Tag: Indian Variant

  • کراچی میں بھارتی کرونا وائرس: ڈاکٹرز نے وارننگ دے دی

    کراچی میں بھارتی کرونا وائرس: ڈاکٹرز نے وارننگ دے دی

    کراچی: پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں بھارتی کرونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے، شہر والوں کو خدا کا واسطہ ہے کہ ایس او پیز پر عمل کریں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے کہ کراچی میں بھارتی کرونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے، کراچی کے بعد لاہور میں بھی کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔

    ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے کہ شہر والوں کو خدا کا واسطہ ہے کہ ایس او پیز پر عمل کریں، دوران عید اور منڈی جاتے ہوئے ماسک کا استعمال لازمی کریں۔ عید کے بعد جب لوگ گھر واپس جائیں گے تو وائرس پھیل سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ لوگ عید گھروں پر منائیں اور گھر پر بھی ہجوم جمع کرنے سے گریز کریں۔

    ڈاکٹر قیصر کا کہنا تھا کہ بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم خطرناک صورتحال میں آچکے ہیں، لوگ چھٹیوں کے بعد کراچی سے گھروں کو جائیں گے تو وائرس پھیل سکتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اپنی عید اچھی منانے کے لیے ایس او پیز پر لازمی عمل کریں۔

  • خطرے کی گھنٹی، بھارتی کرونا وائرس نے نئی شکل اختیار کر لی

    خطرے کی گھنٹی، بھارتی کرونا وائرس نے نئی شکل اختیار کر لی

    نئی دہلی: بھارت میں کرونا وبا کی دوسری لہر کے دوران تباہی مچانے والی کرونا وائرس کی نئی قسم نے پھر شکل بدل لی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں کرونا وائرس کی سامنے آنے والی انتہائی متعدی قسم انڈین ویرینٹ یا ڈیلٹا ویرینٹ (B.1.617.2) نے ایک بار پھر شکل تبدیل کر لی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نئے ویرینٹ کو ڈیلٹا پلس یا AY.1 کا نام دیا گیا ہے۔

    نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا میں بھارتی کرونا وائرس نے دہشت پھیلائی تھی، تاہم اس نئے ویرینٹ کے بارے میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

    ماہرین کے مطابق کرونا وائرس اپنی شکل مستقل بدل رہا ہے، ڈیلٹا پلس دراصل کرونا کے ڈیلٹا ویرینٹ سے بنا ہے، جس سے رواں سال بہت زیادہ بیماری پھیلی تھی، اور جس نے بھارت سمیت کئی ممالک میں کہرام مچا دیا تھا۔

    تاہم، سائنس دان اس نئے ویرینٹ کو لے کر زیادہ فکر مند نہیں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ابھی اسے لے کر کوئی فکر کی بات نہیں، کیوں کہ ملک میں ابھی اس کے بہت کم کیسز سامنے آئے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی اس کی جانچ کی جائے گی کہ یہ نیا ویرینٹ قوت مدافعت کو شکست دے کر ان لوگوں کے جسموں میں داخل ہو سکتا ہے یا نہیں جن کو ویکسین لگ چکی ہے۔

  • بھارتی کرونا وائرس کے حوالے سے تشویشناک تحقیق

    بھارتی کرونا وائرس کے حوالے سے تشویشناک تحقیق

    لندن: بھارت میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی قسم کو ماہرین نے دیگر اقسام سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والی قسم قرار دیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ کے امپریئل کالج لندن میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی نئی قسم ڈیلٹا جسے سب سے پہلے بھارت میں دریافت کیا گیا تھا، دیگر اقسام کے مقابلے میں 30 سے 100 فیصد زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے۔

    ماہرین کی ٹیم کی قیادت کرنے والے پروفیسر نیل فرگوسن کے مطابق کرونا وائرس کی قسم ڈیلٹا برطانیہ میں کچھ عرصے پہلے تیزی سے پھیلنے والی قسم ایلفا (جو گزشتہ سال برطانیہ میں دریافت ہوئی تھی) کے مقابلے میں 30 سے 100 فیصد زیادہ متعدی ہوسکتی ہے۔

    انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ہم یقیناً مزید ڈیٹا اکٹھا کریں گے مگر بدقسمتی سے اب تک کی صورتحال مثبت نہیں، اس وقت بہترین تخمینہ یہی ہے کہ ڈیلٹا نامی یہ قسم ایلفا قسم سے ممکنہ طور پر 60 فیصد زیادہ متعدی ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے صورتحال غیر یقینی ہے، یہ 30 فیصد زیادہ تیزی سے بھی پھیل سکتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ 100 فیصد زیادہ متعدی ہو۔

    خیال رہے کہ ویسے تو اس قسم کا اعلان مارچ 2021 میں ہوا مگر یہ اکتوبر 2020 میں کووڈ سیکونسنگ کے ڈیٹا بیس میں دریافت ہوچکی تھی، مگر اس وقت زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔

    یہ نئی قسم ممکنہ طور پر زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے اور صرف بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں ہی 60 فیصد سے زیادہ کیسز اس کا نتیجہ ہیں، وائرسز میں اکثر تبدیلیاں آتی ہیں اور یہ مخصوص نہیں ہوتیں بلکہ کسی بھی جگہ میوٹیشن ہوتی ہے۔

    نیا کرونا وائرس، ایچ آئی وی اور انفلوائنزا وائرسز سب میں جینیاتی انسٹرکشنز کے لیے مالیکیول آر این اے کو استعمال کرتے ہیں اور ان میں دیگر وائرسز کے مقابلے میں اکثر تبدیلیاں آتی ہیں، جس کی وجہ میزبان خلیات میں وائرسز کی نقول بنانے کے دوران ہونے والی غلطیاں ہوتی ہیں۔

    عالمی پبلک ڈیٹا بیس میں نئے کرونا وائرس کے لاکھوں جینیاتی سیکونسز موجود ہیں، جن میں متعدد میوٹیشنز پر توجہ نہیں دی جاسکی، مگر کچھ میوٹیشنز سے امینو ایسڈز میں تبدیلی آئی، جو وائرل پروٹیشن کی تیاری کی بنیاد ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی خصوصیات بدل گئیں۔

    جب ایک یا زیادہ میوٹیشن برقرار رہتی ہیں تو ایک ایسی نئی قسم تشکیل پاتی ہے جو دیگر مختلف ہوتی ہیں اور انہیں ایک نیا نام دیا جاتا ہے۔

  • بھارتی کرونا وائرس سے کون سی ویکسین بچا سکتی ہے؟

    بھارتی کرونا وائرس سے کون سی ویکسین بچا سکتی ہے؟

    پیرس: فرانس میں ہونے والی ایک تحقیق میں اس بات کی جانچ کی گئی کہ فائزر / بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین بھارتی کرونا وائرس سے کس حد تک تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق فائزر / بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین بھارت میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی قسم سے ہونے والی بیماری سے بچانے میں دیگر اقسام کے مقابلے میں کچھ کم مؤثر ہے مگر پھر بھی اس سے لوگوں کو تحفظ ملتا ہے۔

    فرانس کے پیسٹیور انسٹیٹوٹ میں ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ویکسین کی افادیت میں معمولی کمی کے باوجود فائزر ویکسین ممکنہ طور پر کرونا کی اس نئی قسم کے خلاف تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔

    تحقیق میں اس نئی قسم پر لیبارٹری میں ٹیسٹ کر کے نتائج مرتب کیے گئے، تحقیق میں فرانس کے شہر اورلینز سے تعلق رکھنے والے طبی عملے کے 28 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

    ان میں سے 16 کو فائزر ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرائی گئی تھیں جبکہ 12 کو ایسٹرازینیکا ویکسین کی ایک خوراک دی گئی تھی۔

    تحقیق کے مطابق جن افراد کو فائزر ویکسین کی 2 خوراکیں دی گئی تھیں ان میں بھارت میں دریافت ہونے والی قسم بی 1617 کی روک تھام کرنے کے لیے اینٹی باڈیز کی شرح میں 3 گنا کمی دریافت کی گئی۔

    تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ ایسٹرازینیکا ویکسین میں صورتحال مختلف تھی جس کو استعمال کرنے والے افراد میں اس نئی قسم کی روک تھام کرنے والی اینٹی باڈیز کی سطح بہت کم یا یوں کہہ لیں کہ ناکافی تھی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو ماضی میں کووڈ 19 کا سامنا ہوچکا ہے اور وہ افراد جن کو فائزر کی 2 خوراکیں دی جاچکی ہیں، ان میں اتنی اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں جو بی 1617 کے خلاف تحفظ فراہم کرسکتی ہیں، مگر ان اینٹی باڈیز کی شرح برطانوی قسم کے خلاف اینٹی باڈیز سے 3 سے 6 گا زیادہ کم ہوتی ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس نئی قسم میں اینٹی باڈیز کے خلاف جزوی مزاحمت کی صلاحیت موجود ہے۔

  • بھارتی کرونا وائرس ویکسین کو بھی غیر مؤثر کردے گا؟

    بھارتی کرونا وائرس ویکسین کو بھی غیر مؤثر کردے گا؟

    بھارت میں کرونا وائرس کے خوفناک پھیلاؤ نے پوری دنیا کو پریشان کردیا ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ کرونا وائرس کی یہ نئی قسم صرف ویکسی نیشن سے قابو میں نہیں آئے گی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی چیف سائنسدان سومیا سوامی ناتھن نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ بھارت میں گردش کرنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم زیادہ متعدی اور ممکنہ طور پر ویکسین سے ملنے والے تحفظ کو کم کرسکتی ہے، جس کے باعث وہاں کووڈ کی وبا بحران کی شکل اختیار کرچکی ہے۔

    سومیا سوامی ناتھن نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں وبا کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے عندیہ ملتا ہے کہ وہاں کرونا کی نئی قسم بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ بھارت میں 8 مئی کو کووڈ کے نتیجے میں پہلی بار 4 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں اور 4 لاکھ سے زیادہ نئے کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

    انہوں نے کہا کہ بھارت میں پھیلنے والی کرونا کی قسم بی 1617 کو سب سے پہلے اکتوبر 2020 میں دیکھا گیا تھا اور اس نے ہی بھارتی سرزمین میں کووڈ کی وبا کو تباہ کن بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس قسم کو باعث تشویش سمجھی جانے والی نئی اقسام کی فہرست میں تاحال حصہ نہیں بنایا گیا۔

    تاہم امریکا اور برطانیہ سمیت متعدد ممالک کے طبی حکام نے کہا ہے کہ وہ بی 1617 کو باعث تشویش تصور کرتے ہیں اور سومیا سوامی ناتھن نے بتایا کہ انہیں توقع ہے کہ عالمی ادارہ صحت بھی جلد ایسا ہی کرے گا۔

    ان کا کہنا تھا کہ بی 1617 ممکنہ طور پر باعث تشویش بن جانے والی قسم ہے، کیونکہ اس میں کچھ میوٹیشنز سے اس کے پھیلاؤ کی رفتار بڑھی ہے اور ممکنہ طور پر یہ ویکسین یا بیماری سے بننے والی اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہے۔

    تاہم انہوں نے زور دیا کہ اس نئی قسم کو بھارت میں کیسز اور اموات کی شرح میں ڈرامائی اضافے کا واحد ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا، بلکہ وہاں لوگوں نے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا۔

    سومیا سوامی کا کہنا تھا کہ بھارت جیسے بڑے ملک میں وائرس کا پھیلاؤ کم شرح سے جاری رہ سکتا ہے اور ایسا ہی وہاں کئی ماہ سے ہورہا تھا، لیکن اس شرح میں بتدریج اضافہ ہوا اور ابتدائی علامات کو دیکھا نہیں جاسکا اور اس کے نتیجے میں صورتحال موجودہ سطح پر پہنچ گئی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ صرف ویکسینز کے ذریعے موجودہ صورتحال کو قابو کرنا ممکن نہیں ہوگا، ویکسین بنانے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہونے کے باوجود بھارت میں صرف 2 فیصد افراد کی ویکسی نیشن ہوئی ہے۔

    سومیا سوامی ناتھن کا کہنا تھا کہ وائرس جتنی زیادہ نقول بنائے گا اور پھیلے گا، اتنا زیادہ امکان ہے کہ اس میں مزید میوٹیشنز ہوں گی، وائرس کی اقسام میں متعدد ایسی میوٹیشنز ہوسکتی ہیں جو موجودہ ویکسینز کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہیں اور یہ پوری دنیا کے لیے مسئلہ ہوگا۔ وائرس کے پھیلاؤ کی شرح کم کرنے کے لیے طبی اور سماجی اقدامات پر عملدر آمد یقینی بنایا جائے۔