Tag: Islamabad HC

  • ہائیکورٹ نے لاپتا نوجوان فیضان عثمان کی فیملی ای سی ایل پر رکھنے کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا

    ہائیکورٹ نے لاپتا نوجوان فیضان عثمان کی فیملی ای سی ایل پر رکھنے کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا

    اسلام آباد: ہائیکورٹ نے لاپتا نوجوان فیضان عثمان کی فیملی ارکان کے نام ای سی ایل پر رکھنے کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں شہریوں کے نام سفری پابندی کی فہرست میں شامل کرنے کے خلاف کیس میں عدالت نے 13 سالہ بچے سمیت فیملی کے 9 میں سے 7 ارکان کے نام ای سی ایل پر رکھنے کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا۔

    بغیر اسکروٹنی اور ورکنگ پیپر فیملی ارکان کے نام ای سی ایل پر ڈالنے کا معاملہ سب کمیٹی کو کیسے بھیجا؟ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکریٹری داخلہ سے آئندہ سماعت پر بیان حلفی طلب کر لیا۔

    فیضان عثمان کچھ عرصہ قبل لاپتا ہوا تھا، جسٹس بابر ستار کی جانب سے سماعت کا 3 صفحات پر مبنی تحریری حکم جاری کیا گیا، عدالتی دستاویزات کے مطابق عدالت کو بتایا گیا کہ خفیہ ادارے کی سفارش پر ایک فیملی کے 9 افراد کے نام ای سی ایل پر ڈالے گئے۔

    مصطفیٰ نواز کھوکھر کے والد کو ڈپلیکیٹ اسلحہ لائسنس جاری کرنے کی درخواست انتقال کے بعد منظور

    حکم نامے کے مطابق عدالت کو بتایا گیا کہ خفیہ ادارے نے پھر 7 افراد کی حد تک سفارش واپس لے لی، اور صرف 2 کی حد تک برقرار رکھی، تاہم کیس کی سماعت کے دوران وزارت داخلہ حکام عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے کہ انھوں نے کیا اسکروٹنی کی تھی، اور عدالت کو یہ نہیں بتایا گیا کہ کابینہ کمیٹی کو نام بھیجوانے کے لیے کیا ورکنگ پیپر تیار کیا گیا۔

    عدالت نے وزارت داخلہ کی جانب سے کابینہ کمیٹی کو بھجوایا جانے والا ورکنگ پیپر بھی آئندہ سماعت پر طلب کر لیا، اور ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں بغیر ورکنگ پیپر اور بغیر اسکروٹنی نام ای سی ایل پر ڈالے گئے ہیں۔

  • لاپتا افراد کے کیسز، اسلام آباد ہائیکورٹ کا اسپیشل بنچ ٹوٹ گیا

    لاپتا افراد کے کیسز، اسلام آباد ہائیکورٹ کا اسپیشل بنچ ٹوٹ گیا

    اسلام آباد: لاپتا افراد کے کیسز کی سماعت کرنے والا اسلام آباد ہائیکورٹ کا اسپیشل بنچ ٹوٹ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں لاپتا افراد کے درجنوں کیسز کی سماعت کرنے والے اسپیشل بنچ سے متعلق اہم خبر سامنے آئی ہے، یہ اسپیشل بنچ ٹوٹ گیا ہے، جسٹس ارباب محمد طاہر نے بنچ میں بیٹھنے سے معذرت کر لی ہے۔

    جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں اسپیشل بنچ کیسز کی سماعت کر رہا تھا، جسٹس طارق جہانگیری بھی اس بنچ میں شامل تھے، کئی سارے کیسز اس بنچ میں زیر التوا تھے۔

    جسٹس محسن اختر کیانی کے مطابق جسٹس ارباب محمد طاہر بنچ سے الگ ہو گئے ہیں، اور بنچ کی تشکیل نو کے لیے فائل قائم مقام چیف جسٹس کو بھجوا دیے گئے ہیں۔

    واضح رہے کہ اس بنچ میں لاپتا افراد کے بڑی تعداد میں کیسز سماعت کے لیے مقرر تھے۔

  • فیضان عثمان کو کس نے اغوا کیا تھا؟ سی ٹی ڈی پنجاب کے سوا دیگر اداروں نے اپنی رپورٹ عدالت کو دے دی

    فیضان عثمان کو کس نے اغوا کیا تھا؟ سی ٹی ڈی پنجاب کے سوا دیگر اداروں نے اپنی رپورٹ عدالت کو دے دی

    اسلام آباد: فیضان عثمان کو کس نے اغوا کیا تھا؟ اس سلسلے میں سی ٹی ڈی پنجاب کے سوا دیگر اداروں نے اپنی رپورٹ عدالت کو جمع کرا دی ہے۔

    اسلام آباد سے لاپتا شہری فیضان عثمان کی بازیابی کے بعد اغوا کاروں کے خلاف کارروائی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئندہ سماعت پر بازیابی کی تفصیلات مانگ لیں۔

    شہری ڈاکٹر عثمان خان کے بیٹے فیضان عثمان اکتوبر میں بازیاب ہو گئے تھے، ہائیکورٹ نے کہا آئندہ سماعت پر بتایا جائے کہ فیضان عثمان کس کے پاس تھا اور کون چھوڑ کر گیا، نیز فیضان عثمان کیسے لا پتا ہوئے، اور کس کی تحویل میں رہے، اور کیسے بازیاب ہوئے اس کی رپورٹ دی جائے۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے کیس کی سماعت کی، عدالت نے چیف سیکریٹری پنجاب اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری کر دیے ہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزارت دفاع اور دیگر اداروں کا جواب جمع کرا رہے ہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع، آئی بی، آئی جی اسلام آباد اور ایف آئی اے کی جانب سے رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی گئی ہے، تاہم سی ٹی ڈی پنجاب کا جواب نہیں آیا۔

  • شادی سے انکار پر لڑکی کے قاتل کی 25 سال سزا کا فیصلہ کالعدم

    شادی سے انکار پر لڑکی کے قاتل کی 25 سال سزا کا فیصلہ کالعدم

    اسلام آباد: شادی سے انکار پر 24 سالہ لڑکی کے قتل پر سزا پانے والے شہزاد کی سزا کے خلاف اپیل پر فیصلہ جاری ہو گیا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کا 25 سال قید بامشقت سزا کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے پر سنگین نوعیت کے سوالات اٹھا دیے ہیں، اور سزا کو بلاجواز قرار دے دیا، ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو فیصلے کی وجوہ لکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ قتلِ عمد کے ملزم کو سزائے موت کیوں نہیں دی گئی؟

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلے میں کہا کہ ٹرائل کورٹ کا پورا فیصلہ 25 سال سزا دینے کی وضاحت کرنے میں ناکام رہا ہے، اس لیے ٹرائل کورٹ 45 دن میں کیس کا وجوہ پر مبنی دوبارہ فیصلہ کرے۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے 8 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا، مدعی کے مطابق شہزاد 5 ماہ تک سونیا کا پیچھا کرتا رہا اور پھر رشتہ بھیجا، وکیل کے مطابق شادی سے انکار پر شہزاد نے سونیا اور اُس کے والد کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں، 30 نومبر 2020 کو سونیا کو صبح ساڑھے 9 بجے سر میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا، جائے وقوعہ سے ملنے والا گولی کا شیل ملزم سے ریکور ہونے والے پستول سے میچ کر گیا۔

    مقدمے کی تفصیل کے مطابق اپیل کنندہ کے وکیل اور اسٹیٹ کونسل 25 سال قید سے متعلق پوچھنے پر کوئی قابلِ جواز وجہ پیش نہ کر سکے، ٹرائل کورٹ نے فیصلے میں قتل کے مقصد، گواہوں کی شہادت اور جائے وقوعہ سے ملنے والے شواہد کو تسلیم کیا، ٹرائل کورٹ حتمی پیراگراف میں 25 سال قید بامشقت کی سزا دینے کا جواز پیش نہیں کر سکی، ملزم کو دی جانے والی سزا کی واضح وجوہ بیان کرنا ٹرائل کورٹ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ نے ملزم کو سیکشن 302 سی کے تحت 25 سال قید بامشقت کی سزا سنائی، 302 سی کے تحت سزا صرف اُن کیسز میں دی جا سکتی ہے جہاں قصاص کی سزا نہ دی جا سکتی ہو، سوال اٹھتا ہے کہ کیا ٹرائل کورٹ اس معاملے کو سیکشن 302 سی کے تحت دیکھ سکتی تھی، ٹرائل کورٹ نے بنیادی لیگل فریم ورک کو نظرانداز کیا اور بغیر جواز نتیجے پر پہنچ گئی، ٹرائل کورٹ نے محض قتل کے وقت کے تضاد کا ملزم کو فائدہ دیتے ہوئے 25 سال قید کی سزا سنائی۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے تحریری فیصلے میں کہا کہ عام حالات میں قتل کی سزا موت ہے، اور مخصوص پیرامیٹرز کی بنیاد پر سزائے موت کو کم کر کے عمر قید کیا جا سکتا ہے، ٹرائل کورٹ نے اس کیس میں قتلِ عمد کی سزا موت کے اہم ترین عنصر کو نظرانداز کیا، ٹرائل کورٹ کو سزائے موت نہ دینے کی وجوہات لازمی طور پر فراہم کرنی چاہئیں۔

    فیصلے کے مطابق قتل کے کیس میں سزا کا تعین نہایت اہمیت کے حامل ہے، اس کے لیے احتیاط سے کام لینا چاہیے، یہ نوٹ کرنا بھی ضروری ہے کہ سزائے موت میں کمزور بنیادوں پر کمی نہیں کی جانی چاہیے، عدالت سمجھتی ہے کہ جب تک سزا کا فیصلہ وجوہ بیان کر کے درست نہ کر لیا جائے یہ عدالت فیصلہ نہیں کر سکتی۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا سزا کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر کیس دوبارہ فیصلے کے لیے ریمانڈ بیک کیا جاتا ہے، ٹرائل کورٹ فریقین کو سماعت کا ایک موقع دے اور 45 دن میں وجوہ پر مبنی فیصلہ دے۔

  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے گرفتار رہنماؤں کے جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ معطل کر دیا

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے گرفتار رہنماؤں کے جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ معطل کر دیا

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے گرفتار رہنماؤں کے جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ معطل کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے گرفتار رہنماؤں کے جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی درخواستوں پر آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی، سماعت چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کی۔

    سماعت کے بعد پی ٹی آئی جلسے پر درج مقدمات میں گرفتار ملزمان کی درخواستوں پر آرڈر جاری کیا گیا۔

    پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت میں دلیل دی کہ جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ معطل کرنے سے برا تاثر جائے گا، چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا برا تاثر جائے گا؟ میں واضح آبزرویشن دے چکا ہوں، اگر ہم کوئی آرڈر کرتے ہیں تو ملزم جوڈیشل ہو جائیں گے؟ جسمانی ریمانڈ کا یہ آرڈر برقرار تو نہیں رہ سکتا، لیکن اگر ہو گیا تو کیا ہوگا؟

    وکیل درخواست گزار نے کہا عدالت کو زیادہ لمبا جسمانی ریمانڈ نہیں دینا چاہیے، ٹرائل عدالت نے اپنے آرڈر میں ریمانڈ کی کوئی وجوہ بھی نہیں لکھیں، چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ اس جسمانی ریمانڈ کے فیصلے کا کیسے دفاع کریں گے؟ پراسیکیوٹر نے ملزمان کے خلاف ایف آئی آرز پڑھ کر سنا دیں۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کل جمعہ ہے اور جمعہ کو دو رکنی بنچ نہیں ہوتا، اس لیے کل صبح دس بجے یہ دو رکنی خصوصی بنچ کیس کی سماعت کرے گا۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ کا وفاقی حکومت کو لاپتا شہری کے والد کو 30 لاکھ معاوضہ دینے کا حکم

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا وفاقی حکومت کو لاپتا شہری کے والد کو 30 لاکھ معاوضہ دینے کا حکم

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے 15 سال سے خیبر پختونخواہ کے لاپتا شہری ہارون محمد کی بازیابی کی درخواست پر بڑا حکم جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو کے پی سے لاپتا شہری ہارون محمد کے والد کو 30 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا حکم دے دیا ہے۔

    عدالت نے حکم دیا کہ آئندہ سماعت سے قبل حکومت درخواست گزار لاپتا شہری کے والد کو معاوضہ ادا کر دے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے بذریعہ سیکریٹری داخلہ آئی جی خیبر پختونخوا کو بھی ہدایات جاری کیں۔

    ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کی فیملی کو مقدمہ لڑنے پر دھمکیاں مل رہی ہیں، جس پر عدالت نے آئی جی خیبر پختونخوا کو ہدایت کی کہ درخواست گزار کو سیکیورٹی فراہم کی جائے، اور سیکیورٹی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔

    اس کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل عدالت کے سامنے پیش ہوئے، درخواست گزار کی جانب سے ایمان زینب مزاری عدالت میں پیش ہوئیں، سماعت کے بعد عدالت نے کیس کی اگلی سماعت دو ہفتے تک ملتوی کر دی۔

  • عدالتی احاطے سے ملزم کی گرفتاری، اسلام آباد ہائی کورٹ نے بڑا حکم جاری کر دیا

    عدالتی احاطے سے ملزم کی گرفتاری، اسلام آباد ہائی کورٹ نے بڑا حکم جاری کر دیا

    اسلام آباد: پولیس کو عدالتی احاطے سے کسی بھی ملزم کو گرفتار کرنے سے روک دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے خاتون ملزمہ شبانہ کنول کی گرفتاری کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے بڑا حکم جاری کرتے ہوئے ہائی کورٹ اور ماتحت عدالت کے احاطے سے کسی بھی ملزم کی گرفتاری سے پولیس کو روک دیا۔

    جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا ہائیکورٹ، سیشن کورٹ اور جوڈیشل کمپلیکس کے احاطے سے کوئی ملزم گرفتار نہیں کیا جائے گا۔

    ایس ایس پی انویسٹیگیشن رخسار مہدی عدالتی حکم پر ہائیکورٹ میں پیش ہوئے، عدالت نے ان کو ہدایت کی کہ آئی جی اسلام آباد سے میٹنگ کر کے اپنا ایس او پی بنائیں اور عدالت کو اس سے آگاہ کریں، اور آئی جی صاحب کو بتائیں کہ ہائیکورٹ کے احاطے سے کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوگا۔

    ایس ایس پی انویسٹیگیشن نے کہا ہائیکورٹ کے احاطے سے اہلکار نے جو گرفتاری کی اس پر میں شرمندہ ہوں، جسٹس ارباب نے کہا آپ انتہائی قابل اور اپ رائٹ آفیسر ہیں، آپ اپنے آئی جی سے ملیں اور ایس او پی بنائیں، ایس ایس پی نے عدالت کو بتایا کہ عموماً احاطے سے گرفتاری کبھی ہوتی نہیں پتا نہیں کیوں اس کیس میں ایسا ہوا، متعلقہ اے ایس آئی معطل کو کر دیا گیا ہے اور مزید تحقیقات بھی کر رہے ہیں، آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔

    جسٹس ارباب نے کہا آپ کو تکلیف دینے کا مقصد آپ کو بتانا تھا کہ عدالت کے احاطے سے گرفتاریاں شروع ہو گئی ہیں، وہ خاتون تھی جیسے ہی اس عدالت سے باہر گئی اسے گرفتار کر لیا گیا، فیکٹ آپ کو پتا ہے کہ مئی 2023 میں کوئی ایف آئی آر درج تھی، ہم نے پوچھا کوئی اور کیس ہے تو بتا گیا کہ کوئی کیس نہیں، لیکن جب وہ باہر گئی تو اسے گرفتار کر لیا گیا، آپ اپنے آئی جی سے میٹنگ کریں اور ایس او پیز طے کریں۔

    جسٹس ارباب محمد طاہر نے حکم دیا کہ ہائی کورٹ، سیشن کورٹ یا کسی خصوصی عدالت کے احاطے سے کسی کو گرفتار نہیں کیا جائے گا، انھوں نے ہدایت کی کہ آپ احاطہ عدالت سے گرفتاری روکنے پر ہدایات لیں گے، اور جو بھی اس میٹنگ کا آرڈر ہوگا آپ یہاں دیں گے، اس کے لیے ہم آپ کو دو دن کا وقت دیتے ہیں، ہدایات لے کر ہائیکورٹ کو آگاہ کر دیں۔

    ایس ایس پی انویسٹیگیشن نے عدالت سے استدعا کی کہ شریک ملزم کا کیس بھی دیکھ لیں جس کی وجہ سے یہ خاتون گرفتار ہوئی، جسٹس ارباب نے کہا اسے بھی دیکھ لیں گے وہ کوئی سپارے نہیں بیچتا تھا۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت دو دن بعد تک ملتوی کر دی۔

  • عدالت نے نگراں حکومت کو ایف بی آر کی ری اسٹرکچرنگ سے روک دیا

    عدالت نے نگراں حکومت کو ایف بی آر کی ری اسٹرکچرنگ سے روک دیا

    اسلام آباد: عدالت نے نگراں حکومت کو ایف بی آر کی ری اسٹرکچرنگ سے روک دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے نگراں حکومت کو ایف بی آر کی ری اسٹرکچرنگ سے روک دیا ہے، اور ایف بی آر ری اسٹریکچرنگ کے لیے قائم کمیٹی کا 2 فروری کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا۔

    ایف بی آر کے افسر نے نگراں حکومت کے اقدام کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا، جس پر فیصلہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سنایا۔

    درخواست گزار وکیل کا مؤقف تھا کہ یہ نگراں حکومت کا مینڈیٹ نہیں ہے، نگراں حکومت کو ایف بی آر کی ری اسٹرکچرنگ سے روکا جائے، انھوں نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت الیکشن کمیشن نے بھی ری اسٹرکچرنگ سے روکا تھا لیکن اس کے باوجود کمیٹی بنا دی گئی۔

    نئی منتخب حکومت کو آتے ہی کس بڑی معاشی مشکل کا سامنا ہوگا؟

    عدالت نے کیس کی سماعت کے بعد نگراں حکومت کو فیڈرل بیورو آف ریونیو کی ری اسٹرکچرنگ سے روکنے کا حکم جاری کر دیا۔

  • ’قانون کے مطابق شہریوں کی گفتگو ریکارڈ کی جا سکتی ہے لیکن اسے خفیہ رکھنا لازم ہے‘

    ’قانون کے مطابق شہریوں کی گفتگو ریکارڈ کی جا سکتی ہے لیکن اسے خفیہ رکھنا لازم ہے‘

    اسلام آباد: آڈیو لیکس کیس میں وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جواب جمع کرا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں آڈیو لیک کیس میں جواب جمع کراتے ہوئے کہا کہ شہریوں کی ٹیلی فون گفتگو ریکارڈ کرنے کے لیے لیگل فریم ورک موجود ہے۔

    پرنسپل سیکریٹری نے کہا عدالت نے سوال پوچھا ہے کہ کس ایجنسی کے پاس گفتگو ریکارڈ کرنے کی صلاحیت ہے؟ جواب یہ ہے کہ فیئر ٹرائل ایکٹ 2013 سیکیورٹی اور انٹیلیجنس اداروں کو ریگولیٹ کرنے کا فریم ورک دیتا ہے، وزیر اعظم آفس انٹیلیجنس ایجنسیوں کے حساس روزمرہ امور میں مداخلت نہیں کرتا، اور ان کے ساتھ کچھ فاصلے سے تعلقات رکھتا ہے۔

    وزیر اعظم آفس انٹیلیجنس ایجنسیوں سے آئین، قانون کے مطابق عوامی مفاد میں کام کی امید رکھتا ہے، اور وزیر اعظم آفس کا انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کام ، آپریشنز کی تفصیل میں جانا قومی سلامتی کے حق میں نہیں، ایسا عمل ملک کو اندرونی و بیرونی خطرات سے بچانے والی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مفاد میں نہیں ہے۔

    پرنسپل سیکریٹری نے کہا عدالت نے سوال پوچھا کہ قانون کے مطابق ریکارڈ ٹیلی فونک گفتگو کو خفیہ رکھنے کے کیا سیف گارڈز ہیں؟ انوسٹیگیشن فار فیئر ٹرائل ایکٹ 2013 شہریوں کی گفتگو ریکارڈ کرنے کی اجازت کا میکنزم فراہم کرتا ہے، تاہم قانون کے مطابق ریکارڈ کی گئی گفتگو کو خفیہ رکھنا، لیک ہونے سے روکنے کو یقینی بنانا ضروری ہے۔

    انھوں نے کہا اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ ریکارڈ کی گئی گفتگو کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے، ٹیلی گراف ایکٹ میں بھی پیغامات پڑھنے کے لیے وفاقی یا صوبائی حکومت سے اجازت کو لازم قرار دیا گیا، لیکن پیکا آرڈینینس اور رولز کے تحت بھی حاصل کیے گئے ڈیٹا یا ریکارڈ کو خفیہ رکھنا لازم ہے۔

    پرنسپل سیکریٹری نے جواب میں کہا عدالت نے سوال پوچھا ہے کہ شہریوں کی گفتگو کس نے ریکارڈ اور لیک کیں؟ تحقیقات کیا ہوئیں؟ تو جواب یہ ہے کہ ٹیلی فون گفتگو ریکارڈ کر کے لیک کرنے کا معاملہ وفاقی حکومت کے علم میں ہے، اور وفاقی حکومت نے سینئر ججز پر مشتمل اعلیٰ سطح کا انکوائری کمیشن قائم کیا ہے، یہ کمیشن لیک کی گئی آڈیوز کے مصدقہ ہونے کی انکوائری کرے گا۔

  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے کراچی کی 6 یونین کونسلز میں دوبارہ گنتی روکنے کا حکم دے دیا

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے کراچی کی 6 یونین کونسلز میں دوبارہ گنتی روکنے کا حکم دے دیا

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے کراچی کی 6 یونین کونسلز میں دوبارہ گنتی کے عمل کو روکنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی 6 یونین کونسلز میں دوبارہ گنتی سے متعلق جماعت اسلامی کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکم نامہ جاری کر دیا، تحریری حکم نامہ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے جاری کیا ہے۔

    الیکشن کمیشن نے 22 مارچ کو جماعت اسلامی کی جیتی ہوئی 6 یونین کونسلز کے 17 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ گنتی کا حکم دیا تھا، نائب امیر جماعت اسلامی کراچی نے اس حکم کو چیلنج کر دیا تھا، درخواست گزار کی جانب سے قیصر امام ایڈووکیٹ اور حسن جاوید شورش ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔

    عدالتی فیصلے کے مطابق پانچ یونین کونسلز کا کراچی ویسٹ اور ایک کا کراچی ایسٹ سے تعلق ہے، عدالت کو بتایا گیا کہ یونین کونسلز میں آج دوبارہ گنتی ہونی ہے، لیکن اگر آج گنتی ہو جاتی ہے تو یہ پٹیشن غیر مؤثر ہو جائے گی، اس لیے الیکشن کمیشن کو 29 اپریل کے لیے پری ایڈمیشن نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔

    عدالت نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا سندھ ہائیکورٹ کی بجائے اسلام آباد ہائیکورٹ میں یہ پٹیشن قابل سماعت ہے؟ عدالت نے درخواست قابل سماعت ہونے پر بھی 29 مارچ کو دلائل طلب کر لیے۔

    یاد رہے کہ نائب امیر جماعت اسلامی راجہ عارف سلطان نے 17 جنوری پوسٹ پول دھاندلی کی شکایت کی تھی۔