Tag: Johnson

  • کورونا وائرس ، برطانوی وزیراعظم  نے ‘نیشنل ایمرجنسی’ کا اعلان کر دیا

    کورونا وائرس ، برطانوی وزیراعظم نے ‘نیشنل ایمرجنسی’ کا اعلان کر دیا

    لندن : برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے نیشنل ایمرجنسی کا اعلان کر دیا، جس کے تحت دو سے زیادہ افراد کے گھر سے نکلنے پر پابندی عائد ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے نیشنل ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومی ایمرجنسی کی صورتحال ہے، گھر پر رہیں ہم سب مل کر کرونا وائرس کو شکست دیں گے۔

    بورس جانسن نے خطاب میں کہا اگر بہت زیادہ لوگ اکٹھے بیمار ہو گئے تو این ایچ ایس کیلئے مشکل ہو جائے گا، لوگوں کی اکثریت ہدایات پر عمل کر رہی ہے۔

    برطانوی وزیراعظم نے سخت ہدایات جاری کیں کہ ایک بار شاپنگ اور صرف ایک بار ایکسرسائز کیلئے باہر نکلیں، اگر دوست بلائیں تو بھی باہر نہ جائیں، رشتہ داروں سے ملنے کیلئے بھی باہر نہ نکلیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ خوراک کیلئے ڈیلیوری سروس استعمال کریں ، دو سے زیادہ لوگ اکٹھے باہر نہ نکلیں، پولیس کے پاس طاقت کے استعمال کا اختیار ہے اور ہدایات پر عمل نہ کرنے والوں کو جرمانے بھی کئے جائیں گے۔

    وزیراعظم نے کہا کہ پارکس کھلے رہیں گے مگر لوگوں کو اکٹھا ہونے کی اجازت نہیں دیں گے، تاہم اگر صورتحال بہتر ہوئی تو نرمی کریں گے۔

    بورس جانسن نے کہا کہ این ایچ ایس کو لاکھوں ٹیسٹ کٹس مہیا کر دی ہیں اور ادارے کی مکمل سپورٹ جاری رکھیں گے۔ ہمیں معاشرے کے ہر فرد کی حمایت کی ضرورت ہے ماضی میں ہماری قوم نے ایسے بہت سے چیلنجز کا مقابلہ کیا اور ہم اس بحران سے بھی نکلیں گے اور کرونا وائرس کو شکست دیں گے۔

    خیال رہے برطانیہ میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 6650 ہو گئی، گزشتہ چوبیس گھنٹوں 967 نئے کیسز سامنے آئے جبکہ ملک بھر میں ہلاکتوں کو تعداد 335 تک جا پہنچی ہے۔

    این ایچ ایس اب تک83,945 افراد کے ٹیسٹ کر چکا ہے۔ برطانیہ میں آج سے پندرہ لاکھ افراد کو تین مہینوں تک گھروں میں رہنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں، یہ وہ افراد ہیں جنہیں کرونا سے شدید خطرات لاحق ہیں، ان افراد میں مختلف بیماریوں میں مبتلاءیا کمزور قوت مدافعت کے حامل افراد ہیں۔

    برطانوی سیکرٹری ہیلتھ نے آج ملک سے باہر تمام برطانوی شہریوں کو جلد از جلد واپس گھر لوٹنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔

  • کیا بورس جانسن اخوان المسلمون سے متعلق برطانوی پالیسی تبدیل کریں گے؟

    کیا بورس جانسن اخوان المسلمون سے متعلق برطانوی پالیسی تبدیل کریں گے؟

    لندن :برطانیہ میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی ذرائع ابلاغ میں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا نومنتخب وزیراعظم بورس جانسن اور ان کی جماعت کنزر ویٹیو پارٹی عرب دنیا کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت اخوان المسلمون کے بارے میں اپنیپالیسی تبدیل کرے گی؟

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی ایک نیوز ویب سائٹ کی رپورٹ میں بورس جانسن کی زندگی، ان کے نظریات، مذہبی جماعتوں کے بارے میں ان کے افکارپرروشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بورس جانسن کا سیاسی پس منظر ان کے خاندانی واقعات سے کم دلچسپ نہیں۔

    بورس جانسن ایک مصنف اور دانشور بھی ہیں جو خطے اور علاقائی وعالمی سیاست پربھی گہری دست رست رکھتے ہیں،انہوں نے سنہ2006ءمیں رومن سلطنت کے حوالے سے ایک کتاب تالیف کی۔

    انہوں نے اس میں لکھا کہ دنیا کے بعض خطوں میں ترقیاتی عمل میں رکاوٹ کا ایک سبب اسلام سمجھا جاتا تھا، اس کے نتیجے میں اسلام کی مظلومیت کی بات کی گئی اور یہی تاثر دنیا میں جنگوں کا موجب بن گیا۔

    عرب ٹی وی کے مطابق بورس جانسن نے اپنی کتاب”جانسن اور روم کا خواب“ میں اسلام کے حوالے سے جوموقف اختیار کیا اس پرانہیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

    انہوں نے لکھا کہ مغرب کی نسبت اسلام مادی ترقی میں مسلمان ممالک کی پسماندگی کا سبب بنا اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری رہا، بورس جانسن کے اسلام کے حوالے سے نظریات اخبار نے بھی شائع کیے تھے۔

    برطانیہ کی طرف سے اخوان المسلمون کے حوالے سے اپنائے گئے مؤقف پر بھی بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔ کئی ممالک جن میں مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دوسرے ملکوں میں اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے۔ ایسے میں بعض ممالک اخوان کو پناہ اور تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

    اخوان کے رہ نماﺅں اور ارکان کی بڑی تعداد قطر، ترکی اور برطانیہ میں موجود ہے اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی کیونکہ یہ ممالک اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیتے۔

    مبصرین کا خیال ہے کہ برطانیہ کی کنزر ویٹیو پارٹی کے اخوان المسلمون کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم ہیں۔ اخوان نے برطانوی کنزر ویٹیو پارٹی کو متعدد انتخابات میں کامیابی کےلیے مدد فراہم کی۔

    اخوان کے حامی لوگوں نے کنزر ویٹیو پارٹی کے امیداروں کو ووٹ دیے۔ اس کے علاوہ برطانوی سیکیورٹی ادارے مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک پر دباؤ کےلیے اخوان المسلمون کو ایک آلہ کارکے طورپر استعمال کرتے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ جانسن سبکدوش ہونے والی برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کی نسبت اخوان المسلمون اور اس کے مالیاتی نیٹ ورک کے بارے میں ایک نیا موقف اختیار کرسکتے ہیں۔برطانیہ میں موجود اخوان المسلمون کی قیادت کو بھی خدشہ لاحق ہے کہ بورس جانسن کے دور حکومت میں اخوان پرعرصہ حیات تنگ کیا جاسکتا ہے۔

  • یورپی یونین سے علیحدگی کے معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، یورپی یونین

    یورپی یونین سے علیحدگی کے معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، یورپی یونین

    لندن : یورپی یونین کے رہنماؤں نے برطانیہ کے اگلے وزیر اعظم کو خبردار کیا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے اگلے وزیراعظم کے لیے بورس جانسن اور وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ کے درمیان سخت مقابلہ ہے جن میں سے کوئی ایک مستقبل میں بریگزٹ کی ذمہ داری نبھائے گا اس حوالے سے بورس جانسن اور جیریمی ہنٹ دونوں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ تھریسا مے کی جانب سے برسلز سے کیے گئے معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔

    خیال رہے کہ تھریسا مے کی جانب سے کیے گئے معاہدے کو برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے 3 مرتبہ مسترد کیا تھا۔

    برسلز میں سربراہان کے اجلاس میں یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا کہ ویسٹ منسٹر میں جاری سیاسی ڈرامے کے باوجود یورپی یونین صبر کا مظاہرہ کرے گا۔

    ڈونلڈ ٹسک نے صحافیوں کو بتایا کہ لندن میں کچھ فیصلوں کی وجہ سے بریگزٹ کا عمل پہلے کے مقابلے میں زیادہ پرجوش ہونے کا امکان ہے تاہم اس حوالے سے ہماری پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ دیگر 27 یورپی یونین رہنما اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے قانونی معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائےگی۔

    ڈونلڈ ٹسک نے کہا کہ اگر برطانیہ چاہتا ہے تو ہم لندن اور یورپی یونین کے مستقبل پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن بریگزٹ معاہدے پر دوبارہ مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔

    یورپی کمیشن کے سربراہ جین کلاڈ، جنہوں نے بریگزٹ پر بات چیت کےلئے یورپی یونین کی سربراہی کی تھی نے کہا کہ رہنماؤں نے اتفاق رائے سے بارہا کہا تھا کہ علیحدگی کے معاہدے پر دوبارہ مذاکرات نہیں ہوں گے۔

    خیال رہے کہ برطانیہ کے نئے وزیر اعظم کے لیے ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں بورس جانسن نے 313 میں سے 114 ووٹ حاصل کیے تھے۔برطانیہ کی یورپین یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے حامی بورس جانسن نے تھریسا مے کے بعد ملک کے اگلے وزیر اعظم کے امیدوار کے لیے ہونے والی ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں 40 فیصد ووٹ حاصل کرکے اپنی برتری قائم رکھی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی وزارت عظمیٰ کے لیے آخری دو امیدواروں میں سے ایک کے انتخاب کے لیے ملک بھر میں کنزرویٹو پارٹی کے ایک لاکھ 60 ہزار اراکین ووٹ دیں گے تاہم ان امیدواروں میں بورس جانسن انتہائی متنازع شخصیت ہیں۔

    مقامی خبر رساں ادارے کے مطابق بعض افراد کا کہنا ہے کہ وہ وہی ہیں جو برسلز سے جیت سکتے ہیں جبکہ ناقدین ان کے طریقہ کار اور عدم توجہ پر تنقید کرتے ہیں۔

    بورس جانسن سے حالیہ خطرات یہ ہیں کہ وہ برطانیہ کا 3 کروڑ 90 لاکھ پاؤنڈز (4 کروڑ 40 لاکھ یورو، 5 کروڑ ڈالر) مالیت کا قانون اس وقت روک دیں گے جب تک یورپی یونین بہتر شرائط پر آمادہ نہیں ہوتا۔

    واضح رہے کہ بریگزٹ 2 مرتبہ تاخیر کا شکار ہوچکا ہے، جیریمی ہنٹ اور بورس جانسن کہتے ہیں کہ برطانیہ کو موجودہ ڈیڈلائن 31 اکتوبر کو یورپی یونین سے علیحدہ ہوجانا چاہیے، چاہے کسی معاہدے کے بغیر ایسا ہو تاہم جیریمی ہنٹ نے تجویز دی ہے کہ اگر برسلز کے ساتھ معاہدے کے قریب ہو تو بریگزٹ میں تاخیر ہوسکتی اور بورس جانسن نے 31 اکتوبر کو یورپی یونین سے علیحدگی کی ضمانت دینے سے انکار کردیا ہے۔

    یاد رہے کہ برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے 24 مئی کو انتہائی جذباتی انداز میں اعلان کیا تھا کہ وہ 7 جون کو وزیراعظم اور حکمراں جماعت کنزرویٹو اور یونینسٹ پارٹی کی سربراہ کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گی اور 7 جون کو انہوں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

    تھریسا مے استعفے کے باوجود نئے سربراہ کے انتخاب تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر برقرار رہیں گی جو جولائی کے اواخر میں منتخب ہوں گے، لیکن وہ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی (بریگزٹ) کے معاملے پر فیصلے کا اختیار نہیں رکھتیں۔

  • مسلم خواتین کی توہین پر معافی نہیں، پارٹی سے نکالا جائے، لارڈ شیخ کا مطالبہ

    مسلم خواتین کی توہین پر معافی نہیں، پارٹی سے نکالا جائے، لارڈ شیخ کا مطالبہ

    لندن : کنزرویٹو پارٹی مسلم فورم کے بانی لارڈ شیخ نے کہا ہے کہ مسلم خواتین کے حوالے سے نازیبہ الفاظ استعمال کرنے پر صرف معافی کافی نہیں،  بلکہ بورس جانسن کو ترجمانی سے ہٹاکر پارٹی سے نکال دینا چاہیئے۔

    تفصیلات کے مطابق کنزرویٹو پارٹی مسلم فورم کے بانی لارڈ شیخ نے وزیر اعظم تھریسا مے سے مطالبہ کیا ہے کہ سابق وزیر خارجہ بورس جانسن کی جانب سے مسلمان خواتین کی توہین کرنے پر صرف معافی مانگنا کافی نہیں ہے بلکہ انہیں پارٹی سے نکال دینا چاہیئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ لارڈ شیخ کی جانب سے برطانوی وزیر اعظم سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ بورس جانسن کو پارٹی کی ترجمانی سے ہٹا دینا چاہیے۔

    خیال رہے کہ سابق برطانوی وزیر خارجہ نے بیان دیا تھا کہ ڈنمارک کی جانب سے سڑکوں پر برقعہ یا نقاب اوڑھنے پر جرمانے عائد کرنا غلط ہے تاہم برقعہ اوڑھنے والی خواتین لیٹر بکس کی طرح نظر آتی ہیں اور ان کا موازنا بینک لوٹنے والوں اور باغی نوجوانوں سے کیا جاسکتا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے سیکریٹری ثقافت جیریمی رائٹ نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ’مسلم خواتین کے برقعے پر بات چیت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے‘ لیکن ہم شراب نوشی کی جگہ پر اپنے دوستوں سے گفتگو نہیں کررہے، ہم عوامی شخصیات ہیں ہمیں بیانات دینے میں بہت محتاط رہنا ہوگا۔

    کنزرویٹو پارٹی کے چیئرمین برنڈن لیوس نے برطانوی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سابق وزیر خارجہ کو مذکورہ مسئلے پر بحث کرنے کا پورا حق ہے، لیکن جو زبان انہوں نے استعمال کی ہے اس پر بورس جانسن کو معافی مانگنی چاہیئے‘۔

    سابق وزیر خارجہ کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے لیبر رکن پارلیمنٹ ڈیوڈ لیمی نے بورس جانسن کو ’پونڈ شاپ ڈونلڈ ٹرمپ‘ قرار دیا تھا اور الزام عائد کیا تھا کہ وہ سیاسی فوائد کے لیے اسلامو فوبیا کے شعلے بھڑکا رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ ڈنمارک نے گزشتہ ہفتہ فرانس، جرمنی، آسٹریا اور بیلجیم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوامی مقامات پر برقعہ پہننے پر پابندی عائد کردی ہے۔

  • امریکا، ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم نہ کرے: برطانوی وزیر خارجہ کی اپیل

    امریکا، ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم نہ کرے: برطانوی وزیر خارجہ کی اپیل

    لندن: برطانیہ کے وزیر خارجہ بورس جانسن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپیل کی ہے کہ وہ ایران کے ساتھ ماضی میں ہونے والا جوہری معاہدہ ختم نہ کرے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے جاری کردہ بیان میں کیا، بورس جانسن کا کہنا تھا کہ یقیناً معاہدے میں خامیاں موجود ہیں لیکن انہیں بجائے منسوخ کرنے کے خامیاں ختم کی جاسکتی ہیں، میں جرمنی اور فرانس کے ساتھ مل کر ٹرمپ حکومت کو معاہدہ برقرار رکھنے پر قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

    برطانوی وزیر خارجہ ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے امریکا پہنچ گئے

    ان کا مزید کہنا تھا کہ معاہدے نے ایران کے جوہری عزائم کو "ہتھکڑی” لگادی ہے اور اگر معاہدہ ختم کیا گیا تو اس کا فائدہ صرف ایران کو ہی ہوگا، امید ہے امریکی صدر کو اپنے موقف پر قائل کر لیں گے، جبکہ اتحادی ممالک کی جانب سے بھی امریکی صدر پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔

    خیال رہے کہ ایران کے ساتھ طے ہونے والے جوہری معاہدے کی منسوخی کے حوالے سے امریکا اور ایران کے درمیان حالات پھر کشیدہ ہونے لگے ہیں، برطانیہ کے وزیر خارجہ بورس جانسن ایٹمی معاہدے سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ سے گفتگو کرنے کے لیے سرکاری دورے پر امریکا میں موجود ہیں جہاں وہ جلد امریکی صدر سے ملیں گے۔

    جوہری سمجھوتہ: امریکی صدر کے فیصلے کا توڑ تیار کرلیا، ایرانی صدر حسن روحانی

    واضح رہے کہ جرمنی، برطانیہ اور فرانس موجودہ معاہدے پر متفق ہیں جس کے ذریعے ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روکا جاسکتا ہے جبکہ اقوام متحدہ بھی امریکا کو ایٹمی معاہدے کو ختم کرنے کے خطرناک نتائج سے خبردار کرچکا ہے۔

    یاد رہے کہ سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور صدرات میں فرانس، برطانیہ، چین، روس، جرمنی، امریکا اور ایران کے درمیان جوہری ہتھیار کے حصول کو ترک کرنے کا معاہدہ طے ہوا جس کے تحت عالمی طاقتوں نے ایران پر لگائی گئی اقتصادی پابندیوں میں نرمی کی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔