Tag: Indo pak war

  • 23 ستمبر: بھارتی وزیر اعظم پر نیوکلیئر پروگرام شروع کرنے کے لیے دباؤ

    23 ستمبر: بھارتی وزیر اعظم پر نیوکلیئر پروگرام شروع کرنے کے لیے دباؤ

    بھارت میں پارلیمینٹیرینز نے بھارتی وزیرِ اعظم شاستری پر زور دیا کہ پاکستان اور چین کے ساتھ مستقبل کے معرکوں کے لیے نیوکلیئر پروگرام شروع کیا جائے۔

    بھارتی فوج نے کشمیری مسلمانوں پر ظلم ڈھانے شروع کر دیے جس پر 2 ہزار سے زائد کشمیری آزاد کشمیر کا بارڈر عبور کرنے پر مجبور ہوئے، بھارت کے معروف اخبارات نے بھارتی حکومت پر زور دینا شروع کر دیا کہ جنگ میں برطانیہ کی طرف سے حمایت نہ ملنے پر دولتِ مشترکہ کو چھوڑ دیا جائے۔

    فائر بندی کا اطلاق ہونے سے قبل بھارتی افواج نے اپنے کھوئے ہوئے علاقے واپس حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ سیالکوٹ اور جموں سیکٹر میں پاکستانی افواج نے اپنی برتری برقرار رکھی اور ایئر فورس کی مدد سے دشمن کی حرکت کو بالکل محدود کر دیا۔

    واہگہ اور اٹاری سیکٹر میں بھارتی افواج نے مایوسی کے عالم میں آخری مرتبہ 2 بر یگیڈز سے حملہ کیا لیکن منہ کی کھائی، کھیم کرن سیکٹر میں بھارتی افواج نے فائر بندی سے اپنی پوزیشن ایڈجسٹ کرنے کے بہانے ایک پورے ڈویژن سے حملہ کیا مگر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

    راجستھان سیکٹر میں پاکستانی افواج نے ڈالی پر قبضہ کرنے کی بھارتی کوشش کو نا کام بنایا، یہ حملہ 22 ستمبر کو بٹالین لیول حملہ کے بعد کیا گیا تھا، اس حملے میں پاکستانی افواج نے 97 بھارتی فوجیوں کو قیدی بنایا جس میں 5 آفیسرز بھی تھے۔

    مجاہدین نے گزشتہ 24 گھنٹوں میں 80 سے زائد بھارتی سپاہیوں کو واصلِ جہنم کیا اور ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارت نے ہلاک شدگان اور زخمیوں کو میدانِ جنگ سے نکالنے کے لیے 10 ایمبولینسز استعمال کیں۔ لڑائی کے دوران گہرے سمندر میں بھارتی نیوی نے پاکستان نیوی پر حملہ کیا مگر پاکستان نیوی نے حملہ آور بھارتی فریگیٹ کو تباہ کر دیا۔

    واہگہ اٹاری سیکٹر میں بھاری اسلحہ اور گولہ بارود لے جانے والے ایک بھارتی قافلے پر پاکستان ایئر فورس کے جنگی جہازوں نے حملہ کر کے اسے نیست و نابود کر دیا۔ جنگ میں پاکستان ایئر فورس کی شان دار کارکردگی پر ایئر فورس کے سربراہ ایئر مارشل نور خان نے تعریف کی۔

    زندہ دلانِ لاہور نے صدر ایوب کی جانب سے فائر بندی کی پیش کش قبول کرنے کی تعریف کی۔

  • 21 ستمبر 1965: سیالکوٹ میں ٹینکوں کی لڑائی اور ٹائمز کا نمائندہ خصوصی

    21 ستمبر 1965: سیالکوٹ میں ٹینکوں کی لڑائی اور ٹائمز کا نمائندہ خصوصی

    پاک بھارت جنگ میں 21 ستمبر 1965 وہ دن ہے جب ٹائمز کے نمائندہ خصوصی نے کہا کہ سیالکوٹ میں ٹینکوں کی بڑی لڑائی میں پاکستان نے فیصلہ کن فتح حاصل کی۔

    صدر ایوب نے بہترین جنگی کارکردگی پر میجر جنرل ابرار حسین اور بریگیڈیئر عبدالعلی کو بہادری کے 42 ایوارڈ دیے، بریگیڈیئر امجد علی کو بہادری کے دوسرے بڑے ایوارڈ سمیت جرأت کے 42 ایوارڈ دیے، اسکوارڈن لیڈر خاں نیب احمد کو ستارہ جرأت سے نوازا گیا۔

    پاکستانی فوج نے سیالکوٹ، کھیم کرن اور حسینی والا سیکٹر میں اہم کامیابیاں حاصل کیں، سیالکوٹ کے محاذ پر پاک فوج نے دشمن کے 6 ٹینک تباہ کیے اور دشمن کو بھاری جانی نقصان پہنچایا۔

    پاک فوج نے فاضلکا سیکٹر میں دشمن کے 11 ٹینک، 6 مشین گن اور بہت سا گولہ بارود قبضے میں لیا اور دشمن کی 3 اینٹی ٹینک گنیں تباہ کر دیں، راجستھان سیکٹر میں بھارتی فوج نے داہ میں پیش قدمی کرنے کی کوشش کی، تو پاکستانی فوج نے انھیں مار بھگایا اور دشمن کے بہت سے جنگی ساز و سامان سمیت کچھ علاقہ بھی اپنے قبضہ میں لے لیا۔

    پاک فضائیہ نے سرگودھا میں بھارتی جنگی طیارہ کینبرا اور لاہور میں ایک ہنٹر مار گرایا، پاک فضائیہ نے بھارتی علاقوں آدم پور، ہلواڑہ اور جودھپور کے ہوائی اڈوں اور تنصیبات کو بھی شدید نقصان پہنچایا، پاکستان نیوی بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے اور اپنی سمندری حدود کی حفاظت میں پوری طرح چوکس رہی۔

  • 20 ستمبر: سابق بھارتی وزیر دفاع کا ٹائم میگزین میں بیان ’کشمیر ہاتھ سے نکل جائے گا‘

    20 ستمبر: سابق بھارتی وزیر دفاع کا ٹائم میگزین میں بیان ’کشمیر ہاتھ سے نکل جائے گا‘

    20 ستمبر پاک بھارت جنگ کا وہ دن ہے جب سابق بھارتی وزیر دفاع کا ایک بیان ٹائم میگزین میں شائع ہوا جس میں لکھا تھا کہ ’کشمیر ہاتھ سے نکل جائے گا۔‘

    بھارت کے سابق وزیر دفاع کرشنا مینن کا بیان ٹائم میگزین میں شائع ہوا، جس میں کہا گیا تھا کہ بھارت استصواب رائے کا مخالف ہے، کشمیر اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا، بھارت نے 1949 سے اب تک استصواب رائے پر اقوام متحدہ کے حکم کی 4 مرتبہ خلاف ورزی کی ہے۔

    امریکی ٹائم میگزین میں رپورٹ شائع ہوئی کہ بھارتی فوج پاکستان کی چھوٹی سی تربیت یافتہ فوج کا مقابلہ نہ کر سکی، پاک فضائیہ نے دشمن کو متعدد مرتبہ بھاری نقصان پہنچایا، ٹائم میگزین کے مندوب نے جنگی قیدیوں کے کیمپ کوہاٹ سے بھارتی 6 لائٹ انفنٹری کے حوالدار کے یہ الفاظ درج کیے: ’جب اس کی بٹالین نے سرحد کی طرف کوچ کیا تو اسے کچھ خبر نہ تھی کہ وہ پاکستان کے خلاف کھلی جنگ میں جا رہا ہے۔‘

    جنگی قیدیوں کے کوہاٹ کیمپ سے برطانوی انڈیپنڈنٹ ٹیلی ویژن نے فلم دکھائی جس میں بتایا گیا کہ بھارتی افواج افراتفری کا شکار ہیں اور ان کے حوصلہ بہت پست ہیں، مزید یہ کہ پاکستان کے خلاف جنگ میں بھارتی افواج کے اندر جوش و جذ بہ بالکل ناپید تھا۔

    صدر ایوب نے سلامتی کونسل کی قرارداد کی سخت الفاظ میں مذمت کی، کشمیر میں استصواب رائے کی یقین دہانی کے بغیر فائر بندی کے لیے کہا گیا تھا، پاکستانی افواج نے میدان جنگ میں بھارتی افواج پر اپنی برتری برقرار رکھی، سیالکوٹ جموں سیکٹر میں پاکستانی افواج نے تمام بھارتی مقبوضہ علاقوں پر اپنے حملے جاری رکھے اور دشمن کے 2 ٹینک چلتی ہوئی حالت میں پکڑ لیے گئے۔

    واہگہ اٹاری سیکٹر میں دشمن کے 12 ٹینک تباہ کیے گئے اس طرح بھارت کے کل تباہ شدہ ٹینکوں کی تعداد 494 ہو گئی، راجستھان اور اکھنور سیکٹر میں پاکستانی فوج کی توپوں نے بھارتی توپوں کو خاموش کرا دیا، پاک فضائیہ نے مزید 4 بھارتی جنگی طیارے مار گرائے جس سے دشمن کے تباہ ہونے والے جہازوں کی تعداد 110 ہو گئی۔

    پاک فضائیہ نے بھارت کے ہوائی اڈوں انبالہ، جودھپور، جموں، جام نگر اور ہلواڑہ کے ہوائی اڈوں، تنصیبات کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا، پاکستان نیوی نے بحر ہند میں اپنی برتری برقرار رکھی اور بھارتی نیوی کی نقل و حرکت کو بالکل محدود کر دیا، روئٹرز کے رپورٹر جان چوڈوک کے مطابق لاہور میں بھارت کے 4 جہازوں میں سے ایک کو نشانہ بنایا گیا، بھارت کے جنگی جہاز میں آگ لگ گئی، قلابازیاں کھاتا نیچے آ رہا تھا اور زندہ دلان لاہور اس نظارے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

    لبنان اور سعوی عرب کے علما نے پاکستانی سفیر حامد نواز سے ملاقات کی اور انھیں بھارت کے خلاف پوری مسلم دنیا کی ہمدردی اور تاہید سے آگاہ کیا، دشمن کی جارحانہ کارروائیوں سے جو سرکاری ملازم لا پتا یا شہید ہوئے حکومت نے ان کے خاندانوں کو فوراً مالی امداد فراہم کی۔

  • 11 ستمبر 1965 کو کیا ہوا؟

    11 ستمبر 1965 کو کیا ہوا؟

    11 ستمبر 1965 وہ تاریخی دن ہے جب پاکستانی افواج کے یکے بعد دیگرے کامیاب حملوں سے بھارتی افواج کے سینئر افسران کے قدم ڈگمگا گئے۔

    بھارتی وزیر اعظم شاستری شہریوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے اور اپنی جھوٹی شان برقرار رکھنے کے لیے جنگ سے با عزت فرار چاہتے تھے، جس کے باعث بھارت ناقابل تلافی نقصان کے باوجود جنگ بندی چاہتا تھا۔

    ادھر بھارتی فوج کو ابتدائی حملوں میں شکست دینے کے بعد پاک افواج کے حوصلے اور عزم مزید بلند ہو گئے، جس کی بدولت وہ منظم ہوتے ہوئے ڈٹ کر جوابی کارروائیوں اور حملے کے لیے تیار ہو گئے، پاکستانی افواج کے یکے بعد دیگرے کامیاب حملوں سے بھارتی افواج کے سینئر افسران کے قدم ڈگمگا گئے۔

    بھارتی افواج کے افسران پست حوصلوں کے ساتھ اس کشمش میں مبتلا ہو گئے کہ محض کشمیر کو جواز بنا کر اتنی بڑی جنگ کا مقصد کیا ہے، بھارتی فوج کے سیکنڈ آرمڈ بریگیڈ گروپ، اضافی ٹینک رجمنٹ نے کھیم کرن کے علاقے سے پاکستان کے شہر قصور پر حملہ کیا، پاکستانی افواج نے منہ توڑ جواب دیتے ہوئے بھارتی افواج کو پسپا کرتے ہوئے کھیم کرن پر قبضہ کر لیا۔

    10 ستمبر 1965 کو کیا ہوا؟

    گھمسان کی جنگ کے بعد پاکستان نے بھارتی فوج کو بھاری نقصان پہنچایا، قصور میں پاکستانی فوج نے لاہور کی طرف بھارتی پیش قدمی کو روکا، اور کھیم کرن کو چھڑانے کی بھارتی کوشش کو ناکام بنا دیا، پاکستانی فوج نے لازوال داستان رقم کرتے ہوئے جرات و بہادری کا مظاہرہ کیا اور لاہورکی طرف بھارتی پیش قدمی کو روک دیا۔

    لاہور سیکٹر پر بھارتی فوج ہری کے برکی روڈ پہنچی جس کے بعد ان کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی، سیالکوٹ سیکٹر پر پاک فوج کی جانب سے ٹینکوں سے بڑا حملہ کیا گیا، جس میں 36 بھارتی ٹینک تباہ کر دیے گئے، چھمب سیکٹر پر پاکستانی فوج نے دیوا کے شمال میں موجود بھارتی فوجی چوکی پر قبضہ کر لیا۔

    سندھ راجستھان سیکٹر میں پاکستانی فوج نے مزید کامیابیاں حاصل کیں، پاکستان فوج نے شمال کی طرف برق رفتاری سے پیش قدمی کرتے ہوئے گدرو میں مزید بھارتی چوکیوں پر قبضہ کیا، پاک فضائیہ نے ہلواڑہ کے مقام پر مگ جہازوں کی فارمیشن کو مکمل طور پر تباہ کیا، اور دو مزید بھارتی بمبار جہازوں کو مغربی بنگال باغ ڈوگرہ ایئر بیس پر تباہ کر دیا، دوراکا آپریشن کے بعد پاک بحریہ نے بحیرہ عرب میں اپنی بالا دستی برقرار رکھی۔

  • 2 ستمبر 1965، جنگ کا دوسرا روز

    2 ستمبر 1965، جنگ کا دوسرا روز

    2 ستمبر 1965 وہ تاریخی دن ہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان چھڑنے والی جنگ کا دوسرا روز تھا، جب بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے پاکستان کو جنگ کی دھمکی دی مگر ساتھ ہی اعتراف کیا کہ گزشتہ روز پاکستانی افواج نے 4 بھارتی طیاروں کو مار گرایا، جس پر صدر ایوب خان نے جواب دیا کہ جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا جب کہ پاکستان کشمیریوں سے اپنا وعدہ پورا کرے گا۔

    بھارتی آرمی چیف جنرل جے این چوہدری نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اعلیٰ فوجی افسران سے ملاقات بھی کی، دوسری جانب صدر ایوب نے پاکستانی قوم سے خطاب میں بھارت کو تنبیہہ کی کہ بھارت نے ابتدا ہی سے پاکستان اور کشمیر کے متعلق اپنی پالیسی کی بنیاد نفرت اور دشمنی پر رکھی ہے، جس کے نتیجے میں سنگین صورت حال پیدا ہوگی، جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا، اور پاکستان کشمیریوں سے اپنا وعدہ پورا کرے گا۔

    سردار عبدالقیوم نے بھارت کو خبردار کیا کہ بھارتی افواج اپنی قبر میں اْترآئی ہے، بین الاقوامی مبصرین نے بھارت کی طرف سے فضائی قوت استعمال کرنے پر نہایت افسوس کا اظہار کیا، جی ایچ کیو نے تمام فارمیشنز کو وارننگ آرڈر جاری کر دیے کہ بھارتی افواج کی بڑھتی ہوئی جنگی تیاریوں کے پیشِ نظر وہ 2 ستمبر کی صبح تک کنسنٹریشن (concentration) ایریاز سنبھال لیں۔

    کشمیر کے محاذ پر پاک فوج نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے سونا مرگ کے نزدیک ایک بھارتی پلاٹون کا مکمل صفایا کرتے ہوئے بھارتی افواج کے ٹھکانوں اور تنصیبات پر حملے جاری رکھے، پاکستانی افواج نے چھمب میں مشرق کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے 15 ٹینک قبضے میں لیے اور 150 بھارتی فوجیوں کو جنگی قیدی بنا لیا۔

  • سنہ 1965 کی جنگ کے ہیرو، میجرعزیز بھٹی کا یومِ شہادت

    سنہ 1965 کی جنگ کے ہیرو، میجرعزیز بھٹی کا یومِ شہادت

    سنہ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں مادر ِوطن کے دفاع کی خاطر اگلے مورچوں پر اپنی جان قربان کرنے والے میجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدر کا آج 54 واں یومِ شہادت ہے ۔

    شہید راجہ عزیز بھٹی 6 اگست1923 کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے تھے ، وہ اکیس جنوری 1948 میں پاک فوج میں شامل ہوئے تو انہیں پنجاب رجمنٹ میں کمیشن دیا گیا، انہوں نے بہترین کیڈٹ کے اعزاز کے علاوہ شمشیرِاعزازی و نارمن گولڈ میڈل حاصل کیا اور ترقی کرتے ہوئے انیس سو چھپن میں میجر بن گئے۔

    سن 1965 میں بھارت نے پاکستان کی جانب پیش قدمی کی کوشش کی تو قوم کا یہ مجاہد سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوا، سترہ پنجاب رجمنٹ کے 28 افسروں اور سپاہیوں سمیت عزیز بھٹی شہید نے دشمن کے دانت کھٹے کر دیے۔

    6 ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کر رہے تھے۔ اس کمپنی کے دو پلاٹون بی آر بی نہر کے دوسرے کنارے پر متعین تھے۔ میجر عزیز بھٹی نے نہر کے اگلے کنارے پر متعین پلاٹون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔

    ان حالات میں جب کہ دشمن تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا اور اسے توپ خانے اور ٹینکوں کی پوری پوری امداد حاصل تھی۔ میجر عزیز بھٹی اور ان کے جوانوں نے آہنی عزم کے ساتھ لڑائی جاری رکھی اور اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہے۔

    9 اور 10 ستمبر کی درمیانی رات کو دشمن نے اس سارے سیکٹر میں بھرپور حملے کے لیے اپنی ایک پوری بٹالین جھونک دی۔ میجر عزیز بھٹی کو اس صورت حال میں نہر کے اپنی طرف کے کنارے پر لوٹ آنے کا حکم دیا گیا مگر جب وہ لڑ بھڑ کر راستہ بناتے ہوئے نہر کے کنارے پہنچے تو دشمن اس مقام پر قبضہ کرچکا تھا تو انہوں نے ایک انتہائی سنگین حملے کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کو اس علاقے سے نکال باہر کیا اور پھر اس وقت تک دشمن کی زد میں کھڑے رہے جب تک ان کے تمام جوان اور گاڑیاں نہر کے پار نہ پہنچ گئیں۔

    میجرعزیز بھٹی شہید کی لوحِ مزار

    انہوں نے نہر کے اس کنارے پر کمپنی کو نئے سرے سے دفاع کے لیے منظم کیا۔ دشمن اپنے ہتھیاروں‘ ٹینکوں اور توپوں سے بے پناہ آگ برسا رہا تھا مگر راجا عزیز بھٹی نہ صرف اس کے شدید دباؤ کا سامنا کرتے رہے بلکہ اس کے حملے کا تابڑ توڑ جواب بھی دیتے رہے۔

    میجرراجہ عزیز بھٹی بارہ ستمبر کو صبح کے ساڑھے نو بجے دشمن کی نقل وحرکت کا دوربین سے مشاہدہ کررہے تھے کہ ٹینک کا ایک فولاد ی گولہ ان کے سینے کو چیرتا ہوا پار ہوگیا ، انہوں نے برکی کے محاذ پر جام شہادت نوش کیا۔

    میجرراجہ عزیز بھٹی کی جرات و بہادری پر انہیں نشان حیدر سے نوازا گیا، راجا عزیز بھٹی شہید یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے تیسرے سپوت تھے۔

    راجہ عزیز بھٹی شہید اس عظیم خاندان کے چشم و چراغ تھے کہ جس سے دو اور مشعلیں روشن ہوئیں، ایک نشان حیدر اور نشان جرات پانے والے واحد فوجی محترم میجر شبیرشریف جب کہ دوسرے جنرل راحیل شریف جو سابق آرمی چیف رہ چکے ہیں اور اب 41 ملکوں کے اسلامی اتحاد کی قیادت کررہے ہیں۔