Tag: IRSA

  • دریاؤں کے بہاؤ اور ڈیموں میں پانی کے ذخیرے کے اعداد و شمار جاری

    دریاؤں کے بہاؤ اور ڈیموں میں پانی کے ذخیرے کے اعداد و شمار جاری

    اسلام آباد : ارسا نے مختلف دریاؤں اور آبی ذخائر میں پانی کی آمد واخراج کے اعداد و شمار جاری کردیے ہیں۔ یکم اپریل سے اب تک 1کروڑ45 لاکھ ایکڑ فٹ پانی سمندر برد ہوچکا ہے۔

    ارسا کی جارہ کردہ رپورٹ کے مطابق دریاؤں میں پانی کا مجموعی بہاؤ6لاکھ 87ہزارکیوسک ہے جبکہ ڈیموں میں پانی کا ذخیرہ 92 لاکھ ایکڑفٹ ہے۔

    دریائے سندھ میں تربیلا پر پانی کی آمد 2 لاکھ 64ہزارکیوسک ہوگئی اور تربیلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ 58 لاکھ ایکڑفٹ ہے، چشمہ بیراج پر پانی کا بہاؤ 5 لاکھ 18 ہزار کیوسک ہے۔

    ارسا رپورٹ کے مطابق دریائے کابل میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے، نوشہرہ میں دریائے کابل میں پانی کا بہاؤ 3لاکھ 18 ہزار کیوسک ہے جبکہ سکھربیراج سے 5 لاکھ 30 ہزار کیوسک کا سیلابی ریلہ گزر رہا ہے۔

    اس کے علاوہ گدو بیراج پر پانی کا بہاؤ 5 لاکھ کیوسک ہے، دریائے جہلم میں منگلاکے مقام پرپانی کی آمد 39ہزارکیوسک ہے، منگلاڈیم سے 10 ہزارکیوسک پانی خارج ہورہا ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ منگلاڈیم میں پانی کا ذخیرہ 34 لاکھ ایکڑفٹ ہے، دریائے چناب میں مرالہ کے مقام پر پانی کا بہاؤ 65 ہزارکیوسک ہے، تریموں بیراج پر پانی کا بہاؤ51 ہزار کیوسک ہے۔

    ارسا کا کہنا ہے کہ پنجند کے مقام پر پانی کی آمد 57 ہزار کیوسک، تونسہ بیراج پر پانی کی آمد 5 لاکھ 67 ہزار کیوسک جبکہ کوٹری بیراج پر پانی کا بہاؤ 3لاکھ38ہزار کیوسک ہے۔

    ارسا کی جارہ کردہ رپورٹ کے مطابق 3لاکھ 38 ہزار کیوسک پانی سمندر برد ہو رہا ہے، یکم اپریل سے اب تک 1کروڑ45 لاکھ ایکڑ فٹ پانی سمندر برد ہو چکا ہے۔

  • ارسا کا کارنامہ، ایک ارب لاگت کا دریائے سندھ پر لگا جدید سسٹم کباڑی لے گیا

    ارسا کا کارنامہ، ایک ارب لاگت کا دریائے سندھ پر لگا جدید سسٹم کباڑی لے گیا

    سکھر: انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے ایک ارب لاگت کا دریائے سندھ پر لگا جدید سسٹم ناکارہ بتا کر کباڑی کے حوالے کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دریائی پانی کی ناپ جدید طریقے سے کرنے کا سسٹم کباڑی کے حوالے کر دیا گیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک ارب سے زائد خرچ کر کے لگایا گیا سسٹم کباڑ میں بیچ دیا گیا۔

    ذرائع کے مطابق دریائے سندھ پر بیراجز پر جدید ٹیلی میٹری سسٹم لگایا گیا تھا، ارسا نے اس سسٹم کو ناکارہ دکھا کر کباڑی کے حوالے کر دیا۔

    ذرائع نے بتایا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک کباڑی کو یہ جدید مشینری صرف ساڑھے 4 کروڑ روپے میں بیچی گئی، جس کے بعد اسے کباڑی اتار کر لے گیا۔

    دریائے سندھ کی نایاب نابینا ڈولفن کی زندگیوں کو خطرہ لاحق

    تونسہ، پنجند، گڈو، سکھر اور کوٹری بیراجز سے سسٹم کا سامان کباڑی لے گئے۔

    واضح رہے کہ صوبوں کے درمیان پانی کے اعداد شمار پر ہمیشہ تنازع رہا ہے، اس تنازع کا واحد حل پانی کی مقدار کی ناپ جدید تریقے سے کرنے کی ضرورت ہے، اس سسٹم کو بحال کرنے کی بجائے کباڑ میں بدل دیا گیا۔

  • سندھ نے بیراجوں پر غیر جانب دار مبصرین کی تعیناتی سے معذرت کر لی

    سندھ نے بیراجوں پر غیر جانب دار مبصرین کی تعیناتی سے معذرت کر لی

    کراچی: صوبہ سندھ نے اتفاق رائے کی عدم موجودگی میں بیراجوں پر غیر جانب دار مبصرین کی تعیناتی سے معذرت کر لی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاملہ حل نہیں ہو سکا، سندھ نے بیراجوں پر غیر جانب دار مبصرین کی تعیناتی سے معذرت کر لی، سندھ حکومت کا مؤقف ہے کہ اتفاق رائے کے بغیر تعیناتی بے مقصد ہوگی۔

    سندھ حکومت نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ نہ ہم غیر جانب دار مبصرین تعینات کریں گے، نہ ڈیٹا لینے دیں گے۔

    خیال رہے کہ ارسا (انڈس ریور سسٹم اتھارٹی) نے پانی اخراج کی صحیح رپورٹنگ کے لیے مبصرین کی تعیناتی کی تجویز دی تھی، پنجاب اور ارسا کا مؤقف تھا کہ غیر جانب دار مبصرین کے بغیر غلط فہمیاں دور نہیں ہوں گی۔

    لاہور ارسا کے حکم پر واپڈا کو پانی کے اخراج سے متعلق ڈیٹا لینے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، تاہم اب سندھ حکومت نے اس سلسلے میں اپنے مؤقف سے ارسا اور وزارت توانائی کو آگاہ کر دیا، جس پر ذرائع نے بتایا کہ پنجاب حکومت کا مؤقف ثابت ہو گیا ہے کہ سندھ حکومت پانی کا معاملہ حل نہیں کرنا چاہتی۔

    پنجاب نے سندھ کا ایک کیوسک پانی بھی چوری نہیں کیا، رپورٹ میں انکشاف

    واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنما مسلسل پنجاب پر سندھ کا پانی چوری کرنے کا الزام لگاتے آ رہے ہیں، تاہم 2 جون کو پنجاب کی تین رکنی ماہر ٹیم کی جانب سے ارسا کو بھجوائی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پنجاب نے سندھ کا ایک کیوسک پانی بھی چوری نہیں کیا، رپورٹ میں کہا گیا کہ سکھر بیراج پر بھی پانی کی آمد ہوئی تھی لیکن اس کے اخراج کا ڈسچارج ٹیبل ہی نہیں فراہم کیا گیا۔

    رپورٹ کے مطابق پنجاب کی 3 رکنی ٹیم نے صوبہ سندھ میں کشمور کے قریب دریائے سندھ پر واقع گدو بیراج کے بعد سکھر بیراج کا بھی معائنہ کیا تھا، لیکن سکھر بیراج پر عملہ پانی کا ڈسچارج ٹیبل فراہم نہ کر سکا، ارسا کو دی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ سکھر بیراج کی پانی ناپنے والی گیج خراب پائی گئی اور وہ مٹی میں دبی ہوئی تھی، بیراج سے نکلنے والی دادو کینال کے ہیڈ کاگیج ویل بھی مٹی سے بھرا پایا گیا۔

  • پنجاب نے سندھ کا ایک کیوسک پانی بھی چوری نہیں کیا، رپورٹ میں انکشاف

    پنجاب نے سندھ کا ایک کیوسک پانی بھی چوری نہیں کیا، رپورٹ میں انکشاف

    لاہور: پنجاب کی تین رکنی ماہر ٹیم کی جانب سے ارسا کو بھجوائی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پنجاب نے سندھ کا ایک کیوسک پانی بھی چوری نہیں کیا، اس سلسلے میں پنجاب نے ارسا کو ساری تفصیلات مفصل رپورٹ کی صورت میں دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق صوبوں میں پانی کی تقسیم کے معاملے پر ان دنوں پھر تنازع سر اٹھا چکا ہے اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اس پر تلخ بیانات سامنے آ رہے ہیں، اس سلسلے میں پنجاب کی ارسا کو بھجوائی گئی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ گدو کے بعد سکھر بیراج پر بھی پانی کی آمد ہوئی ہے لیکن اس کے اخراج کا ڈسچارج ٹیبل ہی نہیں فراہم کیا گیا۔

    رپورٹ کے مطابق پنجاب کی 3 رکنی ٹیم نے صوبہ سندھ میں کشمور کے قریب دریائے سندھ پر واقع گدو بیراج کے بعد سکھر بیراج کا بھی معائنہ کیا تھا، لیکن سکھر بیراج پر عملہ پانی کا ڈسچارج ٹیبل ہی فراہم نہ کر سکا۔

    ارسا کو دی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سکھر بیراج کی پانی ناپنے والی گیج خراب پائی گئی اور وہ مٹی میں دبی ہوئی تھی، بیراج سے نکلنے والی دادو کینال کے ہیڈ کاگیج ویل بھی مٹی سے بھرا پایا گیا۔

    ارسا نے واٹر اکاؤنٹ تیار کر لیا، پنجاب اور سندھ کے حصے میں 6 ہزار کیوسک کا اضافہ

    واضح رہے کہ ارسا نے نیسپاک کو کنسلٹنٹ مقرر کر کے پانی ناپنے کے فارمولے طے کیے تھے، پنجاب کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ اس فارمولے پر عمل درآمد نہیں کر رہا۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانی کی تقسیم کے سلسلے میں پنجاب کا مؤقف ٹھیک نکلا ہے، پنجاب کا مؤقف تھا کہ سندھ مس رپورٹنگ کر رہا ہے، پنجاب نے سندھ کا ایک کیوسک پانی بھی چوری نہیں کیا۔

  • تمام صوبوں میں پانی کی یکساں فراہمی کی جارہی ہے، ترجمان ارسا

    تمام صوبوں میں پانی کی یکساں فراہمی کی جارہی ہے، ترجمان ارسا

    اسلام آباد : ترجمان ارسا کا کہنا ہے کہ ملک کے کسی بھی صوبے کے ساتھ پانی کی فراہمی میں امتیاز نہیں برتا جا رہا، سندھ اور پنجاب کو پانی کی یکساں قلت کا سامنا ہے۔

    اپنے جاری بیان میں ترجمان ارسا کا کہنا ہے کہ کسی صوبے کے ساتھ پانی کی فراہمی میں امتیاز نہیں برتا جارہا، صوبہ سندھ اور پنجاب کو  پانی کی 18 فیصد قلت کا سامنا ہے۔

    ترجمان ارسا کے مطابق27اپریل سے5 مئی تک تربیلا ڈیم اور چشمہ بیراج ڈیڈ لیول پر تھے،6مئی کے بعد سے آبی صورتحال میں بہتری آنا شروع ہوئی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ صوبہ سندھ کی درخواست پر چشمہ سے اخراج 5000 کیوسک بڑھا دیا گیا، چشمہ سے سندھ کو66000کے بجائے 71000کیوسک پانی مل رہا ہے۔

    علاوہ ازیں وزیر آبپاشی پنجاب محسن لغاری نے کہا کہ اس وقت سندھ کو صرف چار فیصد جبکہ پنجاب کو16فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے ، میرے اپنے علاقے میں بھی پانی کی کمی ہے۔

    وزیر آبپاشی پنجاب کا کہنا ہے کہ سندھ والے اپنے پانی کی رپورٹنگ درست نہیں کرتے ،سندھ والے بھائی بارشوں کے پانی کو بھی رپورٹ نہیں کرتے، اسی پانی کو مینج کرنا ہے اس کی فیکٹری نہیں لگائی جاسکتی۔

    محسن لغاری نے کہا کہ سندھ اور پنجاب میں پانی کی برابر تقسیم ہونی چاہئے، جہلم اور چناب میں پانی کی کمی رپورٹ ہوئی ہے، آج پانی کی کمی ہے کسی کا حصہ نہیں ما ر رہے ، ہمارا ارسا سے مطالبہ ہے کہ ہمیں ہمارے حصہ کا مکمل پانی دیا جائے۔

    دوسری جانب پیپلزپارٹی کے رہنماء سہیل انور سیال کا کہنا ہے کہ ارسا حکام کسی صوبے کو پانی سےمحروم نہیں رکھ سکتے، ارسا کا دعویٰ غلط ہے سندھ کو 71ہزار کیوسک پانی مل رہاہے۔

    انہوں نے کہا کہ سندھ کو تقریباً 28 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے، ارسا کا دعویٰ غلط ہےپانی تقسیم معاہدے1991 کےتحت ہورہی ہے، سندھ اپنے اعداد و شمار سب سے شیئرکرتا ہے۔ پیپلزپارٹی ملک میں پانی کی منصفانہ تقسیم کی خواہاں ہے۔

  • عمر کوٹ، سانگھڑ، ٹھٹھہ اور کوہستان کے 30 موضعات قحط زدہ قرار

    عمر کوٹ، سانگھڑ، ٹھٹھہ اور کوہستان کے 30 موضعات قحط زدہ قرار

    اسلام آباد: سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے قلت آب کے اجلاس میں صوبہ سندھ کے عمر کوٹ، سانگھڑ، ٹھٹھہ اور کوہستان کے 30 موضعات کو قحط زدہ قرار دے دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے قلت آب کا اجلاس سینیٹر مولا بخش چانڈیو کی زیر صدارت ہوا۔

    اجلاس میں اراکین نے 6 ستمبر پر افواج پاکستان اور شہدا کو سلام عقیدت پیش کیا۔ قائمہ کمیٹی کا کہنا تھا کہ دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں مسلح افواج کا کردار قابل فخر ہے، ہمیں اپنی مسلح افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور قربانیوں پر فخر ہے۔

    سیکریٹری آبی وسائل شمائل خواجہ نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے دریاؤں میں137 ایکڑ فٹ پانی آتا ہے، ہم ایک کروڑ 37 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ملک میں 35 سے 36 دن کا پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں، بھارت 320 دن کا پانی کا ذخیرہ کر سکتا ہے، صوبوں نے 2030 تک مزید 10 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرے پر اتفاق کیا۔

    سیکریٹری نے بتایا کہ 263 بلین ڈیموں کی تعمیر کے لیے مختص کیے گئے ہیں، 90 سے 95 فیصد پانی نہروں کے ذریعے آبپاشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، نہروں کے ذریعے 50 فیصد کنوینس لاسز ہیں۔ کنوینس لاسز میں سے 30 فیصد پانی آسانی سے بچایا جا سکتا ہے۔

    سینیٹر اور چیئرمین کمیٹی مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ مسئلے نے ملک کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سیکریٹری نے کہا کہ میں اپنی کوتاہی کا اعتراف کروں گا کچھ پوشیدہ نہیں رکھوں گا، کچھی کینال پر 80 ارب روپے خرچ کیے گئے۔

    انہوں نے کہا کہ جب تک صوبے اور وفاق مل کر سائن نہیں کریں گے میں دستخط نہیں کروں گا، بلوچستان کے آبپاشی کے نظام کے لیے مربوط منصوبہ بنا رہے ہیں۔ بلوچستان حکومت کو کہا ہے ایک بڑی اسکیم لائیں۔

    کمیٹی کی جانب سے کہا گیا کہ دراوٹ اور کچھی کینال منصوبے پر الگ سے بریفنگ دیں۔

    انڈس ریور سسٹم اتھارٹی سندھ (ارسا) کے نمائندے نے کمیٹی کو بتایا کہ ارسا میں 4 ممبران ایک طرف اور میں ایک طرف ہوتا ہوں، ارسا ایکٹ میں فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ مشرف دور میں قانون بنایا گیا تھاچیئرمین ارسا سندھ سے ہو۔

    اجلاس میں سینیٹر سسی پلیجو ممبرسندھ ارسا پر برس پڑیں۔ انہوں نے کہا کہ کہا جاتا ہے پانی ضائع ہو رہا ہے کہاں ضائع ہو رہا ہے؟ اگر ممبرسندھ ارسا کی بات نہیں مانی جاتی تو وہ سیٹ چھوڑ دیں۔ ’آپ کی وجہ سے سندھ نے نقصان اٹھایا ہے‘۔

    اجلاس میں سندھ کے عمر کوٹ، سانگھڑ، ٹھٹھہ اور کوہستان کے 30 موضعات کو قحط زدہ قرار دے دیا گیا۔

  • ملک میں 138 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے، اسٹوریج کی گنجائش صرف 13.7 ملین ایکڑ فٹ ہے، ارسا

    ملک میں 138 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے، اسٹوریج کی گنجائش صرف 13.7 ملین ایکڑ فٹ ہے، ارسا

    اسلام آباد: ارسا (انڈس ریور سسٹم اتھارٹی) نے کہا ہے کہ ملک میں 138 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے جب کہ ہمارے پاس 13.7 ملین ایکڑ فٹ پانی اسٹوریج کی گنجائش ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈیموں کی تعمیر سے متعلق سپریم کورٹ میں جاری کیس کی سماعت کے دوران ارسا نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں دو نئے ڈیم بننے کی ضرورت ہے۔

    ارسا نے سپریم کورٹ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں دو نئے ڈیموں کے بننے سے مزید 7 ملین ایکڑ فٹ پانی جمع کرنے کی گنجائش پیدا ہوجائے گی۔

    انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے مطابق ملک کی ضرورت 25 ملین ایکڑ فٹ کی ہے، تاہم فوری طور پر دو ڈیم بننے کے بعد ہر 10 سال بعد نیا ڈیم بننےسے فائدہ ہوگا۔

    ارسا کی طرف سے عدالت کو دی جانے والی بریفنگ میں کہا گیا کہ 1976 میں تربیلہ ڈیم مکمل کیا گیا تھا جس کے بعد پھر نئے ڈیم کی تعمیر شروع ہونی چاہیے تھی لیکن 1990 میں نئے ڈیم بننے کی بات کی گئی، دراصل پانی کا مسئلہ کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔

    ارسا کی بریفنگ پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے سیکریٹری خزانہ سے استفسار کیا کہ قوم ڈیموں کی تعمیر سے متعلق مدد کرنا چاہتی ہے، کیا قانون ہمیں ڈیمز کے لیے عطیات لینے کی اجازت دیتا ہے؟

    ہم رہیں نہ رہیں، ڈیم ضرور بنے گا، چیف جسٹس


    قبل ازیں ڈیموں کے لیے قرضہ لینے کے سوال پر سیکریٹری خزانہ نے کہا تھا کہ ہم پہلے ہی اندرونی اور بیرونی قرضوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں، چیف جسٹس کے استفسار پر انھوں نے کہا کہ آئین کسی مخصوص کام کے لیے اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت دیتا ہے۔

    سیکریٹری خزانہ نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت سالانہ 170 روپے فی ایکڑ وصول کیا جاتا ہے، زرعی ادویات کی قیمتیں بھی 1900 روپے فی ایکڑ تک پہنچ چکی ہیں، صوبوں کو 1500 روپے فی ایکڑ آبیانہ وصول کرنے کا حکم دیا جائے تو 70 ارب سالانہ جمع ہوں گے جس سے 10 سال بعد نیا ڈیم بنایا جاسکتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • قلت آب کا سامنا‘ سندھ ، بلوچستان کو پانی فراہم کرے گا

    قلت آب کا سامنا‘ سندھ ، بلوچستان کو پانی فراہم کرے گا

    لاہور:  بلوچستان  میں پانی کی کمی پر قابو پانے کے لئے ارسا نے صوبہ سندھ سے پانی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، پانی کی قلت کے سبب شارٹ ٹرم حل نکالا ہے.

    انڈس ریو سسٹم اتھارٹی کی فنی کمیٹی ” ارسا” کے ترجمان خالد رانا کے مطابق بلوچستان کے لئے 5 اپریل تک سندھ سے پانی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، سندھ اور بلوچستان کے معاملے پر شارٹ ٹرم حل نکالا ہے، مشترکہ مانیٹرنگ کمیٹی ارسا کے زیراثرکام کرے گی.

    ایڈ وائزری کمیٹی کےاجلاس میں صوبائی نمائندے شریک ہوئے، ربیع میں ایک سے 15 ایم اے ایف پنجاب کو پانی کم ملا ہے جبکہ سندہ کو 11 سے 56 ایم اےایف پانی کم ملا ہے.

    مارچ کے آخری 2 ہفتوں میں پانی میں کمی آئی ہیں، انہوں نے کہا کہ ڈی جی میٹ نے بتایا ہے کہ اپریل میں موسم کےچھوٹے اسپیل موجود ہیں.

     خریف کے اوائل میں 27 سے 63 ایم اے ایف پانی ملے گا،  خریف میں کے اواخر میں  82 فیصد سے زائد پانی ذخائرمیں ہوگا، خریف میں پانی کی کمی 18 فیصد ہوگی، خریف میں کل 67 ایم اے ایف پانی صوبوں میں تقسیم ہوگا.

    آج سے صوبوں کو مطالبے کےمطابق پانی دیں گے، دریائے سندھ پر لائین لاسز کو مکمل کرنے پر اتفاق ہواہے۔

    پانی کی قلت:ارسا نے ہنگامی اجلاس

    ڈیموں میں پانی کی قلت اور ارسا کا ہنگامی طلب کیا تھا، س میں چاروں صوبائی حکومتوں کے نمائندے شریک ہوئے.

  • ملک میں پانی کی کمی کا ذمہ دار بھارت نہیں، چیئرمین ارسا

    ملک میں پانی کی کمی کا ذمہ دار بھارت نہیں، چیئرمین ارسا

    اسلام آباد : انڈس ریور اتھارٹی سسٹم (ارسا) کے چیئر مین راؤ ارشاد نے کہا ہے کہ ملک میں پانی کی کمی کا ذمہ دار بھارت نہیں ہے۔

    انہوں نے میڈیا پر چلنے والی ان خبروں کی تردید کی جس میں پاکستان میں پانی کی کمی کا ذمہ دار بھارت کو ٹھہرایا گیاہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینیٹ کے اجلاس میں کیا۔

    سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کا اجلاس جمعرات کو اسلام آباد میں ہوا، جس کی صدارت ظفر اقبال جھگڑا نے کی،  اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے راؤ ارشاد نے کہا کہ بھارت کو جو پانی انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت مختص کیا گیا ہے بھارت اس سے بھی کم پانی استعمال کررہا ہے۔

    واضح رہے کہ انڈس واٹر ٹریٹی پاک بھارت کے درمیان وہ معاہدہ ہے کہ جس میں 1960 میںورلڈ بینک نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔

    راؤ ارشاد کا کہنا تھا کہ میڈیا کی رپورٹس کے مطابق  بھارت پاکستان کا پانی استعمال کر رہا ہے جو کہ بالکل غلط ہے، کیونکہ بھارت اپنے حصے سے بھی کم پانی استعمال کر  رہا ہے۔

    اجلاس کے دوران کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ کے الیکٹرک کا آڈٹ کرایا جائے، تاکہ اس ادارے کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکے۔