Tag: ISLAM

  • دہشت گردوں کی اکثریت آخری رسومات سے محروم رہتی ہے

    دہشت گردوں کی اکثریت آخری رسومات سے محروم رہتی ہے

    کراچی (ویب ڈیسک)- پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اوریہاں لاوارث میتوں کی بھی اسلامی عقائد کے مطابق آخری رسومات ادا کیں جاتی ہیں لیکن ایک ریسرچ شائع کرنے والی ویب سائٹ پرشائع شدہ رپورٹ کے مطابق تحریکِ طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کی اکثریت جنازے کی رسوم سے محروم رہتی ہے۔

    یہ رپورٹ شدت پسندی سے متاثرہ صوبے خیبرپختونخواہ سے متعلق ایسے اشخاص کے انٹرویوز پر مشتمل ہے جو کہ کسی بھی شخص کی موت کے بعد کے مراحل میں خصوصی کردار ادا کرتے ہیں یعنی ڈاکٹرزاورمذہبی پیشوا اورانہی اشخاص نے یہ انکشاف کیا ہے کہ جنت کے لالچ میں دہشت گردی کی کاروائیوں کا ارتکاب کرنے والے افراد دنیامیں اپنی آخری رسومات سے کیوں محروم رہتے ہیں۔

    خیبر میڈیکل کالج سے وابستہ ڈاکٹر جاوید احمد کے مطابق 14 اگست کو ہلاک ہونے والے چار دہشت گردوں کی لاشیں ان کے گھروالوں نے وصول کرنے سے انکار کردیا کیونکہ ان کی شناخت تحریک ِطالبان کے مقامی کمانڈرز کے طورپرہوئی حالانکہ کالج نے لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ اوردیگرتمام قانونی کاروائی مکمل کرلی تھی۔

    لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور سے وابستہ ڈاکٹر حنیف کے مطابق گزشتہ دس ماہ میں تیس سے زائد ایسی لاشیں آچکی ہیں جن کے ورثا انہیں وصول کرنے میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔

    پشاور کی ایک مسجد میں نماز کی امامت کرانے والے مولانا شکور نے بتایا کہ عام حالات میں ایک مسلمان کی نعش کو اس کے عزیز غسل دیتے ہیں جس کے بعد اس کا جنازہ پڑھا جاتا ہے، تاہم مرنے والے دہشت گردوں کی اکثریت کو یہ رسوم مہیا نہیں کی جاتیں، جو ان کے لواحقین کے لیے زندگی بھرکی ذہنی اذیت کا باعث بن سکتا ہے۔

    مولانا شکور نے 19 سالہ جمال شاہ کی مثال دی جو 2007 میں ٹی ٹی پی میں شامل ہوا تھا اوراس سال کے اواخر میں ضلع مردان میں ہلاک ہو گیا تھا اوراس کے رشتہ دار اورگاؤں والے اس کے غمگین والدین سے کسی قسم کا اظہار افسوس کرنے نہیں پہنچے۔

    چارسدہ میں مقیم ایک مذہبی معلم محمد سمیع نے کہا کہ سب سے بڑا المیہ شاید یہ ہے کہ عسکریت پسند، کچے ذہن کے نوجوانوں کو جنت میں جانے کے جھوٹے خواب دکھاتے ہیں۔

    تاہم جنازے کی مسنون رسوم سے محروم رہ جانے والے جنگجوؤں کو کبھی بھی جنت کا وہ مقام حاصل نہیں ہوگا جن کا ان کے نام نہاد رہنماؤں نے ان سے وعدہ کر رکھا تھا، سمیع نے کہا۔

    "درحقیقت، عسکریت پسندوں کے مقدر میں اللہ کے غضب کا سامنا لکھا ہے کیونکہ اسلام میں معصوم لوگوں کے قتل کی اجازت نہیں،” انہوں نے بتایا، اور کہا کہ الہی احکامات کے تحت، دہشت گرد جہنم میں جائیں گے۔

    عسکریت پسندی اختیار کرنے کا مطلب ہے اسلام کو ترک کر دینا، جو یہ سکھاتا ہے کہ کسی ایک شخص کو قتل کرنا تمام انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے، نوشیرہ میں قائم ایک مدرسے کے معلم قاری محمد شعیب نے کہا۔

    ہم کیسے لوگوں سے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ انسانیت کے قاتلوں کو احترام سے دفن کریں؟” انہوں نے سوال کیا۔ "اسلام محبت، امن، اور احترام کا مذہب ہے اور دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں۔”

    مندرجہ بالا اوران جیسے کئی اورواقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کی اکثریت شدت پسنی کو پسند نہیں کرتی اور اس کی مخالف ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں چھپی ہوئی کالی بھیڑوں کو بے نقاب کیا جائے جو کہ نوجوان نسل کی رگوں میں دہشت گردی کا رس گھولتے ہیں تاکہ پاکستان کے حقیقی اسلامی معاشرے اور اسلام کے نام پر معصوم لوگوں کو ورغلانے والے دھوکہ باز افراد میں واضح تمیز کی جاسکے۔

  • قربانی کرنے سے پہلے یاد رکھنے والی باتیں

    قربانی کرنے سے پہلے یاد رکھنے والی باتیں

    کراچی (ویب ڈیسک) – اسلامی کلینڈرکے آخری مہینے ذی الحج کی میں فرزندانِ توحید اسلام کا سب سے بڑارکن حج ادا کرتےہیں اور اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی لازوال قربانی کی یاد میں حلال جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔

    قربانی بھی اسلام کا ایک اہم رکن ہے جو کہ صاحبانِ نصاب پرفرض کیا گیا ہے پاکسانی معاشرے میں بھی قربانی کوانتہائی اہمیت حاصل ہےاوراس کے لئے ہرسال باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے۔

    قربانی کیونکہ بیک وقت مذہبی اورمعاشرتی فریضہ ہے لہذا چند نکات ایسے ہیں کہ جنہیں قربانی سے قبل جان لینا ضروری ہے۔

    قربانی کےلئے حلال جانور کا انتخاب کیا جائے اورحلال مال سے ہی قربانی کے لئے جانورخریدا جائے۔

    ذبح کرنے سے پہلے جانور کو وافر مقدار میں کھانا اورپانی فراہم کیا جائے اوراس وقت تک کھانے دیا جائے کہ جب تک جانورسیر ہوکرخود منہ نہ ہٹالے۔

    ذبح کرتے ہوئے انتہائی تیزدھارچھری استعمال کی جائے اورچھری جانور کی مناسبت سے ہونہ زیادہ بڑٰی اورنہ ہی چھوٹی۔

    قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ایک حصہ صاحبِ خانہ کا، دوسراحصہ رشتے داروں کا اورتیسرا حصہ غرباء مساکین کے لئے مختص ہے اوراسی صورت میں گوشت کی تقسیم ہونی چاہیے۔

    قربانی کا مقصد اول تو اللہ کی راہ میں ایثار کا مظاہرہ کرنا ہے تو دوسری جانب معاشرے کے ان لوگوں کا خیال ہے کہ جوغربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لہذا قربانی میں نام ونمود کے بجائے خالصتاً اللہ کی رضااورغرباء کی مدد کا جذبہ مدِںظررہنا چاہیے۔

    dua

  • کوئی ہے! جو ہدایت پاسکے

    ہوش سمبھالتے ہی اپنے معاشرہ میں ایک انجانی بحث کو سنا جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اسقدر تیزی آئی کے نفرتوں اور بغض کی آگ نے ہمارے معاشرے کو تباە کردیا۔ یہ بحث خود کو فرشتہ سمجھنے اور دوسرے کے ایمان میں شک پیدا کرنے کی بحث تھی۔ اس بحث نے خود پسندی اور فرقہ واریت کےایک نہ رکنے والے سلسلے کو شروع کیا جس نے آج پوری امت مسلمہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آج بھی روزاول کی طرح سازش کہیں اور تیار ہوتی ہےاور اسے نافض اسلامی سلطنت میں موجود منافق کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ الله تبارک وتعالی نےقرآن کریم میں بار بار منافقین کی چالوں کا ذکر فرمایا۔

    سازشوں کا سلسلہ تو اسلام کی آمد سے ہی شروع ہوگیا تھا جس میں تیزی حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت سے شروع ہوئی جو آج تک جاری ہےاورشاید قیامت تک جاری رہےکیونکہ آقا کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمادیاتھا کے میری امت میں 73 فرقے بن جائیں گے۔

    آخر کون سی وجوہات تھیں کہ دشمن نے ہمیں آپس میں لڑا دیا۔ یقینا ہمارا دشمن جانتا ہے کہ وہ ہمیں شکست نہیں دے سکتا لہذا انہوں نے ہمارے اندر نفرت کا ایسا بیج بویا تاکہ ہم خود ایک دوسرے کو کاٹ ڈالیں اور دشمن بیٹھ کے تماشہ دیکھے۔

    غیروں کی سازشوں اور اپنوں کی کوتاہیوں نےامت مسلمہ کےاجتماعیت کےاصول کو شدید نقصان پہنچایا۔ آج کوئی کیا ہے تو کوئی کیا۔ میں یہاں فرقوں کے نام نہیں لکھنا چاہتا کیونکہ میں امت محمدی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بس دو نام جانتا ہوں۔ یہ دو نام مسلمان اور مومن ہیں۔ اور یہ وہی نام ہیں جن سے الله تبارک و تعالی نے اس امت کو مخاطب کیا۔ اس کے علاوہ ہمارا کوئی تعارف نہیں ہوسکتا۔

    قرآن کریم میں اگر فرقہ کا ذکر آیا بھی ہے تو ان کی ممانعت کی صورت میں آیا- فرقہ واریت میں ڈوبےاور دین میں نئے راستے نکالنے والوں کی آنکھیں کھولنے کیلۓ قرآن پاک کی یہ آیات کافی ہیں۔

    "اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہو گئے اور احکام بین آنے کے بعد ایک دوسرےسے (خلاف و) اختلاف کرنے لگے یہ وہ لوگ ہیں جن کو قیامت کے دن بڑا عذاب ہوگا”

    (3:105)

    "جن لوگوں نے اپنے دین میں (بہت سے) رستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہو گئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں ان کا کام خدا کے حوالے پھر جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں وہ ان کو (سب) بتائے گا”

    (6:159)

    "(اور نہ) اُن لوگوں میں (ہونا) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور (خود) فرقے فرقے ہو گئے۔ سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو اُن کے پاس ہے”

    (30:32)

    ان آیات میں الله تبارک وتعالی نے تمام باتوں کو نہایت وضاحت سے بیان فرمادیا ہے۔ الله کی کتاب تو کھلی ہدایت ہے۔ "تو ہے کوئی ہدایت لینے والا؟”

    نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع میں جاہلیت کے ان تمام دساتیر کو رد کر کے اسلام میں ذات برادری، فرقہ بندی کو ختم کردیا۔ اسی روز الله کے رسول صلی الله وآلہ علیہ وسلم نے باربار اجتماعیت اور بھائی چارے کا درس دیا۔

    قرآن کو سمجھیے اور خود کو کسی فرقہ سے مت جوڑئے اپنی پہچان کو وہی رہنے دیجیے جو الله تبارک تعالیٰ نے پسند فرمائی ہے۔

    اسلام میں کسی کو دوسرے پر برتری نہیں ہے اگر برتری ہے بھی تو تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ کی زندگیوں کو پڑہئے۔ ان میں سے کسی ہستی نے خود کو مکمل نہیں کہا بلکہ اپنی زندگیوں کو الله تبارک وتعالی کے احکامات پرعمل کرتے ہوۓ گزاردیا۔

    ہم ان تمام ہستیوں کےمبارک قدموں کی خاک بھی نہیں ہیں مگر یہی ہمارے رہنما ہیں اور انکی رہنمائی ہی باعث نجات ہے۔

    مسلمان الله تبارک و تعالی کا دیا ہوا نام ہے جبکہ فرقے انسانوں کی تخلیق ہیں۔

    حضرت محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے علاوە کوئی مکمل نہیں ہے۔ ہم سب میں الله تبارک وتعالی نے خیر بھی رکھا ہےاور شر بھی۔ خیر سے فائدە اٹھانا ہمارا کام ہے اور شر کے بارے میں فیصلہ کرنا الله تبارک و تعالی کا استحقاق ہے۔

    ہمیں چاہئے کہ ہم اس جشن آزادی پر ہر فرقے کے بت کو توڑ کر خود کو صرف اور صرف سچا اور پکامسلمان بناتے ہیں

  • بغیراسلام کےمسلمان

    جب میں مغرب گیا تو اسلام کو بغیر مسلمانوں کے دیکھا، جب واپس مشرق میں آیا تو مسلمانوں کو بغیر اسلام کے دیکھا۔

    یہ الفاظ کسی اور کہ نہیں عاشق رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کے ہیں جن سے کسی صورت اختلاف نہیں کیا جاسکتا کیونکہ علامہ اقبال نے عشق کی وە منازل تہہ کیں کہ تلاوت قرآن کے وقت قرآن کریم آپ کے آنسوؤں سے تر ہو جاتا  آپ عشق رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم میں اس قدر سر شار ہوۓ کہ اہل دنیا کی زبانوں پر آج بھی آپ کی صفات کا سلسلہ روز اول کی طرح جاری ہے۔

    اور کیوں نہ ہوتا جب کوئی الله تعالی کے احکامات اور آقا کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں سرشار ہوجاتا ہے تو الله تعالی اسکا ذکر زمین والوں ہی نہی آسمان والوں میں بھی عام کر دیتا ہے اور ملائکہ الله تعالی کے حضور اسکی بخشش کی دعائیں کرتے ہیں۔

    نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی آمد اہل دنیا کے لۓ ایک ایسے رہنما کی سی ہے جو اندھیروں اور گمراہی میں ڈوبے انسانوں کیلۓبائص رحمت ہے۔

    آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی اس کائنات پر الله تبارک و تعالی کا احسان عظیم ہے۔

    آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے قبل اہل دنیا جہالت کی ان سیاە گھاٹیوں میں گم تھے جنکا وجود محض نفرت ، بغض اور عداوت پرمشتمل تھا۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی آمد با سعادت کے ساتھ ہی نفرتوں کا وجود مٹنے لگا حتکہ آپ کی تریسٹھ سالہ حیات مبارکہ میں الله تبارک و تعالی نے قیامت تک آنے والےتمام مسائل کا حل سمو دیا ہے۔

    آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کے ہر لمحےکو الله تعالی نے انسانیت کیلۓ رہنمائی اور ہدایت کا ایسا ذریعہ بنا کر قیامت تک آنے والوں کیلۓ ایک مکمل ضابطہ حیات بنادیا ہے۔

    مگر افسوس کے جو طریقہ آقا کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سکھایاہم اس کو چھوڑ کر دنیا میں فلاح چاہتے ہیں۔ جہاں صرف دنیا کا ذکر اسلۓ کیا ہے کہ آخرت کو تو ہم نے ویسے ہی بھلادیا ہے۔ یوں نافرمانیوں میں لگے ہوۓ ہیں، جیسے ہم نے مرنا ہی نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ہم نے تو بھلا دیا مگر اہل مغرب نے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بتلاۓ ہوۓ طور طریقوں کو اپنا کر ترقی و منزلت کی وە منازل تہہ کرلیں جو شاید ہم کبھی تہہ نہ کر سکیں۔

    ہم اپنے قول و فعل کے تضاد کا اندازە ایک حالیہ تحقیق سے لگا سکتے ہیں جوکچھ اور نہی تو ہماری ۔ناکامی کے اسباب ضرور بتادے گا

    جارج واشنگٹن یونیورسٹی واشنگٹن ڈی سی کے شعبہ انٹرنیشنل بزنس اور انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر شہزاد ایس رحمان اور پروفیسر حسین عسکری نے الله تعالی کے احکامات، قرآنی ارشادات سے مطابقت رکھنے والے ممالک کی درجہ بندی کی ۔ زندگی گزارنے کیلۓ اسلامی اقدار کے نفاذ میں پہلا نمبر ملک آئرلینڈ کا ہے۔ آئرلینڈ کے معاشرە میں سب سے زیادە شخصی آزادی، انسانی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اور یہ میرا ذاتی مشائدە بھی ہے کہ آئرلینڈ کے لوگ نہ صرف انسانوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں بلکہ جانوروں کے حقوق کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ اور اسی لۓ آج آئرلینڈ کو رہنے کیلۓ جنت سمجھا جاتا ہے۔ اس درجہ بندی میں دوسرا نمبر ڈنمارک کا ہے۔ اور ڈنمارک وہ ملک ہے جہاں ملاذمین کی تنخوائیں انکے میز پر رکھ دی جاتی مگر وہاں چوری کا تصور تک نہی ہے۔

    سویڈن کا نمبر تیسرا اور برطانیہ کا چوتھا ہے۔ امریکہ پندرہویں،ہالینڈ سولہویں اور فرانس سترہویں نمبر پر ہے۔ مقام حیرت یہ ہے کہ مسلمانوں کیلۓ سب سے زیادە قابل نفرت ملک اسرائیل اس درجہ بندی میں ستائیسویں نمبر پر ہے۔

    اور سب سے پہلا اسلامی ملک اس فہرست میں تینتسویں نمبر پر ہے اور اس ملک کا نام ملائیشیا ہے۔ بھارت کا نمبر 81 ہے تو اسلام کے نام پر وجود میں آنے والا آپ کا اور میرا اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نمبر 147 ہے۔

    اس درجہ بندی کو دیکھنے کے بعد بہت سے اہل علم اور عقل سلیم سے مالا مال نفوس کو اپنی ناکامی کی سمجھ ضرور آگئی ہوگی۔آخر وە کون سی وجوہات ہیں کہ آج ہم ناکام و نامراد ہیں۔ آخر کیوں دشمن کے دل سے ہمارا خوف ختم ہوگیا؟

    الله تعالی کے بنائے ہوۓ قانون کو ایک سائیڈ پر کر کے کب کوئی فلاح پا سکتا ہے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ میں دونوں جہانوں کی فلاح ہے اس طریقہ کو چھوڑ کر ہم اس جہان میں تو ناکام ہیں ہی، یقینا آخرت میں بھی ناکامی ہمارا مقدر بنے گی۔

    وقت ہو تو غور ضرور فرمائیے گا