Tag: IPPs

  • آئی پی پیز سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ کا جائزہ لیا جارہا ہے: شہزاداکبر

    آئی پی پیز سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ کا جائزہ لیا جارہا ہے: شہزاداکبر

    اسلام آباد: وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ آئی پی پیز سے متعلق رپورٹ وزیراعظم کو پیش کردی گئی ہے، آئی پی پیز کو 5100ارب روپے کی زائد ادائیگیاں کی گئیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں گفتگو کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ آئی پی پیز سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ کا جائزہ لیا جارہا ہے، تحقیقاتی رپورٹ تیار کرنے والے اپنی فیلڈ کے ماہر ہیں، کچھ معاہدوں کے ذریعے ریاست کو پھنسا دیا جاتا ہے، جتنی بجلی پیدا ہورہی ہے وہ ہماری ضرورت سے دگنی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کے معاملے پر 3 میٹنگز ہوچکی ہیں، ندیم بابر کو معاونت کے لیے رکھا گیا ہے، ندیم بابر کی رائے ہے آئی پی پیز تحقیقاتی رپورٹ غلط ہے، رپورٹ توانائی کی کمیٹی کو پیش کردی گئی ہے، اسدعمر کی سربراہی میں کام کرنے والی کمیٹی کو رپورٹ دے دی ہے، ندیم بابر کے پاس ایگزیکٹوپاور نہیں ہے۔

    ماضی کی غلط پالیسیاں، بجلی پلانٹس کو 1 ہزار ارب زائد ادائیگیوں کا انکشاف

    معاون خصوصی نے کہا کہ رحیم یارخان شوگرمل میں خسروبختیار کے بھائی کا شیئر ہے، پوری دنیا میں انڈسٹریز کے لوگ حکومتی معاونین بنتے ہیں، جو انڈسٹری کو سمجھتا ہے وہی بہتر معاونت کرسکتا ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ 2017-19میں پاورسیکٹر کو بجٹ سے3202ارب کی سپورٹ ملی، معاہدے عمران خان یا تحریک انصاف کی حکومت نے نہیں کیے، معاہدے جن لوگوں اور حکومتوں نے کیے ان سے پوچھنا چاہیے۔

  • 60 میگاواٹ سے توانائی کاسفرشروع کرنے والا پاکستان آج کہاں کھڑا ہے

    60 میگاواٹ سے توانائی کاسفرشروع کرنے والا پاکستان آج کہاں کھڑا ہے

    پاکستان اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی توانائی کے بحران سے نبرد آزما رہا ہے ، 60 میگاواٹ سے سفر شروع کرنے والا ہمارا یہ ملک آج 25 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے باوجود آج بھی توانائی کی کمی کا شکار ہے۔

    ورلڈ بینک کی جانب سے جنوبی ایشیا میں بجلی کی پیداوار کے حوالے سے ایک مفصل رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں پاکستان سے متعلق اعداد و شمار ہماری آج کی اس رپورٹ کا موضوع ہیں۔ رپورٹ کے مطابق قیامِ پاکستان یعنی سنہ 1947 میں پاکستان کی مجموعی بجلی کی پیداوار کل 60 میگاواٹ تھی ، آج وہی ملک 25 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کررہا ہے۔

    پاکستان میں توانائی کے حصول کے لیے جو ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں ان میں کوئلہ ، ہائیڈل، فاسل فیول ( تیل اور گیس)، سولر ، نیوکلیئر اور ونڈ شامل ہیں۔ ان میں بھی سب سے بڑا حصہ فاسل فیول سے چلنے والے پلانٹس سے حاصل ہوتا ہے۔ توانائی کی مجموعی پیداوار میں فاسل فیول کا حصہ 64.2 فیصد ہے ، جبکہ ہائیڈل 29 فیصد، اور نیوکلیئر 5.8 فیصد ہیں۔ فاسل فیول کی شرح کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور 64.2 فیصد میں سے 35.2 فیصد تیل سے اور 29 فیصد قدرتی گیس سے پیدا کیا جارہا ہے۔

    پاکستان میں مختلف ادوار میں توانائی کے حصول کے لیے مختلف ذرائع پر انحصار کیا گیا ہے۔ سنہ 1973 تک توانائی کے حصول کے لیے پاکستان کا انحصار ہائیڈل کے ساتھ ساتھ قدرتی گیس اور کوئلے پر تھا، جبکہ تیل، یورینیم اور اسی نوعیت کے دوسرے ذرائع سے بننے والی بجلی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس کے بعد حکومت نے توانائی کی ضرورتکو پوراکرنے کے لیے ملک میں تیل کی تلاش شروع کی ۔ آج ملک میں انرجی سیکٹر کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے استعمال ہونے والے کل تیل کا محض سترہ فیصد پاکستان سے نکلتا ہے ۔

    ہائیڈل انرجی کے میدان میں بے پناہ مواقع ہونے کے باوجود سنہ 1994 ، 2002 اور 2015 میں اپنائی گئی انرجی پالیسیوں میں تھرمل ذرائع سے توانائی کے حصول کو ترجیح دی گئی ہے جس کے سبب قدرتی گیس اور تیل بجلی پیدا کرنے کے سب سے بڑے ذریعے کے طور پر سامنے آئے ، سنہ 2015 تک تیل اور گیس سے پیدا ہونے والی بجلی ملک کی کل پیداوار کا 65 بن چکی تھی۔

    فاسل فیول میں قدرتی گیس کو بے پناہ اہمیت حاصل ہے، یہ نہ صرف یہ کہ بجلی بنانے میں کام آتی ہے بلکہ فرٹیلائز پراڈکشن ( زرعی ملک ہونے کے سبب اس کی اہمیت بے پناہ ہے)، ٹرانسپورٹیشن اور گھریلو استعمال میں بھی بے تحاشہ استعمال ہوتی ہے۔

    گزشتہ چند دہائیوں میں ملک میں گیس کی پیداوار اور کھپت میں بے دریغ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، سنہ 1955 تک پاکستان محض 9 ملین کیوبک فٹ گیس ایک دن میں پیدا کرتا تھا لیکن اب یہ پیداوار 4 ہزار ملین کیوبک فٹ تک پہنچ چکی ہے اور پاکستان گیس استعمال کرنے والے ممالک میں 19 ویں نمبر پر ہے۔ یہ مقدار ترکی کے برابر اور چین کے استعمال کا ایک چوتھائی ہے۔ گیس کے اس استعمال نے سپلائی اور ڈیمانڈ میں عدم توازن پیدا کیا ہے ، گزشتہ کچھ سالوں سے ملک میں گیس کی کھپت 6 ہزار ملین کیوبک فٹ یومیہ ہے اور اس توازن کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان جو کبھی گیس کی پیداوار میں خود کفیل تھا ، اب گیس بھی امپورٹ کررہا ہے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ اگر جلد ہی کوئی نیا ذخیرہ دریافت نہ ہوا تو سنہ 2030 تک طلب اور رسد کا یہ فرق دو ہزار سے بڑھ کر 6 چھ ہزار ملین کیوبک فٹ یومیہ تک پہنچ جائے گااور اس کے حصول کی خاطر پاکستان کو کثیر زرمبادلہ خرچ کرنا ہوگا۔

    پاکستانی حکومت کی سنہ 2005 کی ایلوکیشن پالیسی کے مطابق گیس سب سے پہلے گھریلو صارفین کو فراہم کی جاتی ہے اور اس کے بعد انڈسٹریل صارفین کو ، اس کے بعد پاور سیکٹر کا نمبر آتا ہے ، اس پالیسی کے سبب گیس کی قلت کو مہنگا کروڈ آئل خرید کر پورا کیا جارہا ہے جس سے نہ صرف یہ پاکستان پر گردشی قرضوں کا انبار بڑھتا جارہا ہے بلکہ معیشت بھی سست روی کا شکار ہے۔

    سنہ 2005 کی پالیسی میں فرٹیلائزر سیکٹر کو پاور سیکٹر پر ترجیح دی گئی تھی لیکن اس کے نقصانات اور بجل ی کی قلت کو دیکھتے ہوئے سنہ 2015 میں پاور سیکٹر کو فرٹیلائزر پر ترجیح دی گئی جس کے خاطر خواہ نتائج مرتب ہوئے اور ملک سےزرمبادلہ کا اخراج بھی کم ہوا ، تاہم اصل مسئلہ ابھی بھی حل طلب ہے ۔

    ابھی بھی ملک میں بجلی کی قلت ہے اور حالیہ دنوں گیس کے بھی شدید ترین بحران دیکھنے میں آئے جب حکومت کو گھریلو صارفین اور کمرشل صارفین کے لیے گیس کی لوڈشیڈنگ کرنا پڑی۔ گیس کی دو کمپنیوں میں سے سوئی سدرن کےشہری گھریلو صارفین کے لیے گیس کی لوڈ شیڈنگ ایک اچھنبے کی بات ہے کہ ماضی میں اس کی روایت نہیں رہی ہے۔ انہی مسائل کے سبب بین الاقوامی انویسٹر پاکستان میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے گھبراتا ہے کہ یہاں توانائی کی مسلسل فراہمی کی ضمانت تاحال میسر نہیں ہے اور بلاشبہ سرمایہ کار چاہتا ہے کہ اسے توانائی کی سپلائی ہر صورت ملتی رہے تاکہ کسی بھی صورت میں اس کی انڈسٹری کا پہیہ نہ رک سکے۔

    موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے پانچ سالوں میں ان مسائل کا تدارک کرلیں گے تاہم ابھی تک اس کے طریقہ کار کے خدوخال واضح نہیں ہوسکے ہیں۔ امید کی جارہی ہے کہ آئندہ معاشی سال میں حکومتی پالیسیوں کے اثرات واضح ہونا شروع ہوجائیں گے۔

    اس وقت جو کام حکومت کے لیے کرنا ضروری ہیں ، ان میں سب سے اہم انرجی پلانٹس کو تیل کے بجائے گیس پر چلانا ہے اور اس کے لیے گیس کے نئے ذخیرے دریافت کرنا بے حد ضروری ہے ۔ گیس سے توانائی کے حصول میں ایک تو ماحولیاتی آلودگی کم ہوگی ، دوسرے مقامی سطح پر پیدا ہونے سے ملک سے سرمائے کا انخلاء بھی رکے گا جو کہ اس وقت پاکستان کے بنیادی مسائل کی جڑ ہے۔ ہم اپنی کمائی کا بڑا حصہ تیل کے حصول میں خرچ کردیتے ہیں ، حالانکہ اس رقم سے ہم اپنے ملک میں معاشی انقلاب برپا کرسکتے ہیں ۔

    دوسرا سب سے اہم کام جس پر موجودہ حکومت اور سپریم کورٹ آف پاکستان بے حد توجہ دے رہی ہے وہ بڑے ڈیموں کی تعمیر ہے ۔ پاکستان سترہ دریاؤں والا ملک ہے اور ایک مرتبہ ڈیم کی تعمیر میں خرچ ہونے والا سرمایہ آئندہ نسلوں تک نہ صرف یہ کہ انتہائی سستی اور صاف ستھری توانائی کے حصول کا ضامن ہوتا ہے بلکہ ملک کی آبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی اہم ہے۔


    ورلڈ بینک کی مکمل رپورٹ’ان دی ڈارک‘ پڑھیں 

  • لوڈشیڈنگ 2018 میں بھی ختم نہیں ہوگی، حکومت کا اعتراف

    لوڈشیڈنگ 2018 میں بھی ختم نہیں ہوگی، حکومت کا اعتراف

    کراچی : وزارت پانی و بجلی نے اعتراف کیا ہے کہ سال 2018ء تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ نہیں ہوسکے گا۔

    تفصیلات کے مطابق موسم گرما کے آغاز پر ملک کے مختلف شہروں اور دیہی علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 16 گھنٹے تک جا پہنچا، بجلی کی طویل بندش سے شہری بلبلا اُٹھے۔

    لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے حکومتی دعوے دھرے رہ گئے، بجلی کی طلب 17 ہزار 5 سو میگا واٹ ہے، پیدوار صرف 11  ہزار میگا واٹ ہے، حکومتی اعلانات کے برعکس اگلے سال بھی لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہوسکے گی۔

    وزارت پانی و بجلی نے بھی لوڈشیڈنگ پر قابو نہ پانے کا اعتراف کرلیا، ملک میں بجلی کے ساڑھے 5 ہزارمیگا واٹ شارٹ فال کے آگے حکومت بے بس نظر آتی ہے،

    ہائیڈل ذرائع سےصرف 1400 سو میگا واٹ بجلی مل رہی ہے۔ آئی پی پیز بھی واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث صرف 7 ہزار8  سو میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں۔

    علاوہ ازیں زیر گردش قرضوں کا حجم 414 ارب روپے ہونے پر یہ مسئلہ بھی شدت اختیار کرگیا ہے، حکومت نے پاور سیکڑ کو 50 ارب روپے فراہم کر دیئے ہیں۔