Tag: Japan hangs ‘

  • ٹوئٹر کلر کی دل دہلا دینے والی وارداتوں کی تفصیلات سامنے آگئیں

    ٹوئٹر کلر کی دل دہلا دینے والی وارداتوں کی تفصیلات سامنے آگئیں

    ٹوکیو : جاپان میں 3 سال کے وقفے کے بعد پہلی بار سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا، جب "ٹوئٹر کلر” کے نام سے مشہور سفاک قاتل کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

    اس بے رحم اور سفاک شخص تاکا ہیرو شِرائیشی نے سال 2017 میں اپنی لالچ اور ہوس کی خاطر 8 خواتین اور 1 مرد کو انتہائی بے دردی سے قتل کردیا تھا۔

    یہ خوفناک واقعہ زامہ شہر کیناگاوا میں پیش آیا تھا، شیریشی لوگوں کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کے ذریعے اپنے جال پھنساتا تھا اسی لیے اسے "ٹوئٹر کلر” کا لقب دیا گیا۔

    قاتل کا طریقہ واردات :

    شیریشی نے مارچ 2017 میں کم از کم دو فعال ٹوئٹر اکاؤنٹس بنائے، ایک اکاؤنٹ میں وہ خود کو "ہینگ مین” یا "سوئسائیڈ گرا” کے طور پر پیش کرتا تھا اور دوسرے اکاؤنٹ میں خود کو ایسے پیش کرتا تھا جیسے اسے ایسے دوستوں کی ضرورت ہے جو خودکشی کا ارادہ یا خواہش رکھتے ہوں۔

    اس کا نشانہ یا ٹارگٹ وہ خواتین ہوتیں جو شدید مایوسی اور اپنی زندگی سے عاجز آکر خودکشی کرنے جیسے جذبات کا اظہار کرتی تھیں، اس کیلیے خاص طور پر ایک ہیش ٹیگ استعمال کیا جاتا تھا جسے "جاپان میں خودکشی” کا نام دیا گیا تھا۔

    یہ چالاک شخص ان سے ذاتی طور پر رابطہ کرکے انہیں سہارا دینے کا جھانسہ دیتا انہیں کہتا کہ “میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں یا اگر مرنا چاہتی ہو تو میں بھی تمہارے ساتھ مر جاؤں گا۔

    تاکا ہیرو شِرائیشی ان خواتین سے ملاقاتیں عوامی مقامات پر کرتا تھا جس میں زیادہ تر ملاقاتیں ریلوے اسٹیشن پر ہوتی تھی تاکہ وہ خواتین اس پر اعتماد کرسکیں، جس کے بعد وہ انہیں اپنے فلیٹ میں لے جاتا۔

    فلیٹ میں آنے کے بعد وہ انہیں شراب، کوئی نشہ آور چیز یا نیند کی گولیاں کھلا دیتا، جس کے بعد وہ ان پر جنسی تشدد کرتا اور پھر بے دردی سے قتل کر دیتا، اس نے قتل کی زیادہ تر وارداتیں گلا گھونٹ کر کیں۔

    یہ سفاک ملزم واردات کے بعد بڑے سکون سے ان لاشوں کو اس جگہ سے چھپانے کے لیے ان کے ٹکڑے کرتا، جسمانی اعضا کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر فریج یا کولرز میں محفوظ کرتا اور تعفن سے بچاؤ کیلیے ان پر مخصوص کیمیکل کا اسپرے کرتا تھا۔

    ایک مقدمے میں شیریشی نے کہا کہ سب سے پہلی قتل کی واردات اس نے ایک 21 سالہ لڑکی کی تھی، جس نے اسے فلیٹ کے کرائے کے لیے تقریباً 5لاکھ ین کی مدد کی اور جب اس نے رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا تو اس کو قتل کر دیا۔

    اس واردات کے بعد وہ اپنے شکار سے رقم لوٹتا اور اسے قتل کرکے لاشوں کو چھپاتا رہا۔ ایک مقتولہ کے دوست نے اس پر شک کرتے ہوئے جب پوچھ گچھ کی تو اس نے اسے بھی قتل کردیا تاکہ اس کا راز فاش نہ ہوجائے۔

    ملزم کی گرفتاری بھی 2017 میں ڈرامائی انداز سے ہوئی، جس میں ایک مقتولہ کے بھائی نے اپنی بہن کا ٹوئٹر اکاؤنٹ چیک کیا جس میں اس کی شیریشی سے چیٹنگ کا علم ہوا، پولیس نے معاملے کی جڑ تک پہنچنے کیلیے ایک جعلی ایکس اکاؤنٹ بنایا اور اسی طریقے سے اس سے رابطہ قائم کیا، اور ملاقات کیلیے بلانے پر پولیس نے اس کے فلیٹ پر چھاپہ مارا۔

    فلیٹ میں چھاپے کے وقت اہلکاروں کو گندی بدبو اور ایک کولر میں لاش کا ٹکڑا ملا جس کے بعد دوران تفتیش اس نے پچھلی تمام وارداتوں کا برملا اعتراف کرلیا۔

    مزید پڑھیں : 9 افراد کا سفاک قاتل ’ٹوئٹرکلر‘ بالآخر اپنے انجام کو پہنچ گیا

    عدالت میں شیریشی نے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ان لوگوں مالی وجوہات اور اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے قتل کیا۔

  • جاپان : 9 افراد کا سفاک قاتل ’ٹوئٹرکلر‘ بالآخر اپنے انجام کو پہنچ گیا

    جاپان : 9 افراد کا سفاک قاتل ’ٹوئٹرکلر‘ بالآخر اپنے انجام کو پہنچ گیا

    ٹوکیو : جاپان میں 9 افراد کو بہیمانہ طریقے سے قتل کرنے والے قاتل کو بالآخر 3 سال بعد تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

    جاپان میں تقریباً 3 سال بعد ایک مجرم کو پھانسی دی گئی ہے اس پھانسی کو اس لیے بھی غیر معمولی قرار دیا جا رہا ہے کہ اس میں سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوان خواتین اور مرد کو نشانہ بنایا گیا، جس نے پورے ملک میں خوف و ہراس پیدا کردیا تھا۔

    ملزم تاکاہیرو شِرائیشی جس کی عمر 30 سال تھی، کو سال 2017میں ایک نہایت دل دہلا دینے والے کیس میں سزائے موت سنائی گئی تھی، مشہور زمانہ کیس میں ملزم ٹوئٹر کلر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    اب تین سال بعد 30سالہ قاتل تکاہیرو شیراشی کو موت کی سزا دے دی گئی، مجرم کو ٹوکیو ڈیٹینشن ہاؤس میں انتہائی راز دارانہ طریقے سے پھانسی دی گئی۔

    یہ خوفناک واقعہ زامہ شہر کیناگاوا میں پیش آیا تھا، جو ٹوکیو کے قریب واقع ہے، ملزم نے سوشل میڈیا، خاص طور پر ٹوئٹر کے ذریعے رابطہ کرکے 9 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، جن میں 8 خواتین اور ایک مرد شامل تھے۔

    ملزم کا طریقہ واردات یہ تھا کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹوئٹر‘ ایسے ذہنی طور پر پریشان نوجوانوں کو تلاش کرتا تھا جو خودکشی کے خیالات رکھتے تھے۔

    اس نے اپنی پروفائل پر ایسا ظاہر کیا کہ وہ ان کی خودکشی میں ’مدد‘ کرسکتا ہے یا ان کے درد کو کم کر سکتا ہے۔

    اسی پلان کے تحت وہ ان نوجوانوں کو اپنے اپارٹمنٹ پر بلاتا، پھر اُنہیں گلا گھونٹ کر قتل کر دیتا اور لاشوں کے اعضا کے ٹکڑے کرکے فریزر میں یا مختلف جگہوں پر چھپا دیتا۔ ان میں سے زیادہ تر 15 برس سے لے کر 26 برس کے درمیان کی نوجوان خواتین ہوا کرتی تھیں۔

    یہ ہلاکتیں اکتوبر 2017 میں اس وقت سامنے آئیں، جب پولیس کو متاثرین میں سے ایک شخص کی تلاش کے دوران ٹوکیو کے قریب جاپانی شہر زاما میں لاش کے بعض اعضاء ملے تھے۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق مقامی پولیس کی جانب سے ایک 23 سالہ خاتون کی گمشدگی کی تحقیقات کے دوران اسے حراست میں لیا گیا تھا۔

    واضح رہے کہ جاپان میں سزائے موت اب بھی قانونی عمل ہے اور یہ پھانسی کے ذریعے دی جاتی ہے۔ اس عمل کو خاصا خفیہ رکھا جاتا ہے، حتیٰ کہ مجرم کو بھی عموماً صرف چند گھنٹے پہلے ہی اطلاع دی جاتی ہے کہ اُس کی پھانسی ہونے والی ہے۔

    جاپان کی حالیہ پھانسی جولائی 2022 میں ایک اس شخص کو دی گئی تھی، جس نے سال2018 میں ٹوکیو کے ضلع اکیہابارا میں چاقو کے حملے سے 7 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

    انسانی حقوق کے کارکنان اس عمل کو ذہنی اذیت کا باعث قرار دیتے ہیں، اس پھانسی کے بعد جاپان میں اب بھی 105 افراد سزائے موت کے منتظر ہیں۔