Tag: John F. Kennedy

  • ٹرمپ پر گولی چلانے والے نے گوگل پر جان ایف کینیڈی کے قتل کی تفصیلات سرچ کی تھیں

    ٹرمپ پر گولی چلانے والے نے گوگل پر جان ایف کینیڈی کے قتل کی تفصیلات سرچ کی تھیں

    واشنگٹن: سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ریلی میں تقریر کے دوران گولی چلانے والے نوجوان سے متعلق تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس نے گوگل پر جان ایف کینیڈی کے قتل کی تفصیلات سرچ کی تھیں۔

    ٹرمپ پر انتخابی ریلی کے دوران قاتلانہ حملے کے بارے میں مزید کچھ تفصیلات سامنے آئی ہیں، ایف بی آئی کے سربراہ کرسٹوفر رے کانگریس کی جوڈیشری کمیٹی میں پیش ہوئے اور واقعے کی تحتقیقات سے آگاہ کیا۔

    انھوں نے بتایا کہ حملہ آور نے حملے کی منصوبہ بندی کے لیے سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی پر حملے کے بارے میں انٹرنیٹ پر تفصیلات دیکھیں۔

    کرسٹوفر رے نے کہا کہ حملہ آور کے گوگل پر جان ایف کینیڈی کے قتل کے بارے میں تفصیلات سرچ کرنے سے اس کے حملہ کرنے کے مقصد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، لیکن ہم مزید تفتیش کر رہے ہیں۔ اس سرچنگ سے یہ پتا چلتا ہے کہ شاید وہ جاننا چاہ رہا تھا کہ لی ہاروی اوسوالڈ نے سابق صدر جان ایف کینیڈی کو کس طرح قتل کیا تھا۔

    ٹرمپ پر حملہ روکنے میں ناکامی پر سیکرٹ سروس کی ڈائریکٹر مستعفی

    العربیہ کے مطابق ہاؤس جوڈیشری کمیٹی کے سامنے اپنی گواہی میں کرس رے نے کہا کہ تھامس کروکس تقریباً 6 جولائی سے ٹرمپ اور ان کی انتخابی ریلی پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ حملہ آور نے چھ جولائی کو پنسلوینیا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں شرکت کرنے کے لیے رجسٹریشن کروائی اور ٹرمپ کے اسٹیج پر آنے سے تقریباً 2 گھنٹے قبل اس مقام پر ڈرون بھی اڑایا تھا۔

  • مقتول جان ایف کینیڈی امریکا کے مقبول ترین صدر بھی تھے

    مقتول جان ایف کینیڈی امریکا کے مقبول ترین صدر بھی تھے

    جان ایف کینیڈی امریکی کی سیاسی تاریخ کے مقبول ترین صدور میں سے ہیں جنھیں 1963ء میں‌ آج ہی کے دن قتل کردیا گیا تھا۔

    ان کے قتل کے اسباب، محرّکات اور قاتل کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا۔ اس واقعے پر فلمیں بنائی گئیں۔ دنیا بھر کے اخبارات، رسائل و جرائد میں طویل مضامین کی اشاعت کے ساتھ ٹیلی ویژن چینلوں پر اس واقعے کو موضوعِ بحث بنایا گیا اور ساتھ ہی دنیا میں اس پر قیاس آرائیوں کے ساتھ الزام تراشیوں کا بھی طوفان آیا، اور آج بھی یہ قتل ایک معمّا ہی ہے۔

    جان ایف کینیڈی امریکا کے 35 ویں صدر تھے جنھیں امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس میں گولیاں مار دی گئی تھیں۔ ایک شخص جس کا نام لی ہاروے اوسوالڈ تھا، کو مشکوک اور صدر کا قاتل گردانا گیا اور جلد ہی گرفتار کر لیا گیا۔ یہ کارروائی صدر کے قتل کے ابتدائی 12 گھنٹے کے اندر کی گئی تھی۔

    24 نومبر کو ایک اور قتل ہوا۔ ڈیلاس پولیس اسٹیشن کے اندر جیک روبی نامی شخص نے اوسوالڈ کو گولی مار دی اور وہ ہلاک ہو گیا۔

    اب روبی کو قتل کے اس ملزم اوسوالڈ کے قتل کا مجرم ٹھہرایا گیا اور اسے سزائے موت سنا دی گئی۔ تاہم وہ اس سزا پر عمل درآمد سے پہلے ہی 1967ء میں کینسر کے سبب اپنی زندگی سے محروم ہو گیا۔

    جان ایف کینیڈی کو امریکیوں کا محبوب صدر کہا جاتا ہے۔ انھوں نے ابتدائی عمر میں‌ کئی بیماریوں اور جسمانی تکالیف کا بھی سامنا کیا، لیکن اپنے والد کی منصوبہ بندی اور کوشش سے سیاست کے میدان سے ہوکر امریکا کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے میں کام یاب ہوئے۔ نوجوان صدر جان ایف کینیڈی عین عالم شباب میں مارے گئے۔ موت کے وقت ان کی عمر 46 سال تھی۔ وہ بالخصوص امریکی نوجوانوں میں بہت مقبول تھے اور کہتے ہیں ایک نسل ان کی پرستار تھی۔

    جان ایف کینیڈی کا دور امریکا کی تاریخ کا بہترین دور قرار دیا جاتا ہے، حالاں کہ صدر کی زیادہ تر پالیسیاں اور سیاسی کام یابیاں نامکمل ہی رہیں۔ عہدۂ صدارت پر ان کے ایک ہزار سے زائد دنوں میں بہت سے کام ادھورے ہی رہے۔

    وہ امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ تھے۔ امریکا کی سیاسی تاریخ‌ اور مختلف ادوار پر گہری نظر رکھنے والوں اور بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اگر کینیڈی زندہ رہتے تو شاید امریکا میں سماجی تفریق کم ہوتی۔

    کیا جے ایف کے کہلائے جانے والے امریکی صدر کا قاتل لی ہاروے اوسوالڈ ہی تھا یا کوئی اور؟ لوگ کل کی طرح آج بھی یہ سوال کرتے ہیں۔ 2017ء میں صدر کے قتل سے متعلق ڈھائی ہزار سے زائد دستاویزات جاری کرتے ہوئے اسے قومی عام کر دی گئی ہیں۔