Tag: Justice Babar Sattar

  • ادارے بنانے میں وقت لگتا ہے تباہ کرنے میں نہیں، جسٹس بابر ستار کا خط

    ادارے بنانے میں وقت لگتا ہے تباہ کرنے میں نہیں، جسٹس بابر ستار کا خط

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے فل کورٹ بینچ کی میٹنگ سے پہلے ججوں کے اختلافات کھل کر سامنے آگئے، جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کی فل کورٹ میٹنگ سے پہلے جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے نام خط لکھ دیا۔

    چار صفحات پر مشتمل خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ کیا آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کررہے ہیں؟

    کیا ججز اس بات کا یقین کرتے ہیں کہ شہری اپنے بنیادی حقوق کا انہیں محافظ سمجھتے ہیں؟ کیا کبھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضلعی عدلیہ کو آزاد ادارہ بنانے کی کوشش کی؟

    جسٹس بابر ستار کا اپنے خط میں کہنا ہے کہ روسٹر کی تیاری اور کیسز فکس کرنے میں شفافیت کی کمی ہے، روزانہ اپنے فیصلوں میں افسران کو کہتے ہیں کہ بادشاہ نہیں اور نہ ہی اختیارات بغیر حدود و قیود ہیں۔

    کیسز فکس کرتے ہوئے سینئر ججز کو نظر انداز کرکے ٹرانسفر اور ایڈیشنل ججز کو کیسز بھیجے جا رہے ہیں، انتظامی اختیارات میں کیا ججز و چیف جسٹس کو یاد نہیں رکھنا چاہیے وہ بادشاہ نہیں پبلک آفیشلز ہیں۔

    خط میں کہا گیا ہے کہ آپ کا آفس کچھ کیسز میں کاز لسٹ بھی جاری کرنے سے انکاری ہے، ایسے اقدامات سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہورہی ہے۔

    جسٹس بابرستار نے لکھا کہ روسٹر جاری کرکے مجھ سمیت سنگل بنچز سے محروم کرنا بھی ہم نے دیکھا ہے، سینئر ججز کو انتظامی کمیٹی سے رولز کی خلاف ورزی کرکے الگ کیا گیا۔ انتظامی کمیٹی میں ایڈیشنل اور ٹرانسفر ججز کو شامل کیا گیا،۔

    متن میں لکھا گیا ہے کہ آپ نے ججز کے بیرون ملک جانے کیلئے این اوسی لینا لازمی قرار دیا ہے گویا ججز کو ای سی ایل پر ڈالا گیا۔

    خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ادارے بنانے میں کئی دہائیاں لگتی ہیں لیکن انہیں تباہ کرنے میں کچھ وقت بھی نہیں لگتاْ۔

    واضح رہے کہ جسٹس بابر ستار کی جانب سے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط کی کاپیاں تمام ججز اور رجسٹرار کو بھی بھجوادی گئی ہیں۔

  • جسٹس بابر ستار کے خلاف بے بنیاد سوشل میڈیا مہم پر ہائیکورٹ کا اعلامیہ جاری

    جسٹس بابر ستار کے خلاف بے بنیاد سوشل میڈیا مہم پر ہائیکورٹ کا اعلامیہ جاری

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کی امریکی شہریت سے متعلق سوشل میڈیا مہم کی تردید کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کے خلاف بے بنیاد سوشل میڈیا مہم پر اعلامیہ جاری کرتے ہوئے امریکی شہریت سے متعلق سوشل میڈیا مہم کی تردید کردی۔

    اعلامیے کے مطابق جسٹس بابر ستار کے پاس پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت نہیں ہے، سوشل میڈیا پر ان کے خلاف ہتک آمیز اور بے بنیاد مہم چلائی جا رہی ہے، ان کی خفیہ معلومات پوسٹ اور ری پوسٹ کی جا رہی ہیں، اُنکی اہلیہ اور بچوں کے سفری دستاویزات سوشل میڈیا پر پوسٹ ہے۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ کا اس وقت کے چیف جسٹس کو علم تھا، جسٹس بابر ستار کے جج بننے کے بعد ان کے بچوں نے پاکستانی سکونت اختیار کی، ان کی والدہ 1992 سے اسکول چلا رہی ہیں، اسکول نہ جسٹس بابر ستار کی ملکیت ہے نہ اُس کے انتظامی امور میں اُنکا کردار ہے۔

    ہائیکورٹ نے جاری  اعلامیے میں کہا کہ جسٹس بابر ستار نے ایکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون جبکہ  ہاورڈ لا اسکول سے گریجویشن کی، غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل فرد کی وجہ سے جسٹس بابر ستار کو امریکہ کا مستقل ریڈیڈنسی کارڈ ملا تھا لیکن 2005 میں جسٹس بابر ستار امریکی نوکری چھوڑ کر پاکستان آگئے اور تب سے پاکستان میں کام کر رہے ہیں۔

    عدالت کا کہنا ہے کہ جسٹس بابر ستار کے تمام اثاثے ان کو ورثت میں ملے یا انہوں نے اپنی وکالت کے دوران بنائے، جسٹس بابر ستار کسی بھی کاروبار کے انتظامی امور میں شامل نہیں، انہوں  نے بطور جج ایسا کوئی کیس نہیں سنا جس میں اُنکی فیملی کا کو مفاد ہو، اسلام آباد ہائیکورٹ بطور ادارہ عوامی اختیار کا استعمال کر رہی ہے اور عوام کو جوابدہ ہے۔

     اعلامیے کے مطابق جسٹس بابر ستار کے جج بننے کے بعد ان کے بچوں نے پاکستانی سکونت اختیار کی، ان کی پاکستان اور امریکہ میں جائیدادیں ہیں، جسٹس بابر ستار نے گرین کارڈ سے متعلق اس وقت کے چیف جسٹس کو آگاہ کیا تھا، گرین کارڈ سے ویزہ کے بغیر امریکہ کا سفر کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔

    اسلام آباد کی جاب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق جسٹس بابر ستار نے اثاثے ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر کر رکھے ہیں، ان کی جج تعیناتی سے پہلے جوڈیشل کمیشن نے اُن کی اسکروٹنی کی تھی۔