Tag: Interviews

  • برطانوی کمپنیاں ’حاملہ خواتین‘ کو بوجھ سمجھتی ہیں: تحقیق

    برطانوی کمپنیاں ’حاملہ خواتین‘ کو بوجھ سمجھتی ہیں: تحقیق

    لندن:برطانیہ کی نجی کمپنی مالکان کا ماننا ہے کہ ملازمت کے حصول کے لیے دیے جانے والے انٹرویو میں خواتین کو زچگی یا بچوں سے متعلق مستقبل کی منصوبہ بندی کے بارے میں وضاحت دینا ضروری ہے ‘ ان کا خیال ہے کہ حاملہ خواتین‘ ٹیم پر ’’بوجھ‘‘ بنتی ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بیشتر نجی برطانوی کمپنیوں کے مالکان حمل اور زچگی کے بارے کافی فکر مند رویے رکھتے ہیں‘ اس معاملے میں ان کے رویے آج بھی یورپ کے دورِ جہالت میں زندگی گزار نے والے کمپنی مالکان سے چنداں مختلف نہیں ہیں ۔

    مساوات اور انسانی حقوق کی کمیٹی کے نئے سروے کے مطابق برطانیہ کی دس میں سے چھ نجی کمپنیوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ ایک خاتون کو کمپنی میں ملازمت حاصل کرتے وقت یہ بات ظاہر کرنی چاہیئے کہ وہ حاملہ ہے یا نہیں۔

    مختلف کمپنیوں سے تعلق رکھنے والے گیارہ سو سینئر فیصلہ سازوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ بات قابلِ قبول ہے کہ خواتین کو نوکری دینے سے پہلے ان کے بچوں کے مستقبل کے بارے میں پوچھی جائے۔

    ڈائریکٹر ایکشن برائے زچگی روزلینڈ برگ کا کہنا ہے کہ ہم ہر ہفتے ایسی خواتین سے بات کرتے ہیں کہ جن کو ملازمت کے دوران بے بنیاد سلوک برداشت کرنا پڑتا ہے اور ان حاملہ خواتین کو مشورہ بھی دیتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے اعلیٰ سطح پر زچگی کے دوران کیے جانے امتیازی سلوک کے حوالے سے طویل عرصے سے کام جاری ہے۔

    تحقیق کے دوران 40 فیصد کمپنیوں سے پوچھا گیا کہ خواتین کے بچے پیدا کرنے کا فیصلہ کرنے سے قبل کم از کم ایک سال تک ادارے کے لیے کام کرنا چاہئے؟۔تقریبا ً تمام کمپنیاں اس بات پر متفق ہیں کہ ملازمت کے دوران حاملہ ہوجانے والی خواتین ، باقی ٹیم پر کام کے بوجھ کا سبب بنتی ہیں۔

    اور اسی طرح کے تناسب نے یہ دعویٰ کیا ہے کام کے دوران خواتین اپنے حاملہ ہونے کا فائدہ بھی اٹھاتی ہیں۔ ایک تہائی کمپنی مالکان کا یہ ماننا ہے کہ خواتین جو دورانِ ملازمت حاملہ ہوجاتی ہیں‘ وہ ادارے میں ملازمین کے درمیان ہونے والے مقابلے میں اپنے مستقبل پر توجہ نہیں دیتی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • پاکستان کی شناخت‘50 نامور شخصیات کے انٹرویوزپرمشتمل کتاب کی تقریبِ رونمائی

    پاکستان کی شناخت‘50 نامور شخصیات کے انٹرویوزپرمشتمل کتاب کی تقریبِ رونمائی

    کراچی: معروف صحافی ’خرم سہیل ‘ کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ’’ ان کنورسیشن ود ھ لیجنڈز‘‘ کی تقریبِ رونمائی ‘ کراچی کے فرانسیسی ثقافتی مرکز میں منعقد کی گئی ‘ انٹرویوز کو انگریزی قالب میں افراح جمال نے ڈھالا ہے ۔

    یہ کتاب پاکستانی فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والی 50 نامور شخصیات کے انٹرویوز کا مجموعہ ہے، جن کا انگریزی ترجمہ افراح جمال نے کیا ہے۔ ان دونوں صحافیوں نے، اس کتاب کو بین الاقوامی دنیا کے سامنے، پاکستان کے ثقافتی تعارف کو پیش کرنے کی غرض سے، مشترکہ منصوبے پر ایک ساتھ کام کیا۔

    ان کنورسیشن ودھ لیجنڈز

    یہ تقریب فرانسیسی ثقافتی مرکز کے تعاون سے منعقد کی گئی۔ اس موقع پر پاکستان کے معروف ستارنواز استاد رئیس خان اور گٹارسٹ عامر ذکی کو تراب علی ہاشمی (ستارنواز) اور آصف سنین(گٹارسٹ) نے، اپنے فن کے ذریعے خراج عقیدت پیش کیا۔

    In conversation with legends

    خرم سہیل اور افراح جمال نے اس مشترکہ منصوبے پر کام کرنے کے دوران آنے والی دشواریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے تجربات بیان کیے۔ اس کتاب کے مصنف اورصحافی خرم سہیل کی 10سالہ صحافتی جدوجہد مکمل ہونے پر ایک دستاویز ی فلم بھی حاضرین کو دکھائی گئی۔

    اے آروائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے خرم سہیل کا کہنا تھا کہ یہ کتاب ان کے دس سالہ صحافتی سفر کا احاطہ کرتی ہے اوربالخصوص بین الاقوامی قارئین یعنی غیر ملکیوں کے لیے لکھی گئی ہے تاکہ ہم پاکستان کی ثقافت کو مختصر اورجامع انداز میں دنیا کے سامنے مثبت انداز میں پیش کرسکیں۔

    In conversation with legends
    خرم سہیل کتاب پر دستخط کرتے ہوئے

    افراح جمال اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں کہتی ہیں کہ اس کتاب کو مرتب کرنے کا مقصد بین الاقوامی دنیا کو بتانا ہے کہ پاکستان بھی اپنی مضبوط ثقافت اور فن کے ساتھ دنیا کے نقشے پر موجود ہے‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس کتاب کے پیچھے ان کی چار سال کی محنت ہے۔

    رسیدی ٹکٹ – امرتا پریتم کے نقوشِ قدم پرسفر*

     تقریب کے حاضرین میں فرانسیسی ثقافتی مرکز کے ڈائریکٹر”جے فرانسیز شینا“، جاپان کے نائب قونصل جنرل”کازوسکادا“، جمیل دہلوی(فلم ساز) جاوید جبار(دانشور)، علی ٹم(موسیقار) ، آئلہ رضا(ڈائریکٹرکل پاکستان موسیقی کانفرنس) ، عمرفرید(مصور) اکبرسبحانی(اداکار) ، عاطف بدر(تھیٹر) سبوحہ خان(قلم کار)، اقبال صالح محمد(چیئر مین پیرا ماؤنٹ بکس) ، شمیم باذل اور شاہد رسام(مصور) کے علاوہ بھی، ثقافت اور صحافت سے تعلق رکھنے والی دیگر شخصیات نے شرکت کی۔

    In conversation with legends
    خرم سہیل اور افراح جمال بین الا قوامی فلم ساز جمیل دہلوی کو اپنی کتاب پیش کر رہے ہیں، وہ اس کتاب میں اور سرورق پر بھی موجود ہیں

    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • انٹرویو میں مردوں کی نسبت خواتین امیدواروں سے زیادہ کڑے سوالات

    انٹرویو میں مردوں کی نسبت خواتین امیدواروں سے زیادہ کڑے سوالات

    ملازمت کے لیے انٹرویو دینے جانا مرد و خواتین سب کے لیے ایک پریشان کن مرحلہ ہوتا ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرویو میں خواتین امیدواروں کو مردوں سے زیادہ کڑے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    جرنل آف سوشل سائنسز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جب خواتین ملازمت کے لیے انٹریو دینے جاتی ہیں تو دوران انٹرویو انہیں مردوں کی نسبت بار بار ٹوکا جاتا ہے جبکہ ان سے سوالات بھی اس طرح پوچھے جاتے ہیں جیسے ان سے جرح کی جا رہی ہو۔

    تحقیق کے مطابق یہ رویہ اس وقت زیادہ ہوسکتا ہے جب انٹرویو لینے والا پینل مردوں پر مشتمل ہو۔

    مزید پڑھیں: ملازمت کے لیے دیے جانے والے انٹرویو غیر ضروری؟

    ماہرین عمرانیات کی جانب سے کی گئی اس تحقیق میں کہا گیا کہ اگر کسی بڑے ادارے میں کسی اعلیٰ عہدے کے لیے، لیے جانے والے انٹرویو میں کسی خاتون کو ان کی متاثر کن سی وی اور عملی میدان میں کامیابیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شارٹ لسٹ بھی کیا جاتا ہے تب بھی انہی اپنے سے کم صلاحیت کے مرد امیدواروں سے سخت مقابلہ درپیش ہوتا ہے۔

    امریکا کی 2 اہم یونیورسٹیوں میں کی جانے والی اس تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ انٹرویو کے دوران خواتین امیدواروں کے جوابات سے مطمئن نہ ہوتے ہوئے انہیں بار بار اپنی صلاحیت اور ذہانت ثابت کرنے کے لیے کہا گیا جس سے وہ انٹرویو کے دوران کنفیوژن کا شکار ہوگئیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرویو کے دوران روا رکھے جانے والا یہی رویہ اس وقت زیادہ تر شعبوں میں مردوں کی اجارہ داری کی وجہ ہے۔

    مزید پڑھیں: پیشہ ورانہ زندگی میں اپنائے جانے والے آداب

    ان کے مطابق یہ صورتحال صرف انٹرویو کے دوران ہی نظر نہیں آتی۔ عام زندگی میں بھی جب مرد کسی دفتری معاملے پر کسی خاتون سے گفتگو کررہے ہوں تو وہ مردوں سے گفتگو کے مقابلے میں خواتین کی بات زیادہ کاٹتے ہیں اور درمیان میں بول اٹھتے ہیں۔

    علاوہ ازیں مرد خود آپس میں ایک دوسرے کی بات اسی وقت کاٹتے ہیں جب وہ ایک دوسرے کی کہی گئی باتوں کی تصدیق کرنا چاہ رہے ہوں۔

    تحقیق میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ تعلیمی میدان میں مردوں سے بہتر کارکردگی دکھانے کے باوجود خواتین عملی میدان میں مردوں سے پیچھے نظر آتی ہیں جس کی وجہ ان کے لیے مواقعوں میں کمی اور ساتھی مردوں کی جانب سے صنفی امتیاز کا برتا جانا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔