Tag: invention

  • سعودی طلبا کا اہم کارنامہ

    سعودی طلبا کا اہم کارنامہ

    ریاض: سعودی عرب میں طلبا نے کرونا وائرس کی مانیٹرنگ کا آلہ تیار کرلیا، آلے کی مدد سے کسی مقام پر آنے والے افراد کو اسکین کیا جاسکتا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی طلبا کے ایک گروپ نے ایسا آلہ تیار کیا ہے جو پبلک مقامات جیسے کلینک وغیرہ پر مریضوں کے پہنچتے ہی انہیں سکین کرتا ہے اور اگر ان کا ٹمپریچر غیر معمولی ہو تو فوراً عملے کو الرٹ کر دیتا ہے۔

    یہ ڈیوائس درجہ حرارت معلوم کرنے کے فوراً بعد اسے سینی ٹائزنگ کے عمل سے جوڑتی ہے جس میں موجود الٹرا وائلٹ شعاعیں والٹ اور موبائل فون جیسی اشیا کو سینی ٹائز کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

    صنعتی الیکڑانکس اور انجینئرنگ کی تعلیم سے وابستہ طالب علم عادل التوبیتی کا کہنا ہے کہ ٹیم وبائی مرض کی وجہ سے پیدا ہونے والے چیلنجز سے نمٹنے میں مدد کرنے کی خواہش کی وجہ سے اس پر کام کرنا چاہتی تھی۔

    ٹیلی کام اینڈ الیکڑانکس کالج کے طلبا نے یہ آلہ گریجویشن پروجیکٹ کے طور پر تیار کیا ہے، طلبا کے پروفیسر السوریہی کا کہنا ہے کہ ہم کسی ایسی چیز پر کام کرنا چاہتے تھے جو لوگوں کی خدمت کے لیے کارآمد ثابت ہو سکے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ صحت کے عام اصولوں کو یقینی بنانا اب بے حد ضروری ہوگیا ہے، ذاتی طور پر جانچ کرنے کے روایتی طریقوں کی جگہ کچھ ایسی چیزوں کا استعمال کرنا چاہیئے جو زیادہ مناسب ہو۔

    ٹیم کے مطابق اس منصوبے کو 2 ماہ میں مکمل کیا گیا ہے اور اب یہ مارکیٹنگ اور فروخت کے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔

  • حادثاتی طور پر ایجاد ہونے والا آلہ جس نے لاکھوں افراد کی جانیں بچائیں

    حادثاتی طور پر ایجاد ہونے والا آلہ جس نے لاکھوں افراد کی جانیں بچائیں

    پیس میکر ایک ایسا آلہ ہے جو برقی طور پر دل کی دھڑکن اور رفتار کو کنٹرول کرتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں اس پیس میکر کی ایجاد حادثاتی طور پر ہوئی اور یہ ایجاد دراصل ایک اور ایجاد میں کی جانے والی غلطی کا نتیجہ تھی؟

    سنہ 1958 میں ایک امریکی انجینیئر ولسن گریٹ بیچ انسانی دل کی دھڑکن کو سننا اور ریکارڈ کرنا چاہتا تھا جس کے لیے اس نے ایک مشین بنائی۔

    لیکن ولسن نے اس مشین میں ایک پرزے ریززٹر کا غلط سائز نصب کردیا، جب یہ مشین کام کرنا شروع ہوئی تو یہ دل کی دھڑکن کو ریکارڈ کرنے کے بجائے الٹا اسے ایک برقی دھڑکن (توانائی کی ایک لہر) دینے لگی۔

    تب ہی ولسن پر انکشاف ہوا کہ وہ غلطی سے ایسی مشین ایجاد کر بیٹھا ہے جو ان افراد کو مصنوعی دھڑکن دے سکتی ہے جو امراض قلب کا شکار ہوں۔

    ولسن نے اس مشین کی صلاحیت کو مزید جانچنے کے لیے کئی کتوں پر آزمایا اور ہر بار مشین نے کامیابی سے کام کیا۔

    پیس میکر کیسے کام کرتا ہے؟

    ہمارا دل ایک پمپ کی طرح کام کرتا ہے جو خون کو جسم کی طرف دھکیلتا ہے۔ دل کی دھڑکن کی رفتار میں توازن قائم رکھنے کے لیے دل کا قدرتی برقی نظام کام کرتا ہے۔

    دل کے اوپر کے حصے سے جسے سائنوٹریل نوڈ کہا جاتا ہے، ایک برقی تحریک شروع ہوتی ہے۔ اس برقی تحریک سے دل کے مختلف حصے ایک کے بعد ایک حرکت کرتے ہیں اور یوں پورے جسم میں خون کی روانی جاری رہتی ہے۔

    تاہم بعض اوقات سائنوٹریل نوڈ خرابی کا شکار ہوجاتا ہے جس کے بعد دل کو مصنوعی طور پر تحریک دی جاتی ہے اور یہ کام پیس میکر انجام دیتا ہے۔

    پیس میکر کی حادثاتی ایجاد سے لے کر اب تک 6 دہائیوں میں اس مشین کی وجہ سے لاکھوں افراد کی جانیں بچ چکی ہیں۔

  • قصہ ایک کامیاب ایجاد کا ۔ اور اس کے ناکام موجد کا

    قصہ ایک کامیاب ایجاد کا ۔ اور اس کے ناکام موجد کا

    انسانی زندگیوں میں تبدیلی لانے والی سائنسی ایجادات اپنے موجد کو رہتی دنیا تک امر کر جاتی ہیں اور اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد انہیں اپنا آئیڈیل بنائے رکھتے ہیں، تاہم کچھ موجد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی ایجاد تو نہایت دھماکہ خیز ہوتی ہے لیکن انہیں وہ پہچان نہیں مل پاتی جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔

    ایسا ہی ایک موجد ڈگلس اینگلبرٹ بھی تھا، بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ وہ ہمارے آج کل کے کمپیوٹرز کا اہم حصہ، یعنی ماؤس کا موجد تھا۔

    ڈگلس اینگلبرٹ سنہ 1960 میں امریکا کے اسٹینڈ فورڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ منسلک تھا، اس وقت تک کمپیوٹر کو جوائے اسٹک اور کی بورڈ کے ذریعے استعمال کیا جاتا تھا، تاہم ڈگلس کو یہ آلات ناپسند تھے۔

    اس نے سوچ بچار کے بعد ایک ایسی ڈیوائس ایجاد کی جو اسکرین پر کرسر کے ذریعے کام کرتی تھی، اس کا نام دا بگ رکھا گیا۔ یہ کمپیوٹر ماؤس کی ابتدائی شکل تھی۔

    اس ایجاد پرمثبت ردعمل سامنے آتا رہا، سنہ 1966 میں امریکی خلائی ادارے ناسا نے اسے استعمال کیا تو انہوں نے اسے ایک بہترین ٹیکنالوجی قرار دیا۔

    2 سال بعد ڈگلس نے اپنے ایک ساتھی بل انگلش کے ساتھ اسے سان فرانسسکو کے سائنسی میلے میں 1 ہزار افراد کے سامنے پیش کیا۔ اس وقت اس کے ڈیمو کو تمام ڈیموز کی ماں قرار دیا گیا۔

    یہ طے تھا کہ آنے والے وقت میں دا بگ ایک اہم شے بننے والا تھا۔

    5 سال بعد ڈگلس اسٹینڈ فورڈ ریسرچ سینٹر چھوڑ کر ایک امریکی ڈیجیٹل کمپنی زیروکس کے ساتھ منسلک ہوگیا۔

    سنہ 1979 میں ایک شخص نے زیروکس کو اپنی کمپنی میں شیئرز لگانے کی پیشکش کی اور بدلے میں زیروکس کے ریسرچ سینٹر تک رسائی چاہی، یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ اسٹیو جابز تھا اور اس کی کمپنی ایپل تھی۔

    زیروکس کے ریسرچ سینٹر میں جابز کو ماؤس کا آئیڈیا بے حد پسند آیا اور اس کے وژن نے لمحے میں بھانپ لیا کہ یہ آنے والے وقتوں کی اہم ایجاد ثابت ہوسکتی ہے۔

    جابز نے اپنی کمپنی کے انجینیئرز کو تمام کام روک دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ اس ڈیوائس کو نئے سرے سے بنا کر، اسے اپ گریڈ کر کے، ایپل کی پروڈکٹ کی حیثیت سے ری لانچ کیا جائے۔

    اس وقت تک اس پروڈکٹ (ماؤس) کا پیٹنٹ یعنی جملہ حقوق اسٹینڈ فورڈ ریسرچ سینٹر کے پاس تھے، اسٹیو جابز اسے اپنی کمپنی کی پروڈکٹ کی حیثیت سے لانچ کرنے جارہا تھا اور اس کا اصل موجد یعنی ڈگلس اینگلبرٹ دم سادھے یہ ساری کارروائی دیکھ رہا تھا۔

    ایپل کا ری لانچ کیا ہوا ماؤس

    یہ یقینی تھا کہ تہلکہ مچا دینے والی اس ایجاد کا مستقبل میں ڈگلس کو کوئی منافع نہیں ملنے والا تھا۔

    ڈگلس غریب کا آئیڈیا تو بے حد شاندار تھا، تاہم وہ اس آئیڈیے کو وہ وسعت پرواز نہیں دے سکا جو اسے ملنی چاہیئے تھی۔ یوں کہیئے کہ یہ بڑی ایجاد اس کے چھوٹے خوابوں سے کہیں آگے کی چیز تھی۔

    اسے نصیب کا ہیر پھیر کہیئے یا وژن کی محرومی، ڈگلس اپنی ایجاد کی اہمیت کا ادراک نہیں کرسکا، اور بلند حوصلہ، پرجوش اور آنے والے وقتوں کی بصارت رکھنے والا وژنری اسٹیو جابز اس ایجاد کو اپنے نام کر گیا۔

  • بدقسمت موجد جو اپنی ہی ایجاد کے ہاتھوں مارے گئے

    بدقسمت موجد جو اپنی ہی ایجاد کے ہاتھوں مارے گئے

    ایجادات اور تخلیق قدرت کی جانب سے عطا کی گئی ذہانت کے ساتھ ساتھ انتھک محنت، ریاضت اور بے شمار جاگتی راتوں اور بے آرام دنوں کے بعد سامنے آتی ہیں۔

    اگر یہ ایجاد نسل انسانی کے لیے فائدہ مند ہو تو نہ صرف اپنے موجد بلکہ دنیا کے ہر شخص کی زندگی بدل سکتی ہے۔ تاہم تخلیق کا یہ عمل کچھ لوگوں کے لیے موت کا پیغام بھی ثابت ہوتا ہے۔

    ایک تخلیق کار کو، چاہے وہ سائنس دان ہو، شاعر ہو، مصور یا مصنف، اپنی تخلیق بہت عزیز ہوتی ہے، لیکن دنیا میں ایسے بدقسمت موجد بھی گزرے ہیں جو اپنی ہی تخلیق کردہ ایجاد کے ہاتھوں موت سے ہمکنار ہوگئے۔


    ریڈیم

    ریڈیم میری کیوری نامی خاتون کی دریافت ہے جنہوں نے طویل عرصے تک اس پر تحقیق کی اور اس دریافت پر 2 بار نوبیل انعام کی حقدار ٹہریں۔

    تاہم سنہ 1934 میں وہ طویل عرصے تک تابکار شعاعوں کی زد میں رہنے کے باعث لیو کیمیا (ہڈیوں کے گودے کے کینسر) کا شکار ہو کر انتقال کر گئی تھیں۔


    ایرو ویگن

    ایرو ویگن نامی گاڑی کا موجد ویلیرین اباکووسکی سنہ 1921 میں اپنی ایجاد کردہ گاڑی کی پہلی آزمائش کے دوران ہلاک ہوگیا۔

    ایئر کرافٹ کے انجن پر چلنے والی یہ گاڑی پہلے تجربے کے دوران اس وقت الٹ گئی تھی جب وہ نہایت برق رفتاری سے دوڑ رہی تھی۔


    پیراشوٹ سوٹ

    ایک آسٹریلوی نزاد فرانسیسی موجد فرنز ریچلٹ نے سنہ 1912 میں پیرا شوٹ سوٹ ایجاد کیا تھا۔ اس کا مقصد ان پائلٹوں کی جان بچانا تھی جو طیارے کے کسی حادثے کا شکار ہونے کے بعد طیارے سے چھلانگ لگانا چاہتے ہوں۔

    پیراشوٹ سوٹ مکمل ہونے کے بعد اس کی آزمائش کے لیے ایفل ٹاور کا انتخاب کیا گیا۔ اس موقع پر میڈیا کو بھی دعوت دی گئی۔

    تاہم بدقسمتی سے پہلی آزمائشی اڑان ہی بری طرح ناکامی سے دو چار ہوئی اور سوٹ کا موجد اپنے بنائے ہوئے سوٹ میں پھنس کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔


    ٹائی ٹینک

    سنہ 1912 میں گلیشیئر سے ٹکرا کر ایک خوفناک حادثے کا شکار ہونے والے جہاز ٹائی ٹینک کا موجد بھی اس حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھا تھا۔

    جہاز کا چیف ڈیزائنر تھامس اینڈریوز جونیئر اس وقت پانی میں ڈوب گیا جب وہ لائف بوٹ میں بیٹھنے کے لیے لوگوں کی مدد کر رہا تھا۔

    مزید پڑھیں: کیا ٹائی ٹینک واقعی برفانی تودے سے ٹکرایا تھا؟


    جدید پرنٹنگ مشین

    جدید پرنٹنگ کا بانی ولیم بلاک سنہ 1867 میں اپنی ہی بنائی ہوئی پرنٹنگ مشین میں آ کر اپنی ٹانگ کٹوا بیٹھا۔

    روٹری پرنٹنگ پریس نامی اس مشین میں تصاویر کو گردش کرتے سلنڈر کے ذریعے پرنٹ کیا جاتا ہے۔

    حادثے کے وقت ولیم نے چرخی کو چلانے کے لیے اس پر اپنی ٹانگ سے زور آزمائی کی جس پر اچانک مشین چل پڑی اور ولیم کی ٹانگ برق رفتاری سے گھومتی چرخی میں آکر کٹ گئی۔

    نو دن تک اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد اس کی ٹانگ کا انفیکشن پورے جسم میں پھیل گیا جس کے بعد اس کی موت واقع ہوگئی۔


    پانچ تکلیفیں ۔ موت کا طریقہ

    ایک چینی شخص لی سی کی جانب سے قیدیوں کو سزا دینے کے لیے ایجاد کیا جانے والا یہ طریقہ انتہائی تکلیف دہ اور اذیت ناک تھا۔

    اس طریقے میں مجرم کے جسم کو گودا جاتا، اس کی ناک اور دونوں پاؤں کاٹ دیے جاتے، بعد ازاں اسے جنسی اعضا سے بھی محروم کردیا جاتا جس کے بعد مجرم اذیت ناک تکالیف کی تاب نہ لا کر خود ہی ہلاک ہوجاتا۔

    تاہم 208 قبل مسیح میں اس وقت کے قن خانوادے کے ایک بادشاہ کی حکم عدولی کے جرم میں موجد کو بھی اسی کے ایجاد کردہ طریقے کا حقدار قرار دیا گیا اور ہزاروں لوگوں کی اذیت ناک موت کا سبب بننے والا یہ شخص خود بھی اسی طریقے سے موت کا شکار ہوگیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • داغ دھبوں سےمحفوظ قمیض تیارکرلی گئی

    داغ دھبوں سےمحفوظ قمیض تیارکرلی گئی

    لباس پر لگنے والے داغوں سے اب پریشان ہونے کی ضرورت نہیں،امریکی طالبعلم نےایسی قمیض تیارکرلی ہے جس پرداغ لگتےہی نہیں ہیں۔

    کپڑوں پرداغ لگ جانا عام بات ہے اوراکثر داغ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دھلنےکا نام ہی نہں لیتےتاہم ایک امریکی طالبعلم نےایسا کپڑا تیارکرلیا ہےجسکی خاصیت یہ ہے کہ اس پر کوئی داغ نہیں لگتا، سیلیکا فائبرزسے تیارکی گئی یہ قمیض پہن کرکیچڑ میں گر جائیں یا آئل،آئس کریم، کیچ اپ، سالن کچھ بھی انڈیل دیں قمیض پرداغ نہیں لگے گا۔