Tag: islamabad high court

  • حکومت کا ججز سے سرکاری رہائش گاہیں واپس لینے کا نوٹیفکیشن معطل

    حکومت کا ججز سے سرکاری رہائش گاہیں واپس لینے کا نوٹیفکیشن معطل

    اسلام آباد: ہائیکورٹ نے حکومت کا ججز سے سرکاری رہائش گاہیں واپس لینے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا، تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ آئندہ سماعت تک رہائش گاہ واپس نہیں لی جاسکتیں، کیس کی سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں ملک بھر کی ماتحت عدلیہ کے ججز کی رہائش گاہیں واپس لینے سے متعلق کی سماعت ہوئی، تحریری حکم کے تحت وزارت ہاؤسنگ کا 28 مارچ کا نوٹیفکیشن معطل کردیا گیا، جسٹس شوکت عزیز نے سرکاری رہائش گاہ واپس لینے کا نوٹیفکیشن معطل نہیں کیا۔

    تحریری حکم نامے کے مطابق وزارت ہاؤسنگ کا ججز کی رہائش گاہیں واپس لینے کا نوٹیفکیشن بددنیتی پر مبنی ہے، وفاقی وزیر اور سیکریٹری ہاؤسنگ اینڈ ورکس کو کوئی استثنیٰ نہیں، وزیر ہاؤسنگ، سیکریٹری ہاؤسنگ، اسٹیٹ افسر عدالت میں پیش ہوں، عدالت میں پیش نہ ہونے پر توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔

    ججز نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ضلعی کچہری کے ججز کمرشل ایریا میں عدالتیں لگائے ہوئے ہیں، ججز قانون کے تحت سرکاری رہائشیں رکھنے کے اہل ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔

    واضح رہے کہ حکومت نے اسلام آباد ہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججوں سے سرکاری رہائش گاہیں خالی کرانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، ان میں نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کرنے والے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر اور انسداد دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند بھی شامل ہیں.

    خیال رہے کہ 2008 میں وزارت ہاؤسنگ کی جانب سے نے اسلام آباد ہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز کو سرکاری رہائش گاہیں الاٹ کی تھیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • جج محمد بشیر کی مدت ملازمت سے متعلق وزارت قانون کو خط

    جج محمد بشیر کی مدت ملازمت سے متعلق وزارت قانون کو خط

    کراچی: احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت قانون کو خط لکھا ہے کہ جاری کیسز کو منطقی انجام تک پہچانے کیلئے ان کی ملازمت میں توسیع کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق ناہل وزیر اعظم نواز شریف، ان کے بچوں اور داماد کے خلاف لندن فلیٹس، العزیزیہ اور فلیگ شپ انوسمنٹ ریفرنسز کی سماعت کرنے والے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر 12 مارچ کو ریٹائر ہوجائیں گے۔

    احتساب عدالت نےاسحاق ڈارکی جائیداد ضبطگی کےخلاف درخواست مسترد کردی

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انوار خان کاسی کی جانب سے لکھے گئے خط میں سفارش کی گئی ہے کہ جج محمد بشیر کو بطور جج احتساب عدالت میں توسیع دی جائے تاکہ عدالتوں میں جاری کیسز کو منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے۔

    خط میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو ججز کی کمی کا سامنا ہے، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی سیٹوں پر 13 ججز کام کر رہے ہیں، سپریم کورٹ نے خصوصی عدالتوں کے ججز کی نشستوں پر تعیناتی کا حکم دیا تھا جبکہ 13 میں سے 6 ججز صوبوں سے ڈیپوٹیشن پر لائے گئے ہیں۔

    شریف خاندان کےخلاف ضمنی ریفرنسزکی سماعت‘ گواہوں کے بیان قلمبند

    خیال رہے شریف خاندان کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں متعدد کیسز کا سامنا ہے جہاں نوازشریف کے خلاف ضمنی ریفرنسز بھی دائر ہوچکے ہیں، ایسے موقع پر جج محمد بشیر کی مدت ملازمت 12 کو مکمل ہورہی ہے۔

    واضح رہے گذشتہ دنوں قومی احتساب بیورو نے العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کے ضمنی ریفرنسز میں مزید شواہد ملنے کا انکشاف کیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • فیض آباد دھرنا: معاہدے کی قانونی حیثیت بتائی جائے‘ عدالت

    فیض آباد دھرنا: معاہدے کی قانونی حیثیت بتائی جائے‘ عدالت

    اسلام آباد: جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریماکس دیے کہ فیض آباد دھرنے کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے معاہدے کی قانونی حیثیت بتائی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کی۔ اٹارنی جنرل اشتراوصاف بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

    سماعت کے دوران جسٹس شوکت صدیقی نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو معاہدہ ہوا اس کی قانونی حیثیت دیکھنی ہے۔

    جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریماکس دیے کہ دھرنے والوں کے ساتھ کیا گیا معاہدہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے یا پھر وفاقی سطح پراہم اجلاس میں معاہدے کی قانونی حیثیت واضح کی جائے۔

    اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے کہا کہ وقت دیں تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کروں گا، راجا ظفرالحق کمیٹی رپورٹ بہت جلد جمع کراؤں گا۔

    جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریماکس دیے کہ آپ خود پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتے ہیں میں بھی پارلیمنٹ کو عملی طور پر طاقتور بنانا چاہتا ہوں۔

    معززجج نے ریماکس دیے کہ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کو کیس جاری رکھنے سے نہیں روکا، اخلاقی طورپرکیس کی سماعت ملتوی کررہا ہوں۔


    حکومت اورتحریک لبیک کے درمیان معاہدہ طے پا گیا


    یاد رہے کہ 27 نومبر کو وفاقی وزیرقانون زاہد حامد کے استعفے کے بعد وفاقی حکومت اور مذہبی جماعت تحریک لبیک کے درمیان معاملات طے پاگئے تھے اور دونوں فریقین کے درمیان معاہدہ ہوگیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نےالیکشن ایکٹ کی شق 202 کومعطل کردیا

    اسلام آباد ہائی کورٹ نےالیکشن ایکٹ کی شق 202 کومعطل کردیا

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے انتخابی اصلاحات بل 2017 میں سیاسی جماعتوں کے لیے 2 ہزار ممبران اور 2 لاکھ روپے جمع کروانےکے حوالے سے الیکشن ایکٹ کی دفع 202 کو معطل کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے انتخابی اصلاحات بل 2017 کی دفع 202 کے خلاف 4 سیاسی جماعتوں کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی۔

    درخواست گزار کے وکیل چوہدری حامد ایڈووکیٹ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انتخابی اصلاحات بل 2017 کی دفع 202 آئین پاکستان اور بنیادی انسانی حقوق کے متصادم ہے۔

    انہوں نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ الیکشن ایکٹ کی شق 202 کی وجہ سے عام آدمی الیکشن میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہوگا۔

    درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی انتخابی اصلاحات بل 2017 کی شق 202 کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس حوالے سے نئے قانون سازی کا حکم دے۔

    عدالت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ نوٹس کو معطل کرتے ہوئے الیکشن ایکٹ کی دفعات 202 کو معطل کردیا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکرٹری قانون، الیکشن کمیشن اورڈی جی الیکشن کمیشن کو نوٹسز جاری کرتے ہوئےجواب طلب کرلیا جبکہ سماعت 9 جنوری 2018 تک کے لیے ملتوی کردی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • میاں منشا کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کا فیصلہ محفوظ

    میاں منشا کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کا فیصلہ محفوظ

    اسلام آباد : عدالت نے میاں منشا کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق میاں منشا کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ پر مشتمل جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن کیانی نے کی۔

    اسٹیٹ بینک، نیب، ایف بی آر، میاں منشا اور ان کے بچوں کے وکیل اور پاکستان ویلفیئر پارٹی کی جانب سے بیرسٹر شعیب رزاق عدالت میں پیش ہوئے۔

    میاں منشا نے گزشتہ سماعت میں تحریری طور پر قبول کیا تھا کہ لندن میں سن جیمز ہوٹل میرا نہیں بلکہ میرے بچوں کی ملکیت ہے۔

    جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا میاں منشا کے خلاف پیسے اسمگلنگ کی دستاویزات ہیں؟ بیرسٹر شعیب رزاق نے عدالت کو بتایا کہ جی سن جیمز ہوٹل کی تصدیق میاں منشا نے اپنے وکیل کے ذریعے تحریری طور پر کی ہے۔

    میاں منشا نے 70 ملین پاﺅنڈ سے لندن میں ہوٹل بنایا۔ رقم منتقل ہونے کے حوالے سے سینیٹ کمیٹی نے اسیٹیٹ بینک کو خط لکھا تھا، بیرسٹر شعیب رزاق نے عدالت کو بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ ہمارے پاس کوئی تصدیق نہیں۔


    مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس، میاں منشا اور اہل خانہ کو نوٹس جاری


    ضابطے کے مطابق 5 ملین کی بیرون ملک منتقلی کی اجازت اسٹیٹ بینک سے لینا ضروری ہے۔ عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔

  • اسحٰق ڈار کی فرد جرم کے خلاف درخواست عدالت میں مسترد

    اسحٰق ڈار کی فرد جرم کے خلاف درخواست عدالت میں مسترد

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ہائیکورٹ نے وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پر فرد جرم کے خلاف ان کی دائر کردہ درخواست مسترد کردی۔ وزیر خزانہ نے احتساب عدالت کے اقدام کو چیلنج کیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کی جانب سے عائد کی جانے والی فرد جرم کے خلاف وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ نے مسترد کردی۔

    اسحٰق ڈار کی جانب سے دائر کردہ درخواست کی سماعت 2 رکنی بینچ نے کی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ احتساب عدالت خود مختار ادارہ ہے، احتساب عدالت کی کارروائی روکنے کا اختیار ہائیکورٹ کو نہیں۔

    وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے پہلے جے آئی ٹی بنائی، پھر نیب ریفرنس کا حکم دیا جس پر عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ کو ہم کیسے ہدایت کر سکتے ہیں؟ اسحٰق ڈار اپنی درخواست احتساب عدالت میں کیوں نہیں دیتے۔

    مزید پڑھیں: فرد جرم کے بعد اسحٰق ڈار کا وزارت پر رہنا شرمناک، تحریک انصاف

    عدالت کا مزید کہنا تھا کہ احتساب عدالت صحیح سمت میں جا رہی ہے۔ نیب آرڈیننس کے مطابق 30 دن میں کیس کا فیصلہ ہوجائے گا۔

    یاد رہے کہ 27 ستمبر کو احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثوں کے نیب ریفرنس میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پر فرد جرم عائد کی تھی تاہم اسحٰق ڈار نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

    اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کروں گا اور الزامات کا دفاع کروں گا۔

    اسحاق ڈار کے تمام بینک اکاؤنٹس بھی منجمد کردیے گئے تھے اور تمام جائیداد کی خرید و فروخت اور منتقلی پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

    بعد ازاں اسحٰق ڈار نے فرد جرم عائد کرنے کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی تھی۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ 27 ستمبر کے حکم نامہ میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، مذکورہ حکم پر نظر ثانی کی جائے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • اسلام آباد: دو لڑکیاں 10 ماہ سے لاپتا، عدالت پولیس پر برہم

    اسلام آباد: دو لڑکیاں 10 ماہ سے لاپتا، عدالت پولیس پر برہم

    اسلام آباد: عدالت نے 10 ماہ سے لاپتا دو لڑکیوں کو 2 ہفتےمیں بازیاب کرانے کا حکم دےدیا، جسٹس شوکت نے کہا کہ اگر پولیس افسر کی بہن یا بیٹی اغوا ہوتی تو دیکھتا پولیس کیسے بے فکر رہتی۔

    دو لڑکیاں 10 سالہ ادیبہ اور 16 سالہ سمیعہ کے لاپتا ہونے سے متعلق مقدمے کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں ہوئی۔

    دوران سماعت جسٹس شوکت نے پولیس پر برہم ہوتے ہوئے کہا کہ 10ماہ ہوگئے بچیاں غائب ہیں،کسی کو فکر ہی نہیں، پولیس افسر کی بہن بیٹی اغوا ہوتی تو دیکھتا کیسے پولیس بے فکر رہتی۔

    جواب میں ایس پی انویسٹی گیشن ذیشان نے کہا کہ اس مقدمے میں 23 افراد سے پوچھ گچھ کی،7 ہزار افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا، ایک ڈیڈ باڈی کا ڈی این اے بھی کرایا، نامزد ملزم محمد ایاز کو گرفتار بھی کیا گیا۔

    عدالت نے حکم دیا کہ پولیس تفتیش میں تیزی لائے، 12 ستمبر تک دونوں لڑکیوں کو پیش کیا جائے۔

    دریں اثنا گرفتار ملزم ایاز کی درخواست ضمانت پر سماعت 12 ستمبر تک ملتوی کردی گئی۔

  • حج کرپشن کیس :سابق وفاقی وزیرحامد کاظمی ساتھیوں سمیت بری

    حج کرپشن کیس :سابق وفاقی وزیرحامد کاظمی ساتھیوں سمیت بری

    اسلام آباد: ہائی کورٹ نے حج کرپشن کیس کی سماعت کے دوران سابق وفاقی وزیر حامد کاظمی، راؤشکیل اورجوائنٹ سیکریٹری حج کو بری قرار دے دیا.

    تفصیلات کے مطابق حج کرپشن کیس کی ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی، عدالت نے سابق وفاقی وزیر حامد کاظمی، راؤشکیل اورجوائنٹ سیکریٹری حج کو بری کردیا، ہائی کورٹ کا فیصلہ جسٹس محسن اختر کیانی نے پڑھ کرسنایا.

    واضح رہے کہ حامد کاظمی, راؤشکیل، آفتاب اسلام نے سزا کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا.

    خیال رہے گذشتہ سال اسلام آباد ہائی کورٹ میں حج کرپشن کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس محمد انورخان کاسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ حاجیوں کو دی گئی رہائش نامناسب تھی، نہ تو باتھ روم تھا ، نہ اس کی چھت، اس غیر معیاری حالات کو سعودی حکومت نے بھی محسوس کیا تھا.

    خصوصی عدالت کی سزا


    خیال رہے کہ اسلام آباد کے اسپیشل جج سینٹرل ملک نذیر احمد نے حج کرپشن کیس کا فیصلہ سنایاتھا، کرپشن کیس میں سابق وفاقی وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی کو جرم ثابت ہونے پر 16 سال قید کی سزا جبکہ سابق ڈی جی حج راؤ شکیل کو 40 سال قید کی سزا جبکہ سابق ایڈیشنل سیکریٹری وزارت مذہبی امور آفتاب احمد کو 16 سال قید کی سزا سنائی تھی.

    یاد رہے کہ حج کرپشن اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد حامد سعید کاظمی کو وزارت مذہبی امور سے ہاتھ دھونا پڑے تھے جبکہ دو ہزار گیا رہ کے اوائل میں انہیں گرفتار کیا گیا اور تقریباً ایک برس جیل میں گذارنے کے بعد انہیں رہا بھی کردیا گیا تھا۔

  • عدالت کا سوشل میڈیا سے گستاخانہ پیجزبلاک کرنے کا حکم

    عدالت کا سوشل میڈیا سے گستاخانہ پیجزبلاک کرنے کا حکم

    اسلام آباد : فیس بک پر گستاخانہ پیجز کو بلاک کرنے کا عدالتی حکم دے دیا گیا، عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو خود انکوائری کمیٹی کی سربراہی کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا پرگستاخانہ مواد سے متعلق کیس کا حکم نامہ جاری کردیا، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا تحریرکردہ حکم نامہ 3 صفحات پر مشتمل ہے۔ مذکورہ حکم نامے کی کاپی اے آر وائی نیوز نےحاصل کرلی۔

    حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی اے اور ایف آئی اے فوری طور پر سوشل میڈیا پر چلنے والے گستاخانہ مواد والے پیجز بلاک کریں، ساتھ ہی ساتھ دونوں اداروں کو اپی کارکردگی بھی بہتر بنانے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔

     عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو ہدایت کی ہے کہ معاملے میں حساس اداروں کی معاونت درکار ہے، ایف آئی اے اس  معاملے میں ملوث غیرسرکاری ادارے کاتعین کرے۔

    ڈی جی ایف آئی اے خود انکوائری کی سربرائی کریں، عدالتی حکم میں مزید  کہا گیا ہے کہ آئندہ سماعت پراٹارنی جنرل ذاتی طورعدالت میں پیش ہوں اور ذمہ دار افسرکی حاضری یقینی بنائیں۔

    یاد رہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر گستاخانہ مواد کو ہٹانے اور اس کا راستہ روکنے کے لیے فوری طور پر موثر اقدامات کرنے کی ہدایت کی تھی۔

    اس سے قبل 8 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستانی حکام کو سوشل میڈیا پر موجود تمام مذہب مخالف اور توہین آمیز مواد فوراً بلاک کرنے کا حکم دیا تھا۔

    ایف آئی اے رام کہانی نہ سنائے،عملی کام چاہیئے، عدالت

    اس سے قبل کیس کی سماعت کے موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے گستاخانہ مواد کے ملزمان کا تعین نہ ہونے پر برہمی کا اظہارکیا۔ عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے رام کہانی نہ سنائے،عملی کام چاہیئے۔

    سوشل میڈیاپرگستا خانہ مواد سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کی۔ ایف آئی اے کی جانب سے بتایا گیا کہ ستر سے زیادہ افراد کی انکوائری کی جارہی ہے جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ رام کہانی نہ سنائیں عملی کام بتائیں۔

    انہوں نے استفسار کیا کہ ڈی جی ایف آئی اے عدالت میں کیوں موجود نہیں؟ عدالت نے حکام کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک ملزمان کا تعین نہیں کیا جاسکا۔ سارے کیس کی ذمہ دار وزارت آئی ٹی ہے۔

    ایف آئی اے نے جواب دیا کہ دو سو پچانوے سی پر کارروائی نہیں کرسکتے۔ فاضل جج نے مقدمے میں معاونت کے لئے وزارت دفاع اور آئی ایس آئی افسر کو آئندہ سماعت پر بلالیا اورپھر حکم دیا کہ توہین رسالت کے ملزمان کے نام فوری طور پر ای سی ایل میں ڈالے جائیں۔ مقدمے کی مزید کارروائی بائیس مارچ تک ملتوی کردی گئی۔

  • راحیل شریف کو فیلڈ مارشل بنانے کی درخواست قابل سماعت یا مسترد؟ فیصلہ محفوظ

    راحیل شریف کو فیلڈ مارشل بنانے کی درخواست قابل سماعت یا مسترد؟ فیصلہ محفوظ

    اسلام آباد: آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل بنانے کے لیے ہائی کورٹ میں دائر درخواست کو قابل سماعت یا مسترد کرنے کے لیے فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں شہری سردار عدنان سلیم کی جانب سے آرمی چیف آف اسٹاف جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل بنانے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

    دورانِ سماعت درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ ’’سپہ سالار کی خدمات کے پیش نظر انہیں فیلڈ مارشل بنایا جائے‘‘۔ جج نے استفسار کیا کہ ’’کیا آئین میں فیلڈ مارشل بنائے جانے کی گنجائش موجود ہے؟‘‘۔

    پڑھیں:  مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتا، آرمی چیف راحیل شریف

    عدالت کے استفسار پر شہری کی جانب سے درخواست کی پیروی کرنے والے وکیل نے کہا کہ ’’آئین میں تو کوئی گنجائش موجود نہیں تاہم جنرل ایوب کو بھی فیلڈ مارشل کا عہدہ دیے جانے کی مثال موجود ہے‘‘۔

    مزید پڑھیں: کون ہوگا ملک کا اگلا آرمی چیف؟

    یاد رہے رواں سال نومبر میں آرمی چیف آف اسٹاف جنرل راحیل شریف کی مدتِ ملازمت ختم ہورہی ہے ، اس ضمن میں مختلف حلقوں کی جانب سے مختلف قیاس آرائیں سامنے آئیں تاہم فوج کے تعلقاتِ عامہ نے ان باتوں کو مسترد کرتے ہوئے ایک اعلامیہ جاری کیا تھا۔

    یہ بھی پڑھیں:  جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جائے، امریکی سینیٹرجان مِکین

    آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا تھاکہ ’’جنرل راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے حوالے سے کی جانے والی باتوں سے گریز کیا جائے تاہم اس حوالے سے جو بھی فیصلہ ہوگا آگاہ کردیا جائے گا‘‘۔

    دوسری جانب ڈی جی آئی ایس پی آر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’’آرمی چیف نے مدتِ ملازمت میں توسیع لینے سے انکار کردیا ہے، اُن کا ماننا ہے کہ فوج ایک عظیم ادارہ ہے، مدتِ ملازمت میں توسیع پر یقین نہیں رکھتا وقت آنے پر ریٹائرڈ ہوجاؤں گا‘‘۔