Tag: Infections

  • شدید گرمی میں انفیکشنز سے کیسے بچا جائے؟

    شدید گرمی میں انفیکشنز سے کیسے بچا جائے؟

    کراچی : شہر قائد میں گرمی میں اضافے کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر مختلف انفیکشنز پھیلنے کا خطرہ ہے جس کے پیش نظر ماہرینِ صحت نے محفوظ رہنے کا طریقہ بتا دیا۔

    شدید گرمی اور حبس کے پیشِ نظر ماہرینِ صحت نے شہریوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے اہم تجاویز بھی دیں۔

    ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ گرمی کی شدت کو کم کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ پانی پئیں ، اور بازار کے کھانے اور مشروبات سے پرہیز کریں اور پانی ابال کر پئیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ بلا ضرورت گرمی میں گھر سے باہر نہ نکلیں، اگر جانا ذیادہ ہی ضروری ہو تو ہلکے رنگ کے ڈھیلے کپڑے پہنیں، باہر نکلتے وقت سر کو ڈھانپ لیں۔

    انہوں نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ صبح 11 سے دوپہر 3 بجے تک خود کو دھوپ کی تپش سے محفوظ رکھیں۔
    دن کے گرم اوقات میں گھر کی کھڑکیوں کو بند رکھیں، یاد رکھیں! تمام افراد بالخصوص بچوں اور بزرگوں کو گرمی میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔

    ماہرینِ صحت نے بتایا کہ پانی اور او آر ایس کا استعمال آپ کو اس شدید گرنی سے پیدا ہونے والی جسم میں نمکیات کی کمی سے کافی حد تک بچا سکتا ہے۔

    اس کے علاوہ گرمی میں اگر کوئی شخص تاب نہ لاتے ہوئے بیہوش ہوجائے تو اس کے سر پر ٹھنڈا پانی ڈالیں، متاثرہ شخص کو سایہ دار جگہ پر لے جائیں زیادہ طبیعت بگڑنے کی صورت میں فوری طور پر قریبی اسپتال منتقل کریں۔

  • اب شہد کی مکھیاں کووڈ 19 کی تشخیص کریں گی

    اب شہد کی مکھیاں کووڈ 19 کی تشخیص کریں گی

    کرونا وائرس کے ٹیسٹ کے بعد اس کی تشخیص میں کم از کم 24 گھنٹے کا وقت لگتا ہے لیکن ماہرین نے اس کے لیے نہایت آسان طریقہ دریافت کرلیا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق نیدر لینڈز کے سائنسدانوں نے شہد کی مکھیوں کے ذریعے کووڈ 19 کی تشخیص میں کامیابی حاصل کی ہے۔

    اس مقصد کے لیے سائنسدانوں نے شہد کی مکھیوں کو تربیت فراہم کی جن کی سونگھنے کی حس بہت تیز ہوتی ہے اور نمونوں میں انہوں نے سیکنڈوں میں بیماری کی تشخیص کی۔

    مکھیوں کی تربیت کے لیے نیدر لینڈز کی ویگینگن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے انہیں کووڈ 19 سے متاثر نمونے دکھانے کے بعد میٹھا پانی بطور انعام دیا جبکہ عام نمونوں پر کوئی انعام نہیں دیا گیا۔

    ان مکھیوں کو اس وقت انعام دیا جاتا جب وہ کوئی متاثرہ نمونہ پیش کرتیں۔

    سائنسدانوں نے بتایا کہ ہم نے عام شہد کی مکھیاں حاصل کی تھیں اور مثبت نمونوں کے ساتھ انہیں میٹھا پانی دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ تجربے کی بنیاد تھی کہ مکھیاں وائرس کی تشخیص پر انعام حاصل کرسکیں گی۔

    عوماً کووڈ 19 کے نتیجے کے حصول میں کئی گھنٹے یا دن لگتے ہیں مگر شہد کی مکھیوں کا ردعمل برق رفتار ہوتا ہے۔ یہ طریقہ کار سستا بھی ہے اور سائنسدانون کے مطابق ان ممالک کے لیے کارآمد ہے جن کو ٹیسٹوں کی کمی کا سامنا ہے۔

    اس طرح کا طریقہ کار 1990 کی دہائی میں دھماکہ خیز اور زہریلے مواد کو ڈھونڈنے کے لیے بھی کامیابی سے اپنایا گیا۔

    یاد رہے کہ شہد کی مکھیوں کو ذہین خیال کیا جاتا ہے اور اس سے قبل بھی شہد کی مکھیاں مختلف تجربات میں ذہانت کے مظاہرے پیش کرچکی ہیں۔

  • کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے کیا اس کی دوسری قسم سے بھی متاثر ہوسکتے ہیں؟

    کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے کیا اس کی دوسری قسم سے بھی متاثر ہوسکتے ہیں؟

    کرونا وائرس کے بارے میں عموماً یہ کہا جارہا تھا کہ اس کی ایک قسم سے متاثر ہونے والے دوسری قسم سے متاثر نہیں ہوسکتے، تاہم اب نئی تحقیق نے اس حوالے سے خدشات پیدا کردیے ہیں۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے علم ہوا کہ جن افراد کا مدافعتی نظام کمزور ہے وہ کرونا کی جس پرانی قسم سے پہلے بیمار ہوئے تھے، دوسری بار بھی اس کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    کووڈ 19 سے صحت یاب افراد میں اس بیماری کے خلاف مدافعت کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتی ہے، یہ اب تک واضح نہیں۔

    سائنسدانوں کا خیال تھا کہ ایک فرد کا 2 بار کووڈ 19 کا شکار ہونے کا امکان بہت کم ہوتا ہے اور دوسری بار بیماری کی شدت زیادہ نہیں ہوتی، مگر حالیہ پیشرفت سے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔

    جنوبی افریقہ میں نووا واکس کی تجرباتی ویکسین کے ٹرائل کے دوران دریافت کیا گیا تھا کہ 2 فیصد افراد وہاں دریافت ہونے والی نئی قسم سے متاثر ہوئے ہیں جو اس سے قبل بھی وائرس کی پہلی قسم کا شکار ہوئے تھے۔

    برازیل میں بھی نئی قسم سے دوسری بار بیمار ہونے کے متعدد کیسز کو دریافت کیا گیا ہے۔

    امریکا کے ایشکن اسکول آف میڈیسین کی نئی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 1 فیصد میرین ریکورٹس دوسری بار کووڈ 19 کا شکار ہوئے۔

    اس تحقیق پر کام نئی اقسام کی دریافت سے پہلے مکمل کرلیا گیا تھا اور محققین کا کہنا تھا کہ پہلی بار بیماری کا مطلب یہ نہیں کہ اب آپ اس سے محفوظ ہوگئے ہیں، بلکہ ری انفیکشن کا خطرہ موجود رہتا ہے۔

    دوسری بار کووڈ 19 کے شکار افراد میں اس کی شدت معمولی ہو یا علامات ظاہر نہ ہوں، مگر وہ وائرس کو آگے پھیلا سکتے ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ ماہرین کی جانب سے ویکسی نیشن کو طویل المعیاد حل قرار دیا جارہا ہے جبکہ لوگوں پر فیس ماسک پہننے، سماجی دوری اختیار کرنے اور ہاتھوں کو اکثر دھونے پر زور دیا جارہا ہے۔