Tag: IPPs

  • پاکستان آئی پی پیز کے چُنگل سے کیسے نکل سکتا ہے؟ ماہر توانائی نے بتادیا

    پاکستان آئی پی پیز کے چُنگل سے کیسے نکل سکتا ہے؟ ماہر توانائی نے بتادیا

    پاکستان میں بجلی کی پیداوار اور اس کی قیمتوں کے حوالے سے ملکی خزانے پر آئی پی پیز ایک بہت بڑا بوجھ ہیں، ان کے کیپسٹی چارجز نے اب تک بہت نقصان پہنچایا ہے۔

    کیا حکومت ان انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) سے نجات حاصل نہیں کرسکتی؟ اور اگر کرسکتی ہے تو اس کا کیا طریقہ کار ہوگا؟

    اس سلسلے میں اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’آف دی ریکارڈ‘ میں انرجی ایکسپرٹ ڈاکٹر خالد ولید نے مذکورہ صورتحال نے نمٹنے کیلیے کچھ گزارشات پیش کیں۔

    انہوں نے بتایا کہ آئی پی پیز سے معاہدے اس وقت کیے گئے تھے جب ملک میں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ بہت گھمبیر ہوچکا تھا، لیکن ان معاہدوں میں طویل مدتی منصوبہ بندی نہیں کی گئی جس کا خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس کیلیے سن سیٹ اور سن رائز پالیسی ہونا چاہیے تھی، یعنی نیٹ میٹرنگ پالیسی اور سولر سسٹم کو فروغ دیں اور توانائی کی بچت کیلیے ’ڈک کرو‘کے تحت اقدامات کریں۔

    سن سیٹ سے متعلق ڈاکٹر خالد ولید نے بتایا کہ اس کیلیے جی سیون ممالک اور ایشیائی ترقیاتی بینک مالی مدد فراہم کرتے ہیں، اس میں ہوتا یہ ہے کہ وہ آپ کو قرضہ فراہم کرتے جس سے آپ کوئی فوسل فیول بیس پاور پلانٹ خرید لیتے ہیں اور پھر بعد میں ’ارلی ریٹائرمنٹ‘ کے اسے کرینبل انرجی پاور پلانٹ میں تبدیل کردیتے ہیں۔ ساؤتھ افریقہ اور انڈونیشیا نے اسی مد میں ان سے کئی بلین ڈالرز لے رکھے ہیں،

    ونڈ پاور پلانٹس سے متعلق انہوں نے بتایا کہ اس کا سرچارج بھی صارفین کو برداشت کرنا پڑتا ہے جس کا حل یہ ہے کہ ان ونڈ پاور پلانٹس کے ساتھ ایک اسپیشل اکنامک زون بنائیں جس سے حاصل ہونے والی گرین ہائیڈروجن کو ایکسپورٹ کرکے زر مبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔

    ڈاکٹر خالد ولید کا مزید کہنا تھا کہ جب آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کیے گئے تھے اس وقت کیپسٹی چارچز 3روپے تھے جو اب بڑھ کر 12 سے 14 روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ کیونکہ ڈالر ریٹ 90 سے 300روپے تک چلاگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ملکی معیشت ٹھیک ہوگی تو توانائی کا بحران بھی کم ہوجائے گا۔

    بجلی کی قیمت میں کمی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ محدود مدت میں حکومت چاہے تو ٹیکسز ختم کرکے بجلی کی قیمت 10 سے 12 روپے کم کرسکتی ہے لیکن بہتر ہوگا کہ مارکیٹ میکانزم کے تحت کام کیا جائے تو اس کیلیے ڈسٹری بیوشن سائٹ کو ٹھیک کرنا ہوگا، مقابلہ بازی کے رجحان کو فروغ دینا ہوگا اور بجلی کی پیداوار کیلیے جدید پاور پلانٹس لگانا ہوں گے۔

  • آئی پی پیز سے مذاکرات کے نتیجے میں ایک اور کمپنی سے معاملات طے پا گئے

    آئی پی پیز سے مذاکرات کے نتیجے میں ایک اور کمپنی سے معاملات طے پا گئے

    لاہور: آئی پی پیز سے مذاکرات کے نتیجے میں ایک اور کمپنی سے معاملات طے پا گئے۔

    ذرائع وزارت انرجی کے مطابق انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسر (آئی پی پی) سیف پاور لمیٹڈ کے بورڈ نے حکومت کے ساتھ ترمیم شدہ پاور پرچیز معاہدوں پر عمل درآمد کی منظوری دے دی۔

    موجودہ ٹیرف تبدیل کر کے ٹاسک فورس کی تجویز کردہ ٹیرف پر نظر ثانی کی گئی ہے، سیف پاور کمپنی ’’ہائبرڈ ٹیک اینڈ پے‘‘ ٹیرف معاہدے پر عمل کی پابند ہوگی، کمپنی نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو آگاہ کر دیا، دیگر پاور مالکان سے بات چیت آخری مراحل میں داخل ہو چکی۔

    وزارت انرجی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ 31 دسمبر تک مزید معاہدے سامنے آئیں گے۔

    یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حکومت مالی چیلنجوں سے نمٹنے اور بجلی کے شعبے کو ہموار کرنے کے لیے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی یا پھر انھیں ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ شرائط و ضوابط کے تحت ترمیمی معاہدے کا اطلاق یکم نومبر 2024 سے ہوگا۔

    سیف پاور لمیٹڈ 11 نومبر 2004 کو پاکستان میں ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی کے طور پر قائم ہوئی، 225 میگاواٹ کی گنجائش والا کمبائنڈ سائیکل پاور پلانٹ اس کی ملکیت ہے، جسے چلانا، دیکھ بھال کرنا اور اس سے پیدا شدہ بجلی سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی گارنٹی لمیٹڈ (سی پی پی اے-جی) کو فروخت کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔

  • کیا آئی پی پیز کے معاہدوں میں تبدیلی یا ’ریویو‘ کیا جاسکتا ہے؟

    کیا آئی پی پیز کے معاہدوں میں تبدیلی یا ’ریویو‘ کیا جاسکتا ہے؟

    ملک بھر میں بجلی کے بھاری بھرکم بلوں نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں اس تمام صورتحال میں اب حکومت کو بھی اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ معاملہ بہت زیادہ سنگینی اختیار کرچکا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن نے بجلی کے زائد بلوں کے حوالے سے ایک رپورٹ یش کی، انہوں نے آئی پی پیز کے کردار اور ان سے کیے گئے معاہدوں سے متعلق عوام کو آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ وزیر توانائی اویس لغاری مختلف میڈیا پلیٹ فارمز پر گفتگو کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدے تو کسی صورت ریویو نہیں ہوسکتے البتہ کوئلے سے چلنے والے پلانٹس سے سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جس پر کام جاری ہے۔

    پروگرام میں دکھائے گئے ایک اور ویڈیو کلپ میں وزیر اعظم شہباز شریف کو دکھایا گیا جس میں فرما رہے تھے کہ میاں محمد نواز شریف کے دور حکومت میں 20گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس دور میں جو پاور پلانٹس لگائے گئے وہ ملکی تاریخ کے سب سے سستے پلانٹس تھے۔

    واضح رہے کہ پاکستان میں بجلی کے بلوں کا مسئلہ کافی سنگین صورت حال اختیار کرتا جارہا ہے۔ حالیہ برسوں میں بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔

    بجلی کے بلوں میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے ایک بڑی وجہ ملک میں بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں یا انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کا کردار ہے۔

    مذکورہ آئی پی پیز پر شدید تنقید کی جارہی ہے کیونکہ ان کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے انتہائی مہنگے ثابت ہو رہے ہیں۔

    ان معاہدوں کے تحت حکومت کو بجلی کی پیداوار کے لیے آئی پی پیز کو بھاری ادائیگیاں کرنی پڑتی ہیں، جس کا بوجھ بالآخر عوام پر ہی پڑتا ہے۔

    اس کے علاوہ ملک میں بجلی کی پیداوار کی صلاحیت طلب سے زیادہ ہونے کے باوجود بجلی کی قیمتیں کم نہیں ہو رہیں جو کہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔

  • بجلی کے بلوں میں کمی کیسے کی جاسکتی ہے؟ ماہر معاشیات نے بتادیا

    بجلی کے بلوں میں کمی کیسے کی جاسکتی ہے؟ ماہر معاشیات نے بتادیا

    ماہر معاشیات ڈاکٹر خاقان نجیب نے کہا ہے کہ بجلی کے بلوں میں کمی کی جاسکتی ہے تاہم اس کے لیے خصوصی اقدامات کرنا ہوں گے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے آئی پی پیز کو دیے جانے والے کیپسٹی چارجز اور دیگر اخراجات سے متعلق امور پر تفصیلی گفتگو کی۔

    ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے بات کرکے بجلی کے بلوں میں دیے گئے ٹیکسز کو کم کردیا جائے تو فوری طور پر ان بلوں کی مالیت میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے۔

    ڈاکٹر خاقان نجیب نے کہا کہ بجلی کے بلوں میں کمی کے لیے پاکستان کے پاور سیکٹر کو ری اسٹرکچرنگ کی فوری ضرورت ہے۔

    ان کے بقول حکومت واجبات کی وصولی اور بجلی کے ترسیلی نقصانات کو روکنے کے بجائے صارفین پر اس کا بوجھ لاد دیتی ہے جو کہ مناسب نہیں ہے، اس لیے اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت ہے۔

    بجلی کے زائد بل کا فوری حل بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بل میں 18 فیصد جی ایس ٹی اور 7 فیصد انکم ودھ ہولڈنگ ٹیکس جو لیے جارہے ہیں اگر حکومت ان دو ٹیکسوں کو دو یا تین ماہ کیلئے 300یا 400 یونٹ والوں کیلئے مؤخر کردے تو کم آمدنی والے طبقے کو کچھ ریلیف مل جائے گا۔

     

  • بجلی کے بل میں کتنے ٹیکسز ہوتے ہیں؟

    بجلی کے بل میں کتنے ٹیکسز ہوتے ہیں؟

    بجلی کے بھاری بل لوگوں کے گھروں پر قیامت ڈھانے لگے، لوگ بچوں کا پیٹ بھریں یا بل؟ سوال یہ ہے کہ ان سفید ہاتھیوں ’آئی پی پیز‘ کو ادائیگیاں کیسے روکی جائیں؟ یہ مسئلہ حل کیسے ہوگا؟

    بجلی کیوں مہنگی ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک بجلی کے بل میں کتنے ٹیکسز ہوتے ہیں؟ اس کی تفصیل اے آر وائی نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن کے اینکر وسیم بادامی نے بتائی۔

    انہوں نے بتایا کہ اس میں شامل ہے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ( بجلی پیدا کرنے کے ذرائع یعنی ایندھن کی قیمت پر منحصر ہوتا ہے، دوسرا ہے فیول کاسٹ یعنی جو نجلی پیدا ہوئی اس کے ایندھن کی قیمت۔ سہہ ماہی ایڈجسٹمنٹ (بجلی کی قیمت میں رد و بدل)کا علیحدہ سے ٹیکس ہوتا ہے۔

    اس کے علاوہ بجلی کی فی یونٹ لاگت کا الگ سے ٹیکس ہوتا ہے، پھر جنرل سیلز ٹیکس (جی اسی ٹی) اس کے بعد فیول پرائس ایڈجسمنٹ پر بھی ٹیکس لگتا ہے۔ اس کے ساتھ گردشی قرضے کی مد میں فنانسنگ کاسٹ چارجز بھی اسی بل مین شامل ہیں۔

    اسی بجلی کے بل میں انکم ٹیکس بھی شامل ہے جو 25 ہزار سے زائد بل پر ساڑھے 7فیصد نان ٹیکس فائلر کیلئے ہے ٹی وی کی ماہانہ فیس بھی اسی بل میں لگ کر آتی ہے۔ اس کے ساتھ دیگر اور ٹیکسز بھی ہیں جس کی ایک طویل فہرست ہے۔

    اس مسئلے کا آخر حل کیا ہے؟

    اے آر وائی نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما سید مصطفیٰ کمال نے بجلی کے ہوشربا بل اور اس مسئلے کا حل بیان کرتے ہوئے خودمختار گارنٹی پر بھی روشنی ڈالی۔

    پروگرام کے میزبان وسیم بادامی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ70فیصد آئی پی پیز لوکل ہیں، ان میں وفاق اور صوبائی حکومتوں کے شیئرز ہیں،جبکہ 23 فیصد آئی پی پیز چین کے ہیں۔

    مصطفیٰ کمال نے کہا کہ آئی پی پیز کو ادائیگیاں جاری رہیں تو ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، چالیس سال سے جو مٹی کارپیٹ کے نیچے ڈال رہے تھے اب وہ باہر آگئی ہے۔

    متحدہ رہنما نے بتایا کہ جہاں تک خود مختار گارنجٹی کی بات ہے، بیرون ممالک کو چھوڑ کر جتنے بھی لوکل آئی پی پیز ہیں ان کو بلا کر اس مسئلے پر بات کی جاسکتی ہے۔

  • آئی پی پیز : عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے والے 40 خاندان کونسے ہیں؟

    آئی پی پیز : عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے والے 40 خاندان کونسے ہیں؟

    سابق نگراں وزیر تجارت گوہر اعجاز نے بجلی کے نام پر ملک کے 40 خاندانوں کی جانب سے کی جانے والی لوٹ مار کا انکشاف کرکے تہلکہ مچا دیا۔

    یہ 40 خاندان کون سے ہیں؟ اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام خبر میں میزبان مہر بخاری نے تفصیلات بیان کیں۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ 40 خاندان آئی پی پیز کی مد میں پاکستانی عوام کی جیبوں سے سالانہ اربوں روپے نکال لیتے ہیں، یہ ہی نہیں ان سارے معاملات میں حکومتیں بھی پوری طرح ملوث رہی ہیں۔

    یہ آئی پی پیز بجلی پیدا نہ بھی کریں تو انہیں پھر بھی اربوں روپے ادا کیے جاتے ہیں، کئی سو کھرب روپے کا گردشی قرضہ اس کے علاوہ ہے، اس قرضے کو ختم کرنے یا منجمد کرنے کیلئے ریاست بجلی کی بنیادی ٹیرف میں مزید اضافہ کردیتی ہے۔

    اس سلسلے میں سابق نگراں وزیر تجارت گوہر اعجاز آئی پی پیز کو کی جانے والی کیپسٹی پیمنٹ کیخلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کرچکے ہیں۔

    گزشتہ روز تاجر برادری کی تنظیم ایف پی سی سی آئی اور اپٹما نے حکومت سے آئی پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی اور فرانزک آڈٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ 40 خاندانوں کو بچانا چاہتی ہے یا 240 ملین پاکستانی عوام کو۔

    آئی پی پیز کب سے بننا شروع ہوئیں؟

    مہر بخاری نے بتایا کہ آئی پی پیز کی کہانی کا آغاز سال1980 کی دہائی کے اختتام پر اس وقت ہوتا ہے جب حبکو پاور کے نام سے پہلی آئی پی پی کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اس کے بعد سال1994 میں پہلی آئی پی پی پالیسی کے تحت پاور پلانٹس لگانے کے معاہدے کیے گئے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس وقت 28 روپے فی یونٹ میں سے 18 روپے کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں دیئے جاتے تھے، یعنی پاور پلانٹ بجلی پیدا کرے یا نہ کرے اسے 18 روپے فی یونٹ پیداواری صلاحیت کے مطابق ادا کیے جائیں گے۔

    تازہ ترین اطلاعات کے مطابق رواں سال جنوری سے مارچ تک کے عرصے میں ہر ماہ 150 ارب روپے کپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کیے گئے، آن آئی پی پیز کو 3 ماہ میں مجموعی طور پر 450 ارب روپے ملے لیکن چار پاور پلانٹس ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایک یونٹ بھی بجلی پیدا نہیں کی انہیں بھی ایک ہزار کروڑ روپے ادا کیے گئے۔

    رپورٹ کے مطابق ان تمام پاور پلانٹس میں سے 52 فیصد حکومت اور 28 فیصد نجی شعبے کی ملکیت ہیں اور اس وقت تین پلانٹس بالکل بند پڑے ہیں۔ جس میں حبکو، حبیب اللہ کوسٹل پاور کمپنی اور تیسرے نمبر پر کیپکو پاورپلانٹ ہے۔

    مرضی کی پالیسیاں منظور کروانے والے طاقتور خاندان 

    مہر بخاری کا کہنا تھا کہ دیگر سیکٹرز کی طرح آئی پی پی سیکٹر میں بھی 40 خاندانوں کے نام نمایاں ہیں جو سامنے آتے ہیں یہ خاندان اتنے طاقتور ہیں کہ حکومتوں سے اپنی مرضی کی پالیسیاں منظور کرواتے ہیں۔

    تین سال قبل 2020 میں اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اب ملک میں مہنگی بجلی نہیں خریدنی پڑے گی بلکہ وزیراعظم نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے قوم کو مبارکباد بھی دی تھی۔ بعد ازاں نو رکنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں حکومت کو اپنی سفارشات پیش کیں لیکن پھر بھی کچھ نہ ہوا۔

    288صفحات پر مشتمل مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ میاں منشا گروپ کے چار پاور پلانٹس نے 11 ارب روپے سے زائد منافع کمایا، اس وقت کی حکومت سے وزیر ندیم بابر کے صبا پاور پلانٹس نے ایک ارب روپے سے زائد منافع اور تین ارب روپے ڈیویڈنٹس کی صورت میں وصول کیے۔

    اس کے علاوہ رزاق داؤد جو اس وقت کے حکومتی مشیر تھے جنہوں نے 9 ارب روپے کی لاگت سے تعمیر کیے گئے روش پاور پلانٹ سے 30 ارب روپے کمائے جبکہ ان کے ایک اور پاور پلانٹ نے ساڑھے چھ ارب روپے کمائے۔

    رپورٹ میں مزید بتایا گیا تھا کہ صبا پاور پراجیکٹ اور اوریئنٹ پاور پراجیکٹ نے تقریباً دس ارب روپے سے زائد منافع کمایا، ان دونوں پلانٹ کے مالک سابق وزیر ندیم بابر ہیں۔ اسی طرح جہانگیر ترین کے جے ڈبلیو ڈی گروپ کے دو پاور پلانٹس نے چار ارب روپے کا منافع کمایا۔

    بجائے اس کے کہ ان آئی پی پیز کیخلاف مزید کارروائی ہوتی لیکن آئی پی پیز ساتھ نیا معاہدہ کرکے سے ایڈجسٹ کیا گیا، اب جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس سے معلوم ہوا ہے کہ معاہدے کے تحت جن کو فائدہ پہنچایا گیا ان میں پی ٹی آئی حکومت کے مشیر رزاق داؤد کا روش پاور پلانٹ بھی شامل ہے جس کی پیداوار صرف چار فیصد ہے۔

    ڈاکٹر گوہر اعجاز کے بقول اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت نے روش پاور کے 160 کروڑ کے ڈیمجز معاف کیے بلکہ ان معاہدوں کو رینیو کرنے کا کریڈٹ بھی لیا تھا۔

    رپورٹ کے مطابق چنیوٹ پاور لمیٹڈ کے مالک موجودہ وزیراعظم کے صاحبزادے سلیمان شہباز بھی ہیں ان کے پاور پلانٹ کو تین ماہ میں 63کروڑ روپے سے زائد کیپسٹی چارجز کی مد میں ادا کیے گئے ہیں۔

    اس کے علاوہ نندی پور پاور پلانٹ کو 15 ارب روپے ادائیگی کی گئی ہے، دیگر پاور پلانٹس کی بات کی جائے تو ان میں حب پاور لانٹ اینگرو اور حبیب اللہ کی ملکیت میں ہیں، پاک جنریشن پاور پراجیکٹ، نشاط پاور اور دیگر کے مالک میاں منشا ہیں۔

    گل احمد انرجی کے مالک گل احمد گروپ ہے، ڈیوس انرگین پرائیویٹ سید عابد امام اور سیدہ کلثوم امام کی ملکیت ہے، سید عابد امام سید فخر امام کے صاحبزادے ہیں۔ اسی طرح سیف پاور پلانٹ سیف اللہ گروپ کی ملکیت ہے۔

    لکی پاور کمپنی کے مالک محمد علی ٹبہ ہیں۔ جے ڈی ڈبلیو یونٹ ٹو اینڈ تھری کے مالک جہانگیر خان ترین ہیں، اب اگر 101پاور پلانٹس کو دیکھا جائے تو ان میں تین پلانٹ صفر کی کارکردگی پر چل رہے ہیں۔

  • بجلی کے ہوشربا بل : اربوں بٹورنے والے آئی پی پیز کون سے ہیں؟

    بجلی کے ہوشربا بل : اربوں بٹورنے والے آئی پی پیز کون سے ہیں؟

    پاکستان میں مہنگے ترین پاور پلانٹس عوام کا خون کیسے نچوڑ رہے ہیں اس کا اندازہ ہمیں بجلی کے بلوں کو دیکھ کر ہوجاتا ہے، لوگ گھروں کے کرائے سے زیادہ بجلی کے بل ادا کررہے ہیں۔

    پاور پلانٹس سے کیے گیے بدترین معاہدوں کے نتیجے میں آئی پی پیز (انڈیپیندنٹ پاور پروڈیوسرز) کو جو ادائیگیاں (کپیسٹی پیمنٹ) کی جارہی ہیں اس کا سارا بوجھ غریب عوام کے کاندھوں پر ہے۔

    اس سلسلے میں اے آر وائی نیوزکے پروگرام دی رپورٹرز میں میزبان خاور گھمن نے ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی

    کپیسٹی پیمنٹ کیا ہے؟

    کپیسٹی پیمنٹ سے مراد وہ ادائیگی ہے جو ہر ماہ صارف کی جانب سے بجلی بنانے والی کمپنی کو اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہے جو صارفین کی جانب سے بجلی کی اضافی مانگ کی صورت پر مہیا کی جا سکے۔

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آئی پی پیز کو مذکورہ کپیسٹی پیمنٹ پاکستانی روپے میں نہیں بلکہ امریکی ڈالر کی صورت میں ادا کی جارہی ہے۔

    اس حوالے سے سابق وزیر تجارت گوہر اعجاز اپنے بیانات اور ایکس پیغامات کے ذریعے عوام کو آگاہی فراہم کررہے ہیں کہ کہاں کہاں حکومت وقت کیا غلطی کررہی ہے اور اگر اس غلطی کو درست نہ کیا گیا تو ملکی معاشی حالات بد سے بد ترین ہوتے چلے جائیں گے۔

    ڈاکٹر گوہر اعجاز نے اپنے ایکس پیغام میں ملک میں موجود پانچ مہنگے ترین پاور پلانٹس کا ذکر اور ان کی کارکردگی کی تفصیل بیان کی ہے۔

    مہنگے ترین پاور پلانٹس کون سے ہیں؟

    پہلا پاور پلانٹ روش کے نام سے ہے جو 1999 میں قائم کیا گیا، اس کی مدت 30سال ہے یہ پاور پلانٹ 745 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی فراہم کررہا ہے۔

    دوسرا پاور پلانٹ چائنا پاور حب ہے جو 350روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی پیدا کررہا ہے، اس کے بعد پورٹ قاسم الیکٹرک ہے جو 177 روپے فی یونٹ بجلی دے رہا ہے۔

    چوتھا پاور پلانٹ صبا پاور کے نام سے ہے یہ بھی سال 1999 میں 30 سال کیلئے قائم کیا گیا، اور یہ 117 روپے فی یونٹ بجلی پیدا کررہا ہے۔

    اس کے بعد پاک جین کے نام سے قائم کیا گیا بجلی گھر ہے جو 95 روپے کے ریٹ سے بجلی پیدا کررہا ہے، ان مذکورہ پاور پلانٹس کی تفصیل کے ساتھ جو انکشاف ڈاکٹر گوہر اعجاز نے کیا وہ ہماری آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ سب سے مہنگا پاور پلانٹ روش کو روان سال 2024 میں ماہ جنوری سے مارچ تک بغیر کسی پیداوار کے ایک ارب 28کروڑ روپے ادا کیے گئے۔

    اسی طرح چائنا پاور حب نامی اس بجلی گھر کو بغیر بجلی پیدا کیے اسی تین ماہ کی مدت میں 33 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی، اور پورٹ قاسم الیکٹرک کو بھی بغیر کسی پیداوار کے تقریباً 30 ارب روپے ادا کیے گئے۔

    اس کے علاوہ رواں سال جنوری سے مارچ تک پنجاب تھرمل پاور کو بھی صفر پیداوار کے باوجود تقریباً 10 ارب روپے ادا کیے گئے۔ اسی طرح جامشورو پاور (جینکو ون) کو بھی اسی مدت میں بغیر بجلی پیدا کیے تقریباً 93 کروڑ روپے ادا کیے گئے۔

    سیف پاور پروجیکٹ کو بھی ان ہی تین ماہ کے دوران بغیر کسی پیداوار کے 67کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی۔ سیفائر الیکٹرک لمیٹڈ کو جنوری سے مارچ تک 59 کروڑ روپے ادا کیے گئے۔

    اس حوالے سے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئےتجز یہ کار حسن ایوب نے کہا کہ جن لوگوں نے بھی ایسے معاہدے کرکے یہ جرم کیا ہے ان کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے۔

  • بجلی کی بند کمپنیوں کو اربوں کی ادائیگیوں کا شرمناک کھیل، خفیہ حکومتی معاہدوں پر جوہر علی قندھاری کا رد عمل

    بجلی کی بند کمپنیوں کو اربوں کی ادائیگیوں کا شرمناک کھیل، خفیہ حکومتی معاہدوں پر جوہر علی قندھاری کا رد عمل

    کراچی: بند آئی پی پیز کو اربوں کی ادائیگیوں کے شرمناک کھیل کا انکشاف ہوا ہے، خفیہ حکومتی معاہدوں پر کورنگی ایسوسی ایشن کے صدر جوہر علی قندھاری کا سخت رد عمل سامنے آ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کورنگی ایسوسی ایشن کے صدر جوہر علی قندھاری نے کہا ہے کہ 25 فی صد آئی پی پیز نہیں چل رہیں، لیکن ان کو بجلی نہ بنانے پر بھی 10 ارب روپے ماہانہ ادائیگی کا انکشاف ہوا ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ آئی پی پیز کے ساتھ خفیہ معاہدے اب سامنے آئے ہیں، آئی پی پیز کی بجلی استعمال نہیں کی جا رہی لیکن اس کے باوجود حکومت کی جانب سے صارفین سے 24 روپے فی یونٹ کپیسٹی چارجز وصولی کی جا رہی ہے۔

    جو معاہدے ہوئے وہ حکومت کی ضمانت کے طور پر خفیہ رکھے گئے، جوہر علی قندھاری نے کہا کہ ملک میں 25 فی صد آئی پی پیز بند ہیں، اور بند آئی پی پیز کو ماہانہ دس ارب روپے کی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔ انھوں نے تنبیہہ کی ’’ہماری نظریں ہماری لیڈر شپ پر ہیں اگر انھوں نے کہا تو انڈسٹری بند کر دیں گے، مسئلہ حل نہ ہوا تو اسلام آباد جا کر انڈسٹری کی چابیاں حکومت کے حوالے کر دیں گے۔‘‘

    3 ماہ میں‌ سرکاری بجلی گھروں کو اربوں روپے کی ادائیگیوں کا انکشاف

    کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے صدر جوہر علی قندھاری نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ آئی پی پیز معاہدوں سے متعلق ہم لاعلم تھے، لیکن اب حقائق سامنے آئے ہیں کہ آئی پی پیز کا کتنا بوجھ ہے اور کون اس بوجھ کو ڈھو رہا ہے، انھوں نے کہا کہ غیر فعال آئی پی پیز کے پاور پلانٹ کے کپیسٹی چارجز کا بوجھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

    جوہر علی قندھاری کے مطابق ملک میں 106 آئی پی پیز کام کر رہی ہیں، 52 فی صد آئی پی پیز حکومتی، 23 فی صد سی پیک منصوبے کے تحت اور 25 فی صد نجی شعبے کی ملکیت ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جو بجلی استعمال نہیں ہوتی اس کا بھی بل میں بوجھ ڈالا جا رہا ہے، سوال یہ ہے کیا ہم ان 40 آئی پی پیز کے مفادات کا تحفظ کریں یا 24 کروڑ عوام کی حالت زار کو دیکھا جائے، ان 40 آئی پی پیز کو نوازا گیا اور بوجھ عوام پر ڈالا گیا۔

    انھوں نے کہا کہ یہ سوال بھی ہے کہ اتنا بڑا راز پہلے کیوں سامنے نہیں لایا گیا، 2000 ارب سے زائد کپیسٹی چارجز پچھلے مالی سال میں وصول کیے جا چکے ہیں اور رواں مالی سال 2100 ارب روپے کپیسٹی چارجز کی مد میں وصول کیے جائیں گے، اس طرح کے طرز عمل سے مقامی انڈسٹری، برآمدات اور ملک کو کون نقصان پہنچا رہا ہے؟

    انھوں نے کہا کہ کاٹی کے ممبران کا متفقہ مطالبہ ہے کہ یہ کپیسٹی چارجز عوام پر سراسر ظلم ہے اسے ختم کیا جائے، سینیٹر حسیب خان نے کہا کہ حکومت کا کام جرائم پر قابو پانا ہے لیکن آئی پی پیز کے جرم میں حکومت براہ راست ملوث ہے، آئی پی پیز کے جرم کے ذریعے حکومت نے براہ راست برآمدات کو نشانہ بنایا ہے۔

  • آئی ایم ایف کی شرط: آئی پی پیز کو 142 ارب روپے تقسیم

    آئی ایم ایف کی شرط: آئی پی پیز کو 142 ارب روپے تقسیم

    اسلام آباد: آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق آئی پی پیز کو 142 ارب روپے تقسیم کر دیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق توانائی کے شعبے میں پیش رفت ہوئی ہے، سنٹرل پاور پرچیزنگ اتھارٹی نے آئی پی پیز کو 142 ارب روپے تقسیم کر دیے۔

    ذرائع کے مطابق گزشتہ مالی سال کے 11 ماہ کے دوران گردشی قرضوں کے حجم میں 394 ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ہے، جب کہ توانائی شعبے کا گردشی قرضہ 2 کھرب 646 ارب روپے ہو گیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ 394 ارب روپے میں ڈسکوز کے 249 ارب کے نقصانات شامل ہیں، اس کے علاوہ 171 ارب روپے کے سہ ماہی ٹیرف اور فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ بھی اس میں شامل ہیں۔

    ذرائع کے مطابق آئی پی پیز میں حبکو، ذیلی ادارے، کیپکو، این پی ایل، ایل پی ایل اور دیگر رجسٹرڈ ادارے شامل ہیں۔

  • آئی پی پیز کو بجلی استعمال نہ کرنے کے باوجود پیسے دیے جانے کا انکشاف

    آئی پی پیز کو بجلی استعمال نہ کرنے کے باوجود پیسے دیے جانے کا انکشاف

    اسلام آباد: آئی پی پیز کو بجلی استعمال نہ کرنے کے باوجود پیسے دیے جانے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پبلک اکاؤنٹ کمیٹی نے بجلی استعمال نہ کرنے کے باوجود ادائیگی کیے جانے پر متعلقہ حکام سے آئی پی پیز کے تمام معاہدوں کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔

    چیئرمین پی اے سی نور عالم خان نے اجلاس میں چیئرمین نیپرا سے استفسار کیا کہ بعض آئی پی پیز کو بجلی استعمال نہ کرنے کے باوجود پیسے دیے جا رہے ہیں، جب عوام بجلی لے نہیں رہے تو آئی پی پیز کو پیسے کیوں دیے جا رہے ہیں؟

    چیئرمین نیپرا نے کہا کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے سی پی پی اے کیپسٹی پیمنٹ چارجز کرتی ہے۔

    چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ دنیا میں زیادہ بجلی استعمال کرنے والے کو ریلیف ملتا ہے، لیکن پاکستان میں زیادہ بجلی استعمال پر ٹیرف ڈبل ہو جاتا ہے، انھوں نے ہدایت کی کہ نیپرا آئی پی پیز کی فہرست اور معاہدے کی کاپیاں پی اے سی کو دیں، تاکہ پتا چلے کہ کس کو آئی پی پیز سے کتنا پیسہ ملتا ہے؟

    انھوں نے کہا کہ آئی پی پیز سے ایسے معاہدے کیوں کیے جا رہے ہیں کہ بجلی لیں یا نہ لیں ادائیگی ضرور کریں گے۔

    رکن پی اے سی شیخ روحیل اصغر نے چیئرمین نیپرا سے چوری سے متعلق استفسار کیا کہ اس وقت ملک میں کتنی فی صد بجلی چوری ہو رہی ہے؟ چیئرمین نے جواب دیا کہ ڈسکوز کو 13 فی صد بجلی لائن لاسز کی رعایت ہے مگر نقصان 17 فی صد پایا گیا ہے، اور اس وقت زیادہ بجلی کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو) میں چوری ہو رہی ہے، جو 65 فی صد ہے۔

    نیپرا چیئرمین نے بتایا کہ بجلی صارفین کو نیٹ میٹرنگ کی سہولت دینے سے نقصان ہو رہا ہے، صارفین اپنی بجلی بھی پیدا کررہے ہیں اور بیچ بھی رہے ہیں، اور صارفین کے لیے بجلی کافی موجود ہے، ملک میں 41 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

    بجلی کی طلب 28500 میگا واٹ سے بھی تجاوز کر گئی

    سلیم مانڈوی والا نے پوچھا اگر 41 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے تو پھر لوڈ شیڈنگ کیوں ہے؟ نیپرا چیئرمین نے جواب دیا کہ تیل کی کمی کی وجہ سے بجلی پیدا نہیں ہو رہی، ہم نیٹ میٹرنگ صارفین سے 12 روپے 50 پیسے فی یونٹ بجلی لیتے ہیں، پہلے ان کو 16.50 روپے فی یونٹ بجلی دی جا رہی تھی، اب 7.75 روپے فی یونٹ بجلی مہنگی ہوئی ہے۔

    چیئرمین کمیٹی نور عالم نے کہا کہ لگتا ہے چیئرمین نیپرا آپ کی بجلی مفت ہے، انھوں نے جواب دیا میری بجلی مفت نہیں، میرا خود 68 ہزار روپے بل آیا ہے، میرا بل میری تنخواہ کے اعتبار سے زیادہ ہے، نور عالم نے پوچھا آپ کی تنخواہ کتنی ہے؟ انھوں نے جواب دیا میری تنخواہ 7 لاکھ اور کچھ ہزار ہے۔

    نور عالم نے کہا میری تنخواہ تو ڈیڑھ لاکھ ہے، آپ کی تو بہت زیادہ ہے، چیئرمین اوگرا آپ کی تنخواہ کتنی ہے؟ اوگرا چیئرمین نے جواب دیا میری تنخواہ 11 لاکھ روپے ہے، لیکن میں جہاں سے آیا ہوں وہاں یورو میں تنخواہ لیتا تھا۔