Tag: invisible

  • انوکھا فنکار جو اپنے جادو سے درخت کے تنے کو غائب کردیتا ہے

    انوکھا فنکار جو اپنے جادو سے درخت کے تنے کو غائب کردیتا ہے

    بیجنگ: چین میں ایک نوجوان فنکار درختوں پر اس طرح سے پینٹنگ کرتا ہے کہ انہیں ’غائب‘ کردیتا ہے، فنکار نے اس کام کا آغاز سنہ 2020 کے لاک ڈاؤن کے دوران کیا تھا۔

    چین کے صوبہ شینزو کا 33 سال ہوانگ یاؤ درختوں کے تنے کے ایک حصے کو کچھ اس طرح رنگتا ہے کہ وہ پس منظر کا حصہ بن جاتا ہے، یوں تنے کا کچھ حصہ کٹا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

    یہ فنکار خود کو تھری ڈی مصور کہتا ہے جو درختوں کو کینوس بناتا ہے اور اسے کیمو فلاج کا روپ دیتا ہے۔

    ہوانگ نے جو فن پارے بنائے ہیں ان میں کبھی ٹیلیفون کا کھمبا ہوا میں معلق دکھائی دیتا ہے، یا کبھی کوئی درخت پینسل کے نوک کے سہارے کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح کچھ تصاویر میں کسی کیڑے نے درخت کا اگلا حصہ اٹھا رکھا ہوتا ہے۔

    ہوانگ نے بتایا کہ درخت کے ایک حصے پر پس منظر بنانے کے باوجود بھی ہوا، بادل اور آسمان کی بدلتی رنگت اسے تبدیل کر سکتی ہے۔ اگرچہ انہیں اوائل عمری سے ہی مصوری سے لگاؤ رہا لیکن انہوں نے 2020 میں کیمو فلاج پینٹنگ کا آغاز کیا۔

    خوش قسمتی سے اطراف میں گھنے سبزے اور درختوں کی صورت میں انہیں کینوس مل گیا اور اب وہ دل کھول کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

    سوشل میڈیا پر ان کے فن کو بے حد سراہا جاتا ہے۔

  • کورونا وائرس : سونگھنے کی حس نہ رہے تو کیا ہوتا ہے؟

    کورونا وائرس : سونگھنے کی حس نہ رہے تو کیا ہوتا ہے؟

    کراچی : سونگھنے کی حس سے محروم ہونا کورونا وائرس کی چند علامات میں سے ایک ہے جس کا فی الحال کوئی علاج موجود نہیں، بظاہر یہ جسمانی معذوری نہیں لیکن اس کے نفسیاتی اثرات کسی تکلیف سے کم نہیں ہیں۔

    خبر رساں ادارے کے مطابق کورونا وائرس کے زیادہ تر متاثرین اپنی سونگھنے کی حس سے محروم ہو جاتے ہیں جو زیادہ تر کیسز میں وائرس کے ٹھیک ہونے کے ساتھ ہی بحال ہو جاتی ہے، جبکہ چند کو طویل عرصے تک اس مشکل صورتحال کا سامنا رہتا ہے۔

    انوسمیا یعنی سونگھنے کی صلاحیت مکمل طور پر کھو دینے سے انسان ہر قسم کی اچھی یا بری بو سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس کے متاثرین کی مدد کے لیے کھولی گئی کمپنی ’اینسومی‘ کے سربراہ کے مطابق اپنی زندگی کی تمام مہکوں سے محروم ہو جانا کسی ذہنی اذیت سے کم نہیں۔

    سربراہ مائیکل ملرڈ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایسی حالت میں نہ تو متاثرہ شخص اپنی صبح کی پہلی کافی کی خوشبو سونگھ سکتا ہے، نہ گھاس کی، اور نہ ہی اپنی جلد پر استعمال کیے گئے صابن کی۔

    اینسومی آرگنائزیشن سونگھنے کی حس سے محروم افراد کو ایک باقاعدہ نفسیاتی پروگرام کے ذریعے چند ایسی اشیا کی مہک سے متعارف کرواتی ہے جو ابھی بھی ان کی یاداشت کا حصہ ہوں۔

    اینسومی کے سربراہ مائیکل ملرڈ نے بتایا کہ وہ خود بھی اس پروگرام کا حصہ رہے ہیں جس کے ذریعے اب وہ دس مختلف اشیا کی

    مہک ایک مرتبہ پھر سے محسوس کر سکتے ہیں جن میں مچھلی، سگریٹ اور گلاب کی خوشبو شامل ہے، انہوں نے ایک حادثے کے بعد اپنی سونگھنے کی حس کھو دی تھی،آپ کو اس حس کا احساس ہی اسے کھونے کے بعد ہوتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ’انوسمیا‘ کا شکار افراد صرف خوشگوار مہک سونگھنے سے ہی محروم نہیں ہوتے بلکہ ایسے شخص کو آگ لگنے یا گیس لیک ہونے کے بارے میں بھی معلوم نہیں ہو سکتا۔

    انہوں نے کہا کہ اگر یہ صورتحال چھ ماہ تک برقرار رہے تو اس کے نفسیاتی اثرات بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں جن سے نمٹنے کے لیے باقاعدہ ماہرین سے رجوع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

    ایک فرانسیسی ڈاکٹر الین کورے کا کہنا تھا کہ کورونا کے علاوہ ذیابیطس، الزائیمر، پارکنسن اور دیگر چند بیماریاں بھی سونگھنے کی حس کو متاثر کرتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ انوسمیاکی وجہ سے لوگوں کی زندگی بے حد متاثر ہوتی ہے بلکہ لوگ ڈپریشن کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔
    ڈاکٹر الین کے مطابق کورونا کے مریضوں کی صحت یابی کے ساتھ ہی سونگھنے کی حس بھی واپس آجاتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ بیماری کے دوران ناک میں موجود متعلقہ ’نیورونز‘ مکمل تباہ ہو جاتے ہیں جو خود بخود بحال ہونے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

    دو فرانسیسی ہسپتالوں میں ’کوڈ او آر ایل‘ کے نام سے ایک تحقیق بھی جاری ہے جس کے تحت یہ معلوم کیا جا رہا ہے کہ کیا مختلف ناک دھونے والے محلول انوسمیا کا علاج کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق کورٹیزان نامی اسٹیرائڈ کے استعمال سے اینسومیا کے علاج میں کچھ امید پیدا ہوئی ہے۔