Tag: Justice Mansoor Ali Shah

  • چیف جسٹس پاکستان کا جسٹس منصور کو بھیجا گیا جوابی خط پہلی بار منظر عام پر

    چیف جسٹس پاکستان کا جسٹس منصور کو بھیجا گیا جوابی خط پہلی بار منظر عام پر

    اسلام آباد(14 اگست 2025): چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کا جسٹس منصور علی شاہ کو بھیجا گیا جوابی خط منظر عام پر آگیا۔

    تفصیلات کے مطابق ججز کمیٹیوں کے 31 اکتوبر 2024 سے 29 مئی 2025 تک کے اجلاس کے منٹس پبلک کردیے گئے ہیں، اس کے علاوہ چیف جسٹس آف پاکستان کا جسٹس منصور کو بھیجا گیا جوابی خط بھی منظر عام پر آگیا، جوابی خط جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے 31 اکتوبر کے اجلاس پر لکھا گیا۔

    دونوں ججوں نے 26 ویں ترمیم فل کورٹ کے سامنے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے کہا آرٹیکل 184 شق تھری کے تحت فل کورٹ مقرر کریں۔

    چیف جسٹس کے خط میں کہا گیا کیا ایسا چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد ہوسکتا ہے؟ ججوں کی تشویش سمجھتا ہوں، جو 26 ویں ترمیم کو چیلنج کرنے والی آئینی درخواستوں کو مقرر کرنے پر ہے، ذاتی طور پر سپریم کورٹ کے تیرہ ججوں سے رائے لی۔

    چیف جسٹس کے خط کے متن کے مطابق سپریم کورٹ کے نو ججوں کا مؤقف تھا معاملہ آئینی بینچ کے سامنے مقرر کیا جائے جب ججوں کی رائے آچکی تو حقائق جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو بتادیے گئے، تیرہ ججوں کے نقطہ نظر سے بھی آگاہ کر دیا گیا۔

    خط میں کہا گیا کہ بطور چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ اجلاس بلانا مناسب نہیں سمجھا،  ایسا کرنے سے ججوں کے درمیان انتہائی ضروری باہمی روابط کی روح مجروح ہوتی، سپریم کورٹ عوامی تنقید کا نشانہ بھی بن سکتی ہے، جیسا کہ افسوس کے ساتھ ماضی قریب میں ہوتا رہا ہے۔

    اس کے علاوہ 26 نومبر  2024 کے ججز ریگولر کمیٹی اجلاس اور ٹیکس کیس سے متعلق ججز کمیٹی کے میٹنگ منٹس جاری کردیئے گئے، 17 جنوری 2025کے ریگولر ججز کمیٹی اجلاس میں جسٹس امین الدین، رجسٹرار شریک ہوئے، چیف جسٹس کی سربراہی میں اجلاس میں پرائیویٹ سیکرٹری کے ذریعے جسٹس منصور علی شاہ کو آگاہ کیا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے آگاہ کیا کہ وہ دستیاب نہیں اور اپنی رائے 13 اور 16 جنوری کو دے چکے، یہ رائے جسٹس منصور نے ٹیکس کیس میں آئینی تشریح کوآئینی بینچ کے بجائے ریگولر بینچ بھی سننے پر دی تھی۔

    چیف جسٹس نے کہا ٹیکس مقدمات پر سماعت 13 جنوری کو ریگولر بینچ میں ہوئی تھی جو 27 جنوری تک ملتوی کی گئی، اور یہ حکم ویب ماسٹر کو موصول ہوا تھا، اسی تناظر میں ویب ماسٹر کو دوسرا آرڈر موصول ہوا جس میں کہا گیا اگلی سماعت 16جنوری کو ہوگی۔

    اجلاس میں دو ممبران کی اکثریت سے فیصلہ کیا گیا کہ کیس ریگولر بینچ کے بجائے آئینی بینچ میں منتقل کیا جاتا ہے۔

  • جسٹس منصور کا جوڈیشل کمیشن کو ایک اور خط، ججز تعیناتی میں انٹیلی جنس ایجنسی سے رپورٹ لینے کی مخالفت

    جسٹس منصور کا جوڈیشل کمیشن کو ایک اور خط، ججز تعیناتی میں انٹیلی جنس ایجنسی سے رپورٹ لینے کی مخالفت

    اسلام آباد: جسٹس منصور علی شاہ نے جوڈیشل کمیشن کو ایک اور خط لکھ کر ججز تعیناتی میں انٹیلی جنس ایجنسی سے رپورٹ لینے کی مخالفت کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے جوڈیشل کمیشن کو ایک اور خط لکھ دیا ہے، جس میں انھوں نے ججوں کی تعیناتی سے متعلق رولز پر رائے بھی دے دی ہے۔

    سیکریٹری جوڈیشل کمیشن کو لکھے گئے خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے ججوں کی تعیناتی میں انٹیلی جنس ایجنسی سے رپورٹ لینے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسی کو کردار دیا گیا تو اس کا غلط استعمال ہو سکتا ہے، جوڈیشل کمیشن میں پہلے ہی اکثریت ایگزیکٹو کی ہے۔

    انھوں نے کہا 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق اپنی پوزیشن واضح کر چکا ہوں، پہلے فل کورٹ بنا کر چھبیس ویں ترمیم کا جائزہ لینا چاہیے۔

    جسٹس منصورعلی شاہ نے تجویز پیش کی کہ آئینی بنچ کے لیے ججوں کی تعیناتی اور تعداد کا مکینزم ہونا چاہیے، آئینی بنچ میں ججز کی شمولیت کا پیمانہ طے ہونا چاہیے، کس جج نے آئین کی تشریح والے کتنے فیصلے لکھے یہ ایک پیمانہ ہو سکتا ہے۔

    انھوں نے لکھا کہ کمیشن بغیر پیمانہ طے کیے سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں آئینی بنچ تشکیل دے چکا ہے، رولز پر میری رائے اس ترمیم اور کمیشن کی آئینی حیثیت طے ہونے سے مشروط ہے، جج آئین کی حفاظت اور دفاع کرنے کا حلف لیتا ہے، ججز تعیناتی کے رولز بھی اسی حلف کے عکاس ہونے چاہئیں۔

  • چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اپنے مالی اثاثے ازخود ظاہر کردیے

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اپنے مالی اثاثے ازخود ظاہر کردیے

    لاہور: چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اپنے اثاثوں کی تفصیلات از خود ویب سائٹ پر شائع کرکے تاریخ رقم کردی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے مالی اثاثے ویب سائٹ پر ظاہر کردیے۔

    اے آر وائی نیوز کے نمائندہ لاہور عابد خان کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ 2 کروڑ 94 لاکھ،27 ہزار روپے کے مالک ہیں، ان کے اثاثوں میں سال بھر میں 1لاکھ 4ہزار 24روپے کا اضافہ ہوا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے ایک سال میں 16لاکھ 43ہزار روپے ٹیکس ادا کیا، وہ 2گاڑیوں کے مالک ہیں، گھر میں 2 لاکھ کا فرنیچر اور 5لاکھ 50 ہزار روپے کی جیولری ہے جب کہ انہیں رشتے داروں کے 22 لاکھ 96 ہزار روپے ادا کرنے ہیں۔

    دستاویز کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ کو بینک کے 3لاکھ روپے بھی ادا کرنے ہیں۔

    یہ اثاثے ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر شائع کیے گئے ہیں اور عدالتی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی چیف جسٹس نے اپنے مالی اثاثے از خود عوام کے سامنے ظاہر کردیے ہیں۔