Tag: islamabad high court

  • 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادی نہیں ہو سکتی، عدالت کا  حکم

    18 سال سے کم عمر بچوں کی شادی نہیں ہو سکتی، عدالت کا حکم

    اسلام آباد : اسلام ہائیکورٹ نے بچوں کی شادیوں سے متعلق قانون واضح کر دیا ، جس میں کہا کہ 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادی نہیں ہو سکتی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام ہائیکورٹ نے بچوں کی شادیوں سے متعلق قانون واضح کر دیا ، ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے بعد 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادی بس نہیں ہو سکتی، یہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ شادی کا معاہدہ جس میں 18 سال سے کم عمر کا بچہ شامل ہو قانون کے ذریعہ ممنوعہ معاہدہ ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ جو کہ اگر کسی بچے کے ذریعہ انجام دیا گیا ہو، اب تک باطل ہے،جواب دہندہ نمبر 1 اور نابالغ کے درمیان مطلوبہ نکاح نامہ کے ساتھ سلوک کرنے کا سوال جواب دہندہ نمبر 1 کی تحویل میں اسے رہا کرنے کی کوئی بنیاد پیدا نہیں ہوتی۔

    عدالتی حکمنامے میں کہا گیا کہ اس عدالت نے نابالغ کی عمر کا قطعی طور پر تعین نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس نے PPC کی دفعات کے تحت جواب دہندہ نمبر 1 کی ذمہ داری کے حوالے سے کوئی مشاہدہ کیا ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ رٹ کے دائرہ اختیار میں ایسا کرنے سے آئین کے آرٹیکل 10A کی ضمانت کے مطابق مناسب کارروائی اور منصفانہ ٹرائل میں شامل فریقین کے حقوق پر قدغن لگ سکتی ہے۔

    فیصلے کے مطابق ایسے سوالات کا تعین مجاز دائرہ اختیار کی عدالت پر چھوڑ دیا جاتا ہے، جس کے سامنے ایسے سوالات اٹھائے جاتے ہیں،جواب دہندہ نمبر 5 کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ نابالغ کو دارالامان سے درخواست گزار جو اس کی ماں ہے۔

    عدالتی حکمنامے میں کہا گیا کہ درخواست گزار کی تحویل میں دی جائے، شوہر یعنی نابالغ کا باپ اسلام آباد چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2018 کی دفعات کے مطابق نابالغ کی حفاظت اور فلاح و بہبود کے لیے ذمہ دار ہے۔

    عدالت نے کہا جواب دہندہ نمبر 1 درخواست گزار کو قانونی چارہ جوئی کی قیمت ادا کرے گا، سول پروسیجر کوڈ 1908 کے سیکشن 35 کے تحت 30 دنوں کے اندر 20,000/- روپے اور مدعا علیہ کا وکیل اس عدالت کے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کے پاس ایک سرٹیفکیٹ جمع کرائے گا۔

    فیصلے کے مطابق جس میں اس بات کی تصدیق کی جائے گی کہ اخراجات کے بارے میں حکم کی تعمیل کی گئی ہے، رجسٹرار آفس اس فیصلے کی ایک کاپی سیکرٹری کابینہ ڈویژن اور سیکرٹری پارلیمانی امور کو بھیجے، تاکہ بالترتیب کابینہ اور پارلیمنٹ کی توجہ مبذول کرائی جا سکے۔

    عدالتی حکمنامے میں کہا ہے کہ مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 میں قانونی شق پاکستان میں شادی کے لیے جائز عمر درج ہے، گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ 1890 کا سیکشن 21 جو اس سے متصادم ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ اسلام آباد چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2018 کی دفعات بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کی دفعات موجود ہیں، یہ غلط تاثر پیدا کرنے کے قابل ہیں کہ پاکستان میں 18 سال سے کم عمر کے بچے اب بھی سرپرست بننے کے قابل تصور کیے جاتے ہیں۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ نوآبادیاتی دور سے متعلق قانونی آلات کی دفعات بشمول اکثریت ایکٹ 1975 چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 موجود ہیں، مسلم شادیوں کا ایکٹ 1939 جن کی دفعات اگر ایک موقف پر پڑھیں۔

    عدالتی حکمنامے کے مطابق اسلام آباد چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2018 اور بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کی دفعات موجود ہیں ، پی پی سی کی دفعہ 375 اور 377A کی دفعات سے متصادم تشریحات کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

    عدالت نے مزید کہا کہ رجسٹرار آفس اسلام آباد کے اندر مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کے تحت شادیوں کی رجسٹریشن کے مقاصد کے لیے معلومات اور تعمیل کے لیے اس فیصلے کی ایک کاپی چیف کمشنر کو بھیجیں۔

    یاد رہے سال 2019 میں پاکستان میں بھی چائلڈ میرج بل منظور کیا گیا تھا، جس کے تحت 18 سال سے کم عمر کی شادیوں پر پابندی عائد کردی تھی۔

  • چیف جسٹس کا عملی قدم، تیسری مرتبہ التوا کی درخواست بھیجنے والے وکیل کا مقدمہ خارج

    چیف جسٹس کا عملی قدم، تیسری مرتبہ التوا کی درخواست بھیجنے والے وکیل کا مقدمہ خارج

    اسلام آباد: چیف جسٹس نے مقدمات میں التوا کی روش کے خلاف عملی قدم اٹھا لیا، تیسری مرتبہ التوا کی درخواست بھیجنے والے وکیل کا مقدمہ خارج کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک کیس کے لیے تیسری مرتبہ التوا کی درخواست بھیجنے والے وکیل کا مقدمہ خارج کر دیا گیا، دو دن قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے زیر التوا کیسز کی فکسیشن پالیسی جاری ہونے کے بعد یہ پہلا عملی قدم ہے۔

    چیف جسٹس نے التوا کی درخواست پر کہا کہ وکیل کا کیس آج تیسری مرتبہ سماعت کے لیے مقرر ہوا، لیکن ان تینوں تاریخوں پر کوئی پیش نہیں ہوا، مقدمات کو طول دیے جانے کے اقدامات کی حوصلہ افزائی نہیں جا سکتی۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا زیرِ التوا کیسز کی سماعت مقرر کرنے کے حوالے سے بڑا فیصلہ

    چیف جسٹس نے کہا فاضل وکیل کا مقدمہ عدم پیروی کی بنا پر خارج کیا جاتا ہے۔ کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ آفس آرڈر کی کاپی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کر دی گئی۔

    یاد رہے کہ بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے زیر التوا کیسز کی سماعت مقرر کرنے کے حوالے سے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے مقدمات کے تعین کے لیے پالیسی کی منظوری دے دی تھی، اس نئی پالیسی کے تحت کوئی کیس بغیر کسی کارروائی کے التوا کا شکار نہیں ہوگا۔

  • لوکل گورنمنٹ صدارتی آرڈیننس 2021 عدالت میں چیلنج

    لوکل گورنمنٹ صدارتی آرڈیننس 2021 عدالت میں چیلنج

    اسلام آباد: لوکل گورنمنٹ صدارتی آرڈیننس 2021 کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے، عدالت نے گورنمنٹ آرڈیننس کیخلاف تمام درخواستیں یکجا کرنے کی ہدایت جاری کردی۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے سی ڈی اے آفیسرز ایسوسی ایشن کی درخواست پر سماعت کی۔ عدالت میں بیرسٹر عمر اعجاز گیلانی نے مؤقف اختیار کیا کہ آرڈیننس کی بنیاد پر الیکشن کروانا آئین کے ساتھ فراڈ کے مترادف ہے۔

    بیرسٹر عمر اعجاز گیلانی نے کہا کہ اسلام آباد ملک کے چاروں صوبوں کا مشترکہ اثاثہ ہے، کوئی بھی قانون سینیٹ میں ضرور پیش ہونا چاہیے، موجودہ حکومت میں 3 سال میں 80 سے زائد آرڈیننس لائے گئے۔

    انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 89 میں آرڈیننس سازی کا دائرہ کار اتنا وسیع نہیں، سی ڈی آفیسرز نے آئین اور بنیادی حقوق کے دفاع کے لیے پٹیشن کی۔

    عدالت عالیہ نے سی ڈی اے آفیسرز ایسوسی ایشن کی درخواست پر جواب طلب کرتے ہوئے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے خلاف تمام درخواستیں یکجا کرنے کی ہدایت کردی۔ کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

  • کلبھوشن یادیو کیس: کیا بھارت نے اپنے جاسوس کو تنہا چھوڑ دیا؟

    کلبھوشن یادیو کیس: کیا بھارت نے اپنے جاسوس کو تنہا چھوڑ دیا؟

    اسلام آباد: کیا بھارت نے اپنے جاسوس کو تنہا چھوڑ دیا ہے؟ پاکستان کی جانب سے کلبھوشن یادیو کی وکالت کے لیے متعدد بار رابطہ کیا گیا لیکن بھارت کی طرف سے تاحال کوئی جواب نہیں دیا گیا، آج بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے عدالت نے ہدایت کی کہ بھارت کو ایک اور مہلت دی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو وکیل فراہمی کی وزارت قانون کی درخواست میں، بھارت کو وکیل مقرر کرنے کے لیے ایک اور مہلت دینے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں لارجر بنچ نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تناظر میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو قونصلر رہائی سے متعلق کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان اور عدالتی معاون ایڈوکیٹ حامد خان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

    اٹارنی جنرل نے حکومت پاکستان کی طرف سے بھارتی حکومت کو بھجوائی گئی دستاویزات عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا 5 مئی کو اس عدالت نے تفصیلی آرڈر پاس کیا تھا کہ ایک اور کوشش کی جائے، عدالت نے کہا تھا کہ بھارت کو کلبھوشن کے لیے وکیل کرنے کی کوشش کی جائے، بھارت کو عدالت کے آرڈر کے مطابق یہ پیغام پہنچایا گیا لیکن ابھی تک ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔

    عدالت نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر ہم نے عمل کرانا ہے لیکن بھارت کواس میں دل چسپی نہیں ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت کو ایسی صورت حال میں کیا کرنا چاہیے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسی صورت حال میں وفاقی حکومت نے بھارت کو درخواست دی تھی کہ کلبھوشن کے لیے وکیل مقرر کیا جائے، بھارتی حکومت اور کمانڈر کلبھوشن یادیو کے انکار پر ہی اس عدالت میں اپیل دائر کی گئی۔

    حکومت کی اب اس عدالت سے استدعا ہے کہ کلبھوشن یادیو کے لیے نمائندہ مقرر کیا جائے، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا عدالتی نمائندہ مقرر ہونے پر بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد ہو سکے گا؟ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ویانا کنونشن کے مطابق کسی بھی غیر ملکی فوجی قیدی کو شفاف ٹرائل اور نظر ثانی اپیل کا حق ہے، عدالت نے کہا کہ ہم تو ویانا کنونشن کے قوانین کے تحت اس کیس میں جائیں گے، مگر حکومت کیسے اسے ہینڈل کرے گی؟

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ پاکستانی حکومت بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے کے تناظر میں اس عدالت میں آئی ہے، جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم کیسے نظر ثانی اپیل یا نمائندہ مقرر کر سکتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظر ثانی اپیل یا نمائندہ مقرر کرنے کے لیے کسی کو اپیل دائر کرنا ہوگا، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ عدالت نے نوٹسز جاری کیے تھے لیکن کلبھوشن اور بھارتی حکومت انکاری ہیں، عدالت نے کہا کہ اگر دونوں فریق نمائندہ مقرر کرنے سے انکاری ہیں، تو ہم کیسے فیئر ٹرائل کر سکتے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت عالمی عدالت انصاف کے ریویو اور ری کنسڈریشن کے فیصلے پر مکمل عمل درآمد چاہتی ہے، عدالت نے کہا کہ ہم تو قونصلر رسائی کی حد تک اس کو دیکھ رہے ہیں، اس پر عمل درآمد تو ہو چکا، عدالت یا حکومت کو اس کے علاوہ کیوں دیکھنا چاہیے؟ کیا ریویو سوموٹو کی صورت میں عدالت لے سکتی ہے؟ یا الگ سے پٹیشن دائر ہوگی؟

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم کہتے ہیں وکیل مقرر کیا جائے جو اس کیس میں کلبھوشن کی طرف سے ریویو دائر کرے گا، ہم کسی غیر ملکی وکیل کو یہاں پیش ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے، وہ یہاں سے وکیل کر سکتے ہیں، عدالت نے کہا کہ کلبھوشن اور بھارتی حکومت کو ایک اور ریمائنڈر بھی بھیجیں۔

    عدالت نے بھارت کو کلبھوشن یادیو کے لیے وکیل مقرر کرنے کی ایک اور مہلت دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت اور کلبھوشن یادیو کو اس عدالت کا آرڈر پہنچا دیں اور کیس کی مزید سماعت ملتوی کر دی۔

  • ضمانت کے لئے سابق صدر نے عدالت سے رجوع کرلیا

    ضمانت کے لئے سابق صدر نے عدالت سے رجوع کرلیا

    اسلام آباد: بلیئر نیویارک فلیٹ کیس میں سابق صدر آصف زرداری نے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف عدالت عالیہ سے رجوع کرلیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق صدرآصف علی زرداری نے ضمانت قبل ازگرفتاری کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے جس میں موقف اپنایاگیا ہے کہ نیب کال اپ نوٹس سے ساکھ متاثر ہونے کاخد شہ ہے۔

    سابق صدر کی جانب سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ نیب کا ل اپ نوٹس معطل کیا جائے اور ٹرائل مکمل ہونے تک ضمانت دی جائے۔

    پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کی جانب سے دائر کی جانے والی درخواست میں چیئرمین نیب اور ڈی جی نیب کو فریق بنایا گیا ہے جبکہ درخواست کے ساتھ میڈیکل رپورٹ کو بھی منسلک کیا گیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: آصف زرداری کے خلاف ریفرنس میں 2 اہم کردار گرفتار

    واضح رہے کہ نیب نے نیویارک فلیٹ پرآصف زرداری کو سوالنامہ اور معلومات کیلئےنوٹس جاری کیا ہے۔

    نیب کی جانب سے بھیجے گئے سوالنامے میں آصف علی زدار ی سے پوچھا گیا ہے کہ نیو یارک میں جائیداد کیسے بنائی گئی ؟ ، نیب نے معلومات کے حصول کے لئے سابق صدر کو کال اپ نوٹس بھی جاری کیا ہے۔

  • اسلام آباد ہائیکورٹ حملے کے بعد سیکیورٹی مزید بڑھانے کا فیصلہ

    اسلام آباد ہائیکورٹ حملے کے بعد سیکیورٹی مزید بڑھانے کا فیصلہ

    اسلام آباد : ہائیکورٹ حملے کے بعد سیکیورٹی مزید بڑھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے وزارت داخلہ سے رینجرز کی 2 ہزار نفری مزید طلب کرلی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ حملےکےبعدسیکیورٹی مزید بڑھانے کا فیصلہ کرلیا گیا ، ترجمان ہائیکورٹ کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزارت داخلہ کو خط لکھ دیا، جس میں ہائیکورٹ میں رینجرز کے 2 ہزار نفری مزید طلب کی گئی ہے۔

    وزارت داخلہ نے ترجمان ہائیکورٹ کے خط پررینجرز سےمزیدنفری طلب کی ، ترجمان نے کہا ہے کہ اس وقت رینجرز کے 200 اور پولیس کے سیکڑوں اہلکار تعینات ہیں، آج لاہورسےرینجرز کی2ہزارنفری اسلام آبادپہنچےگی۔

    ترجمان ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ کل ہائیکورٹ نےوکلاچیمبرز،تجاوزات ختم کرنےکاحکم دیاتھا۔

    یاد رہے اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف بڑا فیصلہ دیتے ہوئے سرکاری زمین پر قائم وکلا کے چیمبرز غیر قانونی قراردیا اور مقامی انتظامیہ کو حکم دیا کہ اسلام آباد کچہری میں غیر قانونی تعمیرات اور غیرقانونی چیمبرز کو گرایا جائے اس کے علاوہ عوامی مقامات اورفٹ بال گراونڈ سے بھی غیر قانونی تعمیرات کو فوری خاتمہ کیا جائے۔

    واضح رہے ایک ہفتہ قبل سی ڈی اے کی جانب سے وکلا کے غیر قانونی چیمبرز گرائے گئے تھے جس پر وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ پر دھاوا بولا تھا، اس دوران مشتعل ججز کی جانب سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کو یرغمال بھی بنایا گیا۔

  • وکلا کی ہنگامہ آرائی، نمائندوں نے چیف جسٹس سے کردار ادا کرنے کی استدعا کر دی

    وکلا کی ہنگامہ آرائی، نمائندوں نے چیف جسٹس سے کردار ادا کرنے کی استدعا کر دی

    اسلام آباد: ہائی کورٹ میں ہنگامہ آرائی کا معاملہ طول پکڑ گیا، وکلا کے نمائندوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے معاملہ حل کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی استدعا کر دی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق آج اسلام آباد میں چیف جسٹس آف پاکستان سے وکلا کے نمائندوں نے ملاقات کی، جس میں سپریم کورٹ، ہائی کورٹ بار، اسلام آباد بار کے صدور اور وائس چیئرمین پاکستان بار شریک ہوئے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ وکلا نمائندوں نے واقعے پر اظہار ندامت کی اور چیف جسٹس سے معاملے کو حل کرانے کی استدعا کی، صدر سپریم کورٹ بار نے کہا عدالتوں کا احترام وکلا کی پہلی ترجیح ہے، صدر اسلام آباد بار نے کہا ہائی کورٹ میں ہونے والے واقعے کی حمایت نہیں کر سکتے۔

    وائس چئیرمین پاکستان بار نے کہا واقعے میں ملوث وکلا کا معاملہ ڈسپلنری کمیٹی کو بھیجوں گا، اس معاملے کا طول پکڑنا کسی کے حق میں نہیں ہوگا۔ دریں اثنا، وکلا نمائندوں نے استدعا کی کہ چیف جسٹس معاملے کے حل میں کردار ادا کریں۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہنگامہ آرائی ، ملوث وکلا کو شناخت کرکے دہشت گردی کے مقدمات بنانے کا فیصلہ

    ہائی کورٹ میں توڑ پھوڑ کے واقعے کے بعد سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے، پولیس، رینجرز، اور اسپیشل برانچ کے خصوصی دستے تعینات کیے جا چکے ہیں، صرف کاز لسٹ میں شامل وکلا کو عدالت آنے کی اجازت ہوگی، اور تلاشی کے بعد ہائی کورٹ میں آنے دیا جائے گا، جب کہ شہریوں اور غیر متعلقہ وکلا کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں داخلہ بند ہے، ہائی کورٹ کے اطراف ناکے اور خار دار تاریں بھی لگا دی گئی ہیں، ایک کے سوا تمام دروازے داخلے کے لیے بند کیے گئے ہیں۔

    یاد رہے کہ پیر کو وکلا کے چیمبرز گرائے جانے کے خلاف احتجاج کرنے والے وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں توڑ پھوڑ کی اور چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ کے چیمبر کے باہر شدید نعرے بازی کی تھی۔ وکلا نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے بلاک میں کھڑکیوں کے شیشے بھی توڑے ۔

    وکلا کے حملے کے بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے حکم جاری کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹس سمیت اسلام آباد کی عدالتیں تاحکم ثانی بند رہیں گی۔

    ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بلاک پر حملہ اور توڑ پھوڑ کرنے والے 21 وکلا کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا جس میں 4 خواتین وکلا بھی شامل تھیں، وکلا کو توہین عدالت کے نوٹس بھی جاری کیے گئے، مقدمہ مجموعی طور پر 21 نامزد سمیت 300 وکلا کے خلاف درج کیا گیا ہے۔

  • وکلا تشدد کیس: عدالت عالیہ کا بڑا فیصلہ، سائیلین پریشان

    وکلا تشدد کیس: عدالت عالیہ کا بڑا فیصلہ، سائیلین پریشان

    اسلام آباد: گذشتہ روز وکلا کے پرتشدد مظاہرے، توڑپھوڑ اور چیف جسٹس اسلام آباد سے بدتمیزی کے بعد عدالت عالیہ نے بڑا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کے حکم پر ہائیکورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹ کو بند کردیا گیا ہے اور آج ہونے والی سماعتیں ملتوی کردی گئیں ہیں، کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لئے عدالت عالیہ میں قانون نافذ کرنےوالے اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایمبولینس اور بکتربند گاڑیاں موجود ہیں، ہائی کورٹ جانے والے تمام راستوں کو بند کردیا گیا ہے جبکہ ہائیکورٹ میں عام شہری اور سائل کےداخلےپر مکمل پابندی  عائد کردی گئی ہے۔

    دوسری جانب آج چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ اسلام آباد کی عدالتیں بند یا کھولنےکےحوالے سےفیصلہ کریں گے۔

    واضح رہے کہ گذشتہ روز اسلام آباد کچہری میں چیمبرز گرانے کے خلاف وکلا نے چیف جسٹس کے چیمبر سمیت رجسٹرار برانچ کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا تھا، مشتعل وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں توڑ پھوڑ کی، کشیدہ صورت حال کے باعث چیف جسٹس اسلام آباد کئی گھنٹوں تک اپنے چیمبرز میں محصور رہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  اسلام آباد ہائی کورٹ میں مشتعل وکلاء کی تھوڑ پھوڑ ، چیف جسٹس کا بڑا حکم

    مشتعل وکلا کا کہنا تھا کہ اگر کچہری میں غیر قانونی چمبر گرائے گئے ہیں تو چیف جسٹس کا چمبر بھی تہس نہس کریں گے، کوریج کے دوران اے آر وائی نیوز نمائندہ خصوصی جہانگیر اسلم بلوچ کو بھی زد وکوب کیا گیا، ہائیکورٹ میں موجود سیکیورٹی اہلکاروں نے جہانگیر اسلم کو وکلا کے چنگل سے بچایا اور ہائیکورٹ کے ڈسپنسری میں منتقل کیا۔

    مشتعل مظاہرین سے جسٹس محسن اختر کیانی نے وکلا کو بار روم میں بیٹھ کر بات کی پیشکش، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بیٹھ کر بات نہیں کریں گے تو مسئلہ حل نہیں ہو گا، چیف جسٹس کے چیمبر سے ساتھیوں کو نکالیں تاکہ بات ہو سکے، اگر وکلا کو لگتا ہے ان سے زیادتی ہوئی تو بیٹھ کر ہمیں بتائیں۔

  • ایس ای سی پی ڈیٹا لیک کا معاملہ : اسلام آباد ہائی کورٹ کا تحقیقاتی رپورٹ پر کارروائی روکنے کا حکم

    ایس ای سی پی ڈیٹا لیک کا معاملہ : اسلام آباد ہائی کورٹ کا تحقیقاتی رپورٹ پر کارروائی روکنے کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایس ای سی پی ڈیٹا لیک کے معاملے پر تحقیقاتی رپورٹ پر کارروائی روکنے کا حکم دیتے ہوئے تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایس ای سی پی ڈیٹا لیک کی تحقیقات کیلئے قائم تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔

    سردار تیمور اسلم ایڈووکیٹ نے بتایا ک ایڈیشنل ڈائریکٹر ایس ای سی پی محمد ارسلان ظفر کو 9 ستمبر کو جبری رخصت پر بھیجا گیا اور ان کا لیپ ٹاپ قبضے میں لے لیا گیا، 14 ستمبر کو ڈیٹا لیک پر تحقیقات کے حوالے سے تفصیلی جواب تحقیقاتی کمیٹی کو جمع کرایا، ایڈیشنل جوائنٹ ڈائریکٹر آئی ٹی ہارون الرشید کی تحقیقاتی کمیٹی میں شمولیت قوانین کے خلاف ہے۔

    سردار تیمور اسلم ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ حقائق کے خلاف اور امکانات پر مبنی ہے، رپورٹ کی روشنی میں بھیجا گیا شوکاز نوٹ کالعدم قرار دیا جائے اور عدالت ایس ای سی پی ڈیٹا لیک کی تحقیقات کیلئے قائم تحقیقاتی کمیٹی کو کالعدم قرار دے۔

    جس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ معلومات حاصل کرنا ہر پاکستانی کا حکم ہے، وزیر اعظم کو معلوم نہیں ہے ایس ای سی پی کیا ہو رہا ہے۔

    ایس ای سی پی کی جانب سے شاہد انور باجوہ عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ آٹھ ملازمین کے خلاف حساس معلومات لیک کرنے پر ایکشن کیا گیا، شیئر ہولڈنگ کی اور معلومات لیک کی گئیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا پوری دنیا میں شیئر ہولڈنگ کی معلومات پبلک ہوتی ہیں، کس کی انفارمیشن لیک کی گئی جو معاملہ حساس بن گیا؟

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ ایس ای سی پی اپنے کنڈنٹ سے معاملے کو مشکوک بنا رہی ہے، ایس ای سی پی کا کنڈکٹ اس درخواست کو سماعت کیلئے مقرر کرنے کیلئے کافی ہے، یہ عدالت بھی ایک کمپنی کورٹ ہے،ایس ای سی پی نے اج تک کوئی اعتراض نہیں کیا۔.

    جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا شیئر ہولڈنگ معلومات پبلک کرنا کیسے خفیہ اور حساس معاملہ بن گیا؟ شاہد انور باجوہ نے بتایا کہ عاصم سلیم باجوہ کی کمپنیوں کی شیئر ہولڈنگ تفصیلات شیئر کی گئیں۔

    چیف جسٹس نے کہا ریگولیٹر کی جانب سے معلومات پبلک کی جاتی ہیں،اس سے ہی احتساب ہوتا ہے، یقین ہے وزیر اعظم کو اس تمام معاملے سے باخبر رکھا گیا ہوگا، ایس ای سی پی کی کنڈکٹ سے واضح ہوگیا کہ ادارہ آزادانہ کام نہیں کر رہا، ایس ای سی پی کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ یہ لیک ہے، نان ایشو کو ایشو نہیں بنانا چاہئے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کہاں ہیں؟ اس سطح کی انکوائریز اب تک ایس ای سی پی کتنی کرچکا ہے؟ پبلک انفارمیشن میڈیا پر پہنچ گئی تو کون سا آسمان گر گیا؟ میڈیا رپورٹ کے معاملے پر ایس ای سی پی نے نان ایشو کو ایشو بنایا، پبلک انفارمیشن تو ایس ای سی پی کی ویب سائٹ پر موجود ہونی چاہیے، اس کیس میں ایس ای سی پی کا کنڈکٹ درخواست گزار کے خدشات کو درست ثابت کرتا ہے۔

    عدالت نے ایس ای سی پی ڈیٹا لیک کی تحقیقات کیلئے قائم کمیٹی کے خلاف کیس سماعت کیلیے مقرر کرتے ہوئے ایس ای سی پی ڈیٹا پیک کے معاملے پر تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایس ای سی پی ڈیٹا لیک معاملے پر تحقیقاتی رپورٹ پر کارروائی روکنے کا حکم دیتے ہوئے ایس ای سی پی ڈیٹا لیک کی تحقیقات کیلئے قائم کمیٹی کے خلاف کیس کی سماعت 12 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے تعلیمی ادارے کھولنے کی درخواست مسترد کردی

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے تعلیمی ادارے کھولنے کی درخواست مسترد کردی

    اسلام آباد : اسلام آبادہائیکورٹ نے تعلیمی ادارے کھولنے کی درخواست مسترد کردی ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا پالیسی کا معاملہ ہے،عدالت مداخلت نہیں کرتی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں کورونا کی وجہ سے بند تعلیمی ادارے کھولنے کی درخواست پر سماعت ہوئی، وکیل درخواست گزار نے کہا پہلے بھی پٹیشن دائرکی عدالت نےمتعلقہ ادارےسےرجوع کی ہدایت کی، متعلقہ اداروں میں درخواست دی مگرکچھ نہیں ہوا، حکومت تعلیمی ادارے کھولنے کے حوالے سے سنجیدگی نہیں دکھارہی۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ عدالت مفروضےپرکوئی حکم جاری نہیں کرسکتی، یہ ہوہی نہیں سکتا مفاد عامہ کا اتنا اہم معاملہ ایگزیکٹو کے مدنظرنہ ہو، یہ ایگزیکٹو کاکام ہے انہیں اپنا کام کرنے دیں۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ پالیسی کا معاملہ ہے،عدالت مداخلت نہیں کرتی ، عدالت نے درخواست گزار وکیل کے دلائل کے بعد تعلیمی ادارے کھولنے کی درخواست مسترد کردی ۔

    خیال رہے حکومت نے کورونا کے باعث بند تعلیمی اداروں کو 15 ستمبر سے کھولنے کا اعلان کیا ہے تاہم اسکول کھولنے کا7 ستمبر کو وزارت تعلیم حتمی فیصلہ کرے گی۔