Tag: Investigation Officer

  • کروڑ پتی ماسی نے پولیس کو دیکھتے ہی کیا ردعمل دیا؟ مزید حقائق سامنے آگئے

    کروڑ پتی ماسی نے پولیس کو دیکھتے ہی کیا ردعمل دیا؟ مزید حقائق سامنے آگئے

    کراچی : کلفٹن خیابان تنظیم میں بنگلے پر کام کرنے والی کروڑ پتی ماسی کو گرفتار کرنے والے پولیس افسر نے مزید حقائق بیان کردیے،

    اےآر وائی نیوز کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں اس کیس کے تحقیقاتی افسر سعید احمد تھہیم نے بتایا کہ انہوں نے ملزمہ کو کیسے گرفتار کیا اور کس طرح اس نے اپنے جرم کا اعتراف کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس انوشہ نامی ایک مدعیہ آئی اور بتایا کہ میرے شوہر لندن میں مقیم ہیں اور ہمارا کاروبار کراچی میں ہے، وہاں سے جو آمدنی ہوتی ہے اس کا کچھ حصہ کیش کی صورت میں گھر میں رکھتے ہیں باقی بینک میں ہوتا ہے۔

    مدعیہ انوشہ کے مطابق ان کے شوہر کو کسی خاتون نے فون پر اطلاع دی کہ آپ کے گھر میں کام کرنے والی ماسی شہناز نے مختلف اوقات میں بھاری رقم چرا کر اپنی جائیداد بنالی ہے، میں نے شوہر کے کہنے پر جب رقم چیک کی تو اس میں 5 کروڑ روپے کم تھے۔

    پولیس افسر نے بتایا کہ ہم نے فوری طور پر ایف آئی آر درج کرکے کارروائی کا آغاز کیا اور تفتیش کیلیے لیڈی کانسٹیبل کے ساتھ اس کے گھر پہنچ گئے، اس کا پرتعیش گھر دیکھ کر ہم بھی حیران رہ گئے، اور وہ بھی میں دیکھ کر پریشان ہوگئی اور ابتدائی تفتیش میں جب اس سے سوالات پوچھے تو وہ گھبرا گئی اور خود ہی سب مان گئی۔

    سب سے پہلے ملزمہ شہناز سے ایک کار برآمد ہوئی لیکن مزید تفتیش کرنے پر مجموعی طور پر اس کے نام پر 6گاڑیاں نکلیں جس 3 موٹر سائیکلیں اور تین کاریں شامل ہیں۔ ملزمہ شہناز نے اپنے گھر سے 7 لاکھ روپے کیش بھی نکال کر دیے۔

    بعد ازاں عدالت سے اس کا جسمانی ریمانڈ لیا اور مزید تفتیش کی۔ ملزمہ کے شناختی کارڈ سے اس کے نام پر بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ دو بینکوں میں اس کے مجموعی طور پر 37 لاکھ روپے موجود ہیں۔

    تحقیقاتی افسر سعید احمد تھہیم نے بتایا کہ اس کے پہلے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے جبکہ دوسرے سے اس نے خلع لے رکھی ہے، اس کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔

    اس نے بتایا کہ میں اپنے عام کپڑوں میں کام پر جاتی تھی اور کپڑوں میں چھپا کر رقم لاتی تھی، گھر کی مالکن انوشہ کے مطابق گھر میں مزید اور بھی ملازمین ہیں لیکن اس خاص کمرے تک صرف اسی کو رسائی تھی۔ کیونکہ یہ 15 سال سے ہماری بھروسے والی ملازمہ تھی۔

    اس کے علاوہ ملزمہ پنجاب میں بھی ایک 15 مرلہ کا پلاٹ لے کر اس پر گھر بنا رہی ہے اور ایک کریانہ کی دکان بھی کھول رکھی ہے جس میں 20 لاکھ روپے مالیت کا سامان ڈالا گیا، ملزمہ شہناز نے ایک مہینہ پہلے اپنی بیٹی کی شادی پر 35 لاکھ روپے خرچ کیے تھے۔

    مزید پڑھیں : کروڑ پتی ماسی کی کتنی جائیدادیں ؟ ہوشربا انکشافات

    تحقیقاتی افسر کے مطابق اس کے نام پر تین لگژری فلیٹس ہیں جن کی مالیت تقریباً ڈیڑھ سے پونے دو کروڑ ہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ اب تک ملزمہ سے 45 لاکھ روپے کیش برآمد کیا جا چکا ہے اور مزید تحقیات جاری ہیں کہ وہ جائیدادیں جو اس کے نام نہیں وہ کون سی ہیں۔

     

  • مدرسے میں بچے سے زیادتی: تفتیشی افسر معطل، دیگر افسران کو نوٹس جاری

    مدرسے میں بچے سے زیادتی: تفتیشی افسر معطل، دیگر افسران کو نوٹس جاری

    اسلام آباد: بھارہ کہو کے مدرسے میں بچے سے زیادتی کے کیس میں عدالت کی جانب سے اظہار برہمی کے بعد تفتیشی افسر کو معطل جبکہ دیگر پولیس افسران کو نوٹس جاری کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارہ کہو میں بچے سے بدفعلی کے واقعے کی ناقص تفتیش پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ آئی جی نے تفتیشی افسر کو معطل کردیا جبکہ تفتیش میں غفلت برتنے پر انکوائری شروع کردی گئی۔

    ناقص تفتیش اور غفلت کا مظاہرہ کرنے پر ایس ایچ او بھارہ کہو کو بھی شوکاز نوٹس جاری کردیا گیا، جبکہ لاپرواہی پر ایس پی سٹی زون اور ایس ڈی پی او بھارہ کہو کو بھی نوٹس جاری کردیا گیا۔

    ڈی آئی جی آپریشنز وقار الدین سید کو ناقص تفتیش پر مذکورہ افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کی ہدایت کردی گئی ہے۔

    آئی جی اسلام آباد کا کہنا ہے کہ زیادتی کے واقعات کی تفتیش کا نیا ایس او پی جاری کر دیا ہے۔ اب ڈی آئی جی آپریشنز زیادتی کیس کی تفتیش کی خود نگرانی کریں گے۔

    انہوں نے کہا کہ ایس پی انویسٹی گیشن مصطفیٰ تنویر کی زیر نگرانی خصوصی تفتیشی ٹیم بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔ ترجمان پولیس کے مطابق ٹیم تفتیش کے تمام پہلوؤں پر تحقیقات کرے گی۔

    خیال رہے کہ مذکورہ کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے درست تفتیش نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ عدالت نے سوال کیا تو تفتیشی افسر نے کہا مدعی سے پوچھ لیں، مدعی نے ہی بتانا ہے تو پولیس کیا کر رہی ہے۔

    انہوں نے کہا تھا کہ تفتیشی افسر کو بچے سے جنسی زیادتی کیس کی دفعات کا علم نہیں۔ عدالت کو بتائیں آپ نے کیا تفتیش کی؟ بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے کی جگہ پر ایک بچے کے ساتھ بدفعلی کی گئی۔

    چیف جسٹس نے کہا تھا کہ جس معاشرے میں بچوں کی حفاظت نہ ہوسکے وہ معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے، بچوں کا تحفظ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

    عدالت نے مذکورہ کیس میں آئی جی اسلام آباد کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا جن کی جگہ ایڈیشنل آئی جی (اے آئی جی) عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے ہدایت کی تھی کہ پولیس اس حساس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھے۔

    یاد رہے کہ بھارہ کہو کے مدرسے میں زیادتی کا واقعہ رواں برس 28 اگست کو پیش آیا۔ ابتدائی معلوماتی رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق واقعہ مدرسہ تحفیظ القرآن میں ہوا۔

    ایف آئی آر کے مطابق بچے کے والدین نے فوری طور پر مدرسے کے قاری ارشد کو بتایا لیکن اس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ ملزم ذیشان خود بھی مدرسے میں زیر تعلیم ہے اور اس کی عمر 17 سال ہے، ملزم نے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔