Tag: islamabad high court

  • شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی ایم پی او کے تحت گرفتاری کا آرڈر معطل، رہائی کا حکم

    شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی ایم پی او کے تحت گرفتاری کا آرڈر معطل، رہائی کا حکم

    اسلام آباد: عدالت نے شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی ایم پی او کے تحت گرفتاری کا آرڈر معطل کرتے ہوئے رہائی کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی ایم پی او کے تحت گرفتاری کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے دونوں سے متعلق ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا ایم پی او آرڈر معطل کر دیا۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے دونوں کی رہائی کا حکم جاری کرتے ہوئے انھیں اسلام آباد سے باہر جانے سے روک دیا، عدالت نے استفسار کیا کہ آفریدی صاحب اسلام آباد میں آپ کا کوئی گھر ہے؟ انھوں نے کہا جی اسلام آباد میں میرا گھر موجود ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ اپنے اسلام آباد والے گھر میں موجود رہیں۔

    عدالت نے شاندانہ گلزار کو بھی گھر جانے کی اجازت دے دی، اور کہا کہ اگر ان دونوں کو کچھ ہوا تو آئی جی اور چیف کمشنر اس کے ذمہ دارہوں گے، عدالت نے شہریار آفریدی کیس کی سماعت دو ہفتوں تک ملتوی کر دی۔

    دریں اثنا عدالت نے شہریار آفریدی کیس میں جاری شوکاز نوٹس پر ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی آپریشنز کا جواب غیر تسلی بخش قرار دے دیا۔ ہائیکورٹ نے ڈی سی اسلام آباد اور ایس ایس پی آپریشنز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پر ڈی سی اور ایس ایس پی آپریشنز پر فرد جرم عائد ہوگی۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہریار آفریدی کو میڈیا اور سوشل میڈیا پر بیانات نہ دینے کی بھی ہدایت کر دی ہے، جسٹس بابر ستار نے کہا میں آپ سے توقع کرتا ہوں یہ کیس چلنے تک آپ کوئی بیان نہیں دیں گے، آپ کی طرف سے میڈیا یا سوشل میڈیا پر کوئی بیان نہیں آنا چاہیے۔

  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو افتخار درانی کی بازیابی کے لیے 4 دن کی مہلت دے دی

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو افتخار درانی کی بازیابی کے لیے 4 دن کی مہلت دے دی

    اسلام آباد: ہائیکورٹ نے پولیس کو افتخار درانی کی بازیابی کے لیے 4 دن کی مہلت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی رہنما افتخار درانی کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے پولیس کو ان کی بازیابی کے لیے چار دن کی مہلت دے دی۔

    افتخار درانی کے وکیل شیر افضل مروت نے ایس پی سی آئی اے رخسار مہدی پر اعتماد کا اظہار کیا، انھوں نے عدالت میں کہا ہمیں ایس پی رخسار مہدی پر پورا اعتماد ہے، وہ اسلام آباد پولیس کے واحد اچھی ساکھ والے افسر ہیں۔

    کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کی، لاپتا افتخار درانی کی فیملی وکیل شیر افضل مروت کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئی۔ جب کہ دوسرے فریق کی جانب سے ایس پی سی آئی اے انویسٹی گیشن رخسار مہدی اور وکیل پولیس طاہر کاظم عدالت میں پیش ہوئے، پولیس کے وکیل نے بتایا کہ مقدمہ درج ہو چکا ہے پولیس اپنا کام کرے گی۔

    عدالت نے پولیس کو 4 دن کی مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔

  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس ناقابل سماعت قرار دے دیا

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس ناقابل سماعت قرار دے دیا

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس ناقابل سماعت قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے توشہ خانہ کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ٹرائل کورٹ کا 5 مئی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ عدالت نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے معاملہ واپس ٹرائل کورٹ کو بھجوا دیا۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل پر ٹرائل کورٹ کو دوبارہ فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا ہے، اور کہا ہے کہ ٹرائل کورٹ 7 دن میں توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ کرے، اس سے قبل ٹرائل کورٹ نے توشہ خانہ کیس ناقابل سماعت قرار دینے کی پی ٹی آئی چیئرمین کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

    یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف سیشن عدالت میں کمپلینٹ دائر کی تھی، جس پر سیشن کورٹ نے توشہ خانہ ٹرائل قابل سماعت قرار دیا تھا، اور فردِ جرم بھی عائد کر دی تھی، یہ فیصلہ چیئرمین پی ٹی آئی نے ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔

    چیئرمین تحریک انصاف نے ہائیکورٹ سے توشہ خانہ کیس ناقابل سماعت قرار دینے کی درخواست کی تھی، ان کا مؤقف تھا کہ شکایت درست طور پر دائر نہیں ہوئی، شکایت 4 ماہ کے اندر دائر ہو سکتی تھی اس کے بعد قابل سماعت نہیں رہی، درخواست الیکشن کمیشن کے مجاز افسر کے ذریعے اور درست فورم پر بھی دائر نہیں ہوئی، اس لیے اسے خارج کیا جائے۔

    ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کیس ختم ہو گیا ہے۔

  • 16 سالہ گھریلو ملازمہ کا اغوا: مغویہ کو پیش نہ کرنے پر عدالتی حکم پر ایس ایچ او گرفتار

    16 سالہ گھریلو ملازمہ کا اغوا: مغویہ کو پیش نہ کرنے پر عدالتی حکم پر ایس ایچ او گرفتار

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 16 سالہ گھریلو ملازمہ کے اغوا پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور اغوا شدہ لڑکی کو پیش نہ کرنے پر لودھراں تھانے کے ایس ایچ او کو عدالت سے گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 16 سالہ گھریلو ملازمہ کے مبینہ اغوا کے معاملے کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی، درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کی۔

    عدالت نے ایس ایچ او سٹی پولیس تھانہ لودھراں کی سخت سرزنش کی۔

    اسلام آباد پولیس کی جانب سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ پولیس نے 16 سالہ لڑکی کو پنجاب کے شہر لودھراں میں جیو فینسنگ کے ذریعے برآمد کیا تھا، اغوا شدہ لڑکی کی برآمدگی کے بعد متعلقہ تھانے سے ضروری کارروائی کے لیے رجوع کیا گیا۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ لودھراں کے متعلقہ پولیس تھانے نے برآمد شدہ لڑکی کو لے جانے کی اجازت نہیں دی۔

    جسٹس محسن اختر کیانی نے لودھراں سٹی پولیس کے ایس ایچ او سے کہا کہ جب اسلام آباد ہائیکورٹ نے گزشتہ سماعت پر لڑکی کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تو تم منہ اٹھا کر کیوں آگئے؟

    انہوں نے کہا کہ عدالتی حکم کے باوجود لڑکی کو پیش نہ کرنا حکم عدولی ہے۔

    سیخ پا ہونے پر عدالت نے نائب کورٹ کو حکم دیا کہ ایس ایچ او لودھراں کو عدالت سے گرفتار کر لیں جس کے بعد عدالتی حکم پر نائب کورٹ نے ایس ایچ او لودھراں کو گرفتار کر لیا۔

    سرکاری وکیل نے آئندہ سماعت میں اغوا شدہ لڑکی کو پیش کرنے کا یقین دلایا جبکہ ایس ایچ او لودھراں نے عدالت سے معافی مانگی۔

    ایس ایچ او نے کہا کہ عدالتی حکم دیر سے ملنے کی وجہ سے تعمیل نہیں ہو سکی۔

    عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت میں اگر پنجاب پولیس نے 16 سالہ لڑکی کو پیش نہیں کیا تو ایس ایچ او سٹی لودھراں اور آئی جی پنجاب عدالت میں ہوں گے۔

    جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ پنجاب پولیس بدمعاش بنی ہوئی ہے، ایک آڈر پاس کر دوں تو ساری زندگی عدالتوں سے انصاف مانگتے پھریں گے۔

    درخواست کی مزید سماعت 6 جون تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

  • سینیٹر فلک ناز کی بازیابی کے لیے عدالت میں درخواست دائر

    سینیٹر فلک ناز کی بازیابی کے لیے عدالت میں درخواست دائر

    اسلام آباد: سینیٹر فلک ناز کی بازیابی کے لیے اُن کے بیٹے نے عدالت میں درخواست دائر کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی رہنما سینیٹر فلک ناز کے بیٹے کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔

    عدالت کو دی جانے والی درخواست میں کہا گیا ہے کہ بدھ کے روز پولیس لائن اسلام آباد کے باہر سے درخواست گزار کی والدہ کو گرفتار کیا گیا، فلک ناز کے بیٹے نے درخواست میں کہا ’’میری والدہ کو تین اہم پی او کے تحت نظر بند کیا گیا ہے، عدالت سے استدعا ہے کہ والدہ کو بازیاب کرایا جائے۔‘‘

    فلک ناز کے بیٹے نے وکیل ایمان مزاری کے توسط سے درخواست دائر کی ہے، رجسٹرار آفس کی جانب سے درخواست پر کوئی اعتراض نہیں لگایا گیا۔

  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹی اسٹالز اور ٹک شاپس کی نیلامی روک دی

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹی اسٹالز اور ٹک شاپس کی نیلامی روک دی

    اسلام آباد: ہائیکورٹ نے اسلام آباد میں ٹی اسٹالز اور ٹک شاپس کی نیلامی روک دی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں ٹی اسٹالز اور ٹک شاپس کی نیلامی کے خلاف انجمن تاجران کی درخواست پر بڑی پیش رفت ہوئی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے میٹرو پولیٹین کارپوریشن کو ٹی اسٹالز اور ٹک شاپس کی نیلامی سے روک دیا۔

    عدالت نے انجمن تاجران کی درخواست پر حکم امتناعی جاری کر دیا، کیس کی سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب عالمگیر نے کی، انھوں نے ڈائریکٹر سی ڈی اے کی گزشتہ سماعت پر دیے بیان میں ترمیم کی استدعا مسترد کی۔

    میٹرو پولیٹین کارپوریشن نے اسلام آباد میں 1807 ٹی اسٹالز اور ٹک شاپس نیلامی کا اشتہار دے رکھا ہے، جس پر انجمن تاجران نے نیلامی کو عدالت میں چیلنج کر دیا تھا، کیس کی سماعت کے لیے صدر انجمن تاجران اسلام آباد اجمل بلوچ اپنے وکلا کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے تھے۔

    وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اسلام آباد میں ٹی اسٹالز اور ٹک شاپس کی نیلامی ماسٹر پلان کی خلاف ورزی ہے۔ سماعت کے بعد عدالت نے انجمن تاجران کی درخواست پر حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔

  • عمران ریاض کی گرفتاری، اسلام آباد ہائی کورٹ کا بڑا حکم

    عمران ریاض کی گرفتاری، اسلام آباد ہائی کورٹ کا بڑا حکم

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی عمران ریاض کی گرفتاری سے متعلق دائر درخواست کو نمٹادیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صحافی عمران ریاض کی گرفتاری کیخلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔

    صحافی عمران ریاض کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میرے موکل کو اسلام آباد کی حدود سے گرفتار کیا گیا، نامور صحافی کی غیر قانونی گرفتاری پر آئی جی پنجاب، آئی جی اسلام آباد، ڈی سی اسلام آباد توہین عدالت کے مرتکب ہوئے، عدالت عالیہ توہین عدالت کرنے والوں کو طلب کرکے کارروائی کرے اور عمران ریاض کی فوری رہائی کاحکم دے۔

    وکیل کے دلائل پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ عمران ریاض کو اسلام آباد سے گرفتارنہ کیا جائے، پنجاب پولیس کی جانب سے رپورٹ پیش کردی گئی ہے گرفتاری کا مقام اٹک ہے، اب یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ کا ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ لاہور ہائیکورٹ بتائے کہ اسلام آباد کا معاملہ ہے تو پھر درخواست دائر کریں، بعد ازاں اسلام آبادہائی کورٹ نے کیس کو نمٹاتے ہوئے عمران ریاض کے وکیل کو لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیا۔ گرفتاری قانون کے مطابق ہوئی یا نہیں، فیصلہ لاہور ہائیکورٹ کرے گی

    یہ بھی پڑھیں: صحافی عمران ریاض خان اسلام آباد ٹول پلازہ سے گرفتار

    واضح رہے کہ عمران ریاض خان کے وکلا کی جانب سے ان کی گرفتاری اور توہین عدالت کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں رات گئے درخواست دائر کی گئی تھی۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران ریاض خان کی گرفتاری پر دائر توہین عدالت کی درخواست کو صبح دس بجے سماعت کیلیے مقرر کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد سے جواب طلب کیا تھا۔

  • ” ہم نےغلام رہنا ہے یا آزاد؟، فیصلہ عوام نے کرنا ہے "

    ” ہم نےغلام رہنا ہے یا آزاد؟، فیصلہ عوام نے کرنا ہے "

    اسلام آباد: سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان ہمار اہے، تمام ادارے ہمارے ہیں، فیصلہ عوام نےکرنا ہےکہ کیا ہم نےغلام رہنا ہےیا آزاد ؟

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں قبل از گرفتاری کیس کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں اسد قیصر نے کہا کہ ہمارے خلاف مقدمات بدنیتی کی بنیاد پر درج کیےگئے،
    ہم قانون کی بالا دستی پریقین رکھتے ہیں، ہمارا مطالبہ ہےکہ فوری الیکشن کرائےجائیں۔

    اسد قیصر نے دعویٰ کیا کہ امپورٹڈحکومت کو باہر سے ہدایات ملتی ہیں، یہ قائداعظم کا پاکستان اپنے فیصلےخود کرےگا،کسی سےتجاویز نہیں لیں گے، یہ پاکستان ہماراہے، تمام ادارے ہمارے ہیں، ہم پاکستان کےآئین پریقین رکھتےہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: عمران خان آج شانگلہ بشام میں جلسہ عام سے خطاب کریں گے

    سابق اسپیکر قومی اسمبلی نے مطالبہ کیا کہ فوری الیکشن کرائےجائیں، فیصلہ عوام نےکرنا ہےکہ کیا ہم نےغلام رہنا ہےیا آزاد؟ انصاف نہ ملا تو ہم عدالت اور عوام میں جائیں گے اور پُر امید ہیں کہ قانونی اورعوامی جنگ بھی جیتیں گے۔

    اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو آئندہ سماعت تک گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا تھا اسد قیصرنے گرفتاری سے بچنے کے لیےاسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

    سابق اسپیکر قومی اسمبلی کے وکیل نے عدالت میں استدعا کی کہ میرے موکل کے خلاف ملک بھر میں درج مقدمات کی فہرست فراہم کی جائے اور مقدمات کی فہرست ملنے تک اسد قیصر کی گرفتاری سے روکا جائے، عدالت نے اسد قیصر کے وکیل کی استدعا منظور کرتے ہوئے آئندہ سماعت تک انہیں گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا اور کیس کی سماعت بیس جون تک ملتوی کردی۔

  • ہائیکورٹ کا غیر معمولی اقدام، مقدمات کی سماعت کو براہ راست دیکھا جاسکے گا

    ہائیکورٹ کا غیر معمولی اقدام، مقدمات کی سماعت کو براہ راست دیکھا جاسکے گا

    اسلام آباد: پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے مقدمات کی لائیو اسٹریمنگ کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں عدالتی کارروائی کی لائیو اسٹریمنگ کا فیصلہ کیا گیا ہے، ہائیکورٹ کے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ نےچیف جسٹس کی عدالت میں سسٹم نصب کر دیا۔

    ٹرائل کے طور پر آج سے عدالتی کارروائی کو محدود پیمانے پر براہ راست دکھایا جائے گا، ٹرائل کی کامیابی کے بعد ویب سائٹ پر کوئی بھی براہ راست عدالتی کارروائی دیکھ سکے گا۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے پر سابق وفاقی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کہا کہ ہائیکورٹ کا مقدمات کو براہ راست دکھانے فیصلہ درست ہے۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کورٹ بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کی تقلید کرے اور شہباز شریف کے منی لانڈرنگ کیس کو براہ راست دکھایا جائے، ان کی ضمانت کی تاریخ آنے والی ہے اس پر ہی اس فیصلے پر عملدرآمد ہونا چاہیئے۔

  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا بلوچ طلبہ کے حق میں بڑا فیصلہ

    اسلام آباد ہائیکورٹ کا بلوچ طلبہ کے حق میں بڑا فیصلہ

    اسلام آباد: قائد اعظم یونیورسٹی میں طالب علموں کو ہراساں کرنے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریری حکمنامہ جاری کر دیا، یہ تحریری حکم نامہ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جاری کیا، جس میں وزیر داخلہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کل 31 مارچ 2022 کو بلوچستان کے متاثرہ طلبہ سے ملاقات کریں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ سے متعلق اہم کیس کا فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ محمد عبداللہ کا شمار بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ان طلبہ میں ہوتا ہے جو اپنی شکایات کی طرف وفاقی حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں، اور اس کے لیے انھوں نے نیشنل پریس کلب کے باہر کیمپ لگایا۔

    حکم نامے کے مطابق محمد عبداللہ نے حقائق تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں، جس کی بنیاد پر یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ عوامی کارکنان صوبے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو ہراساں کرنے میں ملوث ہیں، پہلی نظر سے پتا چلتا ہے کہ یہ ادراک اور خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔

    عدالتی حکم نامے کے مطابق یہ بات قابل ذکر ہے کہ طلبہ خاص طور پر صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو وفاقی حکومت کی طرف سے خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، یہ افسوس ناک ہے کہ عوامی کارکنوں کا طرز عمل شہریوں بالخصوص طلبہ کے ساتھ آئینی ذمہ داریوں کے مطابق نہیں پایا گیا، اس لیے ریاست کو عوامی ذمہ داریوں کے ذریعے نوجوان طلبہ کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

    حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان طالب علم کی طرف سے آج جو حقائق بیان کیے گئے ہیں، وہ تشویش ناک اور آئینی طور پر فراہم کردہ حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں، اور اس سلسلے میں وفاقی حکومت کا طرز عمل ہمدردی کی کمی کو ظاہر کرتا ہے، اس لیے عدالت وزیر داخلہ کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ کل 31 مارچ 2022 کو بلوچستان کے متاثرہ طلبہ سے ملاقات کریں، اور ان کی شکایات سنیں۔

    عدالت نے وزیر داخلہ کو مقررہ تاریخ پر رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی ہے، اگر اس حکم کی تعمیل کرنے سے انکار کیا گیا تو عدالت وزیر داخلہ کو طلب کرنے پر غور کرے گی۔

    حکم نامے میں رجسٹرار آفس کو ہدایت کی گئی ہے کہ اس حکم کی کاپی وزیر داخلہ اور ڈپٹی اٹارنی جنرل سید محمد طیب کو خصوصی میسنجر کے ذریعے بھیجی جائے، اور رجسٹرار آفس کیس کو 1 اپریل کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کرے۔