Tag: Jail

  • نیب کا 55 لوکو موٹیو انجن خریداری پر  سعد رفیق سے جیل میں تفتیش کا فیصلہ

    نیب کا 55 لوکو موٹیو انجن خریداری پر سعد رفیق سے جیل میں تفتیش کا فیصلہ

    لاہور : سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی جیل جانے کے بعد بھی نیب سے جان نہ چھوٹ سکی، نیب نے ریلوے میں مہنگے داموں 55 لوکو موٹیوز انجن خریدنے کے معاملے پر سعد رفیق سے جیل میں تفتیش کا فیصلہ کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق نیب نے ریلوے میں مہنگے داموں 55 لوکو موٹیوز انجن خریدنے کے معاملے پر سعد رفیق سے جیل میں تفتیش کا فیصلہ کیا ہے، جس کیلئے نیب کی تفتیشی ٹیم جیل میں تفیتش کی اجازت کے لیے جلد احتساب عدالت میں درخواست دے گی۔

    ذرائع کا کہنا ہے خواجہ سعد رفیق نے بطور وزیر ریلوے 55 لوکوموٹیوز انجن مہنگے داموں خریدنے کی منظوری دی تھی، 55 میں سے صرف 10 لوکوموٹیو انجن استعمال میں ہیں جبکہ 45 لوکو موٹیو اضافی خریدے گئے، جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔

    مزید پڑھیں : نیب نےسعدرفیق کےخلاف مہنگےٹرین انجن خریدنے پرتحقیقات شروع کردیں

    یاد رہے گذشتہ دسمبر میں نیب نے خواجہ سعد رفیق کے خلاف مہنگے داموں ریلوے انجن خریدنے پر بھی تحقیقات شروع کیں تھیں ، ذرائع کا کہنا تھا کہ بھارت نے جو انجن25 کروڑ میں خریدے، وہی سعدرفیق نے 40کروڑمیں خریدے۔

    خیال رہے نیب نے سابق وفاقی وزیر ریلوے کو پیراگون اسکینڈل میں گرفتار کیا تھا، 54 روز تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کی حوالات میں رہنے کے بعد اب جوڈیشل ریمانڈ پر کیمپ جیل میں قید ہیں۔

    واضح رہے کہ آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی کی تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے پیراگون سوسائٹی سے براہ راست روابط ہیں، پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کے ذریعے آشیانہ اسکیم لانچ کی گئی تھی۔

    نیب کے مطابق وفاقی وزیر ہوتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا تھا اور شواہد کو ٹمپر کرنے کی کوشش بھی کی، دونوں بھائیوں نے اپنے ساتھیوں سے مل کر عوام کو دھوکہ دیا اور رقم بٹوری۔

  • جیل میں کلثوم بہت یادآتی ہیں انہیں بہت مس کرتاہوں، نواز شریف

    جیل میں کلثوم بہت یادآتی ہیں انہیں بہت مس کرتاہوں، نواز شریف

    لاہور : نوازشریف نے خاندان اوررہنماؤں سے جیل میں ملاقات کی ، نواز شریف کا کہنا ہے کہ جیل میں کلثوم بہت یادآتی ہیں انہیں بہت مس کرتا ہوں، کلثوم  نواز  سے  زندگی کے آخری ایام میں بات نہ ہونےکی تشنگی رہےگی،  روزانہ صرف ایک اخبار ملتاہے جسے بار بار پڑھتاہوں۔

    تفصلات کے مطابق جیل میں ملاقات کے دن مریم نواز والد سے ملنے کوٹ لکھپت جیل پہنچ گئیں، مریم نواز کے ساتھ نواز شریف کی والدہ شمیم اختر اور خاندان کے دیگر افراد بھی موجود ہیں۔

    مریم نواز والد کیلئے کھانا گھر سے ساتھ لائی ہیں، نوازشریف  نےدوپہرکا کھانا اہل خانہ کے ساتھ کھایا اور ملاقات میں پارٹی امور اوردیگر معاملات پر بھی گفتگو ہوئی۔

    [bs-quote quote=” روزانہ صرف ایک اخبارملتاہےجسےباربارپڑھتاہوں” style=”style-6″ align=”left” author_name=”نواز شریف”][/bs-quote]

    نوازشریف کی رہنماؤں سے بھی جیل میں ملاقات ہوئی ، رہنماؤں نے سوال کیا نواز شریف جیل میں کس چیز کو زیادہ مس کرتےہیں ، جس پر انھوں نے جواب دیا ہ جیل میں کلثوم بہت یادآتی ہیں انہیں بہت مس کرتاہوں، جب جیل میں تھاتو بہت کوشش کی کلثوم نواز سے بات ہو جائے، کلثوم نواز سے زندگی کے آخری ایام میں بات نہ ہونے کی تشنگی رہےگی۔

    خواجہ آصف نےنوازشریف کوموجودہ ملکی حالات پربریفنگ دی ، نوازشریف نے ملکی معاشی صورتحال پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا سنا ہے پھر سے بجلی اورگیس کی لوڈشیڈنگ شروع ہوگئی ہے، ہم نے دن رات محنت کرکے بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پایا، روزانہ صرف ایک اخبارملتا ہے جسے بار بار پڑھتاہوں۔

    نوازشریف نے جیل حالات کاگلہ پارٹی رہنماؤں سے کرتے ہوئے کہا جیل کےکمرےٹھنڈےہیں ہیٹربھی مرضی سےچلتاہے، گزشتہ دنوں ٹھنڈکےباعث صحت خراب ہوگئی تھی، حالات کامقابلہ کروں گا گھبرایا نہیں۔

    نوازشریف سے ملاقات کرنےوالوں میں مشاہداللہ،راناثنااللہ اور مریم اورنگزیب سمیت دیگرشامل تھے۔

    خیال رہے کہ نواز شریف قید با مشقت کاٹ رہے ہیں ، اور جیل حکام کی جانب سے انہیں محض ان کے وارڈ کی صفائی کی مشقت پر معمور کیا گیاہے۔

    واضح رہے نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت نے سات سال قید اور ساڑھے تین ارب روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے، انہیں ان کی درخواست پر اڈیالہ کے بجائے کوٹ لکھپت جیل منتقل کیا گیا تھا جہاں انہیں اہل ِ خانہ سےملاقات اور گھر کے کھانے کی سہولت میسر ہے،  اس کے علاوہ انہیں جیل میں بنیادی سہولیات بھی میسر ہیں ، جن میں بمیز، 3 کرسیاں، گدا، اخبار اور دیگر ضروری چیزیں شامل ہیں۔

  • دبئی : منشیات اسمگلنگ کے جرم میں پاکستانی شہری گرفتار

    دبئی : منشیات اسمگلنگ کے جرم میں پاکستانی شہری گرفتار

    دبئی  : اماراتی عدالت نے منشیات اسمگلنگ کے جرم میں پاکستانی شہری کو 10 برس قید اور بھاری جرمانے کی سزا سنا دی۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی کی عدالت نے 1.35 کلو ہیروئن شارجہ اسمگل کرنے کے جرم میں اسمگلر کو قید کی سزا سناتے ہوئے جیل بھیجنے کا حکم سے دیا۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ملزم کو ایئرپوريٹ پر سامان کی تلاشی کے دوران پکڑا تھا، جس کے بعد پاکستانی شہری نے دعویٰ کیا تھا کہ منشیات اسمگلنگ والا بیگ نہیں بلکہ اس کے ایک عزیز کا ہے کہ ج کمپیوٹر میں ہو۔

    مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ 34 پاکستانی شہری کا بیگ دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اسکین کیا گیا تو بیگ میں چھوٹے چھوٹے مشکوک بیگز موجود تھے۔

    کسٹم افسر نے مسافر کے بیگ سے دو لفافے برآمد ہوئے جس میں کوکین موجود تھی، تاہم مسافر نے دعویٰ کیا کہ اسے منشیات سے متعلق کوئی علم نہیں تھا منشیات سے بھرا بیگ میرے خلاف ایک سازش ہے۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا میں دبئی کورٹ میں منشیات اسمگلنگ کیس کی سماعت ہوئی جس میں پاکستانی شہری پر کوئی جرم ابت نہیں ہوا۔

    اماراتی میڈیا کے مطابق پیر کے روز عدالت نے کی کیس کی سماعت کرتے ہوئے ملزم کو 50 ہزار درہم جرمانے اور 10 برس قید کی سزا سناتے ہوئے جیل بھیجنے کا حکم دیا۔

    دبئی: منشیات فروشی کے الزام میں پاکستانی ڈرائیور گرفتار

    یاد رہے کہ رواں برس اماراتی پولیس نے دبئی میں ڈرائیور کی ملازمت کرنے والے پاکستانی کو منشیات فروشی کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا۔

    منشیات اسمگلنگ: عرب ملک میں پاکستانیوں کے ملوث ہونے کا انکشاف

    خیال رہے کہ  رواں برس اپریل میں متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی کے سینئر پولیس چیف دبئی نے کہا تھا کہ  پاکستانیوں کے مقابلے میں بھارتی زیادہ نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں، پاکستانی منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث پائے جاتے ہیں۔

  • محکمہ جیل خانہ جات کا سندھ میں جیلوں کی ابتر صورتحال کا اعتراف

    محکمہ جیل خانہ جات کا سندھ میں جیلوں کی ابتر صورتحال کا اعتراف

    کراچی: محکمہ جیل خانہ جات نے سندھ میں جیلوں کی ابتر صورتحال کا اعتراف کرلیا۔ محکمے کے مطابق 24 سو قیدیوں کی گنجائش والی جیل میں 4 ہزار سے زائد قیدی موجود ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ جیل خانہ جات نے سندھ کی جیلوں سے متعلق رپورٹ جاری کردی جس میں جیلوں کی ابتر صورتحال کا اعتراف کرلیا گیا۔

    محکمہ جیل خانہ جات کی رپورٹ کے مطابق ہر سال جیلوں میں قیدیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ سینٹرل جیل کراچی کی گنجائش 2400 ہے لیکن اس وقت وہاں 4 ہزار 846 قیدی موجود ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ کراچی کی ملیر جیل میں گنجائش سے 3 ہزار 449 زائد قیدی موجود ہیں۔

    محکمے کا کہنا ہے کہ کراچی کے ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ جیل کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں ایک ہزار انتہائی خطرناک قیدیوں کے لیے ہائی سیکیورٹی جیل کی تعمیر التوا کا شکار ہے۔

    خیال رہے کہ جیلوں کی ابتر صورتحال سے متعلق کیس سپریم کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے۔ ایک سماعت کے دوران نمائندہ محتسب نے عدالت کو بتایا تھا کہ پاکستان میں 98 جیلیں ہیں۔ جیلوں میں 56 ہزار سے زائد قیدیوں کی گنجائش ہے جبکہ 78 ہزار 1 سو 60 قیدی جیلوں میں موجود ہیں۔

    عدالت نے وفاقی محتسب سے جیل کی بہتری کے لیے تجاویز بھی طلب کی تھیں جس کے لیے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ دی گئی تجاویز اور سفارشات پر عملدر آمد کروانا چیف سیکرٹریز اور آئی جیز کی ذمہ داری ہے۔

  • امریکی پادری کی رہائی کے بعد امریکا نے ترکی سے پابندیاں اٹھانے کا عندیہ دے دیا

    امریکی پادری کی رہائی کے بعد امریکا نے ترکی سے پابندیاں اٹھانے کا عندیہ دے دیا

    واشنگٹن: ترکی میں قید امریکی پادری اینڈریو براؤنسن کی رہائی کے بعد امریکا نے اپنی پابندیاں ختم کرنے کا عندیہ دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے ترک ہم منصب مولود چاؤش سے ملاقات کی اس دوران ترکی پر امریکی پابندیوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق مولودی چاؤش اور امریکی وزیر خارجہ کی ملاقات ترک دارالحکومت انقرہ میں ہوئی، اپنے ترک ہم منصب سے ملاقات کے دوران مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ ترکی پر عائد امریکی پابندیاں اٹھائی جا سکتی ہیں۔

    دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں باہمی تعلقات میں بہتری کے علاوہ جمال خاشقجی کیس کے حوالے سے بھی گفتگو کی گئی۔

    ترکی پہنچنے سے قبل بیلجیم میں صحافیوں سے گفتگو میں پومپیو نے کہا تھا کہ امریکی پادری کی ترکی میں حراست کے حوالے سے انقرہ حکومت پر عائد کی جانے والی پابندیوں کو اب ہٹایا جا سکتا ہے۔

    ترک عدالت نےامریکی پادری کو رہا کردیا

    خیال رہے کہ گذشتہ دنوں ترکی کی عدالت نے دہشت گردوں سے تعلقات کے الزام میں گرفتار امریکی پادری کو رہائی دے دی ہے۔

    یاد رہے کہ سنہ 2016 میں حکومت مخالف تنظیموں سے تعلقات کے شبے میں اینڈریو براؤنسن کو گرفتارکیا تھا، جس کے بعد ترکی اور امریکا کے درمیان شدید کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔

    ترک عدالت نے اکتوبر2016 میں امریکی پادری کو دہشت گردی کے الزام میں تین سال قید کی سزا سنائی تھی اور اگست میں انہیں ایک گھر میں نظربند کردیا تھا۔

    واضح رہے کہ 26 جولائی 2018 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا تھا کہ اگر ترکی نے امریکی پادری کو رہا نہ کیا تو اسے سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

  • یو اے ای : جنسی ہراسگی کیس موبائل ٹیکنیشن کو قید کی سزا

    یو اے ای : جنسی ہراسگی کیس موبائل ٹیکنیشن کو قید کی سزا

    راس الخیمہ : متحدہ عرب امارات کی عدالت نے خاتون کو جنسی پر طور پر ہراساں کرنے کے جرم میں موبائل ٹیکنیشن کو 6 ماہ قید اور  ملک بدر کرنے کی سزا سنا دی.

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات کی ریاست راس الخیمہ کی فوج داری عدالت نے جنسی ہراسگی کے الزام کے گرفتار موبائل ٹیکنیشن کو جرم ثابت ہونے پر قید کی وزا سناتے ہوئے جیل منتقل کرنے کا حکام دیا ہے۔

    اماراتی میڈیا کا کہنا ہے کہ متاثرہ خاتون نے ملزم کو موبائل ٹھیک کرنے کے لیے دیا تھا تاہم ملزم نے موبائل موجود خاتون کی ذاتی تصاویر نکالنے کے بعد مدعی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی تھی۔

    عدالتی دستاویزات کے مطابق موبائل ٹیکنیشن کے خلاف رواں برس 22 جولائی کو راست الخیمہ کے علاقے مامورا پولیس اسٹیشن میں شکایت درج ہوئی تھی، جس میں خاتون نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ملزم نے میری مرضی کے خلاف مجھے پکڑا تھا۔

    متاثرہ لڑکی نے عدالت کو بتایا کہ میری موبائل کی اسکرین خراب ہوگئی تھی جسے ٹھیک کرنے کے لیے میں اپنا موبائل مذکورہ شخص کو دیا تھا، ملزم نے موبائل معائنہ کرنے کا کہہ کر مجھ سے موبائل کا پاسپورڈ وصول کیا تھا لیکن اس نے پاسپورڈ حاصل کرنے کے لیے میری ذاتی تصاویر حاصل کی اور مجھے ہراساں کرنے کی کوشش کی۔

    دوسری جانب ملزم کے وکیل نے خاتون کی جانب سے عائد کردہ الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ خاتون نے میرے موکل پر بے بنیاد الزامات لگائے ہیں جبکہ مدعی نے موکل کے خلاف عدالت کو کسی قسم کے شواہد پیش نہیں کیے۔

    ملزم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کے میرے کا ہاتھ غلطی نے خاتون کے کندھے پر لگ گیا تھا تاہم انہوں اسی وقت کسٹمر سے اپنی غلطی پر معافی مانگ لی تھی، تاہم خاتون نے میرے موکل کو موبائل ٹھیک کروانے 100 درہم اجرت بھی ادا نہیں اور جنسی ہراسگی کی شکایت بھی درج کروائی۔

    ملزم کے وکیل نے جنسی ہراسگی کیس کی سماعت کے دوران عدالت کو آگاہ کیا کہ خاتون نے ہراسگی کو دعویٰ کرنے کے چار گھنٹے بعد پولیس کو شکایت درج کروائی تھی۔

    راس الخیمہ کی عدالت نے مدعی اور وکیل صفائی کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد موبائل ٹیکنیشن پر جرم ثابت ہونے پر 6 ماہ قید کی سزا سناتے ہوئے ملک بدر کرنے کا حکم دیا۔

  • سعودی عرب میں پاکستانی سفیر کا سب سے بڑی جیل الحائر کا دورہ

    سعودی عرب میں پاکستانی سفیر کا سب سے بڑی جیل الحائر کا دورہ

    ریاض: سعودی عرب میں پاکستانی سفیر خان ہشام بن صدیق نے سب سے بڑی جیل الحائر کا دورہ کیا اور جیل کے ڈائریکٹر کرنل عبدالحکیم الصویغ سے ملاقات کی۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب میں تعینات پاکستانی سفیر خان ہشام بن صدیق نے سب سے بڑی جیل الحائر کا دورہ کیا اور پاکستانی قیدیوں سے متعلق بات چیت بھی کی۔

    دورہ سے متعلق پاکستانی سفیر ہشام بن صدیق کا کہنا ہے کہ سفارت خانہ ادارہ جیل خانہ جات کے ساتھ رابطوں کو مستحکم کررہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ سعودی جیل میں قید پاکستانیوں سے متعلق بات ہوئی ہے جبکہ سفارت خانہ سزائیں ختم ہونے پر رکاوٹیں دور کرنے کے لیے کام بھی کررہا ہے۔

    سعودی جیلوں میں 40 ممالک کے 5 ہزار شہری قید، پاکستانی بھی شامل

    پاکستانی سفیر کا مزید کہنا تھا کہ حکومتی ہدایت پر پاکستانی قیدیوں کی ہرممکن مدد کریں گے، قیدیوں کی منتقلی کے لیے سعودی عرب سے معاہدے کی کوششیں کررہے ہیں۔

    خیال رہے کہ گذشتہ سال سعودی وزارتِ داخلہ نے اپنے جاری کردہ رپورٹ میں کہا تھا کہ چالیس ملکوں کے 5085 شہری دہشت گردی کی سرگرمیوں یا سیکیورٹی سے متعلق کیسوں میں ملوّث پائے گئے، جن میں 68 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔

    یاد رہے کہ سعودی حکام نے کہا تھا کہ زیر حراست یا قید افراد میں سے کچھ کے خلاف عدالتی احکامات کی روشنی میں تحقیقات کا عمل جاری ہے جبکہ انٹیلی جنس ادارے بھی غیر ملکی قیدیوں کے خلاف تفتیش کررہی ہے۔

  • دبئی: پولیس افسران پر تشدد کرنے کے جرم میں برطانوی سیاح کو سزا

    دبئی: پولیس افسران پر تشدد کرنے کے جرم میں برطانوی سیاح کو سزا

    دبئی : متحدہ عرب امارات کی عدالت نے برطانوی سیاح کو شراب پینے، دو پولیس افسران پر تشدد کرنے اور پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچانے کے جرم میں سزا سناتے ہوئے ٹرائل پر جیل بھیج دیا۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں سیاحت کی غرض سے آنے والے برطانوی سیاح کو پولیس افسران پر تشدد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، عدالت نے الزام ثابت ہونے پر سیاح کو ٹرائل پر جیل منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔

    دبئی پولیس کا کہنا تھا کہ دبئ میں سیاحت کے لیے آنے والے 29 سالہ برطانوی شخص نے نشے کی حالت میں پولیس افسران کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

    عدالتی دستاویزات کے مطابق 29 سالہ برطانوی شہری نے شراب پی کر ہوٹل میں غیر اخلاقی حرکات انجام دیں، ٹیلی فون اور آگ بجانے کے آلے کو نقصان پہنچایا، پولیس افسران کی جانب سے روکنے پر پولیس افسران کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ مذکورہ شخص نے گرفتار کرنے والی خاتون پولیس سارجنٹ کا موبائل فون بھی توڑا تھا اور بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا بھی تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ گرفتار برطانوی شخص نے عدالت میں خود پر لگائے گئے تمام الزامات کی تردید کی تھی۔

    عدالت نے برطانوی شخص پر الزام ثابت ہونے پر بغیر لائسنس کے شراب پینے، خاتون پولیس افسر پر تشدد کرنے اور پولیس کار کو نقصان پہنچانے کے جرم میں سزا سناتے ہوئے ٹرائل پر جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ مذکورہ شخص کو رواں برس 6 فروری کو گرفتار کیا گیا تھا۔

  • جیل میں قید خواتین اپنا جرم بے گناہی ثابت ہونے کی منتظر

    جیل میں قید خواتین اپنا جرم بے گناہی ثابت ہونے کی منتظر

     35 سالہ شاہدہ گزشتہ 10 سال سے کراچی سینٹرل جیل کی مکین ہے۔ اسے اغوا کے جرم میں 13 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ جب اسے سزا سنائی گئی تو اسے جیل میں اتنے سال ہوچکے تھے کہ وہ بھول گئی تھی کہ کھلی فضا میں سانس لینا کیسا ہوتا ہے۔

    شاہدہ کی سزا کے مزید 3 سال باقی ہیں۔ جیل سے باہر اس کے 3 بچے ہیں جو اپنی ماں کی آزادی کی راہ تک رہے ہیں۔

    اپنے بچوں کے ذکر پر شاہدہ کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ ’وہ رشتے داروں کے گھر رہتے ہیں، اب تو اسکول بھی جاتے ہیں، ان کی فیس میں ہی دیتی ہوں، جی چاہتا ہے کہ جلدی سے قید کا عرصہ ختم ہو اور میں اپنے بچوں کے ساتھ جا کر رہوں‘۔

    ایک شاہدہ ہی نہیں، کراچی سینٹرل جیل میں اس جیسی بے شمار خواتین ہیں جو اپنی رہائی کی منتظر ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ شاہدہ کو معلوم ہے اسے گھر کب واپس جانا ہے، زیادہ تر خواتین نہیں جانتیں کہ ان کے کردہ یا ناکردہ جرم کی سزا کب ختم ہوگی اور وہ کب گھروں کو لوٹ سکیں گی۔

    یہ وہ خواتین ہیں جو انڈر ٹرائل ہیں یعنی ان کے مقدمات زیر تفتیش ہیں۔ کراچی سینٹرل جیل میں اس وقت 125 خواتین موجود ہیں جن میں سے صرف 23 سزا یافتہ ہیں، بقیہ سب اپنے مقدموں کے فیصلوں کی منتظر ہیں۔

    زرینہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ زرینہ گزشتہ 5 سال سے جیل میں ہے اور تاحال اسے علم نہیں کہ اس پر جو الزام لگایا گیا ہے آیا وہ جھوٹا ثابت ہوگا اور وہ بری ہوسکے گی، یا الزام ثابت ہونے کے بعد اسے مزید ایک طویل عرصہ جیل میں ہی گزارنا ہوگا۔

    زرینہ کے اوپر قتل کا الزام ہے، لیکن بقول اس کے وہ قتل اس نے نہیں کیا۔ ’قتل میرے بھائی نے کیا، سب نے اس کو بچانے کے لیے مجھے پولیس کے حوالے کردیا۔ شاید ان کے لیے اس کی زندگی اہم تھی میری نہیں‘۔

    ہر دوسرے تیسرے ماہ زرینہ اپنے کیس کی سماعت کے لیے عدالت جاتی ہے، اور ہر بار ’سماعت ملتوی کی جاتی ہے‘ کے اذیت ناک الفاظ سن کر واپس جیل آجاتی ہے۔ ’ معلوم نہیں میں دوبارہ کھلی فضا میں سانس لے بھی سکوں گی یا نہیں‘۔

    کچھ ایسا ہی احوال بچہ جیل کا ہے۔ بچہ جیل میں بھی صرف چند سزا یافتہ ہیں جبکہ بقیہ سب انڈر ٹرائل ہیں۔

    16 سال سے کم عمر تک کے یہاں آنے والے بچے زیادہ تر منشیات فروشی کے جرم میں یہاں موجود ہیں۔ ایک آدھ ایسا بھی ہے جس نے ریپ کی ناکام کوشش کی۔

    ان بچوں کو وکیل کی خدمات زیادہ تر مختلف این جی اوز کی جانب سے فراہم کی جاتی ہے۔ کچھ بچے ایسے بھی ہیں جن کے پاس جرمانے کی رقم دینے کے لیے پیسے نہیں چنانچہ انہیں مزید کچھ عرصہ جیل میں گزارنا پڑتا ہے۔

    ایسے موقع پر بھی مختلف این جی اوز ان کے جرمانے کی رقم ادا کردیتی ہیں۔

    یہ صرف کراچی سینٹرل جیل کا احوال نہیں۔ ملک کے طول و عرض میں ایسی بے شمار جیلیں ہیں جن میں لاتعداد قیدی موجود ہیں جو اپنے مقدمات کے فیصلوں کے منتظر ہیں۔ عدالتی نظام اور پولیس کی تفتیش میں سقم ان کے معمولی سے جرم کی قید کو اس قدر طویل بنا دیتے ہیں کہ جیل سے نکل بھی آئیں تو سوچتے ہیں ’جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں‘۔

    لیکن اس تاخیر کی وجہ کیا ہے؟

    لاہور کے ایک وکیل صفدر شاہین نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے تحت پولیس کو 14 دنوں کے اندر سیکشن 173 کی رپورٹ یعنی چالان پیش کرنا لازمی ہے۔ اب یہاں پولیس کی کارکردگی کی بات آجاتی ہے اور یہیں سے تاخیر کا آغاز ہوتا ہے، یہ چالان بعض اوقات سالوں پر محیط ہوجاتا ہے اور پولیس مہینوں سالوں تک یہ چالان عدالت میں پیش نہیں کرتی۔

    اب اس چالان کو پیش نہ کرنے کی بھی بے شمار وجوہات ہیں۔ جہاں ذرا سا ملزم یا اس کے اہلخانہ نے پولیس کے مطالبات کو ماننے سے انکار کیا، یا ان سے تلخ کلامی کی، یہیں سے پولیس کی ان سے مخاصمت شروع ہوجاتی ہے۔

    صفدر شاہین کا کہنا تھا کہ ایسے موقع پر کسی بھی کیس میں اگر کوئی اکیلی عورت پولیس کے ہتھے چڑھ جائے تو سب سے پہلے پولیس کا جو مطالبہ ہوتا ہے وہ سب ہی جانتے ہیں۔

    یہ صورتحال دونوں صورتوں میں لاگو ہوتی ہے۔ پہلے پولیس مدعی یعنی شکایت کرنے والے سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے اور ناکامی کی صورت میں ملزم کو پکڑنے میں تساہل دکھاتی ہے۔

    اسی طرح اگر مدعی صاحب حیثیت ہو تو بے شک اس نے کسی پر جھوٹا الزام لگایا ہو، پولیس ملزم سمیت اس کے پورے گھر والوں کو حوالات میں لا پٹختی ہے ورنہ انہیں اس اس طرح سے تنگ کیا جاتا ہے کہ ملزم کے اہلخانہ مرنے کا سوچنے لگتے ہیں۔

    اس کے ساتھ ساتھ ملزم پر اس قدر تشدد کیا جاتا ہے کہ وہ زندگی بھر اس ذہنی اذیت سے باہر نہیں نکل پاتا۔

    دوسری وجہ گواہان کا عدالت میں پیش نہ ہونا ہے۔ ان کی عدالت میں نہ آنے کی سب سے بڑی وجہ تو ان کی سیکیورٹی نہ ہونا ہے۔ اگر فریقین میں سے ایک شخص طاقتور ہو تو اس کے خلاف گواہی دینے والے کی جان اور عزت ویسے ہی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اسے دھمکیوں کا سامنا ہوتا ہے جن پر بعض اوقات عمل بھی ہوجاتا ہے۔

    صفدر شاہین نے بتایا کہ ہائی پروفائل کیسز میں تو یہ باقاعدہ چین چلتی ہے، ایک کے بعد ایک گواہ اپنی جان، مال یا عزت سے ہاتھ دھوتا رہتا ہے نتیجتاً بقیہ گواہ خود ہی منحرف ہوجاتے ہیں یا عدالت میں پیش ہی نہیں ہوتے۔

    ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پولیس اتنے عرصے بعد چالان پیش کرتی ہے، اور اتنے عرصے بعد گواہ کو طلبی کا سمن جاری ہوتا ہے کہ وہ کہتا ہے یہ تو 6 مہینے یا سال پہلے کا واقعہ ہے مجھے تو اب یاد بھی نہیں کہ میں نے کیا دیکھا تھا اور کیا نہیں۔

    بعض کیسز میں پولیس کو گواہی دینی ہو تو وہ کبھی بھی تیاری کر کے نہیں آتے جن کی وجہ سے یا تو ملزم کو شک کا فائدہ مل جاتا ہے یا کوئی بے گناہ جیل میں سڑتا رہتا ہے۔

    تفتیشی افسر کی غفلت

    کیسوں میں تاخیر، اصل ملزمان کی آزادی اور بے گناہوں کے جیل میں ہونے کی ایک وجہ پولیس کی تفتیش میں سستی اور غفلت بھی ہے۔

    صفدر شاہین نے اپنے ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سنہ 2016 میں کالعدم تنظیم کے کچھ دہشت گرد گرفتار کیے گئے، لیکن اس بات کے شواہد اور ثبوت نہیں مل سکے کہ وہ واقعی اس تنظیم سے منسلک ہیں چنانچہ انہیں بری کردیا گیا۔

    اس میں تفتیشی افسر کی غلطی تھی کہ اس نے ثبوت جمع کرنے میں تساہل سے کام لیا یا واقعی اسے ثبوت نہ مل سکے۔ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ تفتیشی افسر نے درست طریقے سے تفتیش نہیں کی اور اس پر تفتیشی افسر کو معطل بھی کیا گیا۔

    صفدر کا کہنا تھا کہ ممکن ہو کہ گرفتار نوجوان واقعی تنظیم کے کارندے ہوں لیکن ان کے تنظیم سے تعلق کے ثبوت نہیں ملے، امکان یہی تھا کہ وہ عام طالب علم ہیں ایسی صورت میں سزا ہوجانے کے بعد ان کا پورا کیریئر برباد ہوسکتا تھا۔

    کیا ایسی صورت میں عدالت اس بات کی پابند نہیں کہ وہ پولیس کو دوبارہ تفتیش کا حکم دے؟ اس بارے میں صفدر شاہین نے کہا کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے، کوئی بہت ہی بڑا اور اثرانداز پہلو تفتیش میں نظر انداز کردیا گیا ہو جس کی وجہ سے ملزم کی گرفتاری یقینی ہو تو عدالت دوبارہ اس کی تفتیش کا حکم دیتی ہے ورنہ عموماً عدالت کے فیصلے حتمی چالان پر ہی منحصر ہوتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ بعض سیاستدان کھلے عام کرپشن کے باوجود عدالت سے اسی لیے بری ہوجاتے ہیں کہ ان کے خلاف ثبوتوں کی کمی نہیں ہوتی، لیکن تحقیقاتی ادارے یا پولیس کی جانب سے ان ثبوتوں کو اکھٹا کرنے اور عدالت میں پیش کرنے میں غفلت برتی جاتی ہے۔

    اس کی ایک بدترین مثال کراچی کی اسما نواب کا کیس ہے۔ اسما نواب نے اپنے گھر والوں کے قتل کے جرم میں 20 سال جیل میں گزارے لیکن المیہ اس بات کا ہے کہ تاحال یہ تعین نہیں ہوسکا کہ آیا وہ واقعی مجرم تھی یا نہیں۔

    ٹرائل کورٹ نے اسما کو سزائے موت سنائی، تاہم اپیل دائر کی گئی کہ جن ثبوتوں کی بنا پر اسما کو سزا دی گئی وہ غیر مؤثر تھے۔ ہائی کورٹ میں کیس چلا اور عدالت نے قرار دیا کہ واقعی وہ ثبوت اسما کو سزا دلوانے کے لیے ناکافی تھے جس کے بعد عدالت نے اسے بری کردیا۔

    اس سارے عمل میں 20 سال کا عرصہ لگ گیا، یعنی 20 سال میں بھی ہماری پولیس ثابت نہیں کرسکی کہ آیا وہ واقعی مجرم تھی یا نہیں۔

    انصار برنی ٹرسٹ سے ایک خاتون وکیل شگفتہ خان نے بتایا کہ یہ ایک لمبی چین ہے جو پولیس سے شروع ہو کر، وکیلوں، بار اور عدالتوں تک جاتی ہیں۔ ہمارا نظام قانون خامیوں اور سقم سے بھرا پڑا ہے۔

    ان کے مطابق کیس کو طویل کرنے کا جو سلسلہ پولیس سے شروع ہوتا ہے تو وہ وکلا اور عدالتوں تک جاتا ہے۔ وکیل کی چھٹیاں، خود جج کی چھٹیاں، یوں تاریخ پر تاریخ ملتی رہتی ہے اور بے گناہوں کی زندگی جیل میں گزرتی رہتی ہے۔

    ایک اور وکیل امجد علی نے بتایا کہ لاہور میں ایک خاتون کو شوہر کے قتل کے جرم میں گرفتار کیا گیا، بعد ازاں اسے عمر قید کی سزا ہوگئی۔ خاتون نے مزید کئی شواہد اور ثبوتوں کے ساتھ اپنی اپیل ہائیکورٹ میں بھجوائی، لیکن وہ اپیل جیل میں ہی پڑی رہی اور ہائیکورٹ تک پہنچی ہی نہیں۔

    وہ اپیل 18 سال تک جیل میں پڑی رہی، بعد ازاں کسی طرح وہ اپیل مرحومہ عاصمہ جہانگیر تک پہنچی تو ان کی کوششوں سے ہائی کورٹ نے اپیل سنی، تب معلوم ہوا کہ خاتون پر جھوٹا الزام لگایا گیا، یوں 18 سال بعد اسے جرم بے گناہی کی سزا کاٹنے کے بعد رہا کردیا گیا۔

    اسی طرح ایک شخص کو سزائے موت دینے کے بعد جب اس کی اپیل سنی گئی تو اسے بے گناہ قرار دیتے ہوئے بری کردیا گیا، ’لیکن وہ پہلے ہی اپنے گناہ اور بے گناہی سے بے نیاز ہوچکا تھا‘۔

    ان کے مطابق بعض کیسز کے فیصلے بہت جلدی میں بھی کردیے جاتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کیسز میڈیا کی توجہ کا مرکز بن چکے ہوتے ہیں۔ ایسے میں ججز اپنی جان چھڑانے کے لیے، قطع نظر تفتیش اور جرم ثابت ہونے کے، وہ ایسا فیصلہ کردیتے ہیں جس کی میڈیا اور عوام کو توقع ہوتی ہے۔ ’شاید انہیں عام لوگوں کے ردعمل کا خوف ہوتا ہے‘۔

    امجد علی کا کہنا ہے کہ ایک طویل عرصہ چاہیئے جس میں پہلے تو ہمارے قوانین میں سے خامیاں دور کی جائیں تاکہ بے گناہ، بے گناہ ثابت ہوں اور اصل مجرم جیل میں جائیں۔ ’بعد ازاں تھانوں کا کلچر، پولیس میں اصلاحات، عدالتوں کا نظام ۔۔ گو کہ سفر لمبا ہے لیکن امید قائم رہنی چاہیئے‘۔

    کراچی سینٹرل جیل ۔ قیدیوں کا تربیتی ادارہ

    اگر بات کی جائے کراچی سینٹرل جیل کی، تو اس کا کم عمر قیدیوں (بچہ جیل) اور زنانہ حصہ ایک قید خانہ کم اور تربیت گاہ زیادہ لگتا ہے۔

    دوسری جیلوں کی نسبت یہاں کے بیرکس کھلے اور کشادہ ہیں۔ ایک بیرک میں 20 قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ بیرکس اتنی بڑی ہیں کہ سونے کے لیے سارے قیدیوں کے پلنگ بچھا دیے جاتے ہیں، تب بھی بیرک کا ایک حصہ خالی رہتا ہے جہاں قیدی بیٹھ کر کھانا پینا اور گپ شپ کرتے ہیں۔

    جیل میں دیا جانے والا کھانا بھی دیگر جیلوں کے برعکس صاف ستھرا اور غذائیت بخش ہے۔ یہاں قیدیوں کو تینوں وقت دالیں، سبزیاں، گوشت اور چاول میسر ہیں جس کی وجہ سے قیدیوں کو کھانے پینے میں کوئی شکایت نہیں۔

    بچوں کے لیے یہاں پر اسکول، مدرسہ، کمپیوٹر ٹریننگ سینٹر، ہیئر سیلون، جم اور کاریگری کا مرکز موجود ہے۔ اس سب کا مقصد بچوں کو تعلیم سے روشناس کروانا اور کاریگری کا کام سکھانا ہے تاکہ جب یہ جیل سے رہا ہوں تو جیل میں گزارا گیا وقت ان کے کسی کام آسکے۔

    خواتین کے لیے بھی یہاں پر سیلون، کمپیوٹر ٹریننگ روم اور سلائی کڑھائی کا مرکز موجود ہے جبکہ ان کے ساتھ موجود بچوں کے لیے ایک چھوٹا سا اسکول بھی قائم ہے۔

    سلائی کڑھائی کرنے والی خواتین جو کپڑے بناتی ہیں انہیں باہر لے جا کر فروخت کیا جاتا ہے جس کی آمدنی ان خواتین کو دی جاتی ہے۔ اسی آمدنی سے 35 سالہ قیدی شاہدہ اپنے بچوں کے اسکول کی فیسیں ادا کر پاتی ہے۔

    سلائی کڑھائی کی استانی سے گفتگو

    سلائی کڑھائی کے مرکز کی استانی ایک معمر خاتون نسیم احمد ہیں۔ وہ سنہ 1994 سے اس مرکز سے وابستہ ہیں۔ انہیں قانونی معاونت کے لیے کام کرنے والے ادارے لیگل ایڈ اور اپوا (آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن) کی جانب سے یہاں مقرر کیا گیا ہے۔

    نسیم احمد بتاتی ہیں کہ جیل میں انہیں بالکل گھر جیسا ماحول لگتا ہے، کوئی بھی خاتون قیدی کہیں سے بھی آئی ہو وہ کچھ عرصہ بعد بالکل گھل مل جاتی ہے۔ ’مجھے وہ اپنے بڑے کی حیثیت دیتی ہیں، مجھ سے اپنی باتیں بھی کہتی ہیں، اپنے دکھ سکھ بھی کہتی ہیں، روتی بھی ہیں‘۔

    نسیم احمد کا کہنا ہے کہ گو کہ قیدی خواتین کو جیل میں کسی شے کی کوئی کمی نہیں لیکن بہرحال اپنا گھر، اور اپنے یاد آتے ہیں۔ ’سلائی کڑھائی کرنا ان کے فارغ وقت کو بامقصد بنانے کی کوشش کرنا ہے جبکہ خواتین قیدی منفی سوچوں سے بھی محفوظ رہتی ہیں اور ڈپریشن یا اداسی کا شکار کم ہوتی ہیں‘۔

    ماہرین طب بھی موجود

    جیل میں خواتین اور بچوں کے طبی مسائل کے حل کے لیے علیحدہ ڈاکٹرز بھی موجود ہیں۔

    ڈاکٹر نسیم لیاقت گزشتہ 6 سال سے سینٹرل جیل کے زنانہ حصے میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ جیل کی قیدیوں کو عموماً موسمی بخار، یا جسم کے مختلف حصوں میں درد کی شکایات ہوتی ہیں تاہم بعض ایسی بھی ہوتی ہیں جو پہلے سے شوگر یا بلڈ پریشر کا شکار ہوتی ہیں۔ ایسی قیدیوں کو باقاعدگی سے ان کی دوائیں فراہم کی جاتی ہیں۔

    ڈاکٹر نسیم کا کہنا ہے کہ بعض قیدی خواتین حاملہ بھی آتی ہیں۔ ان کے حمل کا عرصہ تو جیل ڈاکٹر کی زیر نگرانی گزرتا ہے تاہم ڈیلیوری کے لیے انہیں سول اسپتال بھیجا جاتا ہے تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں فوری طور پر ماں یا بچے کا درست علاج کیا جاسکے۔

    انہوں نے بتایا کہ گھر سے دور بند ماحول میں رہنے والی خواتین ڈپریشن اور نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہوجاتی ہیں۔ ’جیل میں ہفتے میں ایک بار ماہر نفسیات یہاں کا دورہ کرتے ہیں اور بہت شدید نفسیاتی پیچیدگی کا شکار مریضاؤں کے لیے علاج تجویز کرتے ہیں‘۔

    ڈاکٹر نسیم کے مطابق ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کاؤنسلنگ کے ذریعے خواتین کی ذہنی حالت میں بہتری لائی جاسکے اور دواؤں کی ضرورت نہ پڑے، تاہم سنجیدہ نوعیت کے کیس میں دوا بھی دی جاتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ قیدی خواتین کے ساتھ جو بچے موجود ہیں ان کی بھی صحت کا خیال رکھا جاتا ہے اور ان کی ضروری ویکسی نیشن بھی کی جاتی ہے۔

    اسی طرح بچہ جیل کے لیے مختص ڈاکٹر روزانہ 35 سے 40 بچوں کو دیکھتی ہیں جنہیں موسمی بخار، الرجی، ایگزیما یا کھیلتے ہوئے چھوٹی موٹی چوٹ لگ جاتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ بچے چونکہ صفائی کا کم خیال رکھتے ہیں لہٰذا انہیں جلدی بیماریوں کی شکایت بھی ہوجاتی ہے جس کے لیے ہفتے میں دو بار ڈرماٹولوجسٹ جیل کا دورہ کرتے ہیں۔

    جیل میں ایمرجنسی یونٹ نہیں لہٰذا کسی سرجری یا آپریشن کی صورت میں بچوں کو بھی سول اسپتال بھیجا جاتا ہے۔

    جیل ملزم کو مجرم نہ بنا سکے

    جیل کی سپریٹنڈنٹ شیبا شاہ کا کہنا ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ کراچی سینٹرل جیل کو ایک ماڈل جیل بنایا جائے۔ عموماً جیلوں کا ماحول ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بے گناہ بھی آجائے تو وہ مجرم بن کر نکلے۔ ’یہاں آنے والے قیدیوں کی تعلیم و تربیت کی جاتی ہے جبکہ انہیں ہنر مند بھی بنایا جاتا ہے کہ جیل میں گزارے گئے ان کے سال ضائع نہ ہوں‘۔

    شیبا شاہ کا کہنا تھا کہ جیل میں آنے والے کم عمر خواتین یا بچے جب جیل سے باہر نکلیں تو ان کے پاس کوئی ہنر ہوگا اور وہ تعلیم یافتہ ہوں گے تو ہی گزرے وقت سے بڑھ کر آگے جاسکیں گے، ورنہ وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔

  • شہبازشریف کی نگراں وزیراعظم سے جیل میں نواز شریف کو سہولیات دینے کی درخواست

    شہبازشریف کی نگراں وزیراعظم سے جیل میں نواز شریف کو سہولیات دینے کی درخواست

    لاہور : مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے نگراں وزیراعظم ناصر الملک سے جیل میں نواز شریف کو سہولتیں دینے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف دل کے مریض ہیں،ذاتی معالج سے معائنہ یقینی بنایا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف نے نگران وزیراعظم ناصر الملک کو خط لکھا، جس میں نوازشریف کو جیل میں سہولیات فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے اور کہا گیا کہ نوازشریف کو سابق وزیراعظم کے استحقاق کے مطابق سہولتیں دی جائیں۔

    خط میں مزید کہا گیا ہے کہ نوازشریف دل کے مریض ہیں،ذاتی معالج سے معائنہ یقینی بنایا جائے۔

    خیال رہے کہ ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں سزا یافتہ نوازشریف اڈیالہ جیل میں قید ہیں،  جہاں مجرم نوازشریف کو عارضی قیدی نمبر3421 اور مریم نواز کو عارضی قیدی نمبر 3422 الاٹ کردیا گیا ہے۔

    جیل ذرائع کے مطابق دیگر سہولیات میں سونے کے لیے بیڈ، ٹی وی، اخبار، روم کولر اور گھر کا کھانا ملے گا، جیل میں نوازشریف، مریم نواز اور محمد صفدر کو ایک ہی کمپاؤنڈ میں رکھا گیا ہے جہاں تینوں کے کمرے الگ الگ مگر ملاقات ہوسکے گی۔


    مزید پڑھیں : اڈیالہ جیل : نوازشریف اورمریم کو بی کلاس اور قیدی نمبرز الاٹ


    جیل ذرائع کا کہنا تھا کہ بی کلاس میں اےسی میسر نہیں جبکہ پنکھے کی سہولت موجود ہے، کپڑوں کا سوٹ کیس بھی نواز شریف اور مریم نواز کے حوالے کردیا گیا۔

    دو روز قبل نواز شریف اور مریم نواز سے شریف خاندان کے افراد نے اڈیالہ جیل میں ملاقات کی، ملاقات کرنیوالوں میں نوازشریف کی والدہ، شہباز شریف، حمزہ شہباز اوردیگر افراد شامل تھے۔

    یاد رہے کہ 13 جولائی کو نوازشریف اور مریم نواز کو لندن سے لاہورپہنچتے ہی گرفتار کرلیا گیا تھا ، جس کے بعد دونوں کو خصوصی طیارے پر نیو اسلام آباد ایئر پورٹ لایا گیا، جہاں سے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا ۔ْ

    واضح رہے احتساب عدالت نے چھ جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نوازشریف کو مجموعی طورپر گیارہ سال اور مریم نواز کو آٹھ سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزا سنائی تھی اور ساتھ ہی مجرموں پر احتساب عدالت کی جانب سے بھاری جرمانے عائد کیے گئے تھے۔

    فیصلے میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو 10 سال تک کسی بھی عوامی عہدے کے لیے بھی نااہل قرار دیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔