Tag: ISB high court

  • فواد چوہدری کی اہلیہ نے سرچ وارنٹ پر سوال اٹھا دیا

    اسلام آباد : تحریک انصاف کے مرکزی رہنما فواد چوہدری کی اہلیہ حبا چوہدری نے کہا ہے کہ پولیس سرچ وارنٹ کے بہانے گھر سے کوئی بھی غیرقانونی چیز کی برآمدگی ظاہر کردے گی۔

    پولیس کی جانب سے سرچ وارنٹ کے حوالے سے حبا فواد کا کہنا تھا کہ سرچ وارنٹ کے بار بار اصرار پر خدشہ ہے کہ کوئی چیز ڈال کر کہیں گے کہ گھر سے برآمد ہوئی۔

    یہ بات انہوں نے فواد چوہدری کی عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری کو دہشت گردوں کی طرح عدالت لایا جاتا ہے، پولیس بار بارفواد چوہدری کے منہ پر کپڑا ڈال کرلاتی ہے، اس عمل کو روکا جائے۔

    حبا فواد کا کہنا تھا کہ میری بچیاں گھر میں موجود ہیں اور کہا جارہا ہے سرچ وارنٹ دیا جائے، خدشہ ہے کہ کوئی چیز ڈال کرکہیں گے کہ یہ گھر سے برآمد ہوئی، جس طرح اعظم سواتی، شہبازگل کےساتھ ہوا وہی فواد کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔

    انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ صبح 8بجے سے عدالت میں موجود ہیں ابھی تک فواد سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کی کال آئی تھی وہ ایک ایک چیز کو مانیٹر کررہے ہیں۔

  • پی ٹی آئی کی ریلی کو اجازت کون دے گا؟ عدالت کا تحریری فیصلہ

    پی ٹی آئی کی ریلی کو اجازت کون دے گا؟ عدالت کا تحریری فیصلہ

    اسلام آباد : عمران خان کا ہیلی کاپٹر اتارنے اور ریلی گزرنے کی اجازت دینے کے معاملے پر اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاملہ انتظامیہ کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔

    تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا حقیقی آزادی مارچ کے جلسے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سے ریلی گزارنے اور ہیلی کاپٹر اتارنے کی اجازت کی پی ٹی آئی کے درخواست پر تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے چار صفحات پر مشتمل تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ قانون کے مطابق ڈپٹی کمشنر اس حوالے سے مجاز اتھارٹی ہے۔

    عدالت کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر کو اجازت نامہ جاری کرنے کی ہدایت نہیں دے سکتے، این او سی جاری کرنے سے متعلق مجاز اتھارٹی نے ہی فیصلہ کرنا ہے

    تحریری فیصلہ یہ سوال کیا گیا ہے کہ کیا یہ عدالت مجاز اتھارٹی کو ہدایات دے سکتی ہے ؟ جس پر پی ٹی آئی کے وکیل عدالت کو مطمئن نہ کر سکے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے  تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت توقع کرتی ہے ڈپٹی کمشنر قانون کے مطابق پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ کریں گے۔

    مزید پڑھیں : پی ٹی آئی رہنما کا حقیقی آزادی مارچ میں جانے کا انوکھا انداز

    واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے حقیقی آزادی مارچ کے موقع پر ملک بھر سے قافلوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، تحریک انصاف کے ووٹر سپوٹرز اور کارکنان کی بڑی تعداد جلسہ گاہ کا رخ کررہی ہے۔

  • شہری کے گھرکے باہر سے 22سال بعد ٹرانسفارمر ہٹانے کا عدالتی حکم

    شہری کے گھرکے باہر سے 22سال بعد ٹرانسفارمر ہٹانے کا عدالتی حکم

    اسلام آباد : عدالت میں اسلام آباد کے ایک شہری نے 22سال بعد اپنے گھر کے باہر سے ٹرانسفارمر ہٹانے کا کیس جیت لیا، آئیسکو کو ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں 22سال سے جاری کیس کی سماعت ہوئی جس کا بالآخر فیصلہ آہی گیا، شہری کو 22سال بعد انصاف مل گیا۔

    ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے جی ٹین اسلام آباد کے رہائشی محمد یونس ملک کی درخواست پر فیصلہ جاری کیا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک ماہ میں شہری کے گھر کے باہر سے ٹرانسفارمر ہٹانے کا حکم دے دیا, عدالت کی جانب سے آئیسکو پر ایک لاکھ روپےجرمانہ عائد کیا گیا ہے۔

    عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بنیادی حقوق متاثر ہونے پر آئیسکو شہری کو ایک لاکھ روپے جرمانہ ادا کرے، سی ڈی اے اور آئیسکو ٹرانسفارمر کیلئے نئی جگہ کا انتخاب کریں۔

    تحریری فیصلہ میں محکمہ کو حکم دیا گیا ہے کہ 30روز میں ٹرانسفارمر کو نئی جگہ منتقل کیا جائے، عمل درآمد رپورٹ ڈپٹی رجسٹرار ہائیکورٹ کے پاس جمع کرائیں۔

    درخواست گزار محمد یونس ملک کے مطابق وہ اوورسیز پاکستانی ہے اور بیرون ملک ملازمت کرتا ہے، بیرون ملک ہونے پر میری غیرموجودگی میں آئیسکو نے گھرکے باہر ہیوی ٹرانفسارمر نصب کردیا۔

    درخواست گزار کے مطابق ٹرانسفارمر عین گھر کے دروازے کے باہر لگنے سے میرے اہل خانہ کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔

    فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کے مطابق آئیسکو نے ٹرانسفارمر ہٹانے کیلئے چارجز مانگے، چارجز مانگنے پر سائل کی درخواست پر وفاقی محتسب نے آئیسکو کو مسئلہ حل کرنے کا حکم دیا۔

    عدالت کا کہنا ہے کہ نیپرا نے 27 دسمبر 2018 کو سائل کی درخواست مسترد کردی تھی، آئیسکو نے بتایا کہ ٹرانسفارمر سی ڈی اے کے منظور شدہ پلان کے مطابق نصب کیا گیا۔

    آئیسکو پلان عدالت میں پیش نہ کرسکا اور بتایا کہ پلان1980 میں منظور ہوا تھا جس وقت آئیسکو موجود نہ تھا, سی ڈی اے نے بتایا کہ مذکورہ ٹرانسفارمر کی تنصیب سی ڈٖی اے پلان کی خلاف ورزی ہے۔

  • اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات ملتوی، عدالت کا حکم جاری

    اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات ملتوی، عدالت کا حکم جاری

    اسلام آباد : وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کردیے گئے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ الیکشن کمیشن 65 روز میں نئی حلقہ بندیاں کر کے الیکشن شیڈول کا اعلان کرے۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق ن لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی درخواست پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔

     چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہرمن اللہ نے درخواست کی سماعت کی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن 2ماہ کے عرصے میں اسلام آباد میں الیکشن کرواسکتا ہے؟

    چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت سے الیکشن کمیشن کو کیا احکامات چاہییں؟ الیکشن کمیشن 101 یونین کونسلز کی حلقہ بندی مکمل کرے۔

    الیکشن کمیشن کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ پہلے نئی حلقہ بندیاں کریں گے پھر بلدیاتی انتخابات کا شیڈول دیں گے، عدالت وفاقی حکومت کو بلدیاتی انتخابات کے لیے تعاون کا حکم دے۔

    الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ60 دن میں نئی حلقہ بندیاں کرکے اگلے الیکشن شیڈول کا اعلان کریں گے، حکومتیں بلدیاتی انتخابات میں رکاوٹیں ڈالتی ہیں عدالت وفاقی حکومت کو بلدیاتی انتخابات کی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کا حکم دے۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ انتخابات روکنے کی تمام درخواستیں تو غیرمؤثر ہوگئیں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے احکامات کے ساتھ درخواست کو نمٹا دیا۔

  • کاون ہاتھی کی رہائی: اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کی گونج امریکی عدالت میں

    کاون ہاتھی کی رہائی: اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کی گونج امریکی عدالت میں

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے چڑیا گھر میں 35 برس سے قید تنہائی گزارنے والے کاون ہاتھی سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کی گونج امریکی عدالت میں سنائی دی۔

    تفصیلات کے مطابق جانوروں کے حقوق سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے کی عالمی سطح پر پذیرائی کی جارہی ہے۔

    اسلام آباد کے چڑیا گھر میں 35 برس سے قید تنہائی گزارنے والے کاون ہاتھی سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا امریکی عدالتی فیصلے میں تذکرہ کیا گیا۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے جانوروں کے حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے کاون ہاتھی کی کمبوڈیا منتقلی کا غیر معمولی فیصلہ دیا تھا۔

    اسٹیٹ آف نیو یارک کورٹ آف اپیلز کے 14 جون کے فیصلے میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے کا تذکرہ کیا گیا، امریکی عدالتی فیصلے میں چیف جسٹس کے فیصلے کا ایک پیراگراف نئے سرے سے لکھ کر شامل کیا گیا۔

    مذکورہ پیراگراف میں لکھا گیا تھا کہ بلاشبہ جانور بھی حساس وجود رکھتے ہیں، ان کے بھی جذبات ہوتے ہیں، جانور بھی خوشی غمی کے لمحات محسوس کر سکتے ہیں۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ہر قسم کے جانوروں کی قدرتی طور اپنی اپنی رہنے کی جگہیں ہیں، جانور کی اپنی ضرورت کے مطابق ان کو ماحول درکار ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ قدرتی ماحول کے برعکس ایک ہاتھی کو دوسرے ہاتھیوں سے الگ کر کے اکیلے کیسے رکھا جا سکتا ہے، قدرتی طور پر جانوروں کے بھی حقوق ہیں اور وہ ان کو ملنے چاہئیں، جانوروں کا حق ہے کہ وہ اپنی قدرتی ضروریات پوری کرنے والے ماحول میں رہیں۔

  • ادارے اپنا کام کریں تو ایسی پٹیشنز عدالتوں میں نہ آئیں، چیف جسٹس

    ادارے اپنا کام کریں تو ایسی پٹیشنز عدالتوں میں نہ آئیں، چیف جسٹس

    اسلام آباد ہائی کورٹ میں شیریں مزاری گرفتاری کیس کی سماعت ہوئی، اس موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ تمام ادارے کام کریں تو ایسی پٹیشنز عدالتوں میں نہ آئیں۔

    سماعت کے موقع پر شیریں مزاری کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہوئی جب ولید اقبال کے گھرگئے، عدالت کے احکامات پنجاب کی اتھارٹیز کو بھی بھجوائے گئے ہیں۔

    چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ معاملہ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو بھجوایا گیا، پہلے یہ سارے کام نہیں کرتے جب اپوزیشن میں آتے ہیں تو کیس عدالت لے آتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس طرح کی باتوں سے جمہوریت غیر فعال ہوجاتی ہے، تمام ادارے کام کریں تو ایسی پٹیشنز عدالتوں میں نہ آئیں، سیاسی لڑائیوں میں بھول جاتے ہیں کہ حلقے کے عوام کو جوابدہ ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھ کر بات نہیں کریں گی توعدالت کیا کرے؟ حکومت کا کام ہے، یہ بھی سوشل میڈیا پر طعنے ہی دیتے ہیں، عدالت فیصلہ دیتی ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔

    ان کا کہنا تھا کہ سب نے مل کر اپنا اپنا آئینی کردار ادا کرنا ہے، شیریں مزاری کوعدالت کے دائرہ اختیار سےغیر قانونی طور پر اٹھایا گیا، یہ کورٹ یہی فیصلہ دے سکتی ہے نا کہ ان کو غیرقانونی طریقے سے اٹھایا گیا۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ حکومتی عہدیدار بھی کام کے بجائے سوشل میڈیا پر طعنے دیتے رہے، آج بھی یہی ہو رہا ہے، شیریں مزاری واحد رکن قومی اسمبلی نہیں جن کے ساتھ یہ سب ہوا۔

  • عدالت نے نواز شریف کو سفارتی پاسپورٹ کے اجراء کیخلاف درخواست مسترد کردی

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق معزول وزیر اعظم نوازشریف کو ڈپلومیٹک پاسپورٹ جاری کرنے سے روکنے کی درخواست پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا گیا۔

    عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی جس میں درخواست گزار کا مؤقف تھا کہ نواز شریف ایک اشتہاری مجرم ہے، حکومت کو ڈپلومیٹک پاسپورٹ جاری کرنے سے روکا جائے۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت نے کوئی آرڈر پاس کیا ہے ؟ عدالت نے درخواست قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ اس کا فیصلہ آج ہی سنایا جائے گا، وفاقی حکومت نے کونسا آرڈر پاس کیا ہے؟ وکیل نے کہا کہ یہ درخواست وفاقی حکومت کے پاس بھیج دیں۔

    جس کے جواب میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ غیر ضروری چیزوں کو کیسے بھیج دوں؟ کیوں نہ آپ کی درخواست کو جرمانے کے ساتھ خارج کر دوں؟

    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نےمحفوظ فیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے نواز شریف کو ڈپلومیٹک پاسپورٹ جاری کرنے سے روکنے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی اور پٹیشنر وکیل پر5 ہزار روپے جرمانہ عائد کردیا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ محض اخباری تراشوں کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے، سزا یافتہ اشتہاری کے لیے لازم ہے کہ وہ جیل جاکر سرنڈر کرے۔

    عدلت نے قرار دیا کہ ہم شک نہیں کرسکتے کہ حکومت سپریم کورٹ کے طے شدہ اصولوں کے خلاف جائے گی، درخواست کے ساتھ کوئی ٹھوس مواد موجود نہیں، لہذا درخواست غیر ضروری قرار دے کر خارج کی جاتی ہے۔

    یاد رہے 3 روز قبل وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد وزیراعظم شہبازشریف نے بڑے بھائی میان نوازشریف کو سفارتی پاسپورٹ اور اسحاق ڈار کو عام پاسپورٹ جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔ لندن میں پاکستانی مشن کو دونوں پاسپورٹ جاری کرنے کے احکامات دیے گئے۔

    ذرائع کے مطابق نواز شریف اور اسحاق ڈار کے پاسپورٹ کی معیاد ختم ہو چکی ہیں۔ اسحاق ڈار کا پاسپورٹ ساڑھے تین سال قبل منسوخ کرا دیا گیا تھا ۔

  • عمر امین گنڈاپور کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی

    عمر امین گنڈاپور کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی

    پی ٹی آئی رہنما عمر امین گنڈا پور کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنا دیا گیا،  اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمرامین گنڈاپور کو بھی الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔ان کو 5 سال کے لئے نااہل قرار دیا گیا تھا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے درخواست کی  سماعت کی، عمرامین گنڈا پور کی جانب سے سینئر قانون دان بیرسٹر علی ظفر اور چوہدری اشرف گجر عدالت میں پیش ہوئے، درخواست میں الیکشن کمیشن، چیف الیکشن کمشنر، ریجنل الیکشن کمشنر اور سینیٹر کامران مرتضیٰ کو بھی فریق بنایا ہے۔

    درخواست کی سماعت کے دوران درخواست گزار  وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن شفافیت کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہا، قانون کے مطابق شک کا فائدہ امیدوار کو ملنا چاہیے تھا، سمری انکوائری کے بغیر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمر امین گنڈاپور کی درخواست منظور کرلی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلہ سنا دیا، جس کے مطابق عمرامین گنڈاپور کو بھی الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی۔

    اس کے علاوہ صوبائی وزیر کے پی شاہ محمد خان کی نااہلی سے متعلق بھی فیصلہ سنا دیا گیا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے شاہ محمد کی نااہلی کیخلاف الیکشن کمیشن کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دے دیا۔

    الیکشن کمیشن نے وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کے بھائی عمر امین گنڈا پور کو ڈیرہ اسمعٰیل خان کے سٹی میئر کے الیکشن کے لیے نااہل قرار دیا ہے، الیکشن کمیشن نے عمر امین گنڈا پور کو 5 سال کے لئے نااہل قرار دیا، درخواست گزار کو کبھی بھی ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر اور الیکشن کمیشن کی طرف سے کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔

    کسی امیدوار کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کے مترادف ہے، شکایت کنندہ میں سے کسی بھی حلقے کا ووٹر رہائشی ہونے کی ریکارڈ پر کوئی شکایت نہیں ہے، کسی امیدوار کو نااہل قرار دینے کا انتہائی تعزیری اقدام آئین کے آرٹیکل 4 اور 10-اے کی سنگین خلاف ورزی ہو گا۔

    جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ مبہم اور عمومی نوعیت کے ہیں بغیر کسی خاص تفصیل کے ہیں، الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 234 کی دفعات کو الیکشن کمیشن کے حکام نے قانون کی روح کو پامال کرتے ہوئے غلط استعمال کیا ہے جو کہ کسی بھی ابہام کو امیدوار کے حق میں حل کیا جانا تھا۔

    جسے انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت دی جا سکتی ہے، درخواست گزار کے خلاف جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ خاطر خواہ نوعیت کے نہیں ہیں، کارروائیاں منصفانہ اور طریقہ کار کی ناانصافی کے معیارات اور ٹیسٹوں کو پورا کرنے میں ناکام رہیں۔

    عمر امین گنڈا پور والے کیس سے کامران مرتضی کا نام فریق کے لسٹ سے نکال دیا، کامران مرتضیٰ نے علی امین گنڈا پور اہلی کے لئے درخواست الیکشن کمیشن میں دی تھی، خیالی مفروضوں سے یہ کورٹ نہیں چل سکتی، چیف جسٹس عدالت نے درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

  • پوری ریاست مری واقعے کی ذمہ دار ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ

    پوری ریاست مری واقعے کی ذمہ دار ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ

    اسلام آباد : چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ  پوری ریاست مری واقعےکی ذمہ دار ہے  اس کے ذمہ دار پھانسی کے حق دار ہیں، کیس میں انکوائری کی کوئی ضرورت نہیں۔

     سانحہ مری کی تحقیقات اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لئے درخواست دائر کردی گئی، سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔

    درخواست کی سماعت کے موقع پر مری کے رہائشی حماد عباسی وکیل کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے، وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ سانحہ مری کے ذمہ داروں کے خلاف مجرمانہ غفلت برتنے پر کارروائی کی جائے۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ جاں بحق اے ایس آئی نوید کےاہل خانہ نےاعلیٰ حکام کو صورتحال سے آگاہ کیا تھا، وزیر اعظم، وزیرداخلہ اور پولیس نے اطلاع ملنے کے باوجود کوئی ایکشن نہ لیا۔

    وکیل نے مزید کہا کہ مری میں ایک لاکھ سے زائد سیاحوں کی آنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ تمام اعلیٰ حکام کا واقعے پر ایکشن نہ لینا ان کی مجرمانہ غفلت ظاہر کرتا ہے۔

    اس کے بعد عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ کو روسٹرم پر طلب کرلیا، چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا مطلب کیا ہے؟

     عدالت نےاین ڈی ایم اے حکام کو11بجے طلب کرلیا۔بعد ازاں  وہ عدالت میں پیش ہوئے انہیں چیف جسٹس نے روسٹرم پر بلا لیا اور سخت الفاظ میں این ڈی ایم اے حکام کی سرزنش کی۔

    عدالت نے این ڈی ایم اے حکام کی غفلت پر شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے ان سے استفسار کیا کہ سانحے میں 22اموات ہوئیں، اس کا ذمہ دارکون ہے؟ اس موقع پر این ڈی ایم اے کی کارکردگی سب کو نظر آنی چاہیےتھی۔

    چیف جسٹس نے این ڈی ایم اے حکام کو ادارے کا قانون پڑھنے کو کہا ان کہنا تھا کہ کیا این ڈی ایم اے حکام نے قانون پڑھا ہے؟ پارلیمنٹ نے این ڈی ایم اے کا قانون بنایا ہے۔

    این ڈی ایم اےحکام نے عدالت کو بتایا کہ13-2010اور2018کو میٹنگ ہوئی ہے، 2018کے بعد این ڈی ایم اے کا کوئی اجلاس نہیں ہوا، جس پر عدالت نے کہا کہ چلیں وزیراعظم نے میٹنگ نہیں بلائی تو رکن این ڈی ایم اے ہی میٹنگ کرلیتے۔

    این ڈی ایم اے حکام کا اپنی صفائی میں کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وباء کے دوران این ڈی ایم اے نے بہت کام کیا،

    چیف جسٹس نے کہا کہ این ڈی ایم اے کا واحد قانون ہے جس پر تمام صوبے اتفاق کرتے ہیں، این ڈی ایم اے اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی میں مکمل ناکام ہوئی ہے، یہ کیا وتیرہ بنایا ہوا ہے کہ ہر کوئی ذمہ داری دوسرے پر ڈال دیتا ہے۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ کیس میں انکوائری کی کوئی ضرورت نہیں، باہر جا کر تقریر سارے کرتے ہیں، کام کسی نے نہیں کرنا، ریاست کایہ حال ہے کہ 2010 سے2021 تک کوئی کارگردگی نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ سانحہ مری کے ذمہ دار پھانسی کے حق دار ہیں، سارے لوگ مری کے لوگوں پراعتراض کرتے ہیں،9بچے مری واقعے میں مرے ہیں، این ڈی ایم اے اور پوری ریاست مری واقعے کی ذمہ دار ہے۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ وزیراعظم این ڈی ایم اے کا اجلاس فوری طور پر طلب کریں، بعد ازاں عدالت نے درخواست پر سماعت جمعہ تک ملتوی کردی۔

  • رانا شمیم کا بیان حلفی آئندہ سماعت پر کھولا جائے گا، چیف جسٹس

    رانا شمیم کا بیان حلفی آئندہ سماعت پر کھولا جائے گا، چیف جسٹس

     اسلام آباد : چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ ابھی تک رانا شمیم کے سربمہر بیان حلفی کو نہیں کھولا گیا ہے، آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل کی موجودگی میں کھولا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی زیر قیادت رانا شمیم، انصارعباسی  ودیگر کےخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔

    اس موقع پر انصارعباسی، عامرغوری اور سابق چیف جج جی بی رانا شمیم اپنے وکیل لطیف آفریدی کے ساتھ پیش ہوئے، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی تک سربمہر بیان حلفی کو کھولا نہیں گیا ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل اس وقت عدالت میں موجود نہیں، بعد ازاں چیف جسٹس نے رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی کو سربمہر بیان حلفی دینے کو کہا جس پر انہوں نے بیان حلفی لینے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم پر بیان حلفی منگوایا گیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل خالد جاوید کی موجودگی میں کھولا جائے گا، یہ اوپن انکوائری ہے، رانا شمیم نے اس عدالت کے ججز پر الزام لگایا ہے یہ عدالت انصارعباسی سے سورس کے بارے میں نہیں  پوچھے گی۔

    عدالت نے رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی کو بھی عدالتی معاون مقرر کردیا ہے، عدالتی معاون فیصل صدیقی نے اپنا جواب تحریری طور پرعدالت کو جمع کرایا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اٹارنی جنرل صاحب کوصحت دے، جوباکس اسلام آباد ہائی کورٹ کو موصول ہوا اس کومزید سیل کرتے ہیں۔

    چید جسٹس نے لطیف آفریدی سے مکالمہ کیا کہ اے جی کی موجودگی میں اسےکھولنا ہے یا ابھی کھولنا ہےاس بیانی حلفی کو ہم نے مزید سیل کیا، یہ ہم آپ کے حوالے کرتے ہیں۔

    عدالت نے رانا شمیم کا اصلی بیان حلفی رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی کودیا، جس پرانہوں نے کہا کہ میں نے دیکھ لیا ہے کہ بیان حلفی کا باکس100فیصد ہی سربمہر ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اس عدالت کو تنقید سے کوئی گھبراہٹ نہیں، تنقید ضرور کریں، 3سال بعد ایک بیان حلفی دیا گیا جس سے معززعدالت کی توہین ہوئی، اخبار کی اشاعت سے ایک سینئر جج کو نشانہ بنایا گیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو بھرپور موقع دیتے ہیں کہ عدالت کو مطمئن کریں اگرعدالت مطمئن ہوئی تو کیس واپس لے لیں گے۔

    رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ بیان حلفی میڈیا کو دیا نہ ہی کسی اور کو۔

    عدالت نے کہا کہ اس بیان حلفی میں کہا گیا ہے کہ سارے ججز یا پورا اسلام آباد ہائی کورٹ کسی کے حکم پر چلتا ہے، آپ سمجھیں یہ توہین عدالت کی کارروائی نہیں، یہ میرا احتساب ہے، اس ہائی کورٹ یا یہاں کے کسی جج پر کوئی انگلی اٹھائے میں چیلنج کرتا ہوں۔

    لطیف آفریدی نے کہا کہ میں نے کب کہا کہ ججز کسی کے اشارے پر چلتے ہیں، انگلی اٹھانے والے ریمارکس میڈیا میں جاتے ہیں جس سے عوام میں غلط تاثر جاتا ہے۔

    جج نے کہا کہ اگر بیان حلفی پبلک نوٹری سے لیک ہوگیا تو برطانیہ میں کیس کیا جاتا ہے، اگر کہے گئے الفاظ میں تھوڑی سی بھی سچائی ہے تو ثبوت پیش کیا جائے عوام کا ان عدالتوں پراعتماد بحال ہےاور بحال رکھا جائے گا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ یہ عدالت قانون سے ادھرادھر نہیں جائے گی، ایک ادارے کے رپورٹر کے خلاف متفرق درخواست بھی آئی ہے، سینئر صحافی ناصر زیدی کا بھی تحریری جواب عدالت میں جمع کردیا گیا۔

    ہائی کورٹ نےایک پریس ریلیز جاری کیا،کسی ادارےکانام نہیں لیاگیا، بعد ازاں عدالت نے سماعت 28 دسمبر تک ملتوی کردی۔