Tag: Justice Qazi Faiz Issa

  • جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی نظرثانی خارج کرنے والے 4 ججز کا اختلافی نوٹ جاری

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی نظرثانی خارج کرنے والے 4 ججز کا اختلافی نوٹ جاری

    اسلام آباد : جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی نظرثانی خارج کرنے والے سپریم کورٹ کے 4 ججز کا اختلافی نوٹ جاری کردیا گیا، اختلاف کرنے والے ججزمیں جسٹس سجادعلی شاہ،جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمدامین شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی نظرثانی خارج کرنے والے 4 ججز کا اختلافی نوٹ جاری کردیا گیا ، سوصفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ چیف جسٹس عمرعطابندیال نے تحریرکیا۔

    اختلاف کرنے والے ججزمیں جسٹس سجادعلی شاہ،جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمدامین شامل ہیں، اقلیتی فیصلےمیں قرآنی آیات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔

    اقلیتی فیصلے میں کہا گیا کہ ایک جج بھی اپنی غلطی اورکوتاہی کیلئے قابل احتساب ہوتاہے، سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس قاضی فائز کیخلاف شکایت آئی۔

    اختلافی نوٹ کے مطابق مواد پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کی جانب سے وضاحت دینا لازمی ہے، ایک جج اورعدلیہ کی ساکھ بچانے کیلئے مواد پر وضاحت دینا نہایت ضروری ہے، آئین کے آرٹیکل184/3کا اطلاق نہ ہونے کی دلیل میں بھی وزن نہیں۔

    فیصلے میں کہا ہے کہ جسٹس فائزعیسیٰ اپنے اہل وعیال کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کے پابند ہیں، بھارت اور کینیڈا میں بھی ججوں کو انکوائری کے بعدمستعفی ہونا پڑا ہے، ایک جج اورسرکاری ملازم کے احتساب کے طریقہ کارمیں ایک ہی فرق ہے۔

    اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ شکایت پر انکوائری کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل کا فورم موجودہے، جب یہ جائیدادیں خریدی گئیں جسٹس فائز عیسیٰ بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے، بیگم سیریناعیسیٰ کےبینک کی جانب سے ایف بی آر کو دستاویزات موصول ہوئیں۔

    اقلیتی فیصلے کے مطابق جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا اپنی بیگم کے فارن کرنسی اکاؤنٹس کے ساتھ تعلق تھا، ایف بی آرکی جانب سے ان دستاویزات کا جائزہ لینانہایت ضروری ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ اکثریتی ججوں نےایک بے ترتیب صورتحال پیدا کردی ہے، اکثریتی فیصلے سے عدالت کے طریقہ کار پر قانونی نزاکتوں کے پردے ڈال دیے گئے، تاثرپیداہوسکتاہےعدالت نے اپنے ایک شخص کے لئے مختلف معیار اپنایا، ایک جج بلند ترین مقام پر فائز ہونے کی وجہ سےطبقہ اشرافیہ کاحصہ ہوتاہے۔

    جسٹس منیب اختر کے اختلافی فیصلے میں اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ 29جنوری کودیاگیافیصلہ دس میں سے4ججزکاہے، جسٹس یحیی آفریدی نےاضافی نوٹ دیا۔

    جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ جسٹس(ر)منظورملک تفصیلی فیصلے پر کیسے دستخط کرسکتےہیں، باعث تشویش ہےجسٹس منظورملک نے فیصلے سےاتفاق کیاوہ کئی ماہ پہلےریٹائرہوچکے۔

    جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قانون کےمطابق جسٹس منظورملک تفصیلی وجوہات پردستخط نہیں کرسکتےتھے، جسٹس(ر)منظورملک کے دستخط شدہ فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

    اضافی نوٹ میں کہاپٹشنرجج کےخلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی تحقیقات کرسکتی ہے، جسٹس فائزعیسیٰ نظرثانی کیس میں کوئی اکثریتی رائے موجودنہیں، سپریم جوڈیشل کونسل یاکوئی بھی فورم ایف بی آررپورٹ پرتحقیقات کرسکتاہے۔

    جسٹس قاضی امین نے جسٹس منیب اخترکےاضافی نوٹ سےاتفاق کیا ہے۔

  • سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے تین سوال پوچھ لیے

    سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے تین سوال پوچھ لیے

    اسلام آباد:عدالت عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس میں معزز جج سے تین سوالات کے جواب طلب کرلئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی بینچ نے سماعت کی، سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے تین سوال پوچھ لیے۔

    عدالت عظمیٰ کی جانب سے پہلا سوال کیا گیا کہ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اہلیہ کے بینک اکاؤنٹ سے لاتعلق ہیں؟

    دوسرا سوال: بیرون ملک جائیداد کیلئے بھیجی گئی رقم سےکیاجسٹس قاضی فائز کا قانونی تعلق نہیں؟۔

    تیسرا سوال: کیاجائیداد کی خریداری کیلئےجوا خراجات کئے ان کا جسٹس قاضی فائز سےتعلق نہیں؟۔

    اس سے قبل جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے اپنے دلائل مکمل کئے، سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کو دئیے گئے دلائل میں سرینا عیسٰی کا کہنا تھا کہ عمران خان کے لیے جو معیار رکھا گیا وہ میرے لیے نہیں رکھا گیا، عمران خان سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں میں نہیں، عمران خان آج وزیراعظم ہیں اور میں ایک عام شہری

    سرینا عیسیٰ نے کہا کہ عدالت نے میرے خلاف ازخود نوٹس لیکر کیس ایف بی آر کو بھیجا، کسی انفرادی شخص کے خلاف ازخود نوٹس نہیں لیا سکتا، ازخود نوٹس عوامی مفاد،بنیادی حقوق کے نفاذ کیلئےہوتا ہے، میرا کیس ایف بی آر کو بھجوانا عوامی اہمیت کامعاملہ نہیں تھا،میرے خلاف دیا گیا حکم واپس لیا جائے۔

    جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ آپ کو باقاعدہ سماعت کا موقع فراہم کیا گیاتھا، عدالت بہت سےکیسز میں باضابطہ فریق بنےبغیر بھی سنتی ہے، آپ 18 جون 2019 کا اپنا بیان کھولیں،جس پر سرینا عیسیٰ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ مجھے کوئی باضابطہ نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا۔

    سرینا عیسیٰ کی جانب سے جواب نہ دینے پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ میں جج ہوں آپ میرے سوال کا جواب دینےکی پابند ہیں، کیونکہ عدالتی کارروائی آپ نے نہیں ججز نےچلانی ہے۔

    اس موقع پر بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطابندیال نے سرینا عیسٰی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا بنیادی نقطہ ہےکہ سماعت کا موقع نہیں ملا، عدالت میں دیا گیا بیان نہیں پڑھیں گی تومنفی تاثرجائیگا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر عدالت سمجھتی ہے باضابطہ سماعت ہوئی تو ٹھیک ہے، میری اہلیہ اپنے بیان سے نہیں مکر رہی، عدالت سریناعیسیٰ کی بات سےمتفق نہیں تودرخواست خارج کردے، کل آپکی بیویاں بھی یہاں کھڑی ہوسکتی ہیں۔

    جسٹس قاضی عیسٰی فائز کے بیان پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کسی سائل سے قانون کا لیکچر نہیں لے سکتے اور نہ ہی ہم جذبات پر فیصلہ نہیں کر سکتے، بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل صبح تک ملتوی کردی ۔