Tag: ISLAM

  • برطانیہ: حکمران جماعت میں موجود مذہبی امتیاز رکھنے والوں کے خلاف انکوائری کا مطالبہ

    برطانیہ: حکمران جماعت میں موجود مذہبی امتیاز رکھنے والوں کے خلاف انکوائری کا مطالبہ

    لندن: برطانیہ میں موجود مسلم تنظیم کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی جماعت میں ایسے افراد کے خلاف انکوائری کرے جو مذہبی اور نسلی امتیاز رکھتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم تنظیم کے سربراہ کی جانب سے برطانوی وزیر اعظم ’تھریسا مے‘ کو خط لکھا گیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکمران جماعت ’کنزرویٹو پارٹی‘ میں موجود نسلی اور مذہبی امتیاز رکھنے والے اراکین کے خلاف فوری انکوائری کی جائے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق خط میں کہا گیا ہے کہ حکمران جماعت میں ایسے اراکین موجود ہیں جو مسلمانوں کے خلاف سخت رویہ رکھتے ہیں، اور ان کے حالیہ اور ماضی میں دیے گئے مسلمانوں سے متعلق بیانات کو مدنظر رکھتے ہوئے انکوائری کروائی جائے۔


    مذہبی منافرت پرمبنی مہم، لندن کے نومنتخب میئر نے ڈیوڈ کیمرون کو آڑے ہاتھوں لے لیا


    خط میں آزادانہ انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کا تعین ضروری ہے کہ برطانیہ میں تمام سیاسی جماعتیں اس عزم پر قائم رہیں کہ نسلی تعصب اور ہر قسم کی مذہبی انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے، اور جو کوئی ایسا رویہ رکھتا ہے تو یہ نامناسب تصور کیا جائے گا۔

    خط کے مطابق سیاسی پارٹیوں کو ایسے اقدامات کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جن سے اقلیتی حلقوں کو مجموعی معاشرتی دھارے سے علیحدہ اور تنہا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو آگے معاملات خراب ہوسکتے ہیں۔


    امریکہ میں ایک اور مسلم خاتون مذہبی نفرت کا نشانہ بن گئی


    دوسری جانب اس خط کے حوالے سے حکمران کنزرویٹو پارٹی کے ترجمان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اُن کی سیاسی جماعت اسلاموفوبیا اور نسلی امتیاز کے تمام واقعات کا سنجیدگی سے نوٹس لینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • اسلام کے علاوہ کن کن مذاہب میں روزے رکھے جاتے ہیں

    اسلام کے علاوہ کن کن مذاہب میں روزے رکھے جاتے ہیں

    دنیا میں اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب میں بھی روزے کا تصور پایا جاتا ہے اور غیرمسلموں کا بھی ایک طبقہ روزہ رکھتا ہے، حالانکہ ان کے ہاں روزے کے معاملات کچھ الگ ہیں اور وہ اپنے طریقے سے روزے رکھتے ہیں، ان کے روزے کے ایام بھی مختلف ہیں۔

    اسلام میں روزہ ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے، اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ہیں۔ جن میں روزہ ایک اہم عبادت ہے ،اور اپنے اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

    دنیا میں مسلمانوں کی بڑی تعداد رمضان کے روزے رکھتی ہے، اللہ نے قرآن کریم میں جہاں روزے کی فرضیت بیان کی ہے وہاں یہ بھی بتایا ہے کہ پرانی امتوں پر بھی روزے فرض کئے گئے تھے۔

    ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فر ض کئے گئے ہیں جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے قبل ہوئے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘(سورہ بقرہ)

    اہل اسلام کے لئے روزے کی فرضیت کا حکم اگرچہ ہجرت نبوی کے بعد ہوا مگراس سے قبل بھی دنیا کے دوسرے مذاہب میں روزے کا تصور پایا جاتا تھا۔

    یہودی مذہب


    مسلمانوں کے علاوہ یہودی بھی بہت زیادہ روزے رکھتے ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام پرنازل ہونے والی مُقدس کتاب تورات میں کئی مقامات پرروزہ کی فرضِیّت کاحکم دیاگیاہے۔

    حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں صرف ایک روز ہ فرض تھا اور یہ عاشورہ کا روزہ تھا ۔یوم عاشورہ کے روزے کو کفارہ کا روزہ کہا جاتا ہے، روزے میں یہودی اپنا بیش تر وقت سینیگاگ میں گزارتے ہیں اور توبہ و استغفار کرتے ہیں نیز توریت کی تلاوت میں مصروف رہتے ہیں۔

    تورات کی بعض روایات سے ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل پر ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو کفارہ کا روزہ رکھنا ضروری تھا ۔ یہ روزہ نہ رکھنے والوں کے لئے سخت بات کہی گئی تھی کہ جو کوئی اس روزہ نہ رکھے گا اپنی قوم سے الگ ہو جائے گا ۔

    توریت کی روایات بتاتی ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب طور پہاڑ پر توریت لینے کے لئے گئے اور چالیس دن مقیم رہے تو روزے کی حالت میں رہے۔

    یہودیوں کے ہاں مصیبت اور آفات آسمانی کے وقت میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور وہ رکھتے بھی ہیں۔ جب بارشیں نہیں ہوتی ہیں اور قحط سالی پڑتی ہے تو بھی یہودیوں کے ہاں روزہ رکھا جاتا ہے۔یہودیوں میں اپنے بزرگوں کے یوم وفات پر روزہ رکھنے کا رواج بھی پایا جاتا ہے۔ مثلاً موسیٰ علیہ السلام کے یوم انتقال پر یہودی روزہ رکھتے ہیں، علاوہ ازیں کچھ دوسرے بزرگوں کے یوم وفات پر بھی روزے رکھے جاتے ہیں۔

    پارسی مذہب


    پارسی مذہب کی اِبتدا حضرت عیسٰی علیہ السلام سے چھ سو سال پہلے فارس (ایران)میں ہوئی تھی، یہودیوں کی طرح عیسائیوں میں بھی روزہ کا تصور پایاجاتا ہے۔ انجیل کی روایات کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام نے چالیس دن اور چالیس رات روزہ رکھا تھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے روزے کے بارے میں اپنے حواریوں کو ہدایت بھی فرمائی ہے۔

    رومن کیتھولک


    عیسائیوں میں سب سے بڑا فرقہ رومن کیتھولک ہے، رومن کیتھولک عیسائیوں میں بُدھ اورجمعہ کو روزہ رکھاجاتا ہے۔ اِن روزوں کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں پانی پینے کی اجازت ہوتی ہے کیونکہ اُن کے بقول پانی خوراک میں شامل نہیں ہے۔

    بائبل میں اس بات کی تاکید ملتی ہے کہ روزہ خوشدلی کے ساتھ رکھا جائے اور چہرہ اداس نہ بنایا جائے اور نہ ہی بھوک وپیاس سے پریشان ہوکر چہرہ بگاڑا جائے۔

    ہندو مذہب


    بھارت میں پرانے زمانے سے ہی روزے کا تصور پایا جاتا ہے جسے عرف عام میں ’’ورت‘‘ کہا جاتا ہے۔’’ورت‘‘کیوں رکھا جاتا ہے اور اس کے احکام کہاں سے آئے اس بارے میں ٹھیک ٹھیک کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر مذہبی اور سماجی روایات چلی آرہی ہیں جن کی پابندی میں یہاں روزہ رکھا جاتا ہے۔

    ہندووں میں ہر بکرمی مہینہ کی گیارہ بارہ تاریخوں کو ’’اکادشی‘‘ کا روزہ ہے، اس حساب سے سال میں چوبیس روزے ہوئے ، ہندو جوگی اور سادھو میں بھوکے رہنے کی روایت پرانے زمانے سے چلی آرہی ہے اور وہ تپسیا وگیان ،دھیان کے دوران عموماً کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔

    ہندووں کے ہاں روزے کی حالت میں پھل،سبزی اور دودھ وپانی وغیرہ کی ممانعت نہیں ہے ،مگر بعض روزے ایسے بھی ہیں، جن میں وہ ان چیزوں کا استعمال بھی نہیں کرسکتے ہیں۔

    ہندوسنیاسی بھی جب اپنے مُقدس مقامات کی زیارت کیلئے جاتے ہیں تو وہ روزہ میں ہوتے ہیں، ہندوؤں میں نئے اور پورے چاند کے دنوں میں بھی روزہ رکھنے کا رواج ہے۔ اِس کے علاوہ قریبی عزیز یا بزرگ کی وفات پربھی روزہ رکھنے کی رِیت پائی جاتی ہے۔

    خاص بات یہ کہ ہندو عورتیں اپنے شوہروں کی درازی عُمر کیلئے بھی کڑواچوتھ کاروزہ رکھتی ہیں۔

    بُدھ مذہب


    بدھ مذہب کی ابتدا چھٹی صدی قبل مسیح کے لگ بھگ ہندوستان کے شمال مشرقی حصہ میں ہوئی، بدھ مت کے بانی مہاتما بدھ تھے، بدھ مت میں روزے کو ان تیرہ اعمال میں شمار کیا گیا ہے، جو ان کے نزدیک خوش گوار زندگی اپنانے میں مدد دیتے ہیں۔ وہ روزے کو باطن کی پاکیزگی کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔

    بُدھ مت کے بھکشو (مذہبی پیشوا) کئی دنوں تک روزہ رکھتے ہیں اور اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔

    گوتم بُدھ کی برسی سے مُتصِل پہلے پانچ دن کے روزے رکھے جاتے ہیں یہ روزے بھکشو مکمل رکھتے ہیں لیکن عوام جزوی روزہ رکھتے ہیں جس میں صرف گوشت کھانامنع ہوتاہے۔

    بُدھ مت میں عام پیروکاروں کو ہر ماہ چار روزے رکھ کر گناہوں کا اعتراف اور توبہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

    جین مذہب


    جین مت کی ابتدا آج سے تقریباً 2550 سال پہلے ہندوستان کے علاقے اترپردیش میں ہوئی، مہاویر اس مذہب کے بانی ہیں۔

    ہندومت کی طرح جین مت میں بھی سنیاسی مقدس مقامات کی زیارت کے دوران میں روزے رکھتے ہیں اور اسی طرح بعض خاص تہواروں سے پہلے روزے رکھنے کا دستور بھی ان میں پایا جاتا ہے، ان کے مذہب میں مشہور تہوار وہ ہیں، جو ان کے مذہب کے بانی مہاویر کی زندگی کے مختلف ایام کی یاد میں منائے جاتے ہیں۔

    ان کا پہلا تہوار سال کے اس دن منایا جاتا ہے، جس دن مہاویر عالم بالا سے بطن مادر میں منتقل ہوئے تھے۔ دوسرا تہوار ان کے یوم پیدایش پر منایا جاتا ہے۔ تیسرا تہوار اس دن منایا جاتا ہے جس دن انھوں نے دنیا سے تیاگ اختیار کیا تھا، یعنی ترک دنیا کی راہ اختیار کی تھی۔ چوتھا تہوار اس دن منایا جاتا ہے جس دن انھوں نے الہام پا لیا تھا اور پانچواں تہوار اس دن منایا جاتا ہے جس دن ان کی وفات ہوئی تھی اور ان کی روح نے جسم سے مکمل آزادی حاصل کر لی تھی۔

    ان تہواروں میں سب سے نمایاں تہوار پرسنا کے نام سے موسوم ہے۔ یہ تہوار بھادرا پادا (اگست۔ ستمبر) کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔ جین مت کے بعض فرقوں میں یہ تہوار آٹھ دن تک اور بعض میں دس دن تک جاری رہتا ہے۔ اس تہوار کا چوتھا دن مہاویر کا یوم پیدایش ہے۔ اس تہوار کے موقع پر عام لوگ روزے رکھتے اور اپنے پچھلے گناہوں کی معافی مانگتے اور توبہ کرتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • حضرت نوحؑ السلام کی کشتی کس ملک میں ہے؟ ویڈیو دیکھیں

    حضرت نوحؑ السلام کی کشتی کس ملک میں ہے؟ ویڈیو دیکھیں

    اللہ رب العزت نے انسان کی رہنمائی اور اصلاح کے لیے دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر و انبیاء مبعوث فرمائے جنہوں نے اللہ کی وحدانیت اور احکامات لوگوں تک پہنچائے۔

    پیغمبروں اور انبیاء نے اللہ کی جانب سے ملنے والے احکامات اور تعلیمات کو دنیا میں بسنے والے لوگوں تک پہنچایا اور خدائے رب ذوالجلال کی عبادت کا درس دیا۔ دنیا میں بھیجے جانے والے انبیاء کی طویل داستان ہے جنہوں نے لوگوں کر صراط مستقیم پر لانے کی انتھک جدوجہد کی اور ربِ ذوالجلال کا پیغام پہنچانے کی کوشش کی۔

    اسی طرح خدائے ربِ ذوالجلال نے دعوت و تبلیغ کے لیے دنیا میں حضرت نوح علیہ السلام کو بھیجا، جنہوں نے 9سو سال تک اپنی امت کو  راہِ راست (دین حق)  پر آنے کا درس دیا تاہم صرف 80 لوگ اُن پر ایمان لائے۔

    حضرتِ نوحؑ السلام کا تعلق حضرتِ آدم کی نویں یا دسویں پشت ہے جبکہ شجرہ نسب کے حساب سے آپ حضرت ادریسؑ کے پڑ پوتے بھی ہیں، آپؑ نے  اپنی امت کے لوگوں کو حسن عقائد اور اصلاحِ اعمال کی طرف 9 سو سال تک راغب کیا جن میں سے صرف 80 لوگ ایمان لائے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ حضرت نوحؑ نے عراق کے شہر رافدین میں تبلیغ کی کیونکہ اس علاقے میں آپ کی موجودگی کے آثار ملتے ہیں جبکہ اس شہر کی تاریخ میں جس اصلاح پسند شخص کا ذکر ہے اُن کے احوال حضرت نوح سے ملتے ہیں اسی طرح طوفانِ نوح کے آنے کے واقعے کی طرز پر اس علاقے میں عذاب آنے کے اثرات بھی موجود ہیں اسی بنیاد پر مورخین نے ’بلاد الرافدین‘ کو حضرتِ نوح کامسکن قرار دیا۔

    خدائے رب ذوالجلال نے حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کا حکم دیا جو انہوں نے تیار کی اور طوفان میں وہی کشتی اہل حق کو محفوظ رکھنے میں کام آئی جبکہ دنیا کے جو لوگ بھی آپؑ کی تعلیمات پر ایمان نہیں لائے وہ تباہ ہوگئے۔

     چینی ماہرین کا کہنا ہے کہ ’وہ یقین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ یہ کشتی نوح علیہ السلام کے استعمال میں رہنے والی کشتی ہے، جو انہوں نے چار ہزار 8 سو سال قبل مسیح اللہ کے حکم سے بنائی تھی‘۔

    مشہور جریدے کرسچن سائنس مانیٹر کے ماہرین کہتے ہیں کہ نوح علیہ السلام کی کشتی کی باقیات ترکی کے مشرقی علاقے میں واقع کوہِ ارہارات سے ملی ہیں، یہ ایک چوٹی ہے جس کی اونچائی 14 ہزار فٹ بلند ہے۔

    حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی تین سو گز لمبی، 50 گز چوڑی اور تیس گز اونچی تھی، جو 6 ماہ 8 دن تک پانی پر تیرتی رہی اور 10 محرم الحرام کو جودی پہاڑ پر ٹھہری اور پھر آپؑ اپنی قوم کے ساتھ نیچے اترے۔

    مسلم محققین کے مطابق کشتی کے رکنے کا مقام ‘جودی پہاڑ‘ تھی، جو کوہِ کردا کا حصہ ہے، یہ علاقہ جذیرہ ابن عمر کے قریب میں واقع ہے، اس کشتی کی تین منزلیں ہیں جو کئی میٹر برف کے نیچے دبی رہی۔

    مورخین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب پانی کم ہوا تو حضرتِ نوح نے خسران شہر آباد فرمایا اور مسجد تعمیر کی جسے ’سمانین‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، واضح رہے کہ حضرتِ نوح کا مزارِ مبارک لبنان میں واقع ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • جرمنی میں خواتین ڈرائیور کے نقاب پر پابندی برقرار

    جرمنی میں خواتین ڈرائیور کے نقاب پر پابندی برقرار

    برلن: جرمنی کی عدالت نے مسلمان خواتین ڈرائیور پر نقاب کے استعمال پر پابندی برقرار رکھتے ہوئے انہیں ڈرائیونگ کے دوران چہرہ ڈھانپنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی کی عدالت عظمیٰ کی جانب سے یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا کہ جب ایک مسلم خاتون ڈرائیور نے عدالت سے یہ اپیل کی تھی کہ وہ گاڑی چلاتے ہوئے اپنے مذہب کے مطابق چہرہ ڈھانپ کر رکھنا چاہتی ہیں۔

    خاتون نے موقف اختیار کیا تھا کہ گاڑی چلاتے ہوئے نقاب نہ کرنے کی اجازت ان کی مذہبی آزادی کے خلاف ہے، وہ اپنی روز مرہ کی معمولات زندگی اپنے مذہب کے بتائے ہوئے طریقےکے مطابق گزارنا چاہتی ہیں۔

    کینیڈا میں خواتین کے نقاب پر پابندی کا قانون معطل

    جرمنی کی اعلیٰ عدالت کا کہا تھا کہ مذکورہ خاتون عدالت کو یہ بتانے میں کامیاب نہ ہوسکیں کہ کس طرح اس قانون کے ذریعے ان کی مذہبی آزادی متاثر ہو رہی ہے یا پھر کس طرح سے نقاب نہ کرنے سے ان کو کوئی خطرہ ہے۔

    خیال رہے کہ جرمنی کے ٹریفک قوانین کے مطابق ڈرائیونگ کے دوران چہرے کو ڈھانپے پر پابندی ہے تاکہ گاڑی چلانے والے کی شناخت واضح ہوسکے اور ڈرائیونگ کے دوران خود بھی محفوظ رہیں اور دیگر ڈرائیورز کا تحفظ بھی ممکن ہوسکے۔

    آسٹریا میں عوامی مقامات پر پورے چہرے کے نقاب پر پابندی

    خیال رہے کہ اس قانون کو گذشتہ سال ستمبر میں منظور کیا گیا تھا جس کے تحت خلاف ورزی کرنے والوں کو بھاری جرمانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور اس کی مدد سے پولیس کو بھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پکڑنے میں آسانی ہوتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • آسٹریلوی کرکٹرعثمان خواجہ کی منگیترنےاسلام قبول کرلیا

    آسٹریلوی کرکٹرعثمان خواجہ کی منگیترنےاسلام قبول کرلیا

    سڈنی : آسٹریلیا کے پہلے مسلمان کرکٹرعثمان خواجہ کی منگیترریچل میکلیلن نے اسلام قبول کرلیا، دونوں اگلے ماہ شادی کے بندھن میں بندھ جائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستانی نژاد آسٹریلوی کرکٹرعثمان خواجہ کی 22 سالہ منگیتر ریچل میکلیلن نے اسلام قبول کرلیا، انہوں نے کہا کہ یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے اورعثمان یا ان کے اہل خانہ کا ان پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔

    غیرملکی ٹی وی کو انٹرویو کے دوران ریچل میکلیلن نے کہا کہ عثمان خواجہ سے ملاقات سے پہلے انہیں اسلام کے بارے میں اتنا ہی معلوم تھا جتنا میڈیا میں بتایا جاتا ہے۔

    ریچل میکلیلن نے کہا کہ عثمان خواجہ سے ملاقات سے قبل انہیں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق منفی خبریں سننے اور پڑھنے کو ملیں۔

    دوسری جانب آسٹریلوی کرکٹرعثمان خواجہ نے کہا کہ ان کی زندگی میں مذہب کو اولین درجہ حاصل ہے، انہوں نے بتایا کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پرانہیں نفرت آمیز پیغامات موصول ہوتے تھے جن میں لکھا ہوتا تھا کہ ریچل سے شادی کرنا حرام ہے کیونکہ وہ مسلمان نہیں ہے۔

    عثمان خواجہ نے کہا کہ ریچل پراسلام قبول کرنے کے لیے کبھی دباؤ نہیں ڈالا اور اسلام قبول کرنے کا فیصلہ ریچل کا ذاتی فیصلہ ہے۔

    خیال رہے کہ ریچل میکلیلن کا تعلق آسٹریلیا کے شہر برسبین سے ہے اور دونوں اگلے ماہ شادی کے بندھن میں بندھ جائیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں

  • دین اسلام میں ماحول کی حفاظت کا سبق

    دین اسلام میں ماحول کی حفاظت کا سبق

    دین اسلام تمام شعبہ ہائے زندگی کے بارے میں انسانی فطرت کے مطابق ہدایات فراہم کرتا ہے۔ آج دنیا بھر میں کی جانے والی سائنسی تحقیقات قرآن میں لکھے گئے الفاظ کی تصدیق کر رہی ہیں۔

    قرآن کریم کے ذریعے 14 سو سال پہلے ہمیں جو رہنمائی فراہم کی گئی اگر ہم اس پر عمل کرتے تو آج دنیا اور انسانیت ایک محفوظ موڑ پر کھڑی ہوتی جہاں کسی کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔

    اس وقت ہماری دنیا کو سب سے بڑا چیلنج موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کا درپیش ہے جو ماہرین کے مطابق دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: قرآن شریف میں‌ زمین کے خشک حصے غرق آب ہونے کی پیش گوئی

    زمین کو بچانے کے لیے سائنسدان اور ماہرین آج جو مشورے اور اقدامات کر رہے ہیں قرآن کریم اس کی 14 سو سال پہلے ہدایات دے چکا ہے۔

    قرآن کریم اور اسوہ حسنہ میں جہاں انسانوں اور جانوروں سے محبت و شفقت کا سلوک کرنے کی تاکید کی گئی ہے، وہیں درختوں، پھولوں، پودوں، ماحول کا خیال رکھنے اور قدرتی وسائل کے اسراف سے بھی ممانعت کی ہدایت کی گئی ہے۔

    آئیں دیکھتے ہیں کہ اسلام ہمیں کس طرح ماحول کی حفاظت کرنے کا سبق دیتا ہے۔

    صفائی نصف ایمان ہے

    کیا آپ نے بچپن سے پڑھی اس حدیث کے مفہوم پر کبھی غور کیا ہے؟ صفائی ہمارے ایمان کا آدھا حصہ ہے یعنی اگر ہم صفائی پسند نہیں تو ہمارا ایمان بھی آدھا ہے۔ جسم اور لباس کی صفائی سے لے کر گھر، گلی، محلے، اور پورے شہر تک کی صفائی لوگوں کے اہل ایمان ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔

    لیکن بدقسمتی سے ہم اس پر عمل نہیں کر رہے جس کا ثبوت ہمارے شہروں میں جابجا لگے گندگی کے ڈھیر ہیں۔ گندگی اور کچرا نہ صرف ماحول کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ انسانی صحت و جذبات پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

    صاف ستھرے علاقوں اور شہروں کے لوگوں کی صحت بھی بہتر ہوتی ہے جبکہ ان کی جذباتی و دماغی کیفیت بھی مثبت رہتی ہے اور وہ غصے، ڈپریشن اور ذہنی تناؤ سے محفوظ رہتے ہیں۔

    اصراف سے بچیں

    اسلام میں اصراف یا فضول خرچی کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ اسلام کے پیروکار ہوتے ہوئے ہمیں ہر شے خصوصاً قدرتی وسائل جیسے پانی، غذا یا توانائی کے غیر ضروری استعمال سے بچنا چاہیئے۔

    قرآن کی ایک آیت کا مفہوم ہے، ’اللہ اصراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘۔

    درخت لگانا

    ایک درخت لگانے کے بے شمار فوائد ہیں۔ یہ ہمیں تازہ ہوا میسر کرتا ہے، آب و ہوا کو صاف کرتا ہے، پھل اور سایہ فراہم کرتا ہے، جبکہ ماحول میں ٹھنڈک پیدا کرتا ہے۔

    حضور اکرم ﷺ نے ایک بار فرمایا (مفہوم)، ’زمین بہت خوبصورت اور سرسبز ہے، اللہ نے انسان کو اس کا محافظ بنایا ہے۔ جو شخص ایک پودا لگائے اور اس کی دیکھ بھال کرے، یہاں تک کہ وہ درخت بن کر پھل دینے لگے، تو ایسے شخص کو اس کا انعام ضرور ملے گا‘۔

    اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے اپنی زندگی میں جنگ کی جو اخلاقیات طے کی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی، ’جنگ کے دوران دشمن علاقے کا کوئی پھل دار درخت نہ کاٹا جائے اور نہ کھیتیاں جلائی جائیں‘۔

    ذمہ داری کا احساس

    اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’اللہ نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے‘۔ لہٰذا ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ بطور ایک ذمہ دار ہونے کے ہم اپنی ذمہ داری کا احساس کریں، دیگر جانداروں کو اس زمین پر سکون سے رہنے دیں، ماحول کو صاف ستھرا رکھیں اور گندگی اور کوڑا کرکٹ نہ پھیلائیں۔

  • زلزلے کی اصل وجوہات، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

    زلزلے کی اصل وجوہات، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

    کراچی: زلزلہ ایک خوفناک حقیقت کا نام ہے جو ارضیاتی تغیرات کے باعث رونما ہوتے ہیں، زلزلے اگر سمندر کی تہہ میں آئیں تو یہ سونامی کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اب تک زلزلے کی زد میں آکر دنیا بھر میں لگ بھگ ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

    مذکورہ اہم موضوع کے حوالے سے پاکستان اور ایشیاء کے کئی علاقوں میں بالخصوص مسلمان طبقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ زلزلے کی وجہ ہمارے اپنے غلط اعمال ہیں جبکہ سائنس اور ماہرین ارضیات اس قسم کے واقعات کے اصل محرک زمینی پلیٹ کا اپنی جگہ تبدیل کرنے کا نتیجہ بتاتے ہیں۔

    اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جواب حاصل کرنے کے لیے یہ معاملہ مذہبی اسکالر علامہ لیاقت حسین کے سامنے رکھا گیا، اے آر وائی کیو ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے علامہ لیاقت حسین کا کہنا تھا کہ سائنس کہتی ہے کہ زمین کی پلیٹیں ہل جانے سے زلزلے آتے ہیں ہم اس سے انکار نہیں کرتے۔

    کیا آج کازلزلہ ’چاندگرہن‘ کے سبب آیا ہے ؟

    انہوں نے کہا کہ اس پوری کائنات کے مالک اللہ رب العزت ہیں، یہ نظام خدا کے دست قدرت میں ہے، ہم زلزلے کو نہ عذاب کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی آزمائش، یہ کسی کے لیے عذاب اور کسی کے لیے آزمائش کا سبب بن سکتا ہے اللہ کے نیک بندوں پر اس قسم کے آفات آزمائش سمجھی جاتی ہیں۔

    علامہ لیاقت حسین کا کہنا تھا کہ اللہ سبحان وتعالی اس زمین پر اپنی قدرت رکھتا ہے اور وہ جب چاہے زمین کو ہلا سکتا ہے اور کسی بھی قوم پر عذاب نازل کرسکتا ہے۔

    اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ زلزلہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہےجس سے اللہ رب العزت اپنے بندوں کوتنبیہہ فرماتےہیں، ایسے واقعات کے موقع پردعاواستغفارکا اہتمام کرنا چاہیے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سنہ 2040 تک اسلام امریکہ کا دوسرا بڑا مذہب بن جائے گا، تحقیق

    سنہ 2040 تک اسلام امریکہ کا دوسرا بڑا مذہب بن جائے گا، تحقیق

    نیویارک: امریکہ میں  شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق امریکہ میں آئندہ 22 سال میں اسلام امریکہ کا دوسرا بڑا مذہب بننے جارہا ہے‘ اسی تحقیق کے مطابق آئندہ کچھ سالوں میں بھارت دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکہ  کے پیو ریسرچ رپورٹ کے مطابق جس طرح مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی اسے مدد نظر رکھتے ہوئے اسلام 2040 میں امریکہ کے دوسرے  بڑے  مذہب کا درجہ حاصل کرلے گا جبکہ پہلے نمبر پر عیسائیت براجمان رہے گی۔

    مذکورہ تحقیق سنہ 2007 ،2011 اور 2017 میں کی جانے والی تحقیق کو آگے بڑھاتے ہوئے کی گئی ہے جس میں اسلام سمیت دیگر مذاہب کو شامل کیا گیا ہے۔

    سنہ 2050 – یورپ میں مسلمانوں کی آبادی تین گنا بڑھ جائے گی

    تحقیق کے مطابق مسلمانوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اورجس حساب سے گزشتہ سال 2017 میں مسلمانوں کی تعداد دوگنا اضافے کے بعد 3.45 ملین ہوگئی، اور یہ امکان ہے کہ یہ آبادی 2050 میں 8.1 ملین تک بڑھ سکتی ہے۔

     گزشتہ برس ہونے والی اس تحقیق میں یہ بات  بھی سامنے آئی ہے کہ مذہب اسلام کے مانے والوں میں نوعمر افراد کی تعداد زیادہ ہے جس کی وجہ مسلمانوں کی تیز شرح تولید ہے ۔

    سال 2070 – اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا

    پیرو ریسرچ سینٹر کے مطابق امریکہ میں اسلام سنہ 2040 تک دوسرا بڑا مذہب بن جائے گا، اور امریکہ میں مسلمانوں کا کردار بھی اہم ہوگا۔

    اسی تحقیق کا تجزیہ کرنے پر سامنے آیا ہے کہ 2050 تک بھارت انڈونیشیا کو پیچھے چھوڑ کر پوری دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان آبادی والا ملک بن جائے گا اور پوری دنیا میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی تقریباً برابر ہو جائے گی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ 2050 میں اگرچہ دنیا کی مجموعی آبادی کا ایک تہائی حصہ عیسائیت کو ماننے والوں پر مشتمل ہوگا تاہم سب سے زیادہ تیزی سے مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوگا، جس کی وجہ بلند شرح پیدائش اور نوجوان افراد کی تعداد میں اضافہ ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بٹ کوائن کرنسی میں لین دین شرعاً حرام ہے‘ مفتی اعظم مصر

    بٹ کوائن کرنسی میں لین دین شرعاً حرام ہے‘ مفتی اعظم مصر

    قاہرہ : مفتی اعظم دیار مصر ڈاکٹر شوقی عالم نے رقوم کی منتقلی کے لیے ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوائن میں لین دین کو شرعاً حرام قرار دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مفتی اعظم دیار مصر ڈاکٹر شوقی عالم نے ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوائن کے خلاف فتوے میں کہا کہ مسلمانوں کو خریدوفروخت کے لیے بٹ کوائن کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔

    مفتی اعظم نے کہا کہ ڈیجیٹل کرنسی کے استعمال سے فراڈ اور دھوکہ دہی کا خطرہ ہے اور اس کے تیزی سے اتارچڑھاؤ سے افراد اور اقوام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بٹ کوائن کے خلاف یہ فتوی جانے کرنے سے پہلےمعاشی ماہرین سے بھی مدد لی تھی۔

    مفتی اعظم نے کہا ورچوئل یونٹس ٹھوس اثاثوں کی بنیاد پر نہیں ہوتے اور نہ ہی کوئی اتھارٹی یا نگران ادارہ ورچوئل کرنسی کی مانیٹرنگ کا پابند یا جواب دہ ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا اس کا لین دین انٹرنیٹ کے ذریعے کیا جاتا ہے جس پر کسی کا کوئی کنٹرول ہوتا ہے اور نہ کسی قسم کی مانیٹرنگ کی جاسکتی ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں ڈیجیٹل اور ورچوئل کرنسی بٹ کوائن سے شکاگو کی سی بی او ای فیوچرز ایکسچینج میں پہلی بار خریدو فروخت کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

    واضح رہے کہ بٹ کوائن عام کرنسی کا متبادل ہے جوکہ اکثر آن لائن استعمال ہوتا ہے اس کی اشاعت نہیں ہوتی اور یہ بینکوں میں نہیں چلتا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سنہ 2050 – یورپ میں مسلمانوں کی آبادی تین گنا بڑھ جائے گی

    سنہ 2050 – یورپ میں مسلمانوں کی آبادی تین گنا بڑھ جائے گی

    امریکی محققین کا کہنا ہے کہ سنہ 2050 تک یورپ کے کچھ ممالک میں مسلم آبادی میں تین گنا اضافہ ہوجائے گا ۔ دنیا کی آبادی آئندہ 40 سالوں میں 9.3 ارب تک پہنچ جائے گی اور مسلمانوں کی تعداد میں 73 فیصد تک کا اضافہ ہوگا جس کے سبب2050 سے 2070 تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔

    واشنگٹن میں واقع پیو ریسرچ سینٹر کی گزشتہ سال جاری کردہ تحقیق کا تجزیہ کرنے پر سامنے آیا ہے کہ 2050 تک بھارت انڈونیشیا کو پیچھے چھوڑ کر پوری دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان آبادی والا ملک بن جائے گا اور پوری دنیا میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی تقریباً برابر ہو جائے گی۔

    اس وقت دنیا کی تیسری سب سے بڑی آبادی ہندو مذہب کے ماننے والوں کی ہوگی اور بھارت میں ہندوؤں ہی کی اکثریت رہے گی۔اگلی چار دہائیوں میں عیسائی مذہب سب سے بڑا مذہبی گروہ بنا رہے گا لیکن کسی بھی مذہب کے مقابلہ اسلام سب سے تیز رفتار سے آگے بڑھے گا۔

    یورپ میں مسلمانوں کی مجموری آبادی انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے تاہم اس میں مشرقی یورپ اور مغربی یورپ کی تفریق واضح ہے۔ جرمنی میں اس وقت مسلمان کل آبادی کا 6.1 فیصد ہیں اور اگر موجودہ صورتحال کی طرح جرمنی ہجرت کا یہ سلسلہ جاری رہا تو سنہ 2050 میں مسلمان آبادی کا لگ بھگ 19.7 فیصد حصہ ہوں گے۔ دوسری جانب پولینڈ میں یہ شرح محض 0.1 فیصد سے بڑھ کر 0.2 فیصد ہوجائے گی ۔

    یورپ میں مسلم آبادی


    پیوریسرچ سنٹر کی جانب سے جاری کردہ اعدا د و شمار کے مطابق سال 2016 میں مسلمان یورپ کی آبادی کا کل 4.9 فیصد تھے اور ان کی تعداد تیس ملکوں میں 25.8 ملین کے قریب تھی۔ سنہ 2010 میں یورپ میں موجود مسلمانوں کی تعداد19.5 فیصد تھی یعنی کہ چھ سال میں یورپ کی مسلمان آبادی میں لگ بھگ 60 لاکھ مسلمانوں کا اضافہ دیکھنے میں آیا جو کہ یورپی تجزیہ نگاروں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

    سنہ 2014 سے لگ بھگ ہر سال کم از کم پانچ لاکھ مسلمان عراق‘ شام اور افغانستان سے یورپ پہنچ کر پناہ گزین ہورہے ہیں جس کے سبب مسلمان آبادی کی شرح میں یہ تیز ترین اضافہ دیکھا گیا۔

    واضح رہے کہ اس وقت دنیا میں عیسائیت سب سے بڑا مذہب ہے اور اس کے بعد مسلمان آتے ہیں اور تیسری سب سے بڑی آبادی ایسے لوگوں کی ہے جو کسی مذہب کو نہیں مانتے۔اگر موجودہ رجحان برقرار رہا تو2050 سے 2070 تک اسلام سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔

    دنیا کی کل آبادی


    اندازہ ہے کہ اگلے چار عشروں میں دنیا کی آبادی 9.3 ارب تک پہنچ جائے گی اور مسلمانوں کی آبادی میں 73 فیصد کا اضافہ ہو گا، جب کہ عیسائیوں کی آبادی 35 فیصد بڑھے گی اور ہندوؤں کی تعداد میں 34 فیصد اضافہ ہو گا۔

    اس وقت مسلمانوں میں بچے پیدا کرنے کی شرح سب سے زیادہ ہے یعنی اوسطاً ہر خاتون 3.1 بچوں کو جنم دے رہی ہے، عیسائیوں میں ہر خاتون اوسطاً 2.7 بچے کو جنم دے رہی ہے اور ہندوؤں میں بچے پیدا کرنے کی اوسط شرح 2.4 ہے۔

    سنہ 2010 میں پوری دنیا کی 27 فیصد آبادی 15 سال سے کم عمر کی تھی، وہیں 34 فیصد مسلمان آبادی 15 سال سے کم کی تھی اور ہندوؤں میں یہ آبادی 30 فیصد تھی۔ اسے ایک بڑی وجہ سمجھا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی دنیا کی آبادی کے مقابلے زیادہ تیز رفتار سے بڑھے گی اور ہندوؤں اور عیسائیوں اسی رفتار سے بڑھیں گی جس رفتار سے دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق امریکہ میں مسلمانوں کی آبادی یہودیوں سے زیادہ ہو جائے گی۔ بچے پیدا کرنے کی شرح کے علاوہ آباديوں میں اس الٹ پھیر کی وجہ تبدیلیِ مذہب کو بھی بتایا جا رہا ہے۔

    آنے والے عشروں میں عیسائی مذہب کو سب سے زیادہ نقصان ہونے کا خدشہ ہے اور کہا گیا ہے کہ چار کروڑ افراد عیسائی مذہب اپنا لیں گے وہیں دس کروڑ 60 لاکھ لوگ اس مذہب کو چھوڑ دیں گے۔ اسی طرح ایک کروڑ 12 لاکھ لوگ اسلام کو اپنائیں گے وہیں تقریباً 92 لاکھ دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔