Tag: journalist

  • مقابلہ حسن کی کوریج کرنے والی صحافی فاتح بن گئیں

    مقابلہ حسن کی کوریج کرنے والی صحافی فاتح بن گئیں

    لندن: ایک برطانوی خاتون صحافی کے ساتھ اس وقت نہایت انوکھی صورتحال پیش آئی جو گئیں تو مقابلہ حسن کی کوریج کرنے کے لیے تھیں، لیکن مقابلہ ختم ہونے کے بعد وہ مقابلے کی فاتح قرار پائیں۔

    لارا گڈرہم نامی یہ برطانوی صحافی اپنے اخبار کی جانب سے ایک مقامی مقابلہ حسن کی کوریج کرنے کے لیے گئیں۔

    تاہم وہاں ججز میں شامل اور مقابلے کی 3 بار کی فاتح ملی مارگریٹ ان کے حسن سے بے حد متاثر ہوئیں اور انہوں نے لارا کو مقابلے میں حصہ لینے کا مشورہ دے ڈالا۔

    لارا کا کہنا ہے کہ گو کہ انہیں ماڈلنگ کرنے یا مقابلہ حسن میں لینے کا کوئی شوق نہیں تھا تاہم انہوں نے سوچا کہ قسمت آزمانے میں کیا حرج ہے۔

    انہوں نے مقابلے میں اپنا نام درج کروا دیا۔ جب مقابلہ شروع ہوا تو قسمت نے ہر مرحلے پر ان کا ساتھ دیا اور وہ ایک کے بعد ایک مرحلہ پار کرتی چلی گئیں۔

    بالآخر آخری مرحلہ آیا جب ملکہ حسن کے نام کا اعلان ہونا تھا اور یہاں بھی قسمت نے لارا کا ساتھ دیا اور ججز نے انہیں فاتح قرار دیا۔

    ملکہ حسن بننے کے بعد لارا کی خوشی قابل دید تھی۔ مقابلہ جیتنے کے بعد انہیں ملنے والی ساری رقم فلاحی اداروں کو جانی ہے اور وہ بے حد خوش ہیں کہ ان کی وجہ سے معاشرے کے کمزور افراد کی فلاح کے لیے کوئی قدم اٹھایا جارہا ہے۔

    اب لارا اسی شعبے میں مزید کام کرنے کا سوچ رہی ہیں اور ان کا مقصد اس کے ذریعے فلاحی کاموں کو فروغ دینا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • میڈیا میں عوامی ایڈیٹرکا عہدہ تخلیق کیاجائے، مقررین

    میڈیا میں عوامی ایڈیٹرکا عہدہ تخلیق کیاجائے، مقررین

    کراچی: ماہرین صحافت نے کہا ہے کہ صحافتی اخلاقیات (کوڈ آف ایتھکس) کی صحافیوں سے زیادہ میڈیا مالکان کو ضرورت ہے، الیکٹرانک میڈیا نے صحافتی قدروں کو کھودیا، صحافتی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے حادثات اور سانحات سے متاثرہ افراد کی نجی زندگی میں مداخلت سے گریز کیا جائے، میڈیا میں عوامی شکایات کے ازالے کے لیے محتسب یا عوامی ایڈیٹر کا عہدہ تخلیق کیا جائے۔

    ان خیالات کا اظہار کراچی پریس کلب کے صدر سراج احمد، سینئر صحافی مبشر زیدی، اعزار سید، سجاد اظہر اور فہیم صدیقی نے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی جانب سے پاکستانی میڈیا کے لیے جاری ضابطہ اخلاق کی تقریب اجراء کے موقع پر کراچی پریس کلب میں سیشن کے دوران خطاب کرتے ہوئے کیا۔

    یہ ضابطہ اخلاق پاکستان کولیشن فار ایتھکل جرنلزم کے پلیٹ فارم سے تیار کیا گیا ہے جس میں پاکستان بھر کے سو سے زائد اضلاع سے تعلق رکھنے والے 1477 افراد کی مشاورت شامل تھی۔

    ضابطہ اخلاق میں کہا گیا ہے کہ خبر کے تقدس کو ملحوظ ِ خاطر رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ صحافیوں کو خبر پر جامع اور ہمہ پہلو کام کرنے کے لیے مناسب وقت دیا جائے، انہیں غیر مصدقہ اور غیر متعلقہ معلومات جاری کرنے کے لیے مجبور نہ کیا جائے،معاشرے کے مختلف طبقات کو برابری کی بنیاد پر کوریج دی جائے، مختلف مذاہب، ذاتوں، فرقوں، قومیتوں اور نسلوں، صنفوں، اقلیتی، کمزور اور پسماندہ طبقات کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

    اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سینئر صحافی مبشر زیدی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صحافت آج خطرناک ترین پیشہ بن چکا ہے۔ فاٹا، بلوچستان، مہمندایجنسی، کراچی سمیت دیگر وار زون علاقوں میں رپورٹراپنی جان خطرے میں ڈال کر چینلز اور اخبارات کیلئے کام کررہے ہیں۔ چینلزمیں کوئی ایڈیٹوریل بورڈ موجود نہیں ہے۔ آج مالکان اینکرزاور رپورٹرز کو سوالات پوچھنے کیلئے ہدایات جاری کرتے ہیں۔ ایڈیٹوریل بورڈ نہ ہونے کی وجہ سے یہ سب مسائل درپیش ہیں۔ کوڈآف ایتھکس پر عملدرآمد کیلئے پی ایف یوجے اور صحافتی تنظیموں کو کردار ادا کرنا ہوگا۔

    سینئرصحافی اعزازسید کا کہنا تھا کہ فاٹا،خیبرپختونخوا، کراچی اور بلوچستان میں صحافیوں پر بے شمارحملے ہوئے۔ شدت پسند تنظیموں، قوم پرست جماعتوں، سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں سے ہر دور میں صحافیوں کو خطرات کا سامنا رہا ہے۔ پاکستان صحافیوں کیلئے دنیا کے چارخطرناک ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کوڈ آف ایتھکس کو مدنظر رکھتے ہوئے صحافیوں کو اپنے پیشہ وارانہ فرائض انجام دینے چاہئیے۔ کراچی پریس کلب کے صدرسراج احمد کا کہنا تھا کہ معاشرہ عدم برداشت کی جانب چلا گیاہے۔ صحافیوں کا کام واقعہ کی رپورٹ بنا کرعوام کے سامنے پیش کرنا ہے۔ تفتیشی افسربننا صحافی کا کام نہیں ہے۔ صحافی معاشرہ کو رونما ہونے والے واقعات سے آگاہ کرتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ جغرافیائی تقسیم کسی آبادی کی کوریج پر منفی طور پر اثر انداز نہ ہو، میڈیا کے ادارے نیوز روم، رپورٹنگ اور ایڈیٹوریل اسٹاف میں تنوع کی کوشش کریں۔ صحافی پیشہ وارانہ طریقے اور ادارتی آزادی کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اپنے امور اسرانجام دیں اور وہ ہرقسم کے مفاداتی تنازعات اور جانبداری سے گریزکریں۔

    تشدد اوربحرانوں کے متاثرین کی کوریج کرتے وقت صحافیوں کو معاملے کی حساسیت سے آگاہ کیا جائے کہ کہیں وہ کسی کی دل آزاری یا تکلیف میں اضافے کا موجب تو نہیں بن رہے، نیوز روم فیلڈ میں کام کرنے والے صحافیوں سے قریبی رابطہ رکھے تاکہ وہ فیلڈ میں انہیں درپیش خطرات سے آگاہ ہو، فیلڈ میں کام کرنے والے صحافیوں کی ساکھ کا تحفظ کیا جائے۔

    پریس کلبوں یا صحافتی یونینز کو صحافیوں اور رپورٹروں کے احتساب یا جوابدہی کے لئے کردار ادا کرنا چاہئے، شکایت کنندہ کی تشفی کے لئے محتسب کا کردار متعارف کرایا جائے، تمام میڈیا اداروں کو غیر جانبدار بیرونی محتسب یا عوامی ایڈیٹر کا عہدہ تخلیق کرنا چاہئے جو میڈیا کے صارفین کی شکایات اور اخلاقی تحفظات کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

    صحافیوں کو اپنے لفظوں کے انتخاب میں بہت زیادہ محتاط اور حساس ہونا چاہئیے اور وہ غیر اخلاقی مواد اور نازیبا الفاظ کے بارے میں محتاط رہیں، اس کا خاص خیال براہِ راست کوریج یا خاص مواقع مثلاً دہشت گردی اور جرائم کے واقعات کی کوریج کے وقت کیا جائے۔

    تمام نیوز رومز میں اخلاقیات کمیٹیاں بنائی جائیں جو کہ میڈیا اور رپورٹنگ کے مواد پر نظر رکھیں جس سے اچھی اور معیاری صحافت کو فروغ ملے، میڈیا کے ادارے صحافیوں کو فرسٹ ایڈ کٹ سے لے کر صحت ، تحفظ اور سیکورٹی سے لے کر ٹراما سے متعلق تربیت وقتاً فوقتاً فراہم کریں۔ تنازعات والے علاقوں میں سیفٹی ایڈوائزرز کا تقرر کیا جائے جو کہ کسی بھی اسائنمنٹ یا رپورٹنگ کے لئے اجازت نامہ دیں، جوصحافی یا رپورٹرز نیوز کوریج کے دوران جاں بحق ہو جائیں ان کے خاندانوں کی کفالت کے لئے حکومت مالی مدد دے، میڈیا اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں سالانہ اضافہ کرے۔

    متعلقہ ریگولیٹری ادارے اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ہراساں کرنے اور شکایات کے ازالے کے لئے کمیٹیوں کی تشکیل دھمکیوں، ہراساں کرنے یابلیک میلنگ کرنے جیسی شکایات کے ازالے کے لئے کمیٹیا ں بنائی جائیں۔

    بعد ازاں بزرگ صحافی ضیاء الدین نے اپنے خطاب میں کہا کہ صحافی ضابطہ اخلاق کو رواج دینے کی کوشش کریں کیونکہ جب تک وہ خود نہیں چاہیں گے ان کے حالات بہتر نہیں ہو ں گے ۔انہوں نے کہا کہ صحافیوں کواپنے ضمیر اور جان کی حفاظت خود کرنی ہے۔

  • صحافیوں کی حفاظت کےلیے قانون سازی کی جارہی ہے، مریم اونگزیب

    صحافیوں کی حفاظت کےلیے قانون سازی کی جارہی ہے، مریم اونگزیب

    لاہور: وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ صحافیوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے موثر تربیتی پروگرام کا انعقاد کیا جائے گا اور صحافیوں کی حفاظت اور اُن کی ٹریننگ کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے۔

    لاہور پریس کلب میں میٹ دی پریس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر مملکت نے کہا کہ صحافیوں کی پیشہ ورانہ تربیت میری اولین ترجیح ہے، صحافیوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے موثر تربیتی پروگرام کا آغاز کیا جائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ صحافیوں کی سیکورٹی، ٹریننگ کے لیے قانون سازی کی جا رہی ہے جس کا ابتدائی مسودہ جلد تمام پریس کلبز اور میڈیا ہاؤسز میں بھجوایا جائے گا، اس کے تحت صحافیوں کی سیکورٹی کو بہتر بنایا جائے گا جبکہ انکی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کیلئے ٹریننگ کا انعقاد کیا جائے گا۔

    وزیر اطلاعات نے کہا کہ صحافیوں کے لیے سیفٹی اینڈ سیکیورٹی بل جلد لایا جائے گا جبکہ سرکاری اشتہارات کا طریقہ کارصاف شفاف بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، اس بل پر قانون سازی جلد مکمل کرلی جائے گی جس کے ثمرات صحافیوں تک پہنچنا شروع ہوجائیں گے۔

    اس موقع پر لاہور پریس کلب کے صدر محمد شہباز میاں، نائب صدر عبدالمجید ساجد، سیکرٹری شاداب ریاض، جوائنٹ سیکرٹری زاہد گوگی، ممبران گورننگ باڈی اسماعیل جھکڑ، جواد رضوی اورسینئر صحافیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

    پریس کلب کے صدر اور جنرل سیکریٹری نے اس امید کا اظہار کیا کہ موجودہ حالات میں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب صحافیوں کے مسائل کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں گے اور صحافی برادری بھی اپنے فرائض شناسی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔

    یاد رہے سیکورٹی مٹینگ کی بے بنیاد خبر لیک ہونے کے بعد سینٹر پرویز رشید کو وزارت سے ہٹا کر اُن کی جگہ مریم اورنگزیب کو وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات تعینات کیا گیا ہے۔

  • صحافیوں کے خلاف جرائم سے تحفظ کا عالمی دن، 10 سال میں 800 صحافی قتل

    صحافیوں کے خلاف جرائم سے تحفظ کا عالمی دن، 10 سال میں 800 صحافی قتل

    جنیوا: اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ گزشتہ 10 برس میں دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 800 سے زائد صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو انجام دیتے ہوئے قتل کردیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق 2013ء سے ہر سال کی طرح اس سال بھی 2 نومبر کو صحافیوں کے خلاف جرائم سے تحفظ کا عالمی دن منایا جارہا ہے، اس دن کے موقع پر اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 10 برس کے دوران 800 صحافیوں کو دنیا کے مختلف ممالک میں قتل کیا گیا ہے۔

    اعلامیے میں کہا گیاہے کہ مقتول صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں عوام تک معلومات پہچانے کے دوران نشانہ بنائے گئے جبکہ المیہ یہ ہے کہ گزشتہ دس برس میں ان میں سے کسی کے قاتل کو سزا نہیں دی گئی۔

    اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ جرائم میں ملوث افراد کو مستشنیٰ قرار دینے کے باعث معاشرے میں مزید جرائم پیدا ہوتے ہیں اور یہ اچھی سوسائٹی کو بہت بری طرح متاثر کرتے ہیں، ان کے اثرات سے نہ صرف عوام بلکہ صحافی بھی نشانہ بنتے ہیں۔

    صحافیوں کی عالمی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق 2014 کے دوران دنیا بھر میں 71 صحافی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے جاں بحق ہوئے جبکہ اسی عرصے کے دوران شام، فلسطین، عراق، لیبیا اور یوکرین میں 119 صحافیوں کو اغوا کیا گیا۔

    اسی طرح 2015 میں 110 صحافی سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ لکھنے کی پاداش میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

    یاد رہے کہ 2013 میں اقوام متحدہ کے 68 ویں اجلاس میں ایک قرارداد پیش کی گئی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ 2 نومبر کو صحافیوں پر مظالم میں ملوث افراد اور اُن کو مستشنیٰ قرار دینے کے حوالے سے عالمی دن کا نام دیا جائے، جس کے بعد سے یہ دن ہر سال 2 نومبر کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔

  • سعودیہ میں محصور پاکستانیوں کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں، پاکستانی سفیر

    سعودیہ میں محصور پاکستانیوں کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں، پاکستانی سفیر

    ریاض: پاکستانی سفیر منظور الحق نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے مختلف کیمپس اور حراستی مراکز میں غیرقانونی طور پر مقیم پاکستانی مزدوروں کی بڑی تعداد موجود ہے مگر وہاں انہیں‌ کسی قسم کے مسائل درپیش نہیں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی سفیر نے کہا کہ ’’سعودی عرب میں مختلف کیمپس موجود ہیں جہاں پاکستانیوں کی خاصی بڑی تعداد موجود ہے مگر روزانہ کی بنیاد پر تعداد میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے کیونکہ جن متاثرین کی واپسی کا انتظام ہوتا ہے انہیں روانہ کردیا جاتاہے‘‘۔

    پاکستانیوں کے مسائل اور فاقہ کشی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں پاکستانی سفیر نے کہا کہ ’’متاثرین کو کھانا ملنے یا نہ ملنے کے حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ میری اطلاعات کے مطابق کیمپس یا جیلوں میں کوئی مسائل نہیں، پاکستانی قیدیوں کے پاس موبائل ہیں اور وہ اپنی ویڈیوز بنا کر بھیجتے رہتے ہیں جس کا واضح مطلب ہے کہ وہاں قیدیوں کو کسی قسم کے مسائل نہیں ہیں‘‘۔

    پڑھیں: سعودی عرب کے حراستی مرکز میں ہزاروں پاکستانی محصور

    سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے قیدیوں کو سہولیات فراہم نہ کرنے کے سوال پر منظور الحق نے کہا کہ ‘‘سفارت خانے میں عملہ روزانہ کی بنیاد پر جاتا ہے اور متاثرین کے کاغذات کی جانچ پڑتال کرتا ہے اور اپنے طور پر تمام خدمات پیش کررہا ہے‘‘۔

    اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’سعودی عرب میں مقیم پاکستانی مزدوروں کی خاصی بڑی تعداد کے پاس دستاویزات موجود نہیں ہیں جو قانوناً جرم ہے تاہم سفارت خانے کی جانب سے کاوشیں جاری ہیں تاکہ ایسے افراد کو بھی وطن واپس بھیجا جاسکے‘‘۔

    متاثرین کے واپسی کے حوالے سے پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ ’’سیکڑوں لوگ پاکستان جاچکے ہیں تاہم بقیہ لوگوں کی واپسی کے لیے کوشش جاری ہے اور وہ بھی عید تک پاکستان پہنچ جائیں گے‘‘۔

    دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’’سعودیہ عرب میں پھنسے پاکستانیوں کی واپسی کے لیے حکومتی سطح پر کوشش جاری ہے، گزشتہ ہفتے 2 ہزار سے زائد پاکستانیوں کو وطن واپس لایا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’سعودیہ عرب کی جیلوں میں تاحال ہزاروں پاکستانی موجود ہیں تاہم اُن کی عیدالاضحیٰ سے قبل واپسی کی کوششیں جاری ہیں‘‘۔

    مزید پڑھیں:  سعودی عرب کی جیلوں میں قید ہزاروں پاکستانیوں کو واپس لایا جائے گا، دفتر خارجہ

    سعودی عرب میں موجود سنیئر صحافی لیاقت انجم نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’بیرونِ ممالک میں پاکستانیوں کے ساتھ یہ مسائل طویل عرصے سے پیش آرہے ہیں تاہم یہ سلمان اقبال اور اُن کے چینل اے آر وائی کا احسن قدم  ہے کہ وہ سعودی عرب میں پھنسے پاکستانیوں کی آواز بن گئے ہیں‘‘۔

    لیاقت انجم نے مزید کہا کہ ’’سی ای او اے آر وائی نیوز کی جانب سے اس مسئلے پر آواز بلند کرنے پر سعودی کیمپوں میں موجود متاثرین میں خوشی کے تاثرات دیکھنے میں آئے ہیں اور اُن لوگوں نے سلمان اقبال کا تہہ دل سے شکریہ بھی ادا کیا ہے‘‘۔

    لیاقت انجم نے اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ایک تجویز دیتے ہوئے کہاکہ ’’پاکستانی عوام بیرون ملک سفر سے قبل قانونی آگاہی حاصل کریں  کیونکہ یہاں جیلوں میں موجود افراد بھی قانونی شکنی کے باعث حراستی مراکز میں قید ہیں تاہم اگر پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے آواز بلند کی جائے تو چھوٹے مسائل میں پھنسے افراد کو فوری طور پر رہائی مل سکتی ہے کیونکہ سیکڑوں افراد معمولی جرمانے ادا نہ کرنے کے باعث قید کی سزا کاٹ رہے ہیں‘‘۔

  • فرانسی صحافی کا جہادی گروپ کے خلاف تہلکہ خیز انکشاف

    فرانسی صحافی کا جہادی گروپ کے خلاف تہلکہ خیز انکشاف

    پیرس: فرانسیسی صحافی نے انکشاف کیا ہے کہ گرفتار ہونے سے پہلے انہوں نے جہادی گروپ کی دراندازی کو موبائل کیمرے میں محفوظ کر رکھا ہے جس کی وہ ویڈیو جاری کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق فرانسیسی صحافی سید رمزی نے برطانوی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو انٹریو دیتے ہوئے بتایا کہ  یہ ویڈیو اُن تمام نئے آنے والے جہادیوں کے دماغ کو پلٹنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، انہوں نے بتایا کہ وہ یہ ویڈویوز کو پیر کی رات فرانسی ٹی وی پر شائع کردیں گے۔

    رمزی نے اس ویڈیو میں اپنے آپ کو بطور مسلمان بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مسلمان نوجوانوں کو یہ بتانے کی کوشش کریں گے 13  نومبر کو پیرس میں ہونے والے حملے  میں دہشت گردوں نے در اندازی کرتے ہوئے 130 کو قتل کر دیا تھا۔

    انہوں نے بتایا کہ اس ویڈیو کو بنانے کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ مایوس نوجوانوں کو  علم ہوجائے کہ دہشتگردی، خودکش بمبار کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تاکہ نوجوان اس طر ف مائل ہونا چھوڑ دیں۔

    بدقسمتی سے ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں مایوسیوں کے سبب نوجوان شدت پسندوں سے متاثر ہوکر انکے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں اور شدت پسند گروپ سے رابطہ کرتے ہیں۔

    شدت پسند گروپس کے کارندے بڑی تعداد میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر موجود ہیں ، ان کا کام یہ ہے کہ وہ نوجوانوں سے روابط بڑھائیں اور انہیں شدت پسندی کی طرف راغب کریں۔

    نوجوانوں کو  ایک ساتھ جمع کر کے گروپ کے سرغنہ ‘ امیر ’ سے ملاقات کرائی جاتی ہے ، غیر مسلم گھرانوں میں پیدا ہونے والے لڑکے ایسے افراد سے جلدی متاثر ہوتے ہیں ، جو ملاقات کے بعد عموماً  اپنا مذہب تبدیل کرلیتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ان کی پہلی ملاقات ترکی نژاد فرانسیسی شہری اسامہ نامی شخص سے ہوئی تھی، وہ صحافیوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔

    اس شخص کا ایک دوسرا نام ابو حمزہ بھی تھا اور اس کا کام تھا کہ خودکش دھماکوں کے لئے لوگوں کو تیار کرے۔

    اسامہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہمارے ساتھ کام کرو ایک یہی  راستہ ہے جو جنت کو جاتا ہے ، میرے بھائی تم ہمارے ساتھ چلو جنت میں خوبصورت خواتین  اور فرشتے جنت کے باہر کھڑے تمھارا انتظار کررہے ہیں۔

    یہ دنیا عارضی ہے اور وہ مستقل ٹھکانا ہے جہاں انعام کے طور پر تمھیں پروں والے گھوڑ ے اور بڑے بڑے محلات انعام میں دیے جائیں گے۔

    ایک اور ملاقات پیرس کے مضافاتی علاقے میں مسجد کے باہر ہوئی ، جس میں ایک شخض راکٹ لانچر اپنے ہمراہ لے کر آیا اور اس نے ایک جہاز جو بورج ائیرپورٹ کی طرف جارہا تھا اس کی نشاندہی کرتے ہوئے بولا کہ تم اس جہاز کو آسانی سے گرا سکتے ہو، تم یہ آسانی سے حاصل کرسکتے ہو اس سے تمھارا نام یاد رکھا جائے گا۔

    اس نے مزید بتایا کہ گروپ کے کچھ ممبران نے شام پہنچنے کی بھی کوشش کی تھی ، مگر ترکی حکومت کی جانب سے انہیں گرفتار کرکے فرانس کی پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا ، ان تمام لوگوں نے 5 ماہ کی سزا کاٹی اور رہا ہوگئے ،اُس نے کہا کہ ہم آرمی کو ضرور نشانہ بنائیں گے۔

    ہم اُن صحافیوں کو بھی ضرور نشانہ بنائیں گے جنہوں نے اپنی صحافت کو اسلام کے خلاف استعمال کیاہے ۔ اس کا واضح ثبوت ہے کہ ہمارے چار لوگوں نے چارلی ہیبدو کے دفتر پر حملہ کیا تھا جس میں 12 سے زاہد افراد ہلاک ہوئے۔

    سیکورٹی اداروں نے ہمارے کئی لڑکے گرفتار کئے ہوئے ہیں ، صحافی اگر ہمارے لڑکوں کی رہائی میں مدد نہیں کریں گے تو ہم ان کو انتقام کا نشانہ ضرور بنائیں گے۔

    آخر میں سید رمزی نے کہا کہ اب میں اس دراندازی پر سے پردہ ضرور چاک کروں گا ۔

  • سنی لیون نے غیر اخلاقی سوال پوچھنے پر صحافی کی پٹائی کردی

    سنی لیون نے غیر اخلاقی سوال پوچھنے پر صحافی کی پٹائی کردی

    ممبئی: بالی ووڈاداکارہ سنی لیون نے گجرات میں صورت کے علاقے میں ایک ٹی وی چینل کے رپورٹرکی طرف سے غیرمناسب سوال پوچھے جانے پر اداکارہ نے رپورٹرکوتھپڑ ماردیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق سنی لیون بھارتی ریاست گجرات کے شہر سورت میں ہولی کے حوالے سے ایک تقریب ’ہولی ود سنی لیون‘ کے سلسلے میں موجود تھیں، اپنی پرفارمنس کے بعد ہوٹل کی لابی میں انٹرویوز دے رہی تھیں کہ ایک صحافی کے غیر اخلاقی سوال پوچھنے پر سنی لیون غصے میں آ گئیں اور اس صحافی کے منہ پر تھپڑ رسید کردیا۔

    بعدازاں سنی لیون نے پروگرام انتظامیہ سے کہا کہ وہ اسی صورت میں پرفارم کریں گی جب اس میں صحافی شریک نہ ہوں، مطالبہ پورا ہونے کے بعد اداکارہ نے کچھ دیر تک اسٹیج پر پرفارم کیا۔

    دوسری جانب سنی لیون کے شوہر کا کہنا تھا کہ رپورٹر کے سوال پر سنی لیون نے فوری طور پر جواب دیا اس لئے ہم پولیس کے پاس مقدمہ درج نہیں کرا رہے، جب کہ ایونٹ منعقد کرانے والے طالبعلم تھے اس لئے ہم نہیں چاہتے کہ ان کا کیرئیر تباہ ہو۔

  • سال 2015 : دنیا بھر میں‌110 صحافیوں‌ کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا ، رپورٹ

    سال 2015 : دنیا بھر میں‌110 صحافیوں‌ کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا ، رپورٹ

    نیویارک: آزادی صحافت کے لیے کام کرنے والی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے منگل کو کہا ہے کہ 2015 میں دنیا بھر میں 110 صحافیوں کو ہلاک کیا گیا۔

    جاں بحق ہونے والے صحافیوں میں سے کم از کم 67 کو ان کے کام کی وجہ سے ہلاک کیا گیا جبکہ دیگر کی ہلاکت کے محرکات ابھی واضح نہیں۔

    تنظیم کا کہنا ہے کہ 2005 سے اب تک کل 787 صحافیوں کو ان کے کام کے باعث قتل کیا جا چکا ہے جن میں 2015 میں ہلاک ہونے والے 67 بھی شامل ہیں۔

    تنظیم کا کہنا ہے کہ 2015 میں ہلاک ہونے والے دیگر 43 صحافیوں کے قتل کے محرکات اور حالات کا واضح تعین نہیں کیا جا سکا۔ 2015 میں سات سیٹیزن جرنلسٹ اور صحافتی شعبے سے تعلق رکھنے والے سات دیگر افراد بھی ہلاک ہوئے۔

    رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے ایک بیان میں کہا کہ یہ تشویشناک صورتحال میڈیا اہلکاروں کی حفاظت کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی ناکامی کی نشاندہی کرتی ہے۔

    تنظیم کے مطابق 2015 میں فرانس کا شمار صحافیوں کے لیے مہلک ترین ممالک میں ہوا۔ اس فہرست میں شام اور عراق کے بعد فرانس کا تیسرا نمبر تھا جہاں جنوری میں ’شارلی ایبڈو‘ میگزین پر حملے میں متعدد صحافی ہلاک ہوئے۔

    جنوبی ایشیا میں بھارت کو صحافیوں کے لیے مہلک ترین ملک قرار دیا گیا جہاں نو صحافی ہلاک ہوئے جن میں سے پانچ کو ان کے کام کی وجہ سے قتل کیا گیا جبکہ چار کی ہلاکت کی وجوہات واضح نہیں۔

    تنظیم کے مطابق پاکستان میں بھی دو صحافیوں کو قتل کیا گیا جن میں جیو ٹی وی سے تعلق رکھنے والے آفتاب عالمی کو ستمبر میں جبکہ روزنامہ امت اور نئی بات کے لیے کام کرنے والے محمد زمان محسود کو نومبر میں قتل کیا گیا۔

    تنظیم کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال صحافیوں کی دو تہائی اموات جنگ زدہ علاقوں میں ہوئیں مگر اس سال دو تہائی اموات پر امن ممالک میں ہوئیں۔

    رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے کہا ہے کہ صحافیوں کی حفاظت کے لیے عالمی قانون میں خصوصی طریقہ کار وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے مطالبہ کیا کہ وہ بغیر تاخیر کے صحافیوں کی حفاظت کے لیے اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کریں۔

    تنظیم کے مطابق 2015 میں صحافیوں کے لیے ایشیا میں سب سے زیادہ خطرناک ملک بھارت رہا ۔

    فرانس میں اس سال آٹھ صحافیوں کو قتل کیا گیا، رپورٹ کے مطابق رواں سال 54 صحافی یرغمال بنائے گئے جبکہ 22 مصری صحافیوں سمیت 153 صحافی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں ۔

  • ریحام خان کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتا ، عمران خان

    ریحام خان کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتا ، عمران خان

    اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سابقہ اہلیہ کی بے پناہ عزت کرتے ہیں اوران کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتے۔

    واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور ان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے تقریباً 10 ماہ شادی کے بندھن میں بندھے رہنے کے بعد گزشتہ دنوں باہمی رضا مندی سے علیحدگی اختیار کی ہے۔

    عمران خان نے صحافی سے بھی معذرت کی جسے دو روز قبل انہوں نے ریحام خان سے متعلق پوچھے گئے سوال پرانتہائی توہین آمیز رویے کا اظہارکیا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ میں صحافیوں کی بہت عزت کرتا ہوں تاہم ریحام کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتا، صحافی کے اچانک سوال پرغصہ آگیا تھا۔

    تحریک انصاف کے سربراہ کایہ بھی کہنا تھا کہ کسی بھی گھر میں طلاق موت کی طرح کا سانحہ ہوتی ہے اسی سبب صحافی کے ساتھ ایسے رویے کا اظہار کرگیا۔

    عمران خان نے سیاسی معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں 1970 کے بعد سے شفاف انتخابات نہیں ہوئے، صاف وشفاف الیکشن کرانا ہی اصلی جمہوریت ہے۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں میٹروز بن رہی ہیں لیکن عوام کو پینے کے لئے صاف پانی نہیں مل رہا ہے۔

    2013تحریک انصاف کے سربراہ نے ایک بار پھراپنا موقف بھی دہرایا کہ 2013 کاالیکشن ملک کا سب سے زیادہ دھاندلی زدہ الیکشن تھا۔

  • لاہور کے مقامی اخبار کی رپورٹر جعلساز نکلی

    لاہور کے مقامی اخبار کی رپورٹر جعلساز نکلی

    لاہور : مقامی اخبار کی رپورٹر جعلساز نکلی، جعلی عائشہ ممتاز بن کر ہوٹل پر مارا چھاپہ جہاں وہ دھرلی گئی۔

    لاہور کے علاقے نواں کوٹ میں مقامی اخبار جدت کی رپورٹر کے جدید انداز کے چھاپے کے خود ہی پھنس گئیں، فلک نامی خاتون نے دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جعلی ڈائریکٹر پنجاب فوڈ اتھارٹی عائشہ ممتاز بن کر ہوٹل پر چھاپہ مارا اور دھرلی گئی۔

    فلک ناز نامی جعل ساز نے انکشاف کیا کہ ہوٹل سیل ہونے کے باوجود کیسے کھل جاتا ہے جبکہ پولیس کا کہنا ہے یہ پورا گروہ ہے جو جعلی عائشہ ممتاز بن کر کارروائیاں کرتا ہے۔

    دوسری جانب فلک ناز نے پولیس اور ہوٹل مالک کے الزامات مسترد کر دیئے ۔