Tag: ISLAM

  • جانوروں سے محبت اور نرمی کا سلوک ۔ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے؟

    جانوروں سے محبت اور نرمی کا سلوک ۔ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے؟

    دین اسلام امن کا دین ہے۔ وہ مذہب، عقیدے اور مسلک سے بالاتر ہو کر تمام انسانیت سے محبت کا سبق دیتا ہے۔

    دین اسلام صرف ہمیں انسانوں سے ہی محبت کرنا نہیں سکھاتا بلکہ یہ بے زبان جانوروں سے نرمی کا برتاؤ کرنے، ان کا خیال رکھنے، حتیٰ کہ درختوں کا بھی خیال رکھنے کی تاکید کرتا ہے۔

    دراصل اسلام وہ ضابطہ حیات ہے جو امن، عزت، عظمت، رواداری، انصاف اور مہربانی کا سبق دیتا ہے، چاہے وہ کسی مسلمان کے ساتھ کیا جائے یا غیر مسلم کے ساتھ، جانوروں کے ساتھ ہو یا درختوں کے ساتھ کیا جائے۔

    ہمارے حضور پاک محمد ﷺ کو بھی محسن انسانیت قرار دیا گیا ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ وہ مذہب سے بالاتر ہو کر تمام دنیا کے انسانوں اور خدا کی دیگر مخلوقات کے لیے سراپا رحمت تھے۔

    حضور پاک ﷺ اکثر تلقین کیا کرتے تھے کہ چونکہ جانور بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں لہٰذا ان سے نرمی اور شفقت کا برتاؤ کرنا چاہیئے اور ان کا خیال رکھنا چاہیئے۔

    آج ہم آپ کو حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ سے ایسی کچھ مثالیں بتانے جارہے ہیں جن میں انہوں نے جانوروں سے محبت اور نرمی کا عملی مظاہرہ کیا اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کی۔


    حضور اکرم ﷺ عربوں کو گھوڑوں کی دمیں اور گردن کے بال کاٹنے سے منع فرمایا کرتے تھے جو اس دور کا عام رواج تھا۔ اسی طرح وہ جانوروں کے جسم کے نرم حصوں پر مالک کا نام گودنے سے بھی گریز کی ہدایت کرتے۔


    ایک بار حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، ’جس کسی نے کسی جانور یا پرندے کو بلا سبب نقصان پہنچایا یا مارا، وہ جانور قیامت کے روز خدا سے شکایت کرے گا اور اس کا قاتل خدا کے سامنے جوابدہ ہوگا‘۔


    اسی طرح ایک روایت ہے کہ کچھ افراد کسی سفر پر جا رہے تھے۔ راستے میں انہوں نے ایک پرندے کے گھونسلے سے اس کے ننھے ننھے 2 بچے اٹھا لیے جس کے بعد ان کی ماں قافلے کے اوپر بے قراری کی حالت میں اڑنے اور چکر لگانے لگی۔

    حضور اکرم ﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں سخت خفگی کا اظہار کیا اور پرندے کے بچوں کو واپس ان کی جگہ پر چھوڑنے کی ہدایت کی۔


    جب حضور اکرم ﷺ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو انہوں نے دیکھا کہ وہاں کے لوگ خوراک کے لیے زندہ اونٹ کا کوہان اور بھیڑ کی دمیں کاٹ دیا کرتے تھے۔

    حضور ﷺ نے اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ کسی زندہ جانور کے جسم کے حصے کو کاٹ لینا اسے سخت اذیت پہنچانے اور زندہ درگور کردینے کے مترادف ہے۔


    اسی طرح جانوروں کو ذبح کرنے کے لیے وہ فرمایا کرتے تھے کہ، ’تیز دھار چھری سے جانور کو ذبح کیا کرو تاکہ فوراً اس کی جان نکل جائے اور وہ جان کنی کی اذیت میں مبتلا نہ ہو‘۔


    ایک بار حضور ﷺ نے ایک بیمار اور لاغر اونٹ کو دیکھا تو اس کے مالک کو بلا کر سرزنش کی اور فرمایا، ’جانوروں سے سلوک کے معاملے میں اللہ سے ڈرو اور ان سے اچھا سلوک کرو‘۔


    کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طوائف کے گناہوں کو صرف اس لیے معاف کردیا اور اسے جنت کی بشارت دی کیونکہ اس نے ایک بار ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا تھا۔

    اسی طرح ایک عورت کو صرف اس بنا پر دوزخ میں ڈال دیا گیا کہ اس نے ایک بلی کو بھوکا رکھ کر جان سے مار ڈالا تھا۔


    روایت ہے کہ ایک بار کسی نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ کیا جانوروں سے نرمی کا سلوک کرنے پر بھی خدا کی طرف سے کوئی صلہ ملے گا؟ تو حضور ﷺ نے جواب دیا، ’کسی بھی زندہ جاندار سے مہربانی کا سلوک کرنا انسان کو اللہ کے انعام کا حقدار بنا دیتا ہے‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • رانا ثنا اللہ کی ہائی کورٹ بار کی رکنیت معطل

    رانا ثنا اللہ کی ہائی کورٹ بار کی رکنیت معطل

    لاہور : ہائی کورٹ بار نے صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ رکنیت معطل کرتے ہوئے ان کی بار میں داخلے پر پابندی عائد کر دی ‘ رانا ثنااللہ کے خلاف وکلاء نے لاہور ہائی کورٹ بار کے احاطے میں احتجاجی مظاہرہ کیا‘ صوبائی وزیرقانون کو عہدے سےبرطرف کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق آج بروز جمعہ رانا ثناء اللہ کے بیان کے خلاف لاہور ہائی کورٹ بار کا مذمتی اجلاس منعقد ہوا ‘ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری آفتاب باجوہ نے کہا کہ رانا ثناللہ کے خلاف توہینِ رسالت کا مقدمہ درج کروائیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ صوبے کے وزیرِ قانون نےختم نبوت کو چیلنج ہے‘ جس پر وکلاء خاموش نہیں رہیں گے ۔ بار کے نائب صدر راشد لودھی‘ سیکرٹری عامر سعید اور یگرعہدیداروں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملکی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر
    مسلم قرار دیا تھا‘ اب اس موضوع کو جان بوجھ کر چھیڑاگیا ۔

    اجلاس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ رانا ثنااللہ ‘ میڈیا کے سامنے ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنے والوں کو غیر مسلم قرار دیں اور اپنے بیان پر معافی مانگیں ۔

    وکلا نے ہائی کورٹ بار کے احاطے میں رانا ثناءاللہ کے خلافا حتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ رانا ثناء اللہ کے خلاف توہین رسالت کا مقدمہ درج کیا جائے اور عہدے سےبرطرف کیا جائے جبکہ بار نے رانا ثناء اللہ کی ممبر شپ معطل کرتے ہوئے ان کے داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آج خلیفۂ راشد فاروقِ اعظم کا یومِ شہادت ہے

    آج خلیفۂ راشد فاروقِ اعظم کا یومِ شہادت ہے

    تاریخ عالم میں بہت کم شخصیات ایسی ملتی ہیں جن کی ذات میں اس قدر صلاحیتیں اور خوبیاں ایک ساتھ ہوں کہ ایک طرف فتوحات اور نظام حکومت میں مساوات، عدل و انصاف، مذہبی رواداری اپنی انتہاء پر ہو اور دوسری طرف روحانیت، زہد و ورع، تقویٰ اور بصیرت بھی اپنے پورے کمال پر نظر آئے۔ تاریخ میں اس حوالے سے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا، عدل و انصاف کی بات ہو تو آپؓ اپنے عملی کردار کی وجہ سے منفرد و ممتاز نظر آتے ہیں۔

    خلافت راشدہ کے دوسر ے تاجدار اسلامی تاریخ کی اولوالعزم، عبقری شخصیت ،خُسر رسول ۖ ، رسالت کے انتہائی قریبی رفیق ، خلافت اسلامیہ کے تاجدار ثانی نے ہجرت نبوی کے کچھ عرصہ بعد بیس افراد کے ساتھ علانیہ مدینہ کو ہجرت کی ، آپؓ نے تمام غزوات میں حصہ لیا۔634ء میں خلافت کے منصب پہ فائزکیے گئے۔644ء تک اس عہدہ پر کام کیا۔

    حضرت عمر فاروق ؓ کا قبول اسلام


    اس میں شک نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قبول اسلام حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کا نتیجہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات میں بے شمار صلاحیتیں، سیاسی و انتظامی بصیرت اور عدالت و صداقت ودیعت کر رکھی تھیں،

    حضرت عمر بن خطابؓ وہ خلیفہ ہیں جنہیں اپنی مرضی سے نہ بولنے والے پیغمبر خداۖ نے غلاف کعبہ پکڑ کر دُعا مانگی تھی اے اللہ مجھے عمر بن خطاب عطا فرما دے یا عمرو بن ہشام، دعائے رسول کے بعد عمر بن خطاب تلوار گردن میں لٹکائے ہاتھ بندھے سیدھے دروازہ رسولﷺ پر پہنچے صحابہ کرام نے جب یہ آنے کی کیفیت دیکھی تو بارگاہ رسالت میں دست بستہ عرض کی یا رسول اللہ ۖ عمر اس حالت میں آ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا انہیں آنے دو ۔نیّت اچھی تو بہتر ورنہ اسی تلوار سے اس کا سر قلم کردیا جائے گا۔

    جب بارگاہ رسالت میں عمر بن خطاب حاضر ہوئے دست رسول ۖ پر بیعت کر کے کلمہ طیبہ پڑھا تو فلک شگاف نعروں سے نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند ہوئیں تو ہر طرف بخِِ بخِِ کی صدائیں گونجیں جس عمر بن خطاب کے آنے پر اتنی خوشیاں منائی گئیں جس کے رُعب اور دب دبہ سے دشمنان اسلام اس قدر حواس باختہ ہوتے تھے کہ بے شک یہ مرد قلندر کھلے آسمان تلے تن تنہا تلوار اور کوڑا لٹکا کر آرام کر رہا ہوتا تھا مگر کسی کو یہ جرأ ت نہ ہوتی تھی کہ عمر بن خطاب کا کوڑا یا تلوار اُٹھاتا ۔

    اسی بناء پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عمر کی زبان اور قلب کو اللہ تعالیٰ نے صداقت کا مصدر بنادیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وجود مسعود سے اسلام کی شان و عظمت کو قیصر و کسریٰ کے ایوانوں تک پہنچادیا۔

    لقب فاروق کیسے ملا


    فاروق کا مطلب ہے کہ ’فرق کرنے واالا ‘، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کفر و نفاق کے مقابلہ میں بہت جلال والے تھے اور کفار و منافقین سے شدید نفرت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی و منافق کے مابین حضور انورﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا مگر منافق نہ مانا اور آپؓ سے فیصلہ کے لیے کہا ۔ آپؓ کو جب علم ہوا کہ نبیﷺ کے فیصلہ کے بعد یہ آپ سے فیصلہ کروانے آیا ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کر کے فرمایا جو میرے نبیﷺ کا فیصلہ نہیں مانتا میرے لیے اس کا یہی فیصلہ ہے۔کئی مواقع پر حضور نبی کریمﷺ کے مشورہ مانگنے پر جو مشورہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دیا قرآن کریم کی آیات مبارکہ اس کی تائید میں نازل ہوئیں۔ اور آپؓ کو فاروق کا لقب ملا ۔

    حضرت عمر فاروقؓ دوسرے خلیفہ راشد ہیں ، نبی اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد آپؓ کا رتبہ سب سے بلند ہے، آپؓ کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

    میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا (ترمذی ) ۔

    عمر کی زبان پر خدا نے حق جاری کر دیا ہے (بیہقی)۔

    جس راستے سے عمر گزرتا ہے شیطان وہ راستہ چھوڑدیتا ہے (بخاری ومسلم)۔

    میرے بعد ابوبکر وعمر کی اقتداء کرنا( مشکٰوۃ)۔

    دور خلافت


    آپ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت کی حدود 22لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھیں آپ کے اندازِحکمرانی کودیکھ کر ایک غیر مسلم یہ کہنے پہ مجبور ہوگیاکہ

    اگر عمر کو 10سال خلافت کے اور ملتے تو دنیا سے کفر کانام ونشان مٹ جاتا

    حضرت عمر کازمانہ خلافت اسلامی فتوحات کا دور تھا۔اس میں دو بڑی طاقتوں ایران وروم کو شکست دے کرایران عراق اور شام کو اسلامی سلطنتوں میں شامل کیا، بیت المقدس کی فتح کے بعدآپ خودوہاں تشریف لے گئے۔

    قبول اسلام کے بعد عہد نبوت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سرکار دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہ صرف قرب حاصل ہوا بلکہ تمام معاملات میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مشاورت کو اہمیت حاصل تھی۔ غزوات ہوں یا حکومتی معاملات، سب میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ لیا جاتا تھا۔

    حضرت عمر فاروقؓ کا مشہور قول ہے کہ

    اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کُتا بھی پیاسا مر گیا تو عمر سے پوچھا جائے گا

    حضرت عمرؓکی فتوحات


    حضرت عمر فاروق ؓ کے دور حکومت میں جن ملکوں اور علاقوں کو فتح کیا گیا ان میں عراق، شام، دمشق، حمس، یرموک، بیت المقدس، کساریہ، تکریت ، خوزستان، آذر بائیجان، تبرستان ، آرمینیہ، فارس، کرمان، سیستان، مکران ،خراسان، مصر، سکندریہ سمیت دیگر علاقوں کو فتح کیا اور اسلام کا پرچم سربلند کیا ۔

    حضرت عمرؓکے دور میں قائم ہونے والے محکمے


    محکمہ فوج، پولیس، ڈاک، بیت المال، محاصل، جیل، زراعت، آبپاشی اور تعلیم کے محکمہ جات کا خطہ عرب میں قیام آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہوا۔ اس سے پیشتر یہ محکمے موجود نہ تھے۔ ان محکموں کے قیام سے یکسر نظام خلافت، نظام حکومت میں بدل گیا ‘تمام محکموں کے افسران اور ملازمین کی تنخواہیں مقرر کی گئیں۔

    ۔ آپؓ نے بیت المال کا شعبہ فعال کیا، مکاتب و مدارس کا قیام اور اساتذہ کی تنخواہیں

    ۔ اسلامی مملکت کو صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم کیا عشرہ خراج کا نظام نافذ کیا ۔

    ۔ مردم شماری کی بنیاد ڈالی، محکمہ عدالت اور قاضیوں کے لئے خطیر تنخواہیں متعین کیں۔

    ۔ احداث یعنی پولیس کا محکمہ قائم کیا، جیل خانہ وضع کیا اورجلاوطنی کی سزا متعارف کی۔

    ۔ باقاعدہ فوج اور پولیس کے ملازمین بھرتی کئے گئے، سن ہجری جاری کیا، محصول اور لگان،

    ۔ زراعت کے فروغ کے لئے نہریں کھدوائیں، نہری اور زرعی نظام کو جدید تقاضوں میں ترتیب دیا گیا

    ۔ باقاعدہ حساب کتاب کے لئے مختلف شعبوں کا سربراہ مقرر کیا

    ۔ حرم اور مسجد نبوی کی توسیع، باجماعت نماز تراویح، فجر کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کا اضافہ۔

    ۔ تمام محکمہ جات کے لئے دفاتر کا قیام، نئے شہروں اور صوبوں کا قیام

    ۔ تجارتی گھوڑوں پر زکوٰۃ کا اجراء۔ جہاد کے لئے باقاعدہ گھوڑوں کی پرورش کا اہتمام

    ۔ حربی تاجروں کو تجارت کی اجازت، مفلوک الحال، یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے وظائف

    ۔ مکہ اور مدینہ کے درمیان مسافروں کے آرام کے لئے سرائیں اور چوکیوں کا قیام، بچوں کے وظائف،

    ۔ قیاس کا اصول رائج کیا، فرائض میں عدل کا مسئلہ ایجاد کیا

    ۔ امام اور موذن کی تنخواہ مقرر کی، مساجد میں وعظ کا طریقہ جاری کیا

    شہادت


    اسلام کے اس عظیم سپوت کی فتوحات سے اہل باطل اتنے گھبرائے کے سازشوں کا جال بچھا دیا اور ستائیس ذی الحجہ کو ایک ایرانی مجوسی ابولولو فیروز نے نمازِ فجر کی ادائیگی کے دوران حضرت عمررضی اللہ عنہ کو خنجر مار کر شدید زخمی کر دیا۔

    یکم محرم الحرام 23 ہجری کو امام عدل و حریت ، خلیفہ راشد،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا ثمر، امیر المومنین ، فاتح عرب وعجم، مدینہ منورہ میں تریسٹھ سال کی عمر میں شہادت کے رتبے پرفائز ہوئے، آپ روضہ رسولﷺ میں انحضرتﷺ کے پہلو مبارک میں مدفن ہیں۔

    وہ عمر جس کے اعداء پہ شیدا سقر
    اس خدا دوست حضرت پہ لاکھو ں سلام

  • اسپین کے الحمرا محل میں 500 سال بعد اذان کی گونج

    اسپین کے الحمرا محل میں 500 سال بعد اذان کی گونج

    اسپین : تقریباً 500 سال سے اسپین کے الحمرا محل کی دیواروں نے اذان کی آواز نہیں سنی تھی، لیکن چند روز قبل محل کے اندر ایک شخص کی اذان دیتی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں سعودی عرب میں پیدا ہونے والا شامی موسیقار مؤذ الناس الحمرا محل کے اندر اذان دے رہا ہے اور لوگ حیرت سے دیکھ کر ویڈیوز بنارہے ہیں ۔

    جدہ میں پیدا ہوا گلوکار اسلامی موسیقی میں مہارت رکھتا ہے جبکہ شام سے انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم میں ڈگری بھی حاصل کر چکا ہے۔

    پڑھیں :‌  سونو نگم کے دن کا آغاز، اذان کے ساتھ

    جب مؤذ الناس سے پوچھا گیا کہ یہیں پر ہی کیوں اذان دینے کا فیصلہ کیا تو الناس کا کہنا تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ محل کی دیواریں اللہ کی آواز کو یاد کر رہی ہے۔

    الناس نے ویڈیو فیس بک پر بھی شیئر کی ، جو تیزی سے وائرل ہوگئی، اب تک ایک ملین لوگ ویڈیو دیکھ چکے ہیں جبکہ 250,000 سے زائد بار شیئر ہو چکی ہے۔

    خیال رہے کہ سنہ 711 میں طارق بن زیاد کی سربراہی میں فوج نے جبل طارق پر اتری اور اسپین کی مسیحی حکومت پر قبضہ کرکے یورپ میں مسلم اقتدار کا آغاز کیا۔

    اسپین میں الحمرا وہ محل ہے، جو 13ویں صدی میں محمد بن الاحمر نے تعمیر کیا تھا۔ الحمرا محل بھی ہے اور قلعہ۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • آج ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا یومِ وصال ہے

    آج ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا یومِ وصال ہے

    آج ام المومنین، صدیقہٗ عالم جنابِ عائشہ کا یوم وفات ہے، آپ نے 17 رمضان 58 ہجری، بروز منگل 66 سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے پردہ فرمایا تھا۔

    حضرت عائشہ پیغمبر اسلام ﷺ کی صغیر سن زوجہ تھیں اور آپ ﷺ نے انہیں شرفِ زوج اپنے دوست اورصحابی حضرت ابوبکرؓ کے احترام میں عطا کیا تھا۔

    ولادت

    حضرت ام رومان کا پہلا نکاح عبداللہ ازدی سے ہوا تھا، عبداللہ کے انتقال کے بعد وہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے عقد میں آئیں حضرت ابوبکر کے دو بچے تھے، عبدالرحمنؓ اور عائشہؓ۔ حضرت عائشہؓ کی تاریخ ولادت کے متعلق تاریخ وسیرت کی تمام کتابیں خاموش ہیں۔ ان کی ولادت کی صحیح تاریخ نبوت کے پانچویں سال کا آخری حصہ ہے۔ ان کا لقب صدیقہ تھا، ام المومنین ان کا خطاب تھا، نبی مکرم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنت الصدیق سے بھی خطاب فرمایا ہے اور کبھی کبھار حمیرا کے لقب سے بھی پکارتے تھے۔


    حضرت ابوبکرصدیق ؓ کا یومِ وصال


     کنیت

    عرب میں کنیت شرافت کا نشان ہےچونکہ حضرت عائشہؓ کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی اس لیے کوئی کنیت بھی نہ تھی۔ ایک دفعہ آنحضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے حسرت کے ساتھ عرض کیا کہ اورعورتوں نے تو اپنی سابق اولادوں کے نام پر کنیت رکھ لی ہے، میں اپنی کنیت کس کے نام پر رکھوں؟ فرمایا اپنے بھانجے عبداللہ کے نام پر رکھ لو، چنانچہ اسی دن سے ام عبداللہ کنیت قرارپائی۔

    نکاح

    حضرت عائشہؓ ایک روایت کے مطابق ہجرت سے ٣ برس قبل سید المرسلین ﷺ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور9برس کی عمرمیں رخصتی ہوئی۔ ان کا مہر بہت زیادہ نہ تھا صرف 500 درہم تھا۔

    وفات

    سن ٥٨ ہجری کے ماہ رمضان میں حضرت عائشہؓ بیمار ہوئیں اور انہوں نے وصیت کی کہ انہیں امہات المومنینؓ اور رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے اہل بیت کے پہلو میں جنت البقیع میں دفن کیا جائے۔ ماہ رمضان کی 17تاریخ منگل کی رات ام المومنین عائشہؓ نے وفات پائی۔ آپ 18سال کی عمر میں بیوہ ہوئی تھیں اور وفات کے وقت ان کی عمر 66 برس تھی۔ حضرت ابوہریرہؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔

    حضرت عائشہؓ اور احادیث نبوی

    ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کو علمی صداقت اور احادیث روایت کرنے کے حوالے سے دیانت وامانت میں امتیاز حاصل تھا۔ ان کا حافظہ بہت قوی تھا جس کی وجہ سے وہ حدیث نبوی کے حوالے سے صحابہ کرام کے لیے بڑا اہم مرجع بن چکی تھیں۔

    حضرت عائشہ حدیث حفظ کرنے اورفتویٰ دینے کے اعتبار سے صحابہ کرام سے بڑھ کرتھیں۔ جنابِ عائشہ صدیقہؓ نے دو ہزار دو سو دس (2210) احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی۔

    دور نبوی کی کوئی خاتون ایسی نہیں جس نے ام المومنین عائشہؓ سے زیادہ رسول اللہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ہو۔ صدیقہؓ سے ایک سو چوہتر (174) احادیث ایسی مروی ہیں جو بخاری ومسلم میں ہیں۔

  • اسلام کے علاوہ کن کن مذاہب میں روزے رکھے جاتے ہیں

    اسلام کے علاوہ کن کن مذاہب میں روزے رکھے جاتے ہیں

    دنیا میں اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب میں بھی روزے کا تصور پایا جاتا ہے اور غیرمسلموں کا بھی ایک طبقہ روزہ رکھتا ہے، حالانکہ ان کے ہاں روزے کے معاملات کچھ الگ ہیں اور وہ اپنے طریقے سے روزے رکھتے ہیں، ان کے روزے کے ایام بھی مختلف ہیں۔

    اسلام میں روزہ ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے، اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ہیں۔ جن میں روزہ ایک اہم عبادت ہے ،اور اپنے اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

    دنیا میں مسلمانوں کی بڑی تعداد رمضان کے روزے رکھتی ہے، اللہ نے قرآن کریم میں جہاں روزے کی فرضیت بیان کی ہے وہاں یہ بھی بتایا ہے کہ پرانی امتوں پر بھی روزے فرض کئے گئے تھے۔

    ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فر ض کئے گئے ہیں جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے قبل ہوئے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘(سورہ بقرہ)

    اہل اسلام کے لئے روزے کی فرضیت کا حکم اگرچہ ہجرت نبوی کے بعد ہوا مگراس سے قبل بھی دنیا کے دوسرے مذاہب میں روزے کا تصور پایا جاتا تھا۔

    یہودی مذہب

    مسلمانوں کے علاوہ یہودی بھی بہت زیادہ روزے رکھتے ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام پرنازل ہونے والی مُقدس کتاب تورات میں کئی مقامات پرروزہ کی فرضِیّت کاحکم دیاگیاہے۔

    حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں صرف ایک روز ہ فرض تھا اور یہ عاشورہ کا روزہ تھا ۔یوم عاشورہ کے روزے کو کفارہ کا روزہ کہا جاتا ہے، روزے میں یہودی اپنا بیش تر وقت سینیگاگ میں گزارتے ہیں اور توبہ و استغفار کرتے ہیں نیز توریت کی تلاوت میں مصروف رہتے ہیں۔

    تورات کی بعض روایات سے ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل پر ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو کفارہ کا روزہ رکھنا ضروری تھا ۔ یہ روزہ نہ رکھنے والوں کے لئے سخت بات کہی گئی تھی کہ جو کوئی اس روزہ نہ رکھے گا اپنی قوم سے الگ ہو جائے گا ۔

    توریت کی روایات بتاتی ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب طور پہاڑ پر توریت لینے کے لئے گئے اور چالیس دن مقیم رہے تو روزے کی حالت میں رہے۔

    یہودیوں کے ہاں مصیبت اور آفات آسمانی کے وقت میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور وہ رکھتے بھی ہیں۔ جب بارشیں نہیں ہوتی ہیں اور قحط سالی پڑتی ہے تو بھی یہودیوں کے ہاں روزہ رکھا جاتا ہے۔یہودیوں میں اپنے بزرگوں کے یوم وفات پر روزہ رکھنے کا رواج بھی پایا جاتا ہے۔ مثلاً موسیٰ علیہ السلام کے یوم انتقال پر یہودی روزہ رکھتے ہیں، علاوہ ازیں کچھ دوسرے بزرگوں کے یوم وفات پر بھی روزے رکھے جاتے ہیں۔

    پارسی مذہب

    پارسی مذہب کی اِبتدا حضرت عیسٰی علیہ السلام سے چھ سو سال پہلے فارس (ایران)میں ہوئی تھی، یہودیوں کی طرح عیسائیوں میں بھی روزہ کا تصور پایاجاتا ہے۔ انجیل کی روایات کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام نے چالیس دن اور چالیس رات روزہ رکھا تھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے روزے کے بارے میں اپنے حواریوں کو ہدایت بھی فرمائی ہے۔

    رومن کیتھولک

    عیسائیوں میں سب سے بڑا فرقہ رومن کیتھولک ہے، رومن کیتھولک عیسائیوں میں بُدھ اورجمعہ کو روزہ رکھاجاتا ہے۔ اِن روزوں کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں پانی پینے کی اجازت ہوتی ہے کیونکہ اُن کے بقول پانی خوراک میں شامل نہیں ہے۔

    بائبل میں اس بات کی تاکید ملتی ہے کہ روزہ خوشدلی کے ساتھ رکھا جائے اور چہرہ اداس نہ بنایا جائے اور نہ ہی بھوک وپیاس سے پریشان ہوکر چہرہ بگاڑا جائے۔

    ہندو مذہب

    بھارت میں پرانے زمانے سے ہی روزے کا تصور پایا جاتا ہے جسے عرف عام میں ’’ورت‘‘ کہا جاتا ہے۔’’ورت‘‘کیوں رکھا جاتا ہے اور اس کے احکام کہاں سے آئے اس بارے میں ٹھیک ٹھیک کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر مذہبی اور سماجی روایات چلی آرہی ہیں جن کی پابندی میں یہاں روزہ رکھا جاتا ہے۔

    ہندووں میں ہر بکرمی مہینہ کی گیارہ بارہ تاریخوں کو ’’اکادشی‘‘ کا روزہ ہے، اس حساب سے سال میں چوبیس روزے ہوئے ، ہندو جوگی اور سادھو میں بھوکے رہنے کی روایت پرانے زمانے سے چلی آرہی ہے اور وہ تپسیا وگیان ،دھیان کے دوران عموماً کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔

    ہندووں کے ہاں روزے کی حالت میں پھل،سبزی اور دودھ وپانی وغیرہ کی ممانعت نہیں ہے ،مگر بعض روزے ایسے بھی ہیں، جن میں وہ ان چیزوں کا استعمال بھی نہیں کرسکتے ہیں۔

    ہندوسنیاسی بھی جب اپنے مُقدس مقامات کی زیارت کیلئے جاتے ہیں تو وہ روزہ میں ہوتے ہیں، ہندوؤں میں نئے اور پورے چاند کے دنوں میں بھی روزہ رکھنے کا رواج ہے۔ اِس کے علاوہ قریبی عزیز یا بزرگ کی وفات پربھی روزہ رکھنے کی رِیت پائی جاتی ہے۔

    خاص بات یہ کہ ہندو عورتیں اپنے شوہروں کی درازی عُمر کیلئے بھی کڑواچوتھ کاروزہ رکھتی ہیں۔

    بُدھ مذہب

    بدھ مذہب کی ابتدا چھٹی صدی قبل مسیح کے لگ بھگ ہندوستان کے شمال مشرقی حصہ میں ہوئی، بدھ مت کے بانی مہاتما بدھ تھے، بدھ مت میں روزے کو ان تیرہ اعمال میں شمار کیا گیا ہے، جو ان کے نزدیک خوش گوار زندگی اپنانے میں مدد دیتے ہیں۔ وہ روزے کو باطن کی پاکیزگی کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔

    بُدھ مت کے بھکشو (مذہبی پیشوا) کئی دنوں تک روزہ رکھتے ہیں اور اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔

    گوتم بُدھ کی برسی سے مُتصِل پہلے پانچ دن کے روزے رکھے جاتے ہیں یہ روزے بھکشو مکمل رکھتے ہیں لیکن عوام جزوی روزہ رکھتے ہیں جس میں صرف گوشت کھانامنع ہوتاہے۔

    بُدھ مت میں عام پیروکاروں کو ہر ماہ چار روزے رکھ کر گناہوں کا اعتراف اور توبہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

    جین مذہب

    جین مت کی ابتدا آج سے تقریباً 2550 سال پہلے ہندوستان کے علاقے اترپردیش میں ہوئی۔ مہاویر اس مذہب کے بانی ہیں۔

    ہندومت کی طرح جین مت میں بھی سنیاسی مقدس مقامات کی زیارت کے دوران میں روزے رکھتے ہیں اور اسی طرح بعض خاص تہواروں سے پہلے روزے رکھنے کا دستور بھی ان میں پایا جاتا ہے، ان کے مذہب میں مشہور تہوار وہ ہیں، جو ان کے مذہب کے بانی مہاویر کی زندگی کے مختلف ایام کی یاد میں منائے جاتے ہیں۔

    ان کا پہلا تہوار سال کے اس دن منایا جاتا ہے، جس دن مہاویر عالم بالا سے بطن مادر میں منتقل ہوئے تھے۔ دوسرا تہوار ان کے یوم پیدایش پر منایا جاتا ہے۔ تیسرا تہوار اس دن منایا جاتا ہے جس دن انھوں نے دنیا سے تیاگ اختیار کیا تھا، یعنی ترک دنیا کی راہ اختیار کی تھی۔ چوتھا تہوار اس دن منایا جاتا ہے جس دن انھوں نے الہام پا لیا تھا اور پانچواں تہوار اس دن منایا جاتا ہے جس دن ان کی وفات ہوئی تھی اور ان کی روح نے جسم سے مکمل آزادی حاصل کر لی تھی۔

    ان تہواروں میں سب سے نمایاں تہوار پرسنا کے نام سے موسوم ہے۔ یہ تہوار بھادرا پادا (اگست۔ ستمبر) کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔ جین مت کے بعض فرقوں میں یہ تہوار آٹھ دن تک اور بعض میں دس دن تک جاری رہتا ہے۔ اس تہوار کا چوتھا دن مہاویر کا یوم پیدایش ہے۔ اس تہوار کے موقع پر عام لوگ روزے رکھتے اور اپنے پچھلے گناہوں کی معافی مانگتے اور توبہ کرتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • آج حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یومِ ولادت منا یا جارہا ہے

    آج حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یومِ ولادت منا یا جارہا ہے

    آج عالمِ اسلام حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یومِ ولادت باسعادت منارہا ہے،آپ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے اور خلیفہ راشد چہارم تھے۔

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ 13 رجب کو ہجرت سے 24 سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے آپ کی پیدائش سے متعلق تواریخ میں لکھا گیا ہے کہ آپ بیت اللہ کے اندر پیدا ہوئے، آپ کا شماراسلام قبول کرنے والے اولین افراد میں ہوتا ہے۔

    آپ کا حسبِ نسب


    آپ کے والد حضرت ابو طالبؑ اور والدہ جنابِ فاطمہ بنت ِ اسد دونوں قریش کے قبیلہ بنی ہاشم سے تعلق رکھتے تھے اور ان دونوں بزرگوں نے بعدِ وفات حضرت عبدالمطلب پیغمبر اسلام صلی علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کی تھی۔

    آپ کی پرورش یوں بھی مبارک تھی کہ وہ تمام کے تمام ایامِ، دورِ شیر خوارگی چھوڑ کر حضور اکرم صلی علیہ وسلم کے زیرِ سایہ رہی۔ وہ ایک لمحہ کے لیئے بھی حضور ان کو تنہا نہیں چھو ڑتے تھے ۔

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں عام روایت ہے کہ آپ نے 13 سال کے سن میں اسلام قبول کیا اور مکے میں پیش آںے والی تمام مشکلات میں پیغمبر اسلام کے ہم رکاب رہے۔

    حضرت علی ؓ کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول کریم ان کی بہت عزت کرتے تھے او اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔ جتنے مناقب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں احادیث نبوی میں موجود ہیں، کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شان میں احادیثِ مبارکہ


    عالم ِ اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت علی سے منسوب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چند احادیث مندرجہ ذیل ہیں ۔

    علیؓ مجھ سے ہیں اور میں علیؓ سے ہوں۔

    میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہے

    تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علیؓ ہے۔

    علیؓ کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی۔

    یہ (علیؓ) مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے۔

    حضت علی کرم اللہ وجہہ کی تین فضیلتیں


    وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں ,, یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو نفسِ رسول کا خطاب ملا، حضرت علیؓ کا عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کرم اللہ وجہہ کا دروازہ کھلا رکھا گیا۔

    جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیغمبر نے اپنا دنیا واخرت میں بھائی قرار دیا ۔

    آخر میں غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا علی بھی مولا ہیں۔

    حضرت علی علیہ السّلام کو 19 رمضان40ھ  کو صبح کے وقت مسجد میں عین حالتِ نماز میں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا گیا، زہر کےاثر سے 3 دن جانکنی کی حالت میں رہنے کے بعد 21 رمضان کو آپ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ آپ کا روضہ مبارک عراق کے شہرنجف میں مرجع الخلائق ہے۔

  • آج پہلے خلیفہ یارِغارحضرت ابوبکرصدیقؓ کا یومِ وصال ہے

    آج پہلے خلیفہ یارِغارحضرت ابوبکرصدیقؓ کا یومِ وصال ہے

    آفتابِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درخشندہ ستاروں میں ایک روشن نام یارِغار، پاسدارِخلافت، افضل البشر بعد الانبیاء حضرت ابوبکر صدیق کا ہے جن کو امتِ مسلمہ کا سب سے افضل امتی کہا گیا ہے. بالغ مردوں میں آپ سب سے پہلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے. آپ کی صاحب زادی حضرت عائشہ صدیقہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبوب زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

    ابتدائی زندگی


    واقعہ فیل کے تین برس بعد آپ کی مکہ میں ولادت ہوئی.آپ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت پر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مل جاتا ہے.آپ کا نام پہلے عبداکعبہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بدل کر عبداللہ رکھا ، آپ کی کنیت ابوبکر تھی. آپ قبیلہ قریش کی ایک شاخ بنو تمیم سے تعلق رکھتے تھے.آپ کے والد کا نام عثمان بن ابی قحافہ اور والدہ کا نام ام الخیر سلمٰی تھا.

    abu-bakar-post-2

    آپ کا خاندانی پیشہ تجارت اور کاروبار تھا. کتبِ سیرت اور اسلامی تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعثت سے قبل ہی آپ کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان گہرے دوستانہ مراسم تھے. ایک دوسرے کے پاس آمدرفت ، نشست و برخاست، ہر اہم معاملات پر صلاح و مشورہ روز کا معمول تھامزاج ميں یکسانیت کے باعث باہمی انس ومحبت کمال کو پہنچا ہوا تھا.بعث کے اعلان کے بعد آپ نے بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔

    خلافت


    آپ اسلامی سلطنت کے پہلے خلیفہ تھے اور آپ کا دورِ خلافت 2 سال تین ماہ کے عرصے پر محیط ہے۔ یہ ایک تاریخ ساز حقیقت ہے کہ خلیفہ المسلمین، جانشین پیمبر حضرت ابو بکرصدیق نے خلافت کا منصب و زمہ داری سنبھالتے ہی پہلے روز اپنے خطبے میں جس منشور کا اعلان فرمایا پورے دور خلافت میں اس کے ہرحرف کی مکمل پاسداری کی.آپ کی دینی ومذہبی خدمات تاریخ اسلام کا روشن باب ہیں۔

    پہلا خطبہ


    میں آپ لوگوں پر خلیفہ بنایا گیا ہوں حالانکہ میں نہیں سمجھتا کہ میں آپ سب سے بہتر ہوں. اس ذات پاک کی قسم ! جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں نے یہ منصب و امارت اپنی رغبت اور خواہش سے نہیں لیا، نہ میں یہ چاہتا تھا کہ کسی دوسرے کے بجائے یہ منصب مجھے ملے، نہ کبھی میں نے اللہ رب العزت سے اس کے لئے دعا کی اور نہ ہی میرے دل میں کبھی اس (منصب) کے لئے حرص پیدا ہوئی. میں نے تو اس کو بادل نخواستہ اس لئے قبول کیا ہے کہ مجھے مسلمانوں میں اختلاف اور عرب میں فتنہ ارتدار برپا ہوجانے کا اندیشہ تھا۔

    abu-bakar-post-1

    میرے لئے اس منصب میں کوئی راحت نہیں بلکہ یہ ایک بارعظیم ہے جو مجھ پر ڈال دیا گیا ہے. جس کے اٹھانے کی مجھ میں طاقت نہیں سوائے اس کے اللہ میری مدد فرمائے. اب اگر میں صحیح راہ پر چلوں تو آپ سب میری مدد کیجئے اور اگر میں غلطی پر ہوں تو میری اصلاح کیجئے. سچائي امانت ہے اور جھوٹ خیانت، تمہارے درمیان جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کے میں اس کا حق اس کو دلواؤں . اور جو تم میں قوی ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں اس سے حق وصول کروں۔

    ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی قوم نے فی سبیل اللہ جہاد کو فراموش کردیا ہو اور پھر اللہ نے اس پر ذلت مسلط نہ کی ہو،اور نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ کسی قوم میں فحاشی کا غلبہ ہوا ہو اور اللہ اس کو مصیبت میں مبتلا نہ کرے.میری اس وقت تک اطاعت کرنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم کی راہ پر چلوں اور ا گر میں اس سے روگردانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں (طبری. ابن ہشام)۔

    صدیق


    صدیق اورعتیق آپ کے خطاب ہیں جو آپ کو دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عطا ہوئے.آپ کو دو مواقع پرصدیق کا خطاب عطا ہوا.اول جب آپ نے نبوت کی بلاجھجک تصدیق کی اوردوسری بار جب آپ نے واقعۂ معراج کی بلا تامل تصدیق کی اس روز سے آپ کو صدیق اکبر کہا جانے لگا۔

    abu-bakar-post-3

    وصال


    22جمادی الثانی 13 ہجری بمطابق 23 اگست 634 ء کو آپ نے 63 برس کی عمر میں مدینہ منورہ میں وفات پائی.آپ کی مدت خلافت دو سال تین ماہ اور گیارہ دن تھی. زندگی میں جو عزت واحترام آپ کو ملا۔ بعد وصال بھی آپ اسی کے مستحق ٹھیرے او سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پہلو میں محو استراحت ہوئے.آپ کی لحد سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بائیں جانب اس طرح بنائی گئی کہ آپ کا سر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شانہ مبارک تک آتا ہے۔


  • سال 2070 تک اسلام عیسائیت کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا

    سال 2070 تک اسلام عیسائیت کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا

    واشنگٹن : اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو پوری دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے اب رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سال 2070 تک اسلام عیسائیت کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا جبکہ 2050 میں بھارت سب سے زیادہ مسلمان آبادی والا ملک بن جائے گا۔

    پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے دنیا کے سب سے مقبول مذہب سے متعلق کی گئی تحقیق کے مطابق آبادی کے اعتبار سے اسلام دنیا کا تیزی سے ترقی کرنے والا مذہب ہے، جس کے ماننے والوں کی تعداد 2010 تک 1.6 بلین تھی، جو دنیا کی آبادی کا 23 فیصد ہے جب کہ اس کے مقابلے میں عیسائیت کے ماننے والے افراد کی تعداد 2.2 بلین تھی جو دنیا کی مجموعی آبادی کا 31 فیصد بنتا ہے۔

    pf_15-04-02_projectionsoverview_2050-sidebar_310px

     

    حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2070 تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا اور مسلمانوں میں آبادی بڑھنے کی شرح دوسرے مذاہب کے مقابلے میں زیادہ ہوگی۔

    %db%8c%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85-1

     

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلم آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور خاص طور پر شمالی امریکا اور یورپ میں مسلم آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، 2050 میں بھارت سب سے زیادہ مسلمان آبادی والا ملک بن جائے گا جبکہ 2010 میں مسلمانوں کی سب بڑی آبادی انڈونیشیا میں تھی۔


    مزید پڑھیں : آئندہ 50 سالوں میں دنیا میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی


    تحقیق میں بتایا گیا کہ 2050 میں اگرچہ دنیا کی مجموعی آبادی کا ایک تہائی حصہ عیسائیت کو ماننے والوں پر مشتمل ہوگا تاہم سب سے زیادہ تیزی سے مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوگا، جس کی وجہ بلند شرح پیدائش اور نوجوان افراد کی تعداد میں اضافہ ہے۔

    3dd475f200000578-0-image-m-15_1488358562172

    رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال امریکا میں مسلمانوں کی آبادی 3.3 ملین تھی، جو امریکا کی مجموعی آبادی کا ایک فیصد ہے تاہم 2050 تک مسلمانوں کی آبادی میں 2.1 فیصد تک اضافے کا امکان ہے۔

    واضح رہے کہ اس وقت دنیا میں عیسائیت سب سے بڑا مذہب ہے اس کے بعد مسلمان آتے ہیں اور تیسری سب سے بڑی آبادی ایسے لوگوں کی ہے جو کسی مذہب کو نہیں مانتے۔

  • سابق صدر کی بیٹی کو زہر دے کر قتل کردیا گیا

    سابق صدر کی بیٹی کو زہر دے کر قتل کردیا گیا

    تاشقند: ازبک نیشنل سیکیورٹی کے اہلکار نے دعویٰ کیا ہے کہ ازبکستان کے پہلے صدر اسلام کریموف کی بیٹی گلنارا کو زہر دے کر قتل کردیا گیا، گلنارا کا شمارسوویٹ یونین کی ارب پتی خواتین میں ہوتا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق ازبکستان کے پہلے صدر اسلام کریموف کی صاحبزادی اور سوویت یونین کی ارب پتی خاتون گلنارا کو زہر دے کر قتل کرنے کی افواہیں گردش کررہی ہیں، غیر ملکی خبررساں ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ گلنارا کو 5 نومبر کو ہی زہر دے کر قتل کیا گیا۔

    saddar-2

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ازبک صدر کی بیٹی کو زہر دے کر قتل کرنے کی تصدیق نیشنل سیکیورٹی سروس کا اہلکار بھی کرچکا ہے، گزشتہ دو سال سے مقتولہ کو حکومت کی جانب سے پاگل خانے میں قید رکھا گیا تھا۔

    saddar-1

    چوالیس سالہ گلنارا کریموف کا شمار دنیا کی خوبصورت اور امیر ترین خواتین میں ہوتا تھا، انہوں نے ہاورڈ یونیورسٹی سے ایم بی اے کی تعلیم حاصل کر کے اپنے کریئر کا آغاز کیا۔ خوبصورت ہونےکے باعث گلنارا نے فیشن انڈسٹری میں بھی قدم رکھا اور اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے تھے۔

    saddar-3

    ازبکستان کے سابق صدر اسلام کریموف کا انتقال رواں سال ستمبر میں ہوا ۔ حکومتی قید میں ہونے کے باعث صاحبزادی کو والد کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ گلنارا کو ازبک صدر کا حقیقی جانشین سمجھا جاتا تھا تاہم 2013 میں والد اور اُن کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوگئے تھے جس کے بعد رشتے میں بگاڑ پیدا ہوا۔