Tag: Interesting facts

  • ماضی بعید کی 6 گمشدہ تہذیبیں اور دلچسپ حقائق

    ماضی بعید کی 6 گمشدہ تہذیبیں اور دلچسپ حقائق

    بنی نوع انسان کی تاریخ تہذیبوں سے عبارت ہے، جب تہذیب کی ابتداء ہوتی ہے تو انسانی ذہن اِس کو اپنے عروج پر لے جاتا ہے اور پھر بالآخر تہذیب زوال کا شکار ہو کر اپنی نشانیاں چھوڑ جاتی ہے۔

    قدیم اور گمشدہ تہذیبوں کے بارے میں ہماری معلومات کا انحصار اُس کی تعمیر شدہ اور چھوڑی ہوئی عمارتوں کے کھنڈرات  پر ہوتا ہے۔

    محکمہ آثارِ قدیمہ مٹی میں مدفون گمشدہ تہذیبوں کو ڈھونڈ کر باہر نکالتی ہے اور اُن سے مِلنے والی اشیاء کی مدد سے اُن کی کھوئی ہوئی زندگی کو بحال کرتی ہے۔

    معلومات کا دوسرا ماخذ تحریر ہوتی ہے لیکن قدیم تحریروں کو دریافت کرنے اور پڑھنے میں طویل عرصہ چاہیے ہوتا ہے۔

    وادی سندھ کی بات کی جائے تو اس کی تہذیب کا رسم الخط تو تھا مگر اُسے دریافت نہیں کیا جا سکا۔ اس لیے ہماری معلومات کا انحصار صرف آثارِ قدیمہ پر ہے۔

    اسی طرح تاریخِ انسانی میں دیگر عظیم اور گمشدہ تہذیبیں قائم ہوئیں، پروان چڑھیں اور پھر زوال پذیر ہوکر قصہ پارینہ بن گئیں۔

    ان میں سے کئی کا ذکر مؤرخین نے تفصیل سے کیا اور بعد کی تہذیبوں نے ان کے عروج و زوال کے نشانات محفوظ کیے لیکن کچھ گمشدہ تہذیبیں اچانک غائب ہوگئیں۔

    کچھ تہذیبوں نے اپنی تباہی کے اسباب کے اشارے چھوڑے جبکہ دیگر کی گمشدگی تاحال ایک پوشیدہ راز بنی ہوئی ہے جس کو جاننے کیلیے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔

    زیر نظر مضمون میں کچھ ایسی ہی 6 پراسرار اور گمشدہ تہذیبوں کا ذکر کیا گیا ہے جن بارے میں جان آپ پر بھی حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے۔

    مایا تہذیب

    maya

    مایا تہذیب اپنے عروج پر یوکاٹن جزیرہ نما، موجودہ گوئٹے مالا، بیلیز اور میکسیکو کے حصوں میں پھیلی ہوئی تھی اور اپنی حیرت انگیز مہارتوں اور پیچیدہ ریاضیاتی نظام کے لیے مشہور تھی۔

    900عیسوی کے قریب یہ تہذیب اچانک زوال پذیر ہوگئی۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ تہذیب جنگوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہوئی، جس کی وجہ سے قحط پڑا اور بڑے شہروں سے نقل مکانی ہوئی۔ دیہی علاقوں میں وسائل کی کمیابی نے بھی انحطاط میں کردار ادا کیا ہوگا۔

    خمیر ایمپائر کی تہذیب

    Khmer empire

    دنیا کے دوسری طرف خمیر ایمپائر نے موجودہ کمبوڈیا کے علاقے میں ایک مضبوط بنیاد رکھی تھی۔ انگکور اس تہذیب کا ایک عظیم شہر تھا، جس کے پیچیدہ سڑکوں اور نہری نظام کی تعمیر نے حیرت انگیز ترقی کو ظاہر کیا۔

    خمیر ایمپائر کا عروج 1000 سے 1200 عیسوی کے درمیان تھا لیکن یہ اچانک ختم ہوگئی۔ ماہرین کے مطابق اس کے زوال کی وجوہات جنگ سے لے کر ماحولیاتی تباہیوں تک کچھ بھی ہوسکتی ہیں۔

    ہڑپّہ : وادیِ سندھ کی تہذیب

    Indus civilization

    وادیِ سندھ یا ہڑپہ تہذیب قدیم دنیا کی سب سے بڑی تہذیبوں میں سے ایک تھی، جو موجودہ ہندوستان، پاکستان اور افغانستان کے کچھ علاقوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے عروج پر پانچ ملین کی آبادی اور شاندار تعمیرات موجود تھیں۔

    یہ تہذیب تقریباً 3000 سال قبل نامعلوم وجوہات کی بنا پر ختم ہوگئی، ایک مفروضے کے مطابق، موسمیاتی تبدیلیاں، خشک سالی اور قحط اس کے زوال کی وجوہات ہوسکتی ہیں۔

    ایسٹر آئی لینڈ کی تہذیب

    Easter Island

    ایسٹر آئی لینڈ جو اپنے عظیم پتھری مجسموں کے لیے مشہور ہے، پولینیشین تہذیب کا مسکن تھا۔ یہاں کے باشندے ماہر ملاح تھے اور دیگر حیرت انگیز صلاحیتوں کے حامل تھے۔ تاہم، اس تہذیب کے زوال کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ قدرتی وسائل کی کمی اس کی ایک بڑی وجہ ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ بیماریاں اور دیگر عوامل بھی زوال کا سبب بنے ہوں گے۔

     چاتاویوک تہذیب

    south central Turkey Çatalhöyük

    موجودہ وسطی ترکی کا علاقہ کبھی دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک چاتاویوک کا مسکن تھا۔ یہ تہذیب 9000 سے 7000 سال پہلے ترقی پذیر رہی لیکن پھر اچانک ختم ہوگئی۔

    چاتاویوک کی منفرد خصوصیت اس کا شہد کے چھتے نما طرز تعمیر تھا، گھر آپس میں جڑے ہوئے تھے اور ان میں چھتوں کے راستے داخل ہوا جاتا تھا۔ یہ تہذیب اپنے پیچھے رسم و رواج اور زندگی کے بارے میں کئی اہم اشیاء چھوڑ گئی۔

    مسی سیپیئنز تہذیب

    Mississippians

    700عیسوی سے لے کر یورپی استعمار تک امریکی جنوب مشرق اور وسطی علاقوں میں ایک زراعتی تہذیب آباد تھی جسے ’مسی سیپیئنز‘ تہذیب کہا جاتا ہے۔

    اس کا ایک اہم شہر ’کاہوکیا‘ تھا جو موجودہ کولنز ول، الینوائے کے قریب واقع تھا تقریباً 40ہزار افراد پر مشتمل اس تہذیب نے بڑے چوک، مٹی کے بنے ہوئے اہرام اور ستاروں کا مشاہدہ کرنے کے لیے لکڑی کے ڈھانچے تعمیر کیے۔

    اس تہذیب کے زوال کی وجوہات بھی یقین کے ساتھ معلوم نہیں لیکن ماحولیات کی خرابی یا قحط و بیماری ممکنہ اسباب ہوسکتے ہیں۔

  • پہلے سزا یافتہ امریکی صدر ٹرمپ کو فتح کیسے ملی؟ دلچسپ  حقائق

    پہلے سزا یافتہ امریکی صدر ٹرمپ کو فتح کیسے ملی؟ دلچسپ حقائق

    کیا عجیب اتفاق ہے کہ دنیا کی سب سے قدیم جمہوریت جس کا دورانیہ دو سو سال پر محیط ہے اس کا حالیہ صدر ایک سزا یافتہ شخص ہے جس کا نام ڈونلڈ ٹرمپ پے۔

    نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابات میں فتح کی داستان اتنی دلچسپ ہے کہ اس پر ایک فلم کا اسکرپٹ تیار کیا جاسکتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں میزبان ماریہ میمن نے تفصیلی گفتگو کی اور صدر ٹرمپ کی مذکورہ داستان پر اپنا تجزیہ پیش کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ ٹرمپ نے تقریباً 91 مختلف نوعیت کے الزامات اور مقدمات کے ساتھ اپنی دوسری صدارتی مہم کا آغاز کیا تھا، جس میں سال 2020 کے انتخابات کے نتائج نہ ماننے سمیت 6 جنوری 2021کو کیپیٹل ہل پر حملے کیلئے لوگوں کو اکسانے کے الزامات بھی شامل تھے۔

    اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ کو نیو یارک میں ایک اداکارہ کو غیر قانونی ہش رقم ادا کرنے پر 34 سنگین جرائم میں قصور وار پایا گیا تھا جس کے بعد وہ پہلے سابق صدر تھے جن پر فرد جرم عائد کی گئی اور پھر باقاعدہ سزا بھی سنائی گئی۔

    ٹرمپ پر نصف ملین ڈالر سے زائد کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا جب عدالتوں نے قرار دیا کہ انہوں نے مصنف ای جین کیرول کو بدنام کیا اور اپنے کاروبار میں مالی فراڈ کا ارتکاب کیا۔

    20دسمبر 2023کو ریاست کولوراڈو نے 6جنوری کو کیپیٹل ہل حملے کے الزامات پر 14ترمیم کے سیکشن تھری کے تحت ٹرمپ پر پابندی عائد کردی تھی، جس کے تحت وہ اپنی ریپبلکن پارٹی میں ہونے والے ریاستی الیکشن میں بھی حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ اس کے بعد مزید دو ریاستوں ایلینوس اور مین میں بھی ٹرمپ پر یہی پابندی عائد کردی گئی۔

    لیکن 4مارچ 2024کو امریکی سپریم کورٹ کے 9 ججز نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ دیا تھا کہ امریکی ریاستیں ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی امیدوار بننے سے نہیں روک سکتیں اور ساتھ ہی انہیں الیکشن لڑنے کیلیے اہل قراردے دیا تھا۔

    اس فیصلے میں سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ کولوراڈو کی سپریم کورٹ نے غلط طو رپر فرض کیا تھا کہ ریاستں اس بات کا تعین کرسکتی ہیں کہ وہ صدارتی امیدوار یا وفاقی دفتر کے لیے کسی دوسرے امیدوار کو نااہل قرار دے سکتی ہیں۔

    امریکی سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ یہ ریاستوں کا نہیں کانگریس کا کام ہے کہ وہ ایسے قوانین کو وفاقی دفاتر کی امیدوار کے خلاف کس طرح نافذ کرتی ہیں۔

    ٹرمپ پر دو قاتلانہ حملے

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صرف مقدمات ہی نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ دو مرتبہ قاتلانہ حملوں سے محفوظ رہ کر صدارتی امیدوار کی کرسی تک پہنچے، 5نومبر کو ہونے والی ٹرمپ کی جیت اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی عوام نے ٹرمپ کو ووٹ ان پر لگے الزامات اور مقدمات کو بالائے طاق رکھ کر دیا ہے۔

    ماریہ میمن کا کہنا تھا کہ صرف یہ ہی نہیں اس الیکشن کے بارے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ روایتی میڈیا کی بھی موت ہے کیونکہ تمام پولز تمام الیکشن سرویز اور تمام اخبارات ڈونلڈ ٹرمپ کی اتنے بڑے مارجن سے جیت کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے، سب کے تجزیے غلط ثابت ہوئے اور اس غلطی کا اندازہ خود امریکی میڈیا کو بھی ہوگیا ہے اور خود اپنا موازنہ کررہا ہے۔

    ٹرمپ کی جیت میں سوشل میڈیا کا کردار

    ماریہ میمن نے بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی میں ان کے 18 سالہ صاحبزادے بیرن ٹرمپ نے انتہائی اہم کردار ادا کیا بیرن ٹرمپ نے ہی اپنے والد کو بتایا کہ سوشل میڈیا کیسے استعمال کیا جائے؟ انہیں کن پوڈ کاسٹ میں جانا چاہیے کن موضوعات پر زیادہ بات کرنی چاہیے یا عوام کیا سننا چاہتے ہیں۔

  • کیا آپ خوابوں کے بارے میں یہ حیران کن اور دلچسپ حقائق جانتے ہیں؟

    کیا آپ خوابوں کے بارے میں یہ حیران کن اور دلچسپ حقائق جانتے ہیں؟

    خواب، نیند کے دوران آنے والے وہ خیالات ہیں جو ہمارے شعور اور لاشعور سے مل کر تشکیل پاتے ہیں۔ ہمیشہ سے یہ خواب ماہرین نفسیات کی دلچسپی کا موضوع رہے ہیں۔

    جب ہم نیند میں ہوتے ہیں تو ہمارا شعور سوجاتا ہے اور لاشعور جاگ جاتا ہے اور یہی خواب بنانے کا ذمہ دار ہے، خواب ہمارے دماغ کے اس حصے سے کنٹرول ہوتے ہیں جو جذبات سے تعلق رکھتا ہے، اس حصے سے نہیں جو منطقی انداز میں کام کرتا ہے اور جاگنے کے دوران ہم پر حاوی رہتا ہے۔

    آج ہم آپ کو ان خوابوں کے بارے میں نہایت دلچسپ معلومات بتانے جارہے ہیں۔

    خواب میں موبائل فون دیکھنا ناممکن

    کیا آپ جانتے ہیں ہم اپنے خواب میں اسمارٹ فون، کار یا دیگر کسی ٹیکنالوجی کو نہیں دیکھ سکتے؟

    اس کی وجہ یہ ہے کہ خواب ہمارے دماغ کی جینیاتی یادداشت (جینیٹک میموری) پر مشتمل ہوتے ہیں جو سینکڑوں سال قدیم ہے، ٹیکنالوجی ہماری زندگی میں نسبتاً نئی ہے اور ہمارا دماغ تاحال اس سے مانوس نہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ بلیک اینڈ وائٹ فلموں کے دور کے افراد عموماً عمر کے آخری حصے تک بلیک اینڈ وائٹ خواب دیکھتے ہیں، دنیا بھر میں تقریباً 12 فیصد افراد سیاہ و سفید خواب دیکھتے ہیں۔

    خواب میں کچھ لکھنا اور پڑھنا بھی ناممکن

    اس کی وجہ یہ ہے کہ نیند کے دوران ہمارے دماغ کا وہ حصہ غیر فعال ہوجاتا ہے جو زبانوں کو سجھتا ہے۔

    صرف یہی نہیں بلکہ خواب میں کی جانے والی گفتگو بھی زبان سے نہیں ہوتی، یہ ٹیلی پیتھی کی طرح ہوتی ہے جس میں لوگ خیالات کے ذریعے ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں۔

    اجنبی شخص

    ہم اپنے خواب میں کبھی کسی اجنبی شخص کو بھی نہیں دیکھتے۔

    اگر آپ نے کبھی کوئی خواب ایسا دیکھا ہے جس میں کوئی اجنبی شخص آپ کا پیچھا کر رہا ہے، یا آپ کے گھر میں کوئی اجنبی شخص موجود ہے، تو حقیقی زندگی میں آپ نے اس شخص کو کہیں نہ کہیں دیکھ رکھا ہے، لیکن وہ آپ کو یاد نہیں۔

    البتہ وہ آپ کے دماغ کو یاد ہے جسے وہ آپ کے خواب میں لے آیا۔

    عجیب اور بے معنی خواب کیوں آتے ہیں؟

    ہم اپنے دن بھر میں غیر ارادی طور پر جو مختلف بے معنی الفاظ اور فقرے استعمال کرتے ہیں، مذاق یا سنجیدگی میں کوئی صورتحال گھڑتے ہیں اور لایعنی سوچیں سوچتے ہیں، وہ خواب میں تصویر کی صورت میں سامنے آجاتی ہیں۔

    کیا کوئی رات بغیر خواب دیکھے بھی گزر سکتی ہے؟

    ایسا ممکن نہیں، ہم ہر رات، اور ہر نیند کے دوران کئی خواب دیکھتے ہیں، لیکن ان میں سے ایک آدھ ہی یاد رکھ پاتے ہیں۔

    نابینا افراد کے خواب کیسے ہوتے ہیں؟

    نابینا افراد دیکھ نہیں سکتے لیکن انہوں نے بہت سی آوازیں، غائبانہ منظر کشی، اور خوشبوئیں محسوس کی ہوتی ہیں اور انہی کی بنیاد پر انہیں خواب دکھائی دیتے ہیں۔

    ایسے افراد جو بعد میں عمر کے کسی حصے میں بینائی سے محروم ہوئے ہوں، ان کے خواب عام انسانوں جیسے ہی ہوتے ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ مبہم اور بے رنگ ہوتے جاتے ہیں۔

    کیا خواب سیکھنے میں بھی مدد کرتے ہیں؟

    اس کا جواب ہاں میں ہے، ہمارا دماغ نیند کے دوران، دن بھر جاگتے ہوئے ملنے والی معلومات کا تجزیہ کرتا ہے اور ان میں سے غیر ضروری معلومات کو تلف کردیتا ہے یا یوں کہیئے کہ ڈیلیٹ کردیتا ہے۔

    برے خوابوں سے نجات ممکن ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ اپنے برے خواب کو یاد رکھیں، ان کا تجزیہ کریں اور ان کے بارے میں گفتگو کریں، تو برے خواب آنا آہستہ آہستہ کم ہوسکتے ہیں۔

    تو کیا اچھے خواب دیکھنا بھی ممکن ہے؟

    اس حوالے سے ماہرین کی تجویز ہے کہ سونے سے قبل پریشان کن، برے اور خوفزدہ کردینے والے خیالات نہ سوچے جائیں، یا اس چیز سے دماغ ہٹا لیا جائے جو آپ کو پریشان کر رہی ہے، تو اچھے خواب آنا ممکن ہے۔

    اس مقصد کے لیے کمرے میں یا ہیڈ فون پر دھیمی موسیقی سنی جاسکتی ہے جو دماغ اور اعصاب کو پرسکون کرے، جیسے بارش کی، لہروں کی یا ایک مسلسل دھیمی آواز۔

    علاوہ ازیں سونے سے قبل لیونڈر کی خوشبو سونگھنا بھی پرسکون نیند اور اچھے خواب لانے کا سبب بن سکتی ہے۔

  • امریکی شہر کے وہ انوکھے حقائق جو آپ کو حیرت میں ڈال دیں

    امریکی شہر کے وہ انوکھے حقائق جو آپ کو حیرت میں ڈال دیں

    لاس ویگاس : امریکی ریاست نیواڈا کا سب سے بڑا شہر لاس ویگاس دنیا کے امیر ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے، یہاں دنیا بھر سے لوگ تعطیلات گزارنے اور ہنی مون کیلئے آنا پسند کرتے ہیں۔

    سال1905ء میں قائم ہونے کے بعد اسے1911ء میں باضابطہ شہر کا درجہ دیا گیا۔ یہ 20 ویں صدی میں قائم کیا گیا امریکا کا سب سے بڑا شہر ہے۔

    سال1931میں جب بولڈر ڈیم پر کام شروع ہوا تو اس میں شہرت آنا شروع ہوگئی جس میں نوجوان مرد کارکنوں کی ایک بہت بڑی آمد تھی، جن کے لئے تھیٹر اور کیسینو تعمیر کیے گئے تھے، زیادہ تر کام مافیاز کے ذریعے ہوا۔ ڈیم سے بجلی کی پٹی کے ساتھ ساتھ کئی نئے ہوٹلوں کی تعمیر بھی قابل عمل ہے۔

    اس شہر میں روشنیوں کیلئے لگائی ٹویب لائٹس کو اگر ایک قطار میں رکھا جائے اس کی لمبائی 15ہزار کلومیٹر بنے گی، یہاں دنیا کی سب سے بڑی سرکسیں بھی لگائی جاتی ہیں۔

    لاس ویگاس میں سالانہ ساڑھے چار کروڑ افراد تفریح کی غرض سے آتے ہیں۔ اس شہر میں دنیا کے تمام بڑے جادوگر روزانہ جمع ہوتے ہیں۔ خریداری، تفریح اور قمار بازی کے لیے یہ شہر بین الاقوامی شہرت بھی رکھتا ہے۔

    اس کے علاوہ لاس ویگاس میں ایک بلند بالا عمارت ہے جس کا نام اسٹارٹ اسکائپڈ ہے اس کی عمارت کی لمبائی 11سو 50فٹ ہے، اس کو امریکا کا سب سے اونچا آبزرویشن ٹاور ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

  • پاکستان کی اس خوبصورت عمارت کو منحوس محل کیوں کہا جاتا ہے؟

    پاکستان کی اس خوبصورت عمارت کو منحوس محل کیوں کہا جاتا ہے؟

    کراچی : چنیوٹ کا تاج محل جو ایک تاجر نے اپنے بیٹے کے لیے بنایا، اس محل کو کبھی یتیم خانہ بنایا گیا تو کبھی لائبریری اور کچھ لوگ اسے منحوس محل بھی کہتے ہیں۔

    پاکستان کے مشہور شہر چنیوٹ میں قائم "تاج محل” اپنی مثال آپ ہے، یہ عمارت اپنے طرزِ تعمیر میں انفرادیت اور آرائش کے اعتبار سے نہایت خوب صورت تھی۔

    چودہ مرلے پر تعمیر کی گئی یہ پانچ منزلہ خوبصورت اور دیدہ زیب عمارت70فیصد لکڑی سے بنائی گئی ہے اور اس پر کیا گیا کندہ کاری کا کام دیکھنے والوں کو آج بھی حیرت زدہ کردیتا ہے۔

    اطلاعات کے مطابق کلکتہ کے ایک کامیاب تاجر شیخ عمر حیات نے پاکستان ہجرت کے بعد اسے اپنے بیٹے کے لیے1935 تعمیر کروایا تھا۔ جس کا نام گلزار حیات تھا۔ اسی لیے یہ عمارت گلزار منزل بھی کہلاتی ہے۔

    شیخ عمر حیات کی اہلیہ اور گلزار کی والدہ فاطمہ بی بی نے اپنے بیٹے کی شادی بڑی شان و شوکت کے ساتھ کی  مگر شادی کی اگلی ہی صبح بیٹا دنیا سے کوچ کر گیا۔ یہ ایک پُراسرار واقعہ تھا۔

    ماں نے اپنے بیٹے کو محل کے صحن میں دفن کروایا اور خود بھی دنیا سے رخصت ہوگئی۔ ان دونوں ماں بیٹا کی قبریں بھی اسی محل میں بنائی گئی ہیں۔ اسی حوالے سے کچھ لوگ اسے منحوس محل بھی کہتے ہیں۔