Tag: Jamal Khashoggi

  • سعودی صحافی جمال خاشقجی قتل میں ملوث ایک ملزم گرفتار

    سعودی صحافی جمال خاشقجی قتل میں ملوث ایک ملزم گرفتار

    پیرس/انقرہ/ریاض : معروف سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ملزم فرانس سے گرفتار ہوگیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے مقتول صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل میں ملوث ملزم خالد الاوطیبی کو فرانس کے چارلس دی گولے ایئرپورٹ سے کچھ دیر قبل ہی گرفتار کیا گیا ہے۔

    مذکورہ شخص امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی کو قتل کرنے والے 26 افراد میں سے ایک ہے جن کی گرفتاری کےلیے ترکی کی جانب سے کوششیں جاری ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق 33 سالہ شخص سابق سعودی شاہی گارڈ رہ چکا ہے جو عدالتی حراست تھا اور اپنے اصل نام سے سفر کررہا تھا۔

    واضح رہے کہ صحافی جمال خاشقجی سعودی حکومت باالخصوص ولی عہد محمد بن سلمان کے شدید ناقد تھے جنہیں اکتوبر 2018 میں استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں بےدردی سے قتل کرکے لاش کو تیزاب میں ڈال دیا تھا۔

    جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق سعودی حکومت نے کہا تھا کہ جاسوسوں کی ایک ٹیم واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی کو ریاست واپس لانے کےلیے گئی تھی تاہم آپریشن کے دوران انہوں نے خاشقجی کو قتل کردیا لیکن ترکش حکام نے کہا تھا کہ جاسوسوں نے صحافی کو سعودی حکومت کے اعلیٰ حکام کے حکم پر قتل کیا تھا۔

  • جمال خاشقجی کے قاتلوں نے کس ملک میں تربیت حاصل کی؟ امریکی اخبار کا دعویٰ

    جمال خاشقجی کے قاتلوں نے کس ملک میں تربیت حاصل کی؟ امریکی اخبار کا دعویٰ

    واشنگٹن: امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قاتلوں نے امریکا میں پیرا ملٹری ٹریننگ حاصل کی۔

    تفصیلات کے مطابق نیویارک ٹائمز نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قاتلوں نے امریکا میں پیرا ملٹری ٹریننگ حاصل کی تھی، یہ تربیت ٹیئر وَن گروپ نے دی، دفاعی نوعیت کی یہ تربیت سعودی رہنماؤں کی حفاظت کے لیے تھی۔

    جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 4 سعودی شہریوں نے امریکی محکمہ خارجہ سے منظور شدہ معاہدے کے تحت قتل سے ایک سال قبل پیرا ملٹری ٹریننگ حاصل کی، قاتلوں کو سعودی رائل گارڈز کی تربیت کا لائسنس پہلی مرتبہ 2014 میں جاری کیا گیا تھا۔

    تاہم اخبار کا کہنا ہے کہ کیا امریکی حکام اس آپریشن سے آگاہ تھے؟ اس سلسلے میں کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔

    اس رپورٹ پر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ میڈیا رپورٹنگ میں کسی دفاعی برآمدی لائسنسنگ سرگرمی پر الزام پر قانون کے تحت محکمہ کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔

    نیڈ پرائس نے واضح کیا ہے کہ سعودی عرب کے بارے میں امریکی پالیسی یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی کو ترجیح اور انسانی حقوق کا احترام ہو، تاہم انھوں نے بتایا کہ مذکورہ تربیت سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دور میں شروع ہوئی اور ٹرمپ کے دور کے پہلے سال تک جاری رہی تھی۔

    واضح رہے کہ جمال احمد خاشقجی سعودی عرب کے شہری اور صحافی تھے، وہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے کالم لکھتے تھے، العرب نیوز چینل کے ایڈیٹر ان چیف بھی تھے، وہ مدینہ میں 1958 میں 13 اکتوبر کو پیدا ہوئے اور ترکی کے شہر استنبول کے سفارت خانے میں انھیں 2 اکتوبر 2018 کو قتل کیا گیا۔

  • خاشقجی قتل پر امریکی رپورٹ، سعودی عرب کا ردعمل آگیا

    خاشقجی قتل پر امریکی رپورٹ، سعودی عرب کا ردعمل آگیا

    ریاض: سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر امریکی کانگریس کو پیش کی جانے والی رپورٹ پر سعودی عرب نے ردعمل دے دیا، سعودی دفتر خارجہ نے رپورٹ کے مندرجات کو سختی سے مسترد کیا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی دفتر خارجہ نے سعودی شہری اور صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق امریکی کانگریس کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے مندرجات کو سختی سے مسترد کردیا ہے۔

    سعودی وزارت خارجہ نے جمعے کو اپنے بیان میں کہا کہ سعودی حکومت اپنے شہری جمال خاشقجی کے قتل کے جرم سے متعلق کانگریس کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے مندرجات کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے۔

    دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت مبینہ رپورٹ میں سعودی قیادت سے متعلق منفی، غلط اور ناقابل قبول نتائج کو قطعی طور پر مسترد کرتی ہے، یہ نتائج کسی بھی حالت میں قابل قبول نہیں ہیں، رپورٹ بہت ساری غلط معلومات اور نتائج پر مشتمل ہے۔

    بیان میں دفتر خارجہ نے اس حوالے سے مملکت کے متعلقہ اداروں کے سابقہ بیانات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ جمال خاشقجی کا قتل سنگین جرم ہے، یہ سعودی قوانین اور اس کی اقدار کی کھلی خلاف ورزی پر مشتمل ہے، اس جرم کا ارتکاب جس گروہ نے کیا اس نے نہ صرف یہ کہ مملکت کے تمام قوانین کو پس پشت ڈالا بلکہ اس نے متعلقہ اداروں کو حاصل اختیارات کی بھی خلاف ورزیاں کی ہیں۔

    دفتر خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ گروپ کے افراد کے ساتھ پوچھ گچھ کے حوالے سے تمام ضروری عدالتی اقدامات کیے گئے اور انہیں عدالت کے حوالے کیا گیا، سعودی عدالت نے ان کے خلاف حتمی سزاؤں کے فیصلے سنائے جن پر جمال خاشقجی کے اہل خانہ نے اطمینان کا اظہار کیا۔

    وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس جیسی رپورٹ جو غلط اور ناقابل قبول نتائج پر مشتمل ہے ایسے وقت میں جاری کی گئی جب سعودی عرب اس گھناؤنے جرم کی مذمت کر چکا ہے اور اس کی قیادت اس قسم کے افسوسناک واقعات کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کر چکی ہے۔

    بیان میں مزید کہا گیا کہ سعودی عرب اپنی قیادت، ریاستی بالا دستی اور عدالتی خود مختاری کو زک پہنچانے والی ہر بات کو مسترد کرتا ہے۔

    وزارت خارجہ کے مطابق سعودی عرب اور امریکا کے درمیان شراکت مضبوط اور مستحکم ہے، دونوں ملکوں کے ریاستی ادارے مختلف شعبوں میں شراکت کے استحکام کے لیے کوشاں ہیں، خطے اور عالمی امن و استحکام کے لیے باہمی تعاون اور زبردست یکجہتی پیدا کیے ہوئے ہیں۔

    خیال رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر سنہ 2018 کو ترکی کے شہر استنبول میں واقع قونصلیٹ میں اس وقت قتل کیا گیا تھا جب وہ اپنی طلاق سے متعلق کاغذی کارروائی مکمل کروانے وہاں گئے تھے۔

    انٹرنیشنل نیوز نیٹ ورکس کے رپورٹرز کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق رپورٹ شواہد اور معتبر معلومات سے خالی ہے۔ رپورٹ کے اجرا کے بعد امریکی دفتر خارجہ نے بیان جاری کر کے کہا کہ امریکا سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھنے کے سلسلے میں پرعزم ہے۔

  • جمال خاشقجی کے واقعے پر مبنی دستاویزی فلم "دی ڈیسڈینٹ” کا ٹریلر جاری

    جمال خاشقجی کے واقعے پر مبنی دستاویزی فلم "دی ڈیسڈینٹ” کا ٹریلر جاری

    واشنگٹن پوسٹ کے معروف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے پیچھے اصل محرکات سے متعلق برائن فوگل کی آنے والی دستاویزی فلم کا ٹریلر جاری کردیا گیا۔

    اس حوالے سے برائر کلف انٹرٹینمنٹ نے ایکشن سے بھرپور دستاویزی فلم "دی ڈیسڈینٹ” کی ریلیز کے حقوق بھی حاصل کرلیے ہیں۔

    برائن فوگل کی دستاویزی فلم "دی ڈیسڈینٹ” واشنگٹن پوسٹ کے سابق معروف صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق ہے۔ فلم کمپنی نے گذشتہ روز فلم کا ٹریلر جاری کیا ہے۔

    اس دستاویزی فلم کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں جمال خاشقجی کے استنبول میں واقع سعودی قونصل خانہ میں ہونے والے قتل کے پیچھے محرکات اور دھوکہ دہی کو بے نقاب کیا گیا ہے۔

    خاشقجی ایک اصولی اصلاح پسند صحافی تھے جنہوں نے اپنے وطن میں ایک آزاد معاشرے کی تشکیل کی کوشش کی تھی اور آخرکار حکومت کی مخالفت کے سبب انہیں قتل کر دیا گیا۔

    اس فلم کی ریلیز کی کوئی خاص تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے، اس میں نئی فوٹیج اور متعدد معلومات پیش کی گئی ہیں جو پہلے عوام کے لیے دستیاب نہیں تھیں۔

    فلم میں جن شخصیات کے انٹرویو شامل کیے گئے ہیں ان میں خاشقجی کی منگیتر ہیٹیس سنجز، اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ ایگنس کالمارڈ جنہوں نے اس قتل کی تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔ نیز، ترک پولیس، استغاثہ، سائبر سیکیورٹی کے ماہرین، عمر عبدالعزیز اور ایک نوجوان کارکن جو جمال خاشقجی کے ساتھ خفیہ طور پر تعاون کررہا تھا شامل ہیں۔

    اس حوالے سے فوگل نے ایک بیان میں کہا کہ جمال خاشقجی کی دوسری برسی قریب ہے تو مجھے امید ہے کہ یہ فلم ان کی یادوں کو تقویت بخشے گی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے گی، انہوں نے کہا کہ ہمارا معاشرہ انسانی حقوق کی ظالمانہ خلاف ورزیوں پر اب آنکھیں بند نہیں کرے گا۔

  • سعودی ولی عہد کے خلاف قتل کا مقدمہ دائر

    سعودی ولی عہد کے خلاف قتل کا مقدمہ دائر

    واشنگٹن: ترکی میں قتل کیے گئے سعودی صحافی کی منگیتر نے جمال خاشقجی کے قتل کا ذمے دار سعودی عرب ولی عہد کو ٹھہراتے ہوئے ان کے خلاف قتل کا مقدمہ دائر کردیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا مقدمہ واشنگٹن ڈی سی میں ان کی منگیتر خدیجے چنگیز نے دائر کیا، مقدمے میں الزام عائد گیا گیا ہے کہ جمال خاشقجی کو محمد بن سلمان کی ہدایت کے مطابق قتل کیا گیا، اس قتل کا مقصد عرب دنیا میں جمہوری اصلاحات کے لیے جمال خاشقجی کی امریکا میں کاوشوں کو روکنا تھا۔

    یہ بھی پڑھیں:جمال خاشقجی کے قاتلوں کو ہر کوئی جانتا ہے، ترک صدر 

    ترکی سے تعلق رکھنے والی مقتول صحافی کی منگیتر نے ویڈیو کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے کا مقصد ایک امریکی عدالت کا ولی عہد شہزادے کو قتل کا ذمہ دار ٹھہرانا اور ان دستاویزات کا حصول ہے جن سے حقیقت ظاہر ہو، خدیجے چنگیز نے بتایا کہ جمال کا خیال تھا کہ امریکا میں کچھ بھی ممکن ہے اور میں انصاف اور احتساب کے حصول کے لیے امریکہ کے نظام عدل پر اعتماد کرتی ہوں، مقدمے میں جمال خاشقجی کی موت پر ہونے والے مالی نقصان کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ سعودی حکومت کے ناقد خاشقجی کو ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے کے اندر 2018 میں قتل کیا گیا تھا، تاہم سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پہلے ہی جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دینے کے الزامات کی تردید کرچکے ہیں۔

  • سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بیٹوں نے والد کے قاتلوں کو معاف کر دیا

    سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بیٹوں نے والد کے قاتلوں کو معاف کر دیا

    ریاض : سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بیٹوں نے والد کے قاتلوں کو معاف کر دیا، جمال خاشقجی کو اکتوبر 2018 میں استنبول میں سعودی قونصلیٹ میں قتل کیا گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی میں قتل کئے گئے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بیٹوں نے والد کے قاتلوں کو معاف کر دیا، مقتول سعودی صحافی کے صاحبزادے  صالح خاشقجی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ رمضان کی فضیلت والی رات میں اللہ کی آیت کو یاد کرنا چاہیئے کہ ” اگرکوئی شخص معاف کردے اور مفاہمت کرلے تو اس کا اجراللہ دے گا۔

    جمال خاشقجی کے بیٹوں نے کہا لہذا ہم ان تمام افراد کو معاف کرتے ہیں جو ان کے والد کے قتل میں ملوث ہیں اورخدا سے اس کا اجر مانگتے ہیں۔

    یاد رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر 2018 کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد قتل کردیا گیا تھا، سعودی عرب کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کی موت وہاں پر موجود افراد کے ساتھ لڑائی کا نتیجہ تھی تاہم ترک حکام اسے ایک سوچا سمجھا منصوبہ قرار دیا تھا۔

    ترک حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں ہی قتل کرکے ان کی لاش کے ٹکڑے کردئیے گئے ہیں جبکہ ترک صدر رجب طیب اردگان نے بھی سعودی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے قتل کی تحقیقات کرنے کی درخواست کی تھی۔

    بعد ازاں اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقاتی رپورٹ جاری کی تھی ، جس میں کہا گیا تھا سعودی ولی عہدسے تفتیش ہونی چاہیے، شواہد موجود ہیں سعودی حکام قتل میں ملوث ہیں، ثبوتوں پر مزید غیرجانبدارتحقیقات ہونی چاہییں۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا سعودی صحافی کا قتل بین الاقوامی جرم ہے، قتل ماورائے عدالت ہے ذمے دارسعودی عرب ہے، سفارتی مراعات کاغلط استعمال کیاگیا، سعودی عرب کو ترکی سے معافی مانگنی چاہیئے۔

    سعودی عرب نے قتل کے جرم میں دسمبر 2019ء میں 5افراد کو سزائے موت اور تین کو قید کی سزا سنائی تھی۔

    واضح رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے سخت ناقد تھے اور اپنے کالمز میں ان پر یمن جنگ کے حوالے سے سخت تنقید کرتے تھے، خاشقجی کو سعودی ولی عہد کے کہنے پر بھی قتل کرنے کا الزام ہے۔

  • مقتول صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر کو کس بات کا افسوس ہے؟

    مقتول صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر کو کس بات کا افسوس ہے؟

    مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر نے کہا ہے کہ انہیں اطالوی سپر کپ کے سعودی عرب میں انعقاد سے دلی افسوس ہوا ہے۔

    روم میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے خاشقجی کی منگیتر ہیٹس کینگز کا کہنا تھا کہ یہ نہایت افسوسناک ہے کہ ایک ایسا ملک جس پر ایک ریاستی قتل کا الزام ہے، اور اس کے قاتل تاحال آزاد ہیں، اسے یہ تحفہ دیا گیا کہ اطالوی ان کی سرزمین پر فٹبال کھیلیں۔

    انہوں نے کہا کہ میں اس کے معاشی پہلوؤں سے واقف ہوں اور اس کا بائیکاٹ کرنا ممکن نہیں ہوگا، لیکن کیا اس کے سیاسی اثرات نہیں ہوں گے؟

    واضح رہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے خدمات انجام دینے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کو گزشتہ سال 2 اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔

    ان کے قتل پر سعودی حکومت پر خاصی تنقید کی گئی۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے بھی سعودی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے صحافی کے قتل کی ترکی میں شفاف تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

    سعودی صحافی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور ان کی پالیسیوں اور وژن 2030 کے سخت ناقد تھے جس کی وجہ سے انہیں اپنے ملک میں جان کا خطرہ لاحق تھا اور وہ کئی برسوں سے امریکا میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔

    بعد ازاں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اس قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اخلاقی طور پر خود کو اس قتل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

  • خاشقجی قتل کیس میں برطرف سعودی مشیر کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کا انکشاف

    خاشقجی قتل کیس میں برطرف سعودی مشیر کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کا انکشاف

    ریاض/استنبول : ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کیس میں جن 11 افراد کے خلاف ٹرائل چل رہا ہے ان میں سعودی ولی عہد کے شاہی مشیر سعود القحطانی شامل نہیں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق استنبول میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ذرائع نے 2 شاہی مشیروں کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا ہے جن میں سے ایک کو رِنگ لیڈر قرار دیا گیا ہے جبکہ 11 مشتبہ ملزمان کے بند کمرہ ٹرائل میں دوسرے کی غیر موجودگی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔

    سعودی پراسیکیوٹرز نے کہا کہ ڈپٹی انٹیلی جنس چیف احمد العصیری نے استنبول کے قونصل خانے میں سعودی صحافی کے قتل کی نگرانی کی جس کی ہدایات سعود القحطانی نے دی تھیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ چار مغربی حکام کے مطابق دونوں افراد سعودی ولی عہد کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں اور انہیں باقاعدہ طور پر برطرف کیا جاچکا ہے، احمد العصیری ہی جنوری سے لے کر اب تک ہونے والی 5 سماعتوں میں پیش ہوئے۔

    ایک عہدیدار نے بتایا کہ جن 11 افراد کا ٹرائل ہورہا ہے، ان میں سعود القحطانی شامل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس غیر موجودگی کا کیا مطلب ہے؟ کیا سعودی ان کی حفاظت کرنا چاہتے یا ان کے خلاف علیحدہ کاررروائی کریں گے؟ کوئی نہیں جانتا۔

    سعودی عرب کے پبلک پراسیکیوٹر نے گزشتہ برس نومبر میں 11 نامعلوم مشتبہ افراد کو گرفتار کیا تھا جن میں 5 کو سزائے موت کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    امریکا، برطانیہ، فرانس، چین، روس سمیت ترکی کے سفارت کاروں کو جمال خاشقجی کے قتل کے خلاف جاری سماعتوں میں آنے کی اجازت ہے جو کہ صرف عربی زبان میں منعقد ہوتی ہیں۔

    ذرائع نے بتایا کہ انہیں مترجم ساتھ لانے کی اجازت نہیں اور انہیں شارٹ نوٹس پر مدعو کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمال خاشقجی کے خاندان کے ایک فرد نے، جنہوں نے سعودی حکومت سے تصفیہ کی تردید کی تھی،صرف ایک عدالتی سیشن میں شرکت کی ہے۔

    عہدیداران نے کہا کہ انٹیلی جنس رکن ماہر مطرب جو غیرملکی دوروں پر سعودی ولی عہد کے ہمراہ سفر کرتے تھے، فارنسک ایکسپرٹ صلاح الطبیغی اور سعودی شاہی گارڈ کا رکن فہد البلاوی ان 11 افراد میں شامل ہیں جنہیں سزاے موت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    ان تمام 11 افراد کو اپنے دفاع کے لیے لیگل کونسل کی اجازت حاصل ہے۔عہدیداران کا مطابق ان میں سے اکثر نے عدالت میں اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے احمد العصیری کے احکامات پر عمل کیا اور انہیں آپریشن کا رِنگ لیڈر قرار دیا۔

    سعودی عرب کی میڈیا منسٹری نے اے ایف پی کی جانب سے تبصرے کی درخواست پر کوئی رد عمل نہیں دیا، اور ملزمان کے وکلا سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

    مغربی عہدیداران نے کہا کہ احمد العسیری کو سعودی فوج میں جنگی ہیرو کا درج حاصل ہے، انہیں سزائے موت کا سامنا نہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ماضی میں امریکی انٹیلی جنس کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث سعودیوں پر پابندی سےمتعلق جاری کی گئی امریکا کی دو فہرستوں میں بھی ان کا نام شامل نہیں۔

    دوسری جانب سعود القحطانی جنہوں نے سعودی عرب پر تنقید کرنے والوں کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی تھی اور جنہیں سعودی ولی عہد کا اہم ساتھی سمجھا جاتا ہے ان کا نام دونوں فہرستوں میں موجود ہے۔

    جمال خاشقجی قتل، اقوام متحدہ کا سعودی حکومت سے اوپن ٹرائل کا مطالبہ

    سعودی پراسیکیوٹر آفس کے مطابق سعودی اسکواڈ کی ترکی روانگی سےقبل انہوں نے میڈیا اسپیشلائزیشن پر مبنی مشن سے متعلق اہم معلومات بتانے کے لیے ملاقات کی تھی۔ تاہم جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سے وہ اب تک سامنے نہیں آئے اور اس وقت وہ کہاں ہیں کیسے ہیں یہ ایک معمہ بن گیا ہے۔

    بعض سعودی افراد کا دعوی ہے کہ وہ پسِ منظر میں ان تمام حالات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں لیکن دیگر افراد کا کہنا ہے کہ وہ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد عالمی برادری کے ردعمل ختم ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔

  • خاشقجی کے بچوں کو خون بہا میں گھر، لاکھوں ڈالر دئیے گئے، امریکی اخبار کا دعویٰ

    خاشقجی کے بچوں کو خون بہا میں گھر، لاکھوں ڈالر دئیے گئے، امریکی اخبار کا دعویٰ

    واشنگٹن : امریکی اخبار نے دعوی کیا ہے کہ سعودی عرب نے مقتول صحافی جمال خاشقجی کے چاربچوں کو خون بہامیں لاکھوں ڈالر مالیت کے گھر اور ماہانہ بنیادوں پر لاکھوں ڈالر رقم دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی حکام اور دیگر افراد نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جمال خاشقجی کے دو بیٹوں اور دوبیٹیوں کو آئندہ چند ماہ میں سعودی صحافی کے قاتلوں کا ٹرائل مکمل ہونے پر خون بہا سے متعلق مذاکرات کے تحت مزید لاکھوں ڈالر دیئے جاسکتے ہیں۔

    حکام کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت، جمال خاشقجی کے اہلخانہ سے طویل المدتی مفاہمت کی کوشش کر رہی ہے تاکہ انہیں سعودی صحافی کے قتل پر تنقید سے باز رہنے پر آمادہ کیا جاسکے۔

    سابق عہدیدار کے مطابق گزشتہ برس کے آخر میں شاہ سلمان کی جانب سے ان گھروں اور 10 ہزار ڈالر یا اس سے زائد ماہانہ آمدن کی منظوری دی گئی تھی اور اس حوالے سے کہا گیا تھا کہ ایک بڑی ناانصافی ہوچکی ہے اور یہ غلط کو صحیح کرنے کی کوشش ہے۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ شاہی خاندان محمد بن سلمان اور کی پالیسیوں کے سخت ناقد صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے دولت کا سہارا لے رہا ہے۔

    دوسری جانب سعودی عہدیدار نے جمال خاشقجی کے اہلخانہ کو دی گئی رقم کو ملک میں طویل عرصے سے انتہا پسند جرائم یا قدرتی آفات کے متاثرین کو فراہم کی جانے والے مالی تعاون کی روایت قرار دیا۔

    انہوں نے اس بات کو مسترد کردیا کہ ان ادائیگیوں کے بدلے جمال خاشقجی کے خاندان کو خاموشی اختیار کرنی ہوگی۔

    عہدیدار کا کہنا تھا کہ یہ تعاون ہماری روایت اور ثقافت کا حصہ ہے یہ کسی اور چیز سے نہیں جڑا ہوا۔

    ابتدائی طور پر جمال خاشقجی کے تمام بچوں کو جدہ میں گھر دیئے گئے ہیں اور ہر گھر کی مالیت 40 لاکھ ڈالر ہے، یہ جائیدادیں ایک ہی کمپانڈ میں موجود ہیں جن میں ان کے بڑے بیٹے صلاح خاشقجی کو مرکزی حصہ دیا گیا ہے۔

    جمال خاشقجی کے اہل خانہ کے قریبی ذرائع کے مطابق صلاح خاشقجی جدہ میں بینکر کے طور پر کام کررہے ہیں اور مستقبل میں سعودی عرب میں ہی رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

    امریکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سعودی صحافی کے باقی بچے امریکا میں مقیم ہیں اور ان کی جانب سے یہ نئی جائیدادیں بیچنے کی توقع ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کے بڑے بیٹے صلاح سمیت دیگر بچوں سے اس معاملے پر رابطے کی کوشش کی گئی تھی تاہم انہوں نے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا تھا یہاں تک کہ ان کے وکیل ولیم ٹیلر نے بھی اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔

    امریکی میڈیا کے مطابق سعودی ولی عہد کے بھائی اور امریکا میں سعودی عرب کے سابق سفیر خالد بن سلمان نے صحافی کے اہلخانہ سے مذاکرات کیے تھے۔

    یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی قتل کیس، تحقیقاتی رپورٹ جون میں جاری ہوگی، تحقیقاتی ٹیم اقوام متحدہ

    یاد رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ سال ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں داخل ہوئے جس کے بعد وہ گمشدہ ہوگئے تھے، بعد ازاں اُن کے قتل کی خبر آئی۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے بھی سعودی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے صحافی کے قتل کی ترکی میں شفاف تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

  • جمال خاشقجی قتل، اقوام متحدہ کا سعودی حکومت سے  اوپن ٹرائل کا مطالبہ

    جمال خاشقجی قتل، اقوام متحدہ کا سعودی حکومت سے اوپن ٹرائل کا مطالبہ

    نیویارک: اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کمیٹی نے سعودی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جمال خاشقجی قتل کیس میں گرفتار ملزمان کے نام فوری طور پر سامنے لائے اور مقدمے کا  اوپن ٹرائل کرے۔

    تفصیلات کے مطابق اقوامِ متحدہ کے ماہرین برائے انسانی حقوق نے مطالبہ کیا ہے کہ سعودی صحافی کے قتل کے الزام میں گرفتار 11 ملزمان کے کیس کی سماعت کو خفیہ نہ رکھا جائے۔ ماہرین نے کیس کی خفیہ سماعت کو عالمی معیار کے خلاف قرار دیتے ہوئے اوپن ٹرائل کا مطالبہ بھی کیا۔

    جمال خاشقجی قتل کی تفتیش کے لیے تشکیل دی جانے والی اقوام متحدہ کی تین رکنی کمیٹی نے حراست میں لیے گئے تمام ملزمان کا نام فوری طور پر سامنے لانے کا بھی مطالبہ کیا۔

    مزید پڑھیں: جمال خاشقجی کی لاش، تندور میں جلا کر راکھ کی گئی

    تفتیشی ٹیم کے سربراہ اگنیس کیلا مارڈ کا کہنا تھا کہ ’سعودی حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ مقدمے کی خفیہ سماعت کر کے عالمی برادری کو مطمئن کردے گی تو وہ غلط فہمی کا شکار ہے، ہمیں مقدمے کی ایسی سماعت چاہتے ہیں جو عالمی قوانین کے تحت کی جاتی ہے‘۔

    کیلا مارڈ نے سعودی حکومت کو خبرادار کیا کہ ’اگر مقدمے میں انسانی حقوق اور انصاف کے قوانین کی خلاف ورزی کی گئی تو عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر لائحہ عمل طے کیا جائے گا’۔

    خیال رہے کہ اقوام متحدہ نے امریکی اخبار کے لیے لکھنے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کیس کی تفتیش کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ عالمی برادری نے سعودی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کمیٹی سے مکمل تعاون کرے۔

    یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی قتل کیس، تحقیقاتی رپورٹ جون میں جاری ہوگی، تحقیقاتی ٹیم اقوام متحدہ

    یاد رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ سال ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں داخل ہوئے جس کے بعد وہ گمشدہ ہوگئے تھے، بعد ازاں اُن کے قتل کی خبر آئی۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے بھی سعودی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے صحافی کے قتل کی ترکی میں شفاف تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔