Tag: ISLAM

  • قربانی کرنے سے پہلے یاد رکھنے والی باتیں

    قربانی کرنے سے پہلے یاد رکھنے والی باتیں

    کراچی: اسلامی کلینڈرکے آخری مہینے ذی الحج کی میں فرزندانِ توحید اسلام کا سب سے بڑارکن حج ادا کرتےہیں اور اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی لازوال قربانی کی یاد میں حلال جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔

    قربانی بھی اسلام کا ایک اہم رکن ہے جو کہ صاحبانِ نصاب پرفرض کیا گیا ہے پاکسانی معاشرے میں بھی قربانی کوانتہائی اہمیت حاصل ہےاوراس کے لئے ہرسال باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے۔

    قربانی کیونکہ بیک وقت مذہبی اورمعاشرتی فریضہ ہے لہذا چند نکات ایسے ہیں کہ جنہیں قربانی سے قبل جان لینا ضروری ہے۔

    قربانی کےلئے حلال جانور کا انتخاب کیا جائے اورحلال مال سے ہی قربانی کے لئے جانورخریدا جائے۔

    ذبح کرنے سے پہلے جانور کو وافر مقدار میں کھانا اورپانی فراہم کیا جائے اوراس وقت تک کھانے دیا جائے کہ جب تک جانورسیر ہوکرخود منہ نہ ہٹالے۔

    ذبح کرتے ہوئے انتہائی تیزدھارچھری استعمال کی جائے اورچھری جانور کی مناسبت سے ہونہ زیادہ بڑٰی اورنہ ہی چھوٹی۔

    قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ایک حصہ صاحبِ خانہ کا، دوسراحصہ رشتے داروں کا اورتیسرا حصہ غرباء مساکین کے لئے مختص ہے اوراسی صورت میں گوشت کی تقسیم ہونی چاہیے۔

    قربانی کا مقصد اول تو اللہ کی راہ میں ایثار کا مظاہرہ کرنا ہے تو دوسری جانب معاشرے کے ان لوگوں کا خیال ہے کہ جوغربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لہذا قربانی میں نام ونمود کے بجائے خالصتاً اللہ کی رضااورغرباء کی مدد کا جذبہ مدِںظررہنا چاہیے۔

  • اسلام کا شدت پسندی سے موازنہ درست نہیں، پوپ فرانسس

    اسلام کا شدت پسندی سے موازنہ درست نہیں، پوپ فرانسس

    وارسا: کیتھولک مسیحیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے دہشتگردی اور اسلام کی برابری سے انکار کردیا، انکا کہنا ہے کہ اسلام کو دہشتگردی سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔

    پولینڈ کےدارلحکومت وارسا میں صحافیوں سے گفتگو میں پوپ فرانسس نےکہاکہ اسلام کا شدت پسندی سے موازنہ درست نہیں، شدت پسندوں کا ایک چھوٹا گروہ ہر مذہب میں ہوتا ہے، ایسا گروو عیسائی مذہب میں بھی ہے، کوئی مذہب انسانوں کے قتل کا درس نہیں دیتا۔

    مزید پڑھیں: پوپ فرانسس کی مسلمان خواتین کے حجاب کی حمایت

    انہوں نے کہ اگر میں اسلامی تشدد کی بات کرونگا تو اسکے ساتھ میں عیسائی مذہبی تشدد کی بات بھی کرونگا، مذہب کسی بے گناہ کو قتل کرنے کا دس نہیں دیتا، یورپ کو اپنے گھر کو غور سے دیکھنا چاہیے، یورپ میں بے روزگاری نوجوانوں کو نشہ، شراب اور شدت پسندی کی طرف دھکیل رہی ہے۔

    پوپ فرانسس نے کہاکہ دہشت گردی تب جنم لیتی ہےجب نوجوانوں کے پاس کوئی دوسراراستہ نہ ہو۔

    مزید پڑھیں : پوپ فرانسس نے ’مسلمان مہاجرین‘ کے قدم چوم لیے

    اس سے قبل کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے یورپی ملک پولینڈ میں ’ورلڈ یوتھ ڈے‘ کے اختتام پر دنیا بھر سے آئے ہوئے دس لاکھ سے زائد زائرین سے خطاب میں کہا ہے کہ اُس انسانیت پر یقین رکھا جائے جو بدی سے زیادہ طاقت ور ہے اور سرحدوں کو رکاوٹیں تسلیم نہیں کرتی۔

    پولینڈ کے دورے میں تمام میڈیا کی نظریں پوپ فرانسس پر ہی مرکوز تھیں جبکہ وہ نازی دور کے سابق اذیتی کیمپ آؤشوٹس بھی گئے تھے۔

  • جنگ بدر اسلام کی پہلی جنگ اور 313 کا عظیم لشکر

    جنگ بدر اسلام کی پہلی جنگ اور 313 کا عظیم لشکر

    کراچی: سنہ 3 ھجری 17 رمضان المبارک مقام بدر میں تاریخ اسلام کا وہ عظیم الشان یادگار دن ہے جب اسلام اور کفر کے درمیان پہلی فیصلہ کن جنگ لڑی گئی جس میں کفار قریش کے طاقت کا گھمنڈ خاک میں ملنے کے ساتھ اللہ کے مٹھی بھر نام لیواؤں کو وہ ابدی طاقت اور رشکِ زمانہ غلبہ نصیب ہوا جس پر آج تک مسلمان فخر کا اظہار کرتے ہیں۔

    13 سال تک کفار مکہ نے محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے، ان کا خیال تھا کہ مُٹھی بھر یہ بے سرو سامان ‘سر پھرے’ بھلا ان کی جنگی طاقت کے سامنے کیسے ٹھہر سکتے ہیں، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

    اللہ کی خاص فتح ونصرت سے 313 مسلمانوں نے اپنے سے تین گنا بڑے لاؤ و لشکر کو اس کی تمام تر مادی اور معنوی طاقت کے ساتھ خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا۔

    دعائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور جذبہ ایمانی سے ستر جنگجو واصل جہنم ہوئے،چودہ صحابہ کرام نے داد شجاعت کی تاریخ رقم کر کے شہادت پائی۔

    اس دن حضور ﷺ نے یہ دعا فرمائی تھی۔

    ’’اے اﷲ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اپنا وعدہ اور اقرار پورا کر، یا اﷲ! اگر تیری مرضی یہی ہے (کہ کافر غالب ہوں) تو پھر زمین میں تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا‘‘۔

    اسی لمحے رب کائنات نے فرشتوں کو وحی دے کر بھیجا:’’میں تمھارے ساتھ ہوں، تم اہل ایمان کے قدم جماؤ، میں کافروں کے دل میں رعب ڈال دوں گا، سنو! تم گردنوں پر مارو (قتل) اور ان کی پور پور پر مارو۔‘‘ (سورۂ انفال آیت 12)۔

    مقام بدر میں لڑی جانے والی اس فیصلہ کن جنگ نے یہ ثابت کیا کہ مسلمان نہ صرف ایک قوم بلکہ مضبوط اور طاقتور فوج رکھنے کے ساتھ بہترین نیزہ باز، گھڑ سوار اور دشمن کے وار کو ناکام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    امر واقعہ یہ ہے کہ جنگ بدر اسلام کے فلسفہ جہاد نقطہ آغاز ہے، یہ وہ اولین معرکہ ہے جس میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے والے جنت میں داخل ہونے میں بھی پہل کرنے والے ہیں، قرآنِ پاک کی کئی آیات اور احادیث مبارکہ غزوہ بدر میں حصہ لینے والوں کی عظمت پر دلالت کرتی ہیں۔

    ایک آیت میں اللہ فرماتا ہے کہ :

    ’’میں ایک ہزار فرشتوں سے تمھاری مدد کروں گا جو آگے پیچھے آئیں گے۔‘‘
    (سورۂ انفال آیت9)

    غزوہ بدر کو چودہ سو سال گذر چکے ہیں لیکن اس کی یاد آج کے گئے گذرے مسلمانوں کے ایمان کو بھی تازہ کر دیتی ہے، صدیوں بعد آج بھی مقام بدر کفار مکہ کی شکست فاش اور مسلمانوں کی فتح و کامرانی کی گواہی دیتا ہے، مقام بدر کے آس پاس رہائش پذیر شہریوں کو اس مقام کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کا ادراک ہے۔

    شاعر کہتا ہے کہ

    فضائے بدر کو اک آپ بیتی یادہے اب تک
    یہ وادی نعرہ توحید سے آباد ہے اب تک

    غزوہ بدر کو چودہ سو سال گذر چکے ہیں لیکن اس کی یاد آج کے گئے گذرے مسلمانوں کے ایمان کو بھی تازہ کر دیتی ہے۔ صدیوں بعد آج بھی مقام بدر کفار مکہ شکست فاش اور مسلمانوں کی فتح و کامرانی کی گواہی دیتا ہے، موجودہ دور میں مسلمانوں زوال پزیری اور کفار کے غالب آنے وجہ یہی ہے کہ آج مسلمانوں کے تمام وسائل موجود ہونے کے باوجود بھی وہ بدر و احد کے جذبے سے آری ہیں۔

    ہتھیار ہیں اوزار ہیں افواج ہیں لیکن
    وہ تین سو تیرہ کا لشکر نہیں ملتا

  • غزوہ بدر۔۔ مسلمانوں اور کفارمکہ کے درمیان پہلا معرکہ

    غزوہ بدر۔۔ مسلمانوں اور کفارمکہ کے درمیان پہلا معرکہ

    سنہ 2 ھجری 17 رمضان المبارک مقام بدر تاریخ اسلام کا وہ عظیم الشان یادگار دن ہے جب اسلام اور کفر کے درمیان پہلی فیصلہ کن جنگ لڑی گئی جس میں کفار قریش کے طاقت کا گھمنڈ خاک میں ملنے کے ساتھ اللہ کے مٹھی بھر نام لیواؤں کو وہ ابدی طاقت اور رشکِ زمانہ غلبہ نصیب ہوا جس پر آج تک مسلمان فخر کا اظہار کرتے ہیں۔

    غزوہ بدرمسلمانوں کے لئے ایک عظیم معرکہ ہے،جب تعداد اور مال کی کمی کے باوجود جذبہ ایمانی کفار پر غالب آیا اور پہلی فتح مسلمانوں کے حصے میں آئی۔

     13سال تک کفار مکہ نے محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے۔ ان کا خیال تھا کہ مُٹھی بھر یہ بے سرو سامان ‘سر پھرے’ بھلا ان کی جنگی طاقت کے سامنے کیسے ٹھہر سکتے ہیں، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

    اللہ کی خاص فتح ونصرت سے 313 مسلمانوں نے اپنے سے تین گنا بڑے لاؤ و لشکر کو اس کی تمام تر مادی اور معنوی طاقت کے ساتھ خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا۔

     مکہ سے دوسوبیس میل کے فاصلے پر مقام بدرپرتین سوتیرا صحابہ کرام کا مقابلہ اسلحےسے لیس ایک ہزار کفار مکہ سے ہوا ، مگر اسلامی لشکر اپنے سالار اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر جان چھڑکنے کو تیار تھا ۔

     دعائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور جذبہ ایمانی سے ستر جنگجو واصل جہنم ہوئے،چودہ صحابہ کرام نے داد شجاعت کی تاریخ رقم کر کے شہادت پائی۔

    اس دن حضور ﷺ نے یہ دعا فرمائی تھی۔

    ’’اے اﷲ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اپنا وعدہ اور اقرار پورا کر، یا اﷲ! اگر تیری مرضی یہی ہے (کہ کافر غالب ہوں) تو پھر زمین میں تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا‘‘۔


    اسی لمحے رب کائنات نے فرشتوں کو وحی دے کر بھیجا:’’میں تمھارے ساتھ ہوں، تم اہل ایمان کے قدم جماؤ، میں کافروں کے دل میں رعب ڈال دوں گا، سنو! تم گردنوں پر مارو (قتل) اور ان کی پور پور پر مارو۔‘‘ (سورۂ انفال آیت 12)۔

    مقام بدر میں لڑی جانے والی اس فیصلہ کن جنگ نے یہ ثابت کیا کہ مسلمان نہ صرف ایک قوم بلکہ مضبوط اور طاقتور فوج رکھنے کے ساتھ بہترین نیزہ باز، گھڑ سوار اور دشمن کے وار کو ناکام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    امر واقعہ یہ ہے کہ جنگ بدر اسلام کے فلسفہ جہاد نقطہ آغاز ہے، یہ وہ اولین معرکہ ہے جس میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے والے جنت میں داخل ہونے میں بھی پہل کرنے والے ہیں، قرآنِ پاک کی کئی آیات اور احادیث مبارکہ غزوہ بدر میں حصہ لینے والوں کی عظمت پر دلالت کرتی ہیں۔

    ایک آیت میں اللہ فرماتا ہے کہ :’’میں ایک ہزار فرشتوں سے تمھاری مدد کروں گا جو آگے پیچھے آئیں گے۔‘‘
    (سورۂ انفال آیت9)

    غزوہ بدر کو چودہ سو سال گذر چکے ہیں لیکن اس کی یاد آج کے گئے گذرے مسلمانوں کے ایمان کو بھی تازہ کر دیتی ہے، صدیوں بعد آج بھی مقام بدر کفار مکہ کی شکست فاش اور مسلمانوں کی فتح و کامرانی کی گواہی دیتا ہے، مقام بدر کے آس پاس رہائش پذیر شہریوں کو اس مقام کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کا ادراک ہے۔

    شاعر کہتا ہے کہ

    فضائے بدر کو اک آپ بیتی یادہے اب تک
    یہ وادی نعرہ توحید سے آباد ہے اب تک

  • رمضان اخلاقی تربیت اورمعاشرتی اقدارکی پرورش کا مہینہ ہے

    رمضان اخلاقی تربیت اورمعاشرتی اقدارکی پرورش کا مہینہ ہے

    رمضان المبارک اپنے دامن میں جہاں کئی قسم کے فیضان و برکات لے کرآتا ہے وہیں یہ ہماری اخلاقی تربیت کا بھی مہینہ ہے اوررمضان ہم پرکچھ خصوصی پابندیاں لگاتا ہے جن کی پابندی اگر ہم پورا سال کرلیں تو ہماری شخصیت نکھرجاتی ہے۔ ان میں سے ایک برائی جس سے روزہ ہمیں روکتا ہے گالم گلوچ ہے جس سے ہماری شخصیت کا برا تاثرابھرتا ہے۔

    گالی دینا یا کسی کو برا بھلا کہنا اخلاقِ رزیلہ میں شمارہوتا ہے۔ دنیا میں بہت سارے ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو بات بات پراپنی زبانوں کو گالیوں سے گندا کرتے ہیں۔ اکثرلوگوں کا تو گالیوں کے بغیر کلام ہی مکمل نہیں ہوتا لیکن ایک باوقار اوربردبار شخص ہمیشہ اس سے اپنی زبان کو محفوظ رکھتا ہے۔

    قرآن مجید میں ہے

    لاَّ یُحِبُّ اللّہُ الْجَہْرَ بِالسُّوٓئ ِ مِنَ الْقَوْلِ ِٓلاَّ مَن ظُلِمَ وَکَانَ اللّہُ سَمِیْعاً عَلِیْماً۔ِٓان تُبْدُواْ خَیْراً أَوْ تُخْفُوہُ أَوْ تَعْفُواْ عَن سُوْٓئٍ فَاِنَّ اللّہَ کَانَ عَفُوّاً قَدِیْرا۔

    سورۃ النساء – 148،149

    اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پرزبان کھولے، الّا یہ کہ کسی پرظلم کیا گیا ہو اوراللہ سب کچھ سننے اورجاننے والا ہے۔ ﴿مظلوم ہونے کی صورت میں اگرچہ تم کو جواب دینے کا حق ہے﴾ لیکن اگر تم ظاہر و باطن میں بھلائی ہی کیے جاؤ، یا برائی سے درگزر کرو پس یقیناً اللہ تعالٰی پوری معافی کرنے والا ہے اور پوری قدرت والا ہے۔”

    احادیثِ مبارکہ میں ارشاد ہے کہ 

    حضرت عبداللہ بن مسعودؒ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا

    سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَ قِتَالُہ کُفْر

    صحیح مسلم – 128

    کسی مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے قتال کرنا کفر ہے

    ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے گالی گلوچ کو کبائر میں شمار کیا ہے۔

    عَنْ عَمْرِوبْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم قَال:َ مِنَ الْکَبَائِرَ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَیْہِ۔ قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَھَلْ یَشْتِمُ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ؟ قَالَ، نَعَمْ یَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَیَسُّبُ أَبَاہُ وَیَسُبُّ أُمَّہ، فَیَسُبُّ أُمَّہ،۔

    صحیح بخاری-5563، ترمذی -1962

    حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولصلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا آدمی کا اپنے والدین کو سب و شتم کرنا بڑے گناہوں میں شمار ہوتا ہے۔

    صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ کوئی اپنے والدین کو گالی دے؟

    آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ ﴿وہ اس طرح کہ﴾ ایک شخص کسی کے والد کو گالی دیتا ہے جواب میں وہ بھی پہلے شخص کے والد کو گالی دیتا ہے اور ساتھ میں  اس کی ماں کو گالی دیتا ہے اور وہ بھی اس کی ماں کو گالی دیتا ہے تو سمجھا جائے گا کہ اس نے خود اپنے والدین کو گالی دے دی۔

    گالیں بکنے سے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے گالم گلوچ کرنے والوں کے بارے میں وعید فرمائی ہے اوراسے مفلس قراردیا ہے۔

    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ قَالُوا الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ فَقَالَ إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ وَصِيَامٍ وَزَکَاةٍ وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَکَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَکَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَی هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَی مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ۔

    صحیح مسلم – 6483

    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے

    رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟

    صحابہ نے عرض کیا ہم میں مفلس وہ آدمی ہے کہ جس کے پاس مال اسباب نہ ہو۔

    آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن میری امت کا مفلس وہ آدمی ہو گا کہ جو نماز روزے زکوة و غیرہ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس آدمی نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہو گی اور کسی پر تہمت لگائی ہو گی اور کسی کا مال کھایا ہو گا اور کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا تو ان سب لوگوں کو اس آدمی کی نیکیاں دے دی جائیں گی اوراگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پرڈال دئے جائیں گے پھر اس آدمی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔-"

  • اسلام میں دل کے امراض سے دور رہنے کا طریقہ، سائنس نے بھی تسلیم کرلیا

    اسلام میں دل کے امراض سے دور رہنے کا طریقہ، سائنس نے بھی تسلیم کرلیا

    سان فرانسسکو: ہمارا مذہب اسلام ایک دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنے کا درس دیتا ہے، اب  یہ بات سائنس نے بھی تسلیم کرلی ہے۔

    سائنسدان بھی مان گئے ہیں کہ اگر ایک دوسرے سے اخلاق سے پیش آیا جائے تو انسان دل کے امراض سے دور اور تندرست رہتا ہے۔

    حال ہی میں ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ ایسے دل کے مرض کو دوسروں کے ساتھ اخلاق سے پیش آتے ہیں اور ہر بات پر شکریہ ادا کرتے رہتے ہیں ، انکی دہنی اور جسمانی حالت دوسرے لوگوں کے مقابلے میں تیزی سے بہتر ہوتی ہے۔

    ماہرین نے تحقیق میں 186 افراد کو شامل کیا گیا اور انکو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا، جن میں ایک گروپ کے افراد کو کہا گیا کہ وہ کسی کے کام کرنے پر اچھا سے پیش آئے اور شکریہ ادا کریں اور خوش رہیں جبکہ دوسرے گروپ کے افراد کو کہا گیا کہ کوئی بات نہ کریں۔

    تحقیق کار پروفیسر پال ملز کا کہنا تھا کہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی کہ دوسروں کا شکریہ ادا کرنے والے مریضوں کا موڈ خوشگوار رہا، جس کے باعث وہ کم تھکے اور کم دباؤ کا شکار ہوئے جبکہ ان کی حالت دوسرے گروپ کے افراد کے مقابلے میں نسبتا بہتر رہی۔

    پروفیسر کا کہنا تھا کہ یسا معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ اخلاق سے پیش آنے اور شکریہ ادا کرنے سے دل خوش اور مضبوط رہتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ تندرست رہتے ہیں، لہذا دل کے امراض سے بچنے کیلئے ہمیں بھی یہ عادت اپنانی چاہیئے۔

  • آج حضرت ابوبکرصدیق ؓ کا یومِ وصال ہے

    آج حضرت ابوبکرصدیق ؓ کا یومِ وصال ہے

    آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درخشندہ ستاروں میں ایک روشن نام یار غار رسالت، پاسدار خلافت تاجدار امامت، افضل بشر بعد الانبیاء حضرت ابوبکر صدیق کا ہے جن کو امت مسلمہ کا سب سے افضل امتی کہا گیا ہے.بالغ مردوں میں آپ سب سے پہلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے. آپ کی صاحب زادی حضرت عائشہ صدیقہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبوب زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

    ابتدائی زندگی

    واقعہ فیل کے تین برس بعد آپ کی مکہ میں ولادت ہوئی.آپ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت پر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مل جاتا ہے.آپ کا نام پہلے عبداکعبہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بدل کر عبداللہ رکھا ، آپ کی کنیت ابوبکر تھی. آپ قبیلہ قریش کی ایک شاخ بنو تمیم سے تعلق رکھتے تھے.آپ کے والد کا نام عثمان بن ابی قحافہ اور والدہ کا نام ام الخیر سلمٰی تھا. آپ کا خاندانی پیشہ تجارت اور کاروبار تھا. کتب سیرت اور اسلامی تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعثت سے قبل ہی آپ کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان گہرے دوستانہ مراسم تھے. ایک دوسرے کے پاس آمدرفت ، نشست و برخاست، ہر اہم معاملات پر صلاح و مشورہ روز کا معمول تھامزاج ميں یکسانیت کے باعث باہمی انس ومحبت کمال کو پہنچا ہوا تھا.بعث کے اعلان کے بعد آپ نے بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔

    خلافت

    آپ اسلامی سلطنت کے پہلے خلیفہ تھے اور آپ کا دورِ خلافت 2 سال تین ماہ کے عرصے پر محیط ہے۔ یہ ایک تاریخ ساز حقیقت ہے کہ خلیفہ المسلمین، جانشین پیمبر حضرت ابو بکر صدیق نے خلافت کا منصب و زمہ داری سنبھالتے ہی پہلے روز اپنے خطبے میں جس منشو ر کا اعلان فرمایا پورے دور خلافت میں اس کے ہرحرف کی مکمل پاسداری کی.آپ کی دینی ومذہبی خدمات تاریخ اسلام کا روشن باب ہیں۔

    پہلا خطبہ

    میں آپ لوگوں پر خلیفہ بنایا گیا ہوں حالانکہ میں نہیں سمجھتا کہ میں آپ سب سے بہتر ہوں. اس ذات پاک کی قسم ! جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں نے یہ منصب و امارت اپنی رغبت اور خواہش سے نہیں لیا، نہ میں یہ چاہتا تھا کہ کسی دوسرے کے بجائے یہ منصب مجھے ملے، نہ کبھی میں نے اللہ رب العزت سے اس کے لئے دعا کی اور نہ ہی میرے دل میں کبھی اس (منصب) کے لئے حرص پیدا ہوئی. میں نے تو اس کو بادل نخواستہ اس لئے قبول کیا ہے کہ مجھے مسلمانوں میں اختلاف اور عرب میں فتنہ ارتدار برپا ہوجانے کا اندیشہ تھا. میرے لئے اس منصب میں کوئی راحت نہیں بلکہ یہ ایک بارعظیم ہے جو مجھ پر ڈال دیا گیا ہے. جس کے اٹھانے کی مجھ میں طاقت نہیں سوائے اس کے اللہ میری مدد فرمائے. اب اگر میں صحیح راہ پر چلوں تو آپ سب میری مدد کیجئے اور اگر میں غلطی پر ہوں تو میری اصلاح کیجئے. سچائي امانت ہے اور جھوٹ خیانت، تمہارے درمیان جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کے میں اس کا حق اس کو دلواؤں . اور جو تم میں قوی ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں اس سے حق وصول کروں. ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی قوم نے فی سبیل اللہ جہاد کو فراموش کردیا ہو اور پھر اللہ نے اس پر ذلت مسلط نہ کی ہو،اور نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ کسی قوم میں فحاشی کا غلبہ ہوا ہو اور اللہ اس کو مصیبت میں مبتلا نہ کرے.میری اس وقت تک اطاعت کرنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم کی راہ پر چلوں اور ا گر میں اس سے روگردانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں (طبری. ابن ہشام)۔

    صدیق

    صدیق اور عتیق آپ کے خطاب ہیں جو آپ کو دربار رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عطا ہوئے.آپ کو دو مواقع پر صدیق کا خطاب عطا ہوا.اول جب آپ نے نبوت کی بلا جھجک تصدیق کی اور دوسری بار جب آپ نے واقعہ معراج کی بلا تامل تصدیق کی اس روز سے آپ کو صدیق اکبر کہا جانے لگا۔

    وصال

    22جمادی الثانی 13 ہجری بمطابق 23 اگست 634 ء کو آپ نے 63 برس کی عمر میں مدینہ منورہ میں وفات پائی.آپ کی مدت خلافت دو سال تین ماہ اور گیارہ دن تھی.زندگی میں جو عزت واحترام آپ کو ملابعد وصال بھی آپ اسی کے مستحق ٹھیرے او سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پہلو میں محو استراحت ہوئے.آپ کی لحد سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بائیں جانب اس طرح بنائی گئی کہ آپ کا سر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شانہ مبارک تک آتا ہے۔

  • روس کی ’سرخ جامع مسجد‘ نوے سال بعد نمازیوں کے لئے کھول دی گئی

    روس کی ’سرخ جامع مسجد‘ نوے سال بعد نمازیوں کے لئے کھول دی گئی

    ماسکو: روسی شہر تومسک میں واقع جامع مسجد کو 90 سال بعد نمازیوں کے لئے دوبارہ کھول دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق روسی شہر تومسک میں واقع سرخ جامع مسجد سن 1901 میں قائم کی گئی تھی تاہم اسے 1920 میں نمازیوں کے لئے بند کردیا گیا تھا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اس عرصے میں اس عمارت میں کچھ عرصے کے لئے سینما گھراور رستوران بھی قائم رہا۔ 2002 میں سرخ جامع مسجد کو دوبارہ نمازیوں سے آباد کرنے کے لئے تیاریاں شروع کی گئیں۔

    مسجد کے دوبارہ افتتاح کے موقع پر تومسک کے گورنر سرگے، میئر آئیون کلین، چیچن ریپبلک کے مفتی صالح ہسی موجود تھے ، تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآنِ پاک سے ہوا تھا۔

    تقریب کے بعد شرکاء نے 90 سال بعد اس تاریخی مسجد میں جمعہ کی تاریخی نماز ادا کی۔

    اسلام اس خطے کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے اورایک محتاط اندازے کے مطابق مسلمانوں کی آبادی دو کروڑ تیس لاکھ کے لگ بھگ ہے جو کہ کل آبادی کا 15 فیصد ہے۔

  • آئندہ 50 سالوں میں دنیا میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی

    آئندہ 50 سالوں میں دنیا میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی

     محققین کا کہنا ہے کہ دنیا کی آبادی آئندہ 40 سالوں میں 9.3 ارب تکپہنچ جائے گی اور مسلمانوں کی تعداد میں 73 فیصد تک کا اضافہ ہوگا جس کے سبب2050 سے 2070 تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔

    ایک نئی تحقیق کے مطابق 2050 تک بھارت انڈونیشیا کو پیچھے چھوڑ کر پوری دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان آبادی والا ملك بن جائے گا اور پوری دنیا میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی تقریباً برابر ہو جائے گی۔

    واشنگٹن میں واقع پیو ریسرچ سینٹر کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا کی تیسری سب سے بڑی آبادی ہندو مذہب کے ماننے والوں کی ہوگی اور بھارت میں ہندوؤں ہی کی اکثریت رہے گی۔

    اگلی چار دہائیوں میں عیسائی مذہب سب سے بڑا مذہبی گروہ بنا رہے گا لیکن کسی بھی مذہب کے مقابلہ اسلام سب سے تیز رفتار سے آگے بڑھے گا۔

    واضح رہے کہ اس وقت دنیا میں عیسائیت سب سے بڑا مذہب ہے اور اس کے بعد مسلمان آتے ہیں اور تیسری سب سے بڑی آبادی ایسے لوگوں کی ہے جو کسی مذہب کو نہیں مانتے۔

    اگر موجودہ رجحان برقرار رہا تو 2070 تک اسلام سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔

    اندازہ ہے کہ اگلے چار عشروں میں دنیا کی آبادی 9.3 ارب تک پہنچ جائے گی اور مسلمانوں کی آبادی میں 73 فیصد کا اضافہ ہو گا، جب کہ عیسائیوں کی آبادی 35 فیصد بڑھے گی اور ہندوؤں کی تعداد میں 34 فیصد اضافہ ہو گا۔

    اس وقت مسلمانوں میں بچے پیدا کرنے کی شرح سب سے زیادہ ہے یعنی اوسطاً ہر خاتون 3.1 بچوں کو جنم دے رہی ہے، عیسائیوں میں ہر خاتون اوسطاً 2.7 بچے کو جنم دے رہی ہے اور ہندوؤں میں بچے پیدا کرنے کی اوسط شرح 2.4 ہے۔

    سنہ 2010 میں پوری دنیا کی 27 فیصد آبادی 15 سال سے کم عمر کی تھی، وہیں 34 فیصد مسلمان آبادی 15 سال سے کم کی تھی اور ہندوؤں میں یہ آبادی 30 فیصد تھی۔ اسے ایک بڑی وجہ سمجھا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی دنیا کی آبادی کے مقابلے زیادہ تیز رفتار سے بڑھے گی اور ہندوؤں اور عیسائیوں اسی رفتار سے بڑھیں گی جس رفتار سے دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق امریکہ میں مسلمانوں کی آبادی یہودیوں سے زیادہ ہو جائے گی۔  بچے پیدا کرنے کی شرح کے علاوہ آباديوں میں اس الٹ پھیر کی وجہ تبدیلیِ مذہب کو بھی بتایا جا رہا ہے۔

    آنے والے عشروں میں عیسائی مذہب کو سب سے زیادہ نقصان ہونے کا خدشہ ہے اور کہا گیا ہے کہ چار کروڑ افراد عیسائی مذہب اپنا لیں گے وہیں دس کروڑ 60 لاکھ لوگ اس مذہب کو چھوڑ دیں گے۔ اسی طرح ایک کروڑ 12 لاکھ لوگ اسلام کو اپنائیں گے وہیں تقریباً 92 لاکھ دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائیں گے۔

  • اسلام قبول کرنے والی آٹھ مشہورشخصیات

    اسلام قبول کرنے والی آٹھ مشہورشخصیات

    عموماً انسان کو اپنا مذہب خود اختیار کرنے کا موقع نہیں ملتا وہ جس مذہب سے تعلق رکھنے والے خاندان میں پیدا ہوتا ہے اسی پر زندگی گزاردیتا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اندر کی سچائی انہیں کسی خاندانی مذہب کا پابند نہیں بناپاتی اور وہ تحقیق اور دلیل کی بناء پر اپنا آبائی مذہب چھوڑ کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرلیتے ہیں، یہاں ہم چند ایسی مشہور شخصیات کا ذکر کررہے ہیں جنہوں نے اسلام کی حقانیت سے متاثر ہو کراسلام قبول کیاہے۔

    محمد یوسف

    پاکستانی کرکٹ ٹیم کے مایہ ناز بلے باز سن 2005 سے قبل یوسف یوحنا کے نام سے جانے جاتے تھے۔ کرکٹ ٹیم کیریڑھ کی ہڈی کہلانے والے اس قابلِ فخر بلے باز نے 2005 میں اسلام قبول کیا اوراب وہ محمد یوسف کے نام سےجانے جاتے ہیں۔

    ممتا کلکرنی

    نوے کی دہائی میں بالی وڈ کے افق پر جلوہ گر حسینہ ممتا کلکرنی اسلام کی طرف اس وقت راغب ہوئیں جب وہ اپنےشوہر کے ہمراہ اسمگلنگ کے الزام میں دبئی ایئرپورٹ سے گرفتار کی گئیں۔ اداکارہ نے اپنی قید کے دنوں میں دین کامطالعہ کیا اور پھر قید کے دوران ہی اسلام قبول کیا۔

    محمد علی کلے

    کیا آپ سیزئس کلے کو پہچانتے ہیں ۔۔ نہیں! دنیا کے جانے مانے ممتاز باکسگ چیمپیئن محمد علی اسلام قبول کرنے سے قبل سیزئس کلے کے نام سے جانے جاتے تھے ۔ انہوں نے اپنے کیرئر کے عروج کے دور میں اسلام قبول کیا۔

    اللہ رکھا رحمان

    بھارت کے مشہور ترین اور واحد آسکر ایوارڈ یافتہ موسیقاراللہ رکھا رحمن ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور اور ان کا نام دلیپ کمار تھا۔ دلیپ بچپن سے ہی صوفی ازم سے متاثر تھے اور 1984 میں انہوں نے اسلام قبول کیا اور تب سے اب تک وہ اسلام پرکاربند ہیں۔

    مائیک ٹائیسن

    محمد علی کلے کی طرح مشہورامریکی باکسر مائیک ٹائیسن نے بھی اسلام قبول کیا۔ انہیں عدالت نے ریپ کیس میں قید کی سزا سنائی تھی اور اسی قید کے دوران کئے گئے مطالعے کے نتیجے میں انہوں نے اسلام قبول کیا۔

    ڈیو شیفیل

    ہالی وڈ کے مشہور کامیڈین ڈیو شیفیل نے میڈیا میں اپنا مذہب تبدیل کرکے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا اور اپنے نئے مذہبی عقائد کے مطابق انہوں نے اپنے متنازعہ ٹی وی شو کو بھی مزید جاری رکھنے سے انکار کردیا۔

    ہنس راج ہنس

    آجا نچلے اور دل ٹوٹے ٹوٹے ہوگیا جیسے مشہور گانے گانے والے بھارتی گلو کار ہنس راج ہنس بھی اسلام قبول کرچکے ہیں۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق ہنس راج کافی عرصے سے اسلام کے مطالعے میں مصروف تھے اور انہوں نے اسلام کی پرامن تعلیمات سے متاثرہوکر مذہب تبدیل کیا۔

    مائیک جیکسن

    دنیا کو اپنے منفرد رقص اور پاپ موسیقی سے لبھانے والے مائیکل جیکسن مرحوم بھی اسلام قبول کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے لاس انجیلس میں اپنے ایک دوست کے گھر پرمسلم عالم کی موجودگی میں اسلام قبول کیا اور اپنا نام مائیکل سے تبدیل کرکے میکائل کرلیا۔

    اطلاعات کے مطابق مئیکل جیکسن کے بھائی جرمائین جیکسن کی تبدیلی مذہب ان میں تبدیلی کا سبب بنی ۔ انکی بہن جینٹ جیکسن بھی قطر کےایک سرمایہ دار سے شادی کرکے اسلام قبول کرچکی ہیں۔