Tag: Iraq

  • عراق میں ریت کا بہتا ہوا دریا

    عراق میں ریت کا بہتا ہوا دریا

    عراق میں ایک عجیب و غریب دریا نے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا جس میں ریت بہتی نظر آرہی ہے۔

    یہ دریا عراق کے صحرا میں واقع ہے اور انٹرنیٹ پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں بظاہر یوں لگ رہا ہے جیسے یہ کوئی ریت کا دریا ہے جس میں ریت بہہ رہی ہے۔

    تاہم یہ ایک قدرتی عمل تھا جو طوفان کے بعد وجود میں آیا۔

    طوفان کے بعد قریب موجود ایک دریا کا پانی اور برف کے بڑے بڑے ٹکڑے صحرا سے گزرنے لگے جس کے ساتھ صحرائی مٹی بھی حرکت کرنے لگی۔

    تیزی سے گزرتے برف کے ٹکڑے مٹی سے اٹ گئے جس کے بعد یوں محسوس ہونے لگا جیسے یہ ریت کا دریا بہہ رہا ہو۔

  • عراق: داعش سے تعلقات، جرمن اور فرنسیسی شہری کو عمر قید کی سزا

    عراق: داعش سے تعلقات، جرمن اور فرنسیسی شہری کو عمر قید کی سزا

    دمشق: عالمی دہشت گرد تنظیم داعش سے تعلق رکھنے والے جرمن اور فرانسیسی شہری کو عراق میں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق فرانسیسی اور جرمن شہری دونوں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے رکن تھے، جنہیں عراق میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق عدالت نے بائیس سالہ جرمن اور ایک پچپن سالہ فرانسیسی شہری کو عمر قید سزا سنائی ہے، ماضی میں دونوں داعش کے سرگرم رکن تھے۔

    قبل ازیں شام میں بری طرح شکست کھانے کے بعد دولت اسلامیہ کے دہشت گردوں نے دیگر ملکوں کو رخ کیا ہے، عراق پہنچنے والے داعش کے رکن کی تعداد زیادہ ہے۔


    جرمنی: داعش سے تعلق کے شبے میں خاتون گرفتار


    سزا پانے والے مغربی شہریوں میں سے جرمن شہری عراق میں غیر قانونی داخلے پر گزشتہ ایک برس سے جیل میں ہی قید تھا، شام میں اس دہشت گرد تنظیم کی پسپائی کے بعد داعش کے متعدد ارکان عراق پہنچے، ان میں مغربی ممالک کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔

    خیال رہے کہ گذشتہ ماہ جرمنی کے شہر کارلسرؤے میں پولیس نے خفیہ اطلاعات پر کارروائی کرتے ہوئے عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کی ایک خاتون رکن کو گرفتار کیا تھا جو شام میں حکومت کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہی تھی۔

    واضح رہے کہ مذکورہ گرفتار خاتون کا شوہر شدت پسندانہ کارروائیوں کے دوران ہلاک ہوگیا تھا، پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ خاتون نے شوہر کی ہلاکت کے بعد ایک اور شادی کی تھی اور داعش کی جانب سے کیے جانے والے خودکش حملوں میں بھی ملوث تھی۔

  • عراق کا تباہ حال شہر موصل موسیقی کے سروں سے گونج اٹھا

    عراق کا تباہ حال شہر موصل موسیقی کے سروں سے گونج اٹھا

    موصل: عراق کے جنگ سے شدید متاثر تباہ حال شہر موصل میں وائلن کی پرفارمنس پیش کی گئی جسے دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگ امڈ آئے۔

    عراق کے معروف وائلن ساز کریم واصفی نے کھنڈرات میں تبدیل ہو جانے والے شہر موصل میں اپنی پرفارمنس پیش کی۔ اپنی اس پرفارمنس کو انہوں نے ’امن‘ سے منسوب کیا۔

    کنسرٹ میں کریم واصفی کے ساتھ ایک مقامی میوزک بینڈ نے بھی شرکت کی اور موصل کا ملبہ شدہ شہر موسیقی کے سروں سے گونج اٹھا۔

    واصفی کا کہنا تھا کہ یہ موسیقی موصل کی طرف سے دنیا کے لیے امن کا پیغام ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ دنیا کے لیے ایک پیغام ہے کہ موصل میں جنگ ختم ہوچکی، اب آئیں اور موصل کی تعمیر نو میں عراقیوں کا ساتھ دیں۔

    خیال رہے کہ عالمی دہشت گرد تنظیم داعش نے سنہ 2014 میں موصل پر حملہ کرنے کے بعد 3 سال تک یہاں اپنا قبضہ جمائے رکھا۔

    اس دوران داعش اور ان کے خلاف برسر پیکار فوجوں کے درمیان خونریز جھڑپوں میں شہر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا جبکہ سینکڑوں افراد نے اپنی جانیں گنوائیں۔

    ان 3 سالوں میں 10 لاکھ افراد نے یہاں سے ہجرت کی۔

    سنہ 2017 میں عراقی اور اتحادی افواج نے بالآخر داعش کو شکست دی اور شہر کو ان کے قبضے سے چھڑانا شروع کیا جس کے بعد یہاں سے جانے والے واپس لوٹنا شروع ہوگئے۔

    جنگ ختم ہونے کے بعد عراق کا یہ خوبصورت شہر اب ملبے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جرمنی: لڑکی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والا مجرم عراق میں گرفتار

    جرمنی: لڑکی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والا مجرم عراق میں گرفتار

    برلن : جرمنی میں 14 سالہ لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد قتل کرکے فرار ہونے والے عراقی تارک وطن کو عراق میں گرفتار کرلیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین کے رکن ملک جرمنی میں 14 سالہ دوشیزہ کو جنسی زیادتی کے قتل کرنے والے مجرم کو سیکیورٹی اداروں نے عراق میں گرفتار کرلیا ہے جسے جرمنی لانے کے لیے قانونی عمل آغاز کردیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ 20 سالہ عراقی پناہ گزینی کی غرض سے جرمنی آیا تھا جو اچانک 31 مئی کو اپنے اہل خانہ کے ہمراہ جرمنی چھوڑ کر عراق روانہ ہوگیا تھا۔

    جرمن میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کا کہنا تھا کہ علی بشیر نامی 20 سالہ عراقی نوجوان کو جمعرات کے روز عراق میں گرفتار کیا گیا ہے، مذکورہ مجرم کو جرمنی لانے کےلیے تمام عالمی قوانین پر عمل کیا جائے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق 20 سالہ علی بشیر کو جرمن پولیس کی درخواست پر عراقی فورسز نے شمالی عراق سے حراست میں لیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جرمنی کے سیکیورٹی اداروں کو مذکورہ ملزم پر 14 سالہ لڑکی کی عصمت دری کرنے اور اسے گلا دبا کر قتل کرنے کا الزام ہے۔

    جرمنی کی پولیس کا کہنا تھا کہ عراقی مہاجر جرمنی کے شہر ویزباڈن کے ایربین ہائم ضلعے میں قائم مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر تھا اور اسی کیمپ سے 6 جون کو متاثرہ لڑکی کی نعش برآمد ہوئی تھی۔

    جرمن ریاست ہیسن پولیس ترجمان شٹیفان میولر کا کہنا تھا کہ مذکورہ عراقی مہاجر چند روز قبل ملک سے اپنے والدین اور پانچ بہن بھائیوں کے ہمراہ ملک سے فرار ہوا تھا۔

    پولیس ترجمان کا کہنا تھا کہ علی بشیر سنہ 2015 میں ترکی سے یونان کے راستے جرمنی پہنچا تھا، خیال رہے کہ سنہ 2015 میں لاکھوں تارکین وطن جرمنی میں داخل ہوئے تھے۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ مذکورہ عراقی نوجوان علاقے میں ہونے والی دیگر جرائم پیشہ سرگرمیوں میں بھی ملوث تھا، جس میں چاقو کے زور پر شہریوں کے ساتھ لوٹ مار کرنا بھی شامل ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • نسوارکھانے والے پاکستانیوں کی شامت آگئی

    نسوارکھانے والے پاکستانیوں کی شامت آگئی

    کراچی: عراق میں نسوار کھانے والے پاکستانیوں کی شامت آگئی، عراقی حکومت نے نسوار کو منشیات قرار دے کر کئی پاکستانیوں کو حراست میں لے لیا۔

    تفصیلات کے مطابق عراق میں تعینات پاکستانی سفارتخانہ کے کمیونٹی اتاشی نے ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن کو خط ارسال کیا ہے جس میں سی اے اے کو متنبہ کیا گیا ہے پاکستان سے عراق نسوار کی آمد روکی جائے۔

    پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے ڈی جی سی اے اے کو لکھے گئے خط کی کاپی اے آر وائی نیوز کو موصول ہوگئی ہے اور خط کا متن ہے کہ پاکستان کے تمام ایئرپورٹس سے عراق آنے والے مسافروں کو نسوارکے استعمال کی روک تھام کی جائے بصورت دیگر انہیں عراق پہنچنے پر حراست میں لے لیا جائے گا۔

    ایئر پورٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ نسوار کے خلاف سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے آگاہی مہم بھی شروع کردی گئی ہے جس میں مسافروں کو بتایا جارہا ہے کہ عراق پہنچنے پر نسوار برآمد ہونے کی صورت میں انہیں گرفتاری کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    یاد رہے کہ عراق سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق وہاں کی مقامی انتظامیہ نے کئی پاکستانیوں کو نسوار رکھنے کے جرم میں گرفتار بھی کیا ہے اور ان کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی گئی ہے۔

    نسوار زمین میں اگنے والی تمباکو کی پتیوں سے بنی مصنوعات ہے یہ بغیر دھویں والے تمباکو کی ایک مثال ہے۔ نسوار کا ااستعمال ابتدائی طور پر امریکہ سے شروع ہوا اور یورپ میں 17 ویں صدی سے عام استعمال ہوا۔ یورپی ممالک میں سگریٹ نوشی پر پابندی کے باعث حالیہ برسوں میں اضافہ ہوا ہے۔

    عام طور پر اس کا استعمال ناک، سانس یا انگلی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا میں اس کی شروعات ہونٹ کے نیچے رکھ کر استعمال کرنے سے ہوئی۔ ہیٹی کے مقامی لوگوں سے 1496ء-1493ء میں کولمبس کے امریکہ دریافت کے سفر کے دوران رامون پین نامی راہب نے اسے سیکھا اور عام کیا ۔

    نسوار کا استعمال ہمارے خطے میں زیادہ تر افغانستان، پاکستان، بھارت، ایران،تاجکستان، ترکمانستان اور کرغزستان میں ہوتا ہے، پاکستان میں عموماً اسے پشتون ثقافت کا حصہ سمجھا جاتا ہے تاہم ایسا نہیں ہے بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والے بھی نسوار کثیر تعداد میں استعمال کرتے ہیں اور یہاں اسے نشہ آور یا منشیات تصور نہیں کیا جاتا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • داعش کی شکست کے بعد عراق میں پہلا الیکشن، رہنماؤں سے مایوس عراقیوں کا جوش و خروش

    داعش کی شکست کے بعد عراق میں پہلا الیکشن، رہنماؤں سے مایوس عراقیوں کا جوش و خروش

    بغداد: عراق میں داعش کی شکست کے بعد پہلی بار انتخابات منعقد ہوئے، نئے رہنماؤں سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے عراقیوں نے جوش و خروش کے ساتھ ووٹ ڈالا۔

    تفصیلات کے مطابق آج (بروز  ہفتہ) منعقد ہونے والے انتخابات میں عراقیوں نے ووٹ ڈالتے ہوئے کہا کہ انھیں نئے رہنماؤں سے کچھ زیادہ امید نہیں ہے کہ وہ 2003 میں صدام حسین کے زوال کے بعد کرپشن، خراب اقتصادی حالات اور جنگ سے تباہ حال ملک کو استحکام کے راستے پر گام زن کرسکیں گے۔

    انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد معلوم ہوسکے گا کہ عراق اور مشرق وسطیٰ میں ایران کا کردار کیا رخ اختیار کرتا ہے۔ عراق جو کہ گہری فرقہ وارانہ تقسیم والی جغرافیائی سیاست کا شکار ہے، کو کئی قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ داعش کے خلاف تین سالہ جنگ میں اسے تقریباً سو ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

    خیال رہے کہ عراق کے بڑے شمالی شہر موصل کا بڑا حصہ کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے، ملک میں امن و امان کو تاحال فرقہ وارانہ کشیدگی کے خدشات لاحق ہیں جو 2003 سے 2011 کے امریکی قبضے کے دوران 2006 اور 2007 کی خانہ جنگی میں ابھر کر عروج پر پہنچی تھی۔

    انتخابات میں جیتنے والے امیدواروں کو ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل سے نکلنے کے امریکی صدر کے فیصلے کے عواقب کا بھی سامنا ہوگا، جس نے عراقیوں کو اس خوف میں مبتلا کردیا ہے کہ ان کا ملک واشنگٹن اور تہران کے درمیان تنازعے کے لیے میدان بن سکتا ہے۔

    عراق میں پارلیمیانی انتخابات میں ووٹنگ کا عمل جاری

    وزارت عظمیٰ کے لیے تینوں مرکزی امیدوار حیدر العبادی، نوری المالکی اور شیعہ ملیشیا کے کمانڈر ہادی الامیری شیعہ فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، جنھیں ایران کی حمایت کی ضرورت ہے، خیال رہے کہ خطے میں سب سے بڑی شیعہ طاقت ہونے کے ناطے ایران کو عراق میں اقتصادی اور فوجی کنٹرول حاصل ہے۔

    ایک مقامی عراقی اکسٹھ سالہ قصائی جمال موسوی نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ میں انتخابات میں حصہ لینے جارہا ہوں لیکن کوئی فائدہ نہیں، یہاں کوئی تحفظ نہیں، کوئی ملازمت نہیں، کوئی سروس نہیں۔ امیدوار بس اپنی جیبیں بھرنا چاہتے ہیں، لوگوں کی مدد نہیں کرنا چاہتے۔

    واضح رہے کہ عراق میں اکثریت شیعہ عرب کو حاصل ہے جب کہ سنی عرب اور کرد اقلیت میں ہیں۔ داعش کے خلاف مشترکہ طور پر جدوجہد کے باوجود ان تینوں نسلی اور مذہبی گروہوں کے درمیان تقسیم گہرائی میں موجود ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • عراق میں پارلیمیانی انتخابات میں ووٹنگ کا عمل جاری

    عراق میں پارلیمیانی انتخابات میں ووٹنگ کا عمل جاری

    بغداد : عراق کی عوام کئی برسوں کی خانہ جنگی کے بعد آج پہلی بار پارلیمانی الیکشن میں اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے،عراقی پارلیمنٹ کی 329 نشتوں کے لیے 7ہزار امیدوار الیکشن میں حصّہ لے رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق گذشتہ کئی برسوں سے خانہ جنگی میں گھرا مشرق وسطیٰ کے ملک عراق میں داعش کی شکست کے بعد آج پہلے پارلیمانی انتخابات کا انعقاد ہورہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ عراقی پارلیمنٹ کی 329 نشتوں کے لیے سات ہزار اتحادی جماعتوں اور آزاد امیدواروں نے الیکشن میں حصّہ لیا ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کا کہنا تھا کہ عراق کی عوام گذشہ کئی برسوں سے خانہ جنگی کا شکار تھا اور چار سال داعش سے اپنا دفاع کرنے بعد خود کی تعمیر نو کررہے ہیں۔

    غیر ملکی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ عراق کے پارلیمانی الیکشن مaیں جس کی فتح ہو اسے ملک میں اتحاد قائم کرنے میں فرقہ واریت اور علیحدگی پسندوں کا سامنا رہے گا۔

    برطانوی میڈیا نشریاتی ادارے کا کہنا تھا کہ عراقی پارلیمانی انتخابات کے لیے ووٹنگ کا آغاز صبح چار بجے کیا جائے گا جو شہ پیہر 3 بجے تک جاری گا۔

    واضح رہے کہ عراق کی اکثریت شعیہ اور سنی عوام پر مشتمل ہے اس لیے شہری اپنے حریفوں کی مخالفت میں حق رائے دہی استعمال کریں گے، جبکہ کردوں نے الیکشن میں دینے کے لیے اپنی الگ فہرست تیار کر رکھی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ عراق میں اس وقت شعیہ حکومت ہے جس نے دولت اسلامیہ کے دہشت گردوں کے خلاف فتح حاصل کی اور ملک کی سیکیورٹی کے معاملات کو بہتر کیا، لیکن بیشتر عراقی عوام حکومت نے کرپشن اور ملک کی معاشی بد حالی کے باعث ناراض ہے۔

    خیال رہے کہ عراق میں ایسے وقت میں پارلیمانی الیکشن کا آغاز ہوا جب امریکا نے سنہ 2015 میں ایران کے ساتھ طے ہونے والی ایٹمی ڈیل سے دستبرداری اختیار کرکے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردی ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا عراقی عوام کو خدشہ ہے کہ امریکی صدر کے جوہری معاہدے سے نکل جانے کے بعد امریکا اور ایران کے درمیان ہونے کشیدگی کے باعث دوبارہ ان کا ملک مصیبت کا شکار نہ ہوجائے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • عراق: داعش سے وابستہ 29 غیر ملکی خواتین کو عمر قید کی سزا

    عراق: داعش سے وابستہ 29 غیر ملکی خواتین کو عمر قید کی سزا

    بغداد : عراق کی ملٹری کورٹ نے دولت اسلامیہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے کے جرم میں 19 روسی جبکہ آذربائیجان اور ازبکستان کی 10 خواتین کو عمر قید کی سزا سنا دی۔

    تفصیلات کے مطابق عراق میں سیکیورٹی اہلکاروں نے داعش سے روابط اور رکن ہونے کے شبے میں 19 روسی جبکہ آذربائیجان اور ازبکستان سے تعلق رکھنے والی دس خواتین کو الزام ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ عراق کی سپریم ملٹری کورٹ کے جج نے مذکورہ خواتین کو الزام ثابت ہونے پر سزا سنائی ہے جج نے دوران سماعت کہا کہ ’خواتین نے عراق آکر دہشت گردوں کی معاونت کے لیے داعش میں شمولیت اختیار کی تھی‘۔

    عرب میڈیا کا کہنا تھا کہ 29 مئی کو ہی فوجداری عدالت نے آذربائیجان اور ازبکستان کی بھی دس کو خواتین کو دہشت گردی اور داعش میں شمولیت کے جرم میں عمر قید کی سزائیں دی گئی ہیں، عراقی عدالت سے سزا پانے والی اکثر شدت پسند خواتین کے ہمراہ چھوٹے بچے بھی ہیں۔

    عراقی عدالت کا کہنا تھا کہ عمر قید کی سزا پانے والی خواتین مذکورہ فیصلے کے خلاف درخواست دائر کرنے کا حق رکھتی ہیں۔

    فوجداری عدالت میں خواتین کے خلاف فیصلے کے وقت روسی سفارتکار بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے، سفارتکار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’روسی قونصل خانہ سزا پانے والی خواتین کے والدین سے بات کرکے آگاہ کرے گا‘۔

    یاد رہے کہ سنہ 2014 میں دہشت گرد تنظیم نے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل سمیت ایک تہائی علاقے پر قبضہ کرلیا تھا۔ جسے عراقی افواج اور عوامی رضاکار فورس نے گذشتہ برس آزاد کرواکر فتح کا اعلان کیا تھا۔

    واضح رہے کہ دولت اسلامیہ کے خلاف آپریشن کے دوران 550 سے زائد خواتین اور 600 سے زائد بچوں کو بھی عرقی افواج کی جانب سے داعش سے تعلق اور دہشت گردوں کے رشتہ دار ہونے کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا۔

    عراق کی سپریم ملٹری کورٹ کی جانب سے حراست میں لیے جانے والے خواتین اور بچوں کے خلاف بہت تیزی سے فیصلے کرکے سزائیں سنارہی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق عراقی فورسز نے داعش سے تعلق اور تنظیم کا رکن ہونے کے شبے میں تقریباً 20 ہزار سے زائد افراد کو جیلوں میں قید کیا ہوا ہے، تاہم حکومت کی جانب سے سرکاری سطح پر کسی قسم کے اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے۔

    عرب میڈیا کا کہنا تھا کہ عراق کی فوجداری عدالتیں دولت اسلامیہ سے روابط سے الزام میں درجنوں غیر ملکیوں سمیت 300 سے زائد افراد کو سزائے موت دے چکی ہے۔

    عراق کی فوجداری عدالت کے جج کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت ملک میں دہشت گرد کاررائیوں میں ملوث شدت پسندوں کی معاونت کرنے والے افراد کو بھی سزائے موت دی جائے گی، اگرچہ وہ کسی حملے میں براہ راست ملوث نہ بھی ہوں۔

    غیر ملکی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ عراقی عدالت کی جانب سے سخت فیصلوں کی یہ تازہ کڑی ہے جو دولت اسلامیہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والی غیر ملکی خواتین کے خلاف جاری کیے گئے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • سابق عراقی صدر صدام حسین کا مقبرہ تباہ، جسد خاکی غائب

    سابق عراقی صدر صدام حسین کا مقبرہ تباہ، جسد خاکی غائب

    بغداد: عراقی شہر تکریت میں فضائی بمباری کے نتیجے میں صدام حسین کا مقبرہ تباہ ہوگیا جبکہ ان کا جسد خاکی قبر سے غائب ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سابق عراقی صدر صدام حسین کا مقبرہ فضائی بمباری سے تباہ ہوگیا ہے جبکہ ان کی لاش بھی قبر سے غائب ہے، 28 اپریل کو صدام حسین کی تاریخ پیدائش کے دن ان کی قبر پر زائرین کی بڑی تعداد حاضری دیتی ہے۔

    قبیلے کے سربراہ شیخ مناف نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعے کے وقت وہ جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھے تاہم بمباری کے بعد انکشاف ہوا ہے کہ مقبرہ مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اور قبر کھلی ہوئی تھی جس میں سے لاش غائب ہے۔

    مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی ’ہالا‘ ایک نجی طیارے میں تکریت آئی تھیں اور وہ اپنے والد کی باقیات کو اپنے ساتھ اردن لے گئی تھیں، تاہم سابق عراقی صدر کے قبیلے کے افراد نے اس بات کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدام حسین کی موت کے بعد سے اب تک ان کی بیٹی کبھی عراق واپس نہیں آئی ہیں۔

    مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ صدام حسین کی باقیات کو کسی دوسری جگہ منتقل کردیا گیا ہو لیکن کوئی نہیں جانتا کہ کس نے یہ کام کیا ہے اور لاش کو کہاں منتقل کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ سابق عراقی صدر صدام حسین کو 30 دسمبر 2006 میں پھانسی دی گئی تھی، ان کے جسد خاکی کو اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے حکم پر عراقی شہر تکریت بھیجا گیا تھا، بعدازاں صدام حسین کے آبائی علاقے العوجا میں تدفین کرکے اس پر مقبرہ بنادیا گیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • شام و عراق کے جنگ زدہ علاقوں میں ماحولیاتی تباہی عروج پر

    شام و عراق کے جنگ زدہ علاقوں میں ماحولیاتی تباہی عروج پر

    دمشق: شام میں جاری ہولناک جنگ کو 6 برس مکمل ہوچکے ہیں۔ سنہ 2016 میں اس جنگ میں مرنے والوں کی تعداد کا اندازہ 4 لاکھ کے قریب لگایا گیا تھا۔ عراق میں بھی جاری جنگ میں دہشت گرد تنظیم داعش نے بے شمار شہروں کو تباہ کردیا جبکہ 33 لاکھ کے قریب افراد بے گھر ہوگئے۔

    دونوں ممالک میں ہونے والی جنگوں میں بے تحاشہ جانی و مالی نقصان تو ہوا، تاہم ان جنگوں نے ماحول کو مکمل طور پر برباد کردیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگ زدہ علاقوں میں ماحول کی حفاظت بنیادی ترجیح نہیں ہوتی، تاہم جنگ کے بعد تعمیر نو کے وقت ماحولیاتی بہتری کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

    سنہ 2017 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق عراق داعش کے حملے سے پہلے ہی ماحولیاتی نقصانات کا شکار تھا۔ بعد میں پے در پے ہونے والی جنگوں اور موسمیاتی تغیرات نے عراق کو خشک سالی کا شکار ملک بنا دیا۔

    مزید پڑھیں: تاریخ کا قدیم پھول مرجھا رہا ہے

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ داعش کے حملوں کا بڑا ہدف تیل صاف کرنے کی ریفائنریز تھیں۔ بعد ازاں جب عراقی فورسز نے مقبوضہ علاقوں کو داعش سے خالی کروایا تو انہوں نے تیل کے کنوؤں اور ریفائنریز کو آگ لگادی، کنوؤں اور پائپ لائنوں کو تباہ کردیا جبکہ پانی کو آلودہ کر دیا تاکہ انہیں استعمال نہ کیا جا سکے۔

    نذر آتش کی جانے والی تنصیبات نے آبی ذخیروں کو بھی آلودہ اور ناقابل استعمال بنا دیا ہے۔

    داعش نے شام میں ایک سلفر پلانٹ کو بھی آگ لگائی تھی جس سے خارج ہونے والے زہریلے دھوئیں نے 1 ہزار کے قریب افراد کو اپستال پہنچا دیا۔ بعد ازاں ان میں سے 20 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

    اسی طرح کیمیائی ہتھیار بنانے والے مقامات بھی نہایت غیر محفوظ ہیں جہاں سے خارج ہونے والا دھواں فضا کو طویل عرصے کے لیے زہریلا بنا سکتا ہے۔

    جنگ زدہ علاقوں میں کام کرنے والے ڈچ امن آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ جنگ زدہ علاقوں میں ہر طرف ملبہ بکھرا پڑا ہے جو فضا اور پانی کو آلودہ کر رہا ہے۔ ان میں تباہ شدہ ٹینک اور ایسی گاڑیوں کا ملبہ شامل ہے جن میں کیمایئی ہتھیار رکھے جاتے تھے۔

    مزید پڑھیں: ہولناک جنگوں میں زندہ رہ جانے والا افغانی ہرن

    یہ تمام آلودگی امدادی کارکنوں اور ان افراد کے لیے شدید خطرہ ہے جو اب تک ان علاقوں میں موجود ہیں۔

    ادارے کا کہنا ہے کہ جنگ کے بعد بحالی کے عمل میں بھی ماحولیاتی بہتری پہلی ترجیح نہیں ہوتی۔ سنہ 1990 میں جب لبنان میں جنگ کا خاتمہ ہوا اس کے بعد اب تک وہاں آلودگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

    سنہ 2017 میں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی اسمبلی میں عراقی حکومت کی جانب سے ایک قرارداد پیش کی گئی تھی جس کا مقصد جنگ زدہ علاقوں میں آلودگی کو کنٹرول کرنا تھا۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ماحولیاتی تباہی جنگ کے نقصانات کو دوگنا کردیتی ہے لہٰذا اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    کینیا میں منعقد ہونے والے اس اجلاس میں مذکورہ قرارداد کو منظور کرلیا گیا تھا جس سے نہ صرف عراق اور شام بلکہ مستقبل میں جنگوں اور تنازعوں کا شکار ہونے والے علاقوں میں بھی ماحولیاتی بہتری پر کام کیا جاسکے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔