Tag: Insulin

  • ذیابیطس کے مریضوں کے لیے یہ اشیاء زہر قاتل ہیں، بُھول کر بھی نہ کھائیں

    ذیابیطس کے مریضوں کے لیے یہ اشیاء زہر قاتل ہیں، بُھول کر بھی نہ کھائیں

    شوگر یا ذیابیطس مرتے دم تک ساتھ رہنے والا مرض ہے جو ہر سال لاکھوں افراد کی جان لے لیتا ہے اور اس کا شکار کسی بھی عمر کا انسان ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ سے دل کے دورے، فالج، نابینا پن، گردے ناکارہ ہونے اور پاؤں اور ٹانگیں کٹنے کا خطرے سے لے کر الزائمر جیسی مہلک بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے۔

    ذیابیطس میں مریض کے جسم میں بلڈ شوگر (گلوکوز) کی سطح زیادہ ہوتی ہے، اس کی دو وجوہات ہوتی ہیں پہلی یہ کہ جسم میں زیادہ انسولین پیدا نہیں ہوتی ہے دوسری وجہ یہ کہ جسم کے خلیے انسولین کو مناسب طریقے سے تیار نہیں کرپاتے۔

    یہ ایک میٹابولک عارضہ ہے جسم میں شوگر لیول بڑھنے کے باعث خون کی شریانیں خراب ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بہت سے اعضاء کو بھی متاثر کرتا ہے، اسے کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ شوگر کے مریضوں کو کھانے پینے کے معاملے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاص طور پر پھلوں میں کیلا آم اور انگور جیسے پھلوں سے اجتناب برتنا چاہیے۔

    اس حوالے سے ماہرین صحت بتاتے ہیں کہ دراصل کیلے، آم اور انگور جیسے پھلوں میں شوگر اور کاربوہائیڈریٹ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ ان پھلوں کو کھانے سے بلڈ شوگر کی سطح تیزی سے بڑھ سکتی ہے۔

    اس کے ساتھ ذیابیطس کے مریضوں کو بھی پھلوں کا صحیح وقت پر استعمال کرنا چاہیے۔ صبح 10سے 11 بجے تک کا وقت پھل کھانے کے لیے اچھا سمجھا جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ رات کو پھل کھانے سے جسم میں پانی کی کمی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    این سی بی آئی کے مطابق کیلے میں کاربوہائیڈریٹ ہوتے ہیں، جو خون میں شکر کی سطح کو بڑھاتے ہیں۔ اگر آپ کو ذیابیطس ہے، تو یہ ضروری ہے کہ آپ اپنی خوراک میں کاربوہائیڈریٹ کی مقدار سے آگاہ رہیں۔

    ایک درمیانے سائز کے کیلے میں 29 گرام کاربوہائیڈریٹ اور 112 کیلوریز ہوتی ہیں۔ کاربوہائیڈریٹ چینی، نشاستہ اور فائبر کی شکل میں ہوتے ہیں۔ ایک درمیانی سائز کے کیلے میں تقریباً 15 گرام چینی ہوتی ہے جو شوگر کے مریض کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ کاربوہائیڈریٹ آپ کے خون میں شکر کی سطح کو دیگر غذائی اجزاء کے مقابلے میں زیادہ بڑھاتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ آپ کے خون میں شکر کی سطح کو بہت زیادہ متاثر کر سکتے ہیں۔

    این سی بی آئی کے مطابق ذیابیطس کے مریض محدود مقدار میں آم کھا سکتے ہیں لیکن انہیں ہوشیار رہنا ہوگا، کیونکہ آم خون میں شوگر کی سطح کو بڑھا سکتا ہے۔ درحقیقت آم میں شوگر کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جو خون میں شوگر کی سطح کو بڑھا سکتی ہے۔ تاہم آم میں فائبر اور اینٹی آکسیڈنٹس بھی ہوتے ہیں جو خون میں شکر کی سطح کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

    اس کے ساتھ ساتھ آم کا گلیسیمک انڈیکس (جی آئی) 51 ہے جو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے کم اور محفوظ سمجھا جاتا ہے لیکن خیال رہے کہ آم کھانے سے پہلے اپنے بلڈ شوگر لیول کو چیک کریں اور اپنے معالج سے مشورہ بھی لازمی لیں۔

  • کون سا گوشت کھانا ذیابیطس کے خطرے کا سبب ہے؟

    کون سا گوشت کھانا ذیابیطس کے خطرے کا سبب ہے؟

    جب ہمارا جسم خون میں موجود شوگر کی مقدار کو جذب کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے تو یہ کیفیت ذیابیطس نامی مرض کو جنم دیتی ہے اس کی دوسری قسم ٹائپ ٹو ذیابیطس ہے جس میں جسم مناسب انسولین پیدا نہیں کرپاتا۔

    ذیابیطس کا شمار دائمی بیماریوں میں کیا جاتا ہے، جو اگر لاحق ہو جائے تو پھر یہ زندگی بھر آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ہر سال تقریباً پندرہ لاکھ لوگ اس بیماری کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔

    یہ بیماری اس وقت لاحق ہوتی ہے جب جسم گلوکوز (شکر) کو حل کر کے خون میں شامل نہیں کر پاتا، جس کی وجہ سے فالج، دل کے دورے، نابینا پن اور گردے ناکارے ہونے سمیت مختلف بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

    اس حوالے سے ایک نئی تحقیق میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پروسیس شدہ اور سرخ گوشت کھانے سے ٹائپ ٹو ذیابیطس کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

    sugar

    انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسروں نے 20 ممالک میں 31 مطالعات کے 1.97 ملین لوگوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جن میں 18 غیر شائع شدہ مطالعات بھی شامل تھے۔ محققین نے شرکاء کی عمر، جنس، صحت سے متعلق عادات، توانائی کی مقدار اور جسمانی حجم کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیق کی۔

    اس تحقیق میں محققین نے پایا کہ روزانہ 50 گرام پروسیس شدہ گوشت کھانے سے اگلے دس سالوں میں ٹائپ 2 ذیابیطس کا 15 فیصد سے زیادہ خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ جبکہ روزانہ 100 گرام غیر پروسیس شدہ سرخ گوشت (جیسے کہ ایک چھوٹا اسٹیک) کے ساتھ یہ خطرہ 10 فیصد زیادہ تھا، اسی طرح 100 گرام مرغی کے روزانہ استعمال کے ساتھ یہ خطرہ 8 فیصدزیادہ تھا۔

    تحقیق کی سینئر مصنف نِتا فوروہی، جو کیمبرج یونیورسٹی میں میڈیکل ریسرچ کونسل ایپیڈیمولوجی یونٹ سے وابستہ ہیں، کا کہنا ہے کہ ہماری تحقیق پروسیس شدہ اور غیر پروسیس شدہ سرخ گوشت کھانے اور ٹائپ 2 ذیابیطس کے بڑھتے ہوئے خطرے کے درمیان سب سے جامع ثبوت فراہم کرتی ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ یہ تحقیق پروسیس شدہ گوشت اور غیر پروسیس شدہ سرخ گوشت کی مقدار کو کم کرنے کی حمایت کرتی ہے تاکہ ٹائپ 2 ذیابیطس کے کیسز کو کم کیا جا سکے۔

    فوروہی نے کہا کہ مرغی کے استعمال اور ٹائپ 2 ذیابیطس کے درمیان تعلق ابھی تک غیر یقینی ہے اور اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    ٹائپ 2 ذیابیطس اس وقت ہوتا ہے جب جسم مناسب مقدار میں انسولین پیدا نہیں کرتا یا انسولین کو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرتا۔ امریکا میں 38 ملین سے زیادہ افراد تقریباً 10 میں سے 1 فرد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے، جو ملک میں موت کی آٹھویں سب سے بڑی وجہ ہے۔

    پہلے کی جانے والی تحقیق کے مطابق روزانہ ایک سے زیادہ بار سرخ گوشت کا استعمال ٹائپ 2 ذیابیطس کے 62 فیصد سے زیادہ خطرے میں اضافہ کر سکتا ہے۔

    تاہم امریکا کے محکمہ زراعت نے روزانہ گوشت، مرغی اور انڈے کی کھپت کو 4 اونس تک محدود کرنے کی تجویز دی ہے کہ پروسیس شدہ گوشت کو ہفتے میں ایک بار سے زیادہ نہیں کھانا چاہیے۔

  • چربی اورپروٹین کاربوہائیڈریٹ سے زیادہ انسولین پیدا کرتے ہیں

    چربی اورپروٹین کاربوہائیڈریٹ سے زیادہ انسولین پیدا کرتے ہیں

    انسولین، قدرتی طور پر پیدا ہونے والا ہارمون ہے جو ایک صحت مند جسم، گلوکوز میں موجود توانائی کو خلیوں اور پٹھوں کو مہیا کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

    امراض میں مبتلا کچھ لوگ انسولین کے استعمال کو اپنی صحت کی انتہا درجے کی خرابی سے جوڑتے ہیں اور اسے اپنی بیماری کا آخری حل سمجھتے ہیں۔

    گزشتہ دنوں کی گئی ایک تحقیق میں یہ حیرت انگیز بات سامنے آئی ہے کہ کچھ لوگ کاربوہائیڈریٹ کے مقابلے میں پروٹین اور چربی کے جواب میں زیادہ انسولین پیدا کرتے ہیں۔

    Protein

    یہ اسٹڈی ویب سائٹ ’’ نیو اٹلس‘‘ نے جریدے ’’ سیل میٹابولزم‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے شائع کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ ایک ایسی دریافت ہے جو ہر حالت میں ایک مخصوص خوراک کے ذریعے انفرادی طور پر علاج کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔

    تحقیقی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسولین کی پیداوار ایک شخص سے دوسرے میں ابتدائی سوچ کے مقابلے میں زیادہ مختلف ہوتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق جیسے ہی کھانا ہضم ہوتا ہے اور غذائی اجزا جاری ہوتے ہیں تو لبلبہ کے خلیے انسولین کو خارج کرتے ہیں تاکہ خون میں شکر کو توانائی کے طور پر استعمال کرنے کے لیے جسم کے خلیات میں دھکیل سکیں۔

    انسولین کے اخراج کا بنیادی محرک گلوکوز ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کاربوہائیڈریٹ ٹوٹ جاتے ہیں لیکن پروٹین اور فیٹس جیسے میکرونٹرینٹس کی دوسری بڑی کلاسوں کا انسولین کی پیداوار پر جو اثر ہو سکتا ہے وہ نسبتاً غیر دریافت ہے۔

    کینیڈا میں یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے محققین نے اس حوالے سے پہلا بڑے پیمانے پر مطالعہ کیا۔

    اس میں اس بات کا موازنہ کیا گیا کہ کس طرح مختلف لوگ تینوں میکرو نیوٹرینٹس میں سے ہر ایک کے جواب میں انسولین تیار کرتے ہیں۔ اسٹڈی میں دریافت کیا گیا کہ کچھ لوگوں کے لیے پروٹین اور چکنائی گلوکوز سے زیادہ مضبوط اثر رکھتی ہے۔

    یہ مطالعہ واقعی اس مفروضے کی توثیق کرتا ہے کہ زیادہ پروٹین والی غذا ٹائپ 2 ذیابیطس کے لیے علاج کے فوائد رکھتی ہے اور پروٹین سے محرک یافتہ انسولین کے اخراج پر مزید تحقیق کی ضرورت پر روشنی ڈالتا ہے۔

  • ماہ رمضان میں ذیابیطس کیسے کنٹرول کی جائے ؟

    ماہ رمضان میں ذیابیطس کیسے کنٹرول کی جائے ؟

    ہر سال کی طرح ماہ رمضان کی آمد کا انتظار اس بار بھی مذہبی جوش جذبے کے تحت کیا جارہا ہے تاکہ فرزندان توحید اپنے روزے اور عبادات رب کے حضور پیش کرسکیں۔

    اس مبارک مہینے میں ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ مکمل روزے رکھے تاہم ذیابیطس کے مریض اس سلسلے میں پریشانی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کو رمضان میں اضافی احتیاط برتنی چاہیے اور اپنے خون میں شوگر کی سطح کو کنٹرول کرنے کے لیے مناسب خوراک لینی چاہیے ورنہ ان کی شوگر کا لیول کبھی ہائی تو کبھی لو رہتا ہے۔

    ذیابیطس کے ماہر معالج اپنے تجربے کے پیش نظر بتاتے ہیں کہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی سب ذیادہ جس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ذیابیطس کے مریض روزے رکھ سکتے ہیں؟

    اگر آپ بھی اس سوال کا جواب جاننا چاہتا ہے تو یہ مضمبون آپ کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

    معالجین کا کہنا ہے ذیابیطس میں جسم میں شوگر کی مقدار زیادہ یا کم ہو جاتی ہے، یہ ایسا مرض ہے جسے ختم تو نہیں کیا جاسکتا البتہ کنٹرول ضرور کیا جاسکتا ہے اور اسے قابو کرنے کے لیے ادویات کا سہارا لیا جاتا ہے،عمومی طور پر ان دواؤں کا ساتھ ساری عمر کے لیے ہوتا ہے۔

    ذیابیطس کے شکار افراد کی بڑی تعداد اپنے ڈاکٹر کی نصیحت کے برعکس رمضان میں روزہ رکھتی ہے جبکہ ایسے افراد کے لیے انتہائی اہم ہے کہ وہ اپنی بیماری کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری اقدامات کریں تاکہ جتنا محفوظ ممکن ہوسکے روزہ رکھ سکیں۔

    ذیابیطس کے مریض اپنے معالج کے مشورے، شوگر لیول کی مسلسل نگرانی اور دواؤں کی مقدار میں معمولی ردّوبدل کے بعد روزہ رکھ سکتے ہیں تاہم کچھ ضروری معلومات کا جان لینا نہایت ضروری ہے۔

    کیا ذیابیطس کے مریض روزہ رکھ سکتے ہیں؟

    ایسے مریض جو انسولین پر نہ ہوں اور ذیابیطس نے ابھی ان کے دیگر اہم جسم اعضاء کو نقصان نہ پہنچایا ہو، معمولی احتیاط اور دواؤں کی مقدار میں معمولی رددوبدل کے بعد روزہ رکھ سکتے ہیں۔

    تاہم ایسے مریض جو انسولین پر ہوں اورذیابیطس نے اُن کے کسی اہم جسمانی اعضاء کو بھی نقصان پہنچایا ہو تو ایسے مریض معالج کی خصوصی نگرانی، شوگر لیول کی سختی سے جانچ پڑتال اور انسولین کے یونٹس میں رددوبدل کے ساتھ روزہ رکھ سکتے ہیں۔

    ایک عام غلطی

    زیابیطس کے مریض رمضان کے مہینے میں اپنی دواؤں کے وقت اور مقدار میں ایک سنگین غلطی کرتے ہیں جس کے باعث روزے کے دوران شوگر لیول خطرناک حد تک کم ہونے کا خدشہ لگا رہتا ہے۔

    عمومی طور پر شوگر کم کرنے والی دواؤں کی زیادہ مقدار ناشتے سے قبل لی جاتی ہے کیوں کہ اس کے بعد صبح کا ناشتہ، دوپہر کا کھانا شام کی چائے اور رات کا کھان کھانا ہوتا ہے جب کہ رات کے کھانے سے قبل دوا کی کم مقدار لی جاتی ہے کیوں کہ اس کے بعد صرف رات کا کھانا ہوتا ہے اور سونے کے دوران شوگر ویسے ہی کم ہوتی ہے۔

    رمضان میں مریض یہ غلطی کرتے ہیں کہ ناشتے سے قبل والی دوا کی مقدار سحری میں اور رات والی دوا کی مقدار افطاری میں لے لیتے ہیں اور یوں لو شوگر لیول کا شکار ہو جاتے ہیں۔

    روزہ کے دوران دوا کی ترتیب

    انسولین یا گولیوں کی وہ مقدار جو عام دنوں میں ناشتے سے قبل لی جاتی ہو وہ رمضان میں افطار کے وقت لی جائے اور جو مقدار عام دنوں میں رات کے کھانے سے قبل لی جاتی ہے وہ سحری کے اوقات میں لے لی جائے تو شوگر لیول کم ہونے کے خدشات نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔

  • ایک غلط ٹویٹ نے انسولین کی ہوشربا قیمت پر بحث کو جنم دے دیا

    ایک غلط ٹویٹ نے انسولین کی ہوشربا قیمت پر بحث کو جنم دے دیا

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جعلی اکاؤنٹس کو بلیو ٹک مارک جاری ہونے کے بعد ایک جعلی اکاؤنٹ نے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے انسولین کے حوالے سے غلط ٹویٹ کیا، اور اس ٹویٹ نے انسولین کی ہوشربا قیمتوں پر بحث کو جنم دے دیا۔

    اردو نیوز کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جعلی اکاؤنٹس کو بلیو ٹک مارک جاری ہونے سے نہ صرف امریکی دوا ساز کمپنی کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا، بلکہ اس کے ساتھ ہی انسولین کی زیادہ قیمت کی جانچ پڑتال بھی شروع ہوگئی۔

    ٹویٹر کی جانب سے بلیو ٹک مارک حاصل کرنے کے لیے 8 ڈالر کی سبسکرپشن کے آغاز اور تصدیق شدہ جعلی اکاؤنٹس کے بے تحاشہ اضافے کے بعد امریکی دوا ساز کمپنی ایلی للی کے حصص کی قیمت انتہائی کم ہوگئی۔

    کمپنی ایلی للی کے تصدیق شدہ جعلی اکاؤنٹ سے غلط معلومات پر مبنی ایک ٹویٹ کی گئی جس میں کہا گیا کہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے استعمال ہونے والی انسولین مفت فراہم ہوگی۔

    اس ٹویٹ کے بعد کمپنی نے صارفین سے معافی مانگتے ہوئے وضاحتی بیان جاری کیا کہ گمراہ کن پیغام للی کے جعلی اکاؤنٹ سے جاری ہوا تھا، لیکن جعلی اکاؤنٹ سے ہونے والی اس غلط ٹویٹ نے انسولین کی اضافی قیمتوں سے متعلق ایک اور بحث کو جنم دیا ہے۔

    قاسم رشید نامی امریکی وکیل نے ٹویٹ کی کہ کمپنی کو اصل میں جان بچانے والی انسولین کی قیمت زیادہ کرنے پر معافی مانگنی چاہیئے۔

    پبلک سٹیزن نامی سماجی تنظیم سے منسلک پیٹر میبردوک نے کہا کہ ایلی للی کے اصلی اکاؤنٹ کے بجائے نقلی اکاؤنٹ سے جاری ہونے والی معلومات شاید حقیقت کے قریب ترین ہیں۔

    امریکا میں گزشتہ دہائیوں کے دوران انسولین کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، جبکہ 32 زیادہ آمدنی والے ممالک کے مقابلے میں انسولین کی قیمت امریکا میں 8 گنا زیادہ ہے۔

    اکتوبر میں جاری ہونے والے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ذیابیطس کا شکار ہر چار جواب دہندگان میں سے ایک ایسا تھا جسے مالی مشکلات کے باعث انسولین کے استعمال میں وقفہ دینا پڑتا ہے۔

    14 نومبر کو ذیابیطس کے عالمی دن کے موقع پر سماجی تنظیم پبلک سٹیزن نے امریکی کانگریس کو ایک خط بھی لکھا جس میں انسولین کی قیمت کم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

    ادویات کی قیمتوں پر نظر رکھنے والے پیٹر میبردوک کا کہنا ہے کہ بہت عرصے سے اس کی اشد ضرورت تھی کہ انسولین سب کو فراہم کی جائے اور یقیناً یہ مفت ہونی چاہیئے۔

    جعلی اکاؤنٹ سے غلط معلومات پھیلنے کے بعد ایلی للی نے ٹویٹر کے نمائندوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی کہ اکاؤنٹ کو ہٹایا جائے تاہم کئی گھنٹوں تک ٹوئٹر سے رابطہ ہی نہیں ہو سکا۔

    جمعے کو ایلی للی نے احکامات جاری کیے کہ ٹویٹر پر کوئی اشتہارات نہ لگائے جائیں۔

    اس کے علاوہ دفاعی ساز و سامان بنانے والی بڑی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن سمیت دیگر کے تصدیق شدہ نقلی ٹویٹر اکاؤنٹس بننے کے بعد کمپنیوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، جمعے کو ٹویٹر نے تصدیق شدہ اکاؤنٹس کو بلیو ٹک مارک جاری کرنے کے لیے 8 ڈالر کا سبسکریشن پلان عارضی طور پر روک دیا تھا۔

  • سست طرز زندگی اور زیادہ میٹھا کھانے والے مردوں کے خون میں تشویشناک تبدیلی کا انکشاف

    سست طرز زندگی اور زیادہ میٹھا کھانے والے مردوں کے خون میں تشویشناک تبدیلی کا انکشاف

    میسوری: امریکی یونیورسٹی آف میسوری اسکول آف میڈیسن کی حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ طرز زندگی میں مختصر مدت کی تبدیلیاں خون کی نالیوں میں انسولین کی حساسیت کو متاثر کر سکتی ہیں۔

    یہ پہلا انسانی مطالعہ جس نے یہ نکتہ دریافت کیا ہے، یہ تحقیق سائنسی جریدے ’اینڈوکرائنولوجی‘ میں شائع ہوئی ہے، اس مطالعے میں کہا ہے کہ طرز زندگی میں چھوٹی تبدیلیاں انسولین کی حساسیت کو متاثر کرسکتی ہیں۔

    تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ تبدیلیاں مردوں اور عورتوں کو مختلف طریقے سے متاثر کرتی ہیں۔

    محققین کا کہنا ہے کہ موٹاپے اور ٹائپ 2 ذیابیطس میں خون کی نالیوں میں انسولین کی مزاحمت ہوتی ہے، جس سے ویسکولر (خون کی نالیوں) کا مرض لاحق ہوتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے محققین نے 36 نوجوان اور صحت مند مرد اور خواتین کے خون کی نالیوں میں انسولین کی مزاحمت کی جانچ کی، اس کے لیے انھوں نے ان خواتین و حضرات سے 10 دن تک کم سے کم جسمانی سرگرمی کروائی۔ محققین نے ان کے قدموں کی تعداد کو روزانہ 10,000 سے 5,000 تک کم کر دیا۔ تمام شرکا نے اپنے میٹھے مشروبات کی مقدار میں تقریبا 6 کین تک سوڈا کا اضافہ بھی کیا۔

    ایسوسی ایٹ پروفیسر آف میڈیسن کمیلا مینرک نے کہا کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ انسولین کی مزاحمت اور قلبی امراض کے کیسز مردوں کے مقابلے میں خواتین میں (سن یاس سے قبل) کم ہوتے ہیں، لیکن ہم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اگر کچھ وقت کے لیے جسمانی سرگرمی کم کر دی جائے اور خوراک میں میٹھا بڑھا دیا جائے تو ایسی صورت میں ان پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ صرف مردوں میں کاہلی والے طرز زندگی اور شوگر کی زیادہ مقدار کی وجہ سے ان کی ٹانگوں میں انسولین سے چلنے والے خون کے بہاؤ میں کمی واقع ہوئی، اور ایڈروپن نامی پروٹین میں بھی کمی آ گئی، یہ پروٹین انسولین کی حساسیت کو کنٹرول کرتا ہے اور قلبی امراض کے لیے ایک اہم بائیو مارکر ہے۔

    ان نتائج سے یہ نشان دہی ہوتی ہے کہ شوگر کی زیادہ مقدار لینے اور ورزش کم کرنے سے خون کی نالیوں میں انسولین کے خلاف جو مزاحمت پیدا ہوتی ہے، اس کا جنس سے گہرا تعلق ہے، یعنی مردوں اور خواتین میں اس سلسلے میں فرق پایا جاتا ہے۔

    پروفیسر مینرک نے کہا کہ ہمارے علم کے مطابق یہ انسانوں میں پہلا ثبوت ہے کہ خون کی نالیوں میں انسولین کے خلاف مزاحمت کو مختصر مدت کی منفی طرز زندگی کی تبدیلیوں سے پیدا کیا جا سکتا ہے۔

    انھوں نے کہا یہ ایڈروپن کی سطحات میں تبدیلیوں کے ساتھ خون کی نالیوں میں انسولین کی مزاحمت پیدا ہونے کے سلسلے میں جنسی فرق کی پہلی دستاویز ہے۔

  • دوا کے بغیر ‘شوگر’ کا علاج، طبی سائنس میں انقلاب برپا ہوگیا

    دوا کے بغیر ‘شوگر’ کا علاج، طبی سائنس میں انقلاب برپا ہوگیا

    ذیابیطس کا مرض جسے عرف عام میں شوگر کہا جاتا ہے، روز بروز بڑھنے والا ایسا مرض ہے جو لوگوں کی بڑی تعداد کو مسلسل اپنے شکنجے میں جکڑ رہا ہے تاہم اب طبی ماہرین نے ‘ خاموش قاتل’ مرض میں مبتلا افراد کو بڑی نوید سنادی ہے۔

    نیچر بایومیڈیکل انجنیئرنگ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق مشہورِ زمانہ ییل اسکول آف میڈیسن کے سائنسدانوں نے الٹراساؤنڈ کو تین مختلف ماڈلوں پر آزمایا، انہوں نے جسم میں اس طبی عمل کو الٹراساؤنڈ سے تحریک دی ہے جو ایک ہی وقت میں ذیابیطس لانے اور اسے پلٹانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    سائنسدانوں نے الٹراساؤنڈ موجوں کے گلوکوز حساسیت (سینسٹی ویٹی) پر تجربات کئے ہیں۔

    اس طرح بے ضرر صوتی امواج کی بدولت خون میں شکر کی مقدار کم کی جاسکے گی اور اس کے لیے کسی انسولین کی ضرورت نہ ہوگی، یہ بالکل نیا طریقہ علاج ہے جسے الٹراساؤنڈ نیوروماڈیولیشن کا نام دیا گیا ہے۔

    اگرچہ پہلی آزمائش ذبایطس کے شکار چوہوں پر کی گئی ہے لیکن سال کے آخر تک اسے انسانوں پر بھی آزمایا جاسکے گا۔ ماہرین اس تجربے کو ٹائپ ٹو ذیابیطس کے علاج میں ایک اہم پیشرفت کہہ رہے ہیں۔

    اسے شوگر کے مرض میں مبتلا افراد کے لئے نئی جہت قرار دیا جارہا ہے، اب اگلے مرحلے میں اسے انسانوں پر آزمایا جائے گا، اس طرح ذیاییطس کے وار کو پلٹانا ممکن ہوسکے گا اور انسانیت اس موذی مرض سے چھٹکارا پاسکے گی۔

  • منہ میں اسٹیکر لگائیں، انسولین انجیکشن سے نجات پائیں

    منہ میں اسٹیکر لگائیں، انسولین انجیکشن سے نجات پائیں

    پیرس: طبی سائنس دانوں نے ایک ایسا اسٹیکر بنا لیا ہے جس میں انسولین موجود ہوتی ہے، اور جسے گال کے اندر والے حصے میں لگا کر آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

    فرانس کی یونیورسٹی آف لیلے کی پروفیسر سبینے زیونیرائٹس اور دیگر ممالک کے محققین نے گال کے اندر چپکائے جانے والے تجرباتی انسولین اسٹیکر بنا لیے ہیں، جنھیں منہ کے اندر چپکانے سے انسولین کی مناسب مقدار جسم میں شامل ہو جاتی ہے، ان اسٹیکرز میں بار بار انسولین دوا شامل کی جا سکتی ہے۔

    سب ہی جانتے ہیں کہ انسولین کی ڈوز ٹیکوں یا پمپ سے جسم میں داخل کی جاتی ہے، لیکن اب محققین کا تیار کردہ تجرباتی پیوند گال کے اندر چپک کر خون میں انسولین داخل کر سکتا ہے۔

    محققین کے مطابق یہ نرم اسٹیکر 3 اشیا پر مشتمل ہے، اسے پولی ایکریلک ایسڈ نامی پالیمر کے نینو فائبر سے بنایا گیا، پھر اس میں بی ٹا سائیکلو ڈیکسٹرن مالیکیول ملایا گیا، اور آخر میں گرافین آکسائیڈ کی کچھ مقدار شامل کی گئی۔

    اسٹیکر بنائے جانے کے بعد اگلا مرحلہ اس میں دوا شامل کرنے کا ہے، اس کے چھوٹے ٹکڑوں کو انسولین محلول میں 3 گھنٹوں تک ڈبویا گیا، اس کے بعد انھیں خنزیروں کے گال کے اندر موجود کھال کی تہوں پر لگایا گیا، اور پھر انفراریڈ لیزر سے انھیں پچاس درجے سینٹی گریڈ تک 10 منٹ تک گرم کیا گیا۔

    دس منٹ تک گرم کرنے پر اس پیوند سے انسولین کا اخراج ہونے لگتا ہے، اور جلد کے اندر دوا جذب ہو جاتی ہے۔

    سائنس دانوں نے ذیابیطس میں مبتلا جانوروں پر اس کا تجربہ کیا، ہر جانور کو دس منٹ تک پیوند لگایا گیا، ریسرچرز نے دیکھا کہ فوری طور پر ان کے خون میں شکر کی مقدار کم ہونے لگی ہے، اور صرف 20 منٹ میں انسولین کی پوری ڈوز جسم کے اندر پہنچ گئی۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ گال کے اندر لگائے جانے والے اسٹیکر سے جلد پر کوئی خراش یا منفی اثر نہیں ہوا، یہ پیوند 6 انسانوں کو بھی 2 گھنٹوں تک لگائے گئے اور ان کے اندر بھی کوئی منفی اثر نہ ہوا۔

  • شوگر (ذیابیطس) کیا ہے؟  اس پر کیسے قابو پایا جائے؟

    شوگر (ذیابیطس) کیا ہے؟ اس پر کیسے قابو پایا جائے؟

    شوگر جسے اردو میں ذیابیطس کہا جاتا ہے یہ ایک ایسا خاموش قاتل مرض ہے جو ایک بار جسم میں داخل ہو جائے تو اس پر قابو پانے کیلئے بے شمار جتن کرنا پڑتے ہیں۔

    شوگر کا مرض انسان کو تب لاحق ہوتا ہے جب جسم میں انسولین مناسب مقدار میں پیدا نہیں ہوتی یا کام نہیں کرتی جس کی وجہ سے شکر ہمارے خون میں جمع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

    ذیابیطس تاحیات ساتھ رہنے والا ایسا مرض ہے جو دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں افراد کی ہلاکت کا سبب بنتا ہے اور یہ مرض کسی کو بھی لاحق ہوسکتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں پروفیسر آف میڈیسن ڈاکٹر محمد شاہد نے کہا کہ ایسا نہیں کہ صرف انسولین کی کمی ہی ذیابیطس کا سبب ہے بلکہ ڈپریشن موٹاپا۔ جنیاتی تبدیلی یا اسٹرییس اب سب کے ہونے پر بھی شوگر کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔

    یہ بیماری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جسم اپنے اندر موجود شکر (گلوکوز) کو حل کر کے خون میں شامل نہیں کر پاتا اس کی پیچیدگی کی وجہ سے دل کے دورے، فالج، نابینا پن، گردے ناکارہ ہونے اور پاؤں اور ٹانگیں کٹنے کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ذیابیطس کی دو بڑی اقسام ہیں پہلی ٹائپ ون اور دوسری ٹائپ ٹو۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس کی سب سے عام قسم ہے۔ ٹائپ 2 ذیابیطس تب ہوتی ہے جب انسانی جسم کُچھ انسولین تو بناتا ہے پروہ ناکافی ہوتی ہے یا جب خُلیات بنی ہوئی انسولین سے زیادہ مزاحمت کرجاتے ہیں۔

    ڈاکٹر شاہد نے بتایا کہ شوگر پر قابو پانے کیلئے ورزش اور ڈائٹ بہت ضروری ہے، جسمانی ورزش خون میں شوگر کے تناسب کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے، ہفتے میں کم از کم ڈھائی گھنٹے تیز چہل قدمی یا سیڑھیاں چڑھنا مفید ہے۔

    زیادہ تر لوگوں میں بیماری کی تشخیص اچانک ہوتی ہے اگر ذیابیطس کی بروقت تشخیص نہ ہو یا مناسب علاج نہ کروایا جائے تو نتیجتاً جسم کو ایسا نقصان ہو سکتا ہے جو کبھی ٹھیک نہیں ہوتا۔

    ذیابیطس کا اب تک پوری دُنیا میں کوئی مکمل علاج دریافت نہیں ہو سکا مگر بیماری کی بروقت تشخیص سے مرض کی پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔

  • پاکستان نے انسولین یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کر دیا

    پاکستان نے انسولین یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کر دیا

    اسلام آباد: پاکستان نے انسولین کی دریافت کے سو سال پورے ہونے پر ڈاک ٹکٹ جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز نے انسولین دریافت کی 100 ویں سال گرہ پر یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کر دیا ہے۔

    وزارت صحت کا کہنا ہے کہ یہ ڈاک ٹکٹ وزارت صحت، مواصلات اور پاکستان پوسٹ نے مشترکہ طور پر جاری کیا ہے، ڈاک ٹکٹ میں بینٹنگ اور چارلس کی تصاویر شامل ہیں۔

    وزارت صحت کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کے بارے میں مناسب آگاہی نہیں ہے، یادگاری ڈاک ٹکٹ عوام میں شعور اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

    واضح رہے کہ انسولین کی دریافت اہم ترین طبی پیش رفت میں سے ایک ہے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 2019 میں 463 ملین افراد ذیابیطس میں مبتلا تھے، اور 2030 تک یہ تعداد 578 ملین تک پہنچ جائے گی۔

    ذیابیطس کے شکار افراد کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے، پاکستان میں 4 افراد میں سے 1 فرد ذیابیطس میں مبتلا ہے، بہت سے افراد ذیابیطس کی تشخیص کے وقت پہلے ہی پیچیدگیوں کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں۔

    وزارت صحت کے مطابق ذیابیطس کے شکار افراد کی تعداد تشویش ناک شرح سے بڑھتی جا رہی ہے، ذیابیطس کے باعث خاندان اور معاشروں پر بوجھ پڑتا ہے۔