Tag: ISLAM

  • نواسۂ رسول امام حسن کا 1437 واں یومِ ولادت

    نواسۂ رسول امام حسن کا 1437 واں یومِ ولادت

    آج نواسہ رسول امام حسنؑ کا 1437 واں یوم ولادت ہے، آپ ہجرت کے تیسرے سال مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد آپ تقریباً چھ ماہ مسندِ خلافت پر فائز رہے۔

    امام حسن ابن علیؑ اسلام کے دوسرے امام تھے اور حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمۃ الزھرا علیہا السلام کے بڑے بیٹے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت خدیجہ علیہا السلام کے بڑے نواسے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مشہور حدیث کے مطابق آپ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کا نام حسن رکھا تھا۔ یہ نام اس سے پہلے کسی کا نہ تھا۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ ان کا نام حسن، لقب ‘مجتبیٰ’ اور کنیت ابو محمد تھی۔

    ولادت با سعادت


    آپ 15 رمضان المبارک 3 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں آپ کی پیدائش اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی . جب مکہ مکرمہ میں رسول ﷺکے بیٹے یکے بعد دیگرے دنیا سے جاتے رہے تو مشرکین طعنے دینے لگے اور آپ کو بڑا صدمہ پہنچا اور آپ کی تسلّی کے لیے قرآن مجید میں سورہ الکوثر نازل ہوئی جس میں آپ کوخوش خبری دی گئی ہے کہ خدا نے آپ کو کثرتِ اولاد عطا فرمائی ہے اور مقطوع النسل آپ نہیں بلکہ آپ کا دشمن ہوگا۔آپ کی ولادت سے پہلے حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا نے خواب دیکھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم کا ایک ٹکڑا، ان کے گھر آ گیا ہے۔ انہوں نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تعبیر پوچھی تو انہوں فرمایا کہ عنقریب میری بیٹی فاطمہ کے بطن سے ایک بچہ پیدا ہوگا جس کی پرورش تم کرو گی۔

    ولادت کے ساتویں دن عقیقہ کی رسم ادا ہوئی اورپیغمبر اسلام ﷺنے بحکم خدا اپنے اس فرزند کا نام حسن علیہ السلام رکھا۔یہ نام اسلام کے زمانے سے پہلے نہیں ہوا کرتا تھا۔ سب سے پہلے رسول اللہ کے بڑے نواسے کا نام قرار پایا۔ آپ کی ولادت کے بعد آپ کے نانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ اسے اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا۔

    تربیت


    حضرت امام حسن علیہ السلام کو تقریباً آٹھ برس اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سایہ عاطفت میں رہنے کا موقع ملا۔ رسالت مآبﷺ اپنے اس نواسے سے جتنی محبت فرماتے تھے اس کے واقعات دیکھنے والوں نے ہمیشہ یا درکھے۔ اکثر محبت اور فضیلت کی حدیثیں حسن علیہ السّلام اور حسین علیہ السّلام دونوں صاحبزادوں کے لیے مشترکہ طور پر بیان کی گئی ہیں، مثلاً حسن علیہ السّلام وحسین علیہ السّلام جوانانِ بہشت کے سردار ہیں۔

    فضائل


    ’’خداوند میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان کو محبوب رکھنا‘‘ اور اس طرح کے بےشمار ارشادات پیغمبر کے دونوں نواسوں کے بارے میں کثرت سے ہیں، ان کے علاوہ ان کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ عام قاعدہ یہ ہے کہ اولاد کی نسبت باپ کی جانب ہوتی ہے مگررسول اللہ ﷺنے اپنے ان دونوں نواسوں کی یہ خصوصیت صراحت کے ساتھ بتائی کہ انھیں میرا نواسا ہی نہیں بلکہ میرا فرزند کہنا درست ہے۔

    اخلاقِ حسن


    امام حسن علیہ السّلام کی ایک غیر معمولی صفت جس کے دوست اور دشمن سب معترف تھے ۔وہ یہی حلم کی صفت تھی جس کا اقرار مروان بن الحکم نے بھی کیا ، جو کہ اموی خانوادے سے تعلق رکھتا تھا۔ خیال رہے کہ بنی ہاشم اور بنی امیہ کے درمیان ہمیشہ ایک مخاصمت کی فضا قائم رہی۔ حکومت ُ شام کے حامی صرف اس لیے جان بوجھ کر سخت کلامی اور بد زبانی کرتے تھے کہ امام حسن علیہ السّلام کو غصہ آجائے اور کوئی ایسا اقدام کردیں جس سے آپ پر عہد شکنی کاالزام عائد کیا جاسکے اور مسلمانوں کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکائے جاسکیں، مگر آپ ایسی صورتوں میں حیرتناک قوت ُ برداشت سے کام لیتے تھے جو کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے ۔

    آپ کی سخاوت اور مہمان نوازی بھی عرب میں مشہور تھی . آپ نے تین مرتبہ اپنا تما م مال راہ خدا میں لٹا دیا اور دو مرتبہ تمام ملکیت، یہاں تک کہ اثاث البیت اور لباس تک راہِ خدا میں دے دیا۔

    وفات


    امام حسن کا زمانہ ایک پرآشوب دور تھا۔ روایت ہے کہ اشعث بنِ قیس کی بیٹی جعدہ جو حضرت امام حسن علیہ السّلام کی زوجیت میں تھی اس کے ذریعہ سے شورش پسندوں نے حضرت حسن علیہ السّلام کو زہر دلوایا ۔ زہر اس قدر قاتل اور سریع الاثر تھا کہ امام حسن علیہ السّلام کے کلیجے کے ٹکڑے ہوگئے ، اور خون کی الٹیوں میں گوشت کے لوتھڑے آنے لگے ۔

    ایسے وقت میں کہ جب امام نے جان لیا کہ اب ان کا وقت رخصت آن پہنچا ہے تو آپ نے اپنے بھائی حضرت امام حسین علیہ السّلام کو پاس بلایا اوراسرارِ امامت اور اہل بیت ان کے سپرد کرتے ہوئے وصیت کی ،’’ اگر ممکن ہو تو مجھے جدِ بزرگوار رسولِ خدا ﷺکے ساتھ دفن کرنا لیکن اگراس میں مزاحمت ہو تو ایک قطرہ خون گرنے نہ پائے ، میرے جنازے کو واپس لے آنا اور جنت البقیع میں دفن کرنا‘‘۔

    تدفین


    ماہ ٔ صفر کی اٹھائیس تاریخ ، سنہ 50ہجری کو امام حسن علیہ السّلام زہر کے زیر اثر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔امام حسین ؑ نے وصیت کے مطابق ان کی تدفین روزہ رسول ﷺ میں کرنا چاہی ، تاہم سیاسی ماحول او مدینے میں شورش پھیلنے کے اندیشے کے سبب ا مام حسن علیہ السّلام کا جنازہ واپس گھرلایا گیا، اس کے بعد ان کی تدفین ان کی والدہ جناب فاطمہ الزھراء کی لحد کے نزدیک جنت البقیع میں کی گئی۔

  • مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہورہا ہے: اقوام متحدہ

    مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہورہا ہے: اقوام متحدہ

    قاہرہ: دنیا بھر میں نسل پرستی، مذہبی تعصب اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے پرچار پر اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق حالیہ دنوں میں مذہبی تعصب کی بنیاد پر برطانیہ سمیت یورپ کے مختلف ممالک میں مسلمانوں پر حملوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس کا کہنا ہے کہ اسلاموفوبيا، تعصب اور نسل پرستی کے جذبات میں اضافہ ہورہا ہے۔

    مصر ميں جامعہ الازہر کے مفتی اعظم احمد الطيب سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے خصوصی ملاقات کی اس دوارن دونوں رہنماؤں نے اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا۔

    ملاقات کے بعد اپنے ایک بیان میں انتونیوگوتیرس کا کہنا تھا کہ مذہبی تعصب کے بڑھاوے کو کم کرنے کی ضرورت ہے، نفرتوں کے بجائے محبت بانٹنی ہے۔

    اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل مصر کے دو روزہ دورے پر ہيں، وہ مصری صدر عبدالفتاح السيسی سے بھی آج ملاقات کریں گے۔

    یاد رہے کہ نیوزی لینڈ کے علاقے کرائسٹ چرچ میں سفید فام شخص نے دو مساجد پر اُس وقت فائرنگ کی تھی کہ جب وہاں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسلمانوں کا اجتماع شروع ہونا تھا۔

    نیوزی لینڈ واقعہ اسلام فوبیا، نسل پرستی اور دہشت گردانہ حملہ ہے: مشیل باچلے

    فائرنگ کے واقعے میں 49 مسلمان شہید جبکہ متعدد نمازی شدید زخمی ہوئے، ملزم نے اپنے گھناؤنے عمل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر براہ راست نشر کی۔

    بعد ازاں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کی سربراہ مشیل باچلے نے نیوزی لینڈ میں مساجد میں فائرنگ کے واقعے کو اسلام فوبیا، نسل پرستی اور دہشت گردانہ حملہ قرار دیا تھا۔

  • برطانیہ: نیوکاسل اسلامک سینٹر پر حملہ، توڑ پھوڑ کے بعد آگ لگانے کی کوشش

    برطانیہ: نیوکاسل اسلامک سینٹر پر حملہ، توڑ پھوڑ کے بعد آگ لگانے کی کوشش

    لندن: برطانیہ میں نسل پرستی اور مسلمانوں سے نفرت کا کھل کر اظہار کیا جانے لگا، مشتعل نوجوانوں نےنیوکاسل اسلامک سینٹر پر حملہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی شہر نیوکاسل میں قائم نیوکاسل اسلامک سینٹر پر مذہبی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے مشتعل نوجوانوں نے حملہ کردیا، سینٹر میں توڑ پھوڑ کے بعد آگ لگانے کی بھی کوشش کی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ نیوکاسل اسلامک سینٹر پر حملے کے الزام میں چھے مشتبہ نوجوان گرفتار کرلیے گئے، حملہ آوروں نے دیوار پر مسلمانوں کے خلاف نعرے لکھے۔

    پولیس نے واقعے کو نسلی نفرت پر مبنی حملہ قرار دیا ہے، نیوکاسل اسلامک سینٹر پر دو ماہ میں دوسری بار حملہ کیا گیا ہے، لیکن حملہ آور گرفتار نہ ہوسکے۔

    پولیس حکام کا کہنا ہے کہ حملے میں ملوث ہونے کے شبہے میں 6 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں دو عورتیں بھی شامل ہیں، تفتیش جاری ہے جلد حملے کی وجہ سامنے آئے گی۔

    ابتدائی طور پر اس حملے کو مذہبی تعصب قرار دیا گیا ہے، تاہم حتمی نتیجہ حملے کے محرکات اور تحقیقات کے بعد ہی اخذ کیا جاسکے گا۔

    برطانیہ،یورپی ممالک اور امریکا سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا کھل کر اظہار سامنے آرہا ہے، یہ واقعہ نیا نہیں اس سے قبل بھی متعدد بار اسی نوعیت کے حملے ہوچکے ہیں۔

    مسلماںوں کیخلاف زہر افشانی پر نوجوان نے آسٹریلین سینیٹر کو انڈا دے مارا

    خیال رہے کہ مارچ 2017 میں امریکی ریاست کولوراڈو میں مسجد اور اسلامک سینٹر پر حملہ کیا گیا تھا بعد ازاں حملہ آور قانون کی گرفت میں آگیا تھا۔

  • جمعہ کا دن دیگر مذاہب میں بھی اہمیت کا حامل

    جمعہ کا دن دیگر مذاہب میں بھی اہمیت کا حامل

    جمعہ کا دن مسلمانوں کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل دن ہے۔ بے شمار اسلامی تاریخی واقعات سے مناسبت رکھنے والے اس دن کو بڑے اہتمام سے نمازِ جمعہ ادا کی جاتی ہے اور خطبۂ جمعہ ہوتا ہے۔

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جمعے کا دن صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا کی ہر تہذیب کے لیے کسی نہ کسی اہمیت کا حامل ہے۔

    قدیم انگریزی ادوار میں جمعہ یعنی فرائیڈے کا دن فرج یا فریڈج نامی رومن دیوی سے منسوب تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی دیوی کے نام پر فرائیڈے کا نام رکھا گیا اور دنیا بھر کی مختلف زبانوں میں تقریباً یہی لفظ مختلف لہجوں اور حروف تہجی کے ساتھ رائج ہے۔


    عیسائیت

    قدیم دور کی کچھ حکایتوں کے مطابق عیسائیت کے کچھ فرقوں میں جمعے کے دن کو برا خیال کیا جاتا تھا۔ اس دن خاص طور پر کوئی سمندری سفر کرنے سے گریز کیا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ جمعہ کے دن کیے جانے والے سمندری سفر کا اختتام تباہی پر ہوگا۔

    رومن کیتھولکس کے فرقے میں جمعے کے دن کاشت کاری کی جاتی تھی۔ یہ دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیے جانے سے بھی منسوب ہے لہٰذا اس دن کاشت کاری کرنا دراصل اس عقیدے کا مظہر تھا کہ جس طرح بیج کو زمین میں دفن کرنے کے بعد نئی زندگی باہر آتی ہے اسی طرح موت کے بعد انسانوں کے لیے بھی ایک نئی زندگی ہوگی۔

    رومن کیتھولکس جمعے کے دن گوشت کھانے سے بھی پرہیز کرتے ہیں اور اس دن سبزیاں کھاتے ہیں۔ مشرقی آرتھوڈوکس چرچ کے ماننے والے جمعہ کے دن روزہ بھی رکھا کرتے تھے۔


    ہندومت

    ہندو مذہب میں بھی جمعے کا دن اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دن دیوی درگا اور لکشمی سے منسوب ہے اور اس دن ان دونوں دیویوں کی پوجا کی جاتی ہے۔


    یہودیت

    یہودیوں کے اکثر فرقے بھی جمعہ کے دن کو متبرک خیال کرتے ہیں اور اس دن روزہ رکھا کرتے ہیں۔


    اسلام

    جمعہ عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے جمع ہونا۔ اس دن تمام مسلمان دنیاوی مصروفیات چھوڑ کر اللہ کی بارگاہ میں ملی جذبے اور نظم و ضبط کے ساتھ سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف حیثیت کے لوگوں کو آپس میں گھلنے ملنے کا موقع بھی ملتا ہے جس سے بھائی چارے اور مسلم یگانگت میں اضافہ ہوتا ہے۔

  • وہ خط جو ایک ہزارسال بعد اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا

    وہ خط جو ایک ہزارسال بعد اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا

    حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک ہزارسال پیشتر یمن کا بادشاہ تُبّع خمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار، ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے ہوئے اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکت شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف نظارہ کو جمع ہو جاتی تھی ، یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا۔ بادشاہ حیران ہوا ،اور اپنے وزیر سے اس کی وجہ پوچھی ۔

    وزیر نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کر کے چلے جاتے ہیں، پھر آپ کا لشکر ان کے خیال میں کیوں آئے۔

    یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوا دوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروا دوں گا، یہ کہنا تھا کہ بادشاہ کے ناک منہ اور آنکھوں سے خون بہنا شروع ہو گیا اور ایسا بدبودار مادہ بہنے لگا کہ اس کے پاس بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رہی اس مرض کا علاج کیا گیا مگر افاقہ نہ ہوا، شام کے وقت بادشاہ ہی علماء میں سے ایک عالم ربانی تشریف لائے اور نبض دیکھ کر فرمایا ، مرض آسمانی ہے اور علاج زمین کا ہو رہا ہے، اے بادشاہ! آپ نے اگر کوئی بری نیت کی ہے تو فوراً اس سے توبہ کریں، بادشاہ نے دل ہی دل میں بیت اللہ شریف اور خدام کعبہ کے متعلق اپنے ارادے سے توبہ کی ، توبہ کرتے ہی اس کا وہ خون اور مادہ بہنا بند ہو گیا، اور پھر صحت کی خوشی میں اس نے بیت اللہ شریف کو ریشمی غلاف چڑھایا اور شہر کے ہر باشندے کو سات سات اشرفی اور سات سات ریشمی جوڑے نذر کئے۔

    پھر یہاں سے چل کر مدینہ منورہ پہنچا تو ہمراہ موجود علماء نے جو کتب ِسماویہ کے عالم تھے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت گاہ کی جو علامتیں انھوں نے پڑھی تھیں ، ان کے مطابق اس سر زمین کو پایا تو باہم عہد کر لیا کہ ہم یہاں ہی مر جائیں گے مگر اس سر زمین کو نہ چھوڑیں گے، اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو کبھی نہ کبھی جب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائیں گے ہمیں بھی زیارت کا شرف حاصل ہو جائے گا ورنہ ہماری قبروں پر تو ضرور کبھی نہ کبھی ان کی جوتیوں کی مقدس خاک اڑ کر پڑ جائے گی جو ہماری نجات کے لئے کافی ہے۔

    یہ سن کر بادشاہ نے ان عالموں کے واسطے چار سو مکان بنوائے اور اس بڑے عالم ربانی کے مکان کے پاس حضور کی خاطر ایک دو منزلہ عمدہ مکان تعمیر کروایا اور وصیت کر دی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائیں تو یہ مکان آپ کی آرام گاہ ہو اور ان چار سو علماء کی کافی مالی امداد بھی کی اور کہا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو اور پھر اس بڑے عالم ربانی کو ایک خط لکھ دیا اور کہا کہ میرا یہ خط اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دینا اور اگر زندگی بھر تمھیں حضور کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر دینا کہ نسلاً بعد نسلاً میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتٰی کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہوسلم کی خدمت میں پیش کیا جائے یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے چل دیا۔

    وہ خط نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہوسلم کی خدمت اقدس مین ایک ہزار سال بعد پیش ہوا کیسے ہوا اور خط میں کیا لکھا تھا ؟سنئیے اور عظمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان دیکھئے:

    ”کمترین مخلوق تبع اول خمیری کی طرف سے

    شفیع المزنبین سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام

    اما بعد، اے اللہ کے حبیب! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب اپ پرنازل ہوگی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اورمیں آپ کے دین پر ہوں، پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا و غنیمت اور اگر میں آپ کی زیارت نہ کرسکا تو میری شفاعت فرمانا اورقیامت کے روز مجھے فراموش نہ کرنا، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں۔“

    شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً ان چار سو علماء کے اندر حرزِ جان کی حثیت سے محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا، ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی کی تحویل میں رکھا اور جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی اور مدینہ کی الوداعی گھاٹی مثنیات کی گھاٹیوں سے آپ کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا محبوب خدا کا استقبال کرنے کو جوق درجوق آرہے تھے اورکوئی اپنے مکانوں کو سجا رہا تھا تو کوئی گلیوں اورسڑکوں کو صاف کر رہا تھا اور کوئی دعوت کا انتظام کر رہا تھا اور سب یہی اصرار کر رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر تشریف لائیں۔

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھر میں یہ ٹھہرے گی اور بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہو گی، چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع خمیری نے حضور کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی تحویل میں تھا ، اسی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی جا کر ٹھہر گئی۔ لوگوں نے ابو لیلٰی کو بھیجا کہ جاؤ حضور کو شاہ یمن تبع خمیری کا خط دے آو جب ابو لیلٰی حاضر ہوا تو حضور نے اسے دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلٰی ہے؟ یہ سن کر ابو لیلٰی حیران ہو گیا۔ حضور نے فرمایا میں محمد رسول اللہ ہوں، شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاؤ وہ مجھے دو چنانچہ ابو لیلٰی نے وہ خط دیا، حضور نے پڑھ کر فرمایا، صالح بھائی تُبّع کو آفرین و شاباش ہے۔


    بحوالہ کُتب: (میزان الادیان)، (کتاب المُستظرف)، (حجتہ اللہ علے العالمین)،(تاریخ ابن عساکر)۔

  • اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس، بیک وقت تین طلاقیں قابل سزا قرار دینے پر اتفاق

    اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس، بیک وقت تین طلاقیں قابل سزا قرار دینے پر اتفاق

    اسلام آباد: ڈاکٹر قبلہ ایاز کی زیرصدارت اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں بیک وقت تین طلاقیں قابل سزا قرار دینے پر اتفاق کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کے ہونے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ تمام مسالک کے جید علما کی مدد سے متفقہ طلاق نامہ ترتیب دیا جائے گا۔

    ڈاکٹر قبلہ ایاز کی زیر صدارت اسلامی نظریاتی کونسل کے ہونے والے اجلاس میں بیک وقت تین طلاقیں قابل سزا قرار دینے سے متعلق فیصلہ کیا گیا ہے کہ علماء کرام سے مشاورت کی جائے گی۔

    اجلاس میں کم عمری کی شادی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا، کم عمری کی شادی کی حوصلہ شکنی کے لیے آگاہی مہم چلائی جائے گی۔

    رواں سال فروی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز نےکہا تھا کہ بیک وقت تین طلاقوں کو قابلِ سزا جرم قرار دیا جائے گا۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس سلسلے میں سفارشات تیار کر لی گئی ہیں جو جلد ہی پارلیمان میں پیش کر دی جائیں گی۔

    خیال رہے کہ ماضی میں حقوق نسواں کے حوالے سے بھی اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلے سامنے آئیں جسے بعض طبقوں کی جانب سے متنازع قرار دیا جاتا رہا ہے۔

  • اسلام نے محرم الحرام کی عظمت میں مزید اضافہ کیا، وزیر اعظم

    اسلام نے محرم الحرام کی عظمت میں مزید اضافہ کیا، وزیر اعظم

    اسلام آباد : وزیر اعظم عمران خان نے سال کے آغاز  نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ محرم الحرام کو اسلام سے قبل بھی عزت و توقیر حاصل تھی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے قمری سال 1440 ہجری کے آغاز پر پاکستانی قوم اور اہل اسلام کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے قوم کے نام پیغام دیا ہے۔

    وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دعا کرتا ہوں یہ سال امت مسلمہ کے لیے باعث رحمت ہو، محرم الحرام کو اسلام سے قبل بھی عزت و توقیر حاصل تھی، اسلام نے محرم الحرام کی عظمت میں مزید اضافہ کیا۔

    خیال رہے کہ ملک بھر میں محرم الحرام کے دوران سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں۔ ماہ محرم کے دوران کسی بھی ناخوش گوار واقعے سے کی روک تھام کے لیے حکام کی  جانب سے مختلف شہروں میں دفعہ 144 نافذ کی گئی ہے جبکہ ڈبل سواری پر بھی پابندی عائد ہے۔

    حساس مقامات کی سیکیورٹی کے لئے ہزاروں اہلکاروں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بم ڈسپوزل اسکواڈ اہم مقامات کی سوئپنگ اور سرچنگ بھی کرے گی، مجالس اور جلوسوں کی سیکیورٹی کے لیے رینجرز کے جوان بھی ڈیوٹی پر موجود ہوں گے۔

  • برقعہ انتہا پسندوں کے اسلام کا حصّہ ہے، برطانوی امام

    برقعہ انتہا پسندوں کے اسلام کا حصّہ ہے، برطانوی امام

    لندن : برطانیہ کی معروف جامعہ آکسفورڈ کے امام تاج ہرگئی نے کہا ہے کہ برقعے سے متعلق قرآن مجید میں کوئی قانون موجود نہیں ہے، یہ مذہبی انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے اسلام کا حصّہ ہے جو خواتین کو قابو کرنے کا طریقہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی نامور یونیورسٹی آکسفورڈ کی اسلامی جماعت کے امام تاج ہرگئی نے مسلم خواتین کے برقعے سے متعلق متنازعہ بیان پر بورس جانسن کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’سابق وزیر خارجہ کا بیان حقیقت پر مبنی تھا‘۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کے امام تاج ہرگئی کا کہنا تھا کہ بورس جانسن کو برقعے سے متعلق بیان معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں اور ان کا بیان ناکافی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ تاج ہرگئی کی جانب سے ’دی ٹائمز‘ کو ارسال کیے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ برقعے کے متعلق قرآن میں کوئی قانون نہیں ہے، بلکہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردوں کے اسلام کا ایک حصّہ ہے۔

    تاج ہرگئی کا مزید کہنا تھا کہ برقعے کے معاملے میں پر انتہا پسند مذہبی طبقے نے بیمار سوچ کے مسلمانوں ترغیب دلائی کے خدا چاہتا ہے کہ خواتین اپنے چہرے کو چھپائیں، جبکہ حقیقت میں مذکورہ طبقے نے ’خواتین کو قابو کرنے کے لیے ایسا حربہ اپنایا تھا‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق تاج ہرگئی کا کہنا تھا کہ بہت سی جوان خواتین نے مردوں کی جبری سرپرستی کو تسلیم کرتے ہوئے اس بات کو اپنا حق سمجھ لیا ہے کہ چہرے کو چھپانا ان کا انسانی حق ہے۔


    بورس جانسن کا عوام میں شہرت کے باعث پبلک ٹرائل کیا جارہا ہے، جیکب موگ


    یاد رہے کہ ایک روز قبل برطانیہ کی حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کے رہنما جیکب ریس موگ نے سابق وزیر خارجہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بورس جانسن کا پبلک ٹرائل کیا جارہا ہے اور مذکورہ ٹرائل کا مقصد جانسن کو مستقبل کا لیڈر بننے سے روکنا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برٹش پارلیمنٹ اور کنزرویٹو پارٹی کے رکن نے وزیر اعظم تھریسا مے پر الزام عائد کیا کہ ’تھریسا مے مسلم خواتین پر طنز کی آڑ میں بورس جانسن سے ذاتی دشمنی نکال رہی ہیں‘۔


    بورس جانسن کو مذہب کی تضحیک کرنے کا حق حاصل ہے، مسٹر بین


    واضح رہے کہ  گذشتہ روز معروف مزاحیہ اداکار روون اٹکنسن (مسٹر بین) نے بورس جانسن کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جانسن کا بیان ایک اچھا لطیفہ ہے‘ اور انہیں مذہب کی تضحیک کرنے کا حق حاصل ہے جس پر انہیں معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔

    خیال رہے کہ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے اپنے کالم میں کہا تھا کہ مسلمان خواتین برقعہ پہن کر ’لیٹر بُکس‘ اور بینک چوروں کی طرح لگتی ہیں۔ جس کے بعد بورس جانسن کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ بورس جونسن اپنے بیان پر ڈٹے ہوئے ہیں اور انھوں نے معافی مانگنے سے بھی انکار کردیا ہے۔

  • آنے والا کل ملک میں اسلامی نظام کا ہے: سراج الحق

    آنے والا کل ملک میں اسلامی نظام کا ہے: سراج الحق

    سکھر: امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ آنے والا کل ملک میں اسلامی نظام کا ہے، عام انتخابات خوش حال پاکستان کا فیصلہ کرے گا۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے سکھر میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا، سراج الحق کا کہنا تھا کہ آنے والا کل ملک میں اسلامی نظام اور غریب عوام کا ہے، یہ الیکشن نظریات، تہذیب اور کلچر کا مقابلہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ متحدہ مجلس عمل ظلم، مہنگائی اور کرپشن کے خلاف دیوار ہے، ہم ملک میں حقیقی اسلامی نظام قائم کریں گے، ملک کو موجودہ بحران سے نکال کر ایک خوش حال پاکستان بنائیں گے۔


    حکمرانوں نے ملک تباہ کردیا، پاکستان کو دیانت دار قیادت کی ضرورت ہے، سراج الحق


    امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ متحدہ مجلس عمل میں پاناما زدہ یا کوئی کرپٹ شخص نہیں ہے، ایم ایم اے میں پاک دامن لوگوں کو اکٹھا کیا ہے۔

    سراج الحق کا مزید کہنا تھا کہ ایم ایم اے کے پاس ملک کو ترقی پرگامزن کرنے کا پروگرام موجود ہے، کرپشن نے ملک کو کمزور کیا، حکمرانوں نے اداروں کو تباہ کردیا، ہم اقتدار میں آکر تعلیمی نظام ٹھیک کریں گے۔


    مستونگ، بنوں اور پشاور کے سانحات پر قوم افسردہ ہے، سراج الحق


    ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے مخالفین کی پشت پر مغربی ایجنڈا ہے، تمام سیاسی جماعتوں میں کرپٹ لوگ موجود ہیں ایم ایم اے وہ واحد اتحاد ہے جس میں کوئی بھی بدعنوانی میں ملوث نہیں ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • فرانس کا مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے لیے قانون سازی کا فیصلہ

    فرانس کا مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے لیے قانون سازی کا فیصلہ

    پیرس: فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی دینے کا اعلان کرتے ہوئے مسلمانوں سے متعلق قانون سازی کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کی جانب سے مسلمانوں کی مذہبی آزادی دینے سے متعلق فیصلے پر ملک بھر میں تبصرے کیے جارہے ہیں، ایک جانب حمایت اور دوسری جانب مخالفت کا بھی سامنا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ فرانسیسی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے ایمانوئیل میکرون نے یقین دلایا ہے کہ وہ ملک میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے لیے قانون سازی کریں گے۔

    انہوں نے کہا کہ اسلام اور جمہوریہ فرانس کے درمیان پیچیدگی کا کوئی سبب ہرگز نہیں ہے، ہم فرانس میں مسلمانوں کے امور کو مزید سہل بنانے کے لیے نئے قواعد وضح کریں گے۔


    تارکین وطن قبول نہ کرنے والی یورپی ریاستوں پر پابندی ہونی چاہیے: فرانسیسی صدر


    فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ ہم مسلمانوں کو اپنے ملک میں اپنے مذہب کے مطابق زندگیاں بسرکرنے کے لیے مزید سہولیات مہیا کریں گے اور انہیں ہرممکن آزادی فراہم کریں گے تاکہ وہ اپنے مذہبی امور کو کسی رکاوٹ کےبغیر ادا کرسکیں۔

    ایمانوئیل میکرون کا مزید کہنا تھا کہ فرانس میں لوگوں کو سماجی اور مذہبی آزادی ہے اور ملک کو کسی خاص مذہبی طبقے کی علامت بنانا انسانی اور مذہبی آزادی کے منافی ہے۔


    فرانسیسی صدر اور اطالوی وزیر اعظم جوزیپے کونٹے آج ملاقات کریں گے


    یاد رہے کہ فرانس میں اگرچہ آبادی کی اکثریت عیسائیت پر مشتمل ہے مگر ملک میں مسلمانوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے زاید اور مساجد کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔