Tag: journalist

  • منشیات اسمگلنگ کا الزام، معروف صحافی گرفتار

    منشیات اسمگلنگ کا الزام، معروف صحافی گرفتار

    ماسکو : پولیس نے غیر قانونی منشیات اسمگلنگ کے الزام میں معروف روسی صحافی کو گرفتار کرکے گھر میں نظر بند کردیا تاہم صحافی نے الزامات کو بے بنیاد و جھوٹ قرار دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق روس میں معروف مقامی صحافی کو منشیات فروخت کرنے کے الزام میں دو ماہ کے لیے گھر میں نظر بند کردیا گیا، ایوان گولونوف نامی صحافی نے خود پر عائد الزامات مسترد کرتے ہوئے اسے اپنے خلاف سازش قرار دیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی صحافی ایوان کے ادارے نے الزام لگایا کہ پولیس نے ان کے ملازم کو دوران حراست تشدد کا بھی نشانہ بنایا۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کا کہنا تھا کہ ایوان گولونوف کی گرفتاری کے خلاف ماسکو میں صحافیوں کا احتجاج جاری ہے، واقعے کے خلاف گزشتہ روز بھی ماسکو میں پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر درجنوں صحافی جمع ہوئے تھے۔

    میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی اداروں نے صحافی کو عدالت میں منشیات کی غیر قانونی اسمگلنگ کے مقدمے کی سماعت کے بعد گھر میں ہی نظر بند کیا گیا ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے دوران حراست صحافی کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔

    لٹویا سے تعلق رکھنے والے خبر رساں ادارے ’میڈوزا‘ کے لیے صحافتی خدمات انجام دینے والے رپورٹر کو جمعرات کے روز گرفتار کیا گیا تھا۔

    صحافی کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ غیر قانونی منشیات اسمگلنگ کی جھوٹی کہانی ایوان گولونوف کو گرفتار کرنے کےلیے گڑھی گئی ہے جبکہ روسی حکام نے صحافی کے وکیل کی جانب سے عائد کیے گئے الزامات کو مسترد کردیا ہے۔

    خبر رساں ادارے میڈوزا نے الزام عائد کیا ہے کہ 36 سالہ صحافی ایوان گولونوف ان کی صحافتی خدمات کے باعث ایذا پہنچائی جارہی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ رپورٹر اپنے ساتھی صحافی سے ملاقات کے لیے جارہے تھے کہ دوران سفر پولیس اہلکاروں نے ایوان گولونوف کو روکا اور تلاشی شروع کی، دوران تلاشی پولیس کو گاڑی سے بھاری مقدار میں منشیات برآمد ہوئیں تھیں۔

    صحافی پر ہفتے کے روز قانونی طور پر غیر قانونی منشیات کی اسمگلنگ کی فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

  • میکسیکو میں حکومتی تحویل میں لیا گیا صحافی تشدد کے بعد قتل

    میکسیکو میں حکومتی تحویل میں لیا گیا صحافی تشدد کے بعد قتل

    میکسیکو سٹی : میکسیکو صحافیوں کے لیے خطرناک ممالک کی فہرست میں شامل ہے، میکسیکو کے صحافی فرانسسکو رومیرو کو تشدد کے بعد چہرے پر دو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق میکسیکو کے کرائم رپورٹر فرانسسکو رومیرو کو قتل کی دھمکیاں ملنے پر وفاقی حکومت کی جانب سے چار محافظ فراہم کیے گئے تھے تاہم اس کے باوجود وہ بہیمانہ طور پر قتل کر دیئے گئے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ فرانسسکو رومیرو ان 12 صحافیوں میں شامل تھے جنہیں قتل کی دھمکیوں پر وفاق کی جانب سے تحفظ فراہم کیا گیا تھا، انہیں صبح 5 بجے ایک کال موصول ہوئی جس میں نائٹ کلب میں ایک حادثے کی اطلاع دی گئی جس پر وہ نائٹ کلب گئے تھے جہاں انہیں تشدد کے بعد قتل کردیا گیا۔

    پولیس نے مزید بتایا کہ صحافی نے اپنے چاروں محافظوں کو رات 10 بجے ہی گھر روانہ کردیا تھا اور خود سو گئے تھے جبکہ نائٹ کلب جاتے ہوئے وہ اپنا حفاظتی بٹن بھی ساتھ لیکر نہیں گئے جسے دبا کر پولیس کو خطرے کی اطلاع دے سکتے تھے۔

    فرانسسکو رومیرو ریاست کے ایک اہم اخبار سے منسلک تھے اور اپنا فیس بک پیج بھی چلاتے تھے جس میں وہ سیاست اور جرائم کے درمیان تعلق سے پردہ اٹھاتے تھے۔ میکسیکو صحافیوں کے لیے خطرناک ممالک میں شامل ہیں جہاں رواں برس 5 صحافی قتل کیے گئے ہیں۔

  • خاشقجی قتل کیس میں برطرف سعودی مشیر کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کا انکشاف

    خاشقجی قتل کیس میں برطرف سعودی مشیر کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کا انکشاف

    ریاض/استنبول : ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کیس میں جن 11 افراد کے خلاف ٹرائل چل رہا ہے ان میں سعودی ولی عہد کے شاہی مشیر سعود القحطانی شامل نہیں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق استنبول میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ذرائع نے 2 شاہی مشیروں کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا ہے جن میں سے ایک کو رِنگ لیڈر قرار دیا گیا ہے جبکہ 11 مشتبہ ملزمان کے بند کمرہ ٹرائل میں دوسرے کی غیر موجودگی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔

    سعودی پراسیکیوٹرز نے کہا کہ ڈپٹی انٹیلی جنس چیف احمد العصیری نے استنبول کے قونصل خانے میں سعودی صحافی کے قتل کی نگرانی کی جس کی ہدایات سعود القحطانی نے دی تھیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ چار مغربی حکام کے مطابق دونوں افراد سعودی ولی عہد کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں اور انہیں باقاعدہ طور پر برطرف کیا جاچکا ہے، احمد العصیری ہی جنوری سے لے کر اب تک ہونے والی 5 سماعتوں میں پیش ہوئے۔

    ایک عہدیدار نے بتایا کہ جن 11 افراد کا ٹرائل ہورہا ہے، ان میں سعود القحطانی شامل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس غیر موجودگی کا کیا مطلب ہے؟ کیا سعودی ان کی حفاظت کرنا چاہتے یا ان کے خلاف علیحدہ کاررروائی کریں گے؟ کوئی نہیں جانتا۔

    سعودی عرب کے پبلک پراسیکیوٹر نے گزشتہ برس نومبر میں 11 نامعلوم مشتبہ افراد کو گرفتار کیا تھا جن میں 5 کو سزائے موت کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    امریکا، برطانیہ، فرانس، چین، روس سمیت ترکی کے سفارت کاروں کو جمال خاشقجی کے قتل کے خلاف جاری سماعتوں میں آنے کی اجازت ہے جو کہ صرف عربی زبان میں منعقد ہوتی ہیں۔

    ذرائع نے بتایا کہ انہیں مترجم ساتھ لانے کی اجازت نہیں اور انہیں شارٹ نوٹس پر مدعو کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمال خاشقجی کے خاندان کے ایک فرد نے، جنہوں نے سعودی حکومت سے تصفیہ کی تردید کی تھی،صرف ایک عدالتی سیشن میں شرکت کی ہے۔

    عہدیداران نے کہا کہ انٹیلی جنس رکن ماہر مطرب جو غیرملکی دوروں پر سعودی ولی عہد کے ہمراہ سفر کرتے تھے، فارنسک ایکسپرٹ صلاح الطبیغی اور سعودی شاہی گارڈ کا رکن فہد البلاوی ان 11 افراد میں شامل ہیں جنہیں سزاے موت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    ان تمام 11 افراد کو اپنے دفاع کے لیے لیگل کونسل کی اجازت حاصل ہے۔عہدیداران کا مطابق ان میں سے اکثر نے عدالت میں اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے احمد العصیری کے احکامات پر عمل کیا اور انہیں آپریشن کا رِنگ لیڈر قرار دیا۔

    سعودی عرب کی میڈیا منسٹری نے اے ایف پی کی جانب سے تبصرے کی درخواست پر کوئی رد عمل نہیں دیا، اور ملزمان کے وکلا سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

    مغربی عہدیداران نے کہا کہ احمد العسیری کو سعودی فوج میں جنگی ہیرو کا درج حاصل ہے، انہیں سزائے موت کا سامنا نہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ماضی میں امریکی انٹیلی جنس کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث سعودیوں پر پابندی سےمتعلق جاری کی گئی امریکا کی دو فہرستوں میں بھی ان کا نام شامل نہیں۔

    دوسری جانب سعود القحطانی جنہوں نے سعودی عرب پر تنقید کرنے والوں کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی تھی اور جنہیں سعودی ولی عہد کا اہم ساتھی سمجھا جاتا ہے ان کا نام دونوں فہرستوں میں موجود ہے۔

    جمال خاشقجی قتل، اقوام متحدہ کا سعودی حکومت سے اوپن ٹرائل کا مطالبہ

    سعودی پراسیکیوٹر آفس کے مطابق سعودی اسکواڈ کی ترکی روانگی سےقبل انہوں نے میڈیا اسپیشلائزیشن پر مبنی مشن سے متعلق اہم معلومات بتانے کے لیے ملاقات کی تھی۔ تاہم جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سے وہ اب تک سامنے نہیں آئے اور اس وقت وہ کہاں ہیں کیسے ہیں یہ ایک معمہ بن گیا ہے۔

    بعض سعودی افراد کا دعوی ہے کہ وہ پسِ منظر میں ان تمام حالات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں لیکن دیگر افراد کا کہنا ہے کہ وہ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد عالمی برادری کے ردعمل ختم ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔

  • شمالی آئرلینڈ میں پُرتشدد مظاہرے، خاتون صحافی گولی لگنے سے ہلاک

    شمالی آئرلینڈ میں پُرتشدد مظاہرے، خاتون صحافی گولی لگنے سے ہلاک

    لندن : برطانیہ کے علاقے لندن ڈیری میں مظاہرین نے دوران فسادات خاتون کو صحافی کو قتل کردیا، پولیس نے قتل کو دہشت گردانہ کارروائی قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی ریاست شمالی آئرلینڈ کے علاقے لندن ڈیری میں جمعرات کی رات برطانوی پولیس کے سرچ آپریشن کے بعد شروع ہونے والے پُر تشدد مظاہروں کے دوران ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے مظاہرین نے 29 سالہ صحافی لیرا میکّی کو قتل کردیا۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ احتجاج میں شریک مظاہرین نے پولیس کے خلاف آزادنہ طور پر پیڑول بم استعمال کیے۔

    برطانوی پولیس کے اسسٹنٹ چیف کانسٹیبل مارک ہمیلٹن کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی اداروں نے صحافی کے قتل کی تحقیقات شروع کردیں ہیں۔

    پولیس اسسٹنٹ چیف نے بتایا کہ گزشتہ رات تقریباً 11 بجے مسلح افراد نے پولیس کی جانب متعدد فائر کیے، جس کے نتیجے میں 29 سالہ نوجوان خاتون صحافی لیرا میکّی شدید زخمی ہوگئیں۔

    مارک ہمیلٹن کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں نے پولیس جیپ میں زخمی صحافی کو جائے وقوعہ سے اٹھاکر قریبی اسپتال منتقل کیا تاہم وہ جانبر نہ ہوسکی۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ پُرتشدد مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب پولیس نے مُلروئے پارک اور گلیگا کے علاقے میں متعدد گھروں میں شرچ آپریشن کیا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق ریپبلیکن پارٹی کے مظاہرین نے پولیس کی گاڑیوں پر 50 پیٹرول بم پیھنکے تھے جبکہ دو پولیس جیپوں کو اپنے قبضے میں لے کر نذر آتش بھی کیا ہے۔

    برطانیہ کی کی متعدد سیاسی جماعتوں باالخصوص شمالی آئرلینڈ کی سیاسی جماعت ڈی یو پی نے خاتون صحافی کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتےہوئے کہا کہ اس مشکل گھڑی اہل خانہ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔

  • کراچی : گورنر ہاؤس میں اسپورٹس ایوارڈ تقریب میں بد نظمی: صحافیوں کا بائیکاٹ

    کراچی : گورنر ہاؤس میں اسپورٹس ایوارڈ تقریب میں بد نظمی: صحافیوں کا بائیکاٹ

    کراچی : گورنر ہاؤس کراچی میں ہونے والی پاکستان اسپورٹس ایوارڈ کی تقریب وی وی آئی پی سیکیورٹی کے باعث بد نظمی کا شکار ہوگئی، ایوارڈ میں نامزد افراد اور صحافیوں نے بائیکاٹ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق پہلے سالانہ اسپورٹس ایوارڈز میں منتخب ہونے والے افراد اور کھیلوں سے وابستہ صحافیوں نے گورنر ہاؤس کراچی میں ہونے والی تقریب کا بائیکاٹ کردیا جس کی وجہ بد نظمی بتائی جارہی ہے۔

    گورنر ہاؤس میں ہونے والی تقریب میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی، اس موقع پر مہمانوں اور میڈیا نمائندوں کو اس وقت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب وی وی آئی پی پروٹوکول کے باعث انہیں گورنر ہاؤس جانے سے روک دیا گیا۔

    تقریب میں مختلف کھیلوں کی معروف شخصیات، صحافی اور ان کے ساتھ آنے والی فیملیز کو ایک گھنٹے تک باہر روکے رکھا گیا، سیکیورٹی اہلکاروں کو مہمانوں کی مکمل فہرست بھی فراہم نہیں کی گئی تھی۔

    پاکستان کے نامور اسپورٹس جرنلسٹ رشید شکور جن کا نام اس سال ایوارڈ جیتنے والوں کی فہرست میں ہے وہ بھی اس تقریب میں شرکت سے محروم رہے، سیکیورٹی اہلکاروں نے ان کو بھی اندر جانے سے روک دیا،۔

    اس حوالے سے نمائندہ اے آر وائی نیوز شاہد ہاشمی جو اس ایونٹ میں جیوری کے ممبر بھی ہیں انہیں بھی اسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا، ان کا کہنا ہے کہ انتطامیہ کا یہ اقدام وزیر اعظم عمران خان اور ان کے نئے پاکستان کے ویژن کی توہین ہے۔

  • احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر نواز شریف کو صحافیوں نے گھیر لیا

    احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر نواز شریف کو صحافیوں نے گھیر لیا

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر ایک اور مشکل میں گھر گئے، سماعت کی کوریج کے لیے آئے صحافیوں نے نواز شریف کو گھیر لیا اور گزشتہ روز ان کے گارڈ کی جانب سےاپنے ساتھی پر تشدد کیے جانے کے خلاف احتجاج شروع کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کے لیے احتساب عدالت پہنچے تو وہاں موجود صحافیوں نے ان کا گھیراؤ کرلیا۔

    گزشتہ روز نواز شریف کی پارلیمنٹ آمد پر ان کے گارڈ نے 2 کیمرہ مینوں پر تشدد کیا تھا جس سے سما ٹی وی کا کیمرہ مین واجد علی بے ہوش ہوگیا تھا۔

    واقعے کے بعد گزشتہ روز بھی صحافی سراپا احتجاج بن گئے لیکن نواز شریف نظر انداز کر کے چلے گئے، تاہم آج جب نواز شریف احتساب عدالت پہنچے تو صحافیوں نے ان کا گھیراؤ کرلیا۔

    صحافیوں نے ان کی آمد کے موقع پر احتجاج بھی کیا اور ان سے گزشتہ روز کے واقعے پر آن کیمرہ معذرت کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر صحافیوں کی نواز شریف کے
    سیکیورٹی اسکواڈ اور وکلا سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔

    گزشتہ روز واقعے کے بعد نواز شریف نے صحافی پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ واقعے کا سن کر دکھ اور افسوس ہوا۔ علم ہوتے ہی مریم اورنگ زیب اور دیگر ارکان کو اسپتال بھیجا ہے، پارٹی رہنماؤں کو زخمی کیمرا مین کے علاج معالجے کی بھی ہدایت کردی ہے۔

    سابق وزیر اطلاعات اور مسلم لیگ ن کی رہنما مریم اورنگ زیب نے پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کرنے والے صحافیوں سے ملاقات میں نواز شریف کے گارڈ کے خلاف مقدمے کے اندراج پر آمادگی کا اظہار بھی کیا تھا۔

    انہوں نے کہا تھا کہ صحافی جو کہیں گے ہمیں قبول ہوگا، مسلم لیگ ن صحافی برادری کے ساتھ ہے، میڈیا کے جو بھی مطالبات ہیں پورے کیے جائیں گے، آلات اور کیمرے وغیرہ کا نقصان ہوا ہو تو اسے پورا کیا جائے گا۔دوسری جانب تشدد کرنے والے گارڈ کو پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔

    وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت ختم ہوگئی مگر مغلیہ سوچ ختم نہ ہوئی، میاں صاحب غریبوں کی اور بد دعائیں نہ لیں، کیمرا مین کے زخمی ہونے پر بھی میاں صاحب نے رکنے کی زحمت نہ کی۔

    فواد چوہدری نے صحافیوں سے سوال کیا تھا کہ نواز شریف کے سیکیورٹی گارڈ کے خلاف پرچے کے اندراج میں مدعی کون بنے گا؟ جس پر صحافیوں نے جواب دیا کہ ہم سب مدعی ہیں۔

    ایف آئی آر درج

    پارلیمنٹ کے باہر کیمرہ مین واجد علی شاہ پر تشدد کی ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔ کیمرہ مین کی درخواست پر نواز شریف کے 3 گارڈز کے نام مقدمے میں شامل ہیں۔

    مقدمت میں دفعہ 506 ٹو اور 355 کے تحت گارڈ شکور اور 2 نامعلوم گارڈز کو شامل کیا گیا ہے۔

    ایف آئی آر کے متن میں صحافی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے اجلاس کے لیے معمول کی کوریج پر معمور تھا، نواز شریف کی واپسی کی فوٹیج بنانے لگا تو 2 سیکیورٹی گارڈز نے تشدد کیا، نواز شریف کے چیف سیکیورٹی گارڈ کی ہدایت پر گارڈز نے تشدد کیا۔

    ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ تشدد کے نتیجے میں زخمی ہو کر بے ہوش ہوگیا، ساتھیوں نے اسپتال پہنچایا۔

    وزیر صحت کی عیادت

    وفاقی وزیر صحت عامر کیانی پمز اسپتال پہنچے جہاں انہوں نے زخمی کیمرہ مین کی عیادت کی۔ انہوں نے کیمرہ مین پر تشدد کی مذمت بھی کی۔

  • جمال خاشقجی کا قتل، سعودی عرب نے امریکی سینیٹ کی قرارداد مسترد کردی

    جمال خاشقجی کا قتل، سعودی عرب نے امریکی سینیٹ کی قرارداد مسترد کردی

    ریاض: سعودی عرب نے امریکی سینیٹ کی قرارداد مسترد کردی جس میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد کو صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث قرار دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی قرارداد سعودی عرب کے داخلی معاملات میں مداخلت ہے۔

    انہوں نے امریکی سینیٹ کی قرارداد کو افسوس ناک قرار دیا، سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس طرح کے قرار داد سے سالمیت کے لیے خطرہ ہے۔

    امریکی سینیٹ نے گزشتہ ہفتے سعودی عرب سے متعلق دو قراردادیں منظور کیں جن میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار سعودی ولی عہد کو ٹھہرایا تھا۔

    جمال خاشقجی قتل کی تفتیش عالمی برادری سے زیادہ ہمارے لیے اہم ہے، سعودی وزیر خارجہ

    قرارداد میں امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ سے یمن کی جنگ میں سعودی عرب کی عسکری امداد روکنے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔

    خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کے معاملے میں منصفانہ تفتیش بین الاقوامی برادری سے زیادہ سعودی عرب کے لیے اہم ہے۔

    انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ریڈ لائن کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    انہوں نے ترکی سے اپیل کی تھی کہ وہ اس قتل سے متعلق مزید شواہد سعودی استغاثہ میں پیش کرے تاکہ مکمل حقائق جاننے میں مدد مل سکے، ترکی اس امر کا اظہار پہلے ہی کرچکا ہے ولی عہد کا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

  • جمال خاشقجی کے قتل کا حکم سعودی عرب کی اعلیٰ ترین سطح سے آیا: ترک صدر

    جمال خاشقجی کے قتل کا حکم سعودی عرب کی اعلیٰ ترین سطح سے آیا: ترک صدر

    انقرہ: ترک صدر رجب طیب اردوگان کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کا حکم سعودی عرب کی اعلیٰ ترین سطح سے آیا، سعودی ولی عہد کے اقدامات کا تحمل سے انتظار کررہے ہیں۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے دورہ فرانس سے وطن واپسی پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، ترک صدر رجب طیب اردوگان کا کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد نے معاملے کی وضاحت اور ہر قسم کے اقدامات اٹھانے کا کہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ گرفتار کیے گئے 18 افراد میں مبینہ طور قاتل موجود ہیں، خاشقجی کے قتل کے احکامات دینے والے کو ظاہر کرنا ہوگا، خاشقجی کے قتل کی ریکارڈنگ حقیقتاً خوفناک ہے۔

    سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی مبینہ ریکارڈنگ سے متعلق نیویارک ٹائمز کا انکشاف

    ان کا کہنا تھا کہ پیرس میں امریکی، فرانسیسی، جرمن رہنماؤں سے خاشقجی قتل پر گفتگو ہوئی، ریکارڈنگ امریکا، فرانس، کینیڈا، جرمنی اور برطانیہ سمیت سب کو سنوائیں، ہماری انٹیلی جنس ایجنسی نے خاشقجی قتل سے متعلق کچھ نہیں چھپایا۔

    ترک صدر کا کہنا تھا کہ سعودی انٹیلی جنس افسر ریکارڈنگ سن کر سکتے میں آگیا، سعودی انٹیلی جنس افسر نے کہا ایسا کچھ ہیروئن کے نشے میں کہا جاسکتا ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ سعودی صحافی جمال خوشقجی کے قتل کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

  • مودی سرکار نے دلی کو بھی مقبوضہ کشمیر بنا دیا، حکومت مخالف مظاہرے پر پولیس ٹوٹ پڑی

    مودی سرکار نے دلی کو بھی مقبوضہ کشمیر بنا دیا، حکومت مخالف مظاہرے پر پولیس ٹوٹ پڑی

    دلی: مودی سرکار باز نہ آئی، بھارتی دارالحکومت کو بھی مقبوضہ کشمیر بنا دیا، حکومتی اقدامات کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پولیس ٹوٹ پڑی۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں سی بی آئی چیف کو عہدے سے ہٹانے پر اپوزیشن جماعت کانگریس احتجاج کررہی تھی کہ اچانک پولیس نے لاٹھی چارج شروع کردیا۔

    پولیس کانگریس مظاہرین پر ٹوٹ پڑی، اس دوران مظاہرے میں شامل راہول گاندھی سمیت متعدد رہنماؤں کو حراست میں لیا تاہم بعد میں رہا کردیا گیا۔

    اپوزیشن کی دیگر جماعتیں بھی سی بی آئی چیف کو ہٹانے پر احتجاج کررہی تھیں۔

    لودھی کالونی پولیس اسٹیشن سے باہر آنے کے بعد راہول گاندھی نے کہا کہ وزیر اعظم بھاگ سکتے ہیں، چھپ سکتے ہیں، لیکن بالآخر سچ سامنے آکر رہے گا، سی بی آئی چیف کو ہٹانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

    راہول گاندھی کا کہنا تھا وزیراعظم مودی کرپٹ ہیں، وہ سچ سے بھاگ سکتےہیں، اسے چھپانہیں سکتے، سی بی آئی ڈائریکٹر کی تبدیلی مودی نے ڈر کے سبب کی۔

    کانگریس کی جانب سے بھارت کے مختلف شہروں بھی مظاہرے کیے گئے جن میں نئی دلی، لکھنو، جےپور، چندی گڑھ، تلنگانہ شامل ہے۔

    نئی دلی میں کانگریس کی جانب سے احتجاج کی قیادت راہول گاندھی کررہے تھے۔

  • جمال خاشقجی کا قتل، ترکی نے قاتلوں کی حوالگی کا مطالبہ کردیا

    جمال خاشقجی کا قتل، ترکی نے قاتلوں کی حوالگی کا مطالبہ کردیا

    انقرہ: ترک حکام نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قاتلوں کو ترکی کے حوالے کرے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب نے جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 18 افراد کو حراست میں لے رکھا ہے، جبکہ ترک حکام نے کہا ہے کہ ان قاتلوں کو ہمارے حوالے کیا جائے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ترک حکام چاہتی ہے کہ قاتلوں کے خلاف کارروائی اور مقدمہ ترکی میں ہونا چاہیئے، تاکہ مجرمان کو قرار واقعی سزا دی جاسکے۔

    دوسری جانب سعودی حکومت واضح کر چکی ہے کہ خاشقجی کے قتل میں ملوث ہونے کے شبے میں اٹھارہ افراد حراست میں لیے جا چکے ہیں اور پانچ اعلیٰ حکومتی اہلکاروں کو بھی اُن کی نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ گذشتہ روز ترک صدر رجیب طیب اردوان نے سعودی عرب سے صحافی جمال خاشقجی کی باقیات سامنے لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دینے والے کا نام بھی سامنے لایا جائے۔

    ترک صدر کا سعودی عرب سے جمال خاشقجی کی باقیات سامنے لانے کا مطالبہ

    انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ترکی کے پاس اس کیس سے متعلق مزید معلومات بھی ہیں، گرفتار کیے گیے 18 لوگوں کو جانتے ہیں کہ خاشقجی کا قتل کس نے کیا، مجرم بھی ان میں سے ہیں اس لیے تفصیل نہیں بتاسکتے۔

    واضح رہے جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گئے تھے جس کے بعد وہ لاپتہ ہوگئے تاہم سعودی حکام صحافی کی گمشدگی کے متعلق غلط وضاحتیں دیتا رہا اور دو ہفتے تک حقائق کی پردہ پوشی کرتا رہا۔

    جس کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی سعودی صحافی کو ترکی میں سعودی قونصل خانے میں قتل کردیا گیا تھا، بعد ازاں امریکی صدر نے اس واقعے کی شدید مذمت کی تھی۔