Tag: Islamabad HC

  • لاہور ہائی کورٹ‌: عمران خان کی9مقدمات میں حفاظتی ضمانت منظور

    لاہور ہائی کورٹ‌: عمران خان کی9مقدمات میں حفاظتی ضمانت منظور

    لاہور : پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو عدالت سے مجموعی طور پر نو مقدمات میں حفاظتی ضمانت مل گئی، جس میں اسلام آباد، لاہور اور سرور روڈ کیس کے مقدمات شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق لاہورہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی8مقدمات میں حفاظتی ضمانت منظور کرلی، ان مقدمات میں اسلام آباد میں درج کیے جانے والے 5 مقدمات میں 24مارچ تک اور لاہورمیں درج 3مقدمات میں 27 مارچ تک حفاظتی ضمانت دی گئی ہے۔

    اس کے علاوہ معزز عدالت نے تھانہ سرور روڈ کیس میں عمران خان کی حفاظتی ضمانت 27 مارچ تک منظورکرلی، تھانہ ریس کورس کیس میں سماعت کے موقع پر جسٹس طارق سلیم شیخ کی عدالت میں دوران سماعت عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ آپ کی وجہ سےامن وامان کا مسئلہ حل ہوا، ہم حفاظتی ضمانت چاہتے ہیں تاکہ متعلقہ عدالت پہنچ سکیں۔

    عمران خان کے وکیل نے کہا کہ پنجاب حکومت نے آر پی اوز کو تفصیلات کیلئے خط لکھا ہے، ابھی تک کوئی تفصیلات مقدمات کیلئے سامنے نہیں آئیں۔

    لاہورہائی کورٹ میں عمران خان کی مجموعی طور پر9مقدمات میں حفاظتی ضمانتیں منظور کی گئی ہیں، لاہور کے مقدمات میں10دن کیلئے جبکہ اسلام آباد کے مقدمات میں آئندہ جمعہ تک حفاظتی ضمانتیں منظور کی گئیں۔

    چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ظل شاہ کیس میں27مارچ تک حفاظتی ضمانت منظور کرلی گئی، وکیل عمران خان کا کہنا تھا کہ جب تک متعلقہ تفصیلات عدالت نہ پہنچیں یہ تادیبی کارروائی نہ کریں۔

    عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ کل صبح پتہ چلے گا کہ کوئی اور مقدمہ درج ہے پھر کیا ہوگا؟ آپ نے مقدمات کا ریکارڈ کیوں پیش نہیں کیا؟ جس کے جواب میں سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے لیٹر لکھ دیا ہے ریکارڈ کا معاملہ ہے اسے جمع کرنے میں وقت لگتا ہے۔

    عدالت نے سرکاری وکیل سے دریافت کیا کہ بتائیں اسلام آباد میں مجموعی طور پر کتنے مقدمات درج ہیں؟ جس پر ان کا جواب تھا کہ میں تصدیق کرکے عدالت کو آگاہ کردوں گا۔

    لاہورہائی کورٹ میں زمان پارک آپریشن کیس کی سماعت شروع ہوئی تو وکیل عمران خان خواجہ طارق نے کہا کہ زمان پارک میں مسئلہ اسی لیے بنا کیونکہ پوری فورس پہنچ گئی تھی، اگر کوئی پولیس افسر کسی تفتیش کے لیے زمان پارک جانا چاہتا ہے تو جائے، ایس ایس پی اگر تفتیش کے لیے جائے تو ساتھ پوری فورس لے کر نہ جائے۔

    عدالت نے پولیس کو عمران خان کیخلاف کارروائی سے روک دیا

    عدالت نے عمران خان کیخلاف پنجاب میں درج مقدمات کی تفصیلات منگل تک طلب کرلیں اور پولیس کو عمران خان کیخلاف تادیبی کارروائی سے روک دیا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ اگر کوئی پولیس کو تفتیش کرنے سے روکے تو یہ بذات خود ایک جرم ہے، جس کے جواب میں وکیل خواجہ طارق نے کہا کہ ہم ان کو روک نہیں رہے بلکہ معاونت کرنا چاہتے ہیں، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ تفتیش کے نام پر عمران خان کے گھر درجنوں اہلکار گھس جائیں، ان کے گھر صرف تفتیشی ٹیم جائے تو کوئی مسئلہ نہیں۔

    لاہور ہائی کورٹ نے پولیس کی جانب سے عمران خان سے تفتیش کیلئے زمان پارک جانے اور تفتیش مکمل کرنے کی اجازت کی درخواست منظور کرلی، عدالت نے کہا کہ پولیس قانون کے مطابق اپنی تفتیش کرسکتی ہے، وکیل عمران خان نے کہا کہ پولیس والے پوری فورس لے کر ساتھ نہ جائیں، دو سے3لوگ جائیں اوراپنی انویسٹی گیشن مکمل کرلیں۔

  • لاپتا شہری اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش، اہم بیان دے دیا

    لاپتا شہری اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش، اہم بیان دے دیا

    اسلام آباد: لاپتا شہری منیب اکرم کو اسلام آباد پولیس نے ہائیکورٹ میں پیش کر دیا، شہری نے بتایا کہ سادہ لباس پہنے کچھ لوگوں نے انھیں رات کو گھر سے اٹھا لیا تھا، عدالت نے سماعت مکمل ہونے پر آئی جی اسلام آباد کو اس سلسلے میں تحقیقات کا حکم دے کر کیس نمٹا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاپتا شہری منیب اکرم کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی، پولیس نے لاپتا شہری کو عدالت میں پیش کر دیا۔

    بازیاب شہری منیب اکرم نے بتایا کہ مجھے 19 اگست کو رات گھر سے کچھ لوگوں نے اٹھایا، میرا لیپ ٹاپ اور موبائل لے کر چیک کیا گیا اور مجھے دھمکیاں دی گئیں۔ مجھے جو لوگ لے کر گئے تھے انھوں نے مجھے سوشل میڈیا استعمال نہ کرنے کا کہا، مجھے انھوں نے کہا فیس بک ٹویٹر آج کے بعد استعمال نہیں کرنا پھر چھوڑ دیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو کس نے اٹھایا تھا، شہری نے جواب دیا کہ مجھے علم نہیں مگر سول کپڑوں میں لوگ آئے تھے، پھر میں ڈر کی وجہ سے گاؤں چلا گیا اور موبائل بند کر دیا، اور یکم اکتوبر کو گھر واپس آیا۔

    عدالت نے بازیاب شہری سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا اگر 6 گھنٹے بعد آپ کو چھوڑا گیا تھا تو گھر میں کیوں نہیں بتایا، شہری نے جواب دیا کہ میں گھر والوں کو بتاتا تو گھر والے واپس لے آتے، اور مجھے دوبارہ اٹھائے جانے کا خوف تھا۔

    سماعت کے دوران عدالت نے ایس ایچ او سے استفسار کیا کہ ایس ایچ او صاحب آپ کے علاقے میں یہ کیا ہو رہا ہے؟ عدالت نے ڈی ایس پی پر بھی اظہار برہمی کیا، اور کہا کہانیاں نہ سنائیں، باہر سے سی ٹی ڈی آ کر اس عدالت کے احاطے میں یہ چیزیں کر رہی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا اس عدالت نے کئی بار کہا کہ یہ عدالت اس قسم کے واقعات برداشت نہیں کرے گی، اب اس کیس میں یہ عدالت کس کو قصور وار ٹھہرائے؟ یہ بھی نہیں پتا کہ یہ بچہ اپنے بیان میں سچ بول رہا ہے یا جھوٹ۔

    عدالت نے کہا ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو بتائے بغیر کسی کی ہمت نہیں کہ ایسا کوئی کام کرے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ کو ریاست نے لوگوں کو تحفظ کے لیے رکھا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب بتائیں کہ اس کیس کا اب کیا کریں؟

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا عدالتی فیصلوں کے باوجود اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ریاست کی ناکامی ہے، عدالت نے کہا اگر ریاست ناکام ہے تو کوئی اور کیسے ہمت کرے گا، اس عدالت کو پتا ہے کہ پولیس کے علم میں لائے بغیر ایسا کچھ ممکن نہیں۔

    بازیاب شہری منیب اکرم کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو تحقیقات کا حکم دے دیا، عدالت نے کہا آئی جی اسلام آباد تحقیقات کر کے ریورٹ 15 روز میں رجسٹرار ہائی کورٹ کو جمع کرائیں، اور ہدایت کی کہ پٹشنر کو کسی بھی قسم کی تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے۔ عدالت نے احکامات کے بعد بازیابی کی درخواست نمٹا دی۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ کا ممنوعہ فنڈنگ کیس میں لارجر بنچ بنانے کا فیصلہ

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا ممنوعہ فنڈنگ کیس میں لارجر بنچ بنانے کا فیصلہ

    اسلام آباد: پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں لارجر بنچ بنانے کا فیصلہ کر لیا۔

    اے آروائی نیوز براہِ راست دیکھیں live.arynews.tv پر

    تفصیلات کے مطابق آج منگل کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی، عدالت نے کیس میں لارجر بنچ بنانے کا فیصلہ کر لیا۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ کا لارجر بینچ 18 اگست سے ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت کرے گا، کیس 18 اگست کو باقاعدہ سماعت کے لیے مقرر کر دیا گیا۔

    وکیل پی ٹی آئی انور منصور نے عدالت سے کہا کہ پی ٹی آئی نے جن اکاؤنٹس کی معلومات فراہم کی تھیں وہ فیصلے میں موجود ہی نہیں، الیکشن کمیشن کو بتایا کہ کچھ اکاؤنٹس کی معلومات کچھ وجوہ کی بنا پر ضروری نہیں ہے، مرکزی اکاؤنٹس سے کچھ رقوم صوبائی سربراہان کو بھیجے گئے۔

    جسٹس عامر فاروق نے کہا جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہ ولی خان کیس کے بعد اس نوعیت کا پہلا کیس ہے، اُس کیس میں ریفرنس بھیج دیا گیا تھا اِس کیس میں ابھی ریفرنس نہیں بھیجا گیا۔

    انور منصور نے استدعا کی کہ الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کے خلاف کسی بھی کارروائی سے روکا جائے، جسٹس عامر فاروق نے کہا میں نے اسی لیے لارجر بنچ بنا دیا ہے، کل کیس کی سماعت کریں گے۔

    پی ٹی آئی وکیل کی استدعا تھی کہ شوکاز نوٹس کی حد تک کوئی ایکشن نہ لیا جائے، عدالت نے ریمارکس دیے کہ اسٹے آرڈر بھی لارجر بنچ ہی دیکھے گا۔

  • اینکر ارشد شریف اور بیورو چیف خاور گھمن نے ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا

    اینکر ارشد شریف اور بیورو چیف خاور گھمن نے ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا

    اسلام آباد: اینکر ارشد شریف اور بیورو چیف خاور گھمن نے ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز کے اینکر ارشد شریف، بیورو چیف خاور گھمن، اور ایگزیکٹو پروڈیوسر عدیل راجہ نے ہائیکورٹ سے رجوع کر کے حفاظتی ضمانت کے لیے درخواست دائر کر دی۔

    سی ای او اے آر وائی سلمان اقبال، ارشد شریف سمیت دیگر ایف آئی آر میں نامزد

    وکیل ملک الطاف کے مطابق اے آر وائی نیوز انتظامیہ کے خلاف کراچی میں ایف آئی آر غیر قانونی ہے، ایک واقعے کی ایک ایف آئی آر اسلام آباد میں درج ہو چکی ہے، میمن گوٹھ پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آر عدالتی فیصلوں کے خلاف ہے۔

    نشریات کی بندش کے باعث اے آر وائی نیوز کی لائیو ٹرانسمیشن یہاں دیکھیں

    سینئر وکیل ملک الطاف ایڈووکیٹ نے کہا کہ تفتیشی افسر کی تقرری اور متعلقہ عدالت تک ایف آئی آر پہنچنے سے قبل گرفتاری نہیں کی جا سکتی۔

    انھوں نے کہا آئین میڈیا پرسنز سمیت تمام شہریوں کی چار دیواری کو تحفظ دیتا ہے، اے آر وائی نیوز کے خلاف اب تک کارروائیاں غیر آئینی و غیر قانونی ہیں۔

  • عدالت نے پولیس کو فواد چوہدری، قاسم سوری، حلیم عادل کی گرفتاری سے روک دیا

    عدالت نے پولیس کو فواد چوہدری، قاسم سوری، حلیم عادل کی گرفتاری سے روک دیا

    اسلام آباد: عدالت نے پولیس کو پی ٹی آئی رہنماؤں فواد چوہدری، قاسم سوری، حلیم عادل و دیگر کی گرفتاری سے روک دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی رہنماؤں کی ضمانتوں کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے پولیس کو پی ٹی آئی لیڈرز کی گرفتاری سے روک دیا ہے۔

    کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی، ان کے روبرو درخواست گزاروں کی جانب سے علی بخاری، احمد پنسوتا ایڈووکیٹ و دیگر پیش ہوئے۔

    علی بخاری ایڈووکیٹ نے کہا اس کیس کو شیریں مزاری کیس کے ساتھ لگایا جائے، چیف جسٹس نے کہا وہ الگ کیس ہے اور یہ سب الگ ہیں، ایڈووکیٹ نے کہا اس کیس میں جواب جمع کرانا تھا جو ابھی تک جمع نہیں ہوا۔

    حکومت نے تحریک انصاف کے 17 رہنماؤں کی گرفتاری کے لیے وارنٹ حاصل کر لیا

    وکیل نے عدالت سے کہا کہ ہمیں پتا ہی نہیں ہمارے خلاف کتنے مقدمات درج ہیں اور کہاں درج ہیں؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ حلیم عادل شیخ کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں۔

    عدالت نے وکیل درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا مقدمات کی تفصیل ملنا آپ کا بنیادی حق ہے۔ عدالت نے پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف درج مقدمات کی تفصیل فراہم کرنے کے لیے دوبارہ نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 28 جون تک ملتوی کر دی۔

    واضح رہے کہ دوسری طرف لانگ مارچ کے روز توڑ پھوڑ اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں انسداد دہشت گردی عدالت نے 17 پی ٹی آئی رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔

  • الیکشن کمیشن کے عدلیہ کے متوازی اختیارات اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج

    الیکشن کمیشن کے عدلیہ کے متوازی اختیارات اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج

    اسلام آباد: الیکشن کمیشن کے عدلیہ کے متوازی اختیارات ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ای سی پی کے اختیارات چیلنج کر دیے گئے، کیس کی سماعت آج شروع ہو گئی ہے، سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کر رہے ہیں۔

    وکیل دانیال کھوکھر کی جانب سے ڈاکٹر بابر اعوان نے عدالت میں پیش ہو کر کہا الیکشن کمیشن کو عدالتوں جیسے اختیارات دیتی الیکشن ایکٹ کی 3 دفعات کالعدم قرار دی جائیں۔

    بابر اعوان نے عدالت سے استدعا کی کہ توہین پر الیکشن کمیشن کا سزا دینے اور ڈائریکشن جاری کرنے کا اختیار، اور الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 4، 9 اور 10 کالعدم قرار دیے جائیں، الیکشن کمیشن کا مکمل انصاف کے لیے کوئی بھی آرڈر جاری کرنے کا اختیار بھی ختم کیا جائے۔

    انھوں نے کہا ملک میں پانچ آئینی ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ موجود ہے، کوئی اور ریاستی ادارہ آئینی عدالتوں کی برابری نہیں کر سکتا، الیکشن کمیشن سے تنخواہوں اور مراعات کی تفصیل بھی طلب کی جائے، اگر الیکشن کمیشن کی تنخواہیں آئینی عدالتوں کے برابر ہوں تو اسے غیر قانونی قرار دیا جائے۔

    بابر اعوان نے عدالت سے استدعا کی کہ اس درخواست پر فیصلے تک الیکشن کمیشن کو عدالتی اختیارات کے استعمال سے روکا جائے۔

    چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان شقوں کو ختم کیا جاتا ہے تو اس سے الیکشن کمیشن کا کردار متاثر ہو سکتا ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی ججمنٹ کے تحت عدالت کی معاونت کریں۔

    عدالت نے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا، اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کر دیا گیا، بعد ازاں، عدالت نے 2 ہفتوں تک کے لیے سماعت ملتوی کر دی۔

  • عدالتی کارروائی کی لائیو اسٹریمنگ، لیکن کون سے معاملات براہ راست نشر نہیں ہوں گے؟

    عدالتی کارروائی کی لائیو اسٹریمنگ، لیکن کون سے معاملات براہ راست نشر نہیں ہوں گے؟

    اسلام آباد: ہائی کورٹ نے عدالتی کارروائیوں کی لائیو اسٹریمنگ اور ریکارڈنگ متعارف کرا دی ہے، عدالتی اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام مقدمات کی سماعت میں زیادہ شفافیت اور انصاف تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں کمرۂ عدالت نمبر 1 کی کارروائی کو لائیو اسٹریمنگ سے لیس کر دیا گیا ہے، اس سلسلے میں ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کارروائی کی لائیو اسٹریمنگ میں قانونی چارہ جوئی کے حقوق شامل ہیں، یعنی اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ہی عام لوگوں کے لیے اسے قابل رسائی بنایا جا سکتا ہے، کیوں کہ ہر مدعی نہیں چاہے گا کہ کارروائی کو براہ راست نشر کیا جائے۔

    عدالت سے جاری اعلامیے کے مطابق ازدواجی معاملات، شواہد کی ریکارڈنگ اور مراعات یافتہ مواصلات وغیرہ لائیو اسٹریمنگ سے خارج ہو سکتے ہیں۔

    اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس نے ہائی کورٹ کے معزز ججوں کی سربراہی میں ایک ای کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے، جس میں پاکستان بار کونسل، اسلام آباد بار کونسل، اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، اسلام آباد بار ایسوسی ایشن، ہائی کورٹ کے پریس میڈیا رپورٹرز کو شامل کیا گیا ہے۔

    ہائیکورٹ کا غیر معمولی اقدام، مقدمات کی سماعت کو براہ راست دیکھا جاسکے گا

    یہ کمیٹی مدعیان کے حقوق اور مفادات کے حوالے سے اراکین منتخب کر سکتی ہے، ای کمیٹی عام لوگوں سے تجاویز بھی طلب کر سکتی ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے پہلی بار ایک غیر معمولی قدم اٹھایا، چیف جسٹس اطہر من اللہ کی کورٹ میں عدالتی کارروائی کی لائیو اسٹریمنگ کا فیصلہ کیا گیا، گزشتہ روز ٹرائل کے طور پر عدالتی کارروائی کو محدود پیمانے پر براہ راست دکھایا گیا۔

    عدالتی کارروائیاں اب ویب سائٹ پر کوئی بھی لائیو دیکھ سکے گا، لائیو اسٹریمنگ کا یہ سسٹم اسلام آباد کے عمر رشید ڈار ویب سائٹ پروگرامر نے نصب کیا ہے۔

  • عدالت نے پی ایم سی کے تمام ممبران کو فوری عہدوں سے ہٹانے کا حکم دے دیا

    عدالت نے پی ایم سی کے تمام ممبران کو فوری عہدوں سے ہٹانے کا حکم دے دیا

    اسلام آباد: عدالت نے پی ایم سی کے تمام ممبران کو فوری عہدوں سے ہٹانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان میڈیکل کونسل (پی ایم سی) کے تمام ممبران کی تعیناتی غیر قانونی قرار دے دی ہے۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے کونسل کے تمام ممبران کو فوری طور پر عہدوں سے ہٹانے کا حکم دے دیا ہے، حکم کے مطابق کونسل کے صدر ڈاکٹر ارشد تقی، اور نائب صدر علی رضا ایڈووکیٹ کی تعیناتی غیر قانونی قرار دی گئی ہے۔

    عدالت نے حکم میں کہا ہے کہ ممبران کی قانون کے مطابق تعیناتی تک حکومت روزانہ کی بنیاد پر امور چلائے، پی ایم ڈی سی کے جن ملازمین کو پنشن مل چکی، ان سے وہ واپس نہیں لی جا سکتی، تاہم جن ملازمین کو پنشن نہیں ملی اب وہ اس کے اہل نہیں ہیں۔

    واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے محفوظ فیصلہ سنایا، یہ فیصلہ پی ایم سی ممبران کی تعیناتی کے خلاف ملازمین کی درخواستوں پر سنایا گیا ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ پی ایم سی کی نئی کونسل گولڈن ہینڈ شیک والے ملازمین کا کیس دیکھ سکتی ہے۔

  • عدالت نے شہزاد اکبر اور شہباز گل کا نام نو فلائی لسٹ سے نکال دیا

    عدالت نے شہزاد اکبر اور شہباز گل کا نام نو فلائی لسٹ سے نکال دیا

    اسلام آباد: عدالت نے شہزاد اکبر اور شہباز گل کا نام نو فلائی لسٹ سے نکال دیا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے علاوہ کوئی بلیک لسٹ میں نام نہیں ڈال سکتا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی شخصیات ‏شہزاد اکبر اور شہباز گل کی اسٹاپ لسٹ سے نام نکلوانے کی درخواست پر سماعت کی، مرزا شہزاد اکبر اور ڈاکٹر شہباز گل اپنے وکیل رئیس عبدالواحد ایڈووکیٹ اور دیگر وکلا کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔

    وکیل نے کہا کہ درخواست گزاروں کا نام بغیر کسی شکایت یا انکوائری یا کسی اور کارروائی کے ‘نو فلائی لسٹ/اسٹاپ لسٹ’ میں ڈالا گیا ہے، سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے کا عمل بد دیانتی پر مبنی ہے، عدالت غیر قانونی اور غیر آئینی عمل کو کالعدم قرار دے۔

    وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے نے درخواست گزاروں کے نام نو فلائی لسٹ میں صبح تقریباً 1.55 پر ڈالا ہے، اس وقت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو رہی تھی، جو بدنیتی کے ارادے اور بدسلوکی کو ظاہر کرتی ہے۔

    وکیل نے کہا سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے کی غیر قانونی کارروائی من مانی اور خلاف قانون ہے، سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے نے پی ایم ایل ن کے اراکین کی آواز پر عمل کیا، یہ سیاسی انتقام ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

    وکیل نے کہا دونوں درخواست گزار سابق وزیر اعظم کے مشیر تھے، یہ طے شدہ قانون ہے کہ محض مقدمے کا زیر التوا ہونا بھی کسی شہری کی نقل و حرکت کی آزادی کو روکنے اور ملک سے آزادانہ طور پر باہر جانے اور آنے سے روکنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے، نقل و حرکت کی آزادی درخواست گزار کا بنیادی حق ہے، جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973 کے آئین نے عطا کیا ہے۔

    وکیل کے مطابق درخواست گزاروں کے نام اسٹاپ لسٹ میں ڈالنے پر جواب دہندگان کی طرف سے کوئی بھی قابل فہم بنیاد فراہم نہیں کی گئی ہے، نہ ہی انھیں مطلع کیا گیا ہے، یہ پاکستان کنٹرول آرڈیننس 1981 کے سیکشن 2 کے ذیلی سیکشن 2 کی سراسر خلاف ورزی ہے، درخواست گزاروں کے بنیادی حقوق کی بھی سنگین خلاف ورزی ہوئی ہے۔

    وکیل نے عدالت سے کہا کہ سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات اختیارات کے ناجائز استعمال کے مترادف ہیں، عدالت ایف آئی اے کے غیر قانونی عمل کو کالعدم قرار دے۔

    وکیل نے یہ بھی کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومتی اہل کاروں کو مزید ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بغیر این او سی کے پرواز نہیں کر سکتے، جنھوں نے حکومت کو ہٹانے کے لیے سازش کی اس لیے جواب دہندگان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ یہ عمل ایسے وقت میں کیا گیا جب ملک میں کوئی وزیر اعظم نہیں تھا، چیف جسٹس نے کہا بلیک لسٹ کے حوالے سے اس عدالت کی ججمنٹ موجود ہے، نوٹس جاری کر کے کل پوچھ لیتے ہیں۔

    عدالت نے سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا، اور عدالت نے سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی، عدالت نے سیکرٹری داخلہ سے وضاحت طلب کی ہے اور کہا کہ سیکریٹری داخلہ کسی آفیسر کو عدالتی معاونت کے لیے مقرر کر دے۔

    عدالت نے شہزاد اکبر اور شہباز گل کا نام نو فلائی لسٹ سے نکال دیا، اور وزارت داخلہ کا نوٹیفکیشن کل تک کے لیے معطل کر دیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے علاوہ نام کوئی بلیک لسٹ میں ڈال نہیں سکتا۔

  • بلوچ طلبہ کے آبائی علاقوں کا دورہ کر کے تحفظ سے متعلق ان کے خدشات دور کرنے کا عدالتی حکم

    بلوچ طلبہ کے آبائی علاقوں کا دورہ کر کے تحفظ سے متعلق ان کے خدشات دور کرنے کا عدالتی حکم

    اسلام آباد: عدالت نے سیکریٹری وزارت داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ قائد اعظم یونیورسٹی میں درخواست گزاروں اور بلوچستان کے طلبہ تک پہنچیں، وزارت داخلہ ان کے آبائی علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے سیکیورٹی سے متعلق خدشات کو دور کرے۔

    تفصیلات کے مطابق قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں طالب علموں کو ہراساں کرنے کے کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے تحریری حکم جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ نسلی پروفائلنگ سے متعلق شکایت کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

    تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار طلبہ جن کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے اور اس وقت قائد اعظم یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں، کو خدشات ہیں کہ اگر وہ اپنے آبائی علاقوں میں جاتے ہیں تو انھیں ہراساں اور اغوا کیا جائے گا، نسلی پروفائلنگ سے متعلق ان کی شکایت بھی سنگین ہے۔

    عدالت نے کہا عدالتی ہدایت پر وزیر داخلہ نے ان سے ملاقات کی تھی، لیکن یہ ملاقات محض رسمی معلوم ہوتی ہے، یونیورسٹی کے چانسلر صدر پاکستان نے ان سے ملاقات نہیں کی، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یونیورسٹی کے چانسلر صدر پاکستان نے طلبہ سے ملاقات کی تاریخ مقرر کی تھی لیکن ناگزیر حالات کی وجہ سے اس پر عمل نہیں ہو سکا۔

    تحریری حکم نامے کے مطابق طلبہ کی طرف سے اٹھائی گئی شکایات ناقابل برداشت ہیں، سب سے زیادہ تشویشناک اور پریشان کن پہلو جو عدالت نے کارروائی کے دوران دیکھا وہ عوامی عہدے داروں کا طرز عمل ہے، عوامی نمائندوں میں ہمدردی کا فقدان ہے، کسی شہری کے لیے اس سے زیادہ سنگین شکایت نہیں ہو سکتی کہ وہ یہ محسوس کرے کہ اسے نسلی پروفائلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، عدالت عوامی عہدہ داروں کے طرز عمل کی مذمت کرتی ہے۔

    عدالت نے کہا صدر پاکستان کے سکریٹری کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس آرڈر کی ایک کاپی صدر پاکستان کے سامنے رکھیں، نسلی پروفائلنگ سے متعلق شکایت کو برداشت نہیں کیا جا سکتا، بلوچستان کے طلبہ کے معاملے میں ایسی شکایت زیادہ گہری ہو جاتی ہے۔

    یونیورسٹی کے چانسلر صدر پاکستان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ دیگر یونیورسٹیوں کے چانسلرز کے ساتھ مشاورت کے بعد مناسب کارروائی کریں گے، تاکہ صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی نسلی پروفائلنگ کے حوالے سے کسی بھی قسم کے خدشات کو واضح طور پر دور کیا جا سکے۔

    حکم نامے کے مطابق سیکریٹری وزارت داخلہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ قائد اعظم یونیورسٹی میں درخواست گزاروں اور بلوچستان کے طلبہ تک پہنچیں، وزارت داخلہ ان کے آبائی علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے سیکیورٹی سے متعلق خدشات کو دور کریں۔

    رجسٹرار کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اس آرڈر کی کاپیاں مذکورہ حکام کو بھیجیں، صدر پاکستان کے سیکریٹری اور سیکریٹری وزارت داخلہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مقررہ تاریخ سے پہلے اپنی رپورٹیں جمع کرائیں، اس کیس پر مزید سماعت 15 اپریل کو کی جائے گی۔