف آواز اْٹھائی۔

  • بھارتی سپریم کورٹ کے متعصبانہ فیصلے پر نریندر مودی کا ڈھٹائی سے بھرپور ٹوئٹ

    بھارتی سپریم کورٹ کے متعصبانہ فیصلے پر نریندر مودی کا ڈھٹائی سے بھرپور ٹوئٹ

    نئی دہلی: کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کے متعصبانہ اور ظالمانہ فیصلے پر نریندر مودی نے اپنے ٹوئٹ میں ایک بار پھر ڈھٹائی کا مظاہرہ کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سراہتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ آرٹیکل 370 کی تنسیخ پر بھارتی سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ تاریخی ہے۔

    انھوں نے لکھا 5 اگست 2019 کو ہندوستان کی پارلیمنٹ کے ذریعے لیا گیا فیصلہ برقرار ہے، یہ فیصلہ جموں و کشمیر اور لداخ میں بہنوں، بھائیوں کے لیے امید کی علامت ہے، عدالت نے اپنی گہری دانش مندی کے ساتھ اتحاد کے اس جوہر کو مضبوط کیا ہے۔

    مودی نے لکھا کہ جموں، کشمیر اور لداخ کے لچک دار لوگوں کو میں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارا عزم اٹل ہے، آج کا فیصلہ ایک مضبوط، زیادہ متحد ہندوستان کی تعمیر کے اجتماعی عزم کا ثبوت ہے۔

    بھارتی سپریم کورٹ کا متعصبانہ فیصلہ، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کی اپیلیں مسترد

    واضح رہے کہ آج بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر پر متعصبانہ فیصلہ کرتے ہوئے مظلوم کشمیریوں کو ان کا حق دینے سے انکار کر دیا ہے، اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا 5 اگست 2019 کا فیصلہ برقرار رکھا، بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے خلاف اپیلیں مسترد کر دیں۔

    سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ آرٹیکل تین سو ستر اے عارضی اقدام تھا، اس کے نفاذ کا فیصلہ قانونی تھا یا آئینی یہ بات اہم نہیں، آرٹیکل جموں و کشمیر کی شمولیت کو منجمد نہیں کرتا، یہ آرٹیکل کشمیر کی یونین کے ساتھ انضمام کے لیے تھا، بھارتی صدر کے پاس آرڈر دینے کے اختیارات ہیں۔

  • دوران سماعت جج کی انوکھی پیشکش، وکیل سکتے میں آگیا

    دوران سماعت جج کی انوکھی پیشکش، وکیل سکتے میں آگیا

    بھارتی عدالت میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران عجیب واقعہ پیش آیا جسے دیکھ کر کمرہ عدالت میں موجود ہر شخص حیرت زدہ رہ گیا۔

    بھارتی سپریم کورٹ میں ایک جج نے مقدمے کی سماعت کے دوران وکیل کو سختی سے متنبہ کیا کہ وہ بار بار مائی لارڈ کے الفاظ استعمال نہ کرے۔

    بھارتی نیوز چینل این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ایک کیس کی سماعت کے دوران اس وقت دلچسپ صورت حال پیدا ہوگئی جب جج دلائل کے بجائے چند الفاظ کی تکرار پر برہم دکھائی دیے۔

    اس دوران جسٹس پی پی ایس نرسمہا نے وکیل کی جانب سے بار بار ’مائی لارڈ‘ اور ’یوور لارڈ شپ‘ کہنے پر اسے ایک دلچسپ پیشکش کردی، وہ ایک بینچ کی سربراہی کر رہے تھے جس میں ان کے ساتھ جسٹس اے ایف بوپانا بھی شامل تھے۔۔

    وکیل نے جب جج کو ’مائی لارڈ‘ اور ’یوور لارڈ شپ‘ کہا اور ہر جملے کے بعد دُہرانا شروع کیا تو ایک موقع پر جج نے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ٹوک دیا اور کہا کہ اگر آپ یہ الفاظ دُہرانا بند کردیں گے تو میں آپ کو اپنی آدھی تنخواہ دے دوں گا۔

    اگرچہ عدالتوں میں وکیلوں کی جانب سے جج کو مخاطب کرتے ہوئے ایسے الفاظ کا بار بار استعمال انڈیا سمیت کئی ممالک میں ہوتا ہے تاہم ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اس روایت کو نوآبادیاتی دور کی باقیات اور غلامی کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔

    یاد رہے کہ 2006میں بار کونسل انڈیا نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ آئندہ کوئی وکیل جج کو ’مائی لارڈ‘ یا ’یوور لارڈشپ‘ کہہ کر مخاطب نہیں کرے گا تاہم عدالتوں میں سماعت کے دوران اس پر کوئی خاص عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آیا۔

  • راہول گاندھی کی سزا معطل ، رکنیت بحال

    راہول گاندھی کی سزا معطل ، رکنیت بحال

    بھارتی عدالت نے حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی کے مرکزی رہنما راہول گاندھی کی سزا معطل کردی جس کے بعد پارلیمنٹ میں ان کی رکنیت بحال کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے ہتک عزت کے جرم میں سزا پانے والے کانگریس رہنما راہول گاندھی کی سزا کو معطل کردیا ہے، بھارتی پارلیمنٹ نے ان کی رکنیت بحال کردی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق راہول گاندھی کو گجرات کی ایک عدالت نے ان کو مودی کے نام پر تنقید کرنے پر ہتک عزت کے مقدمے میں مجرم قرار دیا تھا۔

    کانگریس کے رہنما کو دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جس کے بعد ان کی پارلیمانی رکنیت ازخود منسوخ ہوگئی تھی۔

    راہول گاندھی سپریم کورٹ گئے تھے جب گجرات ہائیکورٹ نے گزشتہ ماہ ان کی سزا کو روکنے کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔

    سیشن کورٹ نے سزا کو مکمل طور پر منسوخ کرنے کی ان کی اپیل پر سماعت کی تھی۔ راہول گاندھی 2019 میں وائناڈ سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔ رواں سال مارچ میں ان کو نااہل کیا گیا تھا۔

  • مقبوضہ کشمیر کیس: بھارتی سپریم کورٹ کا سماعت کے حوالے سے بڑا فیصلہ

    مقبوضہ کشمیر کیس: بھارتی سپریم کورٹ کا سماعت کے حوالے سے بڑا فیصلہ

    نئی دہلی: مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے کیس میں بھارتی سپریم کورٹ نے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے مرکز کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت اب 2 اگست سے روزانہ کی بنیاد پر کی جائے گی۔

    بھارتی سپریم کورٹ میں آج منگل کو 5 ججوں کے بنچ نے میٹنگ کی، بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سماعت 2 اگست کو صبح ساڑھے دس بجے شروع ہوگی اور پھر روزانہ کی بنیاد پر آگے بڑھے گی۔

    اس کیس میں مرکز کی جانب سے پیر کو عدالت میں ایک حلف نامہ جمع کرایا گیا ہے جس میں مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل تین سو ستر کی منسوخی کے بعد سے نام نہاد ترقی کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا، تاہم چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ اس حلف نامے سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے خلاف جمع درخواستوں میں اٹھائے گئے آئینی مسائل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، نہ اس پر انحصار کیا جائے گا۔

    بھارت کی جانب سے یہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے وادی میں ترقی کے ساتھ ساتھ امن و استحکام بھی لایا گیا ہے، جس سے آرٹیکل 370 کی موجودگی میں وادی محروم رہی، تاہم مقبوضہ وادی میں جبر کی صورت حال پر پوری دنیا میں آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں اور بھارت کو اس حوالے سے شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔

    ججوں کی میٹنگ کے دوران سپریم کورٹ نے آئی اے ایس افسر شاہ فیصل اور سابق طالب علم کارکن شہلا رشید کو خصوصی حیثیت کی منسوخی کو چیلنج کرنے والے درخواست گزار کے طور پر دست بردار ہونے کی اجازت بھی دی۔

    بھارتی چیف جسٹس نے کہا تحریری گذارشات 27 جولائی یا اس سے پہلے جمع کروائی جائیں اور اس میں مزید اضافے کی اجازت نہیں ہوگی۔ واضح رہے کہ 5 اگست 2019 کو مودی سرکار نے یک طرفہ اقدام کرتے ہوئے آرٹیکل تین سو ستر منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی، جس کے بعد سے وادی میں مظالم کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

  • بھارتی سپریم کورٹ میں‌ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کی درخواست سماعت کے لیے مقرر

    بھارتی سپریم کورٹ میں‌ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کی درخواست سماعت کے لیے مقرر

    نئی دہلی: مودی سرکار کو بڑی ہزیمت کا سامنا ہوا ہے، 4 سال بعد سپریم کورٹ آف انڈیا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کی درخواست کو بالآخر نمبر لگ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف انڈیا نے کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کی درخواست کی شنوائی کے لیے سنیئر ترین ججوں پر مشتمل پانچ رکنی بنچ بنا دیا ہے، بنچ منگل سے روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کرے گا۔

    کشمیر کی خصوصی حیثیت کی تنسیخ کا 5 اگست 2019 کا اقدام سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے، آرٹیکل 370 کی تنسیخ کو غیر آئینی قرار دینے کے لیے پٹیشن بھارتی بیوروکریسی کے حاضر سروس افسر شاہ فیصل نے 28 اگست 2019 کو دائر کی تھی۔

    4 سال تک ججوں کی ریٹائرمنٹ اور سماعت سے معذرت کی بنا پر بنچ بنتا اور ٹوٹتا رہا، آئینی ماہرین کا مؤقف ہے کہ چار سال گزرنے کے بعد بنیادی حقوق کی درخواست پر سماعت شروع ہونا بھارتی انصاف کے منہ پر تمانچا ہے۔

    مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ کا اہم قدم

    کشمیری عوام کا کہنا ہے کہ کشمیر ہمیشہ آزاد تھا اور رہے گا، امید ہے سپریم کورٹ مودی سرکار کے غیر آئینی اقدام کو کالعدم قرار دے گی، کشمیری سیاست دانوں، علمائے کرام اور تاجر برادری سمیت کشمیری عوام نے سپریم کورٹ کے عمل کا خیر مقدم کیا۔

  • مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ کا اہم قدم

    مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ کا اہم قدم

    نئی دہلی: بھارتی سپریم کورٹ نے چار سال بعد مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف 5 رکنی بنچ تشکیل دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے مرکز کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی تقریباً 23 درخواستوں کی سماعت کے لیے پانچ رکنی بنچ تشکیل دے دیا ہے، جو 11 جولائی کو تمام عرضیوں کی سماعت کرے گا۔

    چیف جسٹس آف انڈیا چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کے بنچ میں جسٹس سنجے کشن کول، سنجیو کھنہ، بی آر گاوائی اور سوریہ کانت شامل ہیں، درخواستوں پر غور کرنے کا یہ عدالتی فیصلہ 5 اگست 2019 کو سابقہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کے تقریباً چار سال بعد آیا ہے۔

    بھارتی وزیراعظم مودی کی سربراہی میں شنگھائی تعاون تنظیم کا ورچوئل اجلاس شروع

    یاد رہے کہ آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر کو خصوصی درجہ فراہم کرتا ہے جسے 2019 میں مودی سرکار نے ختم کر دیا تھا، آرٹیکل تین سو ستر کی منسوخی کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم ہو گئی تھی، مودی سرکار نے آرٹیکل کے خاتمے کے بعد وادی میں ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے، اور مسلمانوں کی وادی میں تناسب کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔

  • مسلمانوں کی دکانیں مسمار کرنے پر بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ

    مسلمانوں کی دکانیں مسمار کرنے پر بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ

    نئی دہلی : مودی سرکار نے مسلمان دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف مسلمانوں کے گھر اور مسجد کے قریب بنی دکانیں گرا دیں۔

    بھارتی سپریم کورٹ نے دارالحکومت نئی دہلی میں واقع "غیر قانونی دکانوں” کو مسمار کرنے کے حکومتی اقدام پر حکمِ امتناع جاری کردیا ہے لیکن اس کے باوجود کارروائیاں جاری ہیں۔

    برطانوی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گزشتہ روز چیف جسٹس این وی رامانا کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے صورت حال کو اگلی سماعت تک جوں کے توں رکھنے کا حکم دیا۔

    پرچون کی یہ چھوٹی دکانیں مسمار کرنے کا سلسلہ ہندوؤں کی مذہبی رسومات کے دوران پھوٹ پڑنے والے ہنگاموں کے چار دن بعد شروع ہوا۔

    دکانیں مسمار کرنے کے خلاف دائر کی گئی درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ حکام نے پراپرٹی مسمار کرنے سے قبل ان کے مالکوں کو خبردار نہیں کیا تھا۔

    خیال رہے کہ مسمارگی کا یہ عمل میونسپل کارپوریشن کے تحت ہو رہا تھا جس کا کنٹرول وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے پاس ہے۔

    بدھ کو انڈین پارلیمنٹ سے 25 کلومیٹر فاصلے پر واقع جہانگیرپوری کے رہائشی علاقے میں مقامی پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے اہلکاروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ان کے ساتھ سات بلڈوزر بھی تھے جنہوں نے مسلمانوں کی چھوٹی سی آبادی کو گھیر رکھا تھا۔

    یہاں موجود ایک سینیئر پولیس آفیسر نے بتایا کہ ’ہم یہاں متعلقہ محکموں کے اہلکاروں کی حفاظت اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے موجود ہیں۔

    خیال رہے کہ پولیس نے گذشتہ اتوار کو ہنومان جینتی کی تقریبات کے دوران بھڑک اٹھنے والے فسادات کے بعد کم از کم 20 افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔

    ناقدین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی دکانوں اور جائیداد کو مسمار کرنا وزیراعظم نریندر مودی اور حکمراں جماعت بی جے پی کی جانب سے ملک کی دو ارب کے لگ بھگ مسلمان آبادی کو خوفزدہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔
    تاہم بی جے پی کی قیادت اور انتہا پسند ہندو رہنما ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

    خیال رہے کہ رواں ماہ انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش اور مغربی گجرات میں گروہی جھگڑوں کے بعد متعدد گھر اور دکانیں توڑ دی گئیں تھیں۔ ان دونوں ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق مقامی انتظامیہ نے چالیس قبل تعمیر کئے گئے مسلمانوں کے گھروں اورمسجد کے گیٹ اور قریب بنی دکانوں کوتجاوزات قراردیتے ہوئے ان پربلڈوزر چلا دئیے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے گھروں اوردکانوں کومسمار نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔مسلمانوں کے گھروں اوردکانوں کو مقامی ہندوانتہاپسند رہنماؤں کے حکم پرگرایا جا رہا ہے۔مسلمانوں کو گھروں اوردکانوں سے سامان نکالنے کا بھی موقع نہیں دیا گیا۔

    چند روز قبل بھی نئی دہلی میں ہندوؤں کے مذہبی جلوس میں شریک انتہاپسند ہندوؤں نے مسلمانوں کے علاقوں میں لوٹ مارکی تھی اورمسلمانوں کوتشدد کا نشانہ بنایا تھا۔پولیس نے ہندوحملہ آوروں کوگرفتارکرنے کے بجائے درجنوں مسلمانوں کوگرفتارکیا تھا جواب بھی جیل میں ہیں۔

  • بھارتی سپریم کورٹ کا مقبوضہ کشمیرمیں حالات ہرصورت معمول پرلانے کا حکم

    بھارتی سپریم کورٹ کا مقبوضہ کشمیرمیں حالات ہرصورت معمول پرلانے کا حکم

    نئی دہلی: مقبوضہ کشمیر میں جاری ریاستی دہشت گردی پر بھارتی سپریم کورٹ نے بڑا حکم جاری کردیا، مودی حکومت کو مقبوضہ وادی میں حالات ہر صورت معمول پر لانے کا حکم صادر کردیا ۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی سربراہی میں مقبوضہ کشمیر سے آرٹیکل 370 ختم کرنے سے متعلق مقدمے کی سماعت کی، بنچ میں جسٹس ایس اے بوبدے اور ایس اے نذیر بھی شامل ہیں۔

    اس موقع پربھارتی سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کشمیریوں کی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور تمام فیصلے ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے جائیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ضرورت پڑی تو مقبوضہ کشمیر کا دورہ خود کروں گا۔

    بھارتی عدالت نےکانگریس رہنما غلام نبی آزادکو بھی مقبوضہ کشمیرجانے کی اجازت دے دی اور اجازت دیتے ہوئے کہا کہ کانگریس رہنما سرینگر اوربارہ مولا سمیت دیگرعلاقوں میں جاسکتےہیں۔

    تین رکنی بنچ نے سماعت کے دوران بھارت کی مودی حکومت کو حکم دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے ہر ممکن اقدام کیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کشمیر میں شٹر ڈاؤن کے معاملے کو جموں اور کشمیر کی ہائی کورٹ کے ذریعے ڈیل کیا جاسکتا تھا۔

    آرٹیکل 370 کا خاتمہ: پاکستانی وکیل نے بھارتی سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا

    اس موقع پر حکومت نے عالمی میڈیا رپورٹس کے برعکس عدالت میں دروغ گوئی کا مظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں کرفیو کے دوران کوئی ہلاکت نہیں ہوئی اور ہم صرف وفاق کے فیصلے پر آنے والے ممکنہ ردعمل کی روک تھام کی کوشش کررہے ہیں۔

    حکومتی وکیل تشار مہتا نے عدالت کے سامنے قرار دیا کہ اب تک کشمیر میں ایک بھی گولی نہیں چلائی گئی ہے۔ ان کا یہ بیان عالمی میڈیا کی رپورٹس کے برخلاف ہے۔

    یاد رہے کہ رواں برس 5 اگست کو بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے آرٹیکل 370 ختم کرنے کا بل بھارتی پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا۔ بل کی تجاویز کے تحت غیر مقامی افراد مقبوضہ کشمیر میں سرکاری نوکریاں حاصل کرسکیں گے اور 370 ختم ہونے سے مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت بھی ختم ہوجانی تھیں۔بعد ازاں بھارتی صدر نے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بل پر دستخط کر دیے اور گورنر کا عہدہ ختم کر کے اختیارات کونسل آف منسٹرز کو دے دیے۔

    اس بل کے منظور ہوتے ہی مودی حکومت نے جموں کشمیر میں کرفیو نافذ کردیا تھا جس کے بعد سے اب تک چالیس روز سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود وادی میں کرفیو نافذ ہے اور کشمیر نوجوانوں کی گرفتاریاں، انہیں زخمی اور قتل کرنے کے واقعات مسلسل جاری ہیں۔