Tag: Island

  • دنیا کا ایک اور خوبصورت جزیرہ دریافت

    دنیا کا ایک اور خوبصورت جزیرہ دریافت

    سائنس دانوں نے قطب شمالی کے قریب ایک چھوٹا سا جزیرہ دریافت کیا ہے، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ زمین کا "انتہائی شمالی” خشک مقام ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق گرین لینڈ کے ساحلی خطے میں واقع ایک نئے جزیرے کو دنیا کا انتہائی شمال کا زمینی مقام قرار دیا گیا ہے۔

    محققین رواں برس جولائی میں اس جگہ پر پہنچے تھے، تاہم وہ سمجھے کہ شاید یہ گرین لینڈ کا شمالی علاقہ ‘عودق‘ ہے۔ عودق جزیرے کو اب تک زمین کا انتہائی شمالی علاقہ سمجھا جاتا تھا۔

    کوپن ییگن یونیورسٹی کے شعہ ارضیاتی سائنس اور قدرتی وسائل سے وابستہ اور گرین لینڈ میں آرکٹک ریسرچ اسٹیشن کے سربراہ مورٹن راش کے مطابق ہمیں بتایا گیا کہ شاید میرے جی پی ایس میں کوئی گڑ بڑ ہے، جس کی وجہ سے ہم عودق جزیرے پر آن پہنچے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ہمارا ارادہ کسی نئے جزیرے کو دریافت کرنا نہیں تھا، ہم تو وہاں بس نمونے اکٹھے کرنے اتفاقاً وہاں گئے تھے جس کے بعد ہم پر اس بات کا انکشاف ہوا۔

    اس مقام پر پہنچنے کے بعد سائنسدانوں کا خیال تھا کہ وہ اووڈک نامی جزیرے پر موجود ہیں جس کو 1978 میں ڈنمارک کی سروے ٹیم نے دریافت کیا۔

    مگر جب انہوں نے لوکیشن کی جانچ پڑتال کی تو انہٰں احساس ہوا کہ وہ اووڈک سے شمال مغرب میں 780 میٹر دور ایک دوسرے جزیرے پر موجود ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہر ایک پہلے اس بات پر خوش تھا کہ ہم نے اووڈک جزیرے کو ڈھونڈ لیا ہے، یہ ماضی کی مہمات کی طرح تھا جب لوگ سوچتے تھے کہ وہ کسی مخصوص مقام پر ہیں مگر درحقیقت انہیں نے ایک نیا مقام دریافت کرلیا ہوتا ہے۔

    یہ چھوٹا سا جزیرہ 30 میٹر تک پھیلا ہوا ہے جس کا ابھی کوئی نام نہیں مگر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ اس کے لیے ناردرن موسٹ آئی لینڈ کا نام تجویز کریں گے۔

    امریکا کی جانب سے حالیہ دہائیوں میں متعدد مہمات کے دوران دنیا کے انتہائی شمالی جزیرے کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ نیا جزیرہ برف پگھلنے سے سامنے آیا ہے اور یہ براہ راست گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہے۔

    جس کے باعث گرین لینڈ کی برفانی پٹی سکڑ گئی ہے مگر ان کا کہنا تھا کہ یہ جزیرہ بہت جلد سمندر میں گم ہوجائے گا، مگر فی الحال یہ دنیا کے شمال کا آخری  زمینی حصہ ہے جو بار بار ابھرتا ڈوبتا رہے گا۔

  • ایسے قبائلی جو جدید دنیا سے رابطے پر خفا ہیں، اور وہاں آنے والوں کو قتل کردیتے ہیں

    ایسے قبائلی جو جدید دنیا سے رابطے پر خفا ہیں، اور وہاں آنے والوں کو قتل کردیتے ہیں

    کیا آپ کو معلوم ہے کہ خلیج بنگال میں یعنی دنیا کی گنجان ترین آبادیوں کے عین درمیان میں ایک علاقہ ایسا ہے جہاں تہذیب آج تک نہیں پہنچی اور جہاں جدید دنیا کا شائبہ تک نہیں ہے۔

    آپ نے ضرور جزائر انڈمان کا نام سنا ہوگا وہی جہاں کالا پانی جیسی بدنام زمانہ جیل تھی، جسے برطانیہ سیاسی قیدیوں کو جلا وطن کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔ یہ اور ملحقہ جزیرے خلیج بنگال میں ہیں واقع جو برطانیہ سے آزادی کے بعد وراثت میں بھارت کو ملے تھے۔ ان جزائر میں سے ایک جزیرہ شمالی سینٹی نیل ہے۔

    یہاں کے رہنے والے لوگوں کو سینٹی نیلی کہا جاتا ہے اور یہ اس علاقے کے دیگر چھ قبائل میں سے ایک ہے جن میں انڈمانی، جراوا، اونگے، شومپن اور نکوباری شامل ہیں۔ ان میں سے صرف سینٹی نیلی ہی ایسے ہیں، جو باقی دنیا سے بالکل نہیں ملنا چاہتے بلکہ جس نے بھی ایسی کوشش کی ہے، اکثر و بیشتر اسے ان کی جانب سے انتہائی جارحانہ ردعمل دیکھنا پڑا بلکہ کچھ لوگ تو ان کے ہاتھوں مارے بھی گئے ہیں۔

    جزیرے کے لوگ آج اس جدید دور میں بھی گویا پتھر کے زمانے میں رہتے ہیں، ان کا طرزِ زندگی آج بھی ویسا ہے، جیسا انسان کا آج سے ہزاروں سال پہلے ہوگا۔

    ماہرینِ بشریات خطرہ لاحق ہے کہ ان سے رابطہ کرنے یا میل جول بڑھانے کے نتیجے میں انہیں عام انسانوں کی وہ بیماریاں لگ سکتی ہیں، جن کے خلاف ان کے جسم میں مدافعت نہیں پائی جاتی۔ اس لیے اس جزیرے میں داخل ہونے پر اب پابندی عائد ہے اور اس کے گرد 5 بحری میل کے علاقے میں کوئی داخل نہیں ہو سکتا۔

    کہنے کو تو یہ جزیرہ بھارت میں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا اور اگر کوئی شخص جزیرے میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے مارا جاتا ہے تو بھی حکومت اس قبیلے کے افراد پر کوئی مقدمہ نہیں چلائے گی۔ یہ جزیرہ تقریباً 60 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور یہاں کی آبادی کے بارے میں جو اندازے لگائے گئے ہیں، وہ 100 سے 150 کے درمیان ہے۔

    یہاں کے باسیوں کا گزر بسر شکار پر ہوتا ہے، یہ تیر کمان کا استعمال کر کے مختلف جنگلی حیات کا شکار کرتے ہیں اور سمندر سے مچھلیاں اور کیکڑے بھی پکڑتے ہیں۔ یہ زراعت سے واقف نہیں کیونکہ جزیرے پر کوئی زرعی علاقہ نہیں دیکھا گیا البتہ دھاتوں کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور دھاتوں کو استعمال کر کے ہتھیار بناتے ہیں۔

    تاریخ میں اس جزیرے کا ذکر پہلی بار 1771 میں ملتا ہے جب ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک جہاز اس کے قریب سے رات کے وقت گزرا تھا، سنہ 1867 میں ایک ہندوستانی جہاز نینوہ اس جزیرے کے قریب پھنس گیا تھا۔ مسافر اور عملہ بحفاظت ساحل تک پہنچ گیا اور وہاں تیسرے روز مقامی قبائلی افراد نے ان پر تیروں سے حملہ کر دیا۔

    کپتان ایک کشتی کے ذریعے یہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوگیا اور کئی روز بعد اسے دوسرے بحری جہاز نے سمندر سے نکالا، باقی تمام مسافروں کی جزیرے پر موجودگی کی اطلاع ملنے پر برطانوی بحریہ نے یہاں کا رخ کیا اور دیکھا کہ مسافروں نے ڈنڈوں اور پتھروں سے مقابلہ کر کے قبائلیوں کو بھگا دیا تھا اور پھر وہ دوبارہ ان کی طرف نہیں آئے۔

    اس جزیرے پر جانے کی پہلی باقاعدہ کوشش سنہ 1880 میں برطانوی بحریہ کے ایک افسر مورس وڈال پورٹ مین نے کی تھی، انہوں نے چند مسلح اہلکاروں کے ساتھ اس جزیرے پر قدم رکھا اور انہیں آتا دیکھ کر قبائلی گھروں سے بھاگ گئے تھے۔ کئی روز کی تلاش کے بعد انہیں چند گاؤں ملے۔

    انہوں نے مجموعی طور پر 6 قبائلی افراد کو پکڑا جس میں ایک بزرگ جوڑا اور 4 بچے شامل تھے، انہیں جزائر کے مرکزی شہر پورٹ بلیئر لایا گیا جہاں دونوں بزرگ تو بیمار ہونے کے بعد چل بسے۔ بچے مرے تو نہیں لیکن وہ بھیبیمار ضرور پڑ گئے جس پر انہیں جلد بازی میں واپس جزیرے پر لایا گیا اور بہت سے تحفے تحائف کے ساتھ چھوڑ دیا گیا۔

    ماہرین سمجھتے ہیں کہ ان بچوں کی واپسی کے بعد جو امراض مقامی قبائلیوں کو لاحق ہوئے ہوں گے، غالباً انہی کی وجہ سے اس جزیرے کے باسی بیرونی دنیا سے رابطے نہیں رکھنا چاہتے۔

    سنہ 1896 میں ایک قیدی انڈمان جزیرے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا اور ایک کشتی بنا کر اس جزیرے کے ساحل تک پہنچ گیا۔ تلاش کے دوران اس کی لاش اس جزیرے کے ساحل سے ملی تھی، اس کے جسم میں کئی تیر گھسے ہوئے تھے اور گلا کٹا ہوا تھا۔

    بعد میں ان سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، 1974 میں کئی ماہرین نے نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے لیے ایک دستاویزی فلم مین ان سرچ آف مین بنانے کے لیے اس جزیرے کا رخ کیا۔ اس دوران تین دن تک قبائلی افراد سے رابطہ کرنے کی کوششیں کی گئیں، یہاں تک کہ ان کی کشتی خراب ہو گئی اور اس حادثے کے کچھ ہی دیر بعد مقامی افراد جنگل سے نکل آئے اور تیروں سے ان پر حملہ کر دیا۔

    ایک تیر ڈائریکٹر کی ٹانگ پر لگا، بہرحال وہ وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس دورے میں سینٹی نیل قبائلیوں کی اولین تصاویر ضرور کھینچی گئیں۔ رگوبھیر سنگھ کی کھینچی گئی تصویریں جولائی 1945 میں نیشنل جیوگرافک میگزین میں شائع ہوئیں۔

    سنہ 2004 کے آخر میں بحرِ ہند میں آنے والے سونامی نے سینٹی نیل جزیرے پر بھی تباہی مچائی۔ بھارت کی افواج نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے پورے جزیرے کا جائزہ لیا کہ کہیں قبیلے کو مدد کی ضرورت تو نہیں لیکن ان کا رویہ بہت جارحانہ نظر آیا۔

    اس مہم کے دوران 32 افراد گنے گئے، جو تین مقامات پر پھیلے ہوئے تھے اور لاش کوئی نہیں تھی۔ ان کی ہیلی کاپٹر پر تیر اندازی کے بعد اس مہم کو ختم کر دیا گیا کیونکہ یہ یقین ہو گیا تھا کہ قبائلی بڑی حد تک سونامی کی تباہ کاریوں سے بچ گئے ہیں۔

    جس واقعے نے اس جزیرے اور یہاں کے مقامی باشندوں کو دنیا بھر میں شہرت دی، وہ نومبر 2018 میں پیش آیا جب ایک 26 سالہ امریکی جون ایلن چاؤ مسیحی مذہب کی تبلیغ کے لیے اس جزیرے پر پہنچا تھا۔

    اس کی خواہش تھی کہ وہ ان قبائلی افراد کے ساتھ رہے اور انہیں تہذیب اور مذہب سے روشناس کروائے، کیونکہ جزیرے پر کسی کو جانے کی اجازت نہیں، اس لیے وہ مقامی ماہی گیروں کو پیسے دے کر غیر قانونی طور پر جزیرے پر پہنچا۔

    چاؤ کے خطوط کے مطابق وہ جانتا تھا کہ اسے موت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے اور اس کا دورہ غیر قانونی ہے، لیکن اس کا کہنا تھا کہ یہ جزیرہ شیطان کا آخری گڑھ ہے، جہاں کسی نے کبھی خدا کا نام تک نہیں سنا۔ ان لوگوں کو یہ پیغام پہنچانا ضروری ہے۔ اگر وہ مجھے قتل بھی کر دیں تو مجھ سے ناراض مت ہوں۔ میری لاش نکالنے کی بھی ضرورت نہیں۔

    15 نومبر 2018 کو چاؤ نے جزیرے پر اترنے کی پہلی کوشش کی، اس کی کشتی جیسے ہی جزیرے کے قریب پہنچی، اسے مقامی افراد کے سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا جس پر وہ واپس چلے گئے۔

    چاؤ کے خطوط کے مطابق دوسری بار جب وہ وہاں پہنچے تو مقامی افراد نے حیرت، خوشی اور غصے کا ملا جلا رجحان دکھایا۔ اس موقع پر ان کے لیے مذہبی گانے بھی گائے گئے۔ چاؤ کے مطابق یہ لوگ اونچی آواز میں اور اشاروں کے ساتھ بھی بات کرتے۔ آخری خط میں چاؤ نے بتایا کہ میں نے انہیں مچھلیاں تحفے میں دیں تو ایک لڑکے نے مجھے تیر مار جو میری بائبل میں گھس گیا، جو میں نے سینے پر رکھی ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ واپس آگئے۔

    ایک روز چھوڑ کر 17 نومبر کو چاؤ نے ماہی گیروں سے کہا کہ وہ اسے جزیرے پر چھوڑ دیں، انہوں نے بعد میں دیکھا کہ مقامی افراد اس کی لاش لے جا رہے ہیں اور اگلے روز اس کی لاش ساحل پر پڑی دیکھی گئی۔

    پولیس نے چاؤ کی مدد کرنے پر 7 افراد کو گرفتار کیا کہ وہ اسے جزیرے پر کیوں لے گئے، جبکہ نامعلوم افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی درج کیا گیا لیکن ان کے خلاف کار وائی نہیں ہوئی۔ خود امریکی حکومت نے کہا کہ وہ بھارتی حکومت پر دباؤ نہیں ڈالے گی کہ وہ قبائلی افراد کے خلاف اقدامات کرے۔ چاؤ کی لاش واپس لینے کی کوششیں بھی روک دی گئیں۔

    بلاشبہ یہاں جدید دنیا کے کچھ نہ کچھ آثار تو اس قبیلے کو نظر آتے ہی ہوں گے، آسمان پر ہوائی جہاز اور سمندر میں بحری جہاز یہاں سے گزرتے ہیں۔ اتنی مہمات جو ان کے جزیرے کی طرف گئی ہیں، ان سے بھی انہیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ باہر بھی ایک دنیا ہے جو ان سے مختلف ہے۔ لیکن بیرونی دنیا کے خلاف اتنی مزاحمت غالباً تاریخ میں کسی نے نہیں کی۔

  • اٹلی میں آتش فشاں پھٹنے سے سیاح خوفزدہ، سمندر میں چھلانگ لگادی

    اٹلی میں آتش فشاں پھٹنے سے سیاح خوفزدہ، سمندر میں چھلانگ لگادی

    روم : آتش فشاں پہاڑ پھٹنے کے عینی شاہدین نے بتایا کہ آسمان پر ایک بڑا سیاہ رنگ کا بادل نمودار ہوتے ہوئے دیکھا جس سے ہمیں آتش فشاں پھٹنے کا اندازہ ہو گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق اٹلی کے جزیرے اسٹروم بولی میں آتش فشاں پہاڑ پھٹ پڑا جس کے باعث سیاحت کے لئے آئے لوگوں نے ڈر کر قریبی سمندر میں چھلانگ لگا دی، آتش فشاں پہاڑ پھٹنے کے وقت اس جزیرے پر موجود لوگوں نے آسمان پر ابھرتے ہوئے سیاہ بادلوں اور اڑتی ہوئی چنگاریوں کو دیکھا جس سے پورے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جزیرے پر موجود اس واقعے کے عینی شاہد نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ہم لوگ دن کا کھانا کھا رہے تھے کہ اچانک ہم نے دیکھا کہ تمام لوگ ایک رخ کی جانب گردن گھما کر دیکھ رہے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم نے آسمان پر ایک بڑا سیاہ رنگ کا بادل نمودار ہوتے ہوئے دیکھا جس سے مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ آتش فشاں پہاڑ پھٹ چکا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ آتش فشاں پھٹنے کے باعث ایک جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، ریسکیو ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ شخص آتش فشاں کی جانب بڑھ رہا کہ پھتروں سے ٹکرانے کے باعث ہلاک ہوا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کی جانب سے جزیرے پر موجود تمام لوگوں کو بحفاظت نکال لیا گیا ہے، اسٹروم بولی بحیرہ روم میں واقع ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جو سیاحت کے لئے دنیا بھر میں مقبول ہے۔

  • انڈونیشیا میں زلزلے سے ہلاکتوں‌ کی تعداد 14 ہوگئی

    انڈونیشیا میں زلزلے سے ہلاکتوں‌ کی تعداد 14 ہوگئی

    جکارتہ : انڈونیشیا کے سیاحتی جزیرے پر زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں، جس کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 14 ہوگئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایشیائی ملک انڈونیشیا کے وسطی جزیرے لومبک میں اتوار کی صبح 7 بجے کے قریب خوفناک زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں، جس نتیجے میں متعدد عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ درجنوں افراد زخمی ہیں۔

    انڈونیشیا کے حکام کا کہنا ہے کہ لومبک جزیزہ پوری دنیا سے انڈونیشیا آنے والے سیاحوں کا پسندیدہ سیاحتی مقام ہیں جہاں عموماً بے تحاشا سیاح موجود رہتے ہیں۔

    قبل ازیں امریکی زلزلہ پیما کے مطابق انڈونیشیا میں آنے والے ریکٹر اسکیل پر 6.4 شدت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں، جس کے باعث 10 افراد ہلاک ہوگئے، امریکا کے ماہر ارضیات کا کہنا ہے کہ انڈونیشیا میں آنے والے زلزلے کا مرکز شمالی شہر ماترام سے 50 کیلومیٹر دور شمالی لومبک تھا۔

    انڈونیشیا کے ڈیزاسٹر ایجنسی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ زلزلے کے نتیجے میں درجنوں گھر زمین بوس ہوگئے ہیں اور 40 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔

    انڈونیشین حکام کا کہنا ہے کہ خوفناک حادثے میں زخمی اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا اندازہ کرلیا گیا ہے کہ البتہ تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے، تاہم ہم ابھی تک مکمل معلومات جمع نہیں سکے ہیں۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ ’امدادی خدمات انجام دینے والے رضاکاروں کی پہلی ترجیج متاثرہ افراد کو جائے حادثہ سے نکالنے اور زخمیوں کو ریسکیو کرنا ہے، حادثے میں زخمی ہونے والے چند افراد کا مقامی طبی مراکز میں علاج جاری ہے۔

    واقعے کے عینی شاہد نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ’زلزلے بہت طاقتور تھا، جس کے باعث میرے گھر میں سب خوفزدہ ہوگئے اور فوری طور پر گھر سے باہر انکل آئے تھے‘۔

    عینی شاہد کا مزید کہنا تھا کہ زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوتے ہی میرے تمام پڑوسی اور اہل محلہ بھی گھروں سے باہر آگئے تھے اور بجلی فوری طور بند ہوگئی تھی۔


    انڈونیشیا میں زلزلے کے شدید جھٹکے ‘ 2 افراد ہلاک


    خیال رہے کہ انڈونیشیا بحرالکاہل کے ایک ایسے حصے میں واقعہ ہے جہاں زلزلے آنے اور آتش فشاں پہاڑ پھٹنے کے واقعات عموماً رونما ہوتے رہتے ہیں اور دنیا بھر تقریباً آدھے آتش فشاں اسی حصّے میں پائے جاتے ہیں۔

    یاد رہے 7 ماہ قبل بھی انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ سمیت گنجان آباد جزیرے جاوا میں زلرلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے تھے، جس کے نتیجے میں 2 افراد ہلاک جبکہ کئی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • برازیلی جزیرے میں بارہ سال بعد بچے کی اچانک ولادت، علاقہ میں خوشی کی لہر

    برازیلی جزیرے میں بارہ سال بعد بچے کی اچانک ولادت، علاقہ میں خوشی کی لہر

    براسیلیا : برازیل کے ایک جزیرے میں سخت حکومتی پابندی کے باوجود بارہ سال بعد بچے کی اچانک ولادت پر جشن منایا گیا ۔

    تفصیلات کے مطابق برازیل کے فرنینڈو ڈی نورونہا نامی ایک جزیرے میں حکومت کی جانب سے بچوں کی ولادت پر پابندی عائد ہے اس کے باوجود بارہ سال بعد ایک خاتون کے ہاں بچی ولادت ہوئی ہے جس پر اہل علاقہ نے خوب جشن منایا۔

    برازیل کے معروف شہر نیٹال سے 370 کلو میٹر کے فاصلے پر اس جزیرے میں تقریباً تین ہزار افراد آباد ہیں جبکہ یہاں کے مقامی اسپتال میں میٹرنٹی ہومز کی کوئی سہولت میسر نہیں ہے، جزیرے کی جو خواتین حاملہ ہوتی ہیں انہیں یہ کہا جا تا ہے کہ وہ بچے کی ولادت کے لیے مین لینڈ جائيں۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق اسی جزیرے کی ایک خاتون نے گزشتہ روز ایک بچی کو جنم دیا ہے، اس حوالے سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ مجھے معلوم ہی نہ ہوسکا کہ میں کب حاملہ ہوئی اچانک خبر ہونے پر میں حیرت زدہ رہ گئی۔

    یہ بات میرے اور میرے شوہر کیلئے انتہائی باعث مسرت تھی، بائیس سالہ خاتون نے بتایا کہ بچی کی پیدائش کے بعد اسے مقامی اسپتال لے جایا گیا، جہاں اس کی حالت بہت بہتر ہے، مقامی رہائشی بچی کی پیدائش پر بہت خوش ہیں اور اس خاندان کی مدد کر رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ڈیرہ غازی خان ،سرکاری اسپتال کے باہرجھاڑیوں میں بچےکی ولادت

    واضح رہے کہ فرنانڈو ڈی نورونہا جزیرے کا ساحل دنیا کے خوبصورت ترین ساحلوں میں شمار ہوتا ہے، جزیرے کے معروف زیر آب حیاتی وسائل کے تحفظ کے لئے جزیرے کی آبادی کو محدود رکھا جا رہا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • پریانکا کی جزیرے پر سیر و تفریح، تصاویر وائرل

    پریانکا کی جزیرے پر سیر و تفریح، تصاویر وائرل

    ممبئی: بالی ووڈ اداکارہ پریانکا چوپڑا جزیرے پر سیر و تفریح کے لیے پہنچیں اور انہوں نے اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کیں جو انٹرنیٹ پر وائرل ہوگئیں۔

    تفصیلات کے مطابق بالی ووڈ اداکارہ ہالی ووڈ شو ’کوانٹیکو 3‘ کے لیے امریکا میں موجود ہیں انہوں نے گزشتہ ہفتے طویل مصروفیات کے بعد فراغت کا وقت ملتے ہی جزیرے کا رخ کیا۔

    اداکارہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنی مختلف تصاویر شیئر کیں اور بتایا کہ وہ چھٹیاں گزارنے کے لیے خوبصورت مقام پر موجود ہیں۔

    واضح رہے کہ پریانکا چوپڑا سن 2000 میں عالمی حسینہ قرار پائی تھیں جس کے بعد انہیں دنیا بھر میں پذیرائی ملی اور انہوں نے بالی ووڈ انڈسٹری میں قدم رکھا۔

    اداکارہ نے شوبز انڈسٹری میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تو انہیں ہالی ووڈ کے فلم ڈائریکٹر نے اُن سے رابطہ کیا اور وہ گزشتہ برس ’ہاؤس آف کارڈ‘ میں رابن ورتھ کے ساتھ مرکزی کردار ادا کرتی نظر آئیں تھیں۔

    مزید پڑھیں: 12 سال کی عمر میں شادی کرنا چاہتی تھی، پریانکا کا اعتراف

    پریانکا نے فلم میں اپنا کردار احسن طریقے سے نبھایا جس کے باعث مداحوں نے نہ صرف اسے پسند کیا بلکہ باکس آفس پر بھی فلم نے کامیابی کے جھنڈے لہرائے تھے۔

    خیال رہے کہ برطانوی جریدے فوربز میگزین میں بالی ووڈ اداکارہ پریانکا چوپڑا کا نام زیادہ کمانے والے اداکاروں کی فہرست میں آٹھویں نمبر جبکہ جرمنی سے شائع ہونے والی 100 بااثر خواتین کی فہرست میں اُن کا درجہ 97ویں نمبر آیا تھا۔

    بھارتی اداکارہ پریانکا چوپڑا یونیسیف کی خیر سگالی سفیر بھی ہیں وہ دنیا بھر میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام سرگرم ہیں اور چند روز قبل شام سے اردن ہجرت کرنے والے مہاجرین کے کیمپس میں متاثرہ بچوں سے ملاقاتیں بھی کیں تھیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • مصری عدالت نے سعودی عرب کو جزیرے نہ دینے کا فیصلہ سنا دیا

    مصری عدالت نے سعودی عرب کو جزیرے نہ دینے کا فیصلہ سنا دیا

    قاہرہ : سعودی عرب کی جانب سے مصر کے دو جزیرے اسکے حوالے کرنے کے منصوبے سے متعلق مقدمے میں مصر کی اعلیٰ عدالت نے ذیلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے دونوں جزیروں کو سعودی عرب کے حوالے نہ کرنے کا فیصلہ سنا دیا، فیصلہ سنتے ہی کمرہ عدالت تالیوں سے گوج اٹھا۔

    تفصیلات کے مطابق مصر کی ایک اعلیٰ عدالت نے بحیرۂ احمر کے دو جزیروں کو سعودی عرب کے حوالے نہ کرنے کے عدالتی فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔

    مصر کی اعلیٰ انتظامی عدالت (ہائی ایڈمنسٹریٹو کورٹ) نے یہ فیصلہ حکومت کی اس اپیل پر سنایا ہے جس میں مصری حکومت نے استدعا کی تھی کہ ایک ذیلی عدالت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے جس میں عدالت نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ تیران اور صنافیر نامی جزیروں کو سعودی عرب کے حوالے کرنے کے منصوبے کو روک دے۔

    پیر کو جب جج نے یہ فیصلہ سنایا کہ مصری حکومت یہ ثبوت فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے کہ مذکورہ دو جزیرے دراصل سعودی عرب کی ملکیت تھے، تو کمرہ عدالت تالیوں سے گونج اٹھا۔

    ان جزیروں کو سعودی عرب کے حوالے کرنے کے منصوبے پر جب گذشتہ سال اپریل میں دونوں ممالک کی جانب سے دستخط کیے گئے تھے تو مصر میں اس کے خلاف احتجاج بھی ہوا تھا۔ مصری یا سعودی حکومت کی جانب سے عدالت کے اس فیصلے پر کوئی فوری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

    اس بارے میں صدر عبدالفتح السیسی کا کہنا تھا کہ یہ جزیرے ہمیشہ سے سعودی عرب کی ملکیت تھے اور سعودی عرب نے سنہ 1950 میں مصر سے درخواست کی تھی کہ ان جزیروں کی حفاظت کے لیے وہ وہاں پر اپنے فوجی تعینات کر دے۔ لیکن اس بیان کے بعد السیسی پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ملکی آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور اصل میں وہ یہ جزیرے سعودی عرب کو ’فروخت‘ کر رہے ہیں جس کے جواب میں وہ سعودی عرب سے اربوں ڈالر کی امداد لے رہے ہیں۔

    ناقدین کے بقول سعودی عرب کے شاہ سلمان نے اپنے قاہرہ کے دورے کے موقع پر جس امدادی پیکج کا اعلان کیا تھا وہ ان ہی جزیروں کی منتقلی کے جواب میں تھا۔