Tag: infect

  • برطانیہ میں رضا کاروں کو کرونا وائرس سے متاثر کیا جائے گا

    برطانیہ میں رضا کاروں کو کرونا وائرس سے متاثر کیا جائے گا

    برطانیہ میں کرونا وائرس کی ایسی تحقیق کی منظوری دے دی گئی ہے جس میں رضا کاروں کو کرونا وائرس سے متاثر کیا جائے گا۔

    اس تحقیق کا خیال سنہ 2020 کی آخری سہ ماہی کے دوران پیش کیا گیا تھا اور اب برطانیہ میں اس ٹرائل کی منظوری دے دی گئی ہے۔

    عام طور پر کسی ویکسین یا علاج کے ٹرائل میں رضا کاروں کو ایک تجرباتی ویکسین یا دوا دی جاتی ہے اور پھر کئی ماہ تک ان کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے کہ وہ قدرتی طریقے سے وائرس سے متاثر ہوتے ہیں یا نہیں۔

    مگر سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کسی ٹرائل میں نئے کورونا وائرس سے متاثر کر کے شامل کرنے سے کئی سال نہیں تو کم از کم کئی ماہ بچائے جاسکتے ہیں، اسے ہیومین چیلنج اسٹڈی کا نام دیا گیا ہے جس میں 18 سے 30 سال کی عمر کے 90 صحت مند افراد کو شامل کیا جائے گا۔

    ان افراد کو ایک محفوظ اور کنٹرول ماحول میں کرونا وائرس سے متاثر کیا گیا ہے۔

    ٹرائل کے ذریعے یہ بھی جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ وائرس کی کتنی مقدار کووڈ 19 کا باعث بن سکتی ہے، جبکہ جسمانی مدافعتی ردعمل کی جانچ پڑتال اور ایک سے دوسرے میں وائرس کی منتقلی کے عمل کا مشاہدہ بھی کیا جائے گا۔

    وائرس سے متاثر کیے جانے کے بعد رضا کاروں کی مانیٹرنگ 24 گھنٹے کی جائے گی۔

    محققین کے مطابق اس مقصد کے لیے وائرس کی وہ قسم استعمال کیا جائے گی جو وبا کے آغاز میں برطانیہ میں گردش کرتی رہی تھی، نئی قسم کو ٹرائل کا حصہ نہیں بنایا جائے گا۔

    انہوں نے توقع کی ہے کہ اس ٹرائل سے ڈاکٹروں کو کووڈ 19 کے بارے میں کافی کچھ معلوم ہوسکے گا، جیسے کس حد تک مدافعتی ردعمل بیماری کے خلاف تحفظ کے لیے درکار ہوتا ہے، جبکہ اس وقت تیار ہونے والی ویکسینز اور طریقہ علاج کو بھی سپورٹ مل سکے گی۔

    اس تحقیق کے لیے برطانوی حکومت کی جانب سے 3 کروڑ 36 لاکھ پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کی جائے گی اور ابتدائی ٹرائل کے بعد اس میں ایسے لوگوں کو شامل کیا جائے گا جن کو وائرس سے بچاؤ کے لیے کووڈ ویکسینز کا استعمال کرایا جاچکا ہے۔

    یہ ٹرائل ایک ماہ کے اندر شروع ہوجائے گا۔

    اس طرح کے ٹرائلز نئے نہیں بلکہ ان کو بیماریوں جیسے ملیریا اور زرد بخار کے بارے میں مزید جاننے کے اہم ٹول کے طور پر استعمال کیا گیا۔

    اس نئی چیلنج تحقیق کی قیادت امپرئیل کالج لندن کے سائنسدان کریں گے اور اس کی قیادت کرنے والے ڈاکٹر کرس چیو نے بتایا کہ ہم 18 سے 30 سال کی عمر کے رضاکاروں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اس تحقیق کا حصہ بن کر وائرس کے بارے میں جاننے میں مدد فراہم کریں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد یہ تعین کرنا ہے کہ کون سی ویکسینز اور طریقہ علاج اس بیماری کو شکست دینے میں زیادہ بہترین ہیں، مگر اس کام کے لیے ہمیں رضا کاروں کی سپورٹ کی ضرورت ہے۔

  • ہوا کے ذریعے کرونا وائرس کا پھیلاؤ، شواہد سامنے آگئے

    ہوا کے ذریعے کرونا وائرس کا پھیلاؤ، شواہد سامنے آگئے

    فلوریڈا : سائنسدانوں نے اس بات کو ثابت کردیا کہ کورونا وائرس صرف چگٓھونے سے نہیں بلکہ ہوا کے ذریعے بھی آپ کے جسم میں داخل ہوسکتا ہے،

    عالمی وبا کے موجودہ حالات میں اس بات پر کافی بحث کی جارہی ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجوہات کیا کیا ہیں اس میں ایک وجہ ہوا کے ذریعے وائرس کا پھیلاؤ بھی ہے، جسے متنازعہ سمجھا جارہا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق فلوریڈا یونیورسٹی کے ایک نئے مطالعے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ہوا میں موجود صرف جینیاتی مواد کے ٹکڑے نہیں ہوتے ہیں بلکہ حقیقت میں یہ متعدی بیماری ہوتی ہے۔

    محققین نے اس سلسلے میں کورنا مریضوں کے اسپتال کے وارڈ میں جمع ہونے والی ہوا کے نمونے لیے اور تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ اپنے بستروں میں پڑے مریضوں سے سات فٹ اور 16 فٹ کے فاصلے پر کرونا وائرس کے ذرات پائے گئے ہیں۔

    محققین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کا ایروسول ٹرانسمیشن اس وقت ہوتا ہے جب مریض کے سانس کی بوندیں چھوٹے چھوٹے ذرات میں ٹوٹ جاتی ہیں اور قریب کھڑا شخص اس کو سانس کے ذریعے اپنے اندر لے سکتا ہے۔

    محققین کے مطابق انہوں نے دو کورونا وائرس مریضوں کے ساتھ اسپتال کے کمرے سے ہوا کے نمونے لئے ، جن میں سے ایک کو فعال انفیکشن تھا، مریضوں سے سات اور 16 فٹ کے فاصلے پر وائرس سے متعدی ذرات پائے گئے، ہوا کے نمونوں میں وائرس کی جینوم تسلسل ایک جیسی تھی۔

    یاد رہے کہ عالمی ادارہ صحت نے تسلیم کیا ہے کہ نیا کورونا وائرس ہوا میں تیرنے والے ڈروپلٹس یا نہایت چھوٹے قطروں کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے۔

    اس سے قبل سائنس دانوں کی جانب سے بار بار کہا جا رہا تھا کہ عالمی ادارہ عام افراد کو اس خطرے سے خبردار کرنے میں ناکام رہا ہے۔ دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کا موقف رہا ہے کہ کووِڈ 19 وبا کو خسرے اور ٹی بی کی طرز کی ہوا سے پھیلنے والی بیماری قرار دینے کے لیے ٹھوس ثبوت درکار ہیں۔