Tag: japanese

  • شہر کو کچرے سے پاک کرنا ہے اپنا کچرا خود اٹھانا ہے

    شہر کو کچرے سے پاک کرنا ہے اپنا کچرا خود اٹھانا ہے

    ٹوکیو : شہر کی میونسپل اتھارٹی نے 2020 ءتک کامی کاتسو کو کچرا فری بنانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے جہاں لوگ اپنا کچرا خود اٹھاکر ری سائیکلنگ فیکڑی تک لے جاتے ہیں۔

    ویسے تو میونسپل حکام شہریوں کو کچرا باہر گلی یا سڑک پر نہ پھینکنے اور اس کے لیے مخصوص کوڑا دان میں پھینکے کی ہدایت کرتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جاپان کے ایک شہر میں شہریوں کو نہ صرف کچرا خود اٹھا کر اسے قابل استعمال بنانے کی فیکٹری (ری سائیکلنگ) تک لے کر جانا پڑتا ہے بلکہ اس سے پہلے کچرے اور کوڑا کرکٹ کو چھان کر 45 مختلف کٹیگریز میں تقسیم بھی کرنا پڑتا ہے۔

    جاپان کے شہر کامی کاتسو کے رہائشیوں کے لیے کچرے کو ٹھکانے لگانا اتنا آسان نہیں جتنا دنیا کے دوسرے حصوں میں ہے کہ آپ نے گھر سے کچرا اٹھا کر باہر میونسپل کمیٹی کی جانب سے رکھے گئے کچرا دان میں پھینک دیا۔

    میڈیا کا کہنا تھا کہ کامی کاتسو میں نہ کچرا اٹھانے کے لیے کچرا دان رکھے گئے ہیں اور نہ میونسپل اتھارٹی کچرا اٹھاتی ہے۔ شہر کی میونسپل اتھارٹی نے 2020 ءتک کامی کاتسو کو کچرا فری بنانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔

    شہر کے باسیوں کو نہ صرف کچرا خود اٹھانا پڑتا ہے بلکہ کچرے کو قابل استعمال بنانے کی فیکٹری تک لے جانے سے پہلے ہر قسم کا کوڑا کرکٹ الگ کرنا پڑتا ہے،جس کی 45 کیٹگریز بنائی گئی ہیں جس میں تکیے سے لے کر ٹوتھ برش تک شامل ہیں۔

    مقامی فرد کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’جی ہاں، کچرے کو الگ کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن ایک سال پہلے جب میں یہاں منتقل ہوا تب سے میں ماحولیات کے حوالے سے حساس ہو گیا ہوں۔

    میونسپل حکام کا کہنا ہے کہ اگلے سال تک شہر میں پیدا ہونے والے کچرے کو مکمل طور پر ری سائیکل کیا جائے گا اور کوئی بھی چیز کچرا جلانے کی مشین کو نہیں بھیجی جائے گی۔

    حکام کا کہناتھا کہ یہ پورا عمل بہت ہی محنت طلب ہے کیونکہ نہ صرف کچرے کو چار درجن کٹیگریز میں الگ کرنا پڑتا ہے بلکہ پلاسٹک کے تھیلے اور بوتلوں کو دھو کر خشک کرکے ری سائیکلنگ فیکٹری پہنچانا پڑتا ہے تاکہ ری سائیکلنگ کے عمل میں آسانی ہو۔

    جاپان کے بہت سے علاقوں میں کچرے کو الگ کرنا پڑتا ہے لیکن وہاں چند ایک کٹگریز ہیں اور زیادہ کچرا انسنریٹر نامی مشین میں جلانے کے لیے جاتا ہے سنہ 2010 تک کامی کاتسو بھی جاپان کے دوسرے علاقوں سے کوئی مختلف نہیں تھا۔

    مقامی میڈیا کے مطابق 2010 میں شہر کے دو میں سے ایک انسنریٹر کو بند کرنے کا حکم جاری ہوا کیونکہ یہ دھوئیں کے اخراج کے حوالے سے مقرر کردہ معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔

    ایک انسنریٹر کے بند ہونے کے بعد شہر میں کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے صرف ایک انسنریٹر رہ گیا جو شہر کے تمام کچرے کوجلانے کے لیے ناکافی تھا اور شہر کے میونسپل حکام کے پاس نیا خریدنے یا قریبی ٹاؤن کے انسنریٹر کو کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے دینے کے پیسے نہیں تھے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ کامی کاتسو کچرے کو ری سائیکل کرنے کے ہدف کے قریب ہے اور 2017 میں 80 فیصد کچرے کو قابل استعمال بنایا گیا۔

  • پہلے نابینا شخص نے بحر الکاہل عبور کرکے ریکارڈ قائم کردیا

    پہلے نابینا شخص نے بحر الکاہل عبور کرکے ریکارڈ قائم کردیا

    ٹوکیو : جاپان سے تعلق رکھنے والے نابینا شخص نے بغیر قیام کیے 2 ماہ میں بحرالکاہل عبور کرکے عالمی ریکارڈ قائم کردیا، 52 سالہ میٹشرویو الوموٹو نے مجموعی طور پر 14 ہزار کلومیٹر کا سمندری سفر طے کیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جاپانی باشندے نے امریکا کی ریاست کیلیفورنیا سے 24 فروری کو اپنی 40 فٹ لمبی کشتی پر سمندری سفر کا آغاز جس کو مکمل کرنے کے لیے انہیں دو مہینے کا عرصہ لگا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے بتایا گیا کہ سمندری راستوں کی رہنمائی کے لیے ان کے ہمراہ امریکی جہاز ران (سمندری راستوں کی آگاہی رکھنے والا) ڈاگ اسمیتھ تھے۔

    واضح رہے کہ میٹشر ویو الوموٹ نے آخری مرتبہ 2013 میں بحرالکاہل عبور کرنے کی کوشش کی تھی تاہم ان کی کشتی وہیل سے ٹکرانے کے بعد تباہ ہوگئی تھی، تاہم جاپانی ملٹری نے ریسکیو کرکے انہیں بیس پر پہنچایا تھا۔

    بحرالکاہل عبور کرنے کے بعد جاپان کی کیڈو نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دوسری کوشش میں سمندری سفر مکمل کرنا ’خواب کو حقیقت‘ مل جانے کے مترادف ہے۔

    انہوں نے کہا کہ میں پوری دنیا میں سب سے خوش نصیب شخص ہوں، دوسری جانب جاپان کی بلائنڈ سیلنگ ایسوسی ایشن نے دعویٰ کیا کہ وہ پہلے نابینا شخص ہیں جنہوں نے بغیر رکے بحرالکاہل عبور کیا۔

    خیال رہے کہ میٹشرویو الوموٹو 16 برس کی عمر میں بنیائی سے محروم ہو گئے تھے، اس حوالے سے بتایا گیا کہ میٹشرویو الوموٹو نے کشی رانی کے تمام مراحل اکیلے طے کیے تاہم اس دوران ڈاگ اسمیتھ نے صرف ہوا کی سمت اور خطرات سے زبانی آگاہ کیا۔

  • ننھے سے پرندے نے جاپانیوں کو کیا سکھایا؟

    ننھے سے پرندے نے جاپانیوں کو کیا سکھایا؟

    یوں تو انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے اور اسے دیگر تمام مخلوقات سے ذہین اور عقلمند سمجھا جاتا ہے، تاہم بعض مواقع ایسے بھی آئے جب انسانوں نے جانوروں اور پرندوں سے کچھ نیا سیکھا۔

    دنیا کی سب سے ترقی یافتہ قوم جاپان، جو پوری دنیا کے لیے ترقی اور محنت کی ایک مثال ہے، اس نے بھی ایک نہایت اہم سبق ایک ننھے سے پرندے سے سیکھا۔

    30 سال قبل جاپان کی بلٹ ٹرین دنیا بھر میں مقبول تھی جو گولی کی رفتار سے سفر کیا کرتی تھی، تاہم یہ ٹرین ایک مقام پر نہایت پریشانی کا باعث بن رہی تھی۔

    جب بھی یہ ٹرین کسی سرنگ میں داخل ہوتی تو ایک ہنگامہ برپا ہوجاتا، سرنگ سے گزرتے ہوئے یہ ٹرین بہت روز دار آواز پیدا کرتی تھی۔ اس شور سے وہاں کی جنگلی حیات، ٹرین کے مسافر، اور آس پاس کے رہائشی بہت زیادہ پریشان ہوتے۔

    دراصل ہوتا یوں تھا کہ جب ٹرین سرنگ میں داخل ہوتی تو سرنگ میں موجود ہوا پر دباؤ پڑتا، دباؤ سے ایک صوتی لہر پیدا ہوتی، یہ ہوا آگے جاتی اور سرنگ سے باہر نکلتے ہوئے اس سے ایسی آواز پیدا ہوتی جیسے زوردار فائرنگ کی گئی ہو۔ ہوا کے اس دباؤ کی وجہ سے ٹرین کی رفتار بھی ہلکی ہوجاتی۔

    اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک ننھے سے پرندے کنگ فشر نے جاپانی ماہرین کو انوکھا راستہ دکھایا۔

    پانی سے مچھلیوں کا شکار کرنے والے اسے پرندے کی چونچ نہایت نوکدار تھی۔ ماہرین نے مشاہدہ کیا کہ اس کی چونچ سر کی طرف سے چوڑی تھی اور آگے جا کر نوکدار ہوجاتی۔

    اس کی وجہ سے پرندہ نہایت آسانی اور تیزی سے اپنی چونچ پانی میں داخل کردیتا۔

    جاپانی ماہرین نے بلٹ ٹرین کے لیے بھی یہی تکنیک اپنائی اور ایسی ٹرین بنائی جس کا اگلا حصہ نوکدار تھا۔ یہ ٹرین سرنگ میں ہوا پر دباؤ ڈالے بغیر ہوا کو چیرتی ہوئی آگے نکلتی اور بغیر کوئی آواز پیدا کیے تیزی سے اپنی منزل کی جانب بڑھتی رہتی۔

    کامیاب تجربے کے بعد جاپان میں بلٹ ٹرین کے لیے یہی ماڈل اپنا لیا گیا اور اس کا نام کنگ فشر ٹرین رکھا گیا۔ یہ ٹرین کم آواز میں نہایت تیز رفتاری سے سفر کرتی ہے۔ یہ ماڈل بعد میں نہ صرف جاپان بلکہ دنیا بھر میں اپنا لیا گیا۔

  • لال بیگوں کی محبت میں گرفتار نوجوان

    لال بیگوں کی محبت میں گرفتار نوجوان

    ٹوکیو: لال بیگوں سے محبت کرنے والے جاپانی نوجوان کا کہنا ہے کہ اُسے کاکروچز سے بہت پیار ہے اور وہ ان کے بغیر نہیں رہ سکتا۔

    اسٹاریٹکس ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یوتا شینوہارا نامی 25 سالہ نوجوان لال بیگوں سے نہ صرف محبت کرتا ہے بلکہ وہ ہر وقت انہیں اپنے ساتھ بھی رکھتا ہے اور جب وہ مرجاتے ہیں تو انہیں پکا کر کھا جاتا ہے۔

    شینو کا کہنا تھا کہ ’ایک لال بیگ جس کا نام لیزا رکھا وہ میرے ساتھ ڈیڑھ سال تک رہا، میں اُس کے ساتھ بہت خوش رہتا اور بہت ساری باتیں کرتا تھا کیونکہ میرا یقین تھا کہ وہ میری باتوں کو غور سے سُنتی ہے‘۔

     

    View this post on Instagram

     

    今日も元気なリサちゃん。

    A post shared by 地球少年 / Yuta Shinohara (@y.shino.earth) on

    جاپانی نوجوان کا کہنا تھا کہ لیزا اپنے ڈنگ ہلا کر میری باتوں کا جواب بھی دیتی تھی، ایک روز اُس کی طبیعت خراب ہوئی اور میں نے اُسے دوائی کھلائی مگر وہ زندہ نہ رہ سکی۔

    مزید پڑھیں: لال بیگ سے خوفزدہ امریکی خاتون کا انوکھا احتجاج

    یوتا شینو ہارا کا کہنا تھا کہ لیزا وہ پہلا لال بیگ تھا جس سے میں نے دوستی کی اور مرنے کے بعد اُسے پکا کر کھایا، اب مجھے محسوس ہوتا ہے وہ میرے دل اور جسم کے ایک حصے میں زندہ ہے‘۔

    نوجوان نے دعویٰ کیا کہ لیزا میری پہلی محبت تھی، اُس کے بچھڑنے کے بعد مجھے دیگر لال بیگوں سے بہت زیادہ لگاؤ اور محبت ہوگئی اب تک میری متعدد کاکروچوں سے دوستی ہوچکی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: لال بیگوں کے آٹے سے پروٹین بھری ڈبل روٹی انسانی خوراک کے لیے تیار

    یوتا کا مزید کہنا تھا کہ جس لال بیگ سے مجھے لگاؤ ہوجائے تو پھر اُسے میں ہر جگہ اپنے ساتھ لے کر جاتا ہوں، لوگوں کو شاید لال بیگوں سے کراہیت آتی ہے اس لیے وہ مجھ سے بہت دور رہتے ہیں۔

  • شمالی کوریا بحران کا خاتمہ ٹرمپ اور کم جونگ کی ملاقات سے مشروط ہے: جاپانی وزیر اعظم

    شمالی کوریا بحران کا خاتمہ ٹرمپ اور کم جونگ کی ملاقات سے مشروط ہے: جاپانی وزیر اعظم

    ماسکو: جاپان کے وزیر اعظم شنزو آبے نے کہا ہے کہ شمالی کوریا بحران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کی ملاقات سے مشروط ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے روسی شہر سینٹ پیٹرز برگ میں منعقد سالانہ اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے کیا، جاپانی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کم جونگ ان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات ناگزیر ہے، اگر دونوں رہنماؤں کی جانب سے ملاقات کی جاتی ہے تو موجودہ بحران ختم ہوسکتا ہے۔

    انہوں نے امریکی صدر کے کم جونگ ان سے ملاقات کی منسوخی کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ، ڈونلڈ ٹرمپ کا ایسے ماحول میں یہ فیصلہ غلط ہے تاہم ہمارے امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں، ہم اس فیصلے کے خلاف ہیں لیکن ٹرمپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔


    شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان سے آئندہ ماہ ملاقات نہ ہونے کا امکان ہے، ڈونلڈ ٹرمپ


    علاوہ ازیں انہوں نے روس سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جاپان روس کے ساتھ معاشی تعلقات مضبوط کرنا چاہتا ہے، روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی جانب سے سالانہ اکنامک فورم کا اجلاس منعقد کرنا خوش آئند اور دیگر ملکوں کے درمیان معاشی تعلقات کے لیے اہم ہے۔

    خیال رہے کہ دو روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ سے ہونے والی ملاقات ملتوی کردی تھی، دونوں رہنماؤں کو جون کی 12 تاریخ کو سنگاپور میں ملنا تھا۔


    کم جونگ ان کسی بھی وقت امریکی صدرسے ملاقات کو تیار ہیں، شمالی کوریا


    علاوہ ازیں وائٹ ہاؤس کی جانب سے ٹرمپ کا خط جاری کیا گیا تھا، جس میں شمالی کوریا کے سربراہ کا نام تحریر تھا، ٹرمپ نے اپنے خط میں کہا تھا کہ کم جونگ کے حالیہ بیان کے بعد اب سنگاپور میں ہونے والی شیڈول ملاقات کا امکان بالکل بھی نہیں کیونکہ شمالی کوریا کے سربراہ نے ایک بار پھر کھلی دشمنی ظاہر کردی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جاپان میں مردے سجانے کا انوکھا مقابلہ’ 23 سالہ خاتون گورکن فاتح قرار

    جاپان میں مردے سجانے کا انوکھا مقابلہ’ 23 سالہ خاتون گورکن فاتح قرار

    ٹوکیو: جاپان میں جنازے کی تدفین سے قبل مُردے کو خوبصورت بنا کر پیش کرنے کا ملک گیر مقابلہ 23 سالہ خاتون گورکن رینو تیرائی نے اپنے نام کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق جاپان میں ہونے والے اس انوکھے مقابلے میں سیکڑوں گورکن خواتین نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور زندہ لوگوں کو مردے کی طرح تیار کر کے بہترین انداز میں پیش کیا۔

    مقابلے کی خصوصیت یہ ہے کہ چار رکنی ججز پر مشتمل پینل بہترین انداز میں مردہ تیار کرنے والے ایک فرد کو فاتح قرار دیتا ہے جس کے بعد اُسے یہ اعزاز دیا جاتا ہے۔

    رواں برس منعقد ہونے والے انوکھے مقابلے میں سیکڑوں خواتین گورکن نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا تاہم  یہ مقابلہ 23 سالہ رینو تیرائی نے اپنے نام کیا، اس سال منعقد ہونے والے مقابلے میں ججز اور شرکاء نے فاتح کا انتخاب کیا۔

    ملک گیر مقابلے کا سہرا اپنے سر باندھنے والی خاتون گورکن رینو تیرائی  نے کہا کہ ’’میں نے مقابلے کے لیے بہت تیاری کی اور ہر طرح سے ویڈیو بنا کر مشاہدہ کیا کہ میرا عمل اچھا دکھائی دے رہا ہے یا نہیں، مقابلہ جیتنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ میں لاش کے ساتھ نرمی اور احترام کا رویہ رکھتی ہوں‘۔

    واضح رہے کہ جاپان کے شنتو مذہب سے وابستہ افراد کا ماننا ہے کہ کسی بھی شخص کے مرتے ہی اُس کا جسم ناپاک ہوجاتا ہے اور اُس کی تیاری قریبی رشتے داروں کی موجودگی میں کی جاتی ہے تاکہ مُردے کے گناہ دھل سکیں۔

    ویڈیو دیکھیں

     


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔